استفسارات کے جوابات مکتوب نمبر 239دفتر اول

 ملا احمد برکی کی طرف اس کے خط کے جواب میں جو اس نے لکھا تھا اور اس میں چند سوال استفسار کئے تھے لکھا ہے:۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ  وَاٰلِهِ  وَاَصْحَابِہِ الطَّاهِرِيْنَ اَجْمَعِیْنَ

اللہ رب العالمین کی حمد ہے اور سید المرسلین اور ان کی آل و اصحاب پاک پر صلوۃ و سلام ہوآ پکا مکتوب گرامی جواز روے شفقت و مہربانی کے ارسال کیا تھا ۔ اس کے مضمون کو مطالعہ کر ، بڑی خوشی حاصل ہوئی ۔ آپ نے لکھا تھا کہ احوال کا عرض کرنا احوال کے انداز ہ پر ہے ۔الخ 

میرے مخدوم ! احوال کے حاصل ہونے سے مقصود یہ ہے کہ محول احوال یعنی احوال کےپھیرنے والے(حق تعالیٰ) کے ساتھ گرفتاری اور تعلق حاصل ہو جائے ۔ جب یہ گرفتاری (تعلق مع اللہ )حاصل ہو تو پھراحوال حاصل ہوں یا نہ ہوں کچھ پروا نہیں۔ 

آپ نے لکھا تھا کہ حضور میں مذکور ہوا تھا کہ آپ کے حق میں ہم نے بہت تخم ریزی کی ۔ الخ 

میرے مخدوم ! واقعی اسی طرح ہے ۔ لیکن ثمرات کا زندگی میں اور مرنے کے بعد بے شمار زمانوں کے گزرنے پر موقوف ہے۔ أَبْشِرُوا ‌وَلَاِتَعْجَلْ بِهِ خوش ہو اور جلدی نہ کر) مولانا محمد صالح کے مقولہ کی نسبت آپ نے لکھا تھا۔ چونکہ مولانا مذکور حاضر نہ تھے تا کہ ان کی مرادسمجھی جائے اس لئے اس مقولہ سے معترض نہ ہوا۔ لیکن خیر ہے کسی طرح کا فکر دل میں نہ لائیں۔ اور بے ادبی کی نسبت جو آپ نے لکھا تھا۔ سو دوستوں کی خطا ئیں معاف ہیں دل میں کچھ فکر اندیشہ نہ کریں۔ 

آپ نے اپنے احوال کی نسبت تفتیش کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ آپ مقبولوں میں سے ہیں ۔ قُبِلَ مَنْ قُبِلَ بِلَا عِلِّةٍ ( جو قبول کیا گیا وہ بلا علت قبول کیا گیا)۔ 

آپ نے لکھا تھا کہ دو (2) شیخ زادے آئے تھے تا کہ ذکر کی تلقین حاصل کریں ۔ الخ 

میرے مخدوم ! استخارہ ہر امر میں مسنون و مبارک ہے لیکر ضروری نہیں ہے ممکن ہے کہ استخارہ کے بعد خواب یا واقعہ بیداری میں ایسا امر ظاہر ہو جو اس کام کے کرنے یا نہ کرنے پر دلالت کرے بلکہ استخارہ کے بعد دل کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔ اگر اس کام کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ ہے تو اس کام کے کرنے پر دلالت رکھتا ہے اور اگر توجہ اسی قدر ہے جس قدر کہ پہلے تھی اور کچھ کم نہیں ہوئی ۔ تب بھی منع نہیں ہے۔ اس صورت میں استخارہ کو دوبارہ سہ بارہ کرے تا کہ توجہ کی زیادتی مفہوم ہو جائے ۔ استخارہ کے تکرار کی نہایت سات مرتبہ تک ہے۔ اوراگر استخارہ کے ادا کرنے کے بعد پہلی توجہ میں نقصان مفہوم ہوتو منع پر دلالت ہے ۔ اس صورت میں بھی اگر استخارہ کو مکرر کرے تو گنجائش ہے۔ بلکہ ہر تقدیر پر استخارہ کومکرر کرنا بہت بہتر اور مناسب ہے اور اس امر کے کرنے یا نہ کرنے میں احتیاط ہے۔ 

رسالہ مبدأ و معاد کی اس عبارت کے معنی جو اس جسد کے بیان میں لکھی گئی ہے جو روح کا مکتسب(روح جس جسد سے  افعال جسمانی کا اکتساب کرتی ہے) ہے آپ نے پوچھی تھی۔ 

میرے مخدوم! روح کا ایسے افعال کا اختیار کرنا اور کر گزرنا جو اجسام کے افعال کے مناسب ہیں ۔ جیسا کہ دشمنوں کا ہلاک کرنا اور دوستوں کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ اسی قسم سے ہے۔ 

ظالموں کے فتنہ سے آپ نے امن طلب کیا تھا۔ حق تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے اہل بیت کو بلکہ آپ کی جگہ کو ان ظالموں کی شرارت سے محفوظ رکھا ہے خاطر جمع ہو کر حق تعالیٰ کی پاک جناب کی طرف متوجہ رہیں اور امید ہے کہ اس حفاظت کو موقت (خاص وقت معین)نہ کریں گے۔ إِنَّ رَبَّكَ ‌وَاسِعُ ‌الْمَغْفِرَةِ (تیرا رب بڑی بخشش والا ہے لیکن اس جگہ کے رہنے والوں کو نصیحت کریں کہ مسلمانوں کی بہتری اور خیر خواہی کی وضع کو نہ بدلیں ۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ لَا ‌يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى ‌يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو خود نہ بدلیں۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ163 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں