الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال

الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال

امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالی
وصلى الله على سيدنا محمد وآله وصحبه وسلم الحمد لله الذي فاوت بين خلقه في المراتب، وجعل في كلِّ قَرْنٍ سابقين؛ بهم يحيي ويميت، ويُنزل الغمام الساكب
والصلاة والسلام على سيدنا محمد البدر المنير، وعلى آله وأصحابه الهداة الكواكب. وبعد:
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
علم سے نابلد بعض حضرات کے متعلق مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ وہ لوگ جماعت اولیائے کرام میں ابدال، نقباء، نجباء، اوتاد اور اقطاب کے وجود کا انکار کرتے ہیں حالانکہ یہ بہت ہی مشہور بات ہے اور ان مقام و مراتب کے ثبوت میں احادیث و آثار موجود ہیں !

احادیث على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال

اس لیے میں نے ان تمام احادیث و آثار کو بطور استفادہ اس چھوٹے سے رسالہ میں جمع کیا تا کہ اہل عناد کے لئے انکار کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔ میں نے اس رسالہ کا نام “الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال “ رکھا ہے۔
اللہ تعالی کی توفیق و مدد سے میں ( امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ ) کہتا ہوں : اس موضوع پر حضرت عمر بن خطاب علی بن ابی طالب، انس ، حذیفہ بن الیمان ، عبادہ بن الصامت ، ابن عباس، عبد اللہ بن عمر عبداللہ بن مسعود، عوف بن مالک ، معاذ بن جبل ، واثلہ بن الاسقع ، ابو سعید خدری ، ابو ہریرہ، ابودرداء اور ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے احادیث مرفوعہ و موقوفہ وحسن بصری ، عطاء اور بکر بن خنیس نے مرسل روایات اور تابعین و تبع تابعین سے بے شمار آثار مروی ہیں ۔ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین

حديث

أَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، نَا السَّريُّ بْنُ يَحْيَى، نَا شُعَيْبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، نَا سَيْفُ ابنُ عُمَرَ، عَنْ أَبِي عُمَرَ، وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَأن الشَّامُ قَدْ أَمْكَنَ، فَإِذَا أَقْبَلَ ‌جُنْدٌ ‌مِنَ ‌اليَمَنِ، وَمِمَّنْ بَينَ المدِينَةِ وَاليَمَنِ، فَاخْتَارَ أَحَدٌ مِنْهُمُ الشَّامَ، قَالَ -يَعْنِي عُمَرَ-: يَا لَيْتَ شِعْرِي عَنِ الأَبْدَالِ، هَلْ مَرَّتْ بِهِمُ الركابُ (تاریخ دمشق امام ابن عساکر باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال)
ترجمہ:حضرت زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : شام پر سکون ہو چکا تھا کہ اچانک یمن اور اطراف مد ینہ ویمن کے رہنے والوں کا ایک لشکر بڑھا۔ ان میں سے ایک شخص نے شام کا رخ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:( کاش مجھے معلوم ہوتا کہ ان ( ابدال ) کے پاس سے قافلہ گز را ) ۔ اس اثر کو ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں نقل کیا۔
نیز بطریق سیف بن عمر عن محمد طلحہ اور سہل تخریج کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں : حضرت عمر . نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہما کو خط ارسال فرمایا : ( جب تم ان شاء اللہ دمشق سے فارغ ہو جاؤ تو اہل عراق کو عراق کی طرف روانہ کر دینا، یقینا میرے دل میں اس بات کا القا ہوا ہے کہ عنقریب تم لوگ اسے فتح کر لو گے، پھر تم اپنے بھائیوں سے ملو گے اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کرو گے ) مختلف شہروں اور گوشوں سے آنے والے قوافل(قافلہ کی جمع) اور زائرین کی وجہ سے خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں ہی قیام فرما تھے۔ جب حضرت عمر کسی جماعت کو شام کی طرف روانہ کرتے تو فرماتے : ( کاش مجھے ابدال کے بارے میں معلوم ہوتا! کہ سواران کے پاس سے گزرے ہیں یا نہیں ؟ اور جب عراق کی جانب کسی جماعت کو روانہ کرتے تو فرماتے ( کاش مجھے معلوم ہوتا کہ اس جماعت میں کتنے ابدال ہیں ؟ ) (تاریخ دمشق امام ابن عساکر باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال)

حديث

حدیث علی رضی اللہ عنہ
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی مسند میں فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنِي شُرَيْحٌ – يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدٍ -، قَالَ: ذُكِرَ أَهْلُ الشَّامِ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَهُوَ بِالْعِرَاقِ، فَقَالُوا: الْعَنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ. قَالَ: لَا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ، وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهُ رَجُلًا، يُسْقَى بِهِمُ الْغَيْثُ، وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ، ‌وَيُصْرَفُ ‌عَنْ ‌أَهْلِ ‌الشَّامِ بِهِمِ الْعَذَابُ (مسند أحمد)
ترجمہ:حضرت شریح بن عبید رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ” عراق میں حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے اہل شام کا ذکر ہوا تو لوگوں نے کہا اے امیر المومنین ! آپ ان پر لعنت بھیجئے ! حضرت علی نے فرمایا: نہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : شام میں چالیس ا بدال رہتے ہیں ، جب ان میں سے کوئی ایک انتقال فرما تا ہے تو اللہ تعالی اس کی جگہ دوسرے شخص کو اس مقام پر فائز فرمادیتا ہے، اللہ تعالی ان کے صدقہ وتوسل سے اہل شام کو بارش سے سیرابی، د شمنوں پر فتح و غلبہ اور عذاب سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اس سند میں سوائے شریح بن عبید کے۔ جو کہ ثقہ راوی ہیں۔ تمام رجال صحیح کے رجال ہیں ۔

حديث

حديث على رضی اللہ تعالی عنہ کا دوسرا طریق
ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی اپنی تاریخ میں نقل فرماتے ہیں:
أنبأناه أبو القاسم علي بن إبراهيم الحسيني نا عبد العزيز بن أحمد الكتاني أنا أبو محمد بن أبي نصر أنا الحسن بن حبيب نا زكريا بن يحيى نا الحسن بن عرفة نا إسماعيل بن عياش عن صفوان بن عمرو السكسكي عن شريح بن عبيد الحضرمي قال ذكر أهل الشام عند علي بن أبي طالب فقالوا يا أمير المؤمنين العنهم فقال لا إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنّ الأَبْدَالَ بالشّامِ يَكُونونَ وهُمْ أرْبَعُونَ رَجُلاً بِهِمْ تُسْقَوْنَ الغَيْثَ وبِهِمْ تُنْصَرُونَ على أعْدَائِكُمْ ويُصْرَفُ عنْ أهْلِ الأَرْضِ البَلاءُ والغَرَقُ (تاریخ دمشق ، امام ابن عساکر باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال الذين)
ترجمہ:حضرت شریح بن عبید حضرمی سے روایت ہے: حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے اہل شام کا ذکر ہوا تو لوگوں نے کہا اے امیر المومنین ! آپ ان پر لعنت بھیجے احضرت علی نے فرمایا: نہیں ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شام میں چالیس ابدال رہتے ہیں، ان کے صدقہ توسل سے تمہیں بارش سے سیرابی، دشمنوں پرغلبہ و نصرت عطا کی جاتی ہے نیز اہل زمین سے بلاؤں اور سیلاب کو پھیر دیا جاتا ہے۔“
امام ابن عسا کر فرماتے ہیں: ” اس روایت میں حضرت شریح اور حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہما ) کے درمیان انقطاع ہے کیونکہ حضرت شریح کی حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہما ) سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔

حديث

حديث على رضى الله تعالى عنہ كا تيسرا طريق ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ تعالى كتاب الأولياء “ میں نقل فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، نا أَبُو الْحُسَيْنِ الْوَاسِطِيُّ خَلَفُ بْنُ عِيسَى، نا يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: نا مُجَاشِعُ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنِ ابْنِ هُبَيْرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زُرَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّه صلى الله عليه وسلم عَنِ الْأَبْدَالِ، قَالَ: هُمْ سِتُّونَ رَجُلًا قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جَلِّهِمْ لِي قَالَ: ‌لَيْسُوا ‌بِالْمُتَنَطِّعِينَ، وَلَا بِالْمُبْتَدِعِينَ، وَلَا بِالْمُتَنَعِّمِينَ، لَمْ يَنَالُوا مَا نَالُوه بِكَثْرَةِ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ وَلَا صَدَقَةٍ، وَلَكِنْ بِسَخَاءِ الأنَّفْسِ، وَسَلَامَةِ الْقُلُوبِ، وَالنَّصِيحَةِ لِأَئِمَّتِهِمْ (الأولياء، امام ابن أبي الدنيا باب صفات أولياء الله )
ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے ابدال کے متعلق پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ” وہ اللہ تعالی کے ساٹھ (60) برگزیدہ بندے ہیں ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! مجھے ان کے متعلق بتائیے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” وہ اہل غلو، نہ اہل بدعت اور نہ ہی غور و خوض ( فالتو بکواس ) کرنے والے ہیں ۔ انھوں نے جو مقام پایا ہے وہ نماز، روزہ اور صدقات کی کثرت کی وجہ سے نہیں پایا ، بلکہ سخاوت نفس، سلامتی قلب اور اپنے ائمہ کے لئےنصیحت و خیر خواہی رکھنے کی وجہ سے پایا ہے ۔“
امام خلال نے اس روایت کو کرامات الأولياء “ میں بیان کیا ہے، اور المتعمقین“ کی جگہ “المعجبین “ (اترانے والے ) کا لفظ نقل کیا ہے ۔ نیز انہوں نے ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی کیا ہے : (( اے علی میری امت میں ان ( ابدال ) کی تعداد سرخ سونا ( یا یا قوت ) سے بھی کم ہے ۔

حديث

حديث على رضي الله تعالی کا جوتها طريق امام طبرانی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں:
ثنا علی بن سعید الرازي ثنا علي بن الحسين الخواص الموصلي، ثنا زيد ابن أبي الزرقاء، ثنا ابن لهيعة، ثنا عياش بن عباس القتباني عن عبد زرير الغافقي عن علي بن أبي طالب أن رسول الله قال: لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشّامِ فَإِنَّ فِيهِمُ الأَبْدَالَ (المعجم الأوسط، امام طبرانی)
ترجمہ:حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اہل شام کو گالی مت دو! بے شک ان کے درمیان ابدال رہتے ہیں ۔ امام طبرانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: اس حدیث کو زید بن ابی زرقاء کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا ہے۔“ امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ” یہ امام طبرانی کا وہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کو ولید بن مسلم نے بھی ابن لہیعہ سے روایت کیا ہے ۔“
پھر سند بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
أنا أبو طاهر محمد بن الحسين أنا أبو عبد الله محمد بن عبد السلام بن سعدان أنا محمد بن سليمان الربعي ثنا على بن الحسين بن ثابت ثنا هشام بن خالد ثنا الوليد بن مسلم ثنا ابن لهيعة به )
پھر آگے فرماتے ہیں: “اس حدیث کو حارث بن یزید مصری نے ابن زریر سے مرفوع کے بجائے حضرت علی سے موقوفاروایت کیا ہے ۔“
فرماتے ہیں :
أخبرناه أبو بكر محمد بن محمد، أنا أبو بكر محمد بن على المقرى، أنا أحمد بن عبد الله بن الخضر ثنا أحمد بن على بن محمد، أنا أبي ، أنا عمر و محمد بن مروان ابن عمر السعيدي ثنا أحمد بن منصور الرمادی ثنا عبد الله بن صالح حدثني أبو شريح أنه سمع الحارث بن يزيد يقول : حدثني عبد الله بن زرير الغافقي أنه سمع على بن أبي طالب يقول: لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشّامِ فَإِنَّ فِيهِمُ الأَبْدَالَ وَسُبُّوا ظَلَمَتَهُمْ (تاریخ دمشق، امام ابن عساکر باب النهي عن سب أهل الشام )
ترجمہ:حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے : اہل شام کو گالی مت دو ! بے شک ان کے درمیان ابدال رہتے ہیں، بلکہ ظالموں کو برا کہو ۔“
نوٹ:
اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے ” المستدرک میں بروایت احمد بن حارث بن یزید نقل کیا اور فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے۔“
امام ذہبی رحمہ اللہ تعالی نے بھی اپنی المختصر میں اس کا اقرار کیا ہے ۔ (المستدرك على الصحيحين، امام حاکم )

حديث

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی موقوف حدیث کا ایک اور طریق امام ابن عساکر سے لیکر ابو عمر و السعیدی تک )
ابو عمر السعیدی فرماتے ہیں:
ثنا زیاد بن بھی أبو الخطاب، ثنا أبو داود الطيالسي عن الفرج بن فضالة، ثنا عروة ابن رويم اللخمي عن رجاء بن حيوة عن الحارث بن حومل. عن على بن أبي طالب قال لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشّامِ فَإِنَّ فِيهِمُ الأَبْدَالَ
ترجمہ:حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے : اہل شام کو گالی مت دو! بے شک ان کے درمیان ابدال رہتے ہیں ۔

حديث

وقال الحارث: يَا رجاء اذْكُرْ لِي رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ مِنْ أَهْلِ بَيْسَانَ فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى اخْتَصَّ أَهْلَ بَيْسَانَ بِرَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ مِنَ الْأَبْدَالِ، لَا يَمُوتُ وَاحِدٌ إِلَّا أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ وَاحِدًا، وَلَا تَذْكُرْلی مِنْهُمَا مُتَمَاوِتًا وَلَا طَعَّانًا عَلَى الْأَئِمَّةِ فَإِنَّهُ لَا يَكُونُ مِنْهُمَا الْأَبْدَالُ (تاریخ دمشق، امام ابن عساکر باب النهي عن سب أهل الشام .)
ترجمہ
حضرت حارث نے حضرت رجاء سے کہا:” اے رجاء! مجھے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے اہل بیسان میں دو برگزیدہ بندوں کو ابدالیت کے ساتھ خاص فرمایا ہے کہ جیسے ہی ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوتا ہے اللہ تعالی اس کی جگہ کسی دوسرے کو ابدال مقرر فرمادیتا ہے۔ لہذا مجھے میسان کے ان دو برگزیدہ بندوں کی نشان دہی فرمائیے۔ پر ہاں ابتکلف مردہ اور کمزور و ناتواں نیز ائمہ پر طعن کرنے والے کے بارے میں مجھ سے مت کہنا کہ وہ ابدال ہے ۔ اس لئے کہ ان اوصاف سے متصف ہونے والا ابدال نہیں ہو سکتا ۔
نوٹ : فرج بن فضالہ سے اس کے متعدد طرق مروی ہیں ۔

حديث

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی موقوف حدیث کا ایک اور طریق امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ يَوْمَ صِفِّينَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ أَهْلَ الشَّامِ، قَالَ: فَقَالَ عَلِيٌّ:لَا تَسُبَّ أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غَفِيرًا، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ( الأولياء، امام ابن أبي الدنيا ، باب من كرامات إسحاق بن أبي نباتة، )
ترجمہ:عبد اللہ بن صفوان سے روایت ہے کہ جنگ صفین کے دن ایک شخص نے کہا: اے اللہ! اہل شام پر لعنت فرما۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ( اہل شام کو گالی مت دو، بے شک شام میں ابدال رہتے ہیں۔ بے شک شام میں ابدال رہتے ہیں ۔ بے شک شام میں ابدال رہتے ہیں ۔
نوٹ: ۔ اس روایت موقوفہ کوامام بیہقی ، امام خلال اور امام ابن عساکر نے نقل کیا ہے۔ اور امام زہری سے اس کے متعدد طرق مروی ہیں ۔ بعض روایات میں ”عبد اللہ بن صفوان “ کی جگہ صفوان بن عبد الله ” نیز بعض روایات میں عن الزهري عن أبي عثمان بن سنة عن علي اور بعض میں ” عن الزهري عن علي وارد ہے۔

حديث

حضرت علی رضی اللہ تعالى عنہ كى موقوف حدیث کا ایک اور طریق یعقوب بن سفیان فرماتے ہیں:
ثنا یحی بن عبد الحميد، ثنا شريك، عن عثمان بن أبي زرعة، عن أبي صادق قال: سمع على رجلاً و هو يلعن أهل الشام، فقال على: لاتعمم فإن فيهم الأبدال (تاریخ دمشق، امام ابن عساكر باب النهي عن سب أهل الشام )
ترجمہ:حضرت علی نے ایک شخص کو اہل شام پر لعنت بھیجتے ہوئے سنا، تو حضرت علی ﷺ نے فرمایا: عمومی اهنت مت کرو، بیشک ان میں ابدال بھی ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی کی موقوف حدیث کا ایک اور طریق امام ابن عساکر رحم الله تعالی فرماتے ہیں:
أنبأنا أبو البركات الأنماطي، أنا المبارك ابن عبد الجبار، أنا أبو بكر عبد الباقى بن عبد الكريم بن عمر الشيرازي أنا عبد الرحمان بن عمر بن أحمد بن حمة . أنا أبا بكر محمد بن أحمد بن يعقوب بن شيبة ثنا جدی ثنا عثمان بن محمد، ثنا جرير، عن الأعمش، عن حبيب بن أبي ثابت، عن أبي الطفيل قال : خطبنا على فذكر الخوارج فقام رجل فلعن أهل الشام فقال له : ويحك لا تعمم فإن منهم الأبدال و منكم العصب (تاریخ دمشق، امام ابن عساکر باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال )
ترجمہ:حضرت ابوطفیل سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں خطاب فرمایا اور خوارج کا ذکر کیا، تو ایک ۔ شخص کھڑا ہوا اور اہل شام پر لعنت بھیجنے لگا، تو حضرت علی نے ڈانٹتے ہوئے فرمایا:عمومی لعنت مت کرو، بیشک ان (اہل شام ) میں ابدال ہیں اور تم میں برگزیدہ لوگ ہیں ۔“

حديث

بسند سابق حضرت ابو عمر و السعیدی تک ) حضرت ابو عمر والسعیدی فرماتے ہیں :
ثنا الحسین بن عبد الرحمن أنا وكيع عن فطر، عن أبي الطفيل عن على ﷺ قال:الأبدال بالشام والنجباء بالكوفة .
ترجمہ:حضرت ابوطفیل سے مروی ہے کہ حضرت علی نے فرمایا : شام میں ابدال ، اور کوفہ میں نجباء رہتے ہیں ۔”

حديث

امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
أنبأنا أبو الغنائم ، عن محمد ابن علی بن الحسن الحسنى، ثنا محمد بن عبد الله الجعفى ثنا محمد بن عمار العطار ، ثنا على ابن محمد بن حبية، ثنا عمر و بن حماد بن طلحة ثنا إسحاق بن إبراهيم الأزدى عن فطر. عن أبي الطفيل عن على قال:إذا قام قائم آل محمد جمع الله له أهل المشرق، وأهل المغرب فيجتمعون كما يجتمع فرع الخريف، فأما الرفقاء فمن أهل الكوفة. وأما الأبدال فمن أهل الشام . (تاریخ دمشق، امام ابن عساكر باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال)
ترجمہ:حضرت ابو طفیل سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : جب آل محمد کا کوئی فرد کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اہل مشرق واہل مغرب کو اس کے لیے ایسے جمع فرما دیتا ہے جیسے موسم خریف (بہار) کے بادل جمع ہوتے ہیں ، اور رہی بات رفقاء کی تو وہ اہل کوفہ میں سے اور ابدال اہل شام میں سے ہیں ۔

حديث

حضرت علی رضی الله تعالی کی موقوف حدیث کا ایک اور طریق بسند سابق حضرت محمد بن عمار تک ) حضرت محمد بن عمار فرماتے ہیں :
ثنا جعفر بن علی بن نجيح ثنا حسن بن حسين، عن على بن القاسم عن صباح بن يحي المزني عن سعيد بن الوليد الهجرى عن أبيه قال: قال على: ألا إن الأوتاد من أبناء الكوفة ومن أهل الشام أبدال (تاریخ دمشق ، امام ابن عساكر باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال)
ترجمہ:حضرت سعید بن ولید ہجری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : خبردار! او تا داہل کوفہ میں اور ابدال اہل شام میں سے ہیں ۔“

حديث

حضرت علی رضی اللہ تعالی کی موقوف حدیث کا ایک اور طریق امام خلال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
ثنا علی بن عمر و بن سهل الحريري، ثنا علي بن محمد بن كلس ثنا الحسن بن علی بن عفان، ثنا زيد بن الحباب حدثني ابن لهيعة. عن خالد بن يزيد السكسكي عن سعيد بن أبي هلال، عن على قال:قبة الإسلام بالكوفة والهجرة بالمدينة، والنجباء بمصر، والأبدال بالشام و هم قليل (تاریخ دمشق ، امام ابن عساكر باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال)
ترجمہ:حضرت سعید بن ابی ہلال حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: گنبد اسلام کوفہ میں ہجرت مدینہ میں، نجباء مصر میں اور ابدال شام میں ہیں اور ان ابدال کی تعداد بہت کم ہے۔“ امام ابن عساکر نے اس روایت کی تخریج بطریق ابوسعید بن اعرابی عن الحسن بن عفان کی ہے۔

حديث

حضرت علی رضی اللہ تعالی کی موقوف حدیث کا ایک اور طریق امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
أنا نصر بن أحمد بن مقاتل، عن أبي الفرج سهل بن بشر الأاسفرايين أنا أبو الحسن على بن منير بن أحمد الخلال، أنا الحسن بن رشيق ثنا أبو على الحسين بن حميد العك، ثنا زهير بن عباد ثنا الوليد بن مسلم عن الليث بن سعد، عن عياش بن عباس القتباني أن على بن أبي طالب قال:الأبدال من الشام والنجباء من أهل مصر والأخيار من أهل العراق (تاریخ دمشق، امام ابن عساكر ، باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال )
ترجمہ:حضرت عیاش بن عباس قتبانی سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : ” ابدال اہل شام میں ، نجباء اہل مصر میں اور اختیار اہل عراق میں سے ہیں ۔

حديث

حضرت علی رضی اللہ تعالی کی موقوف حدیث کا ایک اور طریق حافظ ابو محمد خلال رحمه الله تعالی کتاب “کرامات الاولیاء میں فرماتے ہیں:
ثنا عبد الله بن عثمان الصفار، أنا محمد بن مخلد الصفار، ثنا أحمد بن منصور زاج ، ثنا حسين بن على عن زائدة، عن عمار الذهبي عن حبيب بن أبي ثابت عن رجل عن على قال: إن الله تعالى ليدفع عن القرية بسبعة مؤمنين يكونون فيها .
ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالی بستی کا دفاع بستی میں رہنے والے سات مومنین کے صدقہ و توسل سے فرماتا ہے۔

حديث

حدیث انس رضی الله تعالی عنہ حکیم ترمذی رحمہ الله تعالى نوادر الأصول میں فرماتے ہیں:
ثنا عمر بن یحی بن نافع الأيلي (ح) نیز ابن عدی، ابن شاہین اور حافظ ابو محمد الخلال رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب كرامات الاولیاء میں فرمایا ہے:
ثنا محمد بن زهير بن الفضل الأيلى ثنا عمر بن يحي بن نافع، ثنا العلاء بن زيدل عن أنس بن مالك عن النبي ﷺ قال: البدلاء أربعون رجلاً إثنان وعشرون بالشام وثمانية عشر بالعراق كلمامات منهم واحد أبدل الله مكانه آخر فإذا جاء الأمر قبضوا كلهم فعند ذالك تقوم الساعة . (. تاریخ دمشق امام ابن عساکر باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال الذين يصرف بهم عن الأمة الأهوال – كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال إمام علاء الدين علي بن حسام الدين المتفى الهندي ( باب لحوق في القطب والأبدال)
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ابدال چالیس ہیں ، ان میں سے بائیس شام میں اور اٹھارہ عراق میں رہتے ہیں ، جب ان میں سے کوئی ایک انتقال کر جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کی جگہ کسی دوسرے کو ابدال مقرر فرمادیتا ہے، اور جب اللہ تعالی کے حکم سے ان سب کی روح قبض کر لی جائے گی تو اسی وقت قیامت بپا ہو جائے گی ۔“

حديث

حدیث انس رضی الله تعالى عنہ کا دوسرا طريق حافظ ابو محمد خلال رحمہ اللہ تعالی کتاب ” كرامات الأولياء “ میں فرماتے ہیں:
أنا أبو بكر بن شاذان ثنا عمر بن محمد الصابوني، ثنا إبراهيم بن الوليد الجشاش ثنا أبو عمر الغدائي ثنا أبو سلمة الخراساني ، عن عطاء عن أنس قال: قال رسول الله : الأبدال أربعون رجلاً وأربعون امراة كلما مات رجل أبدل الله مكانه رجلا وكلما ماتت إمراة أبدل الله مكانها إمرأة (الفردوس بماثور الخطاب امام ابو الشجاع الدیلمی)
ترجمہ:حضرت عطاء رحمہ اللہ تعالی حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” ابدال چالیس مرد اور چالیس عورتیں ہیں، جب کسی ابدال مرد کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کی جگہ دوسرے مرد کو ابدال مقرر فرما دیتا ہے ، اور جب کسی ابدال عورت کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کی جگہ دوسری عورت کو ابدال مقرر فرما دیتا ہے ۔ امام دیلمی رحمہ اللہ تعالی نے مسند الفردوس میں بطریق آخر من ابراہیم بن الولید اس روایت کی تخریج کی ہے
حدیث انس رضی الله تعالى عنہ كاتيسرا طريق امام خلال رحمه الله تعالى ” مكارم الأخلاق میں فرماتے ہیں:
ثنا عبد الله بن یزید بن يعقوب الدقاق ثنا محمد بن عبد العزيز الدينوري ثنا عثمان بن الهيثم ثنا عوف عن الحسن عن أنس أن رسول الله ﷺ قال: إن بدلاء أمتي لم يدخلوا الجنة بكثرة صلاء هم ولا صيامهم ولكن دخلوها بسلامة صدورهم وسخاوة أنفسهم (معجم عساکر امام ابن عساکر)
ترجمہ:حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: “میری امت کے ابدال کثرت صوم و صلاۃ کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں گے، بلکہ اپنے دلوں کی سلامتی اور سخاوت نفس کے سبب جنت میں جائیں گے ۔“ امام ابن عدی رحمه الله تعالی اور امام خلال رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی تخریج کی اور آخر میں لفظ والنصح للمسلمین “ کا اضافہ کیا ہے۔ یعنی ( مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی وجہ سے جنت میں جائیں گے ۔

حديث

حدیث انس رضی اللہ تعالی کا چوتھا طریق امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : میں نے تمام بن محمد کے مخطوط میں پڑھا فرماتے ہیں:
أنا أبو على محمد بن هارون بن شعيب الأنصاری، حدثنا زکریا بن یحی ثنا المنذر بن العباس بن نجيح القرشي حدثني أبي، عن الوليد بن مسلم عن الأوزاعي عن حسان بن عطية ، عن يزيد الرقاشي عن أنس بن مالك عن النبي قال: إن دعامة أمنى عصب اليمن وأبدال الشام وهم أربعون رجلاً . كلما هلك رجل أبدل الله مكانه آخر، ليسوا بالمتماوتين، ولا بالمتها لكين ولا المتناوشين لم يبلغوا ما بلغوا بكثرة صوم ولا صلاة، وإنما بلغوا ذالك با السخاء. وصحة القلوب والمناصحة لجميع المسلمين (تاریخ دمشق، امام ابن عساکر باب العباس بن نجيح ابو الحارث القرشی)
ترجمہ:حضرت یزید الرقاشی رحمہ اللہ تعالی حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میری امت کے سردار و رؤسایمن کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ابدال شام چالیس ہیں جب ان میں سے کوئی ایک انتقال کر جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کی جگہ دوسرے ابدال کو مقرر فرما دیتا ہے یہ ابدال با ہم قتل وجدال اور نیز ہ بازی کرنے والے نہیں ہوتے ، وہ جس مقام تک پہنچے ہیں وہ کثرت صوم و صلاۃ کی بنا پر نہیں بلکہ سخاوت، سلامتی قلب اور تمام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی وجہ سے پہنچے ہیں ۔”
نیز امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
أنبانا أبو الفضل محمد بن ناصر . أنا أحمد بن عبد القادر بن محمد بن يوسف البغدادى أنا أبو الحسن محمد بن علی بن محمد بن صفر الأردى البصري بمكة ثنا أبو محمد الحسن بن على بن الحسن ثنا بكر بن محمد بن سعيد، ثنا نصر بن على ثنا نوح بن قيس عن عبد الملك بن معقل عن يزيد الرقاشي ، عن أنس به.

حديث

حدیث انس رضی الله تعالی عنہ کا پانچواں طریق امام طبرانی رحمہ الله تعالى “الأوسط” میں فرماتے ہیں:
ثنا عن أنس قال : قال رسول الله : لن تخلو الأرض من أربعين رجلاً مثل خليل الرحمن فيهم يسقون و بهم ينصرون ما مات منهم أحد إلا أبد الله مكانه آخر . (المعجم الأوسط ، امام طبراني ، باب من اسمه على ، كنز العمال، باب الحوق في القطب والأبدال)
ترجمہ:حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ز مین کبھی بھی مثل خلیل الرحمن ( حضرت ابراہیم علیہ السلام چالیس بندوں سے خالی نہیں رہے گی ، اہل زمین انہی کی برکتوں سے سیراب کیے جاتے ہیں، اور انہی کی برکتوں سے وہ نصرت یاب ہوتے ہیں۔ ان میں سے جیسے ہی کسی کا انتقال ہوتا ہے اللہ تعالی کسی دوسرے کو اس کی جگہ مقرر فرما دیتا ہے۔“ امام قتادہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: “ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے ایک حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی بھی ہیں۔ امام حافظ ابو الحسن ہیثمی رحمہ اللہ تعالی مجمع الزوائد میں فرماتے ہیں : ” اس حدیث کی سند حسن ہے۔“

حديث

حديث حذيفه بن یمان رضی الله تعالى عنہ امام حکیم ترمذی رحمہ اللہ تعالی “نوادر الأصول میں فرماتے ہیں:
ثنا أبي ثنا سليمان، ثنا إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة عن محمود بن لبيد، عن حذيفة بن اليمان قال: الأبدال بالشام وهم ثلاثون رجلاً على منهاج إبراهيم كلما مات رجل أبدل الله مكانه آخر ، عشرون منهم على منهاج عيسى بن مريم، وعشرون منهم قد أو تو ا من مزامير آل داود ( نوادر الأصول امام م ترمذی، باب في بيان عدد الأبدال وصفاتهم)
ترجمہ:حضرت محمود بن لبید رحمہ اللہ تعالی حضرت حذیفہ بن الیمان رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ
نے فرمایا :
شام میں تیس ابدال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر ہیں جب ان میں سے کوئی ابدال انتقال کر جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کی جگہ کوئی دوسرا ابدال مقرر فرما دیتا ہے، اور ان میں سے بیس حضرت عیسی علیہ السلام کے طریقے پر ہیں، نیز ان میں سےبیس ابدال کو مزامير آل داؤ د عطا کیے گئے ہیں ۔“

حديث

حديث عباده بن صامت رضی الله تعالى عنہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی اپنی مسند میں فرماتے ہیں :
ثنا عبد الوهاب بن عطاء، أنا الحسن بن ذكوان، عن عبد الواحد بن قيس عن عبادة بن الصامت عن النبي ﷺ قال: ((الأبدال في هذه الأمة ثلاثون مثل إبراهيم خليل الرحمن كلما مات رجل أبدل الله مكانه رجلاً (مسند احمد بن حنبل ، / تاریخ دمشق، امام ابن عساکر باب ما جاء ان بالشام يكون الأبدال الذين يصرف بهم عن الأمة الأهوال، )
ترجمہ:حضرت عبادہ بن صامت ، نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس امت میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسے تیس ابدال ہیں جب ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کی جگہ کسی دوسرے کو ابدال مقرر فرمادیتا ہے۔“ اس حدیث کو حکیم ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے نوادر الأصول “ میں اور امام خلال رحمہ اللہ تعالی نے کرامات الأولياء ” میں نقل کیا ہے ۔ اس حدیث میں سوائے راوی عبد الواحد – امام عجلونی اور امام ابوزرعہ نے ان کی توثیق فرمائی ہے۔ تمام رجال صحیح کے رجال ہیں ۔

حديث

حديث عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی کا دوسرا طریق امام طبرانی رحمہ اللہ تعالی الکبیر میں فرماتے ہیں:
ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني محمد بن الفرح ، ثنا زيد بن الحباب. أخبرني عمر البزار ، عن عبيسة الخواص، عن قتادة عن أبي قلابة، عن أبي الأشعث عن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله :الأبدال في أمتى ثلاثون بهم تقوم الأرض وبهم تمطرون، وبهم تنصرون (الجامع الكبير، امام السيوطي ، حرف الهمزه ، )
ترجمہ:حضرت عبادہ بن صامت ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں تیس ابدال ہیں ، انہیں کی برکتوں سے زمین کا قیام برقرار ہے، انہیں کی برکتوں سے تم کو بارش سے سیرابی اور نصرت و امداد ملتی ہے ۔“ حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ” مجھے امید ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی بھی ان میں سے ایک ہیں ۔

حديث

حديث عبد الله بن عباس رضی الله تعالى عنہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی ”الزہد میں فرماتے ہیں:
ثنا عبدالرحمن ثنا سفیان. عن الأعمش عن المنهال بن عمر عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال: ما خلت الأرض من بعد نوح من سبعة يدفع الله بهم عن أهل الأرض.
ترجمہ:حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ تعالی حضرت ابن عباس رضی الله تعالی عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت نوح علیہ السلام کے بعد زمین سات ایسے افراد سے کبھی خالی نہیں رہی جن کے صدقہ اللہ تعالی اہل زمین کا دفاع فرماتا ہے۔“ اس حدیث کی تخریج امام خلال رحمہ اللہ تعالی نے کی ہے۔

حديث

حديث عبد الله بن عمر رضي الله تعالى عنهما امام طبرانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
ثنا محمد بن الخزر الطبراني ثنا سعيد بن أبي زیدون، ثنا عبد الله ابن هارون الصورى ثنا الأوزاعي عن الزهري، عن نافع عن ابن عمر قال: قال رسول الله : خيار أمتى فى كل قرن خمسمائة، والأبدال أربعون فلا الخمسمائة ينقصون ولا الأربعون كلما مات رجل أبدل الله من الخمسمائة مكانه وأدخل من الأربعين مكانه قالوا : يا رسول الله ! دلنا على أعمالهم قال : يعفون عمن ظلمهم ويحسلون إلى من أساء اليهم ويتواسون فيما آتاهم الله
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہر زمانہ میں میری امت کے درمیان پانچ سو برگزیدہ بندے اور چالیس ابدال ہوں گے، وہ پانچ سو برگزیدہ بندے کبھی کم ہوں گے اور نہ ہی وہ چالیس ابدال کبھی کم ہوں گے، جب ان چالیس ابدال میں سے کسی ایک کا انتقال ہوتا ہے، تو اللہ تعالی ان پانچ سو میں سے ایک کو مقام ابدالیت عطا کر دیتا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں بتائیے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’ وہ وہ لوگ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو معاف کر دیتے ہیں، اپنے ساتھ بر اسلوک کرنے والوں پر احسان کرتے ہیں اور اللہ تعالی نے جو کچھ انہیں عطا کیا ہے اس کے ذریعہ وہ ایک دوسرے کی مددکرتے ہیں۔“‘ اس حدیث کی مذکورہ بالا طریق سے امام ابونعیم ، تمام اور ابن عساکر نے تخریج کی ہے۔(حلیۃ الاولیاء فی طبقات الاصفیاء، تاریخ دمشق امام ابن عساکر) نیز امام ابن عساکر نے ایک دوسرے طریق کے ذریعہ بھی محمد بن الخزر سے روایت کی ہے، اور اس میں لفظ : “کلمامات “زیادہ ہے۔ (تاریخ دمشق امام ابن عساکر)
امام ابن عساکر نے مزید بطریق سعید بن عبدوس ، عن عبد الله بن ہارون بلفظ كلمامات أحد أبدل الله من الخمسمائة مكانه وأدخل في الخمسمائة مكانه . جب ان ابدال میں سے کوئی انتقال کر جاتا ہے تو اللہ تعالی ان پانچ سو میں سے ایک کو ابدال بنا کر اس کمی کی تکمیل کر دیتا ہے، اور اس کی وجہ سے جو پانچ سو میں کمی ہوتی ہے، اس کی تکمیل دوسرے کو ان پانچ سو میں داخل کر کے کر دیتا ہے روایت کیا ہے ۔ (تاریخ دمشق، امام ابن عساکر)

حديث

حديث عبد الله بن عمر رضی الله تعالى عنها كا دوسرا طريق:امام خلال رحمه الله تعالى كتاب كرامات الأولياء “ میں فرماتے ہیں:
ثنا أحمد بن محمد بن يوسف ثنا عبد الصمد بن علی بن مكرم ، ثنا محمد بن زكريا الغلابي، ثنا يحي بن بسطام ثنا محمد بن الحارث ثنا محمد بن عبد الرحمن بن البيلماني عن أبيه عن ابن عمر قال: قال رسول الله : لا يزال أربعون رجلاً يحفظ الله بهم الأرض كلما مات رجل أبدل الله مكانه آخر وهم في الأرض كلها . (كنز العمال امام على المتقى الهندي)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہمیشہ چالیس ایسے لوگ موجود رہیں گے جن کے صدقہ و توسل سے اللہ تعالی اہل زمین کی حفاظت فرماتا ہے، جب ان میں کسی کا انتقال ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کی جگہ دوسرے کو مقرر فرما کر اس کمی کی تکمیل کر دیتا ہے، اور وہ (ابدال ) پوری زمین میں پھیلے ہوئے ہیں ۔“

حديث

امام ابونعیم رحمه الله تعالی الحلیہ میں فرماتے ہیں :
ثنا عبد الله بن جعفر ، ثنا إسماعيل ابن عبدالله، ثنا سعيد بن أبي مريم ، ثنا يحيى بن أيوب، عن ابن عجلان، عن عياض ابن عبد الله، عن ابن عمر ، عن النبي ﷺ قال : الكل قرن من أمتى سابقون . (مسند احمد بن حنبل)
ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” میری امت کے اہل سبقت حضرات ہر دور میں ہوں گے ۔ حکیم ترمذی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
حدثنا أبي حدثنا محمد بن الحسن ثنا عبدالله بن المبارك، ثنا ليث بن سعد عن محمد بن عجلان قال: قال رسول الله : فى كل قرن من امتى سابقون (مسند احمد بن حنبل .)

حديث

حديث ابن مسعود رضی الله تعالى محمد امام ابو نعیم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ثنا محمد بن أحمد بن الحسن، ثنا محمد بن السرى القنطري ثنا قيس بن إبرهيم بن قيس السامری، ثنا عبد الرحيم بن يحي الأرمني ثنا عثمان بن عمارة ثنا المعافى بن عمران، عن سفيان الثوري عن منصور، عن إبراهيم عن الأسود عن عبد الله قال : قال رسول الله ﷺ: إن الله عز وجل في الخلق ثلاثمائة قلوبهم على قلب آدم عليه السلام، ولله في الخلق أربعون قلوبهم على قلب موسى عليه السلام والله فى الخلق سبعة قلوبهم على قلب إبراهيم عليه السلام، ولله في الخلق خمسة قلوبهم على قلب جبرئيل عليه السلام والله في الخلق ثلاثة قلوبهم على قلب ميكائيل عليه السلام، والله في الخلق واحد قلبه على قلب إسرافيل عليه السلام، فإذا مات الواحد أبدل الله مكانه من الثلاثة وإذامات من الثلاثة أبدل الله مكانه من الخمسة، وإذا مات من الخمسة أبدل الله مكانه من السبعة. وإذا مات من السبعة أبدل الله مكانه من الأربعين و إذا مات من الأربعين أبدل مكانه من الثلاثمائة، وإذا مات من الثلاثمائة أبدل الله مكانه من العامة فيهم يحي ويميت و يمطر وينبت، ويدفع البلاء قيل لعبد الله بن مسعود: وكيف بهم يحي ويميت قال : لأنهم يسيلون الله إكثار الأمم فيكثرون و يدعون على الجبابرة فيقصمون و يستسقون فيسقون، ويسألون فتنبت لهم الأرض. ويدعون فيدفع : هم أنواع البلام (حلية الأولياء وطبقات الأصفياء ، إمام أبو نعيم ، )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی مخلوق میں تین سو برگزید ہ بندے ایسے ہیں جن کے دل قلب آدم علیہ السلام سے اکتساب فیض کرتے ہیں، اللہ کے چالیس برگزیدہ بندے ایسے ہیں جن کے دل حضرت موسی علیہ السلام کے قلب سے اکتساب فیض کرتے ہیں، اللہ کے سات ایسے برگزیدہ بندے ہیں جن کے دل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل سے اکتساب فیض کرتے ہیں ، اللہ کے پانچ ایسے برگزیدہ بندے ہیں جن کے قلوب حضرت جبریل علیہ السلام کے قلب سے اکتساب فیض کرتے ہیں، اللہ کے تین ایسے برگزیدہ بندے ہیں جن کے دل، قلب میکائیل علیہ السلام سے اکتساب فیض کرتے ہیں اور اللہ کا ایک ایسا جلیل القدر بندہ ہے جس کا دل حضرت اسرافیل علیہ السلام کے قلب سے اکتساب فیض کرتا ہے ۔ جب اس ایک اللہ والے کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کمی کی تین سے تکمیل فرما دیتا ہے جب تین میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ تعالی پانچ میں سے اس کی تکمیل فرما دیتا ہے، جب پانچ میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ تعالی سات میں سے کسی کو اس کی جگہ مقرر فرما دیتا ہے، جب سات میں سے کوئی وفات پاتا ہے تو اللہ تعالی چالیس میں سے ایک کو اس کا بدل بنا دیتا ہے، جب چالیس میں سے کوئی ایک انتقال کرتا ہے تو اللہ تعالی تین سو میں سے کسی ایک کو وہ مقام عطا فرما کر اس کمی کی تکمیل فرماتا ہے اور جب ان تین سو میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ عامہ الناس میں سے کسی کو اس کا بدل بنا دیتا ہے۔ انہیں برگزیدہ بندوں کی برکتوں سے اللہ تعالی مارتا اور جلاتا ہے، انہیں کے توسل سے بارش کا نزول اور پیڑ پودے اگاتا ہے، اور انہیں کی برکتوں سے بہت ساری مصیبتوں کو پھیر دیتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالی ان کے ذریعے کیسے مارتا اور جلاتا ہے؟ فرمایا: کیونکہ وہ اللہ تعالی سے امت کی زیادتی کی دعا کرتے ہیں تو امت کے افراد میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور وہ جابر و ظالم کے لئے دعائے بد کرتے ہیں تو ظالم و جابر کا نام ونشان مٹا دیا جاتا ہے، وہ باران رحمت کی دعا کرتے ہیں تو پانی سے سیراب کر دیا جاتا ہے، وہ بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہوتے ہیں تو زمین ان کے لیے پیڑ پودے اگا دیتی ہے اور وہ دعا کرتے ہیں تو بہت ساری بلائیں نازل کر دی جاتی ہیں ۔ امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی نے اس روایت کی تخریج کی ہے۔

حديث

حديث عبد الله بن مسعود رضى الله تعالى عنہ کا دوسرا طريق امام طبرانی رحمہ الله تعالى ” الکبیر میں فرماتے ہیں :
أنا أحمد بن داؤد المكي، ثنا ثابت بن عياش الأحدب، ثنا أبو رجاء الكلبي ثنا الأعمش عن زيد بن وهب، عن ابن مسعود قال: قال رسول الله : لا يزال أربعون رجلاً من أمتى قلوبهم على قلب إبراهيم عليه السلام يدفع الله بهم عن أهل الأرض يقال لهم الأبدال إنهم لن يدركوها بصلاة ولا صوم ولا بصدقة قالوا : يارسول الله فيم أدركوها قال: بالسخاء والنصيحة للمسلمين (المعجم الكبير، إمام طيراني باب – العين – عبد الله بن مسعود الهذلي )
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله تعالی عنہ سے روایت ہے، آپ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” ہمیشہ میری امت میں چالیس ایسے افراد جنہیں ابدال کہا جاتا ہے۔ رہیں گے جن کے دل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب سے اکتساب فیض کرتے رہیں گے ، اللہ تعالی ان کی برکتوں ے اہل زمین کا دفاع فرماتا ہے، انہوں نے اس مقام کونماز ، روز ہ اور صدقات کی وجہ سے حاصل نہیں کیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ ! پھر کیسے حاصل کیا ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: سخاوت اور مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی وجہ سے ۔“

حديث

حديث عوف بن مالک رضی الله تعالی عنہ امام طبرانی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں:
ثنا أبو زرعة عبد الرحمن ابن عمرو الدمشقى ثنا محمد بن المبارك الصوري ثنا عمر و بن واقد، عن يزيد بن أبي مالك. عن شهر بن حوشب قال : لما فتحت مصر سبوا أهل الشام فأخرج عوف بن مالك رأسه من برنسه، ثم قال: يا أهل مصر أنا عوف بن مالك لا تسبوا أهل الشام فإلى سمعت رسول الله ﷺ يقول : فيهم الأبدال بهم تنصرون و مهم ترزقون (المعجم الكبير ، امام طبرانی باب – العين – عوف بن مالک )
ترجمہ:حضرت شہر بن حوشب فرماتے ہیں : جب مصر فتح ہوا تو لوگ اہل شام کو گالی دینے لگے تو حضرت عوف بن مالک نے چادر سے اپنا سر باہر نکالا اور فرمایا : اے مصر کے لوگو! میں عوف بن مالک ہوں، اہل شام کو گالی مت دو، بے شک میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اہل شام میں ابدال ہیں، انہیں کے توسل سے تمہاری مدد کی جاتی ہے ، اور انہیں کے صدقہ تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔
امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی نے اس روایت کو مذکورہ بالا طریق اور بطریق ہشام بن عمار عن عمر و بن واقد تخریج کی ہے۔ سوائے عمر بن واقد اس اسناد کے سبھی رجال ثقہ ہیں ، جمہور نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے، اور محمد بن مبارک الصوری نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے ۔ نیز شہر بن حوشب کے بارے میں اختلاف ہے۔

حديث

حديث معاذ بن جبل رضی الله تعالى امام ابو عبد الرحمن سلمی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب ”سنن الصوفیة“ میں فرماتے ہیں :
ثنا أحمد بن على بن الحسن ثنا جعفر بن عبد الوهاب السرخسى ثنا عبيد بن آدم، عن أبيه عن أبي حمزة عن ميسرة بن عبدربه عن المغيرة بن قيس عن شهر بن حوشب عن عبد الرحمن بن غنم عن معاذ بن جبل قال: قال رسول الله ﷺ: ثلاث من كن فيه فهو من الأبدال الذين بهم قوام الدنيا وأهلها : الرضا بالقضاء، والصبر عن محارم الله والغضب في ذات الله . (الفردوس بماثور الخطاب، امام دیلمی)
ترجمہ:حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جن کے اندر تین صفات – تقدیر الہی پر رضاء اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے رک جانا ، اور اللہ کے لئے ناراضگی ۔ ہوں تو وہ ان ابدال میں سے ہیں جن کے سبب وجود سے دنیا اور اہل دنیا کا وجود برقرار ہے۔“ امام دیلمی رحمہ اللہ تعالی نے مسند الفردوس میں اس حدیث شریف کی تخریج کی ہے۔

حديث

حديث واثلہ رضی الله تعالى عنہ عن امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
قرئ على أبي محمد بن الأكفاني وأنا اسمع عبدالعزيز بن أحمد، أنا عبد الوهاب بن جعفر الميدالي، أنا ابو الحارث أحمد بن محمد بن عمارة بن أبي الخطاب الليثى الدمشقى ثنا أبو سهل سعيد ابن الحسن الأصبهاني ثنا محمد بن أحمد بن إبراهيم ثنا هشام بن خالد الأزرق، ثنا الوليد بن مسلم ثنا ابن جابر، عن عبد الله بن عامر، عن واثلة بن الأسقع قال: قال رسول الله ﷺ :ستكون دمشق فى آخر الزمان أكثر المدن أهن، واكثره أبدالا. وأكثره مساجد، وأكثره زهاداً، وأكثره مالاً ، ورجالاً، وأقله كفاراً، وهي معقل لأهلها . (تاریخ دمشق امام ابن عساكر ، باب ذكر معرفة مساجد البلد)
ترجمہ:حضرت واثلہ بن اسقع رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”آخری زمانے میں دمشق تمام شہروں میں سب سے زیادہ الفت و محبت کرنے والا ، سب سے زیادہ ابدال والا ، سب زیادہ مساجد والا ، سب زیادہ زاہدوں والا ، سب سے زیادہ مال ورجال والا اور سب سے کم کا فر آبادی والا شہر ہوگا اور یہ شہر اپنے باشندوں کے لیے جائے پناہ ہو گا ۔“

حديث

حديث ابو سعید خدری رضی الله تعالى عنه امام بیہقی رحمہ الله تعالى ” شعب الایمان میں فرماتے ہیں:
انا على بن أحمد بن عبدان، أنا أحمد بن عبيد، ثنا ابن أبي شيبة، ثنا محمد بن عمران بن أبي ليل أنا سلمة بن رجاء كوفى ، عن صالح المزى عن الحسن عن أبي سعيد الخدري أو غيره قال: قال رسول الله : أن أبدال أمتى لم يدخلوا الجنة بالأعمال إنما دخولوها برحمة !لله وسخاوة الأنفس وسلامة الصدور، ورحمة لجميع المسلمين (شعب الإيمان، امام بهیقی، تحسين الصلاة والإكثار منها ليلا ونهارا )
ترجمہ:حضرت ابوسعید خدری رضی الله تعالی عنہ یا کسی دوسرے صحابی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:میری امت کے ابدال اعمال کی بنیاد پر جنت میں داخل نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کی رحمت ، سخاوت نفس ، سلامتی صدر، اور تمام مسلمانوں کے ساتھ رحمت والفت کا معاملہ کرنےکی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے ۔ امام تقی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : اس حدیث کو عثمان الدارمی نے ”عن محمد بن عمران روایت کیا اور صرف من ابی سعید بالا نقل کیا ” او غیرہ نہیں کہا۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یہ روایت ” عن صالح المری عن ثابت عن انس ہے ۔

حديث

حديث ابو بريره رضی الله تعالي محمدامام ابن حبان رحمہ الله تعالى ” التاریخ میں فرماتے ہیں:
ثنا محمد بن المسيب، ثنا عبد الرحمن بن المرزوق ثنا عبد الوهاب بن عطاء الخفاف عن محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي قال: لن تخلو الأرض من ثلاثين مثل إبراهيم خليل الرحمن هم تغاثون وبهم ترزقون و بهم تمطرون
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالی عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”زمین خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام جیسے تیس افراد سے کبھی خالی نہیں رہے گی ، ان کے سبب تمہاری مدد کی جاتی ہے، انہیں کے صدقہ و طفیل تمہیں رزق ملتا ہے اور انہیں کی برکتوں سے تم بارش سے سیراب کئے جاتے ہو ۔

حديث

حدیث ابو بريره رضى الله تعالى كا دوسرا طريق امام خلال رحمہ اللہ تعالی نے احمد بن ہشام کو کوفہ لکھ کر بھیجا کہ عبداللہ ابن زیدان نے ان لوگوں سے حدیث بیان کی اور کہا :
ثنا أحمد بن حازم ، ثنا الحکم بن سليمان الحبلى تناسيف بن عمر عن موسى بن أبي عقيل البصرى عن ثابت البناني، عن أبي هريرة قال: دخلت على النبي فقال لى : يا أبا هريرة يدخل على من هذا الباب الساعة رجل من أحد السبعة الذين يدفع الله عن أهل الارض بهم فإذا حبشى قد طلع من ذالك الباب أقرع أجدع على راسه جرة من ماء فقال رسول الله ﷺ : أبا هريرة هو هذا وقال رسول الله ثلاث مرات: مرحبا بيسار وكان يرش المسجد ويكنسه وكان غلاماً للمغيرة بن شعبة . ( تنوير العيش في فضل السودان والحبش، ابن الجوزی باب بسار الأسود )
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے ابوہریرہ ابھی اس دروازے سے ایک شخص داخل ہو کر میرے پاس آئے گا، وہ شخص ان سات برگزید و بندوں میں سے ایک ہے جن کے سبب اللہ تعالی اہل زمین کا دفاع فرماتا ہے تبھی ہے ایک گنجا اورنک کٹا حبشی شخص ۔ مغیرہ بن شعبہ کا غلام سر پر پانی کا ایک گھڑا لئے ہوئے اس دروازے سے داخل ہوئے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے ابو ہریرہ ! یہی وہ شخص ہے اس کے بعد آپ ﷺ نے تین مرتبہ ” اے یسارا خوش آمدید فرمایا، وہ شخص مسجد میں چھڑکاؤ ، اور جھاڑو لگایا کرتے تھے۔

حديث

حديث ابو درداء رضی الله تعالى عنہ امام حکیم ترمذی رحمہ اللہ تعالی “نوادر الاصول” میں فرماتے ہیں:
ثنا عبدالرحیم ابن حبيب ثنا داؤد بن محبر، عن ميسرة، عن أبي عبد الله الشامي عن مكحول، عن أبي الدرداء قال: أن الأنبياء كانوا أوتاد الأرض، فلما انقطعت النبوة أبدل الله مكانهم قوماً من أمة محمد يقال لهم الأبدال لم يفضلوا الناس بكثرة صوم، ولا صلاة، ولا تسبيح، ولكن بحسن الخلق، وبصدق الورع، وحسن النية. وسلامة قلوبهم لجميع المسلمين، والنصيحة لله (نوادر الاصول، حکیم ترمذی باب في بيان عدد الأبدال و صفاتهم)
ترجمہ:حضرت ابو درداء رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: ” انبیا علیہم الصلاۃ و السلام زمین کے اوتاد ہوا کرتے تھے، جب نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا تو اللہ تعالی نے امت محمد ﷺ میں سے ایسے لوگوں کو ان کا جانشین بنا دیا جن کو ابدال کہا جاتا ہے، ان کو لوگوں پر کثرت صوم و صلاۃ اور تسبیح کی وجہ سے فضیلت حاصل نہیں ہوئی ، بلکہ حسن خلق ، صدق ورع ، حسن نیت ، تمام مسلمانوں کے تعلق سے سلامتی قلب اور اوامر و نواہی الہی پر صدق دل سے عمل پیرا ہونے کی وجہ ہے۔“

حديث

حدیث ام سلمه رضى الله تعالى عنها امام ابو داؤد رحمہ اللہ تعالی اپنی سنن میں فرماتے ہیں:
ثنا محمد بن المثنى، ثنا معاذ بن هشام حدثني أبي عن قتادة عن صالح أبي الخليل عن صاحب له عن ام سلمة زوج النبي عن النبي ﷺ قال: يكون اختلاف عند موت خليفة فيخرج رجل من المدينة هارباً إلى مكة، فيأتيه ناس من أهل مكة، فيخرجونه وهو كاره. فيبايعونه بين الركن والمقام ويبعث اليه بعث من الشام، فيخسف بهم بالبيداء بين مكة والمدينة، فإذا ر أى الناس ذالك أتوا أبدال الشام وعصائب أهل العراق فيبا يعونه . (سنن ابی داود، امام ابو داود)
ترجمہ:ام المومنین زوجہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی کریم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ” ایک خلیفہ کے انتقال پر لوگوں کے درمیان اختلاف رونما ہوگا ، اس وقت مدینہ منورہ سے ایک شخص بھا گتا ہوا مکہ مکرمہ جائے گا ، اہل مکہ اس کے پاس آئیں گے، اور اس کے ہاتھ پر رکن یمانی و مقام ابراہیم کے درمیان بیعت ہوں گے نیز اس کے نہ چاہتے ہوئے لوگ اس کو مکہ مکرمہ سے نکلنے پر مجبور کریں گے، اور شام سے اس کی طرف ایک فوج روانہ کی جائے گی جو مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام بیداء پر دھنسا دی جائے گی ، جب لوگ یہ صورت حال دیکھیں گے تو وہ لوگ اور اہل عراق کی ایک جماعت ابدال شام کے پاس آئیں گے، اور اس کے ہاتھ پر بیعت ہوں گے۔
اس حدیث شریف کی امام احمد نے اپنی مسند ، ابن ابی شیبہ نے المصنف” میں نیز امام ابو یعلی ، امام حاکم اور امام بیہقی رحمہم اللہ نے تخریج کی ہے، اور امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی نے اپنے بعض طرق میں مبہم شخص کا نام ” مجاہد اور بعض میں ” عبد اللہ بن الحارث ذکر کیا ہے۔

حديث

حسن بصری رحمۃ الله کی حدیث مرسل امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ تعالی “کتاب السخاء میں فرماتے ہیں:
ثنا اسماعیل بی إبراهيم بن بسام تناصالح المزى عن الحسن أن رسول الله قال: إن بدلاء أمتى لم يدخلوا الجنة بكثرة صلاتهم ولا صيامهم ولكن دخلوها بسلامة الصدور وسخاوة انفسهم – ( شعب الایمان، امام بیہقی، باب الجود و السخاء)
ترجمہ:حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” میری امت کے ابدال اپنی کثرت نماز اور روزہ کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے، بلکہ سلامتی صدر اور سخاوت قلب کی وجہ سے داخل ہوں گے۔”
امام تقی رحمہ اللہ تعالی نے شعب الایمان” میں اس مرسل روایت کی تخریج عن ابی عبدا الله الحافظ عن أبي حامد أحمد بن محمد بن الحسين عن داود بن الحسين عن يحي بن يحي عن صالح عن المزی بہ کے طریق سے لی ہے۔
امام حکیم ترمذی نے اس کی تخریج نوادر الأصول میں یوں کی ہے۔
ثنا أبي ثنا عبد العزيز ابن المغيرة البصري ثنا صالح المزى عن الحسن قال: قال رسول الله ﷺ :
إن بدلاء أمتى لم يدخلوا الجنة بكثرة صوم، ولا صلاة ولكن دخولوها برحمة الله وسلامة الصدور، وسخاوة الأنفس والرحمة بجميع المسلمين (نوادر الأصول، حکیم ترمذی باب في بيان عدد الأبدال و صفاتهم )

حديث

عطاءر حمہ اللہ تعالی کی حدیث مرسل امام ابو د اؤ درحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
ثنا محمد بن عيسى بن الطباع ثنا ابن فضيل عن أبيه، عن الرجال بن سالم عن عطاء قال: قال رسول الله : الأبدال من الموالى
ترجمہ:حضرت عطار حمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” ابدال موالی (غلاموں )میں سے ہیں ۔ امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے اسے” الکنی“ میں روایت کیا ہے۔

حديث

بكر بن خنيس رحمہ الله تعالی کی حدیث مرسل امام ابن ابی د نیار حمہ الله تعالی ”کتاب الأولياء “ میں فرماتے ہیں :
حدثني عبد الرحمن بن صالح الأزدى ثنا عبد الرحمن بن محمد المحاربي عن بكر بن خنيس يرفعه : علامة أبدال أمتى أنهم لا يلعنون شيئا أبداً . (كتاب الأولياء، ابن أبي الدنيا ، باب صفات الأوليا)
ترجمہ:حضرت بکر بن خنیس رحمہ اللہ تعالی مرفو عا روایت کرتے ہیں: میری امت کے ابدال کی پہچان یہ ہے کہ وہ کبھی کسی چیز پر لعنت نہیں کرتے “

آثارعلى وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال

اثر حسن بصری رحمہ الله تعالى

امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی نے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی کی روایت تخریج کی ہے، آپ فرماتے ہیں:
لَنْ تَخْلُوَ الأَرْضُ مِنْ ‌سَبْعِينَ ‌صِدِّيقًا، وَهُمُ ‌الأَبْدَالُ، لَا يَهْلِكُ مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا أَخْلَفَ مَكَانَهُ مِثْلَهُ؛ أَرْبَعُونَ بِالشَّامِ، وَثَلَاثُونَ فِي سَائِرِ الأَرْضِينَ (تاریخ دمشق این عساکر باب ماجا أن بالشام يكون الأبدال)
ترجم:زمین کبھی بھی ستر صدیقوں سے خالی نہیں رہے گی، اور یہی لوگ ابدال ہیں، ان میں سے جوں ہی کسی کا انتقال ہوتا ہے اللہ تعالی اس کی جگہ اس کے مثل کو مقرر کر دیتا ہے، چالیس ابدال شام میں اور تیس پوری روئے زمین میں ہیں ۔

اثر قتاده رحمه الله تعالى

امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی نے حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالی سے روایت کی ہے، آپ فرماتے ہیں:
لَنْ تخلوا الأَرْضُ مِنْ أَرْبَعِينَ بِهِمْ ‌يُغَاثُ ‌النَّاسُ، وَبِهِمْ يُنْصَرُونَ، وَبِهِمْ يُرْزَقُونَ، كُلَّمَا مَاتَ مِنْهُمْ أَحَدٌ بُدِّلَ مَكَانَهُ رَجُلٌ. قَالَ قَتَادَةَ: وَاللهِ! إِنِّي لأَرْجُو أَنْ يَكُونَ الْحَسَنُ مِنْهُمْ ( تاریخ دمشق، ابن عساكر ، باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال )
ترجمہ:چالیس ایسے لوگوں سے زمین کبھی بھی خالی نہیں رہے گی جن کے سبب لوگوں کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں نیز جن کے صدقہ وطفیل امداد و نصرت اور رزق عطا کیا جاتا ہے ، جب ان میں سے کوئی انتقال کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی جگہ کسی دوسرے کو مقرر فر ما دیتا ہے۔“ حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ” خدا کی قسم ! مجھے پوری امید ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی انہی میں سے ہیں ۔“

اثر خالد بن معدان رحمه الله تعالی

امام ابن عساکر اور امام خلال رحمہ اللہ نے خالد بن معدان کی روایت تخریج کی ہے، آپ فرماتے ہیں :
قَالَتِ الأَرْضُ لِلرَّبِّ تبارك وتعالى: كَيْفَ تَدَعُنِي وَلَيْسَ عَلَيَّ نَبِيٌّ قَالَ: ‌سَوْفَ ‌أَدَعُ ‌عَلَيْكِ أرْبَعِينَ صِدِّيقًا بِالشَّامِ ( تاریخ دمشق، ابن عساكر ، باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال )
ترجمہ:زمین نے عرض کیا کہ اے میرے رب ! تو مجھے اس حال میں کیسے چھوڑ دے گا کہ میرے او پر ایک بھی نبی نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں عنقریب تیرے اوپر شام میں چالیس صدیقین کو چھوڑوں گا۔

اثر شہر بن حوشب رحمه الله تعالى

امام ابن جریر رحمہ اللہ تعالی نے اپنی تفسیر میں شہر بن حوشب سے روایت کی ہے، آپ فرماتے ہیں
: لَمْ تَبْقَ أَرْضٌ إِلَّا وَفِيهَا أَرْبَعَةَ عَشَرَ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِمْ عَنْ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَّا زَمَنَ إِبْرَاهِيمَ عليه السلام ‌فَإِنَّهُ ‌كَانَ ‌وَحْدَهُ (الكشف والبيان عن تفسير القرآن، أبو إسحاق أحمد بن إبراهيم الثعلبي)
ترجمہ: کبھی بھی زمین چودہ ایسے لوگ سے خالی نہیں رہی ۔سواے زمانہ ابراہیم علیہ السلام کہ وہ اپنے زمانہ میں تنہا تھے۔ جن کی برکتوں کے سبب اللہ تعالی اہل زمین کا دفاع کرتا ہے اور زمین کی برکتیں نکالتا ہے۔
ابوالزاہریہ اور ان کے بعد آنے والے حضرات کے آثار
امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی ابوالزاہر یہ رحمہ اللہ تعالی سے روایت کرتے ہیں، آپ فرماتے ہیں :
‌الأَبْدَالُ ‌ثَلَاثُونَ رَجُلًا بِالشَّامِ، بِهِمْ تُجَارُونَ، وَبِهِمْ تُرْزَقُونَ، إِذَا مَاتَ مِنْهُمْ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ عز وجل مَكَانَهُ. (تاریخ دمشق، ابن عساكر ، باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال )
ترجمہ:شام میں تیس ابدال ہیں، اہل شام انہی کی برکتوں سے محفوظ رہتے ہیں، انہی کے صدقہ رزق پاتے ہیں، جب ان میں سے کوئی انتقال کر جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کی جگہ کسی دوسرے کو بدل بنا دیتا ہے۔
نیز ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی نے فضل بن فضالہ رحمہ اللہ تعالی کی روایت تخریج کی ہے ، آپ فرماتے ہیں:
إِنَّ ‌الأَبْدَالَ ‌بِالشَّامِ، ‌فِي ‌حِمْصَ خَمْسَةٌ وَعِشْرونَ رَجُلًا، وَفِي دِمَشْقَ ثَلَاثَةُ عَشَرَ رَجُلًا، وَبِبِيسَانَ اثْنَانِ (تاریخ دمشق، ابن عساكر ، باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال )
ترجمہ:حمص (شام) میں پچیس ، دمشق میں تیرہ اور بیسان میں دوا بدال رہتے ہیں۔
امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی نے حسن بن یحیی خشنی رحمہ اللہ تعالی کی روایت تخریج کی ہے، آپ فرماتے ہیں:
بِدِمَشْقَ مِنَ الأَبْدالِ سَبْعَةُ عَشَرَ نَفْسًا، ‌وَبِبِيسَانَ أَرْبَعَةٌ. (تاریخ دمشق، ابن عساكر ، باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال )
ترجمہ:دمشق میں سترہ اور بیسان میں چار ابدال ہیں ۔
امام ابن ابی خیثمہ و امام ابن عساکر رحمہما اللہ نے ابن شوذب رحمہ اللہ تعالی کی روایت تخریج کی ہے
، آپ فرماتے ہیں:
الأَبْدَالُ سَبْعُونَ، فَسِتُّونَ بِالشَّامِ، وَعَشْرَةٌ ‌بِسَائِرِ الأَرْضِينَ (تاریخ دمشق، ابن عساكر ، باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال )
ترجمہ:ابدال کی تعدا دستر (70) ہے ، ساٹھ شام میں، اور باقی دس پورے روئے زمین میں ہیں ۔
امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی نے بطریق عثمان بن عطا عن ابیہ روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں :
الأبدال ‌أربعون ‌إنساناً. قال: قلت له: أربعون رجلاً قال: لا تقل أربعين رجلاً، ولكن قل أربعين إنساناً، لعل فيهم نساء. (تاریخ دمشق، ابن عساكر ، باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال )
ترجمہ:ابدال چالیس انسان ہیں۔ راوی عثمان کہتے ہیں : میں نے ان سے عرض کیا کہ ابدال چالیس مرد ہیں ۔ اس پر انہوں نے فرمایا : ” چالیس مردمت کہو، چالیس انسان کہو، کیونکہ ان میں عورتیں بھی ابدال ہو سکتی ہیں۔“
امام ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی نے بطریق احمد بن ابو حواری روایت کی ہے ، آپ فرماتے ہیں:
سمعت أبا سليمان يقول: الأبدال بالشام والنجباء بمصر والعصب باليمن والاخيار بالعراق (تاریخ دمشق، ابن عساكر ، باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال )
ترجمہ:میں نے ابوسلیمان کو فرماتے ہوئے سنا: ابدال شام میں نجباء مصر میں، رؤساء وزعماء حضرات یمن میں ، اور اخیار عراق میں ہیں ۔
امام ابن عساکر اور امام خطیب رحمہما اللہ نے بطریق عبید اللہ بن محمد عبسی روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
سمعت الكتاني يقول : النقباء ثلاثمائة والنجباء سبعون والبدلاء أربعون والأخيار سبعة، والعمد أربعة، والغوث واحد، فمسكن النقباء المغرب و مسكن النجباء مصر، ومسكن الأبدال الشام، والأخيار سياحون في الأرض. والعمد في زوايا الارض ومسكن الغوث مكة، فإذا عرضت الحاجة من أمر العامة. ابتهل فيها النقباء ثم النجباء، ثم الأبدال ثم الأخيار، ثم العمد، فإن أجيبوا والا ابتهل الغوث فلا تتم مسألته حتى تجاب دعوته . (تاریخ دمشق، ابن عساكر ، باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال )
ترجمہ:میں نے کتانی رحمہ اللہ تعالی کو فرماتے ہوئے سنا : نقباء تین سو، نجباء ستر ، ابدال چالیس ، اخیار سات ، عما ئد چار اور غوث صرف ایک ہیں ، نقباء کا مسکن مغرب، نجباء کا مسکن ”مصر“ اور ابدال کا مسکن “شام” ہے، اختیار سیاح زمین ہوتے ہیں، عمائد زوایائے ارض میں، اور غوث کا مسکن مکہ مکرمہ ہے، جب عوام کو ضرورت پیش آتی ہے تو پہلے نقباء، پھر نجباء، ان کے بعد ابدال ، ان کے بعد اختیار، ان کے بعد عما ئد گڑ گڑا کر دعا کرتے ہیں ، اگر ان کی دعا قبول ہو گئی تو ٹھیک ، ورنہ غوث جب تک اس کی دعا قبول نہیں ہوتی گڑ گڑا کر دعا کرتے رہتے ہیں ۔“
امام ابن ابی الدنیا ر حمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، ذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الرَّازِيُّ، نا عُثْمَانُ بْنُ مُطِيعٍ، نا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: قَالَ لَنَا أَبُو الزِّنَادِ: «لَمَّا ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَكَانُوا أَوْتَادَ الْأَرْضِ أَخْلَفَ اللَّهُ مَكَانَهُمْ أَرْبَعِينَ رَجُلًا مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم يُقَالُ لَهُمُ الْأَبْدَالُ، لَا يَمُوتُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ حَتَّى يُنْشِئَ اللَّهُ عز وجل مَكَانَهُ آخَرَ يَخْلُفُهُ، وَهُمْ أَوْتَادُ الْأَرْضِ، قُلُوبُ ثَلَاثِينَ مِنْهُمْ عَلَى مِثْلِ يَقِينِ إِبْرَاهِيمَ، لَمْ يَفْضُلُوا النَّاسَ بِكَثْرَةِ الصَّلَاةِ، وَلَا بِكَثْرَةِ الصِّيَامِ، وَلَا بِحُسْنِ التَّخَشُّعِ، وَلَا بِحُسْنِ الْجِبِلَّةِ، وَلَكِنْ بِصِدْقِ الْوَرَعِ، وَحُسْنِ النِّيَّةِ، وَسَلَامَةِ الْقُلُوبِ، وَالنَّصِيحَةِ لِجَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ، بِصَبِرٍ، وَخَيْرٍ، وَبِرٍّ، وَلُبٍّ حَلِيمٍ، وَتَوَاضُعٍ فِي غَيْرِ مَذَلَّةٍ، وَاعْلَمْ أَنَّهُمْ لَا يَلْعَنُونَ شَيْئًا، وَلَا يُؤْذُونَ أَحَدًا، وَلَا يَتَطَاوَلُونَ عَلَى أَحَدٍ تَحْتَهُمْ، وَلَا يَحْقِرُونَهُ، وَلَا يَحْسُدُونَ أَحَدًا فَوْقَهُمْ، لَيْسُوا مُتَخَشِّعِينَ، وَلَا مُتَمَاوِتِينَ، وَلَا مُعْجَبِينَ، وَلَا يُحِبُّونَ الدُّنْيَا، وَلَا يُحِبُّونَ لِلدُّنْيَا، لَيْسُوا الْيَوْمَ فِي خَشْيَةٍ، وَغَدًا فِي غَفَلَةٍ (الأولياء لابن أبي الدنيا)
ترجمہ:حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ابوز ناد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: ” جب نبوت کا دروازہ بند ہو گیا۔ اور انبیاء علیم الصلاة و السلام زمین کے اوتاد ہوا کرتے تھے۔ تو اللہ تعالی ۔ امت محمد ﷺ کے چالیس لوگوں کو ان کا جانشین بنایا، جنہیں ابدال کہا جاتا ہے ، ان میں سے جوں ہی کوئی وفات پاتا ہے اللہ تعالی اس کی جگہ دوسرے شخص کو مقررفرما کر اس کا جانشین بنادیتا ہے اور اب یہی لوگ زمین کے اوتاد ہیں، ان میں سے تیس ابدال کے دلوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے یقین ہے، یہ حضرات بوجہ کثرت صوم و صلاۃ لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں اور نہ ہی حسن خشوع و حسن صورت کی وجہ سے ، بلکہ ان کی افضلیت صدق زہد و ورع ، حسن نیت ، سلامتی قلوب ، خالصاً لوجہ الله تمام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے اور مقام ذلت کے علاوہ ہر جگہ تواضع اختیار کرنے کی وجہ ہے ! یہ حضرات کسی پر لعن وطعن نہیں کرتے ، کسی کو اذیت نہیں پہنچاتے ، اپنے ماتحت میں سے کسی پر زیادتی کرتے اور نہ ہی تحقیر کرتے ، اور اپنے سے اعلی تر شخصیت سے حسد نہیں رکھتے ، وہ دکھاوے کے لیے خشوع اختیار کرتے اور نہ ضعف کا اظہار کرتے ہیں، اتراتے نہیں ، دنیا کی وجہ سے کسی سے محبت کرتے ہیں اور نہ ہی دنیا سے محبت کرتے ہیں ، آج وہ لوگ کسی وحشت میں ہیں اور نہ ہی کل وہ محبت کسی غفلت میں رہیں گے ۔
امام خلال رحمہ اللہ تعالی نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تعالی کا قول نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :
ما من قرية ولا بلدة إلا يكون فيها من يدفع الله به عنهم
ترجمہ:کوئی گاؤں یا شہر ایسا نہیں ہے جس میں کوئی ایسا برگزیدہ بندہ نہ رہتا ہو جس کی وجہ سے اللہ تعالی لوگوں کو مصیبتوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔“
امام خلال رحمہ اللہ تعالی ہی حضرت زادان رحمہ اللہ تعالی سے روایت کرتے ہیں، آپ فرماتے . ہیں:
ما خلت الأرض بعد نوح من اثنى عشر فصاعداً، يدفع الله بهم عن أهل الأرض
ترجمہ:” حضرت نوح علیہ السلام کے بعد زمین بارہ یا اس سے زائد ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہی جن کے طفیل اللہ تعالی اہل زمین کا دفاع کرتا ہے۔“
امام احمد رحمه الله تعالى ” الزھد میں حضرت کعب رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں ، آپ فرماتے ہیں:
ولم یزل من بعد نوح في الأرض أربعة عشر ، يدفع الله بهم العذاب يزل
ترجمہ:حضرت نوح علیہ السلام کے بعد زمین میں چودہ ایسے لوگ ہمیشہ رہے ہیں جن کے صدقہ اللہ تعالی
اہل زمین کو عذاب سے محفوظ رکھتا ہے ۔“
امام ابوالحسین بن المنادی رحمہ اللہ تعالٰی اپنے ایک رسالہ جس میں انہوں نے حضرت خضر علیہ السلام کے احوال جمع کیے ہیں۔ میں فرماتے ہیں:
ثنا أحمد ابن ملاعب، ثنا يحي بن سعيد السعدي، أخبر لي أبو جعفر الكوفي عن أبي عمر النصيبي قال: خرجت أطلب مسألة من مصقلة بالشام، وكان يقال أنه من الأبدال، فلقيته بوادي الأردن فقال لي: ألا أخبرك بشيء رأيته اليوم في هذا الوادى فقلت: بلى قال: دخلت فإذا أنا بشيخ يصلى إلى شجرة، فألقى في روعي أنه إلياس فدنوت منه، فسلمت عليه، فرد علی. فقلت: من أنت يرحمك الله قال: أنا إلياس النبي، فقلت: يا نبي الله هل في الأرض اليوم من الأبدال أحد قال: نعم هم ستون رجلاً منهم خمسون بالشام فيمابين العريش إلى الفرات، ومنهم ثلاثة بالمصيصة. وواحد بأنطاكية، وسائر العشرة في سائر أمصار العرب
ترجمہ:حضرت ابو عمر النصیبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : میں ملک شام حضرت مصقلہ رحمہ اللہ تعالی ۔ جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ابدال ہیں۔ سے ایک مسئلہ معلوم کرنے کے لیے نکلا، وادی اردن میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے فرمایا : کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز کے بارے میں نہ بتادوں جسے میں نے آج ہی اس وادی میں دیکھا ہے؟
میں نے عرض کیا : کیوں نہیں؟
آپ نے فرمایا : میں اس وادی میں داخل ہوا تو اچانک میں نے ایک بزرگ کو ایک درخت کے پاس نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، میرے دل میں القاء ہوا کہ یہ حضرت الیاس علیہ السلام ہیں، لہذا میں ان کے قریب ہوا اور انہیں سلام کیا تو انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا۔
پھر میں نے کہا: اللہ تعالی آپ پر رحمت نازل فرمائے ، آپ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں نبی الیاس ہوں۔
میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! کیا آج دنیا میں کوئی ابدال ہے؟ آپ نے جواب دیا : ہاں ، وہ ساٹھ برگزیدہ بندے ہیں، جن میں سے پچاس عریش اور فرات کے درمیان شام میں، تین مصیصہ میں ، ایک انطاکیہ میں ہیں اور باقی تمام عرب ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں ۔“
امام اسحاق بن ابراہیم علی رحمه الله تعالی “کتاب الدیباج “‘ میں اپنی سند کے ساتھ داوؤد بن یحی مولی عون الطفاوي سے روایت کرتے ہیں، وہ عسقلان کے رہنے والے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس شخص نے کہا:
بينا أنا أسير بالأردن، إذ أنا برجل في ناحية الوادي قائم يصلى فوقع في قلبي إنه إلياس فذكر ما قبله، ولفظه قلت: فكم الأبدال قال: هم ستون رجلاً خمسون ما بين عريش مصر إلى شاطئ الفرات ورجلان بالمصيصة، ورجل بانطاكية وسبعة فى سائر الأمصار بهم تسقون الغيث وبهم تنصرون على العدو، وهم يقيم الله أمر الدنيا، حتى إذا أراد أن يهلك الدنيا أماتهم جميعاً
ترجمہ:میں اردن کی ایک وادی سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے حالت قیام میں پایا میرے دل میں خیال آیا کہ یہ حضرت الیاس علیہ السلام ہیں، پھر اس نے بھی اسی طرح کا واقعہ بیان کیا جو ابھی اوپر بیان ہوا، البتہ اس کے الفاظ یہ ہیں : میں نے عرض کی : ابدال کتنے ہیں؟
انہوں نے جواب دیا: ساٹھ ۔ ان میں سے پچاس عریش مصر سے لے کر ساحل فرات تک کے علاقے میں ، دو مصیصہ میں اور ایک انطاکیہ میں، باقی سات تمام شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں ، ان کے طفیل تمہیں بارش سے سیرابی ، دشمن پر نصرت و غلبہ عطا کیا جاتا ہے اور انہیں کے صدقہ اللہ تعالی امور دنیا کو قائم رکھتا ہے، نیز جب اللہ تعالی دنیا کو ختم کرنا چاہے گا تو ان سب کو موت کی آغوش میں سلا دے گا۔“
امام یا فعی رحمہ الله تعالى – نفعنا الله تعالی ببر کتہ کی کتاب ”کفایة المعتقد“ میں ہے: بعض عارفین نے فرمایا: صالحین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اصلاح دین و دنیا کی غرض سے وہ عوام الناس میں گھل مل کر رہتے ہیں، نجباء باعتبار تعداد صالحین سے کم ہیں، نقباء ان سے بھی کم ہیں میں اور ان کا میل جول خواص سے ہے نیز ابدال نقباء سے کم ہیں وہ بڑے بڑے شہروں میں قیام پذیر ہیں ،شہروں میں وہ ایک کے بعد ایک ہی ہوتے ہیں ، پس خوش خبری ہے ان باشندگان بستی کے لیے جہاں دو ابدال ہوں ۔
یمن ، شام ، مشرق اور مغرب میں ایک ایک اوتاد ہیں، اللہ تعالی قطب کو دنیا کے چاروں گوشوں میں اس طرح گردش کراتا ہے جس طرح آسمان میں بادل گردش کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے قطب غوث کی خاص ذمہ داریوں کے پیش نظر اس کے احوال عام و خاص سے پوشیدہ رکھے ہیں ، مگر وہ دنیا کی ایسے ہی دیکھ بھال کرتے ہیں جیسے ایک جاہل ماہروں کی طرح اپنے اونٹ کی دیکھ بھال کرتا ہے، کہ کبھی چھوڑ دیتا تو کبھی پکڑ کر رکھتا ہے، کبھی دور تو کبھی پاس رکھتا ہے، اورکبھی آسانی تو کبھی سختی کرتا ہے۔
اوتاد کے احوال خواص پر منکشف کر دئیے جاتے ہیں اور ابدال کے احوال خواص و عارفین پر منکشف کر دئیے جاتے ہیں۔
نجباء ونقباء کے احوال خاص طور پر عوام سے مستور رکھے گئے ہیں، البتہ ان کے احوال ایک دوسرے پر منکشف کر دیئے گئے ہیں۔ اللہ تعالی امر مقدر کی تکمیل کے لئے صالحین کے احوال عوام و خواص دونوں پر منکشف فرما دیتا ہے۔
نجبا ، تین سو، نقباء چالیس اور ابدال کی تعداد تیس، چوبیس اور سات بتائی جاتی ہے لیکن صحیح تعداد سات ہے۔ اوتاد کی تعداد چار ہے، جب کوئی قطب انتقال کرتا ہے تو چار میں سے جو سب سے بہتر ہوتا ہے اسے مقام قطبیت عطا کر دیا جاتا ہے ، جب ان چار میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو سات میں سے جو سب سے بہتر ہوتا ہے اسے اس کا جانشین بنادیا جاتا ہے، جب ان سات میں سے کسی کا انتقال کا ہوتا ہے تو چالیس میں سے جو سب سے بہتر ہوتا ہے اسے وہ مقام عطا کر دیا جاتا ہے، جب ان چالیس میں سے کوئی وفات پاتا ہے تو تین سو میں سے جو سب سے بہتر ہوتا ہے اس کو اس مقام پر فائز کر دیا جاتا ہے اور جب تین سو میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو صالحین میں سے سب سے بہتر شخص کو اس کا بدل بنا دیا جاتا ہے ۔ جب اللہ تعالی قیامت لانا چاہے گا تو ان تمام کو موت سے ہمکنار فرما دیگا، انہی مقدس حضرات کے طفیل الله تعالی اپنے بندوں سے بلائیں دور رکھتا ہے اور آسمان سے بارش نازل فرماتا ہے ۔“ پھر فرماتے ہیں: بعض عارفین کا کہنا ہے کہ قطب ہی وہ ” فرد واحد ہے جس کا ذکر حدیث ابن مسعود میں یوں آیا ہے :
أنه على قلب إسرافيل ومكانه من الأولياء كالنقطة في الدائرة التي هي مركز ها به یقع صلاح العالم
ترجمہ:قطب کا دل قلب اسرافیل سے اکتساب فیض کرتا ہے، اور اولیائے کرام کے درمیان ان کا مقام و مرتبہ وہی ہوتا ہے جو دائرے کے اندر مرکزی نقطے کا ہوتا ہے، انہیں کے طفیل دنیا کا قیام برقرار ہے۔
پھر آگے لکھتے ہیں:
بعض عارفین نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں ذکر کیا کہ ان میں سے کسی کا دل آپ ﷺ کے دل کی طرح ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے عالم خلق وامر میں آپ ﷺ کے قلب مبارک سے زیادہ لطیف ، با عزت، اور اشرف ترین دل پیدا ہی نہیں کیا، چنانچہ انبیاء، ملائکہ علیہم الصلاة والسلام اور اولیاء کے دلوں کی حیثیت آپ ﷺ کے قلب اطہر کے سامنے ایسے ہی ہے جیسے تمام ستاروں کی حیثیت کامل ترین سورج کے سامنے ہے۔
امام قشیری رحمہ اللہ تعالی ” الرسالہ ” میں اپنی سند کے ساتھ بلال خواص سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا: میں بنی اسرائیل کی وادی تیہ میں تھا کہ اچانک ایک شخص میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا، میں تعجب میں پڑ گیا، پھر مجھے خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ خضر علیہ السلام ہیں، میں نے حق تعالی کی قسم دے کر پوچھا : آپ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: تمہارا بھائی خضر! میں نے کہا : میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: پوچھو۔ میں نے عرض کی : آپ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : وہ اوتاد ہیں ۔ میں نے عرض کیا : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا : وہ صدیق ہیں۔ میں نے عرض کیا : اور بشر حافی رحمہ اللہ تعالی کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ جواب دیا : ان کے بعد ان کے جیسا پیدا ہی نہیں ہوا۔ میں نے پوچھا: مجھے آپ کی زیارت کس کے صدقہ سے ہوئی ؟ فرمایا: تمہاری اپنی والدہ کی برکت سے ہوئی ہے ۔ (الرساله امام قشیری باب : بشر بن الحارث الحافي)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی ”الزہد میں اور امام ابن ابی الدنیا، امام ابو نعیم ، امام بیہقی نیز امام ابن عساکر رحم اللہ نے وہب بن منبہ کے ہم نشیں سے روایت کی ہے، وہ بیان کرتے ہیں :
رأيت رسول الله فى المنام فقلت : يا رسول الله ! أين بدلاء أمتك، فأوماً بیده نحو الشام، قلت: يارسول الله أما بالعراق منهم أحد قال: بلى محمد بن واسع وحسان بن أبي سنان ومالك بن دينار الذي يمشى في الناس بمثل زهد أبي ذرفی زمانه
ترجمہ:میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا۔ تو میں نے عرض کی :” یارسول اللہ ! آپ کی امت کے ابدال کہاں ہیں ؟ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے شام کی طرف اشارہ فرمایا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! کیا ان میں سے کوئی عراق میں نہیں ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیوں نہیں ! محمد بن واسع ، حسان بن ابی سنان اور مالک بن دینار جو کہ لوگوں کے در میان زاهد زمانہ ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرح چلتے ہیں۔“
امام ابونعیم ، داؤد بن یحیی بن یمان سے روایت کرتے ہیں، آپ فرماتے ہیں:
رَأَيتُ رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي ‌النَّومِ، فَقُلْتُ: ‌يَا ‌رَسُوْلَ ‌اللهِ! ‌مَنِ ‌الأَبْدَالُ? قَالَ: الَّذِيْنَ لَا يَضْرِبُوْن بِأَيْدِيهِم شَيْئاً، وَإِنَّ وَكِيْعاً مِنْهُم (حلیۃ الاولیاء)
ترجمہ:میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا، تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ابدال کون لوگ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارتے اور وکیع بن الجراح انہی میں سے ہیں
احمد امام ابن عساکر رحمہ للہ تعالی نے ابو مطیع معاویہ بن سکی سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں:
عَن أبي مُطِيع مُعَاوِيَة بن يحيى أَن شَيخا من أهل حمص خرج يُرِيد الْمَسْجِد وَهُوَ يرى أَنه قد أصبح فَإِذا عَلَيْهِ ليل فَلَمَّا صَار تَحت الْقبَّة سمع صَوت ‌جرس ‌الْخَيل على البلاط فَإِذا فوارس قد لَقِي بَعضهم بَعْضًا قَالَ بَعضهم لبَعض من أَيْن قدمتم قَالُوا أَو لم تَكُونُوا مَعنا قَالُوا لَا قَالُوا قدمنَا من جَنَازَة البديل خَالِد بن معدان قَالُوا وَقد مَاتَ مَا علمنَا بِمَوْتِهِ فَلَمَّا أصبح الشَّيْخ حدث أَصْحَابه فَلَمَّا كَانَ نصف النَّهَار قدم الْبَرِيد يخبر بِمَوْتِهِ (مختصر تاريخ دمشق4/ 236)
ترجمہ:حمص کے ایک بزرگ بوقت صبح مسجد کے لئے نکلے کہ اچانک رات کا سما ہو گیا، جب وہ گنبد کے نیچے پہنچے تو انھیں ” بلاط “ ( وہ پتھر جو زمین میں بچھایا جاتا ہے سخت زمین ) پر گھوڑوں کی آواز سنائی دی، پھر اچانک گھڑ سواروں کو آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھا۔ ان میں سے بعض نے بعض سے کہا: ”تم کہاں سے آ رہے ہو ؟ انہوں نے کہا: کیا تم ہمارے ساتھ نہ تھے بولے : نہیں ! انھوں نے کہا: “ہم ابدال” خالد ابن معدان “کے جنازے میں شریک ہو کر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا: وہ انتقال کر گئے اور ہمیں پتہ نہیں چلا ! اب ان کے بعد تم لوگوں نے کس کو ان کا جانشین بنایا ہے؟ بولے : ”ارطاة ابن المنذر“ کو ۔ جب صبح ہوئی تو بزرگ نے یہ واقعہ اپنے ساتھیوں کو سنایا ، تو انہوں نے کہا: ہمیں خالد بن معدان کی موت کا علم ہی نہیں، جب دوپہر کا وقت ہوا تو ڈا کیا ان کے انتقال کی خبر لے کر آیا۔
امام یافعی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ”كفاية المعتقد“ میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالی کے بعض اصحاب سے مروی ہے، فرماتے ہیں: ایک رات شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالی اپنے گھر سے نکلے تو میں نے آپ کو لوٹا دینا چاہا لیکن آپ نے نہیں لیا اور مدرسہ کے دروازے کا رخ کیا تو دروازہ خود بخود کھل گیا، آپ دروازے سے نکلے تو میں بھی آپ کے پیچھے نکل گیا، پھر دروازہ دوبارہ خود بخود بند ہو گیا، اس کے بعد شیخ جیسے ہی شہر بغداد کے دروازے کے قریب پہنچے، وہ دروازہ بھی خود بخود کھل گیا، آپ دروازے سے نکلے اور میں بھی ان کے پیچھے دروازے سے نکل گیا، دروازہ پھر خود بخود بند ہو گیا ، اور ابھی تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ اچانک ہم ایک ایسے شہر کے اندر پہنچ گئے جسے میں نہیں جانتا تھا، آپ ایک ایسے مکان میں داخل ہوئے جو رباط ( خانقاہ ، صوفیائے کرام کے رہنے کی جگہ ) کی طرح لگ رہا تھا ، اس مکان میں پہلے ہی سے چھ (6) لوگ موجود تھے، وہ سب شیخ کو سلام کرنے کے لیے آگے بڑھے، اور میں ایک ستون کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا، وہاں میں نے ایک کونے میں کر اہنے کی آواز سنی، ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ کراہنے کی آواز بند ہوگئی، پھر ایک شخص مکان میں داخل ہوا اور اس جانب گیا جدھر سے میں نے کراہنے کی آواز سنی تھی ، اس کے بعد وہی شخص اپنے کندھے پر ایک شخص کو اٹھائے ہوئے باہر نکلا، پھر ایک اور دوسرا شخص داخل ہوا جس کا سر کھلا ہوا، اور مونچھیں لمبی تھیں ، وہ شخص آکر شیخ کے سامنے بیٹھ گیا، شیخ نے اسے کلمہ شہادت پڑھوایا، اس کے بال ، مونچھیں کاٹیں، پیرہن پہنایا، اور اس کا نام محمد رکھا ، پھر شیخ نے ان لوگوں سے کہا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ یہ شخص مرنے والے کا جانشیں ہو، لوگوں نے سرخم تسلیم کیا ، اس کے بعد شیخ انہیں وہیں چھوڑ کر نکل گئے ، اور میں بھی ان کے پیچھے نکلا، ابھی ہم تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ ہم اچانک شہر بغداد کے دروازے کے پاس پہنچ گئے ، دروازہ پہلے کی طرح کھلا، پھر ہم مدرسہ میں آئے، دروازہ کھلا اور پھر شیخ اپنے گھر میں داخل ہو گئے ۔ دوسرے دن میں نے شیخ کو قسم دے کر عرض کیا کہ میں نے جو کچھ دیکھا ، اس کی حقیقت سمجھائیں ، آپ نے فرمایا: جو شہر تم نے دیکھا وہ نہاوند تھا اور جو چھے (6) لوگ تھے ، وہ ابدال تھے ، اور کراہنے والا ساتواں بیما را بدال تھا، جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں اس کے پاس گیا، اور وہ شخص جو ایک آدمی اٹھائے ہوئے نکلا تھا، وہ ابوالعباس حضرت خضر علیہ السلام تھے جو اسے قریب مرگ ابدال کے پاس لے گئے تا کہ وہ اس کے حقوق ادا کریں، اور رہا وہ شخص جس کو میں نے کلمہ شہادت پڑھوایا ، وہ قسطنطنیہ کا ایک نصرانی شخص تھا، مجھے حکم دیا گیا تھا کہ وہ وفات پانے والے ابدال کی جگہ لے،اس لیے اسے میرے پاس لایا گیا ، اس نے میرے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، اور اب وہ ابدال میں سے ہے۔

فائده

امام ابونعیم رحمہ اللہ تعالی” الحلیة“ میں ابویزید بسطامی رحمہ اللہ تعالی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سے کہا گیا: آپ ان سات ابدال میں سے ایک ہیں جو زمین کے اوتاد ہیں؟“ آپ نے فرمایا: میں ساتوں کا سات ہوں ۔

فائده

شیخ نصر مقدسی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب ” الحجة على تارک المحجة“ میں اپنی سند کے ساتھ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی سے روایت کی ہے، آپ سے پوچھا گیا : ”کیا زمین میں اللہ کے ابدال ہیں ؟ آپ نے جواب دیا : ” ہاں! پوچھا گیا : ” وہ کون ہیں؟“ آپ نے جواب دیا: اگر اصحاب حدیث ابدال نہیں تو میں کسی کو ابدال نہیں جانتا ۔
حافظ محب الدین بن نجار رحمہ اللہ تعالی تاریخ بغداد میں بیان کرتے ہیں :
حافظ ابو عبد الله محمد بن علی بن عبد الله الصوری فرماتے ہیں :
‌عَابَ ‌قَوْمٌ عِلْمَ ‌الْحَدِيثِ وَقَالُوا هُوَ عِلْمٌ طُلَّابُهُ جُهُّالٌ
کچھ لوگوں ں نے علم حدیث کی مذمت کی اور کہا یہ وہ علم ہے جس کے طالب جاہل ہیں۔
عَدَلُوا عَنْ حُجَّةِ الْعِلْمِ لَمَّا ضَاقَ عَنْهُمْ فَهْمُ الْعِلُومِ وَمَالُوا
جب علوم کا سمجھنا ان کے لیے مشکل ہو گیا تو علم کے صحیح راستہ سے منہ پھیر لیا اور کہنا شروع کر دیا۔
إِنَّمَا الشَّرْعُ يَا أَخِي كِتَابُ اللَّهِ لَا مِرْيَةٌ وَلا إِشْكَالُ
اے میرے بھائی ! دلیل شرع تو کتاب اللہ ہی ہے جس میں گمراہی کا اندیشہ ہے اور نہ ہی کوئی شبہ ہے۔
ثُمَّ مِنْ بَعْدِهِ حَدِيثُ رَسُولِ اللَّهِ قَاضٍ يُفْضَى إِلَيْهِ الْمَآلُ
پھر حدیث رسول ایک ایسی دلیل ہے جس کی طرف رجوع کا حکم کتاب اللہ کے بعد دیا جاتا ہے ۔
وَطَرِيقُ الآثَارِ يُعْرَفُ بِالْمَقَالِ وَلِلنَّقْلِ فَاعْلَمَنْهُ رِجَالُ
اور طرق آثار کی معرفت نقل سے ہوتی ہے اور یہ بخوبی معلوم ہونا چاہئے کہ نقل کے اپنے افراد ہیں۔
هَمُّهُمْ بُقْلُهُ وَنَفْي الَّذِي قَدْ وَضَعَتْهُ عِصَابَةٌ ضُلَّالُ
جن کا ہدف نقل کرنا اور گمراہ جماعت کی وضع کردہ آثار کا انکار کرنا ہے۔
لَمْ يَبِنُّوا فِيهَا جَاهِدِينَ وَلَمْ يَقْطَعْهُمْ عَنْ طِلَابِهِ الْأَشْغَالُ
یہ وہ افراد ہیں جو نقل کی راہ میں کوشش کرتے نہیں تھکتے اور نہ ہی دیگر مشغولیات انہیں ان کے راستے سے
الگ کر پاتی ہیں۔
رَفَضُوا لَذَّةَ الْحَيَاةِ اغْتِبَاطًا فَالَّذِي قَدْ حَوَوْهُ مِنْهُ وَنَالُوا
نقل کی راہ میں جو چیز تحریر کی اس پر رشک کرتے ہوئے اپنی عمدہ زندگی صرف کر دی۔
وَرَضَوْهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ بَدِيلًا لَنِعْمَ ذَاكَ الْبِدَالُ
اور ہر چیز کے بدلے میں اس پر راضی ہو گئے اور یہ کہنے لگے زندگی کی قسم یہ کتنا اچھا بدل ہے ۔
وَلَقَدْ جَاءَنَا مِنَ السَّيِّدِ الْمَاجِدِ خلف العليا فِيهِمْ مَقَالُ
اور عظیم سلف کے عظیم خلف امام احمد بن حنبل کا قول ان ناقلین کے تعلق سے ہم تک آیا۔
أَحْمَدُ الْمُنْتَمِي إِلَى حَنْبَلٍ كَرَمٌ بِهِ فِيهِ يُفْتَخَرُ وَجَمَالُ
کتنی عظیم ہے ان کی ذات وہ تو حسن کے پیکر اور قابل فخر ہیں ۔
إِنَّ أَبْدَالَ أُمَّةِ الْمُصْطَفَى أَحْمَدَ هُمْ حِينَ يُذْكَرُ الْأَبْدَالُ
وہ امت مصطفی کے ابدال ہیں جب ابدال کا ذکر ہوتا ہے تو وہ ان میں سب سے زیاد و لائق تعریف ہوتے ہیں ۔

فائده

سہل بن عبد اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
ابدال چار چیزوں کی بدولت ابدال بنے ہیں : (1) کم بولنے (2) کم کھانے (3) کم سونے اور(4) دنیا سے بے اعتنائی برتنے سے “
امام ابونعیم ” الحلية“میں بشر بن حارث سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے توکل نے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا:
توکل نام ہے ایک ایسی بے چینی کا جس میں سکون نہیں ، اس میں آدمی اعضا و جوارح سے مضطرب رہتا ہے، اور اس کا دل اپنے اعمال کی طرف نہیں بلکہ اللہ عزوجل کی جانب متوجہ ہونے کی وجہ سے پرسکون رہتا ہے۔ اور ایک ایسے سکون کا جس میں اضطراب نہیں، اس میں انسان بغیر کسی حرکت و اضطراب کے اللہ عز وجل کی جانب متوجہ ہونے کی وجہ سے پرسکون ہوتا ہے، یہی عزیزہے اور ابدال کی صفات میں سے ہے ۔
اور امام ابونعیم رحمہ اللہ تعالی نے حضرت معروف کرخی رحمہ اللہ تعالی سے روایت کی ہے کہ جس شخص نے روزانہ دس مرتبہ :
اللَّهُمَّ‌‌ أَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، ‌اللَّهُمَّ ‌فَرِّجْ ‌عَنْ ‌أُمَّةِ ‌مُحَمَّدٍ، اللَّهُمَّ ارْحَمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، كُتِبَ مِنَ الْأَبْدَالِ.
ترجمہ:اے اللہ ! امت محمد ﷺ کی اصلاح فرما، اے اللہ ! امت محمد ﷺ سے پریشانی دور کر دے، اے اللہ ! امت محمد ﷺ پر رحم فرما۔پڑھا اس کا نام ابدال میں لکھ دیا جاتا ہے ۔ (حلیۃ الاولیاء)
امام ابونعیم رحمہ اللہ تعالی نے ابو عبداللہ نباجی رحمہ اللہ تعالی سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں:
إِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ تَكُونُوا أَبَدْالًا فَأَحِبُّوا مَا شَاءَ اللَّهُ، فَمَنْ أَحَبَّ مَا شَاءَ اللَّهُ لَمْ يَنْزِلْ بِهِ ‌مِنْ ‌مَقَادِيرِ ‌اللَّهِ ‌وَأَحْكَامِهِ شَيْءٌ إِلَّا أَحَبَّهُ (حلیۃ الاولیاء)
ترجمہ:اگر تم ابدال بننا چاہتے ہو تو جو اللہ چاہتا ہے اسے پسند کرو، اور جو اس چیز کو پسند کرتا ہے جو اللہ چاہتا ہے وہ ہر اس چیز کو پسند کرتا ہے جو تقدیر الہی کے پیش نظر اسے لاحق ہوتا ہے ۔“
فائده : امام یافعی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ”کفایة المعتقد“ – نفعنا الله تعالی بہ میں مذکور ہے:
کہا جاتا ہے : ابدال کا نام ابدال اس لیے پڑا کیونکہ جب وہ روپوش ہوتے ہیں تو ان کی جگہ پر کچھ روحانی شکلیں آجاتی ہیں جو ان کی جانشیں بن جاتی ہیں ۔
اسی نوعیت کا شیخ مفرج الد مامیلی رحمہ اللہ تعالی کے متعلق بیان کئے جانے والے واقعہ کی حکایت ہے:
یوم عرفہ آپ کے بعض اصحاب نے میدان عرفات میں آپ کو دیکھا، ایک دوسرے شخص۔ جو دن بھر ان کے ساتھ رہا۔ نے دما میل میں ان کی خانقاہ میں دیکھا، جب حجاج کرام واپس لوٹے تو دونوں نے ایک دوسرے سے ان کا ذکر کیا ، آپس میں بحث اس قدر بڑھی کہ دونوں نے قسم کھائی جس کی بات جھوٹی ثابت ہوگی اس کی بیوی کو طلاق، چنانچہ وہ دونوں شیخ مفرج رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور ان کے سامنے معاملہ رکھا تو آپ نے دونوں کی تصدیق فرماتے ہوئے دونوں کا نکاح برقرار رہنے کا حکم فرمایا۔
آپ سے دونوں کے حانث نہ ہونے کی حکمت دریافت کی گئی کیونکہ ان میں سے ایک کا سچاہونا دوسرے کا حانث ہونا ثابت کرتا ہے! آپ نے فرمایا : جب ولی کی ولایت کا تحقق ہو جاتا ہے تو وہ متعدد شکلیں اختیار کرنے پر تمکن رکھتا ہے اور اس کی روحانیت بیک وقت کئی جہات میں نظر آتی ہے، چنانچہ وہ شکل جو دیکھنے والے کو عرفہ میں دکھائی دی صحیح ہے، اور وہ شکل جو دیکھنے والے نے ان کی قیام گاہ میں دیکھی وہ بھی برحق ہے، اس طرح دونوں اپنی قسم میں سچے ہیں، اس سے ایک شخص کا ایک ہی وقت میں دو الگ الگ مقامات پر موجود ہونا لازم نہیں آتا، کیونکہ یہ متعدد روحانی شکلوں کا اثبات ہے نہ کہ متعد دصور جسمانیہ کا۔
امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
میں نے ” کتاب البرزخ “(شرح الصدور)کے باب ” مستقر الأرواح “ عنوان ” الروح بعد الموت“ میں اس طرح کی نظیر ثابت کی ہیں ۔ امام شمس داؤدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : اس کتاب کے مصنف ہمارے شیخ امام جلال الدین سیوطی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاء فرماتے ہیں :
”میں نے اس جزء کو بروز ہفتہ ،8/ محرم 883ھ کو تالیف کیا۔“
احسن اللہ ختامها بمحمد و آله اجمعين


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں