سالک کی تنہائی

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

حکم علم کے دامن میں پناہ لیتا ہے تا کہ وہ ظاہر نہ ہو:

کوئی سالک ہی نہیں ، اس کی تنہائی اور غربت پر افسوس ہے، اگر شرعی حکم کا پاس ولحاظ نہ ہوتا تو حضرت یوسف علیہ السلام کا صاع تمہارے راز اور اعمال ظاہر کر دیتا ، لیکن حکم علم کے دامن میں پناہ لینے والا ہے تا کہ وہ ظاہر نہ ہو، کبھی وہ منعم کے ساتھ مشغول ہونے کی وجہ سے نعمت سے بے رغبتی کرتا ہے، پھر اس سے نعمت لے لی جاتی ہے تا کہ وہ اس نعمت کے ساتھ مشغول نہ ہو جائے ۔ جب اس کا مشغلہ اللہ کے ساتھ مسلسل ہو جا تا ہے تو اللہ اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور اس کے ہاتھ میں مرتبہ تکوین دے دیتا ہے، چنانچہ وہ مختار ومتصرف ہو جا تا ہے ۔

میر اوعظ اور کلام تمہیں پس پشت ڈال دینے اور تم سے نظر پھیر لینے کے بعد ہے،  مجھے تمہاری پرواہ نہیں، اس لئے میں نے تمہاری دنیا وآخرت دونوں سے تجاوز کر لیا ہے، میں نے تمہارے حال کو دیکھا تو پتہ چلا کہ نہ تمہارے ہاتھوں میں نفع اور نہ ہی نقصان ، اور نہ منع کرنا ، اللہ ہی تم میں تصرف کرنے والا حاکم ومختار ہے، اللہ کے نقصان پہنچائے بغیرتم نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ چنانچہ یہ دیکھ کر میں نے اللہ کی طرف رجوع کر لیا لیکن دنیا کو میں نے فنا ہونے والا، جانے والا ، قاتل و مکار اور دھوکہ باز پایا ۔

 چونکہ اسے جلد چلے جانا ہے، اس لئے اس کی طرف سکون کرنے سے اورٹھہر نے سے بے رغبتی اختیار کر لی اور اسے نا پسند کیا ۔ بعدازاں آخرت کے پاس تھوڑی دیر ٹھہر کر اس کے معاملے کو پرکھا ۔ اس کے یہ  عیب سامنے آئے۔ وہ حادث ہے (یعنی عدم کے بعد وجود میں آئی )، وہ دوسرے موجودات میں مشترک ہے، اور دیکھنے میں یہ آیا کہ اللہ نے اس میں نفسوں کی شہوتیں رکھ دی ہیں اور جن چیزوں سے آنکھیں لذت پاتی ہیں وہ اس میں ڈال دی ہیں۔

 ارشاد باری تعالی ہے: وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ ‌وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ جنت میں وہ چیز یں ہیں جس کی نفس خواہش کر یں گے اور آنکھیں لذت پائیں گی۔

 چنانچہ میں نے کہا کہ جو دل کی خواہش ہے وہ کہاں ہے، لہذا میں نے اس سے منہ موڑ لیا ۔ اور اس کے آقا اور ظاہر و پیدا کرنے والے اور اسے عدم سے وجود میں لانے والے کی طرف واپس آ گیا، اب وہی دلی خواہش ہے ،

جب بندہ اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس کے لئے:

جہل کی جگہ علم، دوری کی جگہ قرب ،وحشت کی جگہ انس،سکوت کی جگہ ذکر،تاریکی کی جگہ نور،مقرر کر دیتا ہے۔

اے نفس اوراے خواہش! اے طبیعت اوراے ارادے!

اگر تم مجھ سے تو حید اور مخلوق سے تعلق توڑ لینے اور اللہ کی طرف سکون پکڑنے اور مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹا لینے کے ساتھ قناعت کرو گے تو اللہ کے دیدار کے بغیران میں سے ایک لقمہ بھی نہ لوں گا، ورنہ میں حلف کرلوں گا کہ میں نہ کھاؤں گا اور نہ پیوں گا ۔“

لہذا جب تم مر جاؤ گے تو میں اپنے باطن سے اللہ کی طرف اڑ جاؤں گا۔ ہمارے نبی ﷺکے دین کی دیواریں، بنیادیں گر رہی ہیں اور اپنے بنانے والوں سے فریاد کر رہی ہیں ۔ ان کی نہر کا پانی خشک ہو گیا ہے، اللہ کی عبادت نہیں کی جاتی، اگر کی بھی جاتی ہے تو دکھاوے اور منافقت کے ساتھ کوئی ہے جوان دیواروں کے قائم کرنے نہر کے وسیع کرنے اور اہل نفاق کے شکست دینے میں مدد کرے،۔ میں ایسے علم سے کلام کرتا ہوں کہ اس کی وضاحت کرنا تیرے بس میں نہیں ، نہ تو اس کی فرشتے کو تعلیم دے سکتا ہے،  نہ تو کسی پر اس کا اظہار کر سکتا ہے۔

تیرادل طور ہے ( جہاں اللہ تجلی فرماتا ہے )، اسے شیطان نہیں دیکھ سکتا جو اسے خراب کر دے، نہ اسے بادشاہ دیکھ سکتا ہے جب اس پر غلبہ کرے ۔ اللہ تعالی نے طور کی قسم اس لئے کھائی کہ اس پر اپنے محبوب سے راز و نیاز ہوئے ، کلیم کی مناجات ( سرگوشیاں سنیں، اس پراپنی تجلی فرمائی۔

دل جب اللہ کو پہچان لیتا ہے تو اللہ تعالی اس دل کو اتنی وسعت عطا فرمادیتا ہے کہ اس میں سب جن وانساں اور فرشتےسما جاتے ہیں ، ۔ جب اس کے لئے رکاوٹ بننے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور وہ کسی کی طرف نظر اٹھا کے نہیں دیکھتا، تب اللہ تعالی اپنے قریب کر لیتا ہے، کیا تو نے حضرت موسی علیہ السلام کے عصا کا قصہ نہیں سنا کہ وہ اتنی لکڑیوں اور رسیوں کے ڈھیر کیسے نکل گیا، اور اس میں کچھ تغیر پیدا نہ ہوا ۔

آپ سے کامل ملاح نے سوال کیا    کہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جب عالم زاہد نہ ہو تو وہ اپنے زمانے والوں کے لئے عذاب اور سزا کا باعث کیوں ہوتا ہے؟

 جواب:آپ نے جواب میں فرمایا: اس لئے کہ وہ اخلاص اور عمل کے بغیر وعظ وکلام کرتا ہے، لہذا نہ وہ دلوں میں اثر کرتا ہے اور نہ ٹھہرتا ہے، لوگ اسے سنتے تو ہیں مگر اس پرعمل نہیں کرتے (سن کر عمل نہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے )، دل جب صحیح ہو جا تا ہے اور علم سے روشن اور منور ہو جاتا ہے تو وہ اپنے نور سے مخلوق کے گناہوں کی آگ کو ویسے ہی بجھا دیتا ہے جس طرح ایمان والوں کا نوردوز خ پر سے گزرنے کے وقت اس کی آگ کو بجھا دے گا۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 626،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں