توحیدِ شہودی اور توحیدِ وجودی

وہ توحید جو اس بلند گروہِ صوفیاء کو راہِ سلوک و فقر میں میسر آتی ہے دو قسم پر ہے، توحیدِ شہودی اور توحیدِ وجودی۔

توحید شہودی ایک ذات کو دیکھنا ہے یعنی سالک کا مشہود صرف ایک ہی ذات ہو اور توحیدِ وجودی ایک ذات کو موجود جاننا اور اسکے غیر کو معدوم خیال کرنا ہے اور معدوم خیال کرنے کے باوجود کائنات کے آئینوں اور مظاہر کو ایک جاننا۔ پس توحیدِ وجودی علمُ الیقین کے قبیل سے ہے اور توحیدِ شہودی عینُ الیقین کی قسم سے ہے۔ توحیدِ شہودی اس راہ کے ضروری اُمور میں سے ہے کیونکہ بغیر اس کے فنا متحقق نہیں ہوتی اور عین الیقین کی دولت بھی اسکے بغیر میسر نہیں آتی کیونکہ ایک ذات کے غلبے کے باعث صرف اسے ہی دیکھنا اس کے ماسوا کو نہ دیکھنے کو مستلزم ہے بخلاف توحیدِ وجودی کے کہ وہ اس طرح نہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کیونکہ علمُ الیقین توحیدِ وجودی کی معرفت کے بغیر بھی حاصل ہے نیز علم الیقین اس ذات کے ماسوا کی نفی کو مستلزم نہیں۔ نہایت درجہ یہ ہے کہ اس کے ماسوا کے علم کی نفی کو مستلزم ہے جب کہ اس ایک کے علم کا غلبہ اور زور ہے۔ مکتوب نمبر 43 دفتر اول

مشائخ کی اصطلاح میں سیرِ لطائف کے دوران جب سالک پر محبتِ الٰہیہ میں نورِ حق کا اسقدر غلبہ ہوجائے کہ اشیاءِ کائنات غلبہ شہود ِ حق کی معیت میں عینِ حق نظر آنے لگیں تو اس مرتبے کو توحیدِ وجودی کہتے ہیں اور اگر اشیائے کائنات سالک کی نظر سے گم ہوجائیں اور اشیاء کے پردوں کے پرے جمالِ حق کا مشاھدہ ہوجائے تو اسکو توحید شہودی کہتے ہیں۔ توحید وجودی لطیفہ روح سے ظاہر ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ توحید وجودی کا احساس لطیفہ قلب کی سیر میں ہوتا ہے جب کہ توحیدِ شہودی کا اِدراک فنائیتِ لطائف میں ہوتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں