خاتمہ بالایمان کا بیان فصل24

سالک کو فطانت(عقلمندی) اور بصیرت(وہ قوت جو اولیاء کے دل سے پھوٹتی ہے اور نور قدس سے منور ہوتی ہے۔ اس سے انسان اشیاء کی حقیقت اور ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ اسے قوت قدسیہ بھی کہتے ہیں) سے کام لینا چاہیئے۔

إِنَّ لِلَّهِ ‌عِبَادًا ‌فُطُنًا … طَلَّقُوا الدُّنْيَا وَخَافُوا الْفِتَنَا

جَعَلُوهَا لُجَّةً وَاتَّخَذُوا … صَالِحَ الْأَعْمَالِ فِيهَا سُفُنَا

 بے شک اللہ تعالی کے ایسے بھی عقیل و فہیم بندے ہیں جنہوں نے دنیا کو طلاق دے رکھی ہے اور دنیا کی مکاریوں سے خوفزدہ رہتے ہیں اور اس کے بھنور سے کنارے پر پہنچنے کے لئے انہوں نے نیک اعمال کی کشتی کووسیلہ بنا رکھا ہے ۔

سالک کیلئے ضروری ہے کہ وہ دیکھےاس کے اعمال کا انجام کیا ہو گا۔ اور اس کے بدلے اس کے ہا تھ کیا آئے گا۔ دنیا کی ظاہری کشش اور حسن و جمال سے دھوکہ نہ کھائے ۔ اہل تصوف کا اتفاق ہے کہ سالک احوال کی تدبیر سے غافل ہو تا ہے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ (الاعراف:99 ( پس نہیں بے خوف ہوتے اللہ کی خفیہ تدبیر سے۔ سوائے اس قوم کے جو نقصان اٹھانے والی ہوتی ہے۔ یعنی مخلص اللہ کی گرفت سے ڈرتے رہتے ہیں۔

 اسی طرح حدیث قدسی میں ارشاد خداوندی ہے۔

 یا محمد بشر المذنبين بأني غفور، وأنذر الصديقين بأني غيور اے محمد ! گناہ گاروں کو یہ مژدہ سنادو کہ میں بہت بخشنےنے والا ہو ںاورسچوں کو خبر دار کیجئے کہ میں بہت غیرتمند ہوں۔ 

اولیاء کی کرامات اور احوال مکر اور استدراج سے غیر محفوظ نہیں ہیں۔ ہال انبياء علیهم الصلوۃ والسلام کے معجزات میں یہ اندیشہ نہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے استدراج سے محفوظ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ممکن ہے ولی یا اس کے معتقدین جسے کرامت تصور کرتے ہیں وہ استدراج ہو جس کے باعث اس کا خاتمہ بالخیر نہ ہو یہی وجہ ہے کہ سوء خاتمہ کا خوف سوء خاتمہ سے نجات کا سبب ہے۔

 حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اولیائے کرام خدا خوفی کے باعث اعلی علیین پر فائز ہو سکتے ہیں خوف کا امید پر غالب ہونا اچھا ہے ایسا نہ ہوکہ انسان بشری کمزوریوں کے باعث بھٹک جائے۔ بشریت انسان کا راستہ کاٹتی ہے اور انسان کو شعور تک بھی نہیں ہوتا۔ 

صوفیاء فرماتے ہیں کہ صحت میں خوف کی کیفیت غالب ہو اور مرض میں رجاء کی کیفیت رسول اللہ ﷺنے فرمایا :۔ 

لَوْ ‌وُزِنَ ‌رَجَاءُ الْمُؤْمِنِ وَخَوْفُهُ لَوُجِدَا سَوَاءً مؤمن کے خوف اور امید کا اگر موازنہ کیا جائے تو دونوں برابر ہوں گے“ 

”ہاں حالت نزع میں مومن کو چاہیئے کہ اللہ کے فضل و کرم پر زیادہ امید رکھے “ کیونکہ نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

لَا ‌يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ بِاللهِ الظَّنَّ ” تم میں سے جب کسی کو موت آئے تو ضروری ہے کہ اللہ کے متعلق حسن ظن رکھتا ہو۔ 

یعنی وہ سوچے کہ ‌وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ(الاعراف:156) اللہ تعالی کی رحمت اس کے غضب سے پہل کرنے والی ہے اور رَحْمَتِي ‌سَبَقَتْ ‌غَضَبِي، وَأَنَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ اس کی رحمت اور استعانت کی وسعت کی کوئی حد نہیں ہے۔ وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اس کے گھر سے اس کے لطف کی طرف بھاگے۔ اس سے اسی کی طرف دوڑے۔ عاجزی و انکساری کا اظہار کرے۔ گناہوں پر شرمندہ ہو سر اپا بندگی کا اظہار کر رہا ہو اس کے دروازے پر اپنے گناہوں کا اعتراف کرے ۔ اور یقین رکھے کہ اس کی الطاف بے پایاں اور رحمت تمام اس کے گناہوں کو ڈھانپ لے گی۔ وہ بہت کرم فرمانے والا رحم کرنے والا ہے۔ اس کے دروازے سے کوئی خالی ہاتھ واپس نہیں آتا۔ وہ داتا ہے۔ سب پر کرم کرنے والا ہے۔  اے اللہ۔ اے گم کردہ راہوں کاہادی۔ اے گناہ گاروں پر رحم فرمانے والا۔ تیرے علم کی کوئی انتہاء نہیں۔ زبان اسے بیان کرنے سے عاجز ہے۔ تیرا کرم سوال کا محتاج نہیں۔ اے میرے اللہ سید الرسل پر رحمتیں نازل فرما۔ ان کی آل پر اور ان کے تمام صحابہ کرام پر نظر کرم فرما۔ اے رب العالمین

سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ138 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں