إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى کے معنی اور اعتراض کا جواب مکتوب نمبر 117دفتر سوم

 آیت کریمہ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى الخ کے معنی اور دوسرے اعتراض کے بیان میں مولاناشیخ غلام محمد کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اللہ تعالیٰ کیلئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) شیخ اجل قدس سرہ نے اپنی کتاب عوارف کے دوسرے باب میں آیت کریمہ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ ‌شَهِيدٌ (اس میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جس کا دل حاضر ہے اور جس نے توبہ کے ساتھ کانوں کو اس طرف لگایا) کے معنی میں فرمایا ہے کہ واسطی نے کہا ہے کہ قوم مخصوص کے لیے نصیحت ہے سب لوگوں کیلئے نہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے حق میں الله تعالیٰ فرماتا ہے أَوَمَنْ كَانَ ‌مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ کیا جو مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور واسطی نے یہ بھی کہا ہے کہ مشاہدے سے فراموشی پیدا ہوتی ہے اور حجابوں سے فہم حاصل ہوتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کی شے کے لیےتجلی کرتا ہے تو وہ اس کے لیے جھک جاتی ہے اور پست ہو جاتی ہے۔ شیخ قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ یہ قول جوو اسطی نے کہا ہے بعض اقوام کے حق میں صحیح ہے حالانکہ یہ آیت ان امر کے برخلاف دوسری قوم کے لیے حکم کرتی ہے اور وہ لوگ ارباب تمکین (سالک کا مطلوب حقیقی سے واصل ہونا) ہیں جن کے لیے مشاہدہ اورفہم جمع ہوتے ہیں پوشیدہ نہ ر ہے کہ جو کچھ واسطی نے اول کہا ہے وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خاص اہل تمکین کے لیے نصیحت ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو الله تعالیٰ نے موت کے بعد زندہ کیا ہے یعنی فنا کے بعد ان کو بقا بخشی ہے اور اہل تلوین کے لیےنہ فنا ہے نہ بقاء اور نہ حیات جو دوبارہ ان کو دی گئی ہو کیونکہ وہ وسط راہ میں ہوتے ہیں اور فنابقاء منتہیوں کے احوال ہیں اور اس کا دوسرا قول جو آیت کے بیان میں ذکر کیا ہے اگر تو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ احتجاب اور استار (یعنی پردہ اورحجاب میں آنے) کے وقت اہل تلوین کے لیے نصیحت ہے نہ کہ مشاہدہ اور مکاشفہ کے وقت کیونکہ یہ ذہول وفراموشی کے وقت ہیں ۔ پس یہقول پہلے قول کے منافی ہے اور اگر اس نے دوسری جگہ توسط حال میں اس معرفت کا ذکر کیا ہے اور آیت کے بیان میں ذکر نہیں کیا تو پھر کوئی منافات نہیں اور نہ ہی شیخ قدس سرہ کا یہ اعتراض کہ واسطی نے کہا ہے کہ بعض اقوام یعنی اہل تلوین کے حق میں صحیح ہے ۔

حالانکہ یہ آیت اس امر کے برخلاف دوسرے لوگوں کے لیے حکم کرتی ہے اور وہ ارباب تمکین ہیں درست نہیں کیونکہ واسطی نے آیت کے معنی میں بیان کیا ہے کہ نصیحت ارباب تمکین کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے کہ یہ لوگ ہیں جو موت کے بعد زندہ ہیں نہ کہ اہل تلوین۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اہل تلوین کے بیان میں اس کا دوباره ذکر کرنا ایک مستقل معرفت ہے جس کا آیت کے بیان سے تعلق نہیں ۔ اس صورت میں یہ اعتراض عائد نہیں ہوتا کہ یہ امر آیت کے حکم کے برخلاف ہے کیونکہ آیت ایک قوم کے حق میں وارد ہے اور یہ معرفت دوسری قوم کے احوال کا بیان ہے۔ اگر واسطی پہلے فعل کو اہل تمکین کے ساتھ مخصوص نہ کرتا اور پھر دوبارہ اہل تلوين کے لیے بھی ان کے احتجاب کی حالت میں نصیحت کو ثابت کرتا تو اس کے دونوں قولوں میں منافات حاصل نہ ہوتی اور شیخ کا اعتراض اس پر وارد نہ ہوتا اور جو کچھ میرے نزدیک ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں دونوں فریقوں کےحال کا بیان ہے۔ یعنی لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ میں ارباب قلوب کا حال ہے جن کے احوال بدلتے رہتے ہیں انہی کو اصحاب تلوین بھی کہتے ہیں اور أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ ‌شَهِيدٌ میں اہل تمکین کے حال کا بیان ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نےعین شہود(مشاہدہ) کی حالت میں فہم کے لیے اپنے کانوں کو لگا رکھا ہے فرق صرف اسی قدر ہے کہ قوم اول کے لیے بعض بعض وقتوں میں نصیحت ہے اور دوسری قوم کے لیے تمام احوال میں نصیحت ہے جیسے کہ خود واضح ہے اگرشیخ قدس سرہ اس طرح کہتا کہ یہ آیت اس امر کے برخلاف اور قوم کے لیے بھی حکم کرتی ہے تو بہت ہی مناسب ہوتا اور کلمہ اومنع خلو(ایک منطقی اصطلاح) کے لیے ہے ۔ پس فریقین کیفیت میں جمع کرنے کے منافی نہیں اس کے بعد شیخ نے فرمایا ہے کہ فہم کا مقام محادثہ اور مکالمہ یعنی گفتگو اور کلام کامحل ہے اور وہ دل کی سمع ہے اور مشاہد ہ کا مقام قلب کی بصر ہے۔ پس جو سکر(مستی) کی حالت میں ہے اس کی سمع اس کی بصر میں غائب ہوتی ہے اور جو شخص خود تمکین کی حالت میں ہے اس کی سمع اس کی بصر میں غائب نہیں ہوتی کیونکہ وہ اپنے حال کا مالک ہے اور ظرف وجودی سے جو کلام کے سمجھنے کے لیے مستعد ہے۔ سمجھتا ہے کیونکہ فہم الہام وسماع کامحل ہے اور سماع و الہام ظرف وجودی کو چاہتے ہیں اور یہ وجود و موہوب یعنی بخشا ہوا اس شخص کو جو فنا کے راستے سے گزر کر بقا کے عمل تک پہنچا ہو مقام صحو میں متمکن ہونے کے لیے دوباره بخشا جاتا ہے اور یہ دجود اس وجود کے سوا ہے جو نور مشاہدہ کے چمکنے کے وقت نیست ونابود ہو جاتا ہے۔ انتھی (یہاں تک شیخ کا کلام ہے)

 پس محادثہ اور مکالمہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلام و گفتگو کرنا ہے اورسمع كا بصر میں غائب ہونے کے یہ معنی ہیں کہ مشاہدہ کے وقت نہیں سمجھتا اور یہ اہل تلوین کا حال ہے جو مشاہدہ کے وقت اپنے آپ کو فراموش کر دیتے ہیں جیسے کہ واسطی نے کہا ہے اورسمع کے بصر میں غائب نہ ہونے سے یہ مراد ہے کہ عین مشاہدہ میں سمجھتا ہے اور یہ حال اہل تمکین کا ہے جو مشاہدہ اور فہم کے درمیان جمع کرتے ہیں جیسے گزر چکا پوشیده نہ رہے کہ اہل تکوین میں مشاہدہ کے کچھ معنی نہیں ہیں کیونکہ مشاہدہ ذات میں ہوتا ہے اور وہ ابھی ذات تک نہیں پہنچا۔ اس کے حق میں صفات متخیلہ متلونہ کا مکاشفہ بہتر ہے اور جو کچھ ذات میں ہے اس کیلئےتلوین نہیں اور نہ ہی اس بارگاه مقدس میں تغیر ہے کہ کبھی ذہول و فراموشی ہو اور کبھی شعور بلکہ وہاں عین ذہول میں شعور ہے اورنفس شہود(مشاہدہ) میں فہم ہے نیز شیخ قدس سرہ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں دل کی آنکھ سے مشاہدہ کا واقع ہو نا جائز ہے اور صاحب تعارف قدس سرہ نے جو امام طائفہ ہے، کہا ہے کہ دنیا میں دل اور آنکھ دونوں سے حق تعالیٰ کونہیں دیکھ سکتے اور اس پر اجماع ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ مشا ئخ نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ حق تعالیٰ دنیا میں ایقان کی جہت کے بغیر دلوں اور آنکھوں سے دیکھا نہیں جاتا ۔ میرے نزدیک جو کچھ صاحب تعرف نے کہا ہے بہت ہی بہتر ہے کیونکہ جس کو حق تعالیٰ کی رؤیت خیال کرتے ہیں وہ خیال رؤیت ہے یعنی خیال میں اس ایقان کی صورت کا کشف ہے جو دل کو حاصل ہوتا ہے اورمُوْقَنْ بِہٖ کی بھی ایک صورت ہے جو دل کیلئے کشف کی جاتی ہے کیونکہ مشائخ نے اللہ تعالیٰ کیلئے مثال کو جائز رکھا ہے اگر چہ الله تعالیٰ کیلئے کوئی مثل نہیں۔ وَلِلَّهِ ‌الْمَثَلُ الْأَعْلَى مثال اعلى الله تعالیٰ کے لیے ہے ) یعنی خیال میں ایقان کی صورت اورمُوْقَنْ بِہٖ کی صورت نقش ہو جاتی ہے۔ اگر چہ واقع میں حق تعالیٰ کی کوئی صورت نہیں کیونکہ قلب اور دوسرے لطائف کے معانی حاصلہ کیلئے بلکہ ہر ایک موجود شے کیلئے خیال میں ایک صورت ہے جواس عالم مثال کی تمثال(مماثلت) ہے جو تمام عالموں سے زیادہ وسیع ہے پس قلب کو ایقان کے سوا کچھ حاصل نہیں بلکہ ایقان کی صورت اورمُوْقَنْ بِہٖ کی صورت رؤیت ومرئی کی صورت میں متمثل(کسی چیز کی مثل ہونا) ہوتی ہے اور کوئی رؤیت حقیقی نہیں پس جب قلب کو رؤیت حاصل نہ ہو تو پھر بصریعنی آنکھ کو کب حاصل ہوگی وہ ایک مثالی صورت ہے یعنی قلب کا ایقان رؤیت کی صورت میں اورمُوْقَنْ بِہٖ مرئی کی صورت میں متمثل ہوتا ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ اس نے حقیقتا حق تعالیٰ کو دیکھا ہے حالانکہ وہ خیالی رؤیت ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہمُوْقَنْ بِہٖ کی صورت حق تعالیٰ کی صورت مثالیہ نہیں ہے بلکہ ایک کشفی صورت ہے جس کے ساتھ ایقان کا تعلق ہے جو خیال میں ظاہر ہوتی ہے اور ہرگز ہرگز حق تعالیٰ کی کوئی صورت نہیں۔ اگر چہ خیال ہی میں ہو۔ یہ صورت قلب سالک کے بعض مکشوفات یعنی ان وجوہ و اعتبارات کی صورت ہے جن کاتعلق ذات تعالیٰ کے ساتھ ہے یہی وجہ ہے کہ جب عارف ذات تعالیٰ سے واصل ہو جاتا ہے تو اس قسم کی خیالی مثالیں متخیل نہیں ہوتیں کیونکہ حق تعالیٰ کی ذات کی کوئی صورت نہیں نہ خیال میں اور نہ مثال میں اور میرے نزدیک جس طرح اس کی مثل نہیں مثال بھی نہیں کیونکہ صورت خواہ کسی مرتبہ میں ہوحدونہایت کو مستلزم ہے اور حق تعالیٰ تحدید(حد مقرر کرنا) و تقیید(پابند کرنا) سے منزہ ہے کہ تمام مراتب اس کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ فَاَفْھَمْ اللہ تعالیٰ کیلئے حمد ہے کہ اس نے ہم کو سلطان خیال عطا فرمایا اور اس کو معانی کمال کی صورتوں کے حصول کا آئینہ بنایا اگر خیال نہ ہوتا تو ہم انفصال کے درکات سے اتصال کے درجات کونہ پاسکتے اور احوال کی واردات کو نہ جان سکتے کیونکہ اس میں ہر ایک معنی اور حال ایک صورت ہے کہ اگر وہ صورت مکشوف ہوجائے تو اس کے ساتھ وہ معنی اورحال ادراک میں آجاتے ہیں پس ساتوں لطائف کا شان سیر و سلوک اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف انتقال کرنا ہے اور خیال کا شان سالک کو اپنی منقوش(نقش کردہ) صورتوں میں سیروسلوک و انتقال کے درجات کا دکھانا ہے اور اس کا دکھانا فوق کی طرف رغبت بڑھاتا ہے نیز اس کے دکھانے سےسیر (حقیقی)بصیرت پر حاصل ہوتا ہے اور سلوک معرفت پرآسان ہوتا ہے اور اس کے غلبہ سے سالک جہل سے نکل کر اہل علم میں سے ہوجاتا ہے۔ فَلِلّٰهِ سُبْحَانَهٗ دَرَّهٗ ( الله تعالیٰ ہی کیلئے ہے اس کی خوبی ) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ350ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں