صحیح النسب لوگ

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

اللہ و رسول کے ہاں صحیح ا لنسب صرف اہل تقوی ہیں

اے سونے والے بیدار ہو جا  کیونکہ تیرے آگے سے راستہ گھیر لیا گیا ہے ،قیامت کے دن  بلا کر تجھ سے پوچھا جائیگا۔

 تیری کتاب کون سی ہے، تیر امعلم کون ہے، تیرا داعی کون تھا،تیرانبی کون تھا ، تیرانسب صحیح نہیں ہے۔

رسول اکرم ﷺسے دریافت کیا گیا: ’آپ کی آل کون ہے؟‘‘ آپ ﷺنے ارشادفرمایا:

ہرتقی محمد کی آل ہے (ﷺ)۔ تو خاموشی اختیار کر ، تو عقل سے خالی ہے، تیرا گھر تو دجلہ پر ہے اور تو پیاسا مر رہا ہے، چند قدم ہیں، انہیں اٹھا، یقینا تو رحمان تک پہنچ جائے گا۔ ایک قدم نفس ہے، ایک قدم مخلوق ہے ۔ اور اے مرید! ۔۔۔ تیرے لئے بھی چند قدم ہیں، اٹھا اور پہنچ جارحمن تک ، دنیا وآخرت میں اگر تو فلاح چاہتا ہے تو میرے وعظ کے ہتھوڑوں پر صبر کر لے اور (بغض فی اللہ کے تحت ) مجھ پر جنون سوار ہو جائے تو نہ میں تجھے دیکھوں گا نہ تیرا کچھ لحاظ کروں گا، میرے باطن اور اخلاص کی طبیعت میں جوش آ جائے گا، میں تیرے چہرے کو نہ دیکھوں گا ، میں تیری بہتری کے لئے تیرے دل سے خباثت کو دور کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ، اور یہ کہ میں تیرے گھر سے آگ کو بجھا دوں ، اور تیرے گھر بار کی حفاظت کروں تو اپنی آنکھیں کھول دے اور اپنے آگے آنے والے حال پر نظر ڈال ، عذاب اور مواخذوں کا لشکر تیری طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے۔

اے احمق! تجھ پر افسوس ہے، تھوڑے عرصے کے بعد تو مرنے والا ہے، اس میں ہر حالت زائل اور متفرق ہونے والی ہے ۔ یہ ا پنی اولا داور گھر اور بیوی سے بچھڑ جائے گا ، اور مٹی اور قبر اور عذاب کے فرشتے یارحمت کے فرشتے سے رفاقت کرناپڑے گی۔

اسے کوچ کرنے والے،اے زائل ہونے والے! اے انتقال کر نے والے! اے سرتا پا عار بیت!

پاک ہے وہ ذات جس نے تم پر آگاہ کرنے والے علماء کو بھیج کر احسان فرمایا ہے، مگر تم ان کی طرف دھیان نہیں  دیتے۔اے بد بخت آ دمی! تو میرے پاس سارا سال یا پورا مہینہ یا پورے مہینے میں ایک بار بھی نہیں آتا، جس میں تجھے نہ ایک ذرہ دینے کی ضرورت ہے نہ ایک دانہ دینے کی ، تو بغیر کوئی چیز دیئے ہم سے ایک چیز لے لے ،کل کوئی ذرہ دیئے بغیر لاکھوں چیز یں لے لینا ۔ میں تو تیرے بوجھ اٹھانے والا ہوں ، تو اس سے ڈرتا ہے کہ میں تجھے اپنے بوجھ اٹھانے کی تکلیف دوں گا، میرے بوجھوں کے اٹھانے کے لئے اللہ کی ذات کافی ہے   تجھے مجھ سے ایک کلمہ سننے کے لئے ہزار برس کا ، سفر کرنا چاہئے تھا ، حالانکہ تیرے اور میرے بیچ میں چند ہی قدم ہیں مگر تو نہیں آتا ۔ تیری کیا کیفیت ہے، تو کامل نادان اور نا سمجھ ہے، تیرے خیال میں تجھے کچھ دے دیا گیا ہے، دنیا نے تیرے جیسے کوفربہ کیا پھر اس کو کھا گئی ،  اسے جاہ اور کثرت مال سے فربہ بنایا پھر اس کو کھاگئی ، اگر ہم دنیا میں بہتری دیکھتے تو اس کی طرف ہم سے سبقت نہ لے جاتا ۔ خبردار ہو جا کہ تمام امور اللہ کی طرف لوٹتے ہیں ، ہم جن کاموں میں لگے ہیں سب اس کی طرف سے ہیں ، ۔ سید ناغوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کرسی سے اتر آئے ، آپ کے بعض شاگردوں نے آپ سے کہا: ’’البتہ آپ نے وعظ میں بہت مبالغہ فرمایا، اور گفتگو میں بڑی سختی فرمائی۔

آپ نے جواب میں ارشادفرمایا: اگر میرے کلام نے اس میں کچھ عمل اور اثر کیا ہے تو ابن تقی عنقریب پھر آئے گا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ برابر آپ کی مجلس میں حاضر ہوتا رہا مجلس کے علاوہ بھی آتا تھا اور آپ کی حضوری میں بڑی تواضع اور انکساری کے ساتھ بیٹھا رہتا تھا، اللہ کی اس پر رحمت ہو، ۔ اللهم صبرا وعفوان اللهم غنى الہٰی! میں صبر وعفو اور غنا کا طلب گار ہوں‘‘۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 678،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں