دنیا کو طلاق دینا جنت کا مہر

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

آخرت کو راس المال اور دنیا و نفع خیال کر اپنا پور اوقت آخرت کے حصول میں صرف کرنے کی کو شش کر۔ اگر اس سے کچھ وقت بچ جائے تو اسے اپنی دنیا اور معاش میں صرف کر دنیاکوراس المال اور آخرت کو اس سے حاصل ہونے والا نفع نہ بنا۔ کہ دنیا کمانے سے جو وقت بچے اسے آخرت کی بھلائی حاصل کرنے میں صرف کرنے لگے۔ پانچوں نمازیں جھٹ پٹ ادا کرے کہ بس ارکان کی ادائیگی پوری ہو جائے۔ رکوع و سجود کرتے ہوئے نہ واجبات نماز کا خیال رہے اور نہ ارکان کو سکون سے ادا کر سکے۔ یا پھر تھکاوٹ کی وجہ سے سو جائے اور ایک نماز بھی ادانہ کرے۔ رات کو بھی مردار کی طرح سویا رہے اور دن کے وقت بھی بے کار لیٹا رہے۔ نفس اور شیطان کی پیروی میں آخرت کو دنیا کے بدلےبیچ ڈالے۔ نفس کا بند ہ و غلام اور سواری بن جائے۔ حالانکہ حکم تو تجھے یہ دیا گیا تھا کہ اس پر سواری کرے۔ اسے سدھائے اسے رام کرے اور اس پر سوار ہو کر سلوک کی راہ طے کرے جو آخرت اور مولا کی اطاعت کی راہ ہے۔ اگر تو نے اس کی غلامی کو قبول کر کے اس پر ظلم کیا۔ اور اپنی باگ اس ظالم سرکش کے ہاتھ میں دے دی اور اس کی شہوتوں، لذتوں کا پیرو ہو گیا۔ اس کا دوست بن بیٹھا۔ شیطان اور خواہش سے تعلقات رکھے۔ دنیا بھی گئی اور آخرت بھی ہاتھ نہ آئی۔ دارین کی رو سیاہی مقدربن گئی۔ اور قیامت کو لوگوں میں سے غریب ترین اور دین و دنیا کے اعتبار سے خائب و خاسر ٹھہرانہ نفس کی پیروی کی وجہ سے مقدر سے زیادہ دولت ہاتھ آئی اور نہ آخرت کی بھلائی نصیب ہوئی۔ اگر تو نے اسے آخرت کی راہ پر چلایا ہو تا اور آخرت کو راس المال اور دنیا کو اس کا نفع تصور کیا ہوتا تو بآسانی خوشی خوشی دنیا میں اپنے مقدر کو بھی پالیتا اور آخرت کی بھلائی سے محروم بھی نہ ہوتا۔ نبی کریم ﷺنے جیسے ارشاد فرمایا : 

إِنَّ اللَّهَ ‌يُعْطِي الدُّنْيَا عَلَى نِيَّةِ الْآخِرَةِ وَأَبَى أَنْ ‌يُعْطِيَ الْآخِرَةَ عَلَى نِيَّةِ الدُّنْيَا

بلاشبہ الله تعالی آخرت کی فکر پردنیا عطا فرماتا ہے مگر دنیا کی فکر پر آخرت عطا نہیں فرماتا ۔

اور ایسا کیوں نہ ہو آخرت کی فکر الله تعالی کی اطاعت ہے کیو نکہ فکر اور نیت عبادت کی روح اور اس کی اصل ہے۔ 

جب دنیا میں زہد اختیار کر کے اور آخرت کو طلب کر کے تو نے اللہ عزوجل کی اطاعت کی تو تو اللہ کے خاص بندوں اور اہل طاعت و محبت میں شمار ہوا۔ اور تجھے آخرت حاصل ہو گئی یعنی جنت اور الله تعالی کا پڑوس۔ اور دنیا نے بھی تیری خدمت گزاری کی۔ اور جو مقدر میں لکھا تھا۔ اس کا ایک ایک دانہ مل گیا۔ کیونکہ دنیا کازرہ زرہ و مالک و خالق کا تابع ہے۔ اگر تو دنیا میں مشغول رہا اور آخرت سے اعراض برتتار ہا تو اللہ تعالی بھی ناراض ہوا اور آخرت کی بھلائی بھی گئی۔ دنیا کی خوشنودی بھی حاصل نہ ہوئی اور تھک کر چور چور ہو گیا۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا اللہ تعالی کی مملوک ہے جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے دنیا اس کی اہانت کرتی ہے اور جو اس کریم کی اطاعت فرمانبرداری کرتا ہے دنیا اس کی عزت و تکریم بجا لاتی ہے۔ پس اس پر نبی کریم کا یہ ارشاد گرامی صادق آتا ہے: مَثَلُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ كَمَثَلِ رَجُلٍ لَهُ ‌ضَرَّتَانِ، إِنْ أَرْضَى إِحْدَاهُمَا أَسْخَطَ الْأُخْرَى

دنیا اور آخرت سوکنیں ہیں۔ اگر ان میں سے ایک کو راضی کرے گا تودوسر کی ناراض ہو جائے گی“

رب قدوس کا ارشاد پاک ہے مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ بعض تم میں سے طلبگار ہیں دنیا کے اور بعض تم میں سے طلبگار ہیں آخرت کے ۔

لیکن کچھ لوگ ابنائے دنیا ہیں اور کچھ طالبان آخرت دیکھ تو ان میں سے کس زمرے میں آتا ہے۔ اور دنیا میں ان دو فریقوں میں سے کس فریق میں شمولیت پسند کر تا ہے۔ مخلوق دو فریقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک فریق طالب دنیا ہے اور دوسرا فریق طالب آخرت۔ 

قیامت کے روز بھی ان کے دو گروہ ہوں گے۔ ایک فریق جنتی ہو گا اور دوسرادوزخی۔ ایک فریق کو اپنے اعمال کا حساب دینے کیلئے طویل عرصہ کھڑارہنا پڑے گا جہاں ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا جن کو آج تم شمار کرتے ہو۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ ایک فریق جنت میں اور دوسرا فریق بھڑکتی آگ میں ہو گا“ 

نبی کریم ﷺ بھی یہی فرماتے ہیں: إنكم تكونون يوم القيامة في ظل العرش عاکفون على الموائد عليها أطيب الطعام والفواكه والشهد ابيض من الثلج، ينظرون إلى منازلهم في الجنة حتى إذا فرغ من حساب الخلق دخلوا الجنة يهتدون إلى منازلهم كما يهتدي أحد الناس إلى منزلہ

روز قیامت تم عرش کے سایہ میں ہو گے۔ تمہارے سامنے دستر خوان بچھے ہوں گے جن پر بہترین کھانے، پھل اور شہدرکھا ہو گا۔ اور یہ شہد برف سے زیادہ سفید ہو گا۔ تم جنت میں موجود اپنے گھروں کو دیکھو گے حتی کہ جب مخلوق اپنے حساب سے فارغ ہو گی تو تم جنت میں چلے جاؤ گے۔ تم سیدھے اپنے جنتی گھروں میں پہنچو گے جیسے کوئی شخص اپنے گھر پہنچ جاتا ہے۔ 

یہ سب کچھ انہیں ترک دنیا اور طلب آخرت اور طلب مولی میں مشغولیت کی وجہ سے ملے گا۔ اور حساب کی طوالت اور طرح طرح کے عذاب اور ذلت ورسوائی صرف دنیا کی محبت ورغبت اور آخرت سے بے پرواہی برتنے کے سبب ہوں گے۔ اپنے نفس پر نظر رکھ اور اس کیلئے بہترین فریق کا انتخاب کر۔ اسے شیاطین یعنی برے لوگوں اور جنوں کی دوستی سےبچا کتاب و سنت کو اپنا رہنما بنا۔ اس کی تعلیمات پر نظر رکھ اور انہی کے مطابق عمل پیراہو، قیل و قال اور ہوس کا شکار نہ ہو۔ 

رب قدوس کا ارشاد ہے

: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

اور رسول کریم جوتمہیں عطا فرمادیں وہ لے لو۔ اور جس سے تمہیں روکیں تو رک جائے اور ڈرتے رہا کرو اللہ سے، بے شک اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔ 

یعنی اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کی مخالفت نہ کرو کہ اللہ کے رسول کے لائے ہوئے دین کو چھوڑ کر اپنے لیے عبادت اور عمل کی نئی راہیں پیدا کر لو۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ایک گمراہ قوم کے بارے فرمایا : 

وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ ۔ اور رہبانیت کو انہوں نے خود ایجاد کیا تھا۔ ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا ۔

اللہ تعالی نے اپنے محبوب نبی محمد ﷺ کی پاکیزگی کو بیان کیا اور باطل اور جھوٹ سے ان کی تنزیہ فرمائی اور کہا۔ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى  إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى  اور وہ توبولتاہی اپنے خواہش سے نہیں ہے یہ مگروحی جوان کی طرف کی جاتی ہے ۔

یعنی جو کلام مجید آپ لائے ہیں وہ میری طرف سے نازل کردہ ہے۔ ان کی خواہش یانفس کو اس میں دخل نہیں۔ اس لیے اس کی اتباع کرو۔

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ اے محبوب! آپ فرمائیے انہیں کہ اگر تم  واقعی  محبت کرتے ہو اللہ سے تو میری پیروی کرو  تب  محبت فرمانے لگے گا تم سے اللہ“

 بتا دیا کہ محبت کا راستہ نبی کریم ﷺ کی قولاً اور فعلاً اتباع ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے۔ 

الاكتساب سنتی و التوكل حالتی او كماقال له 

”کتاب میری سنت ہے اور توکل میری حالت ہے . 

پس آپ کی سنت اور حالت دونوں کو اختیار کر۔ اگر تیرے ایمان میں کمزوری ہے تو سب کو اختیار کر اور اگر ایمان قوی ہے تو دوسری حالت یعنی توکل کو اختیار کر رب قدوس ارشاد فرماتا ہے۔ 

وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ اور اللہ پر بھروسہ کرواگر ہو تم ایماندار“

وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ”اور جو  خوش نصیب اللہ پر بھروسہ کر تا ہے تو اس کےلیے وہ کافی ہے“ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ بیشک اللہ تعالی محبت کرتا ہے توکل کرنے والوں سے“ 

اللہ تعالی تجھے توکل کا حکم دے رہا ہے تجھے اس بارے تنبیہ فرمارہاہے جیسا کہ اس نے اپنے محبوب ﷺ کو متنبہ فرمایا۔ 

تمام کاموں میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺکی پیروی کر۔ ورنہ یہ کام تیرے منہ پر دے مارا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی  ہے۔ 

مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ ‌أَمْرُنَا، ‌فَهُوَ ‌رَدٌّ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے بارے ہمارا حکم نہیں توده کام مردود ہے”

یہ حکم عام ہے۔ کسب رزق، دوسرے اعمال اور اقوال میں آپ کی پیروی ضروری ہے۔ کیونکہ آپ کے علاوہ ہمارا کوئی نبی نہیں جس کی ہم اتباع کریں۔ اور نہ قرآن کریم کے علاوہ کسی دوسری کتاب سے رہنمائی ہمارے لیے جائز ہے۔ پس قرآن و سنت کے دائرے سے باہر نہ جاورنہ ہلاک ہو جائے گا اور خواہش اور شیطان تجھے گمراہ کر دیں گے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ  

اور نہ پیروی کیا کرو ہوائے نفس کی وہ بہکا دیگی تمہیں راہ خداسے ۔

سلامتی قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ اور انہیں چھوڑ کر کسی اور کی پیروی ہلاکت ہے۔ قرآن و حدیث کی بدولت ہی انسان ولایت ، بدلیت اور غوثیت کی حالت تک بتد ریج ترقی کر تا ہے۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 121 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں