طاعت اورقبولیت الگ ہیں (باب  دہم)

طاعت اورقبولیت الگ ہیں کے عنوان سے  باب  دہم میں  حکمت نمبر 95 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس پر تنبیہ فرمائی ہے:
95) رُبَّما فَتَحَ لَكَ بابَ الطّاعَةِ وَما فَتَحَ لَكَ بابَ القَبولِ، وَرُبَّما قَضى عَلَيْكَ بِالذَّنْبِ فَكانَ سَبَبَاً في الوُصولِ.
اکثر اوقات تمہارے لئے طاعت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ لیکن قبولیت کا درواز ہ نہیں کھولا جاتا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: طاعت کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ جب کہ اس کے ساتھ قبولیت نہ ہو ۔ جیسا کہ سوال کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ اگر امید حاصل نہ ہو ۔ اس لئے کہ طاعت : – مطاع (معبود) کی محبت کے لئے ، اور طاعت کرنے والے پر اس کی توجہ کے لئے صرف وسیلہ ہے۔ اس حیثیت سے کہ اس کے سامنے دروازہ کھول دے۔ اور اس کے قلب سے حجاب کو دور کر دے ۔ اور اس کو احباب کے فرش پر بٹھائے ۔ تو اگر تمہارے سامنے عمل کا دروازہ کھل گیا۔ اور تم اس کے حاصل کرنے میں اپنی امید کی انتہا تک پہنچ گئے۔ لیکن تمہیں عمل کا پھل نہیں ملا۔ نہ تم نے اس کا مزہ چکھا۔ اور عمل کا پھل اور اس کا مزہ: مثلاً اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسیت، اور اس کے ماسوا سے وحشت ، اور اس کے ساتھ غنا، اور اس کے سامنے خوف اور بے قراری ، اور اس کے علم کو کافی سمجھنا، اور اس کی قسمت پر قناعت کرنا ہے۔
پس اے مرید! تم اس سے دھوکا نہ کھاؤ۔ کیونکہ اکثر اوقات اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر اپنی طاعت کا دروازہ کھول دیتا۔ اور اپنی خدمت کے لئے تم کو آمادہ کر دیتا ہے۔ لیکن تمہارے لئے قبولیت کا دروازہ نہیں کھولتا ہے۔ اور وصول ( پہنچنے ) سے تم کو روک دیتا ہے۔ اس طرح کہ تم عمل پر بھروسہ کر لو ۔ اور اس کی طرف متوجہ، اور اسی سے مانوس ہو جاؤ ۔ اور وہ تمہیں مشغول کر کے منعم حقیقی اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ کی طرف ترقی سے غافل کر دے۔ اس لئے ایک عارف نے فرمایا ہے: طاعتوں کی حلاوت سے بچو۔ کیونکہ وہ زہر قاتل ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنے میں مشغول ہونے والے کو خدمت کے مقام میں ٹھہرا دیتی ہے۔ اور محبت کے مقام سے محروم کر دیتی ہے۔ اور خدمت کے لئے مقرر کئے جانے والے اور محبت اور حضوری کے لئے پسند اور منتخب کئے جانے والے، دونوں میں بڑا فرق ہے تو بندے پر گناہ کا جاری کرنا ، اس طاعت سے جو حجاب کا سبب ہو، زیادہ بہتر ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس پر تنبیہ فرمائی ہے
وَرُبَّمَا قَضَى عَلَيْكَ الذَّنْبَ فَكَانَ سَبَباً في الوصول اکثر اوقات اللہ تعالیٰ تمہارے لئے گناہ کا فیصلہ کرتا ہے۔ پس وہ گناہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کاسبب بن جاتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ بندہ جب اپنے مولائے حقیقی کی طرف سیر کرتا ہے اور اپنے حبیب کی حضوری اور رضامندی تک پہنچے کا ارادہ کرتا ہے۔ تو بھی تھکن لاحق ہوتی ہے۔ یا اس کو رنج پہنچتا ہے۔ یا اس پر کاہلی سوار ہوتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس پر گناہ مسلط کر دیتا ہے ۔ یا اس کے نفس کو اس پر غالب کر دیتا ہے۔ پس وہ اپنے مقام سے گر جاتا ہے۔ اور گرنے کے بعد جب پھر وہ کھڑا ہوتا ہے۔ تو اپنی سیر میں وہ کوشش کرتا ہے۔ اور اپنی غفلت سے وہ بیدار ہوتا ہے اور اپنی کاہلی سے وہ باز آتا ہے۔ پھر وہ ہمیشہ اپنے مولائے حقیقی کی طلب میں اس کے ماسوا سے غائب ہو کر جدو جہد کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی بارگاہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور اس کے دیدار کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اور یہ بارگاہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی تجلیات ، اور اس کی ذات کے اسرار کی بارگاہ ہے۔ اور اس کی مثال : اس مسافر مرد کی طرح ہے جس کو راستے میں نیند آ گئی یاسستی لاحق ہوگئی تو وہ گر گیا۔ اور کسی پتھر سے ٹکرا کر اسے چوٹ لگ گئی ۔ تو جب وہ پھر اٹھا تو اس کی سستی دور ہو گئی۔ اور اپنی سیر میں کوشش کرنے لگا۔ حدیث شریف میں ہے:
رُبَّ ذَنْبٍ ادْخُلَ صَاحِبَهُ الْجَنَّةَ، قَالُو: – وَكَيْفَ ذَالِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: لَا يَزَالُ تَائِباً فَارًا مِنْهُ خَائِفاً مِنْ رَبِّهِ حَتى يَمُوتَ فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ كَمَا قَالَ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام
اکثر گناہ ایسے ہیں ۔ جو اپنے کرنے والے کو جنت میں داخل کرتے ہیں ۔ اصحاب کرام نے کہا: یا رسول اللہ ! یہ کیسے ہو گا۔ حضرت نے فرمایا: وہ گناہگار ہمیشہ تو بہ کرتا رہتا ہے اور اس گناہ سے بھاگتا ہے اور اپنے رب سے ڈرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرتا ہے ۔ یا جس طرح حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہو۔ اور دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَو لَمْ تُذْبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ يَسْتَغْفِرُونَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے ۔ تو اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو لے جاتا، یعنی ختم کر دیتا۔ اور ایک ایسی قوم پیدا کرتا جو گناہ کرتے ۔ پھر مغفرت چاہتے ۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیتا۔
اور حضرت نبی کریم ﷺنے اس طاعت کی شان میں جو قبول نہیں کی گئی ۔ ارشاد فرمایا ہے :
رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ، وَقَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهْرُ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو ان کے روزہ سے بھوک کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے (نمازیں پڑھنے والے ) ایسے ہیں جن کو ان کے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ نہیں ملتا ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں