خزانہ.Khazana

ایک فقیر بہت مفلس و کنگال تھا۔ اس کی دعا رب تعالی سے یہی تھی کہ تو نے مجھے بغیر مشقت کے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح بغیر مشقت کے مجھے روزی بھی دے، وہ مسلسل یہی مانگا کرتا تھا۔ 

الله تعالی عزوجل نے اس کی دعا قبول کر لی، اسے خواب آیا کہ توردی والے کی دکان پر جا وہاں بوسیدہ کاغذوں میں سے تجھے ایک کاغذ ملے گا۔ اسے لے آ اور تنہائی میں پڑھ اٹھ کر وہ ردی والے کی دکان پر گیا۔ ردی میں سے وہ تحریر(گنج نامہ) تلاش کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ گنج نامہ اس کے سامنے آگیا جو اسے خواب میں نظر آیا تھا۔ اس نے وہ کاغذ دکاندار سے لیا۔ تنہائی میں اس کاغذ کو پڑھا۔ اس پرچے میں تحریر تھا کہ شہر سے پار ایک مزار ہے ادھر ہی خزانہ دفن ہے۔ مزار کی طرف پشت اور منہ قبلہ کی طرف کر کے تیر کو کمان میں رکھ۔ جہاں پر تیرگرے وہاں خزانہ دفن ہو گا۔ فقیر نے تیرکمان لے کر اپنے جوہر دکھانے شروع کر دیئے۔ جہاں تیر پھینکتا وہاں جلدی سے بیلے پھاوڑے لے کر زمین کھودنا شروع کر دیتا……….. بیلچہ۔ پھاوڑا اور وہ فقیر کند ہو گئے مگر خزانے کا نام ونشان بھی نہ ملا … وہ روزانہ اسی طرح عمل کرتا تیر چیتا جس جگہ تیرگرتا اسے کھودتا مگر خزانہ نہ ملتا۔فقیر کے اس پروگرام کا بادشاہ وقت کو پتا چلا۔ بادشاہ نے اسے طلب کیا۔ اس نے ساری کہانی کہہ سنائی، اور کہنے لگا جب سے خزانے کا پتہ پایا ہے، تلاش میں ہوں، خزانہ تو نہ ملا، سخت تکلیف اور مشقت میرا مقدر بن گئی ہے۔ 

بادشاہ نے فقیر سے وہ گنج نامہ لے لیا۔ خزانہ پانے کے لئے بادشاہ نے بھی تیر چلانے شروع کردیئے۔ چھ ماہ تک بادشاہ بھی تیر چلاتا رہا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔ 

بادشاہ سلامت نے بھی نا امید ہو کر وہ گنج نامہ فقیر کو واپس کردیا۔ 

فقیر نے پھر اللہ عزوجل کی طرف رجوع کیا عاجزی، انکساری اور آنکھیں اشک بار کر کے دعا کی اے اللہ تعالی میری سمجھ سے یہ عقده بالاتر ہے میں راز کو نہ پا سکا۔ تو خودہی کمال مہربانی سے اسے حل کر دے اور مجھے خزانے تک پہنچا دے، جب وہ عاجز ہو کر بارگاه الہی میں سچے دل سے گر پڑا تو آواز آئی۔ میں نے تجھے تیر کو کمان میں رکھنے کو کہا تھا۔ تجھے تیر چلانے اور کمالات دکھانے کا نہیں کہا تھا۔ خزانہ تیرے پاس تھا۔ تیرے قریب تھا۔ تو تیر اندازی کے سفر میں اس سے دور ہوتا گیا۔ خدا کی ذات کو اپنے اندر اپنے دل میں تلاش کر جو شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔ اپنے من میں ڈوب تو خزانے تک جائے گا۔

 ثمرات: اس کے کرم سے گنج نامہ تو مل جاتا ہے۔ مگر انسان جلد بازی، چالاکی، ہوشیاری سے پانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جو ہر عاجزی، انکساری اور من میں تلاش کرنے سے ملتا ہے۔ 


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں