صفت حیات کے اسرار مکتوب نمبر 73دفتر سوم

صفت حیات کے اسرار میں جوعلم سے برتر ہے اور اس بیان میں کہ علم جس طرح صفات زائدہ سے ہے اسی طرح شیون غیرزائدہ سے بھی ہے۔ اسی طرح دوسری صفات کا حال ہے۔ مخدوم زادہ خواجہ محمد سعید کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

حضرت شیخ محی الدین قدس سرہ اور اس کے تابعین نے جو تنزلات خمسہ لکھے ہیں تعین اول سے ان کی مراد حضرت علم کا اجمال ہے اور اسی کو حقیقت محمدیہ(تمام اسماء الہیہ کا جامع،صاحب اسم اعظم ) بھی کہتے ہیں اور اس یقین کے کشف کو بھی ذات جانتے ہیں اور تعین کے اوپر لاتعین سمجھتے ہیں جو ذات بحت اور تمام نسبتوں اور انتہاؤوں سے مجرد احدیت کا مرتبہ ہے۔ پوشیدہ نہ رہے کہ شان العلم کے اوپرشان الحیوۃ ہے جس کے تابع علم ہے اور وہ تمام صفات کا اثر ہے خواہ علم ہو خواہ غیر علم حصولی ہو یا حضوری یہ شان الحيوة بڑی عظیم الشان شان ہے۔ دوسری صفات وشیون اس کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے نہریں دریا کے مقابلہ میں تعجب ہے کہ شیخ بزرگوار نے اس وسیع مملکت کی سیرنہیں کی ہے اور ان علوم و معارف کے باغوں سے پھول نہیں چنے۔ یہ شان اگر چہ حق تعالیٰ  کی ذات کے بہت ہی قریب ہے اور جہالت اور عدم ادراک کے بہت ہی مناسب ہے لیکن چونکہ تنزل و ظلیت کی آمیزش رکھتا ہے اس لیے کم و بیش معرفت علم کے مقام سے ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ  کے کرم سے اس شان عظیم الشان (شان الحیات)میں اس فقیر کا سیر واقع ہوا تھا تو اس مقام کے نیچے بہت دور فاصلے پرشہود ہوا تھا کہ شیخ (ابن عربی)وہاں مقام رکھتا ہے جس میں اس نے اقامت اختیار کی ہے شاید اخیر میں اس مقام کا حظ حاصل کیا ہوگا ۔ اس طرح کے بیچون بعدوں کے دو اعتبار سے بعد مسافت کہہ سکتے ہیں یا میدان عبارت کی تنگی کے باعث یا اس بعد بیچون کی مثال صورت کے باعث جو عالم مثال میں بعد مسافت کے طور پرمشہور ہوئی ہے۔ ‌سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ( يا الله تو پاک ہے ہم کو کوئی علم نہیں مگر جس قدر تو نے ہم کو سکھایا تو جاننے والا اور حکمت والا ہے ) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

فصل بالخیر۔ (خوبی کے ساتھ وضاحت کرنا)

اس بیان سے لازم آیا کہ علم مرتبہ حیات میں جو اس کے اوپر ہے ثابت نہیں خواہ علم حصولی ہو۔ خواہ علم حضوری جب مرتبہ حیات میں علم ثابت نہ ہوا تو مرتبہ ذات عز شان میں کس طرح ثابت ہو گا جو فوق الفوق ہے اور جب علم ثابت نہ ہوا تو اس کی نقیض ثابت ہوگی۔ تَعَالَى اللہُ سُبْحَانَهُ عَنْ ذَالِکَ ‌عُلُوًّا ‌كَبِيرًا ( الله تعالیٰ  اس سے بہت ہی برتر اور بلند ہے )) اس اشکال کاحل ایک دقیقہ کےپہچاننے پرمبنی ہے جس کو آج تک اولیاءاللہ میں سے کسی نے بیان نہیں کیا۔ 

جاننا چاہیئے کہ حق تعالیٰ  کا علم مثلا جس طرح صفات ثمانیہ(حیات، علم، قدرت،ارادہ، سمع، بصر، کلام، تکوین) حقیقیہ زائدہ میں سے ہے جیسے کہ اہل حق نے فرمایا ہے اسی طرح شیون و اعتبارات ذاتیہ غیر زائد میں سے بھی ہے ۔قسم اول چونکہ ذات پر صفات زائدہ سے ہے تو اس کا متعلق بھی ذات کے ماسوا ہے۔ خواہ عالم ہو یا صفات زائده واجبی کیونکہ جو چیز ظلیت کے داغ سے آلودہ ہے اور جس نے اسم زیادتی پیدا کیا ہے۔ حضرت ذات تعالیٰ  کے مرتبہ مقدسہ کے لائق نہیں اور اس جناب پاک کے ساتھ اس کا کچھ تعلق نہیں ۔ خواہ وہ علم حصولی ہو یا حضوری۔ اگر حضوری ہے تو وہ بھی حضرت ذات کے ظلال میں سے کسی ظل کے متعلق ہے۔ اگر چہ اس نے علم و عالم و معلوم کے درمیان اتحاد پیدا کیا ہے کیونکہ یہ مرتبہ اتحاد بھی مرتبہ مقدسہ ذات کے ظلال میں سے ایک ظل ہے نہ کہ اس کا عین اگر چہ بعض نے اس کی عینیت یعنی عین ہونے کا گمان کیا ہے۔ دوسری قسم جوشیون ذاتیہ غیر زائدہ سے ہے اس کامتعلق صرف حضرت ذات ہے اور ماسوائے ذات کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے برتر ہے ۔

حاصل کلام یہ کہ وہ علم جوز ائدہ ہے اس کا تعلق ماسوائے ذات تعالیٰ  تک محدود ہے اور وہ علم جوزائدہ نہیں اور مجرد اعتباری ہے اس کا تعلق صرف حضرت ذات پر موقوف ہے اور وہ علم جو حضرت ذات تعالیٰ  میں منتفی(معدوم) ہے وہی علم زائدہ ہے جو اس مرتبہ مقدسہ کے لائق نہیں کیونکہ وہ شان علم غیرزائدہ کاظل ہے۔ اس علم زائدہ کے انتفا(دور ہونے) سے اس کی نقیض یعنی جہل کا ثبوت لازم نہیں آتا کیونکہ جب علم جو صفات کاملہ سے ہے وہاں گنجائش نہیں رکھتا۔ تو اس کی نقیض جو سراسر نقص ہے کیا گنجائش رکھتی ہے کہ اس بارگاہ میں دخل پائے غرض یہ دونوں نقیضین اس بارگاہ سے مسلوب ہیں اور اس میں کوئی محذور و محال نہیں۔ ایک عارف کہتا ہے عَرَفْتُ رَبِّىْ بِجَمْعِ الْأَضْدَادِ (میں نے رب کو اضداد کے جمع ہونے سے پہچانا ۔ گویا اس مقام اقدس کے بلند مرتبہ ہونے کے باعث ان دونوں نقیضوں میں سے ایک بھی وہاں تک نہیں پہنچتی جب تمام نسبتیں اور اعتبارات اس بارگاہ میں مسلوب ہیں تو علم اور عدم علم بھی جو نسبتوں کی قسم سے ہیں مسلوب ہوں گے۔ وہ ممکن ہی ہے جس کونسبتوں اور اعتباروں سے چارہ نہیں اور اس میں نقیض کاجمع ورفع نہیں نسبتوں اور اعتبار وں کا پیدا کرنے والا تمام نسبتوں اور اعتبار وں سے منزہ ہے۔ اس مقام میں حاضر پر غائب یعنی ممکن پرحق کا قیاس کرنا ممتنع ہے۔ یا یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ علم خاص کے انتفاء (دور ہونے)سے علم مطلق کا عدم لازم نہیں آتا بلکہ علم خاص کا عدم لازم آتا ہے۔ جس میں ظلیت کی آمیزش ہے اس صورت میں بھی کوئی محذور لازم نہیں آتا اور نقیضین کا ارتفاع نہیں ہوتا۔ فَاَفْھَمْ

 جاننا چاہیئے کہ وہ علم جوذات  تعالیٰ  کے شیون سے ہے اس علم کے ساتھ جو صفات زائدہ سے ہے کچھ مناسبت نہیں رکھتا ۔ اگر چہ اس علم کا اصل وہی علم (غیر زائدہ)ہے کیونکہ  صفت  زائده شان ذاتی کاظل ہے وہاں انکشاف ہی انکشاف ہے اور عین  حضور میں حصول ہے اس علم کے درجہ کی بلندی کے باعث جہل اس کے مقابل نہیں آ سکتا اور اس کی نقیض نہیں بن سکتا۔ برخلاف  صفت  علم کے کہ جس کی نقیض میں جہل قائم ہے اگر چہ اس کا وقوع غیر جائز اور خطا ہے نقیض کایہی احتمال اس کے انحطاط اور پستی کا باعث ہوا ہے اور اسی نے جناب پاک کے تعلق سے اس کو روک رکھا ہے کیونکہ اس بارگاہ مقدس میں کسی کمال کی نقیض کا احتمال نہیں ہوسکتا۔ خواہ کوئی کمال ہو وہ قدرت جو اس مرتبہ مقدسہ میں ثابت ہے وہ وہی ہے جس کے مقابلہ میں عجز نہیں برخلاف  صفت  قدرت کے جونقیض کا احتمال رکھتی ہے۔ اگر چہ واقع نہیں ہے تمام شیون اور صفات واجبہ اسی قیاس پر ہیں جب شان العلم کو  صفت  علم سے کچھ مناسبت نہیں تو مخلوقات کے علم کو اس شان عظیم الشان کے ساتھ کیا نسبت ہوگی اور اس مرتبہ مقدسہ کے ساتھ کیا مناسبت تعلق متصور ہو گا۔ ہاں اگر بندہ نوازی فرمائیں اورمخلوق کے ناقص انکشاف کو اپنے اپنے انکشاف سے روشن کریں اور فناء اتم کے بعد اپنے پاس سے بقاء اکمل بخشیں تو پھر ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ مقدسہ کے ساتھ تعلق بیچون حاصل ہو اور وہاں تک پہنچ جائیں جہاں اصل بھی کوتاہی کرے اور اصل کے زینہ سے اصل الاصل کے ساتھ واصل ہو جائیں ۔ یہ خصوصیت بنی آدم ہی کو مرحمت ہوئی ہے اور انہی کے لیے ترقی کا راستہ کھلا ہے اصل سے بھی گزر جاتے ہیں بلکہ اصل الاصل سے گزر کر وہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ اصل بھی ظل کی طرح راستہ میں رہ جاتا ہے ۔ ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ  کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ  بڑے فضل والا ہے۔)

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ204ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں