اہل باطن کا تصوف (باب اول)

اہل باطن کا تصوف حکمت نمبر13

اہل باطن کا تصوف کے عنوان سے  باب  اول میں  حکمت نمبر13 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

خفیہ عبادتیں

اور اہل باطن کا تصوف: اللہ تعالیٰ کے شہود میں مخلوق سے غائب ہو جانا ہے اور اسی کو حضرت حاتمی نے غیب کے پانی سے تعبیر کی ہے۔ لہذا جو شخص بھی اہل باطن کے تصوف تک نہیں پہنچا۔ وہ اہل تیمم سے ہے پس اگر وہ اعمال ظاہری نماز و روزہ وغیرہ میں مشغول ہے، تو وہ مٹی سے تیمم کرنے والے کے مشابہ ہے۔ کیونکہ جس طرح مٹی کا نشان اعضاء پر نمایاں ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ اعمال بھی ظاہر میں نمایاں ہوتے ہیں۔ اور اگر وہ پوشیدہ عبادتوں زہد و ورع وغیر ہ میں مشغول ہے، تو وہ پھر سے تیمم کرنے والے کے مثل ہے۔ کیونکہ جس طرح مٹی کا  نشان جسم پر نمایاں نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح یہ خفیہ عبادتیں بھی اکثر نمایاں نہیں ہوتی ہیں۔

اور چونکہ حضرت حاتمی نے تم کو ماسوی اللہ سے غائب ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے تمہاری   طرف سے ان کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ تم واسطہ ہی سے منکر ہو جاؤ۔ اور حکمت کو چھوڑ بیٹھو۔ پس تم بے دینی اور کفر میں مبتلا ہو جاؤ ۔ اس لئے فرمایا: امام بنا کر آگے کرو ۔ اور امام سے مراد حضرت نبی کریم ﷺ ہیں۔ اور وہ شخص ہے جو حضرت نبی کریم ﷺ کا قدم بقدم متبع ہو۔ اور شریعت اور حقیقت کا جامع ہو۔ پس ما سوی سے تائب ہونے کی حالت میں شریعت محمدیہ ﷺ کی اتباع کا حکم دیا ہے اور حکمت سے مراد شریعت ہے۔ لہذا تمہارا ظاہر سلوک ، اور تمہارا باطن جذب ہو۔ تمہارا ظا ہر شریعت کے ساتھ، اور تمہارا باطن قدرت کے ساتھ ہو۔ اور ضروری ہے کہ تم کسی ایسے کامل امام کی پیروی کرو جس نے کسی کامل شیخ کے ہاتھ پر بیعت کر کے طریقت کا سلوک مکمل کیا ہو ۔ تا کہ وہ تمہیں شریعت پر عمل کی کیفیت کی تعلیم دے۔ اور حقیقت کے مقام تک تمہاری   رہنمائی کرے۔ ور نہ تم ہمیشہ بیمار رہو گے ۔ اور بیماروں ہی کی طہارت کو ہمیشہ استعمال کرتے رہو گے۔

حضرت قرانی رضی اللہ عنہ کے کلام میں غور کرو ۔ جب انہوں نے اپنے آپ کو تربیت کے لئے اپنے شیخ کے سپرد کیا تو فرمایا: میں نے بہت زمانے تک مٹی سے تیمم کیا۔ اور اب مجھے پانی ملا ہے۔ اس لئے کہ تم غیب کا پانی نہیں پاؤ گے۔ نہ اس کے استعمال کی تم کو قدرت ہو گی۔ جب تک تم کسی ایسے بزرگ کی صحبت نہ اختیار کرو جس کے پاس یہ غیب کا پانی ہو ۔ اس نے اس کو پیا ہو ۔ اور اس سے وہ سکر کی حالت میں مست ہو گیا ہو۔ اور پھر اس سکر سے ہوشیار ہوا ہو ۔ اور اس نے جذب سے راہ سلوک طے کیا ہو۔ پس تم ان کو اختیار اور ارادے کی باگ ڈور سپر د کر دو ۔ اور اپنی ہر شے کو ان کا مطیع و فرمان بردار کردو ۔ اور اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خصوصیت اور ان کے اسرار سے تم کو آگاہ فرمایا۔ تو تمہاری   روح اور تمہارا سر آگے بڑھا۔ اور تعظیم کے ساتھ ان کے سامنے حاضر ہوا۔ لہذا اس حال میں کہ تم آگے بڑھ کر ان کے سامنے ہو ئے کہ تم ان کو آگے بڑھا کر اپنا امام بناؤ۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کی طرف تم کو دعوت دیتے ہیں۔ اور اسی طرح حضرت نبی کریم ﷺ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تھے اور لوگ ان کے سامنے سے بھاگتے تھے لیکن جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا۔ تو انہوں نے حضرت   کو اپنا امام بنایا۔ حضرت حاتمی کے اس قول    تو جس کے سامنے ہے    کا یہی مفہوم ہے۔ اور ان کا قول    ظہر کی نماز عصر کے پہلے پڑھوا اور یہ بعض نسخوں میں ہے۔ یعنی شریعت کا ظہر حقیقت کے عصر کے ساتھ جمع کرو ۔ اور اکثر نسخوں میں ہے:۔ فجر کی نماز عصر کے پہلے پڑھو۔ یعنی کامل فنا ہونے کے بعد بقاء کی طرف لوٹ جاؤ۔ یا جذب کے بعد سلوک کی طرف لوٹ جاؤ۔ اس لئے کہ اکثر مرید پہلے سلوک اختیار کرتے ہیں پھر ان کے اندر جذب پیدا ہوتا ہے۔ پس ان کی ابتداء سلوک ہے اور ان کی انتہا جذب ہے۔ جیسا کہ دن کی ابتداء فجر ہے۔ اور اس کی انتہا ء عصر ہے۔ یعنی نماز فجر کی طرف واپس ہو ۔ جو دن کی ابتداء میں تھا اس کو دن کی انتہا ءمیں پڑھو۔ یعنی سلوک کی طرف لوٹو ۔ جو تمہاری  ابتدا تھی اس کو اپنی انتہا ءمیں اختیار کرو۔ اور عارفین کے اس قول   کمال کی انتہاء شریعتوں کی ابتداء ہے   کا مفہوم یہی ہے۔ نیز عارفین نے فرمایا ہے:۔ سالمین کی انتہا مجذوبین کی ابتدا ہے۔ اور مجذو بین کی انتہا سالمین کی ابتدا ہے۔ نیز عارفین نےفرمایا ہے، انتہا تک پہنچنے کی علامت ، ابتداء کی طرف لوٹنا ہے۔ اور اس کا بیان انشاء اللہ اس کے مقام میں آئے گا۔

اور حضرت حاتمی   کا قول یہ اللہ تعالیٰ کے عارفین کی نماز ہے اس لئے کہ انہوں نے اصلی طہارت سے پاکیزگی حاصل کی ۔ اور دائمی نماز پڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔

وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوتِهِمْ دَائِمُونَ اور وہ لوگ اپنی نماز میں ہمیشہ مشغول رہتے ہیں

پس عوام کی نماز کی حد، نماز کے مقررہ اوقات ہیں۔ اور عارفین ہمیشہ نماز میں رہتے ہیں۔

ایک عارف سے دریافت کیا گیا: کیا قلب کے لئے بھی نماز ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں ، قلب کی نماز یہ ہے کہ جب وہ سجدہ کرے تو اپنا سر سجدے سے کبھی نہ اٹھائے ۔ یعنی جب روح ہیبت جلال اور جمال کو سجدہ کرے تو کبھی سرنہ اٹھائے ۔ حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:

فَاسْجُدُ لِهَيْبَةِ الْجَلَالِ عِندَ التَّدَانِي وَلِتَقْرَأ آیْةَ الْكَمَالِ سَبْعَ الْمَثَانِي

قرب کے وقت جلال کی ہیبت سے سجدہ کر اور کمال کی آیت سورۃ فاتحہ کی قرات کر

اور حضرت حاتمی کا قول    اگر تم عارف ہو تو خشک زمین کو سمندر کے پانی سے سیراب کرو۔

یعنی اگر تم عارفین محققین میں سے ہو تو اپنی شریعت کی خشک زمین کو اپنی حقیقت کے سمندر سے سیراب کرو۔ اس طریقے پر کہ تم اپنی شریعت کی زمین پر اپنی حقیقت کے سمندر سے اتنا پانی چھڑ کو کہ شریعت حقیقت کے پانی سے سیراب ہو جائے اور ڈوب جائے۔ پس شریعت عین حقیقت ہو جائے ۔ اور حقیقت میں شریعت ہو جائے ۔ یہاں تک کہ تمہارا کل عمل اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو جائے۔ والله تعالى اعلم ـ وبالله التوفيق – وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِااللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ

جب قلب بارگاہ قدس اور محبت کے مقام میں داخل ہوتا ہے تو وہ اسرار کی باریکیوں کو سمجھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بخششوں اور انوار سے بھر جاتا ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
أَمْ كَيْفَ يَرْجُو أَنْ يَفْهَمَ دَقَائِقَ الأَسْرَارِ وَهُوَ لَمْ يَتُبْ مِنْ هَفَوَاتِهِ
یاوہ کس طرح اسرار کی باریکیوں کو سمجھنے کی امید کرتا ہے۔ جب کہ اس نے ابھی اپنی لغزشوں اور خطاؤں سے تو بہ نہیں کی ؟

اسکی پہلی سیڑھی توبہ ہے

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ لغزشوں اور خطاؤں کے اصرار کے باوجود اسرار کی باریکیوں کی سمجھ کبھی نہیں ہوسکتی ہے ۔ یا اس طرح کہا جائے: توحید کی باریکیوں کی سمجھ منفر دقلب کو ہوتی ہے۔ لہذا جس شخص نے لغزشوں سے تو بہ نہیں کی۔ اور خواہشات کی غلامی سے آزاد نہیں ہوا۔ وہ تو حید کی باریکیاں سیکھنے کی تمنا نہیں کر سکتا اور اہل تفرید کے اسرار کا مزہ نہیں چکھ سکتا ہے۔ حضرت احمد بن ابو حواری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ میں نے اپنے شیخ حضرت ابو سلیمان دارانی رضی اللہ عنہ سے سنا ہے: جب نفوس گناہوں کے ترک کے عادی ہو جاتے ہیں۔ تو وہ ملکوت میں گشت کرتے ہیں۔ اور ان کو نادر اور عجیب حکمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ بغیر اس کے کہ کوئی عالم ان کو کوئی علم سکھائے ۔ حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ اے احمد! تم نے بھی سچ کہا اور تمہارے شیخ نے بھی سچ کہا۔ میں نے اسلام میں اس سے زیادہ عجیب کوئی بات نہیں سنی ۔ وہ عجیب بات یہ ہے۔
منْ عَمِلَ بِمَا عَلِمَ أَوْرَثَهُ اللهُ عِلْمَ مَا لَمْ يَعْلَمُ جس شخص نے اپنے حاصل کئے ہوئے علم پر عمل کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا علم عطا فر مایا جو اس نے حاصل نہیں کیا۔
حضرت جنید سے دریافت کیا گیا : حقیقت کا راستہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا : گناہوں کی عادت تو بہ سے مٹاؤ۔ اور عمل میں تاخیر کی عادت خوف سے دور کرو۔ عمل کے طریقوں پر چلنے کی عادت رجا ءسے پیدا کرو۔ نفسانی خواہشات سے دور ہونے اور نفس کے فنا ہونے کے لئے نفس کو ذلیل کرو۔ پھر دریافت کیا گیا۔ اس مقام تک کس طرح پہنچا جا سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا :۔ منفر د قلب کے ذریعے جس میں صرف تو حید ہو ۔ لہذا جب قلب اللہ تعالیٰ کے ساتھ منفر د ہو جاتا ہے۔ اور ماسوی اللہ سے نجات حاصل کر لیتا ہے تو وہ توحید کی باریکیوں کو سمجھتا ہے۔ جن کا بیان لفظوں اور عبارتوں میں ممکن نہیں ہے۔ توحید کی باریکیاں در حقیقت رموز واشارات ہیں جن کو صرف توحید کے اہل حضرات ہی سمجھتے ہیں اور صرف انہیں پر یہ رموز ظاہر کئے جاتے ہیں۔ اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ اور جس شخص نے ان اسرار میں سے کچھ ، نااہلوں کے سامنے ظاہر کر دیا۔ اس نے اپنا خون مباح کر دیا اور اپنے آپ کو قتل کے لئے پیش کر دیا۔ جیسا کہ حضرت ابومدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
وَفِي السِرِ أَسْرَارٌ دَقَاقٌ لَطِيفَةٌ تُرَاقُ دِمَانًا جَهْرَةٌ لَو بِهَا بُحْنَا
اور توحید کے راز میں بہت سے باریک اور لطیف راز میں ہیں ۔ اگر ان کو ظاہر کر دیا جائے تو علانیہ ہمارا خون بہایا جائے گا۔ اور ایک دوسرے عارف نے فرمایا ہے:
وَلِي حَبِيبٌ عَزِيزٌ لَا أَبُوحَ بِهِ أَخْشَى فَضِيحَةً وَجْهِي يَوْمَ الْقَاہُ
میرا ایک غالب اور قوی دوست ہے میں اس کو ظا ہر نہیں کرتا ہوں۔ کیونکہ میں اس سے ملاقات کے دن اپنی رسوائی سے ڈرتا ہوں ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں