حق تعالیٰ کے اقربیت کے بھید مکتوب نمبر 48دفتر سوم

حق تعالیٰ کے اقربیت کے بھیداور اس بیان میں کہ کُنْہ ذات کا انکشاف علم حضوری سے ہے۔ مخدوم زادہ خواجہ سعید مدظلہ العالی کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی  (الله تعالیٰ  کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)حق تعالیٰ  کی اقربیت کا معاملہ علم حضوری پر وابستہ ہے جو معلوم کے اصل سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ معلوم کے ظلال میں سے کسی ظل اور اس کی صورتوں میں سے کسی صورت کے ساتھ کہ یہ علم حضوری کا نصیب ہے۔ پس علم حصولی در حقیقت نفس شے کا علم نہیں ہوتا بلکہ اس شے کی صورتوں میں سے کسی صورت کا علم ہوتا ہے اور اس میں نفس شے کی نسبت جہل ثابت ہوتا ہے۔ سبحان اللہ

شےکی نسبت جہل اور عدم علم یاشے کے ظل وصورت کے علم کو اس شے کا علم کہتے ہیں۔ اگر شے کی صورت اور ظل کو اس شے کاعین تصور کر کے شے کی صورت کے علم کو اس شے کاعلم جانتے ہیں تو ممنوع ہے اور عینیت کا دعوے سننے کے لائق نہیں، کیونکہ شے اور صورت شے ایک دوسرے کے ساتھ دوئی کی نسبت رکھتی ہیں اور جہاں دوئی کی نسبت ثابت ہے وہاں تغائر یعنی ایک دوسرے کا غیر ہونا لازم آتا ہے۔ الاثنان متغائران (دوچیزیں ایک دوسرے کی غیر ہوتی ہیں) معقول والوں کا مقررہ قضیہ ہے۔ نیز صورت شے کے علم سے اس شے کا کماحقہ علم کس طرح لازم آتا ہے جبکہ صورت شے ایک ظاہری تصویر اور تمثال ہے۔ جو آئینہ کے احکام سےملتبس ہو کر ظاہر ہوئی ہے اور اس شے کے بہت سے دقائق اور اسرار ہیں۔ جن کا اس صورت میں نام ونشان نہیں۔ بیت 

گر مصور صورت آں دلستان خواهد کشید حیرتے وارم که نازش راچساں خواهد کشید 

ترجمہ: بیت میرے دلدار کی صورت مصور گراتاریگا تو حیراں ہوں کہ اس کے ناز کو کیونکر اتاریگا ۔

کاش کہ شے کا ظاہر اپنی صرافت یعنی ہو بہو اور بعینہ شے کی صورت میں ظاہر ہوتا اور باطن موقوف رہتا جب شے کا ظاہرمحل اور آئینہ کے رنگ سےملتبس ہوکر شے کی صورت میں ظہور پاتا ہے تو یقین ہے کہ شے کا ظاہر اپنی صرافت پرنہیں رہتا بلکہ دوسری ہئیت پیدا کر لیتا ہے۔ پس صورت جس طرح شے کے باطن سےمحروم ہے اسی طرح شے  کےظاہر سے بھی محروم ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس صورت کا علم نفس شے کے علم کومستلزم نہیں، حاصل کلام یہ کہ معلوم درحقیقت وہ ہے جو ذہن میں موجود ہو اور جب ذہن میں صورت موجود ہے تو معلوم بھی وہی صورت ہوگی۔ جب صورت کوشے کے ساتھ تغائر کی نسبت پیدا ہوگئی تو صورت کاعلم نفس شے کے علم کومستلزم نہ ہوگاوہ علم حضوری ہی ہے جہاں نفس شے مدرکہ میں حاضر ہے اور کوئی ظل وصورت درمیان میں خلل انداز نہیں۔ پس اس علم میں معلوم نفس شے ہوگا نہ اس شے کی صورتوں میں سے کوئی صورت پس علم حضوری اشرف ہے بلکہ علم ہی یہی ہے۔ علم حضوری کے سوا  جوعلم حصولی ہے وہ سراسر جہل ہے جو علم کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ جہل مرکب ہے کہ اپنے جہل کوعلم جانتے ہیں اور نہیں جانتے کہ کچھ نہیں جانتے۔ پس علم حصولی کو حق تعالیٰ  کی ذات و صفات کی طرف کوئی راہ نہیں اور اس علم کے ساتھ حق تعالیٰ  کی ذات و صفات معلوم نہیں ہوتی کیونکہ یہ علم در حقیقت معلوم کی صورت کا علم ہے نہ کہ نفس معلوم کا جیسے کہ گزر چکا ہے۔ صورت کو اس بارگاہ جل شانہ کی طرف کوئی راستہ نہیں تا کہ صورت کے علم کو صورت کے اصل کاعمل کہاجائے۔ اگر چہ بعض نے کہا ہے کہ حق تعالیٰ  کے لیے مثل نہیں، لیکن مثال ہے۔ لیکن یہ صورت مثالی اگر ثابت بھی ہو جائے توذہنی صورت کے سوا ہے جوعلم سے تعلق رکھتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عالم مثال جومخلوقات میں سے بہت وسیع ہے صورت موجود ہو اور ان میں ثابت نہ ہو۔ حدیث قدسی لَا ‌يَسَعُنِي ‌أَرْضِي، وَلَا سَمَائِي، وَلَكِنْ يَسَعُنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ میں نہ اپنی زمین  میں سما سکتا ہوں نہ آسمانوں میں لیکن مومن آدمی کے دل میں سما سکتا ہوں۔ اس بندہ مومن کے قلب کیساتھ مخصوص ہے۔ جس کا معاملہ تمام لوگوں سے جدا ہے، کیونکہ وہ فناء و بقاء سے مشرف ہوا ہے اور حصول سے آزاد ہو کر حضور سے ملا ہوا ہے۔ وہاں یعنی قلب مومن میں اگر گنجائش ہے تو حضور کے اعتبار سے ہے نہ کے حصول کے اعتبارسے۔ 

در کدام آئنہ در آید او  ترجمہ   کسی آئینہ میں آتا نہیں وہ 

جاننا چاہیئے کہ علم حضوری میں عالم و معلوم کا اتحاد ہے اس علم کا عالم سے دور ہونا جائز نہیں، کیونکہ معلوم اس کا اپنا نفس ہے جو اس سے الگ نہیں ہے بلکہ وہاں علم بھی عین عالم اور عین معلوم ہے پھر کس طرح جدا ہو سکتا ہے۔ جاننا چاہیئے کہ جب علم حضوری میں معلوم نقش شے ہے نہ اس کی صورت تو معلوم وہاں جیسا کہ ہے منکشف ہوتا ہے اور کماحقہ علم میں آ جاتا ہے اور اس کی کُنْہ( ماہیتِ الٰہی جو ادراک سے پرے ہے۔انتہا، غایت) و حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کیونکہ کنہ شے نفس شے سے مراد ہے جب تمام قسم کے اعتبارات ساقط ہو گئے اورنفس ذات رہ گئی جو مدرکہ میں حاضر ہے تو اس کی کنہ معلوم ہوگئی۔ برخلاف علم حصولی کے کہ وہاں معلوم شے کے کئی وجوہ اور اعتبارات ہیں جو صورتیں اور شبح ہیں نہ کہ نفس شے۔ جیسے کہ گزر چکا۔ پس معلوم اس علم میں شے کی کنہ نہ ہوگی اور شے کی کنہ معلوم نہ ہوگی۔ حاصل کلام یہ کہ علم حصولی میں شے کا انکشاف بھی ہے اور ادراک بھی اورعلم حضوری میں صرف شے کا انکشاف ہے ادراک نہیں۔ یعنی معلوم کہ کنہ معلوم و منکشف ہو جاتی ہے، لیکن ادراک میں نہیں آ سکتی۔ پوشیدہ نہ رہے کہ جب حق تعالیٰ  کی ذات کی نسبت علم حضوری ثابت ہو گیا۔ جیسے کہ گزر چکا تو اس سے لازم آتا ہے کہ حق تعالیٰ  کی ذات کی کنہ منکشف ہو جائے اور واجب تعالیٰ  کی ذات کماحقہ معلوم ہو جائے اور یہ بات علماء کے مقررہ اصول کے برخلاف ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ علم حضوری جس کا تعلق واجب تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ ہے۔ اس رؤیت کی طرح ہے جو واجب تعالیٰ  کی نسبت ثابت کرتے ہیں۔ جہاں صرف انکشاف ہے اور ادراک مفقود۔ یہاں بھی یعنی اس علم حضوری میں انکشاف ہے اور ادراک مفقود ہے۔ جب رویت حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ تعلق حاصل کرتی ہے تو علم کیوں تعلق پیدانہ کرے۔ جو رؤیت سے زیادہ لطیف ہے محذور اور اعتراض ادر اک میں ہے۔ جس سے احاطہ لازم آتا ہے۔ نہ کہ انکشاف میں حق تعالیٰ  نے لَا ‌تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُفرمایا ہے۔ لَا ‌تَراہُ الْأَبْصَارُنہیں فرمایا۔

 سوال: جب ادراک حاصل نہ ہو۔ تو انکشاف کس کام آئے گا؟

 جواب: انکشاف سے مقصود یہ ہے کہ دیکھنے والے کو لذت حاصل ہو، جو اس کو حاصل ہے۔ ادراک ہو یا نہ ہو۔

 سوال: ادراک کے بغیر انکشاف سے کس طرح لذت حاصل ہوسکتی ہے۔ 

 جواب: لذت کے پانے میں انکشاف کا علم کافی ہے ادراک ہو یا نہ ہو یا یوں سمجھنا چاہیئے کہ ادراک بھی اس مقام میں حاصل ہے لیکن اس کی کیفیت معلوم نہیں۔ ادراک جو اس کے منافی ہے وہ وہی ہے جس کی کیفیت علم میں آجائے اور معلوم کا احاط کرے وَلَا ‌يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا (نہیں احاطہ کر سکتے اس کا ازروئے علم کے )نص قاطع ہے جوعلم حصولی کے مناسب ہے۔ اگر ادراک علم حضوری میں نہ ہوتا تو علم حصولی میں کہاں سے آتا؟ کیونکہ جو کچھ ظل میں ہے سب کچھ مرتبہ اصل سے حاصل ہوا ہے لیکن ادراک اصل میں مجهول الکیفیت ہے اورظل میں معلوم الکیفیت۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ150ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں