جلاء الخواطر  حصہ دوم

جلاء الخواطر  حصہ دوم

از شیخ عبد القادر جیلانی

چوبیسویں مجلس تا آخر

چو بیسویں مجلس :-

اے لوگو! کہنا سننا چھوڑو ۔ اور دنیا کا جمع کرنا اور اس پر لڑنا جھگڑنا گناہ ہے۔ جو مٹکا تمہارے ہاتھوں میں ہے جس سے تم نے فقیروں اور حاجتمندوں کے حقوق ادا نہیں کیے اور بقیہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر دھیان خرچ نہیں کیا ۔ اس پر تمہیں سزاملے گی۔ بدنصیبی تمہاری تم تو ان مالوں کے سلسلہ میں اپنے پر درد گار کے کار پرداز ہو۔ کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تمہارے پڑوس میں فقیر ہیں جو بھوک سے مر رہے ہیں اور تم ان سے منہ پھیرے ہوئے ہو، کیا تم نے اپنے رب جلیل کی نہیں سنی۔ کیسے ارشاد فرمایا۔ اس چیز میں سے جس کا ہم نے تمہیں نائب بنایا ہے۔ خرچ کر و چنا نچہ وہ تمہیں خبردار کر چکا ہے کہ تم اس میں (صرف) نائب بنائے گئے ہو ۔ اور تم نے اس پر قبضہ کر لیا ہے ۔ اور تم نے اس سے بہت سی چیزیں نکالی ہیں۔ اللہ تعالے نے تمہیں ساری نکال دینے کے لیے حکم نہیں فرمایا ۔ اور اس نے فقیروں کے لیے ایک معلوم اور مقرر حصہ رکھا ہے۔ اور وہ زکوٰۃ ہے۔ کفارے اور نذرانے ہیں، فقیروں کے حقوق پورے دو پھر گھر والوں اور رشتہ داروں کے حقوق پورے کرو . (پوری) زکوۃ نکالنے کے بعد غمخواری کرنا مومن کے اخلاق (کریمانہ) سے ہے جس نے اللہ تعالٰی سے معاملہ کیا فائدہ (ہی) اٹھایا اور اس کا فرمان سب سے سچا ہے۔ اس نے اپنی پکی کتاب میں ارشاد فرمایا ۔ اور تم جو چیز بھی خرچ کرو . وہ اس پر بدلہ دے گا ۔ تم اپنے دل سے اس سے صاف نکل جاؤ جس کا سارا تم نے اپنے ہاتھ سے چھوڑنا ہے۔ یہاں تک کہ تم اپنے سارے مال کا بدلہ دو کم بختی تمہاری مخلوق نہ تمہیں فائدہ پہنچائے گی اور نہ تمہارا نقصان کرے گی مگر جب وہ اللہ تعالے ہی ان

کے دلوں میں نہ ڈال دیں جن کے ہاتھ میں ان کے دل میں جس طرح چاہتے ہیں ان کو چلاتے ہیں کبھی تسخیر کے لیے کبھی تسلط کے لیے ۔ کیا تم نے نہیں سنا۔ اللہ تعالی نے فرمایا ۔ جو اللہ تعالے لوگوں کے لیے اپنی رحمت سے کھول دیں تو اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو روک لیں تو اس کو کھولنے والا کوئی نہیں : جب تمہارے پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا ایمان صبر اور تسلیم سے سامنا کرو اس پر اور اس کے ساتھ صبر کرنا ان کے دنوں کو دور کر دیتا ہے ۔ اور اس کے وقت کو ختم کر دیتا ہے۔ اے مرید ! اپنی مراد کے دروازہ سے اس کی مصیبت کے تیروں کی وجہ سے مت بھا گو ۔ جمے رہو۔ تمہیں تمہاری مراد مل جاتی ہے جب مرید آزمائش میں پڑتا ہے تو اپنے استاد کا محتاج ہوتا ہے ۔ تاکہ اس کی مصیبت میں اس کا علاج کرے وہ اس کو صبر اور شکر کا حکم دیتا ہے ۔ وہ اس کو چیز کو پکڑنے کا حکم کرتا ہے ۔ وہ اس کو اپنے دل سے رو گردانی اور اس کی کسی بات کے قبول کرنے کو چھوڑنے کا حکم کرتا ہے جس کا اپنے شیخ کے ساتھ سچا ساتھ ہو۔ اللہ تعالے اس کی مشکل کو جلد یا بدیر دور فرما دیتے ہیں ۔ اے  کڑوے اور میٹھے پانی کے درمیان حائل ہونے والے ہمارے اور اپنی نافرمانیوں کے درمیان اپنی رحمت کا برزخ حائل کردے ۔ آمین

پچیسویں مجلس :

میں تمہیں شیطان اور اس کا چیلا سمجھتا ہوں۔ تم اپنے بارے میں اس سے نڈر ہو۔ اور وہ سچا ہے ۔ اور وہ تمہارے دین اور تمہارے تقویٰ کا گوشت کھاتا ہے۔ اور تمہاری اصل پو نجی ضائع کرتا ہے ، اور تمہارے پاس کوئی بھلائی نہیں، کم بختی تمہاری۔ اس کو اپنے پاس سے دائمی ذکر سے دور کر دو اور بھگا دو۔ دائمی ذکر کی پابندی کرو . اس واسطے کہ یہ اسے ہلاک کرتا ہے اور اس کو بھگا تا ہے ۔ اور تمہارے لیے محنت ومشقت کو کم کرتا ہے۔ حق تعالے کو اپنی زبان سے یاد کرو  ۔ اور اپنے کھانے اور اپنے پینے کے علاوہ اپنے دل سے بہت دفعہ یاد کرو، اپنے تمام حالات میں پرہیز گاری اختیار کرو . اور شیطان کو ہرانے کے لیے اللہ تعالے کے ان اقوال سے مدد لو۔ لاحول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم ماشاء اللہ کان لا الہ الا اللہ الملک الحق المبین – سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم و بحمدہ ۔ ان سے وہ پلٹ جاتا ہے ۔ اور اس کا دبدبہ کم ہو جاتا ہے۔ اس کے لشکر شکست کھا جاتے ہیں ۔ ابلیس کا تخت پانی پر ہوتا ہے اور وہ اپنا لشکر زمین پر بھیجتا ہے۔ اس کے نزدیک سب سے بڑی معرفت اس کی ہوتی ہے جو سب سے زیادہ فساد مچانے والا ہو۔ گناہ ابن آدم کے لیے ہیں۔ ادب عبادت گزار کے حق میں اس طرح فریضہ ہے جیسا کہ عام آدمی کے حق میں تو بہ ۔ وہ ادب کرنے والا کس طرح نہ ہو ۔ جبکہ وہ خالق کے مخلوق میں سے سب سے زیادہ نزدیک ہو۔ جو کوئی جہالت کی وجہ سے بادشاہوں کے ساتھ رہنا سہنا رکھے تو اس کی حالت اس کو اپنے قتل کے قریب کر دے گی ۔ جس کو ادب نہیں خالق اور مخلوق کو اس سے بیزاری ہے ۔ ہر وہ گھڑی جس میں ادب نہ ہو ۔ وہ بیزاری ہے ۔ اللہ تعالی کے ساتھ حسن ادب نہایت ضروری ہے ۔ اگر تم مجھ کو پہچان لیتے ۔ میرے سامنے سے نہ ہٹتے اور تم میرا پیچھا ہی کرتے جس طرف بھی رخ کرتا ۔ تمہیں ایک طرف ہونے کی قدرت ہی نہ ہوتی۔ ایک ہی برا بر ہوتا ۔ تم سے خدمت لیتا یا تمہیں ویسے ہی چھوڑ دیتا ۔ تم سے لیتا۔ یا تم کو دیتا، تمہیں تنگدست کر دیتا یا امیر بنا دیتا ۔ تمہیں مشقت میں ڈال دیتا۔ یا تمہیں راحت نصیب کرتا ۔ ان سب چیزوں کا اصل حسن ظن ہے ۔ اور اس سے (تعلق) کی درستی ہے ۔ اور تم دونوں سے محروم ہو ۔ تو تمہیں میرا ساتھ کیسے درست ۔ اور میری بات سے تمہیں کیا فائدہ ۔ خالق اکبر اور مخلوق کی صحبت ساتھ اور معاشرت (زمین کے ) آداب بہتر کر و اے اللہ ان کا ان باتوں کا سننا ان کے خلاف محبت نہ بنا، بلکہ ان کے حق میں حجت بنا اے ہمارے پروردگار ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچایئے ۔

چھبیسویں مجلس :-

اس کے نیچے کی سواری اس کے دل کے اعمال کو اس کے چہرہ پر ظاہر کر دیتی اس کا چہرہ ماہ کامل کی مانند ہو جاتا ہے اور یوں بن جاتا ہے گویا وہ ایک فرشتہ ہے ۔ جس کا دل اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کو دیکھ کر خوش ہے اس کا عمل اس کو اس چیز کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ تعالے نے اس کے لیے جنت میں تیار کر رکھی ہے ۔ نیک عمل ایک صورت بن جاتی ہے ، اس کو کہتی ہے میں تمہارا رونا ہوں ۔ تمہارا صبر ہوں۔ تمہاری پرہیز گاری ہوں ۔ تمہارا ایمان ہوں اور تمہاری جان ہوں۔ تمہاری نماز ہوں تمہارا روزہ ہوں۔ تمہارے مجاہدے ہوں اور تمہارے رب جلیل کے لیے تمہارا شوق ہوں اور اس کے لیے تمہاری معرفت ہوں۔ اس سے تمہاری واقفیت ہوں تمہارا حسن عمل ہوں اور اس بزرگ و برتر کے سامنے تمہارا ادب ہوں چنانچہ اس کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ اور اس کا ڈر اطمینان سے اور اس کی سختی نرمی سے بدل جائے گی، اور جس نے نیک عمل نہ کیا اس کو اس کا پر ور دگار چھوڑ دے گا اور وہ برائیوں میں رہے گا۔ چنانچہ گناہوں کے وزن اور توجہ اس کی پشت پر ہوں گے بھوک اور پیاس اس کے اندر ہوگی ۔ اور ڈر اس کے سامنے ہوگا اس کے پیچھے سے فرشتے اس کو ہانک رہے ہوں گے اور گھٹنوں کے بل چلا رہے ہوں گے ۔ اور اس کے دل پہ تیرا چر کا لگ رہا ہوگا۔ قیامت کے میدان میں حاضر ہوگا پھر اس کے لیے نوک جھونک اور جانچ پڑتال (کی نوبت) آئے گی پس بہت سخت حساب ہو گا ۔ پھر اس کو آگ میں ڈال دیا جائے گا ۔ پھر اس کو عذاب دیا جائے گا ۔ پس اگر وہ اہل توحید والوں میں سے ہوا ، اپنے اعمال کے مطابق سزا پائے گا. پھر اس کو اللہ تعالے – اپنی رحمت سے آگ سے نکالے گا۔ اور اگر کفر والوں میں سے ہوا تو وہ اپنے ہم جنسوں کے ساتھ ہمیشہ آگ میں رہے گا ۔ اگر تم تو بہ اور صحیح فکر میں رہو تو دنیا والی چیز کو چھوڑ دو ۔ اور آخرت والی چیز میں لگ جاؤ۔ اور مخلوق والی چیز کو چھوڑ دو۔ اور حق تعالی والی چیز میں لگ جاؤ ۔ برائی کو چھوڑ دو اور بھلائی کے کام میں لگ جاؤ۔ اے فکر اور تو بہ کو چھوڑنے والو ! تم ٹوٹے میں ہو اور تمہارے پاس کوئی بھلائی نہیں۔ تم ٹوٹا پانے والے اور فائدہ نہ اٹھانے والے ہو۔ تمہاری مثال اس آدمی کی طرح ہے جو بیچتا ہے اور خریدتا ہے اور نہیں جانتا ۔ کیا خرچ کرتا ہے اور نقد کو کھرا نہیں کرتا۔ سو کم گفتا رہے۔ اور اپنی اصل پونجی کے کھو جانے کا انتظار کرتا ہے جس نے اس کے ساتھ اس نے بڑھاپے اور قصہ کو پیٹ دیا ہے۔ خرابی تمہاری۔ تمہاری اصل پونجی جو تمہاری عمر ہے ۔ جاتی رہی ہے ۔ اور تمہارے پاس کوئی بھلائی نہیں تمہاری ساری کمائی کھوٹی ہے ۔ تمہارے علاوہ دوسرے مومنوں کی ساری کمائی گوہر ہے ۔ جلدی ہی مومنین کو ان کا پورا حق دیا جائے گا اور تم پکڑے جاؤ گے اور قید کیے جاؤ گے ۔ تمہارے پاس جو موتی ہے وہ قبول نہ ہوگا جبکہ حق تعالی تو اخلاص کو قبول فرماتے ہیں اور اخلاص تمہارے پاس نہیں۔ کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں سنتا۔ اپنا محاسبہ خود ہی کرو ۔ اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور خود ہی اپنا ، وزن کرو  اس سے پہلے کہ تمہارا وزن کیا جائے ۔ اور اپنے آپ کو بڑی پیشی کے لیے سنوار لو اس سے پہلے کہ اللہ تعالے اس بات کو جاننے پہچاننے سے انکار کر دیں ۔ کہ وہ اس کے دوستوں میں سے ایک دوست اس کے پیاروں میں سے ایک پیارا اور اس کی مرادوں میں سے ایک مراد ہے ۔ اس کی خلوت اور جلوت میں ایک فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے ۔ جو اس کے دل کی تربیت کرتا ہے۔ دلیل کی تربیت کرتا ہے۔ اس کو نیکی کا حکم کرتا ہے اور برائی سے موڑ دیتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں فرمایا : ” یونہی ہوتا ہے تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی ہٹالیں

بلاشبہ وہی ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے ہے۔ اللہ تعالے کا یہ فعل انبیا رو مرسلین، ادلیا، وصدیقین علیہم السلام کے ساتھ ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا بچوں کے پاس سے گزر ہوا، جبکہ وہ کھیل رہے تھے ۔ تو انہوں نے کہا ہمارے ساتھ کھیلو۔ اس پر آپ نے فرمایا ، سبحان اللہ ہم کھیلنے کے لیے نہیں پیدا کیے گئے ہم قوم اس قوم کے اقرار میں جو بھلائی کا حکم کرتی ہے نہ کہ برائی کا ۔ اس کو دیکھنے کے بعد دلوں سے مل جاتے ہیں. سب کے سب گو ہر بن جاتے ہیں مطمئن ہو جاتے ہیں اور رفیق اعلیٰ(بر تر فرشتوں) کے ہاں نیک ہو جاتے ہیں قرآن کا سننا ان کا چا ہی آزار بن جاتا ہے اور اس سے پہلے بھی سنتے تھے۔ با اعتبار صورت نہ با اعتبار سخن – (مومن) زیادہ تر بکواس اور بے ہودہ بات نہیں سنتا۔ اس واسطے کہ اس کے نزدیک قرآن دلوں کی زندگی ۔ باطن کی صفائی اور جنت میں حق تعالیٰ کے جوار رحمت کی بنیاد ہے۔ مومن مخلوق کو پہچانتا ہے اس کے لیے ان میں نشانیاں ہیں۔ اس کا دل حساس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس نور کے ذریعہ سے دیکھتا ہے جس کو اللہ تعالے نے اس کے دل میں بسایا ہے ۔ نور دلوں کا نور ہوتا ہے، طہارت دلوں کی، بھیدوں کی اور خلوت کی طہارت ہوتی ہے۔ جب تمہارا دل پاک نہ ہو اور تمہاری خلوت پاک نہ ہو تو تمہاری ظاہر کی پاکیزگی کیا فائدہ دے گی ۔ اگر تم ہر روز ہزار مرتبہ بھی غسل کرو۔ تمہارے دل کی میل ذرا بھی زائل نہ ہوگی ۔ گناہوں کے لیے ایک بدی قسم کی مواحت ہوتی ہے ۔ یہ ان کو معلوم ہے جو اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں لیکن وہ مخلوق سے چھپا لیتے ہیں ۔ اور ان کو رسوا نہیں کرتے ۔ بدنصیبی تمہاری ۔ تم سست ہو. سو بلاشبہ تمہارے ہاتھ کوئی چیز نہ پڑےگی تمہارے پڑوسیوں ، اور تمہارے بھائیوں اور تمہارے رشتہ داروں نے سفر کیا اور تلاش کیا۔ چنانچہ خزانوں کو جا پایا ۔ ایک پیسے سے دس اور بیس کا فائدہ ہوا اور غنیمتیں لے کر لوٹے اور تم اپنی جگہ ہی بیٹھے ہو جلدی ہی جو تھوڑا بہت تمہارے پاس میں ہے یہ بھی جائے گا ۔ اس کے بعد تم لوگوں سے مانگو گے۔ کم بختی تمہاری حق تعالیٰ کے راستہ میں محنت کرو . اور اس کی تقدیر کے حوالہ نہ کیے رکھو ۔ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں سنا . ” اور جنہوں نے ہمارے واسطے محنت کی ہم ان کو اپنی راہیں سمجھا دیں گئے۔ محنت کرو . تمہارے پاس وہ ہدایت آئے گی جو نہ آتی تھی ۔ اور تجھ اکیلے سے ضروری ہے کہ نہ آئے تم شروع کرو ۔ اور دوسرا آتا ہے اور تمہارا کام پورا کرے گا سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ چنانچہ تم غیر اللہ سے کچھ مت مانگو۔ کیا تم نے ان کی بات نہیں سنی۔ اپنی پختہ قدیم کلام میں کس طرح ارشاد فرماتے ہیں ۔ اور ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں اور ہم معین اندازہ پر اتارتے ہیں؟ کیا اس آیت کے بعد بھی کوئی بات باقی ہے۔ اے دنیا اور پیسے کے چاہنے والے ۔ دونوں چیزیں (حقیر)ہیں اور دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہیں۔ پس ان کو مخلوق سے مت مانگو۔ اور نہ ان دونوں کو ان دونوں کے ساتھ شرک کرنے والی دربان اور اپنے اسباب پر اعتماد سے مانگو۔ اے اللہ ! اے مخلوق کے خالق . اے مسب الاسباب ہمیں شرک کی قید سے چھڑا کر اپنی خالقیت اور اپنے اسباب کے ذریعہ سے خلاصی دیجئے۔ اور ہمیں دنیا پر اور آخرت میں نیکی دیجئے ۔ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچائیے ۔

ستائیسوی مجلس :

اے اللہ کے بندو تم دار الحکمت میں ہو ۔ ایک واسطہ ضروری ہے۔ اپنے معبود سے ایک ایسا طبیب مانگو جو تمہارے دلوں کی بیماریوں کی دوا کرے ایک ایسا معالج جو تمہارا علاج کرے۔ ایک ایسا راہ دکھانے والا ہے جو تمہیں راہ بتائے۔ اور تمہیں ہاتھوں سے پکڑے ، اس کے مقربوں ، اس کے عاشقوں اور اس کے قرب کے دربانوں اور اس کے دروازہ پر رہنے والوں سے نزدیکی چا ہو۔ تم تو اپنی جانوں کی خدمت اور نفسانی خواہشوں اور طبیعتوں کی پیروی پر راضی ہو گئے ہو۔ تم اپنی جانوں کے خوش کرنے اور ان کے دنیا کیلئے دوڑنے میں کوشش کرتے ہو اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو کبھی بھی تمہارے ہاتھ نہ لگے گی گھڑی بہ گھڑی ، روز بہ روز ، ماہ بہ ماہ اور سال بہ سال تمہیں موت آتی ہے۔ پس تمہیں اس کا بھی یارا نہیں ہوتا ۔ کہ تم اس سے چھوٹ رہو ۔ وہ تمہاری گھات میں ہے اور تمہیں کوئی خبر نہیں۔ تم اس کے دیکھ لینے سے بچتے ہو اور وہ تمہارے برابر کھڑی ہے ۔ جلدی ہی تمہیں ایک ایسے میدان میں چھوڑے گی جو میدان تمہارے بدلے اور تمہاری دوسری زندگی کا ہے ۔ تم سے ہر ایک کی روح کوچ کر جائے گی اور اس کا جسم ایک مردہ بکری کے جسم کی طرح باقی رہ جائے گا ۔ کون تم پر رحم کرے گا اور تمہیں مٹی میں گاڑھے گا ۔ اس سے پہلے کہ تمہیں زمین کے درندے اور کیڑے کھا جائیں۔ پھر تمہارے گھر والے اور تمہارے دوست بیٹھیں گے یعنی تمہارے دشمن ۔ اپنے کھانے اپنے پینے اور اپنے آرام میں ہوں گے سویا تو تمہارے پر رحم کریں گے یا نہ کریں گے ۔ اور رحم تو بہت سے بادشاہوں پر بھی نہیں کیا گیا ۔ ان کے دشمنوں نے  ان کو قتل کیا اور جان بوجھ کر کہ ان کو کتے اور کیڑے کھا ئیں بغیر دفن کیے جنگلوں میں پھینک دیا کتنا بڑا ہے وہ بادشاہ جس کا حکم یہاں تک آکر زائل ہو گیا۔ کتنی اچھی بات کہی ایک بزرگ نے ، بادشاہ نہیں جس کے بادشاہ ہونے کو موت زائل کر دے ، بادشاہ تو وہ بادشاہ ہوتا ہے جس کو موت نہ آئے، تمہارے میں عقلمند وہ ہے جو موت کو یاد کرے اور تقدیر جو بھی کرے اس پر راضی ہو ۔ پس اپنی پسند کی چیز پر شکر کرے اور تقدیر سے راضی ہو جائے. اپنی ناپسند چیز پر صبر کرے۔ اپنے دین کے معاملات میں فکر کو مزوں اور لذتوں کے فکر کا بدلہ بنا دور موت اور اس کے پیچھے کا فکر کرو۔ (جہاں تک )نصیبوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ ان کو لکھ لکھا کہ کب کے ان سے فارغ ہو چکے ہیں۔ نہ ان میں ذرہ بھر زیادتی ہوتی ہے اور نہ ان میں ذرہ بھر کمی ہوتی ہے ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی مخلوق . روزی اور عمر (وغیرہ لکھ لکھا کر کب کے) فارغ ہوئے اور قیامت تک ہونے والی باتوں کو(لکھ لکھا کر) قلم خشک ہو چکا۔ جو چیز تقسیم کی جاچکی. اس کے طلب کرنے میں مشغول نہ رہو۔ چونکہ یہ مشغولیات کھیل اور حماقت ہے ۔ اللہ تعالے تمہارے سارے حالات کی تدبیر کر چکے ہیں. اور ان کو ایک معلوم وقت میں ڈھیل دے چکے ہیں جب تک دل مجاہدہ سے غیر مطمئن رہتا ہے تو نہ وہ اس پر ایمان لاتا ہے اور نہ ہی لالچ اور للچانا چھوڑتا ہے۔ طمانیت سے پہلے ایمان رکھتا ہے مگر زبانی دعوی ہوتا ہے۔ عقلمند بنو ۔ جو میں کہتا ہوں وہ مانگو۔ ایک ایسی تقدیری اور ہونی چیز کے طلب کرنے پر مشغول مت ہو۔ جس کا تمہارے ہاں ہونا اور اس کے وجود کا ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ تم اس کو علم الہی میں لکھے ہوتے وقت پر اپنی طرف بلاؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اگر بندہ کہے اے اللہ! مجھے روزی مت دے ۔ اس کا اس کے علی الرغم روزی دینا الوہیت کی طرف سے ضروری فرض ہے اور اللہ تعالے کی طرف سے آتی ہے۔ مخلوق کے ہاں ان میں سے کوئی چیز نہیں۔تم توحید سے کہاں (اور کتنے دُور) ہو ۔

اے مشرک ! تم خلوص سے کہاں ہو ۔ اے کدورت والے تم رضا سے کہاں ہو۔ اے ناراض ہونے والے تم صبر سے کہاں ہو ۔ مخلوق سے شکایت کرنے والے یہ ہے تمہارا (حال اور مقام)جہل پر تم ہو ۔ یہ پہلے گزرے ہوئے نیکوں کا دین مبین ہے . مجھے غیرت ہوتی ہے۔ جب میں کسی کو اللہ اللہ کہتے سنتا ہوں اور وہ غیر اللہ کو (بھی) دیکھتا ہے ۔ اے  ذاکر ! اللہ تعالے کو ایسے یاد کرو گویا تم اس کے ہاں ہو ۔ اور اس کو اپنی زبان سے اور اپنے دل سے غیر اللہ کے ہاں یاد نہ کرو مخلوق کو چھوڑ کر اس کی طرف بھاگو ۔ دُنیا آخرت اور ماسوا کو اپنے دل سے اپنے باطن سے اور اپنے بدن سے نکال دو پھر اپنی ظاہر کی زبان سے (کہو). بدبختی تمہاری تم اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے) کہتے ہو اور جھوٹ کہتے ہو ۔ روٹی تمہارے پاس ہے بڑا سالن تمہارے پاس ہے ۔ اکسیر اللحم تمہارے پاس ہے ۔ بڑی بے پروا ہی ہے جو تمہاری زندگی میں تمہارے پاس ہے۔ تمہارے محل کے ارد گرد کا بڑا پہریدار تمہارے پاس ہے تمہارے شہر کا بڑا بادشاہ تمہارے پاس ہے تم ان سے بہت ڈرتے ہو اور ان سے امید رکھتے ہو اور ان کی خوشامد کرتے ہو اور ان کی پردہ پوشی کرتے ہو۔ تمہارے کپڑے تمہیں چھپاتے ہیں اور تمہارا پرور دگار ہر بری بات کو سامنے لے آتا ہے۔ تم اپنی مشکلوں میں ان پر اعتماد کرتے ہوئے اور میرے نفع دینے اور لینے میں تم ان کو دیکھتے ہو ۔ اگر تم سے رفاقت کی ۔دین میں مفلس بن جاؤ گے اور مسلمانوں اور مومنوں کے جھانکنے والے نہ بنو ۔ دور والا اس کو چھپاتا ہے اور نزدیک والا اس کو افشاں کرتا ہے لیکن مقرب بارگاہ بہت سی چیزوں سے مطلع ہوتا ہے اور ان کو چھپاتا ہے۔ تھوڑی سی بات کرتا ہے مگر وہ بھی بنا بر غلبہ پس پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندوں کی پردہ پوشی کرتی ہے ۔ پاک ہے وہ ذات جو اپنی مخلوق کے خواص کو بندوں کے حالات سے مطلع کر دیتی ہے، پھر ان کو حکم کرتی ہے جو ان کی بہت زیادہ پردہ پوشی کر کے ان کو چھپاتے ہیں۔ اے لوگو ! جہاں تک ہو سکے۔ دنیا کے فکروں سے فارغ رہو۔ ایسی کسی چیز کی طرف رغبت نہ کرو جو تم کو نزدیکی سے دور کر دے مومن سے اگر ہو سکتا ہے تو اپنے کھانے اپنے پینے۔ اپنے لباس اور اپنی بیوی سے بے رغبتی اختیار کر تا ہے ۔ اگر ہو سکتا ہے، اپنے دل سے نفسانیت طبیعت اور لذت کو نکال دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے پروردگار اعلیٰ کے علاوہ کسی کو نہیں چاہتا۔ اپنی زبانوں کو ایسے کلام سے رو کو باز رکھو ۔ جو تمہارے لیے بے معنی ہو ۔ اپنے رب جلیل کو کثرت سے یاد کرو۔ اور اپنے گھروں میں لازمی طور پر رہو ۔ ضرورت کے سوا نہ نکلو یا ایسے کام کے لیے جو آپ کے لیے لازمی ہو۔ یا جمعہ اور (نماز) با جماعت کے لیے حاضر ہونے کے لیے ۔ یا ذکر کی مجلسوں کی حاضری کے لیے ۔ تم میں سے جس کو اپنا کام اپنے گھر پر کرنے کی قدرت ہو تو اسے کرنا چاہیے ، خرابی تمہاری تم اللہ تعالے کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو اور تم اس کا کہا مانتے نہیں محبت تو آخر کار احکام بجا لانے اور منع کی ہوئی چیزوں سے ہٹ جانے ، ملی چیزوں پر قانع ہونے اور فیصلہ (خدا دندی) پر راضی ہو جانے کے بعد ہی ہوا کرتی ہے۔ پھر اس سے محبت اس کی نعمتوں کی بنا پر ہوتی ہے پھر اس کو تعبیر کسی بدلہ کے چاہا جاتا ہے. پھر اس کی ذات کا شوق ہوتا ہے۔ محب حق تعالیٰ کو اپنی زبان اپنے اعضاء ، اپنے دل اور اپنے باطن کے ساتھ یاد کرتا ہے۔ جب اس کی یاد میں فنا ہو جاتا ہے ۔ پھر اللہ یاد کرتا ہے اور اس سے اپنی مخلوق کے سامنے فخر کرتا ہے ۔ اور اس کو ان سے ممتاز کر دیتا ہے۔ حق میں حق( ہو جاتا ہے )فنا میں جاتا ہے ۔ اول – آخر ، ظاہر اور باطن ( اپنی حق تعالیٰ کی ذات) باقی رہتی ہے. اس سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو اور مخلوق کے سامنے اس کی شکایت کرتے ہو۔ تم اس کی محبت میں جھوٹے ہو جو فنا کی حالت میں اس سے محبت کرتا ہے اور فقر کی حالت میں اس کی شکایت کرتا ہے وہ (یقینا ) جھوٹا ہے ۔ جب کسی کچے دل پر تنگی آتی ہے ۔ اس سے ایمان ویقین پر صبر نہیں آتا ۔ آخر کا ر کفر کا ساتھی ہوتا ہے ۔ فقر کی صلاحیت صبر کرنے والے اور پر ہیز گاری کرنے والے مومن کے سواکسی میں نہیں ہوتی۔ اور وہ کس طرح اس پر صبر نہ کرے جبکہ دنیا اس کا جیل خانہ ہے ۔ کیا تم نے کسی قیدی کو قید خانہ میں آرام کا طالب دیکھا ہے۔ مومن دنیا سے نکلنے اور  اس سے واپسی کی تمنا کرتا ہے۔ اس کے اور اس کے دل کے درمیان دشمنی ہوتی ہے وہ اس کے لیے بھوک پیاس فقر – افلاس اور ذلت کی تمنا کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ یہ اس کی اطاعت کے لیے ہاتھ بٹاتا ہے چنانچہ اس کے لیے فقر بہتر ہوتا ہے اور حکم مان کر صبر کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ اپنے ضمیر کی حفاظت کرو. یہ (ہمیشہ) تمہارے کام کی تعریف (ہی) کرتا ہے۔ کم بختی تمہاری ۔ تم میری ارادت کا دعویٰ کرتے ہو، پھر مجھ سے چھپتے ہو۔

تم میری ارادت کا دعوی کرتے ہو۔ لیکن چلو کیسے تم دیواریں (حائل) دیکھتے ہو۔ تم اعمال بغیر اخلاص – شروع بغیر تمام ظاہر بغیر باطن مخلوق بغیر خالق ،دنیا بغیر آخرت کے دیکھتے ہو۔ بغیر علم کے عبادت کی کوشش ہے۔ بہت سے بندے علم کو پکا کیے بغیر اپنی جہالت کے باوجود رات اور دن کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات علم پکا کرنے کی ہے۔ تو در اصل علم قضا اور قدر کے فیصلوں پر بغیر (علم) شریعت کی گفتگو ہوتی ہے جو اس کو زندیق بنا دیتی ہے ۔ اور اسی لیے کہا گیا ہے۔ ہر وہ حقیقت جس کی شریعت شہادت نہ دے سودہ زندقہ ہے ۔ اس حکم کی بنیاد کلام ہے ۔ اس کے بعد حکم پکا ہوتا ہے ۔ استغفار اور تو بہ کثرت سے کرو۔ اس واسطے کہ دنیا اور آخرت کے کاموں کے لیے یہ دو بڑی حقیقتیں ہیں اور اسی لیے حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی قوم کو استغفار کا حکم کیا ۔ اور اس کے جواب میں ان سے مغفرت کا اور ان کے لیے دنیا کے مسخر ہونے کا اور ان کا ان کی خدمت کے لیے کھڑا ہونے کا وعدہ دیا۔ چنانچہ اللہ تعالے کا وعدہ نقل کرتے ہوئے اپنی قوم کو فرمایا ۔

اپنے پر ور دگار سے اپنے گناہ بخشواؤ بے شک وہی بخشنے والا ہے۔ تمہارے پر آسمان کی دھاریں چھوڑ دے گاتمہیں مال اور بیٹوں سے بڑھا دے گا۔ اور تمہارے لیے باغ بنا دے گا اور تمہارے لیے نہریں بنادے گا ۔ اپنے گناہوں سے تو بہ کرو. اور اپنے اس شرک سے باز آؤ جو تم کر رہےہو، تاکہ تمہیں وہ  سب کچھ دے جو تم دنیا اور آخرت کے معاملات میں چاہتے ہو۔ تم نے اس طرح گناہ کیا ہے جس طرح تمہارے باپ حضرت آدم علیہ الصلاة والسلام نے کیا تھا ۔ تم دونوں (حضرت آدم اور حضرت حوا علیہا الصلوۃ و السلام )کو اس کے کھانے (محض) اس لیے منع کیا تھا۔ کہ تمہیں اس کے نتیجہ میں ان کو دُوری نہ نصیب ہو۔ ان کو کرامت کے حصہ سے عاری کر دیا ۔ اور دونوں کو برہنہ کر چھوڑا۔ پھر دونوں زمین پر اترے۔ اور سب بدلہ  معصیت اور مخالفت کی بناء پر ہوا ۔پھر معصیت نے ان کے بدنوں میں پرورش پائی اور ان دونوں کو دور کر دیا۔ پھر ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے تو بہ اور استغفار کی تلقین کی سو دونوں نے توبہ کی اور اپنے گناہوں کی معافی چاہی ، پس وہ ان دونوں پر مہربان ہوا اور دونوں کو بخش دیا۔ میرا دشمن اور دوست میرے نزدیک برا بر ہیں۔ روئے زمین پر نہ میرا کوئی دوست باقی ہے اور نہ دشمن اور یہ اس صورت میں ہے کہ توحید کی صحبت اختیار کرے اور مخلوق کو عاجزی کی نظر سے دیکھا جائے۔ اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرا سو وہ میرا دوست ہے . اور جس نے اس کی نافرمانی کی سو وہ میرا دشمن ہے. اے اللہ ! آپ میرے لیے یہ ثابت کر دیں اور مجھے اس پر ثابت قدم رکھے اس کو افتاد کے بجائے بخشش بنا دیں ۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں آپ کے دین کی رسیوں اور آپ کی ارادت کی رسیوں کو بٹ لگاتا ہوں۔ اور میں آپ کے خادموں کا خادم ہوں۔ اور آپ کی خوشنودی چاہتے ہوئے آپ کے ماسوا سے بے رغبتی اختیار کرنے والوں کا خادم ہوں ۔ بدنصیبی تمہاری اے مالدار ۔ یہ مت خیال کرو که مالدار کا شکر کرنا الحمد لله رب العالمین کہہ دینا ہے ۔ اور بس اور بلاشبہ اس کا شکریہ یہ ہے کہ اس میں سے کچھ مقدار سے فقیروں سے غمخواری کرے اگر تم نے فرض زکوۃ کو ادا کر دیا یا پھر جہاں تک ممکن ہوتا ان سے غمخواری کرتا۔ اور ان کو بلا احسان دیتا ۔ چونکہ احسان تو یہ ہے کہ تم نے بلا احسان دیا ہوتا . وگر نہ تو نہ دیا ہوتا، کیا تم نے اللہ تعالی کا فرمان نہیں سنا ” اے ایمان والو! اپنے صدقوں کو احسان اور تکلیف سے باطل نہ کرو : ان کا باطل ہونا یہ ہے کہ ان کا ثواب باقی نہ رہے ۔ پس احسان جتانے والا کوئے میں پڑا. اس کے لیے کوئی ثواب نہیں اور اس کا دل سیاہ ہونا ہے۔ اس واسطے کہ احسان جتانا شرک ہے۔ مومن دیتا ہے اور احسان نہیں جتاتا ہے بلکہ اللہ تعالے کا شکر ادا کرتا ہے ، اس کے اس کو توفیق دینے پر بنا پر . اعتقاد رکھتا ہے کہ جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے یہ سب اس نے اس کو دیا ہے۔ اور وہی ہے جو اس سے چھین لے اور اس کے علاوہ دوسرے کو دے دے ۔ اے مالدار فقیروں پر وسعت کرنے والے ۔ اپنی مالداری سے دھوکہ مت کھاؤ اور نہ اس پر فخر کرو۔ اور نہ اس سے فقیروں کے مقابلہ میں غرور کرو، چونکہ یہ تمہاری تنگدستی کا باعث ہوگا۔ اور تم اے نوجو ا نو  اپنی جوانی اور طاقت پر فقیروں کے مقابلہ میں غرور نہ کرو، اور اس سے اللہ تعالی کی نافرمانی کے لیے مدد نہ چاہو۔ تمہارے جسم تمہارا دین ہیں وہ ایک درندہ تمہارے دین ، تمہاری حاجت اور تمہاری مالداری کا گوشت کھاتا ہے۔ ایک بزرگ نے کیا ہی اچھا کہا ہے کہ جب تمہیں کوئی نعمت حاصل ہو تو اس کی حفاظت کرو. اس واسطے کہ نافرمانیاں نعمتوں پر ہی نازل ہوتی ہیں۔ میرے پاس نیک خیال لے کر اور نعمتوں کو زائل کر کے حاضر ہوا کرو اور جب اپنے گھروں کو لوٹا کرو تو اس بات پر دھیان دیا کرو اور اس کو بھلا ؤمت ،موت اور اس کے بعد کی چیزوں کو یاد کرو. روزه لازمی رکھو، اس واسطے کہ یہ دل کو روشن کرتا ہے خصو صا حب تمہاری افطاری حلال کی ہو، کوئی چیز خرچ کیے بغیر کوئی چیز بھی تمہارےہاتھ  نہ لکے گی حکیم اور عالم لوگ  اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ آرام آرام چھوڑ کر ہی حاصل ہوتا ہے تحقیقی طور پر آپ کے تمہارے سامنے چالیس سال تک رہے اور سجدہ کے علاوہ نہیں سوئے ، اور آپ کا سجدہ کرنا ہی آپ کا بستر لحاف اور آپ کا تکیہ تھا۔ یہ حالت اس کی ہوتی ہے جس کو دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے رغبت ہوجائے اور موت اور بیان سے ڈرے اورجس کو قدرت ہوتی ہے مخلوق اور ان کے ہاتھوں کی چیزوں سے بے رغبتی اور خالق سے رغبت کرتا ہے۔ اور جو اس کے پاس ہوتا ہے اس کو پہچان لیتا ہے اور اس کو اور اس کے بندے کو پہچان لیتا ہے ۔ اور اس بارہ میں اپنی جان سے محنت کرتا ہے، جو اللہ تعالے کو پہچان لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے. اور جو محبت کرتا ہے وہ موافقت کرتا ہے. تم اس دنیا کو کیا کرو گے ۔ اگر سامنے آئے تو مشغول ہو اور اگر پشت پر آئے تو نقصان اٹھاؤ ۔ اگر تم اس سے بھو کے ہو تو کمزور ہو جاؤ۔ اور اگر اس سے سیر ہو جاؤ تو بھاری ہو جاؤ ۔ اس کو چاہو جو اپنی محبت میں تمہارے میں سے ایک ہو۔ مرضوں، بیماریوں غموں اور فکروں پر کوئی بھلائی نہیں مگر اس کے لیے جس نے ان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کیا نفس جاہل ہے۔ سو اس کو ادب کا طریقہ سکھاؤ سوایسا ادب سکھاؤ جس سے یہ بیماری اور دوا کے درمیان، حلال اور حرام کے درمیان اچھی اور خراب کے درمیان فرق کر سکے جھگڑا ختم نہیں ہوتا۔ اس کو لذتوں اور مزوں سے ایک لقمہ نہ دو۔ اس کے حق سے زیادہ اس کو نہ دو۔ صحت کے لیے یہی بہتر ہے جب اس سے مطمئن ہو جائے تو اس کو زمین کے گھاس پھوس کی طرف لے جاؤ۔ یہاں تک کہ اس کی تمام آرزو یہ ہو کہ تم اس کو روئی پر بٹھاؤ۔ اور جب اس پر مطمئن ہو جائے (تو سمجھو) اطمینان اور سکون ہو گیا۔ دیا جائے ۔ اس کے نصیبے آئیں گے ، تمہارے پاس تمہارے پروردگار کا لکھا آچکا ہے ، اپنے آپ کو مارو بے شک اللہ آپ کے ساتھ مہربان ہیں۔ حکم ہوگا اے چین پکڑنے والے جی ۔ اپنے پروردگار کی طرف پھر چلو۔ تم اس سے راضی وہ تمہارے سے راضی : اس کے لیے اس کے نصیبے ظاہر ہو جائیں گے ۔ پہلا علم تمہارے لیے پورا کرنے کا اس کو حکم کرے گا۔ تو اس کے نصیبے اس کے جماؤ کے ساتھ پورے کر دیئے جائیں گے ۔ تو اس وقت اس سے بے رغبتی صحیح ہو جائے گی۔ اس سے یہ نہ ہوگا کہ اس سے اس کو بھلا دے ، تو یہ کھانا انشراح صدر اور اس میں پہنچنے اور دلی صفائی کا سبب بنے گی۔ تو اس کا اس سے رکنا مریضوں کی طرح ہے۔ جیسا کہ طبیب اس کو کھانا اور غذا سے منع کر دیتا ہے جو کھانے اور پینے کی چیزوں سے بہتر ہوتا ہے ، یہاں تک کہ عافیت نصیب ہو۔ پھر اس کو کھانا کھانے کا حکم کرتا ہے اور ایک کھانا سے دوسرے کھانے کی طرف منتقل کرتا ہے ۔ سو اس کا کھانا کھانا اس کے لیے دوا اور اس کے بدن میں طاقت کی زیادتی کا (باعث) بن جاتا ہے، اور اسی طرح سے یہ زاہد ، آخر کار قسم قسم کھانوں کا کھانا اس کی دین کی عافیت اور اس کے دل اور باطن کی روشنی کا باعث بن جاتا ہے۔ اے اللہ ! ہمیں اپنے ماسوائے بے رغبتی کرنے والا اور سب حالات میں اپنی طرف رجوع کرنے والا بنائے۔ اور ہمیں دنیا میں اور آخرت میں نیکی دیجئے ۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچایئے ۔

اٹھا ئیسویں مجلس :-

بے شک اللہ کے ہاں پسندیدہ دین اسلام ہے ۔ اسلام کی حقیقت استسلام ہےتمہیں چاہیئے ۔ پہلے اسلام کی تحقیق کرو . پھر استسلام کی ۔ اپنے ظاہر کو اسلام سے صاف کرو. اور باطن کو استسلام سے صاف کرو ۔ اپنی جانوں کو اپنے پروردگار اعلیٰ کے حوالہ کر دو۔ اور اپنے بارہ میں اس کی تدبیر سے راضی ہو جاؤ۔ اپنی قدرت کو اس قدرت کے لیے چھوڑ دو جس کا تمہارے پروردگار نے حکم کیا ہے جو کچھ بھی تقدیر تمہارے لیے کر دے وہ سب اپنے ہاں مقبول ہی رکھو۔ تمہارے پروردگار تم سے زیادہ جانتا ہے ۔ اس کی بات سے مانوس ہو کر راضی ہو جاؤ ۔ اور اس کے اداس اور نواہی کا قبول کے ہاتھوں استقبال کرو تمہیں جو بھی تکلیف دے۔ اس کا اپنے دلوں استقبال کرو. اس کو اپنا طریقہ اور اوڑھنا بچھونا بنا لو، وہ دن آنے سے پہلے اپنی زندگی کو غنیمت سمجھو جس کو اللہ تعالی کی طرف سے رکنا نہیں اور وہ قیامت کے دن ہے۔ اپنی آرزؤوں کو کو تاہ کرو۔ چونکہ کسی نے آرزوؤں کو کوتاہ کے بغیر فلاح نہیں پائی۔ دنیا کے بارہ میں لالچ کو کم کرو. اور چونکہ تمہارےنصیبےتمہیں مل کر رہیں گے۔ اگر چہ تم لالچ نہ کرو ۔ اور دنیا سے جو کچھ تمہارے لیے ہے اس کو پورا کرنے کے بعد ہی نکلو گے۔ افسوس تمہارے لالچ پر نفس اور نفسانی خواہش کو چھوڑو تمہیں موت سے چھٹکارا نہیں۔ موت پر زور نہیں۔تم کہیں کا رخ کرو اور کسی بھی طرح پلٹو ۔ وہ تمہارے آگے ہے اور تمہاری وارث ہے۔ تمہارے لیے قیامت کا دن کیا ہے۔ سو تمہاری موت کے دن خاص طور تمہارے حق میں اس کا قائم ہونا ہے۔ اور قیامت کا دن تمہارے حق میں اور دوسروں کے حق میں عام ہے۔ تمہاری پہلی قیامت تمہیں دوسری قیامت دکھائے گی جب تم ملک الموت علیہ السلام اور اسی طرح اس کے ساتھیوں کو اپنی طرف ہنسی و خوشی کے ساتھ آتا دیکھو۔ اور تجھ پر سلامتی بھیجیں اور تمہاری روح اس طرح نکالیں جس طرح انہوں نے انبیاء ، شہداء اور صالحین علیہم الصلوۃ والسلام کی روحیں نکالیں۔ تو تم قیامت میں خیر کی خوشخبری لو پہلا دنےتمہیں دوسرا دن دکھائے گا ۔

اس کو چھوڑو، اگر تم نے اچھائی دیکھی تو اچھا ہی ہوگا۔ اور اگر تم نے برائی دیکھی تو برا ہی ہو گا ۔ ملک الموت علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئے اور حال یہ کہ ان کے ہاتھ میں سیب تھا۔ اس کو انہوں ان کو سنگھایا۔ اور اسی سنگھانے میں روح لی۔ اور اس طرح ہر ایک اللہ تعالے کے ہاں قریبی درجہ والا کی روح بڑی آسانی سے اور بڑی اچھی حالت میں نکالتا ہے۔ آپ سے اور اپنے ارادے سے مرنے سے پہلے ہی مرجاؤ ۔ موت کو زیادہ یاد کرو، اور اس کے آنے سے پہلے اس کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ اور اپنے مرنے سے پہلے (اچھے اور نیک اعمال ) آگے بھیجو، تمہارے پر موت آسان ہو جائے گی ، تمہارے لیے کوئی بوجھ اور بے چینی باقی نہ رہے گی۔ موت کے دن کا اور قیامت کے دن کا آنا لابدی ہے پس دونوں کا انتظار کرو۔ یہ دونوں دن ایسے کام کے لیے ہیں جو اللہ تعالے نے ان کو بتا دیا عقل سیکھو نہ تمہیں دل والا دیکھتا ہے اور نہ دل میں کوئی معرفت کم یقینی تمہاری ۔ زہد کا دعوی کرتے ہو اور زاہدوں والے کپڑے پہنتے ہو اور پھر بادشا ہوں اور امیری کے دروازہ پر جاتے ہو ، جو دنیا کے بیٹے ہیں پس تم اپنے دل کو دنیا طلب کرنے اور دنیا والوں کی تمنا کرنے سے موڑ لو ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کوئی چراگاہ کے ارد گرد گھوما، اس سے خدشہ ہے کہ کہیں اس میں گھر نہ جائے ، دنیا کی مصروفیت تو محض اللہ تعالے کے بندوں کی راہ کاٹ دینے کے لیے ہے اور ان کو مسخر کرنے کے لیے ہے اور ان کی عقل چھین لینے کے لیے ہے ۔

یہ (قاعدہ) الا ماشاء اللہ سب کے حق میں عام ہے گنتی کے لوگ ہوتے ہیں جن کے دلوں اور کاموں کا اللہ مالک ہوتا ہے ۔ ان کی خلوت اور جلوت میں حفاظت کرتا ہے ۔ اور ان کے کھانے۔ ان کے پینے ، اور ان کے پہننے کو اپنے دست قدرت سے صاف کر دیتا ہے ۔ اللہ والوں نے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی چیزوں پر عمل کیا چنانچہ بھیجنے والا راضی ہو گیا۔ اور ان سے دوستی کی اور ان سے محبت کی، گھر خریدنے سے پہلے پڑوسی اور راستہ چلنے سے پہلے ساتھی تلاش کرو . یہ پڑو سی قرب خدا وندی اور اس کی معرفت اور اس پر ایمان و توکل اور اس کے وعدہ کے وثوق کے سوا کون ہے سو ان کے دل سمجھ گئے جس پر دنیا کے گھر کے اور آخرت کے گھر کھول دیئے گئے اور وہ گوشہ میں کھڑے ہو گئے ، اے غافلو! یہ ہے جس کو میں نے کھول کر بیان کر دیا ہے ۔ یہ بات عمل اور اس میں غوطہ مارے بغیر نہیں ہوسکتی کبھی ہاتھ پاؤں سے کبھی دل سے کبھی کہنے سے اور پھر کبھی کرنے سے کبھی بولنے سے پھر کبھی گونگا ہو جانے سے کبھی عمل کرو اور کبھی ترک طلب سے۔ عمل کرو. شرم کرو اور ہر ناحق عمل کو لپیٹ دو.

جب یہ بات پوری ہو گی، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحریک ہو گی۔ اسے فرمائے گا۔ حرکت کرو. آگے بڑھو اور اپنی آنکھ کھولو، اور اپنی ظاہری اور باطنی آنکھوں سے دیکھو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس آیا ہے ۔ اس طور سے اللہ والے ہمیشہ عاجزی وانکساری ظاہر کرتے ہیں اور اس حال میں رہتے ہیں. یہاں تک وہ جس کے لیے انہوں نے عاجزی کی ان کو اٹھا تا ہے مومن جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اس کو نکالنے اور اس کو قربان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس واسطے کہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا محب ہے۔ اس کی ضرورت کے وقت اس کو پر ہیز گاری سے پاتا ہے اور جو کچھ صفائی سے وہ پاتا ہے وہ کاٹتا نہیں۔ اور بہت سی چیزیں چھوڑ دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ایسی چیز پاتا ہے جس کا اصل اور فرع کو پہچانتا ہے ۔ ہر بات کے لیے ایک حجت کام میں لاتا ہے جس کو اپنے ہاتھوں سے نکالتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں اس کے باپ اور اس کی ماں کی وراثت ہے بقول علماء اس کو پر ہیز گاری کے ہاتھ کے بغیر کھایا۔ چنانچہ اس کو فقیروں اور حاجت مندوں کی طرف نکالتا ہے ۔اسے وہ جو ارادت چھوڑتا ہے. تیری ارا دت پختہ ہی نہیں ہوئی ۔ اور تیرے لیے ایک چیز ہے ۔ جو تیری مراد کو چھپاتی ہے۔ مجھے کہنا ہے اور نہ میرے لیے دولت ہے۔ محب کے بارے محبوب کو اعتبار سے نہ مال ہوتا ہے نہ اسباب نہ خزانہ، نہ ارادت اور نہ گھر ۔ سب کچھ اس کی مراد اور اس کے محبوب کے لیے ہوتا ہے محب اپنے محبوب کے سامنے مقبوضہ غلام حقیر ہوتا ہے۔ اور غلام اور جو کچھ یہ رکھتا ہے ۔ اس کے آقا کے لیے ہی ہوتا ہے ۔ جب محب کی جانب سے محبوب کے لیے سپردگی مکمل ہو جاتی ہے. تو محب کو وہ چیز سپرد کرتا ہے جو اس کے سپرد کی گئی تھی۔ اور خود کو اس کے حوالے کر دیا ہے ۔ معاملہ بالکل الٹ ہو جاتا ہے۔ غلام آزاد بن جاتا ہے۔ حقیر عزیز – بعید قریب اور محب محبوب بن جاتا ہے۔ جب مجنوں نے صبر کیا، تو لیلیٰ مجنوں بن گئی اور مجنوں لیلی ہو گیا ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت کی بنا پر صبر کرتا ہے اور اس میں سچا ہوتا ہے اور اس کی مصیبتوں کی بناء پر اس کے دروازہ سے بھاگتا نہیں۔ اور ان سے سچے دل سے ملنا ہے۔ تو وہ محبوب مراد بن جاتا ہے۔ جس نے اس کو چکھ لیا سو اس نے اس کو پہچان لیا۔ یہ چیز بناوٹ سے نہیں آتی۔ یہ ایسی چیز ہے جو ساری مخلوق کی سمجھ سے بالا ہے۔ ان میں گنتی کے لوگ ہیں جو اپنے لیے مخلوق کو ایک برابر سمجھتے ہیں۔ محبت سے پیش آتے میں معمولی اشارہ سے باز آ جاتے ہیں۔ ادب سیکھتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں جو ان سے چاہا جاتا ہے۔

اے لوگو ! ایمان پیدا کرو. اور اس کے لیے اپنی پوری کوشش کرو بعض مجاہدات کرو۔ ان کو ایمان کی کھونٹے کے حوالہ کرو۔ یہ دودھ پیتے بچھڑے ہیں۔ تمہارے دل نہ راضی ہونے والے اور کام نہ کرنے والے غرور اور بڑائی سے بھرے ہیں۔ ان میں اللہ کی راہ نہیں۔ اور میرے لیے تو یہ ساری راہ ملنے اور فنا ہونے کی ہے۔ شروع میں ایمان کی کمزوری کی حالت میں لا الہ الا اللہ اور آخر میں ایمان کی مضبوطی کے وقت لا اله الا انت چونکہ ایک حاضر موجود کو مخاطب کرتا ہے۔ امر باطنی ہے۔ بھید میں بھید ہے ۔ لپٹوں میں سے ایک لپٹ ہے. اس واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تمہارے زمانہ کے دنوں میں ایک لپٹ ہے سو اس کے سامنے پیش ہو۔ اے منافق تمہیں مناسب ہے، جو تمہیں کہتا ہوں نہ کرو. چونکہ تم اس معاملہ میں مجھ کو جتلانے والے ہو۔ اور اگر تم چاہتے ہو، کہ جو میں کہتا ہوں. وہ تم کرو. پھر اپنے نفاق سے توبہ کرو. اپنے عمل میں اخلاص اختیار کرو اور اپنے دین میں اور ماسوا سے بے رغبتی اختیار کرو. تمہارے لیے یہ معاملہ مراد ہے، اور اس کے لیے شہادت ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آخر یہ ہے کہ اس کے نزدیک پتھر اور مٹی برابر ہو جائیں۔ اور پتھر سے میری مراد سونا ہے جو مخلوق کا محبوب اور ان کی مراد ہے ۔

اے صاحبزاد ے : پکا ارادہ کرو، میں تمہارے لیے ہدایت دیکھتا ہوں۔ اور اس کی کوئی انتہانہیں، نہ تم لا الہ الا الله محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی بات میں پکے ہو ۔ نہ ہی اس کی شرطوں پر قائم ہو۔ اور نہ تم خواص میں سے ہو تاکہ پتھر اور مٹی تمہارے نزدیک برابر ہو جائے ۔ پھر تم کیا چیز ہو۔ ہم تمہیں کس طرح یاد اور شمار کریں۔ جبکہ نہ تم پہلے ہو نہ ہی دوسرے ہو۔ تم مجھ سے اپنی تعریف ایسی چیز میں چاہتے ہو جو تمہارے میں نہیں، تا کہ تمہارا دل خوش ہو جائے اور تم مجھ سے راضی ہو جاؤ، اور تم مجھے ہدایت کرتے ہو۔ تمہارے لئے کوئی بزرگی نہیں ہے۔تمہیں سچ کہتا ہوں، اور میں کسی ملامت کرنے والے کی خدمت سے نہیں ڈرتا ہوں۔ میں تو اس وقت کی یاد میں ہوں جو مخلوق اور خالق کے درمیان ہے، جو نہ کرنے اور کرنے کے درمیان ہے ، جو ضبط نہ کرنے اور ضبط کرنے کے درمیان ہے، تم جاہل ہو۔ خرابی تمہاری مجھ سے دشمنی نہ کرو کہیں تباہ ہو جاؤ ۔ ان لوگوں میں سے مت بنو جو جس چیز کو نہیں جانتے اس سے دشمنی کرتے ہیں ، تم اس کو نہیں جانتے۔ چنانچہ میرے سے دشمنی کرتے ہو کوئی فکر نہیں تمہاری دشمنی تمہارے سے بے وقوفی کرے گی ، اگر تمہیں اللہ کی طرف سے کوئی برائی یا کوئی مصیبت پہنچے۔ تو اسے دور کرنے کی اس کے سوا کسے سکت ہے۔ چنانچہ تم اپنے ہی ایسے عاجز کو یہ مت کہو کہ مجھ پر پڑی مصیبت کو مجھ سے دور کر دے جب تمہیں مخلوق کی طرف سے کوئی بیماری یا تکلیف پہنچے یا تمہارا مال یا تمہاری چیز چھین لے تو اس کو چھڑانے والا اس کے سوا کوئی نہیں جب تمہیں مال کا ٹوٹا۔ پیٹ کا فاقہ اور پڑوسیوں اور بھائیوں کی دوری پیش آئے یہاں تک کہ تمہیں ایک ذرہ تک نہ دیں، کوئی بوجھ نہ اٹھائیں اور دنیا تمہارے پر با وجود اپنی فراخی کے تنگ ہو جائے، تو تم دل میں گرہ دے لو۔ کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے. اور اس کو دور کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ اور اس کو اٹھانے والا کوئی نہیں، مگر وہی جس نے اس کو رکھا ۔ وہی ہے جس نے تمہارے پہ اس کو ڈالا۔ وہی ہے جس نے تمہیں یہ کپڑا پہنایا، اور وہی ہے جو نکالےعقل سیکھو۔ مخلوق اور اسباب کو شریک نہ ٹھہراؤ . سب ارباب کو چھوڑ کر ایک ہی رب بنا لو۔ وہی ہے مسخر کرنے والے ، وہی ہے۔ قبضہ جمانے والے کرنے والا۔ وہی ہے ۔ رفع کرنے والا۔ وہی ہے ۔ کام کرنے والا۔ اس کا لکھا ہو کر رہتا ہے۔ اور اس کے ہاتھ میں مرض ہے ۔ جو آکر تمہاری عافیت کے دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے ۔ اس کا لکھا ہو کر رہتا ہے، اور اسی کے ہاتھ میں تنگی ہے جو آکر تمہاری فراخی کے دروازہ کو کھٹکھٹاتی ہے۔ اس کا لکھا ہو کررہتا ہے۔ اور اسی کے ہاتھ میں غم ہے جو آکر تمہارے خوشی کے دروازے کو کھٹکھٹاتا ہے۔ اس کا لکھا ہو کر رہتا ہے ۔ اور اسی کے ہاتھ میں خوف ہے جو آکر تمہارے امن کے دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے۔ یہ سب اسی کی طرف سے ہے ۔ اور اس کو دور کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ دنیا مومن کا قید خانہ ہے جب اس میں آتا ہے۔ اپنے پاؤں نہیں پسارتا ، اور معرفت کے حل کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، قید خانہ کی دیواریں دور ہوتی میں اور اس کے سامنے اس کے دل کی وسعت میں دروازے کھل جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ علیم انہی کی طرف پرواز کر کے وہاں کی روحوں سے جانتا ہے۔ یہ تمہاری عقل سے بالا ہے ۔ اللہ والوں کے دل اور ان کی روحیں دنیا میں اللہ کے فضل کے خوان سے اس طرح کھاتی ہیں جس طرح شہیدوں کی روحیں جنت میں کھاتی ہیں. یہاں آکر مخلوق سے بے نیاز ہوتے ہیں ۔ یہاں آکر دل کے مالک ہوتے ہیں چنانچہ وہ دنیا میں بادشاہ ہوتے ہیں۔ اور آخرت میں بادشاہ ہوتے ہیں ۔ دنیا میں سردار ہوتے ہیں اور آخرت میں سردار ہوتے ہیں۔ اے جاہل! اے منافق ! اے روپیہ پیسے کے بندے اے مخلوق کی تعریف و ستائش سے خوش ہونے والے ۔ تم تعریف و ستائش اور داد و عیش کے بندے ہو اگر تم کو عقل ہوتی تو اپنے دل پر انا للہ و انا الیہ راجعون ، لا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم لکھتے۔ اے اللہ ! ہمیں اپنی بندگی کی تحقیق اور اطاعت کی تصدیق نصیب فرمائیے ۔ اے اللہ ہمیں دنیا میں اور آخرت میں نیکی دیجئے اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچایئے ۔

انتیسویں مجلس :

سچے کے لیے کوئی حد نہیں ہوتی۔ وہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اس کے لیے سینہ ہوتا ہے بغیر نسبت ۔ وہ سچائی پر جمارہتا ہے یہاں تک کہ اس کا ذرہ پہاڑ۔ اس کا قطرہ سمندر اور اس کا تھوڑا زیادہ ۔ اس کا چراغ سورج اور اس کا چھلکا مغز بن جاتا ہے۔ جب تم کسی سچے کو پالینے میں کامیاب ہو جاؤ تو اسے پکڑے رکھو جس کے پاس تمہارے درد کی دوا ہے۔ جب تم کسی ایسے کو پالینے میں کامیاب ہو جاؤ جو تمہیں درج ذیل شدہ چیزیں بتائے تو اسے پکڑے رکھو، تمہارے لیے حق تو یہ ہے کہ تم ان کو پہچانتے نہیں چونکہ وہ گنتی کے لوگ ہوتے ہیں ۔ چھلکا اور مغز تھوڑے چھلکوں والا ۔ اور مغز بادشا ہوں کے خزانوں میں ہوتا ہے۔ ہر وہ دل جو دنیا مزوں اور لذتوں سے بھرا ہے۔ وہ چھلکا ہے محض دنیا ہی کے قابل ہے۔ جب تم اپنے دل میں مخلوق سے کچھ بھی دیکھو تو تم سزا پانے والے ہو۔ اللہ تعالے نے فرمایا ۔ میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔ میں ان سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ مجھے کھلائیں۔ بے شک اللہ تعالی رزق دینے والے بڑی طاقت والے مضبوط ہیں : تم میں سے اکثر پردہ میں ہیں۔ اسلام کا دعوی کرتے ہیں اور ان کے پاس کچھ بھی حقیقت نہیں کم بختی تمہاری ۔ اسلام کا نام یہی ہے۔ پس تم خیال کرو. بغیر باطن ظاہری شرطوں کا جاننا تمہیں فائدہ نہ دے گا۔تمہارا عمل کسی چیز کے بھی برا بر ہے ۔

ظاہر تمہارا محراب میں ہے اور باطن تمہارا ظاہر طور پر تمہارے ظاہر سے ریا کاری اور منافقت کرتا ہے۔ تم چلتے ہو۔ اور باطن تمہارا حرام سے پر ہے۔ یہ تمہارے جسم کی عبادت ہے۔ سو شروع کرو۔ اور بظا ہر تمہارے سے سزا ساقط ہو جائے گی۔ اس واسطے کہ تمہارے سے کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی جو اس کی مخالفت کرے اور علم تو تمہارے لیے مشقت اور سزا کا حکم کرتا ہے میں نے تمہیں دیکھ لیا ہے کہ آج تم سزا سے چھوٹ گئے کل تمہیں سزا سے کون چھڑائے گا۔ میں نے تمہیں دیکھ لیا ہے کہ تم شریعت والوں کے نزدیک تو چھپ گئے مگر تم ان علم والوں کے ہاں کیسے چھپو گے ۔ جو اللہ تعالے کے نور سے دیکھتے ہیں۔ اور حق تعالیٰ کو ان نشانیوں سے پہچانتے ہیں جو ان کے پاس ہیں۔ عوام کے نزدیک تم نماز پڑھنے والے ۔ روزہ رکھنے والے ، کہا ماننے والے پاکیزگی اختیار کرنے والے حج کرنے والے پرہیزگاری اختیار کرنے والے اللہ سے ڈرنے والے اور عبادت کرنے والے ہو۔ اور اہل علم کے نزدیک تم منافق ۔جھوٹے اور جہنمی ہو۔ جب تم ان کے ہاں جاتے ہو تو وہ تمہارا گھر یعنی تمہارے دین کا گھر گرتا دیکھتے ہیں۔ تم نفاق کا اثر اپنے چہرہ پر دیکھتے ہو۔ وہ تمہیں تمہاری پیشانی سے پہچان لیتے ہیں لیکن وہ بولتے نہیں ۔ قرب حق نے ان کے منہ پر مہر لگا دی ہے اور اس کے پردہ نے ان کی زبانوں کو بند کیا ہوا ہے۔ اور اس کے کرم اور علم کی زبان ان کو منع کرتی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے سارے راز فاش ہو گئے ہوتے ۔ اے  منا فقو ! اسلام ثابت کرو تا کہ تمہیں ایمان ایقان معرفت (اللہ سے) سرگوشی اور گفتگو نصیب ہو۔ عقل سیکھو ۔ معانی کے بغیر محض صورتوں پر راضی نہ ہو جاؤ ۔ عمل کرو ۔ اخلاص اختیار کرو. اور تمہیں عالموں سے علم حاصل کرنے میں اخلاص ہوتا ہے ۔ اس پر عمل کر ناخدمتگزاری ہے۔ جس نے عاجزی کی بلندی پائی ۔ تم خدمت کرو ، تم بلاشبہ سردار بن جاؤ گے ۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ قوم کا سردار ان کا خدمت گزار ہوتا ہے تم اپنے آپ کو۔  اپنی بیوی کو اور اپنے بچے کو سنوارتے ہو۔ اور ان کی خدمت کرتے ہو۔ فقیروں کو اپنا مال نہیں دیتے ہو۔ اور اس کو اپنی خواہش نفسانی اور اپنے اسباب پر خرچ کرتے ہو۔ اے  کم نصیب ! جلدی ہی تمہاری بھلائی کم ہو جائے گی . تم اپنے محل کے ارد گرد کے اپنے دروازے کے پہریدار سے اس سے زیادہ ڈرتے ہو، جتنا کہ تم اپنے رب جلیل سے ڈرتے ہو تم ان کو دیتے ہو ۔ اور ان کے لیے تحفے بھیجتے ہو۔ اس واسطے کہ وہ تمہارے گھر کی خرابی اور تمہاری مہربانی سے مطلع ہیں۔ بدنصیبی تمہاری ۔ جلدی ہی تمہارا مال ختم ہو جائے گا اور تمہارے وہ دوست جو تمہارے بڑے ساتھی میں اور تمہارے سے دشمنی رکھتے میں تمہیں چھوڑ جائیں گے ۔ اور تمہارے محل کے ارد گرد کے تمہارے دروازہ کے پہریدارتمہاری داد و عیش بند ہو جانے کی بناء پر تمہیں رسوا کریں گئے اللہ تعالیٰ تمہیں کیسے برکت عطا کریں جبکہ تم اس کی نعمت کو اس کی نافرمانیوں پر خرچ کر رہے ہو جلدی ہی تنگی ہوگی پس تم ان کو اپنے حق میں شمار نہ کرو . اور تمہارا (صاف وستھرا) پانی گندگی اور غلاظت بن جائے گا ۔ اور شاید اس وقت تمہیں موت آجائے ۔ اور تم اسی حال میں ہو۔ پھر گھبراہٹ میں لوٹو عقل سیکھو ۔ اللہ تعالے سے شرم کرو۔ دنیا سدا نہیں رہتی ۔ آخرت ہمیشہ رہتی ہے ۔ دنیا کے مزے سدا نہیں رہتے۔ اور آخرت کے مزے ہمیشہ رہتے ہیں ۔ مومن دنیا کو آخرت کے اور مخلوق کو خالق کے بدلہ بھیجتا ہے ۔ اللہ والوں میں ایسا بھی ہے جب وہ اللہ تعالے کے ذریعہ سے مخلوق اور ہر اس چیز سے جو زمین میں ہے بے نیاز ہو جاتا ہے، تو اس پر بیوی بچے اور ان کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے ۔ تاکہ وہ مخلوق کی طرف رجوع کرے۔ اور ان کے ہاتھوں سے لے، تاکہ اس کا لینا ان کے لیے رحمت ہو پس فقر ظا ہر ہو۔ اور اس کی بے پرواہی باطنی بے پرواہی ہو اور اس کا فقر ہو۔ اور ان کو اس طرح پلٹے۔ جس طرح چاہے۔ اور وہ ادب سیکھنے والے ہوں گے ۔ پہلے اس چیز سے جو ان کو قرآن اور حدیث سے دکھائے۔ دونوں پر عمل کرتے ہیں اور متقی لوگ بن جاتے ہیں۔ پھر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں دکھائی دیتے ہیں اور ان سے فرماتے ہیں۔ ایسے اور ایسے کرو۔ اور اس سے اور اُس سے باز رہو ۔ پھر اپنے پروردگار اعلی کو خواب میں دیکھتے ہیں۔ سو وہ ان کو حکم کرتے ہیں۔ اور ان کو منع کرتے ہیں۔ وہ ایک درجہ سے دوسرے درجے کی طرف ایک کتاب سے دوسری کتاب کی طرف ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف ۔ ایک ذکر سے دوسرے ذکر کی طرف ترقی کرتے ہیں۔ مومن کے نزدیک ساری مخلوق ایک ہی شخص ہوتی ہے اور یہ شخص مریض اور عاجز ہوتا ہے ۔ نہ اپنے لیے کوئی نفع حاصل کر سکتا ہے اور نہ اپنی ذات سے نقصان کو دور کر سکتا ہے مخلوق میں سے جو اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ اس سے بغض رکھتا ہے، اور جو اس میں سے کہا مانتا ہے اس سے محبت کرتا ہے۔ اپنے بغض اور اپنی محبت میں پروردگار اعلیٰ کی موافقت کرتا ہے۔ مخلوق کو اس کی داد د عیش کی بناء پر محبت نہیں کرتا ہے۔ اور اپنے لیے اور اپنی خواہش نفسانی کے لیے بعض نہیں رکھتا ہے۔ وہ ہمیشہ نفس کو معزول رکھتا ہے۔ اس کی محض اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے موافقت کرتا ہے۔ دنیا کو اپنے دل سے دور رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دین پر اس کی رعایت کرتے ہوئے اور اس کی مدد کے لیے کھڑے ہوتے ہوئے قائم رہتا ہے ۔ کم بختی تمہاری زہد دل سے ہوتا ہے نہ کہ جسم سے ۔ اے ظاہر کے بناوٹی ولی زہد اختیار کرنے والے تمہارا زہد تمہاری طرف مدد ہے۔ تم نے اپنی پگڑی اور قمیض کو اچھا کیا ہے اور اپنے سونے کو بہت سرسبز اور محفوظ کناروں والی زمین میں دفن کیا ہے ۔ اللہ کھال اور تمہا را سر کاٹے۔ اگر تم رجوع نہ کرو۔ تم نے دکان کھول رکھی ہے۔ اور روزمرہ کی چیزیں اس میں بیچتے ہو۔ اللہ تمہاری دکان تمہارے سر میں دے مارے سو یہ ہےزدال اس کا ۔ کیا تم نے تجربہ نہیں کیا ہے، تم تو بہ کرتے ہو اور زنار کاٹتے ہو ۔ بد نصیبی تمہاری مومن کا زہد اس کے دل میں ہوتا ہے اور اس کے پر ور دگار اعلیٰ کا قرب اس کے باطن میں ہوتا ہے۔ دنیا اور آخرت اس کے دروازہ پر اور اس کے خزانہ میں ہوتی ہے۔ نہ وہ اس میں اس کا دل غیر اللہ سے خالی ہوتا ہے۔ غیر اللہ کی طرف نہیں بلکہ وہ اللہ سے بھرا ہے۔ اس کو اور اس کے قرب کو یاد کرتا ہے اور اس کا دل اپنے آقا کے لیے فارغ اور شکسہ ہے ، خالی اور جھکا ہے ۔ سنو بے شک وہ اس کے پاس ہوتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں ایک جگہ فرمایا ہے ۔ میں ان لوگوں کے پاس ہوتا ہوں جن کے دل میری وجہ سے ٹوٹے ہیں تمہاری جانیں دنیا کو چھوڑنے کی بنا پر ٹوٹ گئیں اور ان کے دل آقا کی وجہ سے ٹوٹ گئے ۔ جب ان کے لیے ٹوٹنا ثا بت ہو گیا اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے ۔ اور ان کی شکستہ دل کی تلافی کر دی طبیب آیا۔ ان کا علاج کیا ۔ یہی آرام ہے نہ کہ دنیا اور آخرت کا آرام ۔ اللہ والے خوش ہوتے ہیں۔ ان کا طبیب ان کے پاس اور خوش ہوتا ہے۔ اللہ والے اپنے طبیب کے سامنے اس کی پیار اور مہربانی کی گود میں ہوتے ہیں۔ اور وہ انہیں اپنے کرم و احسان اور رافت درحمت کے ہاتھ کروٹیں دلاتا ہے جس نے میری غلامی کی وہ فلاح پا گیا ۔ اللہ والوں کے ساتھ بیٹھو۔ اور ان کی باتیں سنو ۔ اللہ تعالے کا غم اپنے ساتھ لو ۔ نہ کہ دنیا کا ۔ اور اس چیز نے ان کو فائدہ بخشا ہے ۔ انہوں نے بھلائی سیکھی ۔ تم بھی بھلائی سیکھو اورعمل کرو تا کہ علم سے فائدہ اٹھاؤ معلم تلوار کی مانند اور عمل ہاتھ کی مانند ہے تلوار بغیر ہاتھ کے نہیں کاٹتی ہاتھ بغیر تلوار کے نہیں کاٹتا ۔ ظاہری طور پر سیکھو اور باطنی طور پر اخلاص اختیار کرو. بغیر اخلاص کے ذرہ بھر بھی ثو اب نہیں ملتا۔ قرآن مجید سنو۔ اور اس پر عمل کرو. حق تعالے نے اس کو اسی لئے نازل کیا ہے کہ اس سے حق سیکھو ۔ اس کی دو طرفیں ہیں۔ ایک طرف اس کے ہاتھ میں ہے اور ایک طرف ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ جب تم اس پر عمل کرو گے تو تمہارے۔ دل اس کی طرف چڑ ھیں گے ۔ اور وہ ان کو اپنی نزدیکی کے گھر کی طرف اچک لے گا۔تم آخرت سے پہلے دنیا میں ہو۔ اگر ارادہ اس کی طرف پہنچنے کا ہے تو تم دنیا اور مخلوق سے بے رغبتی اختیار کرو. اپنے آپ سے اپنے بیوی بچوں سے اپنے مال سے۔ اپنے مزے سے اپنے شکوک سے لوگوں کو اپنی تعریف ستائش اور ان کو اپنی طرف متوجہ کو محبوب رکھنے سے بے رغبتی اختیار کرو جب یہ بات تمہارے لیے صحیح ہو جائے گی تو تم ان سے بے پرواہ ہو جاؤ گے اور تمہارا پیٹ بھر جائے گا ۔ اور تمہارا کلیجہ ٹھنڈا ہو جائے گا ۔ اور تمہارا باطن اور خلوت آباد ہو جائے گا۔ تمہارا دل اور تمہارا باطن روشن ہو جائے گا۔ اور تمہارا دل مطمئن ہو جائے گا۔ یہ سب کچھ قرآن مجید پر عمل کرنے سے ہوگا۔ یہ قرآن مجید ایک چمکتا سورج ہے۔ اس کو اپنے دلوں کے گھروں میں رکھو۔ تا کہ تمہارے لیے روشنی کرے۔ کم بختی تمہاری۔ جب تم چراغ ہی بجھا دو تو رات کے اندھیرے میں اپنے سامنے کی چیزوں کو کیسے دیکھو گئے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دو۔ جبکہ وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف بلاتے ہیں جس میں تمہاری زندگی ہے – دل مردہ ہے۔ جو دل دنیا کی محبت میں مردہ ہے۔ ذات خداوندی کو کیسے دیکھے اور مخلوق کی محبت پیچھے پڑی ہے، کیسے سنے کیا سنے کیا دیکھے تم مخلوق کو پہچانو ۔ آخر اس نے اللہ والوں سے بغض ہی کیا اے دنیا مانگنے اور اس سے رغبت اور اس سے محبت کرنے کی بناء پر دلوں کے مُردو۔ اور تم – اے زاہد و ! تمہارے جنت کے طلب کرنے نے تمہیں رب جلیل سے روک رکھا ہے۔ بد نصیبی تمہاری ۔ تم نے راہ غلط کرلی گھر سے پہلے پڑوسی اور راستہ سے پہلے ساتھی دیکھو ۔ اور تم اے وا عظو! انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی جگہ چڑھ بیٹھے ہو۔ اور پہلی صف میں آگے ہو رہے ہو ۔ اور داؤ پیچ اور پچھاڑنا اچھی طرح آنا کوئی نہیں۔ نیچے اترو اورسیکھو اور عمل کرو. اور اخلاص اختیار کرو، پھر اس کام کی چڑھائی کرو جس کی ابتدا نفس ۔ خواہش نفسانی طبیعت – شیطان . دنیا اور مزوں کا پچھاڑ نا ، اورمخلوق کو اس کے برے اور بھلے کے لیے دیکھنا چھوڑ دینا ہے۔ جب تم ان سب پر غالب ہو جاؤ گے۔ اور ان کو ایمان اپنے یقین اور اپنی توحید کی طاقت سے دباؤ گے ۔ تو اللہ تعالے تمہارے دل میں اور تمہارے باطن میں حق بات پیدا فرمائیں گے۔ اور ان کو اپنے نزدیکی کے گھر میں جما دیں گے ۔ پھر ان کو ان کی طرف کا حکم کریں گے۔ تو اس وقت تم مخلوق کے ساتھ کھڑے ہونے کے میدان میں خوب داؤ بیچ کرو گے اور ان کے شدا ئد برداشت کرو گے ، اسے اللہ ! ہمیں اس چیز میں لگائیے جس میں آپ ہم سے راضی ہوں ۔ اورہمیں دنیا میں اور آخرت میں نیکی دیجئے ۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے ۔

تیسویں مجلس :-

رمضان کے پانچ حرف ہیں ۔ ۔ر –م – -ض – -ا – ن – رحمت اور رافت سے ہے م مجازات محبت اور منت سے ہے ض ضمان اور ثواب سے ہے – ۱ – الفت اور قربت سے ہے ۔ ” ن ” نوراور نوال (عطا )سے ہے۔ جب تم اس مہینہ کا حق پورا کر دو گے ، اور عمل صحیح کر لوگے تو یہ چیزیں حق تعالے کی طرف سے تمہیں ملیں گی جو تمہارے دلوں کو دنیا میں زندہ کر دیں گی۔ روشن کرنے والی اور ان کے لیے روشنی کا باعث ہوں گی۔ اور اس کی نعمت بخشش ظاہر اور باطن ہوگی۔ آخرت میں وہ چیزیں ملیں گی جن کو نہ آنکھ نے دیکھا اور نہ کان نے سنا ۔ اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں گذریں۔ تم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے پاس روزوں کے مہینے کی کوئی بھی بھلائی نہیں جکم کا احترام. اس حکم کے کرنے والے کے احترام کے مطابق ہوتا ہے ۔ تو جس کے پاس نہ اللہ تعالی کی طرف سے اور نہ رسول اللہ اور اس کے بندوں میں سے انبیاء ، صالحین علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف سے بھلائی نہیں ہے. اس کے پاس اس مہینہ کی بھلائی کیسے ہو ۔ اکثر لوگ اپنے ماں باپ اور پڑوسیوں کو روزہ رکھتے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے ساتھ بغرض عبادت نہیں بلکہ بطور عادت یہ بھی روزہ رکھ لیتے ہیں۔ خیال یہ کرتے ہیں کہ روزہ کھانے پینے سے رکنے کا نام ہے۔ اس کے شرائط و ارکان کو پورا نہیں کرتے ۔ اے لوگو . عادت کو چھوڑ دو عبادت کو اختیار کرو۔ اللہ تعالے کے لیے روزے رکھو ۔ اس مہینہ میں روزے رکھ کر اور اس ماہ میں عبادت کر کے اپنی شان بڑھاؤ عمل کرو. اخلاص اختیار کرو. نماز تراویح لازمی طور پر ادا کرو. مسجدوں میں روشنی کرو. اس واسطے کہ قیامت کے دن یہ نور ہو گا۔ جب اللہ تعالے نے اس مہینہ میں کھلایا ہے۔ تو اس کا احترام کرو۔ تمہارے رب جلیل کے ہاں یہ تمہاری سفارش کرے گا۔ اور تمہارے اپنے لیے اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم – نعمت و بخشش مہر وحلم اور حفظ و امان مانگنے پر تمہاری تعریف کرے گا ۔ بد نصیبی تمہاری تمہیں کیا چیز فائدہ دے گی ۔ روزہ رکھتے ہو اور حرام پر کھولتے ہو ۔ ان مبارک راتوں میں گناہ کر کے سوتے ہو۔ اور تم خرابی تمہاری جب تک لوگوں میں ہوتے ہو، ریا کاری اور نفاق سے روزہ رکھتے ہو، جب تنہا ہوتے ہو۔ کھول دیتے ہو۔ پھر نکلتے ہو۔ اور کہتے ہو۔ میں روزہ دار ہوں۔ اور تم دن بھر گالیاں دیتے ہو ۔ تہمتیں لگاتے ہو، جھوٹی قسمیں کھاتے ہو، کمی زیادتی کر کے جیلہ بہانہ کر کے اور لوٹ کھسوٹ سے لوگوں کا مال چھینتے ہو۔ یہ چیز تمہیں فائدہ نہ دے گی نہ تمہارا روزہ شمار ہوگا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو روزہ سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اور بہت سے (نماز کے لیے کھڑے ہونے والے میں جن کو اپنی نماز سے سوائے مشقت اور بیداری کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ تم میں ایسے بھی ہیں جو ظاہر میں مسلمان ہیں اور باطن میں بتوں کے پجاریوں کی مانند ہیں، کم بختی تمہاری اسلام تو بہ معذرت اور اخلاص کی تجدید کرو. تا کہ تمہارے مولا کریم تمہارے سے قبول فرمائیں ۔ اور تمہارے پہلے گناہ معاف فرمائیں۔ اور روزوں پر اپنے پروردگار شکر ادا کرو کہ تمہیں کس طرح ان کے قابل کر دیا۔ اور تمہیں ان پر قدرت ہوگئی۔ جو تم میں سے روزے رکھے، تو چاہیئے کہ اس کے کان – اس کی آنکھیں . اس کے ہاتھ. اس کے پاؤں ۔ اس کے اعضاء ۔ اس کا دل بھی روزہ رکھنے چاہیے کہ اس کا سارا ظاہر روزہ رکھے اور اس کا سارا باطن روزہ رکھے ۔ جب تم روزہ رکھ لو۔ تو جھوٹ ، جھوٹی شہادت غیبت چغلی لوگوں میں ریشہ دوانی اور ان کے مال چھینے کو چھوڑ دو۔ یہ تمہیں محض اس لیے وصیت کی جاتی ہے ، تاکہ تم اپنے گناہوں پر نظر کرو. اور ان سے بچو جب تم ان میں لگو، تو تمہیں تمہارا روزہ فائدہ نہ دے گا ۔ کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمان نہیں سنا۔ روزہ ہماری ڈھال ہے ۔ ڈھال کا فرمان اس لیے ہے ، کہ (ڈھال ، ڈھال) والے کو چھپا لیتی ہے ۔ اور اس کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ اسی واسطے اترس ڈھال کو (فیتہ ) ڈھال کا نام دیا جاتا ہے کہ وہ (ڈھال) والے کو چھپا لیتی ہے۔ اور اس کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ اور اس سے تیروں کو روک دیتی ہے ۔ اور جس کی عقل کھو جائے ۔ اسے بھی مجنوں کا نام اسی واسطے دیا جاتا ہے، کہ یہ (جنون) اس کی عقل کو ڈھانپ لیتا ہے ۔ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے۔ جو روزہ رکھے پر ہیز گار بنے ۔ اللہ سے ڈرے اور اخلاص اختیار کرے ۔ تو اس وقت روزہ روزہ دار سے دنیا اور آخرت کی مصیبتیں دور کر دیتا ہے۔ اے روزہ دارو۔ فقیروں اور محتاجوں کی تھوڑے سے کھانے سے غمخواری کرو چونکہ اس سے تمہارا ثواب زیادہ ہو گا ۔ اور یہ افطاری کے وقت تمہا را روزہ قبول ہونے کی علامت ہے ۔ یہ سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں۔ بس وہ باقی رہے گی جو تم اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دو۔ پس تم آگے بھیجو۔ جب تک تمہیں آگے بھیجنے کی قدرت ہے۔ قیامت کے روز تم بھوکے پیاسے ننگے ، ڈرتے شرمسار، پیدل اور ذلیل حال میں اٹھائے جاؤ گے جس نے دنیا میں کھلایا اس کو اس دن کھلایا جائے گا ۔ اور جس نے دنیا میں پلایا ۔ اس کو اس دن پلایا جائے گا جس نے دنیا میں پہنا یا اس کو اس دن پہنایا جائے گا ۔ اور جو حق تعالے سے ڈرا ۔ اور دنیا میں اس سے شرم کی۔ اس دن امن سے ہوگا جس نے دنیا میں رحم کیا۔ اس پر اس دن اللہ تعالے کا رحم ہو گا ۔ اس مہینہ میں ایک رات ہے جو سال میں بڑی رات ہے ۔ اور وہ قدر کی رات (شب قدر) ہے۔ اللہ تعالے سے مخلص بندوں کے ہاں اس کی (کچھ) نشانیاں ہیں جن کی آنکھوں سے پردہ ہٹتا ہے، وہ الو بیت کا وہ نور دیکھتے ہیں جو فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور ان کے چہروں کا نور اور آسمان کے دروازوں کا اور حق تعالے کی روح یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کا نور دیکھتے ہیں ۔ اس واسطے کہ وہ اس رات زمین والوں کے لیے اترتے ہیں ۔ اے لوگو! اپنے کھانے کو اپنا غم نہ بناؤ، چونکہ یہ گھٹیا غم ہے ، کھانے

پینے میں نہیں آزمایا گیا ہے ۔ اور رزق کے معاملہ میں تو تمہاری کفالت ہو چکی ہے۔ پس تم اس کا اہتمام کرو۔ غم مت کرو، وہ پاک اور بے نیاز ذات ۔ نہ اس کو ڈر ہے ۔ اور نہ کھاتی ہے اور نہ پیتی ہے پھر تمہاری حرص کیوں نہیں ہوتی ۔ اپنی پر ہیز گاری اور اپنی امانتوں کا علاج کرو. کم نصیبی تمہاری ۔ دنیا ، ساعت” (گھڑی. وقت گزاری) ہے۔ تم اس کو اطاعت” (تابعداری فرمانبرداری) بناؤ۔ دنیا کے کاموں اور آخرت کے کاموں. تمام حالات میں پرہیزگاری اختیار کرو۔ اور تم فلاح پا جاؤ گے۔ جب تم نے پر ہیز گاری کو اختیار کیا۔ تمہارے پر حجت باقی نہ رہی ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے راضی ہوئے ۔ ایک بزرگ مرنے کے بعد خواب میں دکھائی دیتے ۔ ان سے پوچھا گیا۔ آپ سے اللہ نے کیا معاملہ کیا ۔ تو فرمایا کہ ایک روز میں نے حمام میں وضو کیا اور مسجد میں چلا گیا ۔ چنانچہ جب اس کے نزدیک ہوا۔ اپنے پاؤں سے ایک روپیہ برا بر جگہ دیکھی جس کو پانی نہ چھویا ۔ میں لوٹ آیا۔ اور اس جگہ کو دھویا ۔ تو حق تعالے نے فرمایا ۔ میں نے تمہیں اپنی شریعت کا احترام کرنے کی بناء پر بخش دیا ہے ۔ کہاں تم اور کہاں اللہ والے ۔ ان کی کروٹیں سونے کی جگہ سے جدا رہتی ہیں ۔ وہ سو نہیں سکتے اور کیسے سوئیں. ڈر ان کو بے قرار رکھتا ہے اور ان کی آنکھوں سے نیند اڑ جاتی ہے۔ اور محبت جودہ اپنے کھڑے ہونے اور سجدہ کرنے میں محسوس کرتے ہیں نہیں سوتے مگر یہ کہ ان کے سجدے کی حالت میں کسی چیز کا غلبہ ہو جائے سو پاک ہے وہ ذات جو غلبہ کی حالت میں ان پر اس مہینہ کا احسان کرتی ہے تا کہ اس گھڑی ان کے جسم راحت حاصل کر سکیں۔ ان کی کروٹیں سونے کی جگہ سے جدا رہتی ہیں۔ نہ بستر سے ان کو قبول کرتے ہیں۔ نہ ہی وہ ان پر قرار پکڑتے ہیں کبھی ڈر سے کبھی امید سے کبھی محبت سے اور دیگر شوق سے ، تم تھوڑی اطاعت کے ساتھ اپنے پر ور دگا ر اعلی سے کتنا کم ڈرتے ہو اور نیک لوگ اپنے پرور ردگا ر اعلی کی زیادہ اطاعت کے ساتھ کتنا زیادہ ڈرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز ادا فرماتے تھے ۔ تو آپ کے سینہ مبارک سے ہنڈیا  کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی تھی۔ اور ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام جب نماز ادا فرماتے تھے تو ان کے سینہ کی گڑگڑاہٹ میل جو آٹھ فرلانگ کی ہوتی ہے سے سنائی دیتی تھی۔ صدیق نبی خلیل محب اور مقبول الدعا ہونے کے باوجود ڈرتے تھے۔ اپنے چہرے اپنے پروردگا ر اعلیٰ کی طرف پھر اؤ ۔ تمہارے چہرے تمہارے پروردگارا علی کی طرف نہیں ، تم درمیان سے چکر کھا گئے ۔ تم دوڑ سے نکل گئے ۔ اس کی اطاعت کے ساتھ تمہاری محبت کم ہو گئی ہے اور اس سے خشکی زیادہ ہو گئی ہے ۔ اور بھلائی سے تو تھوڑا ہی اچھا۔ اور دنیا کا زیادہ بھی تمہارا پیٹ نہیں بھرتا ۔ اور شکم سیر نہیں ہوتا ۔ یہ اس کا کام نہیں، جسے یہ معلوم ہو کہ اسے مرنا ہے ۔ اور اس کے پر ور دگار اعلیٰ کو باقی رہنا ہے۔ اور قیامت کے روز اس کے اعمال اس کے سامنے پیش ہوں گے۔ یہ کام اس کا نہیں ہوتا ۔ جو حساب و کتاب اور پوچھ گچھ سے ڈرتا ہے یہ کام اس کا نہیں ہوتا۔ جو اپنی قبر میں اترنے کا ارادہ کرتا ہے ۔ نہ وہ یہ کام کرتا ہے۔ (اور قبر، یا تو دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے، یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔ اللہ کے بندے دن میں روزہ رکھتے ہیں۔ اور رات کو نماز میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ جب تھک جاتے ہیں، زمین پر گر پڑتے ہیں تو کچھ راحت پاتے ہیں۔ سو اُن کی کروٹیں سونے کی جگہ سے جدا رہتی ہیں۔ چنانچہ اٹھ بیٹھتے ہیں۔ اور اس پر عمل کرتے رہتے ہیں۔ اپنے پروردگار کو ڈر اور امید سے پکارتے ہیں ۔ رد ہونے سے ڈرتے ہیں۔ اور مقبولیت کی امید لگاتے ہیں کہتے ہیں ۔ اے رب ہمارے ہم نے درست پورا  اور اخلاص سے خود بینی اور تعمیر سے خالی کام نہیں کیا ۔ سورد ہونے سے ڈرتے ہیں۔ پھر اپنے کام کے مقبول ہونے کی بھی امید کرتے ہیں ۔ کہ دہ بلاشبہ مہربان تھوڑا قبول کرنے والا اور زیادہ دینے والا ہے۔ پرانے خراب موتی قبول کر لیتا ہے اور نئے اچھے بخش دیتا ہے کھوٹی پونجی قبول کر لیتا ہے۔ اور پورا ناپ دے دیتا ہے ۔ ڈر عزیمت ہے اور امید رخصت ہے، اللہ والے ڈرا ور امید کے درمیان رہتے ہیں کبھی اس میں کبھی ظاہر کے ساتھ کبھی باطن کے ساتھ کبھی ملنے پر کبھی نہ ملنے پر اسی طرح رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ مدت پوری ہو جاتی ہے۔ اور ان کے دل ان کے خالق سے مل جاتے ہیں۔ اب ان کے ہاں نہ رخصت رہتی ۔ نہ میل عزیمت اور پاکیزگی جڑ پکڑتی ہے ۔ سارا مال دروازہ تک پیچھا کرے گا۔ اور بیوی بچے قبروں تک پیچھے جائیں گے اور لوٹ آئیں گے ۔ عمل تمہارا ساتھ دے گا اور تمہارے ساتھ قبر میں اترے گا اور تمہارا ساتھ نہ چھوڑے گا۔

اے قافلہ ! اپنا ساتھ چھوڑنے والی چیز کم لو ۔ اور اپنے ساتھ والی اور ساتھ نہ چھوڑنے والی چیز زیادہ لو۔ نیک عمل زیادہ کرو. روزہ رکھو۔ اور اپنے روزہ میں اخلاص اختیار کرو. حج کرو. اور اپنے حج میں اخلاص اختیار کرو – زکوۃ دو اور اپنی زکوۃ میں اخلاص اختیار کرو. اپنے رب جلیل کو یاد کرو۔ اور اس کی یاد میں اخلاص اختیار کرو. نیک لوگوں کی خدمت کرو. اور ان کے نزدیک ہو جاؤ۔ اور ان کی خدمت کے سلسلہ میں اپنے اندر اخلاص پیدا کرو. اپنے ہی عیبوں کو ٹٹولنے میں مشغول رہو. اور دوسروں کے عیبوں سے اعراض کرو. اچھی بات کا حکم کرو. اوربری بات سے منع کرو، لوگوں کی ٹو ہ نہ لگاؤ۔ اور ان کی پردہ دری نہ کرو جو ظاہر کرتے ہیں۔ اسے برا جانو اور جو  چھپاتے ہیں. اس کا تم پر ذمہ نہیں۔ اپنے ہی دونوں کی اصلاح میں مشغول رہو۔ تمہارے پر دوسروں کی ذمہ داری نہیں، بے مطلب قسم کی بات چیت زیادہ نہ کرو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مرد کی مسلمانی یہ ہے کہ وہ لا یعنی قسم کی چیزوں کو چھوڑ دے۔ تمہارے عیب تمہاری مدد کرتے ہیں ۔ اور دوسرے کے عیوب تمہاری مدد نہیں کرتے ۔ کہا مانو نیک بنو۔ اور غصہ نہ کرو۔ اور یکتا (خدا) کی نافرمانی نہ کرو کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ تمہارا مخلوق اور اسباب پر بھروسہ کرنا شرک ہے۔ کم نصیبی تمہاری تم پاگل ہو ۔ ناراضگی اور اعتراض تمہیں کوئی چیز دیتے ہیں یا تمہارے سے کسی چیز کو دور کرتے ہیں۔ تمہارا غصہ کسی چیز کو آگے یا پیچھے کر دیتا ہے ۔ بلا ( نازل) کرنا اور بلا کو دور کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اسی نے بیماری اتاری ہے جس نے دوا پیدا کی ہے محض تمہیں آزمانا ہے ، تاکہ تمہیں اپنے آپ کی پہچان ہو جائے ۔ اور تمہیں بلا کے نازل کرنے سے اپنی نشانیاں اور اپنی قدرت دکھا دے ۔ اور اس کو اٹھا کر تمہیں اپنا کہا دور کر کے دکھا دے ۔ اور مصیبتوں کا رکھنا تو حق تعالے کے دروازہ کو پہنچنوانا کھٹکھٹانا ہے اور بندہ کے اور حق تعالے کے دل کو ملانا ہے ، یا منزل کی سہولتیں نہیں مصیبتوں پر غصے مت ہو ۔ چونکہ یہ تمہاری ان چیزوں کی اصلاح کرنے والی ہیں جن کو تم پسند نہیں کرتے ہو ۔ کیوں اور کیسے کو درمیان سے الگ کرو – جب تم مصیبت پر صبر کرو گے ۔ تم ظاہری اور باطنی گنا ہوں سے پاک ہو جاؤ گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تک، مومن زمین پر چلتا ہے مصیبت تو اس کے لیے رہنی ہی ہے۔ اور وہ اس کے لیے غلط نہیں ہے۔ بلکہ اس کی غلطیوں کو نامہ اعمالوں سے اڑا دیتی ہے اور ان فرشتوں کو پھیلا دیتی ہے جنہوں نے ان کو لکھا ہوتا ہے۔ ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ ! آپ کو لوگ آپ کی نعمتوں کی بناء پر محبت کرتے ہیں اور میں آپ کو آپ کی مصیبتوں کی بناء پر محبت کرتا ہوں۔ اور ایک بزرگ کا تو یہ حال تھا جس دن ان کو کوئی مصیبت نہ آتی تو فرماتے۔ اے اللہ ! آج میں نے کونسا گناہ کیا ہے۔ کہ آپ نے مجھے مصیبت سے محروم کر دیا ہے۔ کم نصیبی تمہاری ۔ جب تم اس کی قضا پر راضی نہیں۔ تو اس کی روزی نہ کھاؤ۔ اور اس کے سوا کوئی پروردگار تلاش کرو۔ اللہ تعالے نے ایک جگہ فرمایا ۔ اے آدم کے بیٹے ! جب تم میری قضا پر راضی نہیں اور تمہیں میری مصیبت پر صبر نہیں ۔ تو میرے علاوہ کوئی اور پر ور دگار تلاش کرو چاہیئے ۔ کہ میرے آسمان کے نیچے سے نکل جاؤ ۔ اپنے پروردگار کے ساتھ صبر کرو۔ کہ اس کے سوا تمہارا کوئی پر ور دگا ر نہیں ۔ اس کے سوا دوسرا پر ور دگار نہیں، دوسرا دروازہ نہیں ۔ دوسرا خالق نہیں، دوسرا رازق نہیں۔ اس ایک کے ساتھ صبر کرو ۔ تمہارے لیے جو بھی چاہے ۔ اے اللہ ! ہمیں اپنے سے مطمئن راضی موافق مسلمان ، تابعدار بنائیے ۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے اور دوزخ کے عذاب سے بچائیے ۔

اکتیسویں مجلس :۔

جب بندہ حق تعالے کو پہچان لیتا ہے تو اس کے دل کو پوری کی پوری نزدیکی ہوتی ہے۔ اور ساری کی ساری بخشش ہوتی ہے ۔ اور باطن پورے کا پورا محبت ہوتا ہے اور پوری کی پوری عزت ہوتی ہے ، جب سکون ہو جاتا ہے تو ” اس سے زائل کر دیا ہے۔ اس کا ہاتھ تنگ ہو جاتا ہے۔ اور اس کی طرف لوٹ جاتا ہے ۔ اور اپنے اور اس کے درمیان پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کو آزمانے  کیلئے تاکہ دیکھے کیسے بھاگتا ہے . آیا پھر تا ہے یا قائم رہتا ہے ۔ جب قائم رہتا ہے تو اس سے پردے اٹھا دیتا ہے۔ اور اس کو اس کی حالت پر لوٹا دیتا ہے۔ کیا تم نے باپ کو نہیں دیکھا جس نے اپنے بیٹے کو آزمایا ۔ اس کو اپنے گھر سے۔ باہر نکال کرتا ہے اور اس پر دروازہ بند کر دیتا ہے۔ اور یہ دیکھنے بیٹھ جاتا ہے کہ وہ کیا کرتا ہے ۔ جب دیکھتا ہے کہ دہلیز پکڑے ہوئے ہے اور پڑوسی کے ہاں نہیں گیا اور اس سے شکایت نہیں کی ۔ اور ادب بھول گیا۔ دروازہ کھولا اور اس کو پکڑا ۔ اور اس کو سینے سے لگایا ۔ اور اس سے بھلائی میں اور زیادتی کی۔ جس کے عمل میں اخلاص نہیں ہوتا۔ اس کے ہاتھ اللہ کی نزدیکی ذرہ بھر نہیں پڑتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں ایک جگہ فرمایا ۔ میں شریک کرنے والوں کے شرک سے بے پرواہ ہوں جس نے کوئی کام کیا. اور اس میں دوسرے کو شریک ٹھہرایا تو وہ میرے علاوہ میرے شریک کے لیے ہے ۔ میں تووہی قبول کرتا ہوں جو محض میری ذات کے لیے کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ قیامت کے دن منافق کو کہا جائے گا ۔ اے  بے وفا ۔ اے  نافرمان اپنے (کام) کا بدلہ اس سے طلب کرو جس کے لیے تم نے اس کو کیا ۔ اے غیر اللہ کی عبادت کرنے والے کیا تم نے نہیں سنا کہ اللہ تعالے نے کیسے فرمایا ” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔ اور ارشاد فرمایا ” ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں ہوا ۔ کہ ایک معبود کی عبادت کریں اور باری تعالیٰ کا ارشاد ” اور ان کو یہی حکم ہوا، کہ خالص اسی کی عبادت کریں: ہر بندہ کے لیے واجب ہے کہ پروردگا ر اعلیٰ کی محض اس کی ذات اور خوشنودی کے لیے عبادت کرنی چاہیئے ۔ نہ کہ غرض اور مطلب کے لیے ۔ اور نہ داد و عیش کے لیے ۔ اور جو تمہارے میں سے سوائے تنہائی میں اخلاص سے عاجز ہو. اس کو چاہیئے ۔ اپنا کام تنہائی میں کرے ۔ تاکہ اس کو مخلوق کی آنکھ نہ دیکھے ، اور نہ ہی اگر پر ور دگا ر اعلیٰ چاہے اس کے قرآن پڑھنے اور تسبیح کرنے کی آواز کو کوئی کان سنے ۔

آپ نے فرمایا اگر کسی نمازی نے اندھیرے میں نماز پڑھی ۔ اور اس سے کوئی بندہ واقف ہو گیا۔ وہ عاجزاور فقیر ہو کر آئے گا ۔ اور اس کو کوئی چیز بدل نہ سکے گی ۔ جو کوئی کام کرے ، اور اخلاص نہ برتے ۔ تو اس کا کام کچھ بھی نہیں۔ اے خرچ کرنے سے روکنے والے کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنا اور ہماری روزی سے خرچ کرتے ہیں ۔ یعنی اپنا مال اپنے بیوی بچوں اور محتاجوں پر خرچ کرتے ہیں بخیل مخلوق اور خالق دونوں کے نزدیک محروم اور دور کیا ہوتا ہے۔ اپنے رب جلیل سے اس کا فضل مانگو۔ اس سے مانگو۔ چاہے تمہاری بات پوری کرے یا نہ کرے ۔ فرمایا ۔ اس سے مانگنا عبادت ہے۔ دُور سے پکار اور نزدیک سے کانا پھوسی اور پاس سے اشارہ ہوتا ہے جو دور ہوتا ہے۔ فریاد کرتا ہے۔ پکارتا ہے ۔ اے مالک – مجھےدے ۔ مجھے قریب کر اور جو اس سے نزدیک ہوتا ہے سختی کے وقت اس سے ملتا ہے کی آواز سے کانا پھوسی کرتا ہے۔ چونکہ وہ اس کے نزدیک ہوتا ہے ۔ اور جو ساتھ بیٹھتا ہے. اس پر ہیبت طاری ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ خاموش رہتا ہے۔ اور اشارہ ہی کرتا ہے ۔ مسلمان دنیا میں اور حسن ادب اختیار کرتا ہے ، اور محجوب جب اس کا دل نزدیکی کے پردے میں ہوتا ہے۔ ایک اشارہ کرتا ہے۔ اللہ اس پر رحم کرے ۔ جو میری بات کو پائے ۔ اور اس پر عمل کرے ، اور اپنے دل سے مجھے اور میری بات کو الزام دینا نکال دے ۔ اور سلامت رہے جو اس کو سمجھتا نہیں۔ اور اس کا کام ان کی طرف یعنی اللہ تعالی کی طرف نہیں پہنچنا ۔ اللہ والے ایمان لاتے ہیں۔ سچ بولتے ہیں علم سیکھتے ہیں۔ اخلاص اختیار کرتے ہیں۔ اور اپنے مال نیک لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اپنے مال ان دلیلوں سے نکالتے ہیں جس کے ساتھ اپنے آپ کے خلاف حجت پکڑتے ہیں کبھی فرض زکوۃ سے کبھی غیر فرض صدقہ اور قربانی سے کبھی نذر سے قسم اس وقت اٹھاتے میں جب اس سے چارہ ہی نہ ہو۔ سو یہ چیز نکالتے ہیں۔ اس سے اپنے دلوں ، اپنے یقین اور اپنے آپ پر غالب آنے کی طاقت کی بنا پر اللہ تعالے سے نزدیکی ڈھونڈتے ہیں۔ اور ان میں بعض ایک مقرر چیز کا حکم کرتے ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ کی بات بجالاتے ہیں۔ اور ان میں بعض ایسے ہیں جن کے ہاتھ پر بخشش جاری ہوتی ہے ۔ اور خود بے پرواہ ہوتے ہیں۔ ایک بزرگ کا قصہ نقل کرتے ہیں کہ وہ کسی جنگل میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ ان کے پاس سے اونٹوں والوں کی ایک جماعت کا گزر ہوا تو ان میں سے ایک نے ان کے کندھے سے ان کی چادر اتار لی۔ چنانچہ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے۔ تو جس نے ان کی (چادر) لی تھی۔ اس نے کہا مجھے معلوم کرنے دیجئے کس نے آپ کی چادر لی ۔ اور ان کی چادر ان کو واپس کر دی ۔ یہ انہوں نے کہا ۔ خدا کی قسم مجھے نہیں پتہ چلا۔ اور اگر تم اسے لینا چاہو تو لے اور اللہ والوں کو تو محض اس چیز کی خبر ہوتی ہے جس میں وہ لگے ہوتے ہیں۔ جب اپنے رب جلیل کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو معنوی طور پر اللہ کے علاوہ ہر چیز سے غائب ہو جاتے میں ۔ اور دل غائب ہو کر محض صورت باقی رہ جاتی ہے۔ ایک بزرگ تھے۔ اور وہ مسلم بن نشار رحمتہ اللہ علیہ تھے ۔ جب گھر میں آتے۔ ان کے بچے چپ ہوجاتے اور اس قدر با ادب ہو جاتے کہ ان میں کسی کوہنسنے کی مجال نہ ہوتی۔ اور آپ کو ان کی اس گھٹن پر افسوس ہوتا تھا۔ تو یوں کرنے لگے ۔ کہ جب نماز شروع کرنے کا ارادہ کرتے ۔ ان سے فرماتے تم اپنے کام میں لگے رہو۔ اور اپنی گھٹن دور کر دو (اپنا گھٹنا چھوڑ دو) اس واسطے کہ میں نہیں کہتا کہ تم کیا کرتے ہو۔ تو ان کا یہ حال تھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو (بچے شور مچاتے۔ خوش ہوتے اور ہنستے اور ان کو معلوم نہ ہوتا کہ وہ کیا کرتے ہیں ۔ اور ایک دن جامع مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے تو ایک ستون اور اس کے اوپر کی کڑیاں ان کے نزدیک آگریں۔ اور ان کو خبر نہ ہوئی ۔ اور گھر میں آگ لگ گئی ۔ جبکہ وہ نماز میں لگے تھے چنانچہ لوگ آئے ۔ انہوں نے آگ کو بجھایا ، اور ان کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی۔ اللہ والے سارے کے سارے مخلوق کے بھلے کاموں کے لیے ہوتے ہیں اور ان کے لیے خالق ہوتا ہے۔ اپنے ہاتھ کا مال اور اپنے سینہ کا علم خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے اکسیر اعظم پائی ۔ تو دنیا ان کے سامنے ذلیل ہو گئی۔ بڑی سلطنت پائی ۔ تو دنیا کی سلطنت ان کے سامنے ذلیل ہو گئی۔ انہوں نے ہر ایک چیز سے بے رغبتی اختیار کی ۔ چنانچہ ان کے دلوں کو تکوین بخشی گئی۔ جب تک یہ ظاہر تمہارے ہاتھ میں رہے گا۔ اور دل اس میں لٹکا رہے گا تم تکوین میں سے کچھ بھی نہ دیکھو گے ۔ ایک بزرگ سے سوال کیا گیا ۔ آپ کہاں سے کھاتے ہیں تو جواب دیا ۔ بدر کبیر سے تو پوچھا گیا، اور ” بدر کبیر کیا ۔ فرما یا کن فیکون (ہو جا ہو گیا )دنیادی معاملات میں اپنے سے نیچے کی طرف دیکھو، اور آخرت کے معاملات میں اپنے سے اونچے کی طرف دیکھو ۔ ایک بزرگ سے منقول ہے کہ عید کے دن ہندوانہ خریدا اور اس کو کھانے بیٹھے ، تو فرمایا کیا تم نے کوئی میرے ایسا دیکھا جو آج ایسے دن ہندوانہ گھی اور نمک کے بغیر کھائے ۔ پس جب نظر پلٹی تو ایک کو وہ چھلکے کھاتے دیکھا جن کو وہ پھینک رہے تھے ۔

چنانچہ رو پڑے۔ اور اللہ تعالیٰ سے اپنی بات کے سلسلے میں معذرت چاہی۔ تمہارے نہ دینے میں تمہارا ہی نقصان ہے۔ حق تعالے نے قرض چاہا۔ کون ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے جب تم نے اس کو قرض دیا ۔ اور فقیر سے اس کو حوالہ قبول کر لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کو دوگنا کریں گے ۔ اور اس سے زیادہ دیں گے جو تم نے آج دیا۔ اور کل تمہارا اس سے معاملہ پڑے گا ۔ تو اس کے فائدے دیکھ لوگے۔ اس سے بغیر تجربہ کے معاملہ کرو۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو جب پانچ سو روپے کی ضرورت ہوتی تھی۔ اور ان کے پاس پچاس روپے ہوتے تھے۔ ان کو صدقہ کر چھوڑتے تھے۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد پانچ سو روپے آجاتے ۔ اور اگر یہ نہ بھی آتے ۔ تو نہ ہی اپنے رب جلیل کو الزام دیتے ۔ اور نہ ہی اعتراض کرتے۔ اور نہ ہی ناخوش ہوتے ۔ اللہ والے اپنے رب جلیل کے اس معاملہ کے عادی ہو جاتے ہیں۔ جو قرآن و حدیث اور ان کے دل کے یقین کے مطابق ہوتا ہے ۔ ایک بزرگ کا قصہ ہے کہ ان کے پاس تین انڈے تھے۔ ایک ٹانگنے والا آیا ۔ تو آپ نے لونڈی سے فرمایا ، یہ انڈے اس کو دیئے تو لونڈی نے ایک نئے چھپا رکھا۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد ایک دوست نے ہمیں انڈے بطور تحفہ بھیجے تو آپ نے اپنی لونڈی سے پوچھا تم نے ماننے والے کو کتنے دیئے۔ تو اس نے بتایا کہ دو انڈے دیتے۔ اور ایک میں نے آپ کے لیے چھپا رکھا ، کہ آپ اس سے افطار کریں ۔ تو فرمایا ۔ اے کم یقین کرنے والی۔ تم نے ہمیں دس (انڈوں، سے محروم کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مردی ہے ۔ مغلوب تو وہ ہے ، جو اپنے ایسی مخلوق کے سامنے شکایت کرے . اے  مسکین جب تمہارے پاس فقیر (قرض مانگنے آئے ۔ تو اس کو (قرض) دو، اور مت کہو تم مجھے کیا دو گے. جب تم نے دل کے خلاف کیا، اور اس کو قرض دیا ۔ اورکچھ دیر بعد اس کو بخش دیا۔ فقیروں میں بعض ایسا بھی ہے جس کی مانگ پوری نہیں ، بلکہ قرض لیتا ہے۔ اور اللہ کے بھروسہ پر اس کی ادائیگی کی نیت رکھتا ہے۔ اور اسی کے بھروسہ قرض لیتا ہے۔ اےغنی جب تمہارے پاس قرض مانگنے آئے ، تو اس کو قرض دو اور اس کے سامنے بخشش نہ کرو کہ عاجزی پر اور عاجزی بڑھ جائے جب مدت مانگے تو دے ڈالو۔ اور اُس سے تمہارے سے اس قرض کو قبول کرنے کے بارہ میں اور اُس سے بری الذمہ ہونے کے لیے پوچھو۔ تا کہ تمہیں پہلی خوشی اور دوسری خوشی کا ثواب حاصل ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا اپنے بندہ کے لیے تحفہ اس کے دروازہ پر مانگنے والے کا ہونا ہے کم نصیبی تمہاری فقیر اللہ تعالیٰ کا تحفہ کیسے نہ ہو۔ وہ تمہاری دنیا سے کوئی چیز تمہاری آخرت کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کی ضرورت کے وقت تم اسے پالو ، اتنی سی مقدار جو اسے دیتا ہے ۔ بے پروا بنا دیتی ہے، اور (فکر وغم) دور کر دیتی ہے۔ اور اللہ تعالے کے ہاں تمہارے درجات بلند کرتی ہے۔ کم بختی تمہاری ۔ اے بندو۔ کیا تم شرماتے نہیں۔ تم اپنے پروردگار کی عبادت اس لیے کرتے ہو کہ تم کو جنت دے ۔ تم کو حوریں دے ۔ تم کو بچے دے جنت گھر ہے ۔ رہنے والا کہاں ہے۔ کون ہے۔ جو محض ذات خداوندی کا طالب ہے۔ بغیر جنت چاہے بغیر دنیا چاہے بغیر مخلوق چاہے ۔ اور یہ چیز کم نہیں، جو حق تعالیٰ کی دید اور اس کے قرب کا طالب ہے۔ اس کی دید پہچاننے والو اور پیار کرنے والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ اور اس کی دید جنت ہے اور حور ، کھانے پینے کے ساتھ اس میں رہنا زا بدوں کی آنکھ کی ٹھنڈک ہے ۔ اور ان میں کتنا فرق ہے۔ اے دنیا کو چاہنے والو۔ تمہارا وقت تو نا چیز (کاموں میں ضائع ہو گیا، اے جنت لونڈیوں اور بچوں کو چاہنے والے۔ تم نے پر ور دگار اصلی کے علاوہ کا ارادہ کیا ہے اور دوسرے کو اختیار کیا ہے ۔ اگر تمہارے لیے بھلائی ہوتی تو تمہیں اس سے، ایک لمحہ کے لیے غائب ہونا پسند نہ ہوتا۔ خرابی تمہاری تم پہچانتے نہیں کم نصیبی تمہاری حق تعالیٰ کی طرف ایک نظر کی لذت جنت کی ان سب چیزوں کو گھیر لیتی ہے جو بچوں ۔ لذتوں ۔ مزوں اور آرام سے اس میں ہیں ۔ تا کجا کہ بہت سی نظروں اور بہت سی گھڑیوں کی لذت دنیا مصیبتوں کا گھر ہے پیٹ اور شرمگاہ کا مزہ ہے عجیب و غریب ہے ۔ دن کی افطاری اور اپنی خواہش نفسانی کی پیروی۔ مزوں اور لذتوں کے لیے کھانا ۔ انسانوں کے شیطانوں کی جو بڑے ساتھی ہیں کے ساتھ بیٹھنا ایسے ہے گویا وہ نفس کی بھٹی میں شہوت کی آگ بھڑکا رہا ہے. اے اللہ ! ہمیں مجاہدہ نفس کی طاقت دیجئے ۔ ہمیں روزی دیجئے۔ ہمیں لوگوں کے لیے ہدایت دیجئے ۔ ہمارے دلوں کو روشن کر دیجئے ۔ اور ہمیں ایسا نور بنائے۔ جس سے لوگ روشنی حاصل کریں ۔ ہمیں اپنی محبت کی شراب پلائے۔ یہاں تک کہ ہم (خود) اس سے سیراب ہو جائیں ۔ اور ہمارے ساتھ ہر پیاسا سیراب ہو جائے ۔ ہمیں بخشش اور رضا مندی نصیب فرمائیے ۔ اور ہمارے دلوں میں عطا کی صورت میں شکر اور روک اور دروازہ بند ہونے کی صورت میں رضا ڈال دیجئے۔ ہمارے بچے کو ثابت کر دیجئے ۔ اور ہمارے جھوٹ اور باطل کو مٹا دیجئے، آمین

. بتیسویں مجلس :

متقی لوگ تووہ میں جو اپنی جلوت اور خلوت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ۔ اور سب حالات میں مراقبہ کرتے ہیں۔ اس سے ان کے دل کے ٹکڑے رات اور دن کا نپتے رہتے ہیں۔ ایسی آفتوں کی بنا پر آنے والی مصیبتوں سے ڈرتے ہیں۔ جو انہیں اندھا کر کے اللہ تعالیٰ سے کاٹ دیتی ہیں۔ پس وہ کفر کی طرف پلٹتے ہیں۔ ایسی حالت میں ملک الموت علیہ السلام کی آمد سے ڈرتےہیں جبکہ وہ بُرے اعمال اختیار کیے ہوئے ہوں . ” دیتے ہیں جو دیتے ہیں۔ اور دل ان کے ڈر رہے ہوتے ہیں ۔ رد سے ڈرتے ہیں۔ اپنے بارہ میں علم الہی سے ڈرتے ہیں حضرت فضیل ابن عیاض رحمتہ اللہ علیہ جب حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ سے ملا کرتے تھے ۔ تو ان کو فرمایا کرتے تھے آؤتا کہ ہم اپنے بارہ میں علم الہی پر روئیں۔ یہ کتنی اچھی بات ہے ۔ یہ اللہ کو پہچاننے والے اور اس کو اور اس کو الٹ پلٹ کو جاننے والے کی بات ہے ۔ علم الہی کیا ہے ۔ یہ وہ ہے جس کی طرف اس نے اپنے فرمان میں اشارہ فرمایا۔ یہ جنت کی طرف ہیں۔ اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔ اور ہر ایک کو ایک ہی جگہ نہیں بلایا۔ چنانچہ ہم نہیں سمجھتے ۔ کون سے قبیلہ سے ہیں۔ اور ان کو اپنے اعمال پرغرور بھی نہیں۔ چونکہ اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر ہے متقی لوگ تو گناہوں کو کھلی اور چھپی لذتوں کو ۔ دکھا وے کو ۔ نفاق کو اور مخلوق اور مطلب کے لیے عمل کرنے کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں بس وہ لوگ آج کے دن جنت میں ہیں۔ اور کل باغوں نہروں اور ایسے درختوں میں بیٹھے ہوں گے جو کبھی خشک نہیں ہوتے. اور ایسے پھلوں میں جو کبھی ختم نہیں ہوتے اور ایسی نہروں میں جن کا پانی کبھی خشک نہیں ہوتا کیسے خشک ہو ۔ جب وہ عرش کے نیچے سے نکلتی ہیں۔ ہر ایک کے لیے ایک نہربانی کی ایک نہردودھ کی ایک نہر شہد کی اور ایک نہر شراب کی ہوگی۔ یہ نہریں ان کے ساتھ ہی چلیں گی۔ جہاں کہیں بھی جائیں۔ اور زمین میں کوئی دراڑ بھی نہ ہوگی۔ دنیا میں جو بھی چیز ہے۔ اس کے مشابہ ہر چیز آخرت میں ہو گی۔ اور دنیا میں ہر چیز ایک نمونہ ہے۔ وہ آرام اٹھائیں گے۔ جو اُن کے پروردگار نے ان کو دیا ہوگا، اور وہ ایسا ہے جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ۔ نہ کسی کان نے سنا، اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر گزارا گچھے جھکے ہوں گے جب ان میں سے کوئی بیٹھا ہو گا . پھل اس کے منہ کی طرف آئیں گے پس وہ ان کو کھائے گا۔ اور وہ لیٹا ہوگا ۔ جنت کے درختوں کی رگیں اپنی جڑوں کے نیچے سے چاندی کی ہوں گی ۔ اور ان کی شاخیں سونے کی ہوں گی۔ اس میں سے کسی کے دل میں کسی چیز کے کھانے کا خیال آئے گا تو ہم پھل اس کے منہ کے آگے کر دیں گے ۔ چنانچہ وہ اس میں سے جو چیز چاہے گا ۔ کھائے گا۔ پھر وہ اپنی جگہ واپس لوٹ جائے گا جنت میں ہر چیز سے بے پروا ہی ہوگی یعنی جنت والوں کو ۔ ان کا کلام پاکیزہ ہوگا۔ اور بہترین آواز میں ہوگا۔ یہاں تک کہ اس کی نہریں، اس کے درخت اور اس کے اندر کی ہر چیزاے چاہنے والو ۔ دنیا مٹ جانے والی اور مشقت میں ڈالنے والی ہے۔ باقی رہنے والی جنت مانگو۔ جو آرام اور انعام کا گھر ہے شکر کا گھر ہے۔ اس میں نہ وضو رہے نہ نماز ہے۔ نہ حج ہے، نہ زکوٰۃ ہے ۔ نہ مصیبتوں پر صبر کرنا ہے ۔ نہ  بیماریاں ہیں نہ خرا بیاں ہیں۔ نہ تنگی ہے اور نہ نکلنے کا ڈر ہے ۔ اے لوگو ۔ جلدی ہی تمہیں موت آجائے گی ۔ اور تمہیں پکڑے گی پھر تم ایسے ہو جاؤ گے ۔ گویا نہ تم کبھی پیدا کیے گئے۔ اور نہ ہی دیکھے گئے۔ اپنے دلوں کو اپنے گھر والوں سے اپنے بچوں سے اور اپنے کاموں سے موڑ لو ۔ اپنے پروردگار کی ساری مخلوق کو چھوڑ دو۔ اور ان میں سے کسی ایک پر بھی بھروسہ نہ کروور نہ تھوڑے میں نہ زیادہ میں۔ اے  اللہ ہمیں ہر حال میں اپنے اوپر بھروسہ نصیب فرمائیے۔ اور آپ کے سوا کا دیکھنا تو عاجزی میں بڑھاتا ہے۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے ۔

تينتيسویں  مجلس :-

تم مصیبت سے مت بھا گو ۔ اور اس پر صبر کرو۔ اس کا آنا تمنا خوف اور اس پر صبر کر نالا بدی ہے ( دیکھو گے) ساری دنیا اور جو کچھ اس میں تمہارے لیے پیدا کیا گیا۔ کس طرح بدلتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام جو سب سے بہتر مخلوق ہیں وہ بھی آزمائے گئے۔ اور اسی طرح ان کے پیچھے آنے والے اور ان کی راہ چلنے والے ان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حق تعالے کے پیارے تھے ۔ وہ بھی تنگی بھوک ۔ لڑائی . جنگ اور مخلوق کی ایذا رسانی سے آزمائے جاتے رہے ۔ یہاں تک کہ وفات شریف ہو گئی۔ عیسی علیہ السلام جو روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں جن کو بغیر باپ کے پیدا کیا۔ اور جو پیدائشی اندھے اور کوڑہی کو اچھے کرتے تھے ۔ اور مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ اور ان کی دعا بھی قبول ہوتی تھی۔ ان پر ایسے لوگ مسلط کیے گئے جو ان کو گالیاں دیتے تھے۔ ان کی ماں کو جھوٹی تہمت لگاتے تھے ۔ اور ان کو مارتے تھے۔ اور آخر کار وہ اور ان کے ساتھی ان سے بھاگ نکلے ، پھر ان پر قابو پایا۔ اور ان کو پکڑا۔ اور ان کو مارا۔ اور ان کو سزا دی ۔ اور انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی دینے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ان سے بچا لیا ۔ اور اس کو سولی دیا جس نے ان کا پتہ بتا یا تھا۔ اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کو اس قسم کی ہولناک چیزوں سے آزمایا گیا ۔ جو ان کو پیش آئیں، اور انبیا علیہماالسلام میں سے ہر ایک کے لیے کوئی نہ کوئی مصیبت تھی جو اس کے لیے خاص تھی۔ جب انبیاء ورسل علیہم الصلوۃ و السلام کے ساتھ جو اللہ تعالے کے پیارے تھے یہ معاملہ ہے تو تم کون ہو۔ جو تم اپنے اور دنیا کے بارہ میں غیر خدا کی با تیں چاہتے ہو۔اپنے ارادہ اور اختیار کو چھوڑ دو مخلوق سے باتیں کرنی اور ان سے محبت کرنی چھوڑ دو جب تمہاری یہ بات پوری ہو جائے گی ۔ تو تمہارے دل کی بات اپنے پروردگار سے ہوگی ۔ اور تمہاری محبت اس سے ہو گی ۔ تمہارے دل میں اس کی بات نقش ہو جائے گی۔ تم اس کے یاد کرنے والے بن جاؤ گے اور وہ تمہیں یاد کرنے والا۔ اپنے دل کو دلجمعی کے ساتھ اس کے ساتھ تھامے رکھو گے۔ اس وقت اس کو اُس کے ماسوا کو دیکھنے والا کو غائب پائے گا۔ اس وقت روحانیت اور وصال والوں میں سے ہو جائے گا۔ بندوں اور مشیروں میں سے ہو جائے گا پس اس سے مخلوق سے تکلیفوں اور مصیبتوں کو دور کیا جائے گا۔ جو اس کا پروردگار اعلیٰ اس کو دے گا ۔ وہ لے گا ۔ یہ اصلی عطا ہے۔ اور اس کے علاوہ (سب) مجاز ہے ۔ دنیا کے معاملات میں اور آخرت کے معاملات میں جن میں بھی تم ہو کسی سے بات مت کرو. جو کچھ اس میں ہے . تم اس کی امانت ہو ۔ اور بند ہونے کے بعد اس کو اپنے حالات کا چہرہ چھپانے کا (سامان) بناؤ ۔ اور اس میں سوائے اللہ کے کسی کو نہ دیکھو گے ۔ اور اگر پردہ اٹھا دیا جائے ، تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہوگا ۔ یہ آخری زمانہ انقطاع ایام کا ہے۔ نفاق کا چلن ہے ۔ معاملہ حرص اور ڈر سے ہے ۔ دنیا کے آنے میں رغبت ہے. اور دوری کا ڈر ہے مخلوق کی نزدیکی کی حرص کرتے ہو۔ اور ان کے دوری اور بعد سے ڈرتے ہو ۔ بہت سی مخلوق کے لیے مسلمان معبود بن گئے میں اور دنیا مالداری عاقبت طاقت اور قوت معبود بن گئے ہیں۔ خرابی تمہاری تم نے فرع کو اصل مرزاق کو رازق ملوک کو مالک فقیر کو مالدار ، عاجز کو طاقتور اور مردہ کو زندہ بنا دیا ہے تمہارے لیے کوئی بزرگی نہ ہو ۔ نہ ہم تمہاری پیروی کرتے ہیں۔ اور نہ ہی تمہارے مذہب کی تعریف کرتے ہیں بلکہ تمہارے سے علیحدہ ہیں۔ ہم سنت پر بدعت چھوڑ کر سلامتی کے ٹیلہ پر اور دکھاوا، نفاق اور مخلوق کو عاجزی کمزوری اور مجبوری کی آنکھ سے دیکھنا چھوڑ کر توحید اور اخلاص کے ٹیلہ پر کھڑے ہیں۔ راضی بہ قضا ہیں۔ اور ناراضگی چھوڑتے ہیں صبرپر ڈٹے ہیں۔ اور شکایت چھوڑتے ہیں، ہم اپنے دلوں کے قدموں کے ساتھ اپنے بادشاہ کے دروازہ کی طرف چلتے ہیں کسی کو تابع کرنا اور کسی کو غالب کرنا اسی کی طرف سے ہے ۔ جیسے کہ پیدا کرنا اور روزی دینا بھی اسی کی طرف سے ہے۔ دنیا کی بڑائی اور اس کی فارغ البالی اور اس کے بادشاہ اور اس کے مالدار اسی کی طرف سے ہے۔ تم نے اللہ تعالے کو بھلا دیا ۔ اور اس کی تعظیم نہ کی ۔ تو تمہارا حکم تو پتھروں کے پوجنے والے کا حکم ہے جس کی بڑائی سے تمہا را بت بنتا ہے۔ خرابی تمہاری بتوں کے پیدا کرنے والے کی عبادت کرو . اور پتھر بت تمہارے سامنے خود ذلیل ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہو جاؤ۔ اور مخلوق تمہارے اتنی ہی نزدیک ہو جائے گی جتنی کہ تم اس کی تعظیم کرو گے ۔ اس کی تعظیم کرو۔ اس کی مخلوق تمہارے سے اتنا ہی ڈرے گی۔ جتنا کہ تم اس کا ڈر رکھو گے ۔ اس کی مخلوق تمہارا اسی قدر احترام کرے گی۔ جتنا کہ تم اس کے اوامر نواہی کا احترام کرو گے۔ اس کی مخلوق تمہا را احترام پر ہیز گاری کی بنا پر کرے گی ۔ اس کو اپنے دل کے ہاتھ سے نہ دے ۔ اگر تم نے اس کو چھوڑ دیا ، تو تمہاری گردن میں ذلت کا طوق ہو گیا ۔ جو پرہیز گاری چھوڑ دیتا ہے، اس کا دل شک وشبہ اور غلط ملط چیزوں سے سیاہ ہو جاتا ہے ۔ خرابی تمہاری ۔ تم متقی ہونے کا دعویٰ کرتے ہو۔ اور پرہیز گاری کو تم چھوڑنے والے ہو، جو بہت سی چیزوں کو حرام اور شبہ میں پڑنے کی وجہ سے چھوڑتاہے ۔ اللہ تعالی معمولی سی رخصت پر بھی اس کو مزا دیتا ہے ۔ ایک روز میرا گاؤں کے پاس سے گزر ہوا، جس کے گرد چینا بو یا ہوا تھا۔ سومیں نے اپنا ہاتھ بڑھایا ۔ اور اس کے بھٹوں میں سے ایک بھٹہ پکڑا اور اس کو چو سا ۔ اچانک گاؤں والوں میں سے دو آدمی  میرے پاس آئے ۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک لاٹھی تھی۔ سو انہوں نے مجھے اتنا مارا کہ میں زمین پر گر پڑا ۔ اس گھڑی میں نے اللہ تعالے سے عہد کیا کہ میں اس چیز میں رخصت کی طرف نہ آؤں گا ۔ جو پوشیدہ نہ ہو۔ اس واسطے کہ شریعت نے محتاج کو کھیتی اور پھل سے بقدر حاجت کھانا جائز قرار دیا ہے، اور اس میں سے کچھ لے لو. چنانچہ یہ عام رخصت ہے لیکن مجھے اس رخصت پر نہیں چھوڑا گیا۔ بلکہ پر ہیز گاری کی رفاقت کے ساتھ عزیمت کا اختیار دیا گیا ہوں ۔ جو کوئی موت کو زیادہ یاد کرتا ہے ۔ اس کی پر ہیز گاری زیادہ ہو جاتی ہے اور رخصت کم ہو جاتی ہے اور عزیمت بڑھ جاتی ہے ، موت کی یاد دلوں کی بیماریوں کے لیے دوا ہے۔ اور ان کے سر پر روک ہے ۔ میں برسوں تک موت کو رات اور دن بہت یاد کرتا رہا ہوں ۔ اور اس کی یاد سے فلاح پائی ہے اور اپنے دل پر قابو پایا ۔ چنانچہ بعض راتوں میں موت کو یاد کیا ہے۔ اور رات کے پہلے حصہ سے لے کر صبح تک روتا رہا ہوں۔ اور ان راتوں میں رو کر کہتا رہا ہوں. اے میرے معبودمیں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ میری روح کو ملک الموت علیہ السلام (موت کا فرشتہ قبض نہ کرے اور اس کا قبض کرنا آپ اپنے اختیار میں رکھیں۔ چنانچہ جب صبح کے وقت میری آنکھ لگی۔ تو میں نے ایک اچھا خاصا اچھی شکل والا بوڑھا دیکھا۔ کہ دروازہ سے داخل ہو کر میرے پاس آیا ہے۔ تو میں نے اس سے پوچھا ۔ تم کون ہوتے ہو۔ تو اس نے جواب دیا ۔ میں ملک الموت ( علیہ السلام) (موت کا فرشتہ) ہوں ، میں نے اس سے کہا کہ میں نے تو اللہ تعالے سے یہ سوال کیا تھا کہ میری روح کا قبض کرنا وہ اپنے اختیار میں رکھیں۔ اور اس کو آپ قبض نہ کریں ۔ تو اس نے کہا کہ تم نے یہ سوال کیوں کیا. میرا کیا گناہ ہے، کیا میں اللہ کی طرف سے نہیں۔ غلام ہوں. حکم کیا گیا ہوں۔ ہمیں بعض لوگوں کے ساتھ نرمی کا حکم کیا گیا ہے، اور کچھ لوگوں کے لیے رسوائی کا مجھ سے بغلگیر ہوا ۔ اور رویا میں بھی اس کے ساتھ رویا۔ پھر میری آنکھ کھل گئی ۔ اور میں روتا رہا۔ اپنی ہوس کو چھوڑو ۔ یہ بات علیحدگی اور زیادہ بلانے سے نہیں آتی۔ اگر تم اس منزل اور گھاٹ پر بیٹھے ہو ۔ تو کماؤ پلٹو اور کھلاؤ پلاؤ اور اگر تم نے یہ محض سنا ہی ہے۔ ایسی چیز کی خبرمت دو جس کو تم نے دیکھا نہیں ۔ لوگوں کو دوسرے کی دعوت کی طرف مت بلاؤ ۔ لوگوں کو خالی گھر کی طرف مت بلاؤ کہ وہ تم پر ہنسیں ۔ ہمیں اپنی ترکش سے تیر مارو ۔ ہمارے پر اپنی کمائی میں اور اپنی پیشانی کے پسینے سے خرچ کر و، ہمیں اپنے اس مال سے نہ دو جس کو تم نے اپنے پڑوسی کے ہاں سے چرایا ۔ ہمیں اپنے ننگ سے مت پہناؤ ، ہدایت مالک کی طرف سے ہی قبول ہوتی ہے ، نہ کہ مزدوری کرنے والے اور چرانے والے کی طرف سے توحید جلتی آگ ہے – اے آگ تو ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی او رآرام دہ ہو جا : اے اللہ ہمیں اس دن کی بھلائی بخشے ۔ اور اس کی برائی سے ہمارے لیے کافی ہو جائے۔ اور اس طرح تمام رات اور دن ۔ آمین

چونتیسویں مجلس

اے اپنی دنیا اور اپنی لمبی لمبی امیدوں (کے سہارے )بیٹھنے والو جلدی ہی موت آجائے گی۔ اور تمہارے اور تمہاری لمبی لمبی آرزؤوں کے درمیان حائل ہو جائے گی. اپنی موت کے آنے سے پہلے جلدی کرو. اچانک موت کا منہ دیکھنے کا انتظار کرو. بیماری موت کے لیے شرط نہیں ہے ۔ ابلیس (شیطان )تمہارا دشمن ہے ۔ اس کا مشورہ قبول نہ کرو۔ اور نہ اس سے نڈربنو چو نکہ وہ کوئی ایماندار نہیں ہے۔ اس سے بچتے رہو۔ وہ چاہتا ہے کہ تم غفلت ، گناہ اور کفر کی موت مرو۔ اپنے دشمن کی طرف سےغافل نہ رہو۔ وہ اپنی تلوار نہ دوست سے ہٹاتا ہے. نہ دشمن سے اس سے رکے رکے لوگ ہی چھوٹتے ہیں۔ اس نے تمہارا باپ آدم علیہ السلام اور تمہاری ماں حوا علیها السلام کو جنت سے نکالا۔ اس کی سخت کوشش ہے کہ تمہیں بھی (جنت) میں داخل ہونے کے قابل نہ چھوڑے۔ وہ نا فرمانی غلطی ، کفر اور مخالفت کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ سب کے سب گناہ اللہ تعالے کی قضا و قدر کے بعد اور وہ ان نیکوں نزدیکیوں۔ اٹکل دالوں کے بڑے دوست تھے جن کے لیے جنت مخصوص ہے۔ نیک لوگ اپنی اصلاح اور اطاعت کے باوجود اپنے آپ کا محاسبہ کرتے ہیں۔ اور تم اپنے آپ کا محاسبہ نہیں کرتے ہو، ٹھیک ہے۔ اپنے آپ سے فائدہ نہیں اٹھاتے ہو۔ اے اللہ ہمیں اپنی ذاتوں، نفسانی خواہشوں اور شیطانوں سے بچایئے ۔ ہمیں اپنے گردہ میں اور اپنے گروہ سے بنائیے۔ موت سے پہلے ہمارے دلوں کو اپنے سے قریب کر دیجئے۔ اور ہمیں دیدار عام سے پہلے دیدا ر خاص نصیب فرمائیے۔ آمین

پینتیسویں مجلس :

حضرت لقمان حکیم رحمتہ اللہ علیہ اپنے بیٹے سے فرماتے تھے۔ اے بیٹے۔ دہ آگ سے کیسے نڈر بنتا ہے جس کے لیے اس کا قرب لابدی ہے۔ اور وہ دنیا سے کیسے نڈر بنتا ہے جس نے اس کو چھوڑ جانا ہے ۔ اور موت کو کیسے بھلاتا ہے جبکہ وہ ناگزیر ہے اور اس سے کیسے غفلت برتا ہے۔ اور اس کو خاطر میں نہیں لاتا ہے۔ تم میں سے ہر ایک کو آگ پر سے گزرنا ہے ۔ ایسا سفر ہے ۔ جس کے لیے تقویٰ کا توشہ درکار ہے ۔ اور میں نہیں دیکھتا کہ تم نے تقویٰ کا توشہ حاصل کر لیا ہے ۔ اے دنیا کے چاہنے اور اس سے عشق رکھنے والو، یہ جنت کے مقابلہ میں ایک دھوکہ کے سوا کیا ہے، یہ بھید ہے ، یہ الف ہے، یہ اصل ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے ۔ دلوں پر بھاری اور سب سے بڑی چیز دنیا کی محبت ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ۔ فرمایا کہ یہ دل تاریک ہیں ۔ ان کو قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر کی مجلسوں کی حاضری سے روشن کرو، علم پر عمل کرنے والے عالموں کی مجلسیں دلوں کو روشن کرتی ہیں ۔ اور ان کو صاف اسی کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالے کے خالص عبادت کرنے والے بندوں کے علاوہ ساری مخلوق کی آزمائش ہوتی ہے ۔ اس کو ان پر غلبہ حاصل نہیں ہے ۔ اور بعض اوقات ان کو تکلیف دیتا ہے ۔ جب قضا آتی ہے تو آنکھ اندھی ہو جاتی ہے۔ قضا کا عمل جسم میں ہوتا ہے۔ نہ کہ دل اور باطن میں۔ دنیا والی چیزوں میں ہوتا ہے۔ نہ کہ آخرت والی چیزوں میں مخلوق والی چیزوں میں ہوتا ہے۔ نہ کہ خالق اکبر والی چیزوں میں . بہت سے مخلوق کے پاس دنیا اور دل کی راہ سے جانے ہیں۔ دنیا جلتی آگ ہے ۔ ایسی چیز میں لگو جو تمہارے کام آئے اور تمہیں موت کے بعد والے عمل کے قابل کر دے۔ اور مجاہدہ نفس تمہارے کام آئے گا ۔ اور لوگوں کے عیبوں کی( ٹوہ میں ) لگنا تمہیں کام نہ آئے گا ۔ اور موت کو یاد کرو ۔ اور موت کے بعد والی چیزوں کے لیے کام کرو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ہوشیار وہ ہے جس نے اپنے آپ کو دیندار بنایا ۔ اور موت کے بعد والی چیزوں کے لیے کام کیا اور عاجزوہ ہے جس نے اپنے نفس اور نفسانی خواہش کی پیروی کی اور اللہ سے مغفرت کی آرزو کی۔ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق میں سے ایماندار لوگوں کے لیے اپنی ذات پر عاجزی لازم کر لو ، جو اس پر اللہ تعالے کے حقوق ہیں وہ طلب کرو ۔ اس سے پوچھ گچھ کرو ۔ اور اس کا اس طرح محاسبہ کرو جس طرح نیک لوگ کرتے ہیں حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا ۔ کہ جب رات پڑتی۔ اپنی ذات کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ اور اس سے پوچھتے تم نے اپنے پروردگار کے لیے کیا کیا اس کے لیے کیا بنایا ۔ پھر (درہ) کوڑا لیتے سو اس کو مارتے ۔ اس کو ذلیل کرتے ، اور اس کو کسی چیز پر ڈال دیتے پھر چلتے۔ اللہ کے حقوق کا مطالبہ کرتے تھے ۔ اور اس سے اس کی خدمت میں زیادتی چاہتے تھے ۔ اور پاک کرتی ہیں۔ اور ان کی سختی کو دور کر دیتی ہیں۔ ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس اپنے دل کی سختی کی شکایت کی ۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ۔ ذکر میں ہمیشگی اختیار کرو اللہ تعالے کو یاد کرنے والے اور اس سے معاملہ کرنے والے اس کے دوست ہوتے ہیں حقیقت میں وہی بادشاہ ہوتے ہیں عزت والا بادشاہ وہی ہے ۔ اسی کی طرف دوڑو ۔ تا کہ آخرت کے بادشاہ بن جاؤ۔ چنانچہ دنیا ان کے دلوں میں ذلیل ہو گئی۔ اور حق تعالی  کو دیکھا۔ تو مخلوق ان کے نزدیک ذلیل ہو گئی۔ عزت اللہ کی فرمانبرداری کرنے ۔ اور نافرمانیوں کے چھوڑنے میں ہے ۔ یہ دل صحیح اور کامیاب نہیں ہوتا، جب تک ہر محبوب چیز کو نہ چھوڑ دے . اور ہر ملنے والی چیز کو کاٹ نہ دے ، اور سر مخلوق کو چھوڑ نہ دے ۔ اور تمہیں تمہاری تھوڑی چیزوں سے بڑی اچھی چیزیں ملیں گی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اللہ تعالے کے لیے کوئی چیز چھوڑی۔ اس نے اس کے بدلے میں اس کو بہتر دی ۔ اے اللہ ہمارے دلوں کو بیدار کر دیجئے ۔ اور ہمیں اپنی بے خبری سے خبردار کر دیجئے ۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے ۔

 چھتیسویں مجلس :-

سچا انعام پر شکر کرتا ہے۔ اور انتقام پر صبر کرتا ہے اور حکم بجا لاتا ہے۔ اور منع کی ہوئی چیزوں سے رک جاتا ہے ۔ اس پر دل ترقی کرتے ہیں۔ انعام پر شکر انعام کو زیادہ کرتا ہے۔ اور انتقام پر صبر ان کے کام کو آسان بنا دیتا ہے۔ بیوی بچوں کے مرنے۔ مال کے جانے ، سامان کے چھننے ۔ مطلب پورا نہ ہونے اور مخلوق کے تکلیف دینے پر صبر کرو۔ اور تم بڑی بھلائی دیکھو گے ۔ جب تم نے آسانی ہونے پر شکر کیا ۔ اورتنگی آنے پر صبر کیا ، تمہارے ایمان کے بازو کے یہی دو پر ہیں۔ ان کو مضبوط کرو. چنانچه تمہا را دل اور باطن ان دونوں سے تمہارے مولائے کریم کے دروازہ کی طرف پرواز کریں گے ۔ تم ایمان کا دعوی کیسے کرتے ہو۔ حالانکہ تمہیں صبر نہیں۔ کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں سنا صبر ایمان میں ایسے ہے. جیسے سرجسم میں جب تمہیں صبر ہی نہ ہو، تو تمہارے ایمان کے لیے سر کہاں۔ اور اس کے جسم کا کیا اعتبار ، اگر تم نے آزمائیش کرنے والے کو پہچانا ہوتا۔ تو اس کی دی ہوئی مصیبت پر صبر کرتے ۔ اگر تم دنیا کو پہچانتے تو اس کی طلب سے رک جاتے ۔ اے اللہ ہر گمراہ کو راہ دکھائیے اور ہر ناراض پر مہربانی کیجئے اور ہر آزمائش شدہ کو صبر دیجئے ۔ اور ہر معافی پانے والے کو شکر کی توفیق دیجئے ۔ آمین

سینتیویں مجلس :

اس سے پوچھا۔ کونسی آگ سخت ہے ۔ ڈر کی آگ یا شوق کی آگ ۔ تو فرمایا۔ ڈر کی آگ مرید کے لیے ہے ، اور شوق کی آگ مراد کے لیے اور یہ ایک چیز ہے، اور تمہارے پاس اس دو قسم کی آگ میں سے کونسی آگ ہے۔ اے پوچھنے والے ۔ اے اسباب پر بھروسہ کرنے والو تمہیں فائدہ دینے والا ایک ہے تمہیں نقصان پہنچانے والا ایک ہے ۔ تمہارا بادشاہ ایک ہے۔ تمہارا سلطان ایک ہے۔ تمہارا حاکم ایک ہے۔ تمہارا بنانے والا ایک ہے ۔ تمہارا معبود ایک ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو بنایا۔ اور اس کو بنایا ۔ جو تم اس کی کاریگری سے اپنے ہاتھوں پر بناتے ہو ۔ اور اس نے تم کو پیدا کیا ۔ تم کو روزی دی ۔ تم کو نقصان دیا ۔ تم کو فائدہ دیا۔ اور تمہیں ہدایت دی تم اپنے ایسی مخلوق کا ارادہ کرتے ہو۔ کیا تم نے نہیں سنا۔ اللہ تعالے نے کیسے فرمایا۔ پس جس کو اپنے پروردگار سے ملنے کی امید ہو ، اس کو نیک کام کرنا چاہیئے۔ اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا چاہیئے ۔ اے منافق تمہارا وقت بیکار جاتا ہے ۔ اے بدنصیب تمہا را وقت ضائع ہوتا ہے تمہاری اصلی پونجی ختم ہوتی جاتی ہے. ٹھیک ہے، تم فائدہ نہیں دیکھتے تمہاری اصلی پونجی تمہارا دین ہے ۔ اور تم دنیا کھاتے ہو پس تم اپنا دین کھاتے ہو۔ وہ جا رہا ہے کم ہو رہا ہے تمہارے عمل سے اور تمہارے شہرت ، روپیہ پیسہ مرتبہ اور قبولیت چاہنے میں جا رہا ہے۔ اور تم اللہ تعالے کے دشمن اور بیزاری ہو۔ اس کے بندوں میں سے نیکوں اور بچوں کے دلوں کی بیزاری ہو۔ اس کے فرشتوں کی بیزاری ہو۔ فرشتے تمہارے پر لعنت کرتے ہیں۔ اور وہ زمین جو  تمہارے لیے ہے ۔ تمہارے پر لعنت کرتی ہے۔ اور وہ آسمان جو تمہارے اوپر ہے۔ تمہارے پر لعنت کرتا ہے ۔ اور وہ کپڑے جو تمہارے پر میں، تمہارے پر لعنت کرتے ہیں ۔ الغرض تم خالق اور مخلوق (دونوں کے ہاں )ملعون ہو۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ منافق لوگ آگ کے سب سے نیچے درجہ میں ہوں گے ۔ فرمانبردار ہو جاؤ پھر تو بہ کرو. اس سے پہلے کام ٹھیک کر لو کہ موت تمھیں اچانک آئے۔ اس سے پہلے کہ تم اچانک پکڑے جاؤ ۔ سو تم شرمندہ ہو. اور شرمندگی تمہیں فائدہ نہ دے ۔ میرے پاس آؤ میں تمہیں پہچنوا دوں ۔ جہاں تک ممکن ہو۔ تمہارے سامنے صاف اعلان کر دوں حکم لگانے کے بارہ میں ہمیں تمہیں اور دوسروں کو چھپانے کا حکم ملا ہے لیکن میں تو اپنی بات کو بغیریقین کیسے ویسے ہی کھلا چھوڑ رہا ہوں۔ اور بلا صراحت تمہیں ایک اشارہ کر رہا ہوں ۔ میری مراد تم ہی ہو۔ چنانچہ سنو ۔ لونڈیا ںاور غلام کو لکڑی سے مارا جاتا ہے۔ اور شریعت کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے. حق تعالیٰ کے فضل وکرم سے میں مخلوق کی جلوت و خلوت اور ان کے دلوں کو دیکھ رہا ہوں ۔ ان میں سے وہی قبول کرتا ہے ، جسے کرنا ہوتا ہے۔ اور ذات خدا وندی کا ارادہ کرتا ہے۔ بناوٹ مت کرو کھوٹ مت ملاؤ ۔ اور دھوکہ دکھا دا مت کرو۔ چونکہ وہ چھپی اور اس سے چھپی چیزوں کو جانتا ہے۔ آنکھوں کی چوری اور سینوں کی چھپی چیزوں کو جانتا ہے . اس بادشاہ روزی دینے والے کی خدمت کرو اوریہی انعام کرنے والا ہے یہی ہے، جس نے تمہارے لیے سورج کو روشنی اور چاند کو چاندنی اور رات کو چین بنا دیا ہے ۔ تمہیں نعمتوں سے خبردار کر دیا ہے. اور ان کو شمار کر دیا ہے۔ تاکہ تم ان پر شکر کرو۔ ان کو شمار کرنے کے بعد فرمایا ۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے : جس نے حقیقتاً اللہ کی نعمتوں  کودیکھا۔ شکر سے عا جز رہا جو اس کو دیا گیا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا ۔ اے اللہ میں آپ کے شکر سے عاجز رہ کر آپ کا شکر کرتا ہوں۔ تم کتنا کم شکر کرتے ہو۔ اور کتنے زیادہ اعتراض کرتے ہو، اگر تم اللہ تعالے کو پہچانتے تو اس کے سامنے تمہاری زبانیں گنگ ہو جائیں، اور تمہائے دل اور ہاتھ پاؤں سب حالات میں باادب ہو جاتے ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جو اللہ تعالے کو پہچان لیتا ہے۔ اس کی زبان رک جاتی ہے ، عارف گونگا ہی رہتا ہے۔ اور جو راز اس کے پاس ہوتے ہیں . ان کو اس کی اجازت کے بغیر نہیں بتا تا ہے ۔

اپنی ذات کو اپنے ہاتھ پاؤں کو اپنے بیوی بچوں کو اور اپنے مال کو حق تعالے کے لیے الوداع کہو۔ اور اس کے راز کو ضائع نہ کرو۔ اس کی طرف متوجہ ہو گا۔ اس واسطے کہ تم اس کے ہاں ہر خبر پاؤگے حکم کا حق ادا کرو، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرو اور آپ کی پیردی کرو۔ پھر اپنے عمل کے ذریعہ اپنے پروردگار اعلیٰ تک رسائی حاصل کرو. پھر اپنے عمل کے ذریعہ سے اور خود اس کو پہچان کر اپنے پروردگار اعلی تک رسائی حاصل کرو یہاں تک کہ اس کے دروازہ پر پہنچ جاؤ پھر جب تم پہنچ جاؤ، تو اس کا حق پورا کرو تم آؤ اس سے سلامتی اور سعادت و شرافت کی دعا مانگو۔ پھر تم اپنے باطن اور اپنے مطلب کے گھر میں داخل ہو جاؤ ۔ ایک بزرگ سے منقول ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ڈھول اور با جا سے دنیا کا کھانا میرے نزدیک دنیا کا دین کے ساتھ کھانے سے زیادہ محبوب ہے جلدی ہی تم میں سے ہر ایک غور کرے گا ۔ کہ اس نے اپنے لیے توحید. شرک نفاق اور اخلاص سے کیا کما یا ہے۔ اس دن جہنم ہر دیکھنے والے کے سامنے ہو گا، جو کوئی بھی قیامت میں (موجود) ہوگا ۔ اس کو دیکھے گا۔ اور اس سے ڈرے گا سوائے گنتی کے لوگوں کے جب مومن کو دیکھے گئی ذلیل ہو جائے گی۔ اور بجھ جائے گی۔ یہاں تک کہ وہ گزر جائے گا۔ اس واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا ۔ قیامت کے دن مومن کو آگ کہے گی۔ اے مومن گذر جاؤ کہ تمہارا نور میرے شعلہ کو بجھاتا ہے، اوپر سے گزرنے سے پہلے اس کو آواز دے گی، جلد کرو. گذر جاؤ میرا کام خراب نہ کرو. چونکہ میرا کام دوسرے سے ہے۔ مسلم اور کافر فرمانبردار اور نافرمانبردار ہر ایک کو اس کے اوپر سے ضرور گذرتا ہے ۔ جب آگ پر پھیلائے ہوئے راستہ پر مومن کا قدم قرار پکڑے اور جمے گا۔ سکڑ جائے گی اور بجھ جائے گی . اور اس کو کہے گی . گذر جاؤ کہ تمہارا نور میرے شعلہ کو بجھا یا چاہتا ہے۔ اور ان میں ایسے ہوں گے جو گزر جائیں گے ۔ اور آگ کو نہ دیکھیں گے۔ جب جنت میں داخل ہوں گے کہیں گے کیا اللہ تعالے نے نہ فرمایا تھا ۔ ” کہ تم میں سے ہر ایک کو اس کے اوپر سے گزرنا ہے۔ پس ہم نے تو اس کو نہ دیکھا۔ تو انہیں جواب ملے گا کہ تم اس کے اوپر سے گزرے ہو مگر وہ بجھی پڑی تھی۔ نا فرمانبردار اپنے مولائے کریم سے بھاگتا ہے۔ اور مومن اور فرمانبردار اللہ تعالیٰ کی خدمت میں کھڑا رہتا ہے۔ جانتا ہے ۔ ملاقات ہو گی ۔ اور اس سے ان سب کاموں کے بارے میں پوچھے گا۔ جن میں وہ دنیا میں لگا رہا ۔ اور اس نے دنیا میں اپنی خواہش نفسانی کی پیروی چھوڑی۔ اس واسطے کہ یہ اس کو گمراہ کرتی تھی اور اس کے پروردگا ر اعلیٰ سے تنازع (لڑائی جھگڑا) کا حکم کرتی تھی ۔ اس نے اپنے نفس کی مخالفت کی اور اس سے دشمنی کی ۔ اس واسطے کہ اس نے جان لیا کہ وہ اس کے پروردگار اعلیٰ سے دشمنی رکھنے والا ہے۔ اللہ تعالے نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم کیا۔ اے  داؤد (علیہ السلام ) اپنی خواہش نفسانی کو چھوڑ و۔ اس واسطے کہ خواہش نفسانی کے سوا کوئی جھگڑا لو میرے سے جھگڑا کرنے والا نہیں سکون نشان اور حسن ادب کے ساتھ حق تعالے کے ساتھی رہو ۔ اس کے ارادہ کے سامنے اپنا ارادہ اور اس کے اختیار کے سامنے اپنا اختیار ، اس کے حکم کے سامنے اپنا حکم اور اس کی چاہت کے سامنے اپنی چاہت چھوڑ دو، وہ جو چاہے کرنے والا ہے ، جو کرے . اس سے پوچھ نہیں، اور دوسروں سے پوچھ ہو گی۔ اس کا ساتھ درندوں اور سانپوں کا ساتھ ہے ۔ اور اسی لیے اللہ والے ڈر اور بچاؤ پر ہی قائم رہے۔ رات ان کی رات ہے۔ دن ان کا دن ہے۔ کھانا ان کا مریضوں کا کھانا ہے۔ نیند ان کی بچھڑوں کی نیند ہے ۔ بات ان کی ضرورت کی بات ہے۔ مریض کا تھوڑی سی چیز سے پیٹ بھر جاتا ہے ۔ وہ کھاتا ہے ۔ مگر اپنے کھانے سے ڈر رہا ہوتا ہے۔ نہیں جانتا کہ اس کے مزاج کے مطابق ہو گا کہ نہیں۔ اور کون ڈوبنے والا ہے جو غلبہ کے وقت آنکھ کھولے اور کونسا غوطہ مارنے والا ہے ۔ جو اس کو سمندر میں خبردار کرے ۔ شیشہ سمندر ہے. ان کا چاہا نہیں۔ اپنا چاہا کرنے والا ہے ۔ اور وہ اس بات سے نہیں ڈرتے  کہ سمندر کی لہریں ڈبا تی ہیں ۔ یا بعض جانور ان پر غلبہ حاصل کرتے ہیں سو ان کو کھاتے ہیں۔ بلکہ امید رکھتے ہیں کہ ان کو ساحل پر پھینک دیا جائے گا۔ اور ان کو اپنی نزدیکی سرگوشی اور جلوہ نمائی کے محل میں داخل کرے گا۔ اے چاہنے والے، کوشش کرو تم چاہتے ہی نہیں کہتے ہیں بعض تو چاہتے ہی نہیں ۔ اور تو کہتا ہے کہ میں تو ساری گردش میں رضا بالقضا اور ترک ارادہ اور دل نکال کر سامنے رکھنا کی چاہتا ہوں۔ اے اللہ ہمیں اپنی قدرت کے سامنے تابعداری کرنے اور دکھانے والوں میں سے بنائے ۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے اور دوزخ کی آگ سے بچائیے۔

اڑ تیسویں مجلس :

اللہ والے عمل کے لیے چھوڑے گئے ۔ اور انہوں نے فضول اور چھلکا کے علاوہ کی کہی۔ انہوں نے مغز چایا۔ اور اس کے متعلق ہو گئے۔ اور اس سے چھلکا سے بے پرواہ ہوگئے۔ اللہ جس کے بغیر چارہ نہیں کے ذریعہ بے پرواہ ہو گئے۔ حق تعالے سے چارہ نہیں اور اس کے علاوہ سے چارہ ہے اس سے ان کا قلب میں سچا ہونا بھی جانا گیا ۔ ان کو اپنے ہاں سے معافی امان اور نزدیکی عنایت کی۔ پیار تمہارے لیے بھی ہے۔ ولایت حق تعالے کے لیے ہے۔ دل جس میں ڈر نہ  ہو اس جنگل کی طرح ہے جس میں درخت نہیں۔ اور بھیڑ ہے بغیر چرواہے کے۔ چنانچہ جنگل ویران ہوتا ہے اور بھیڑ بھیڑیوں کا چارہ  جوڈرتا ہے وہ تو گھر جاتا ہے۔ اور ایک جگہ ٹھہرتانہیں پھرتا ہے اللہ والوں کے سفر کی انتہا حق تعالیٰ کے گھر پر ہوتی ہے ۔ سیر دلوں کی سیر ہوتی ہے۔ ملنا رازوں کا ملنا ہوتا ہے ۔ جب راز ملتے ہیں۔ بادشاہ بن جاتے ہیں ۔ ہاتھ پاؤں کا دیکھنا سروں کے ہی تابع ہوتا ہے۔ جب دل دروازہ تک پہنچ جاتا ہے ، تو راز و نیاز کے لیے اجازت مانگتا ہے ۔ پھر داخل ہو جاتا ہے۔ پھر بعد میں وہ خود داخل ہو جاتا ہے۔ تمہارے علوم کتنے زیادہ ہیں۔ اور تمہارے اعمال کتنے تھوڑے ہیں۔ تم نے علم سے اپنے نصیبہ کو حفاظت بنا لیا ہے۔ اور کہانیاں اور واقعات کا اضافہ کر دیا ہے ۔ یہ بات تمہیں فائدہ نہ دے گی ۔ اتنی اور اتنی حدیثیں یاد کرتا ہے۔ اور ان میں سے ایک حرف پر عمل نہیں کرتا ۔ یہ چیز تمہارے حق میں نہیں بلکہ تمہارے خلاف حجت بنے گی ۔ تم کہتے ہو۔ میرا شیخ فلاں ہے ۔ فلاں کے ساتھ رہا ہے ۔ اور فلاں کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ اورمیں نے فلاں عالم سے کہا۔ یہ سب چیزیں عمل نہ کرنا ہے۔ اس سے کچھ بھی نہیں بنتا عمل کا سچا شیوخ کو چھوڑ جاتا ہے ۔ اور ان سے بڑھ جاتا ہے۔ ان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اپنی جگہ بیٹھو۔ یہاں تک کہ میں ان مقامات سے گزر جاؤں۔ جن کی طرف آپ نے میری راہنمائی کی ہے شیوخ دروازہ ہیں۔ سو یہ اچھی بات نہیں کہ دروازہ سے لگا رہے۔ اور گھر میں داخل نہ ہو۔ اور اللہ تعالے لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتے ہیں ۔

اس کے دل کی سختی ۔ اس کی آنکھ  کی خشکی۔ اس کی امید کی لمبائی ۔ اور اس کا ہاتھ کی چیز کا نہ دینا۔ اس کی اچھی بات کا حکم کرنے اور بری بات ہے روکنے میں سستی اور آفتوں کے نازل ہونے پر ناراضگی جب تم کسی کو اس قسم کا دیکھو پس تم جان لو کہ وہ بد بخت ہے سخت دل کی محبت کبھی رحم نہیں کرتی۔ اور اس کی آنکھ آنسو نہیں بہاتی ۔ نہ ہی خوشی میں اور نہ ہی غمی میں۔ اس واسطے کہ اس کی آنکھ کی خشکی اس کے دل کی سختی کی بناء پر ہوتی ہے۔ اس کا دل سخت کیوں نہ ہو۔ جبکہ وہ تمناؤں ، گنا ہوں لغزشوں لمبی  آرزوؤں اور ایسی چیز کے لالچ سے بھرا ہوا ہے ۔ جو اس کی قسمت میں نہیں اور اس پر حسد کرتا ہے۔ اور فرض زکوۃ نہیں دیتا ہے ۔ اور کفارہ ادا نہیں کرتا ہے اور نذر کو پورا نہیں کرتا ہے اور اپنے رشتہ داروں کوپیسہ نہیں دیتا ہے۔ اور اس پر جو قرض ہیں باوجود ادائیگی کے قابل ہونے کے ادائیگی نہیں کرتا ہے۔ ان میں ٹال مٹول کرتا ہے۔ تاکہ ان کا انکار کر دے۔ زیادہ اور پوری چیز دینی نا پسند کرتاہے۔ یہ سب اور اس قسم کی چیزیں بدبختی کی علامت ہیں اللہ تعالے نے فرمایا کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا۔ کہ ان کے دل اللہ کی یاد اور اتری ٹھیک بات کی طرف جھک جائیں۔ اس کے فیصلہ پر احتجاج نہ کرو سعی و کوشش کرو. لگے رہو مانگو،گڑگڑاؤ،روؤ ۔ فریاد کرو. عاجزی کرو۔ اور دروازہ پر جمے رہو ۔ اور بھا گومت سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہی بیدار کرنے والا اور ڈرانے والا ہے . وہی خبر دار کرنے والا اور سلانے والا ہے ۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حق تعالی  کی سرگوشی سنی: ” اےلحاف  میں لیٹنے والے اٹھو : اپنے بستر سے اٹھ کھڑے ہونے اور اس سے نکل گئے۔ اور اسی طرح (اللہ کا بندہ )حق تعالے کی سرگوشی سنتا ہے پس اس کو جواب دیتا ہے۔ اور اس کی طلب میں سرگرداں رہتا ہے۔ اور اس کا مشتاق بنا رہتا ہے ۔ وہی حق تعالی ہے جو دلوں کو اپنے سے خبر دار کر دیتا ہے جب تمہارے سے کوئی کام چاہتا ہے توتمہیں اس کے لیے تیار کر دیتا ہے۔ یہ باطن کا بھید ہے ۔ یہ فیصلہ کا فیصلہ ہے ۔ پہلے لکھی تقدیر اور علم الہی ہے ۔ ہمیں اس سے واقف ہونا اور اس پر احتجاج کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ ہم اس کے مطابق کوشش کرتے اور پیش ہوتے ہیں. اور کفالت نہیں کرتے ہیں ۔

اے اللہ ہمیں اپنے فیصلے پر راضی کیجئے ۔ اور اپنی آزمائش پر صبر دیجئے اپنے احسانوں کا شکر ہماری قسمت میں کیجئے ۔ ہم آپ سے احسان کا پورا کرنا ۔ عاقبت کی ہمیشگی اور محبت پر قائم رہنا مانگتے ہیں حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے. فرمایا، کہ ایک رات میں رات کے پہلے حصہ سے آخری حصہ تک روتا رہا ۔ اور اللہ تعالے سے بہت سی قسم کی دعائیں مانگتا رہا۔ جب صبح ہونے کا وقت ہوا۔ میری آنکھ لگی ۔ تو اپنی نیند میں اللہ تعالے کو دیکھا بس اللہ تعالے نے فرمایا ۔ اے ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ مجھے پکارو اور کہو ۔ اے اللہ مجھے اپنے فیصلہ پر راضی کیجئے۔ اور اپنی آزمائش پر صبر دیجئے۔ اور اپنے احسانوں کا شکر میری قسمت میں کیجئے ۔ میں آپ سے احسان کا پورا کرنا ۔ عافیت کی ہمیشگی اور محبت پر قائم رہنا مانگتا ہوں چنانچہ میں بیدار ہو گیا۔ اور میں اس دعا کو دہرا رہا تھا۔ بندہ جو بندگی کے لیے ثابت ہوتا ہے ، وہ ہے جو اللہ کے ذریعہ مخلوق سے بے پرواہ ہو گیا۔ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء علیم السلام کے ذریعے اوروں کے حالات سے پلٹ گیا، اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں رہتی ۔ اور چیزیں اس کی محتاج ہوتی ہیں۔ اللہ والے اللہ تعالے سے اللہ کے سوا کچھ نہیں چاہتے ۔ نعمت کو نہیں نعمت والے کو چاہتے ہیں مخلوق کو نہیں خالق کو چاہتے ہیں ۔ اور کھانے پینے ، پہننے ، شادی کرنے اور دنیا سے فائدہ اٹھانے سے بھاگتے ہیں۔ جب اس کی طرف بھاگتے ہیں. تو اس کے لیے اس کی کیسے پوجا کریں اور اس سے اس کو چاہیں ، اپنے آپ کو چرانے کے لیے اس کی عبادت نہیں کرتے مہمان خانہ کی وجہ سے اس کی عبادت نہیں کرتے ۔ کہتے ہیں ہم رحمت سے صحیح نہیں ، آپ رحمت چاہتے ہیں ۔ ہم بغیر رحمت کے محبوب کے ساتھ تنہائی کا قصد کرتے ہیں۔ شریک برداشت نہ کرو۔

اے صاحب ارادت ۔ تم محبت کا دعوی کرتے ہو۔ محب تو محبوب کا مہمان ہوتا ہے ۔ اور تم نے مہمان کو اپنا کھانا اور پینا اور اپنی بہتری کی چیزیں حاصل کرنے کے لیے حرکت کرتا دیکھا ہے ۔ تم محبت کا دعوی کرتے ہو۔ اور سوتے ہو محب تو نہیں سوتا۔ (معاملہ، دوحال) سے خالی نہیں ۔ یا تو تم محب ہو ، یا محبوب پس اگر تم محب ہو۔ تو محب کو نیند کیسی۔ اور اگر تم محبوب ہو، تو محب تمہارا مہمان ہے ۔ اے جو تمہارے پاس تمہارے نہیں اس کا دعوی کرنے والو تم اپنے اس دعوی کی سزا جلد یا بدیر جان لو گے۔ اے عالمو اے  طالب علمو محض علم مقصود نہیں مقصود تو محض اس کا پھل ہے ۔ درخت بغیر تحصیل کے علم بلا عمل اور اخلاص کے کیا فائدہ دیتا ہے۔ قرآن و حدیث کا عمل ان دونوں پر عمل کے بغیر مقصود نہیں۔ ان دونوں پر عمل کے بغیر اس کو کیسے فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کرنے والا مزدوری اپنے کام اور مشقت کے بعد ہی حاصل کرتا ہے ۔ کوئی بات نہیں جب تک دنیا وجود اور مخلوق کے سفر سے آگے نہ بڑھ جاؤ جب اس کی طرف بڑھ گیا ۔ بیان کرے گا۔ کھول دے گا اور واضح کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اللہ سے ڈرو، اور وہ تمہیں سکھا دیں گے۔ اور جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ وہ اس کا گزارہ کر دیتا ہے ۔ اور اس کو ایسی جگہ سےردزی دیتا ہے جہاں سے اس کا خیال بھی نہ ہو  تقوی ہر نیکی کی بنیاد ہے۔ دنیا کو زندہ کرنے کا سبب ہے۔ اور حکمت وعلوم کو زندہ کرنے والا ہے اور دلوں اور باطنوں کی پاکی ہے۔ تقویٰ اختیار کرو. اور اس پر صبر کرو. دین اور دنیا کا سر صبر ہے۔ اور ان دونوں کا جسم عمل ہے۔ اسی واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ صبر ایمان سے ایسے ہے جیسے سرجسم سے سارے کام اللہ کے فیصلے پر صبر کرنے سے ہیں پورے ہوتے ہیں۔ صبر کرو اورجمے رہو۔ اور پر ہیز گاری اختیار کرو. تمہیں لازم ہے اپنی خلوت و جلوت میں پرہیز گاری ۔ دوسروں کے حصے سے بے رغبتی اور اپنے محنتوں سے بے رخی اختیار کرو. تم کھڑے ہوتے ہو۔ دین اور عزت بیچتے ہو۔ اناج، روپیہ پیسہ کپڑے گھر لونڈیاں . گھوڑے اور نوکروں کا اکٹھا کرنا۔ یہ سب لالچ کی بنا پر ہے ۔ اس کو چھوڑ دو۔ اپنے پروردگار اصلی کی طرف رجوع کرو. الٹ کرو. اچھی طرح ر ہو، جھوٹ غلط ملط اور پاگل پن چھوڑ دو، وہ چیز اکٹھی کرتے ہو۔ جو دوسرے  کے لیے چھوڑتے ہو۔ اور خود اس کے حساب وکتاب اور پوچھ گچھ کے لیے الگ ہو جاتے ہو۔ یہ جو کچھ بھی اکٹھا کیا ہے یہ تمہیں ذرہ بھر فائدہ نہ دے گا۔ اس میں سے تمہارے ہاتھ سوائے اس کی حجت حساب عذاب نکاس اور ندامت کے کیا پڑے گا۔ تمہیں کیا ہو گیا ۔ میرے سے ہی عقل لے لو اور میرے سامنے تو آؤ۔ اور میری طرف سے اپنی خیر خواہی کی بات تو سنو میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ اور آخرت میں سے وہ چیزیں دیکھتا ہوں جنہیں تم نہیں دیکھتے۔ بد بختی تمہاری نیک کام ہی ہیں جو تمہارے سے تمہاری قبروں میں عذاب کو دور کریں گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ۔ آپ نے فرمایا، جب مومن کو اس کی قبرمیں چھوڑ دیا جاتا ہے تو صدقہ اس کے سر کے پاس بیٹھتا ہے اور نماز اس کے دائیں جانب اور روزہ اس کے بائیں جانب اور صبر اس کے پاؤں کے پاس چنانچہ جب اس کے سر کی جانب سے عذاب آتا ہے، تو صدقہ کہتا ہے تمہارے لیے میرے ہاں راہ نہیں اس کے بائیں جانب سے آتا ہے تو روزہ کہتا ہے ۔ تمہارے لیے میرے ہاں راہ نہیں پس اس کے پاؤں کی جانب سے آتا ہے تو صبر کہتا ہے ، میں حاضر ہوں ۔ اگر تم حجت پکڑتے ہو۔ میں تمہاری مدد کرتا ہوں۔ اے لوگو! تمہارے لیے فقیروں کی غمخواری اور ان کے جانسپاری ایمان کی کمزوری کی حالت میں اور غمخواری ایمان کی قوت کی حالت میں لازمی ہے ۔ اور تنگی میں بھی ان کیلئے جانسپاری لازمی ہے ۔ فقیروں کا داد و دہش سے استقبال کرو . اور نہ ہونے کی صورت میں سے ایک ایک کر کے اچھی طرح سے رخصت کرو. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مردی ہے۔ آپ نے فرمایا ۔ اللہ تعالے کا اپنے بندے کو تحفہ اس کے دروازہ پر مانگنے والے کا ہونا ہے ۔ بدنصیبی تمہاری تم اللہ تعالے کے تحفہ کو نا پسند کرتے ہو ۔ اور اس کو لوٹاتے ہو۔ جلد ہی تم اپنی خبر دیکھ لو گے ۔ تمہیں تنگدستی پیش آئے گی. پس تمہارے سے (امارت) دور کر دے گی. اور تمہیں اس کی جگہ بٹھا دے گی تمہیں بیماری پیش آئے گی۔ پس تمہاری عافیت دور کر دے گی اور تمہیں اس کی جگہ بٹھا دے گی. تم اپنے پروردگار اعلیٰ کے بڑے احسانوں کو جو تمہارے اوپر ہیں ، خاطر میں نہیں لاتے مومن جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مانگنے والے کو اس کی طرف محض محبت کی بنا پر ہی بھیجا ہے. چنانچہ اس کو اس نعمت سے دیتا ہے جو اس کے پاس ہوتی ہے ۔ جب وہ اس کو دیتا ہے اور اس کی عزت کرتا ہے ۔ اور اس کے حوالہ کو قبول کرتا ہے ۔ اس کو وہ چیز دیتا ہے ، جو مکمل ، پوری اور بہتر ہے۔ اے  بدنصیب – دنیا اور آخرت کا عطیہ مال اور بڑھوتری چاہتے ہوئے بادشا ہوں۔ امیروں اور مالداروں سے معاملہ کرنا نہیں۔ اور بادشاہوں کے بادشاہ ۔ مالداروں کے مالدار سے معاملہ کرو۔ جو کبھی نہیں مرتا ہے اور نہ کبھی محتاج ہوتا ہے۔ اور جب تم نے اس کو قرض دیا تو وہ تمہارے لیے زیادہ کرے گا۔ دنیا میں نہیں ایک پیسہ کے دس پیسے دے گا ۔ اور آخرت میں تمہیں ثواب ہوگا ۔ (ہاتھ) نہیں روکتا تمہیں دنیا میں برکت دیتا ہے اور آخرت میں ثواب کیا تم نے سنا نہیں۔ اللہ تعالے نے کیسے فرمایا ۔ تم جو بھی چیز خرچ کرتے ہو اسے وہ باقی رکھتا ہے : اے اللہ ! ہمیں اپنی محبت نصیب فرمائیے کہ اور ہمارے لیے اپنی خدمت اور اپنی ساری امت کے ساتھ اپنے دروازہ پر کھڑا ہونا خوشگوار بنا د بجئے ۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے ۔

 انتالیسویں مجلس :-

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا ہے اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا ہے ۔ اللہ تعالے اپنے بندوں میں سے رحم کرنے والے پر ہی رحم کرتے ہیں۔ زمین والوں پر رحم کرو – آسمان والا تمہارے پر رحم کرے گا ۔ اے اللہ سے رحمت چاہنے والے ۔ اس کی قیمت چکا۔ اور وہ تمہارے ہاتھ آئے گی ۔ اس کی قیمت کیا ہے. تمہارا اس کی مخلوق پر رحم کرنا اور اس سے شفقت کرنا ۔ اور اپنی طرف سے ان کی اصلاح کرنا تم بغیر کسی چیز کے کوئی چیز چاہتے ہو۔ وہ تمہارے ہاتھ نہ آئے گی ، قیمت لاؤ، اور چیز لے لو۔ بد نصیبی تمہاری معرفت خدا وندی کا دعویٰ کرتے ہو۔ اور اس کی مخلوق پر رحم نہیں کرتے ہو ۔ تم اپنے دعوی میں جھوٹے ہو، علمی حیثیت سے عارف تمام مخلوق پر رحم کرتا ہے۔ اور حکمی حیثیت سے بعض لوگوں میں سے بعض پر رحم کرتا ہے۔ حکم علیحدہ کرتا ہے اور علم اکٹھا کرتا ہے ۔ اللہ تعالے نے فرمایا ، گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ. عامل مخلص اورسچے شیوخ یہ حق تعالے کے دروازے اور اس کی نزدیکی کے راستے ہوتے ہیں ۔ اور یہ انبیا مرسلین علیهم السلام کے وارث اور دربان ہوتے ہیں حق تعالے کے عاشق اور اس کی طرف بلانے والے ہوتے ہیں. اس کے اور اس کی مخلوق کے در میان سفیر ہوتے ہیں۔ دین کا علاج کرنے والے اور مخلوق کو سکھانے والے ہوتے ہیں ۔ ان کی طرف بڑھو۔ ان کی خدمت کرو ۔ اپنی جاہل ذوات کو ان کے امر و نہی کے ہاتھ کے حوالہ کر دو، روزیاں اللہ تعالے کے ہاتھ میں ہیں جسموں کی روزی ۔ دلوں کی روزی سو یہ سب اسی سے طلب کرو. نہ کہ اس کے غیر سے جسموں کی روزی کھانا اور جینا ۔ دلوں کی روزی توحید اور باطنوں کی روزی ذکر خفی ہو ۔ مجاہدہ نفس امرونہی اور عبادت و ریاضت سے اپنے آپ پر رحم کرو، اور اچھی بات کا حکم کر کے اور بُری بات سے منع کر کےسچی خیر خواہی کر کے ۔ اور ان کا ہاتھ پکڑ کر۔ ان کے دروازہ پر لے جا کر مخلوق پر رحم کرو ۔ رحمت مومنوں کی خوبیوں میں سے ہے اور قساوت (سختی ۔ دل کی ) کافروں کی خوبیوں میں سے ہے جو تمہیں چھوڑے ۔ اس سے ملو۔ جو تمہیں نہ دے ۔ اس کو دو اور جو تمہارے پر ظلم کرے۔ اس کو معاف کرو جب تم ایسا کرو گے ۔ تو تمہاری رسی اللہ کی رسی سے جُڑ جائے گی۔ جو تمہارے پاس ہے۔ اس کو اس سے تبدیل کر لو جو اُس (اللہ) کے پاس ہے۔ چونکہ یہ سب اخلاق اللہ تعالیٰ کے اخلاق میں سے ہے۔ ان اذان دینے والوں کا جواب دو۔ اس واسطے کہ وہ ان مسجدوں کی طرف بلاتے ہیں جو مہمانی اور سر گوشی کے گھر ہیں۔ ان کو جواب دو۔ اس واسطے کہ تم ان کے پاس نجات اور کفایت پاؤ گے جب تم – داعی اللہ (اللہ کی طرف پکارنے والے) کو جواب دو گے۔ وہ (اللہ) تمہیں اپنے گھر میں داخل کرے گا۔ تمہاری سنے گا تمہیں قریب کرے گا ۔ اور تمہیں علم و معرفت سکھائے گا تمہیں وہ دکھائے گا جو اس کے پاس ہے ۔ تمہارے ہاتھ پاؤں کو سنوار دے گا۔ تمہارے دلوں کو پاک کر دے گا اور تمہارے باطنوں کی صفائی کر دے گا۔ اور تمہیں اپنی ہدایت کی راہ دے گا اور تمہیں اپنے سامنے کھڑا کرے گا ۔ تمہارے دلوں کو اپنی نزدیکی کے گھر تک پہنچائے گا اور ان کو اپنے ہاں داخل ہونے کی اجازت دے گا ۔ وہ مہربان ہے۔ جب تم اس کو جواب دو گے اور اس کو پکارنے میں سستی نہ کرو گے تو تمہاری پکار کو پہنچے گا۔ تمہارے سے نیکی کرے گا، اور تمہارے سے نکل جائے گا۔ فرمایا ، نیکی کا بدلہ سوائے نیکی کے کیا ہے : جب تم نیک عمل کرو گے خوب ثواب دے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جیسا کروگے ، دیسا بھرو گے۔ جیسے تم ہو گے . ویسے تمہارےحاکم آئیں گے ۔ تمہارے اعمال ہی تمہارے حاکم ہیں ۔ دنیا میں گھٹے (تنگ) دلوں سے رہو۔ اس کو گھر نہ بنا لو۔ چونکہ یہ گھر بنانے اور رہنے کی جگہ نہیں ، پھر رہنے کی جگہ اور ہے۔ یہ گھر آخرت کے گھر کے مقابلہ میں قید خانہ ہے۔ اسی واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت ہے ۔ یہ اس  کا قید خانہ ہے ، چاہے اس کے آرام میں الٹتا پلٹتا اس میں ہزار سال جیتا رہے۔ اور آخرت اس کی فرصت ۔ اس کی فرحت اس کی جنت اس کی نیکی اس کا ثواب۔ اس کی دولت ۔ اس کا امر ، اس کی نہی اور اس کی وسعت ہے، عمل کرنے والے سچے عارف کا ثو اب تو آخرت کے ثواب سے (خدا) کے قرب سے پہلے دنیا میں ہی ہوتا ہے ۔ تمنا کرتا ہے کہ جنت پیدا ہی نہ کی جاتی۔ تم سمجھتے ہو ۔ قیامت رحمت ہے ۔ وہ دیکھتا ہے۔ کہ قیامت کو باطن کا ظاہر ہونا ہے ۔ اس واسطے کہ اس دن باطن چہروں کی طرف پلٹے گا ۔ اللہ والوں کا نشان قبر سے ہی دکھائی دیتا ہے۔ اور اس پر زیور اور پوشاکیں ہوں گی ۔ اور سواریاں اور غلام اس کا استقبال کریں گے ۔ اور اس کے دل کو اس قسم کی چیزوں سے بے رغبتی ہے ۔ اپنے پر در دگار اعلیٰ کے ذریعہ سے بے پروا ہونے کی بنا پر اس رحمت کو نا پسند کرتا ہے ۔ نعمت سے نہیں نعمت والے سے محبت کرتا ہے۔ سواریوں میں نہیں بلکہ باطن کے دروازہ سے بادشاہ کے ہاں داخل ہونا پسند کرتا ہے جنت میں رہنا پسند نہیں کرتا ہے ، چونکہ وہ اللہ کے سوا ہر چیز کو چھوڑنے والا ہے ۔ دل سے چاہتا ہے کہ جنت کو نہ دیکھے ۔ اس میں قید نہ ہو جائے ۔ اور اس کے آرام میں مست نہ ہو جائے ۔ اللہ کے سوا ہر کو چھوڑ کر اس کی محبت کی آرزو کرتا ہے۔ اور اس کے قدم پرورد گار اعلی سے ورے نہیں ٹھہرتے ۔ اور نہ غیر اللہ اس کو مشغول کرتے ہیں ۔

جو اللہ تعالے کو آخرت سے پہلے دنیا میں پہچان لیتا ہے اس کی نزدیکی کی خوشبو سونگھتا ہے۔ اس کی مہربانی کے کھانے میں سے کھاتا ہے۔ اور اس کی محبت کی شراب سے پیتا ہے ۔ اے منافقو ! میں تمہیں پکارتا ہوں۔ اور تم سنتے نہیں اور جب تم سن لیتے ہو، بہرے ہو جاتے ہو۔ اور جواب نہیں دیتے ہو۔ تمہیں کتنی دوری ہے ۔ تمہاری ساری فکر اپنے پیٹوں کی ۔ اپنی شرمگاہوں کی ۔ اپنے جسموں کی اور اپنی پوری دنیا کی ہے، یہ ایسی فکر ہے جو بھوک لاتی ہے ۔ اللہ تعالے کا کھانا زمین میں ہے جس سے بچوں اور ڈرنے والوں کے پیٹ بھرتے ہیں۔ تنگدستی کی تنگدستی تو تنگدستی کا ڈر ہے۔ اور بے پروائی اللہ تعالے کے ذریعہ ماسوا اللہ سے بے پرواہ ہو جانا ہے ۔ نہ کہ روپے پیسے سے بے پرواہ ہو جانا۔ اپنی جان پر قیامت بر پا کرو اپنی فکر کے ذریعہ دوزخ اور جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اور جو کچھ ان میں ہے ۔ اس کو اپنی سرکی آنکھوں اور یقین کے ساتھ دیکھو مومن عمل کرتا چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کی فکر و نظر صحیح ہو جاتی ہے ۔ اس وقت اپنی جان پر قیامت بر پا کرتا ہے۔ اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے ۔ اس کی کتابیں پڑھتا ہے ۔ اور اس میں اپنی نیکیوں اور برائیوں کو دیکھتا ہے ۔ جس کی نیکیاں غالب ہوئیں. اور دہ ان کے ساتھ آگ میں پڑا۔ اور پل صراط سے گزرنا چاہا تو اس پر سے گزر جائے گا۔ اور وہ ڈر اور امید اور مرنے یا نہ ہونے کے درمیان ہو گا پس جب وہ اس حال میں ہو گا۔ اچانک اللہ تعالے اسے آ پالیں گے اور آگ کو ٹھنڈا ہونے کا حکم دیں گے ، اور پلصراط اس کے قدموں کے نیچے ہوگی اور اس سے مہربانی کی وجہ سے آگ کے شعلہ کو بجھا دیں گے ۔ یہاں تک کہ دوزخ اس کو کسے گی ۔ اے مومن ، تم گذر جاؤ کہ تمہارا نور میرے شعلے کو بجھاتا ہے۔ ان سب چیزوں پر مومن غور کرتا ہے ۔ ان کا تصور کرتا ہے ۔ اور ان کا اندازہ کرتا ہے۔ ان کو اتنا ماننے لگتا ہے ، کہ اس کے نزدیک یہ یقینی ہو جاتی ہیں۔ اے  عالمو ! اس آرام سے باز رہو جس کو میں نے تمہارے سامنے تمہارے اپنے نصیبوں کے پیچھے دوڑنے کے بارہ میں بیان کیا ہے۔ اس کے پیچھے دوڑنا چھوڑ دو ۔ اور یہ تمہارے پیچھے دوڑیں گی ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو میں نے آزمایا ہے ۔ اور اس کو میں نے دیکھا ہے ۔ اور میرے علاوہ اس راہ کو چلنے والے نے دیکھا ہے جلدی مت کر و جو تمہارے لیے (مقدر) ہے ، تمہارے سے چھوٹے گا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ، آپ نے فرمایا ۔ دنیا سے تمہاری جان اس وقت تک نہیں جاتی جب تک کہ وہ اپنی روزی پوری نہ کرے چنانچہ اللہ سے ڈرو، اور ڈھونڈنے میں اچھی طرح کوشش کرو ٹھہرے ر ہو ۔ لالچ نہ کرو مشقت نہ اٹھاؤ۔ اس کو بیان کرو . اگر تمہارے لیے ضروری ہو۔ ڈھونڈنے کی بات تو یہ ہے ۔ جب تم نے بادشاہ کا در دانرہ کھٹکھٹا لیا۔ تمہارے لیے ایسا دروازہ کھولے گا جو کبھی بند نہ ہو گا۔ بھید کا دروازه باطن کا دروازہ ہے تمہارے لیے تمہارے زور ۔ تمہاری طاقت اور تمہارے گمان کے بغیر کھلے گا ۔ مومن وہ ہے جو اپنے پرورد گار اعلیٰ کا ارادہ کر کے اپنی ذات اپنی نفسانی خواہش اور اپنی طبیعت کے گھر سے باہر نکل گیا۔ جب اس کا یہ حال ہو گا، اور اس کی راہ میں کھڑا ہوگا ۔ اس کی ذاتی. اس کے بیوی بچوں اور اس کی مالی مصیبتیں روکیں گی۔ پس وہ حیران کھڑا ہوگا جس پر اپنے گناہوں اور بے ادبی اور اپنے خدائے بزرگوار کی حدیں توڑنے کی طرف رجوع کرے گا ۔ چنانچہ اس سے تو بہ کرے گا. اور کیوں اور کیسے سے سکوت کرے گا ۔ ظاہری اور باطنی طور پر پکار اورکشمکش سے گونگا بنا رہے گا ۔ سرداری اور پس اندازی سے کام سے کار اپنے سامنے والی روک کا اپنے ہاتھ سے اور کوشش سے علاج نہ کرے گا۔ اللہ تعالے کی طرف سے کھولے بغیر اس کے کھولنے پر مدد نہ چاہے گا. اس کا سارا کام اس کی یاد – اُس کی طرف رجوع کرنا ۔ اپنے گناہوں کا ذکر کرنا اور ان سے توبہ کرنا اور اپنی ذات کی طرف ملامت کے ساتھ رجوع کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ جب اس کام سے فارغ ہو گا ۔ تو اپنے پرورد گار اعلیٰ کی تقدیر کی طرف رجوع ہوگا. کہے گا. اللہ تعا لے کی تقدیر اور قضا تو پہلے ہی لکھی ہے تسلیم و رضا کی طرف زبانی طور پر نہیں بلکہ دلی طور پرر جوع کرے گا. چنانچہ جب وہ اس طرح آنکھیں بند  کیے کھٹکھٹا رہا ہو گا اچانک وہ اپنی آنکھیں کھو لے گا اور دروازہ کھلا پڑا ہے ۔ اور مصیبتوں کی جگہ آرام اور تنگی کی جگہ فراخی اور بیماری کی جگہ صحت اور بربادی کی جگہ جائداد آگئی ہے۔ اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تصدیق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔ اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کا چھٹکارا کر دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو خیال بھی نہ ہو، بندہ نعمتوں کا شکر کے ساتھ -مقابلہ کرتا رہتا ہے اور مصیبت کا موافقت کے ساتھ مقابلہ کرتا رہتا ہے۔جرموں اور گناہوں کو مانتا رہتا ہے نفس کو ملامت کرتا رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے دل کے قدم اس کے پروردگار اعلیٰ تک پہنچتے ہیں، نیک قدم اٹھاتا رہتا ہے، برائیوں سے توبہ کرتا رہتا ہے. یہاں تک کہ اپنے پروردگار اعلیٰ کے دروازہ پر پہنچ جاتا ہے جب وہاں تک پہنچ جاتا ہے تو وہ چیز دیکھتا ہے جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں گذری جب بندہ اپنے پروردگار اعلیٰ کے دروازہ پر پہنچ جاتا ہے تو نیک  وبد – شعر و صبر اور محنت ومشقت کی باری اس طرح ختم ہو جاتی ہے جس طرح اس مسافر کا چلنا ختم ہو جاتا ہے۔ جو اپنی منزل اور مقام پر پہنچ جاتا ہے . اکٹھے بیٹھنا۔ آپس کا پیار ، با ہمی گفتگو ایک دوسرے کو دیکھنا اور بن دیکھی چیزوں کے سامنے سے جھانکنا باقی رہ جاتا ہے چنانچہ شنید دید ہو جاتی ہے۔ چنانچہ رازوں سے خبر داری ہوتی ہے اور اس کی زیارت کرنے والا اس کے گرد گھومتا ہے۔ اور وہ اس کے لیے اپنا خزانہ کھول دیتا ہے ۔ اور اپنے باغوں میں کھلاپھرنے دیتا ہے۔ تم اس کو نہیں سمجھتے۔ اللہ تعالی لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتے ہیں اشارہ والے اشارہ کو جانتے پہچانتے ہیں . اے  غیر حاضر دل سے عبادت کرنے والے تمہاری مثال اس گدھے کی مثال ہے جس کی آنکھیں بندھی ہیں۔ اور وہ پیستا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس نے بہت سے میل کا سفر کر لیا ہے ۔ حالانکہ وہ اپنی جگہ ہی رہا ہے ۔خرابی تمہاری تم اپنی نماز میں اٹھتے بیٹھتے ہو۔ اور اپنے روزہ میں ذرہ بھر اخلاص و توحید کے بغیر بھوکے پیاسے رہتے ہو ،پس تمہیں کیا فائدہ ہوگا۔ تمہارے ہاتھ سوائے مشقت کے کیا آئے گا۔ تم روزہ نماز کرتے ہو۔ اور تمہارے دل کی آنکھ لوگوں کے گھروں کی ۔ ان کی جیبوں کی اور ان کے خوانوں کی چیزوں پر لگی ہے۔ تم اس انتظار میں ہو کہ تمہارے لیے تحفہ بھیجیں اور تم ان کو اپنی عبادت دکھاتے ہو ، اور اپنے روزہ سے اور مجاہدہ سے واقف بناتے ہو۔ اے مشرک اے  منافق ۔ اے ریا کار ۔ اے بدنصیب سچوں اور روحانیت والوں کی صفت کرو تا کہ تمہیں اپنا مقام اپنی بڑائی اور اپنی وسعت معلوم ہو جائے۔ میں تو تمہارے سے تمہارے دعوی کا مطالبہ کرتا ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ، آپ نے فرما یااگر اللہ تعالی  لوگوں کو دعوے پر پکڑ لیا کرتے ۔ تو بعض لوگ بعض لوگوں کے خون کا دعوے کرتے لیکن مدعی کے لیے ثبوت بہم پہنچانے اور انکار کرنے والے( مدعی علیہ ) کے لیے قسم کھانے کا(حکم ) فرمایا، تمہاری بات کتنی بڑی ہے ۔ اور کام کتنا تھوڑا ہے. اُلٹ کر و صبر کرو جو اللہ تعالے کو پہچان لیتا ہے، اس کی زبان بند ہو جاتی ہے ۔ اور اس کا دل بولتا ہے۔ اور اس کا باطن پاک ہو جاتا ہے۔ اور اللہ کے ہاں درجہ بلند ہو جاتا ہے ۔ اس سے انس اور آرام حاصل کرتا ہے۔ اور اسی کے ذریعہ سے بے پرواہ ہو جاتا ہے ، اے دلوں کی آگ ٹھنڈک اور آرام ہو جا۔ اے دلو اس دن کے لیے تیار ہو جاؤ جس میں پہاڑ چلیں گے ، ا در صاف سامنے نکلیں گے۔ آدمی وہی ہے ، جو اس دن اپنے ایمان و یقین اپنے آقا کی محبت اور اس کی طرف شوق کے قدموں اور آخرت سے پہلے دنیا میں اس کی پہچان کے قدموں پر جما رہے ۔ اسباب اور مخلوق کے پہاڑ چلیں گے، مسبب اور خالق کے پہاڑ باقی رہیں گے ظاہر اور صورت کے بادشاہوں کے پہاڑ چلیں گے ۔ اور کمزور ہو جائیں گے ۔ اور باطن کے بادشاہوں کے پہاڑ پاک ہو جائیں گے ۔ اور جم جائیں گے ۔ قیامت کے دن تغیر و تبدیلی کا دن ہے۔ یہ پہاڑ جن کو تم دیکھتے ہو۔ اور جن کی مضبوطی سختی اور بناوٹ کی بڑائی تمہیں بھلی معلوم ہوتی ہے ۔ ایسے ہو جائیں گے جیسے دھنکی ہوئی اون . یہ اپنی ان جگہوں سے علیحدہ ہو جائیں گے جن کو تم جانتے ہو ۔ ان کی سختی دور ہو جائے گی ۔ اور بادل کے چلنے سے بھی زیادہ تیز چلیں گے ۔ اور آسمان – مہلی یعنی پگھلے تانبے کی طرح چلے گا ، چنانچہ زمین اور آسمان کی بناوٹ بدل جائے گی ۔ اور دنیا کی باری حکمت کی باری – اعمال کی باری بیچنے کی باری تکلیف کی باری ختم ہو جائے گی اور آخرت کی باری ، قدت کی باری. اعمال پر جمنے کی باری فصل کاٹنے کی باری تکلیف سے راحت کی باری اور ہر حق والے کو حق دینے کی اور ہر زیادہ والے کو زیادہ دینے کی باری آجائے گی ۔ اے اللہ ! ہمارے دلوں کو اور ہاتھ پاؤں کو اس دن ثابت قدم رکھیو، اور ہمیں دنیا میں اور آخرت میں نیکی دیجئے۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے ۔

 چالیسویں مجلس :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے. آپ نے فرمایا ۔ لوگوں سے بہترین اخلاق سے ملو جلو ۔ پس اگر تم مرگئے تو تمہارے پر رحم ہوگا. اس وصیت کو سنو۔ اس کو اپنے دلوں سے باندھ لو۔ ان کا خیال نہ کرو۔ میں نے تم کو اس کے تھوڑے پر بڑے ثواب کا مالک بنا دیا ہے۔

نیک اخلاق دکھا ئیں ۔ نیکی نیکی والے اور دوسرے کے لیے راحت ہوتی ہے ، اور برے اخلاق کیا ہے، برائی برائی والے کو مشقت میں ڈالنے والا اور دوسرے کے لیے تکلیف ہوتی ہے۔ مومن کو چاہیے کہ اپنے اخلاق بہتر بنانے کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرے۔ اس کو اس طرح لازم سمجھے جیسے باقی تمام عبادات میں مجاہدہ کرتا ہے چونکہ اس کی عادت پیٹنا . غصہ کرنا اور لوگوں سے حقارت کرنا ہے۔ کوشش کرتے جاؤ، یہاں تک کہ مطمئن ہو جائے ، جب علم ہو جائے گا، انکساری وعا جزی کرے گا۔ اپنے اخلاق کو بہتر بنائے گا اور اپنی قدر پہچان لے گا ۔ اور دوسرے کو اٹھائے گا۔ مجاہدہ سے پہلے تو یہ اس کا فرعون ہوتا ہے ۔ خوشخبری ہو ، اس شخص کو جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا۔ اور اس سے دشمنی کی ۔ اور ہر اس بات پر اس کی مخالفت کی۔ جس کا اس نے اس کو حکم کیا ۔ اس کے لیے موت اور اس کے بعد کی چیزوں کو یاد کو لازم کرو . اور یہ عاجز ہو جائے گا اور اس کے اخلاق اچھے ہو جائیں گے ۔ اس کو خیال کے ہاتھوں پکڑو اور اسے دوزخ اور جنت میں داخل کرو مناسب ہو گا، جو کچھ ان دونوں میں ہے ، دیکھے۔ اور یہ عاجز ہو جائے گا۔ اور اس کے اخلاق اچھے ہو جائیں گے قیامت کا خیال کرو، اور اس کو قیامت برپا ہونے سے پہلے اپنے نفوس پر قائم کرو کچھ لوگوں کے  لئے خوشی ہوتی ہے۔ اور کچھ لوگوں کے  لئےغم ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے عید ہوتی ہے ۔ اور کچھ لوگوں کے لئے ماتم ہوتا ہے ، نیکیوں کی عید کا دن ان کی آرائش، ان کا حلہ پہننے ، ان کا اپنے شریف گھوڑوں پر سوار ہونے اور ان کے غلاموں کے ظہور کا دن ہوتا ہے. اور ان کی نشانیاں ان کے اعمال کا صورتوں کو اختیار کرنا ہے ۔ ان کا نور ان کے چہروں پہ ظاہر ہوگا اگر تمہیں اپنے پر ور دگا ر اعلیٰ سے مطلب اورغرض ہے ۔ اور تم اس کو چاہتے ہو۔ تو مجھ سے لازم رہو۔ اور اگر تم نے ایسا کیا۔ تو قناعت اختیار کرو. وگر نہ تو پیچھے نہ پڑور نفس، نفسانی خواہش اور طبیعت کے ساتھ اور مخلوق کی طرف دیکھنے سے تو یہ راہ نہیں چلی جاتی تمہارے سامنے حال کھول دیا۔ پس اگر چاہو تو قبول کر لو۔ وگرنہ تو تم خوب جانتے ہو۔ اگر تم نے قبول کر لیا۔ تو مجھے تمہارے لیے اللہ تعالے کے ہاں سے بڑی نیکی کی امید ہے ۔ تم میری پیروی کرو ۔ اور اپنے حق میں بھوک سے مت ڈرو، فقیر سچے ہوتے ہیں۔ وہی ہوتا ہے ۔ جو تم چاہو اور تم سوائے نیکی کے کچھ دیکھتے نہیں، میں اپنے نفس کے ساتھ سنسان جگہوں میں الگ ہو جایا کرتا تھا۔ تو بعض اوقات میں ایک آواز سنتا۔ اور کسی شخص کو نہ دیکھتا ۔ ۔ تم نیک ہو اور نیکی خریدتے ہو ۔ چنانچہ میں اٹھتا اور اپنے ارد گرد چکر لگاتا۔ اور نہ سمجھتا کہ وہ آواز کہاں سے آرہی تھی ۔ اور بحمد اللہ میں نے اپنے تمام حالات میں برکت دیکھی۔ اللہ تعالے کے بندوں میں ایسے بھی ہیں کسی چیز سے کہیں ہو جا  پس ہو جائے لیکن تم تو ان کو نہیں دیکھتے ۔ اور جب تم دیکھ پاتے ہو۔ تم پہچانتے نہیں ہو۔ ان پر اپنے دروازے بند کر لیتے ہو۔ اپنی جیبیں اور دستر خوان ان سے ہٹا لیتے ہو۔ بدنصیبی تمہاری جب تم اپنے دروازے ان کے لیے بند کر لیتے ہو۔ اللہ تعالی تمہارے لیے (اپنے دروازے) بند کرلیتے ہیں۔ اور جب تم ان کے لیے اپنے دروازے کھول دیتے ہو۔ اللہ تعالی تمہارے لیے (اپنے دروازے) کھول دیتے ہیں۔ جب تم اپنا مال اللہ تعالے کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتے ہو۔ تمہارے لیے جانشین بنا تا ہے ۔ پھر جب تم اس (مال) کو مخلوق کے دکھا دے کے لیے خرچ کرتے ہو، تمہارے لیے تنگی کردیتا ہے، خرچ کرو، اور کنجوسی نہ کرو۔ اس واسطے کہ سخاوت اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور کنجوسی شیطان کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ۔ وہ (شیطان )تمہیں تنگی کا وعدہ دیتا ہے ۔ اور تمہیں بے حیائی کا حکم کرتا ہے ؟ اور اس نے تمہیں خرچ کے مقابلہ میں عوض کا وعدہ دیا ہے ، چنانچہ اللہ تعالے نے فرمایا ۔ اور جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہو، تو وہ اس کا عوض دیتا ہے بد بختی تمہاری تم اسلام کا دعوی کرتے ہو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہو۔ اپنی نفسانی خواہش کے مطابق جو نئی چیز دین میں چاہتے ہو ۔ نکال لیتے ہو۔ اپنے اسلام میں جھوٹے ہو۔ تم (صحیح) اتباع کرنے والے نہیں ہو ۔ بلکہ تم دین میں نئی چیزیں نکالنے والے (پورے بدعتی ) ہو، تم موافق نہیں ہو۔ جبکہ مخالف ہو۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح فرمایا . اتباع کرو. اور نئی چیزیں نہ نکالو سو تمہاری کفایت ہوتی ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میں نے تمھیں چمکتی ملت پر چھوڑا. تم دعوی اس کا کرتے ہو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مختلف کرتے ہو ۔ تم دعوی کرتے ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہو۔ تمہارے لیے بزرگی نہیں میں تمہیں ٹھیک بات کہتا ہوں ۔ پس اگر تم چاہو۔ تو تعریف کرو اور اگر تم چاہو تو نہ کرو. پس اگر تم چاہو، تو مجھ سے محبت کرو. اور اگر تم چا ہو ۔ مجھ سے محبت نہ کرو. الله تعالے نے فرمایا ” اور فرما دیجئے۔ تمہارے پر ور دگار کی طرف سے بات سچی ہے۔ پھر جو کوئی چاہے مانے اور جو کوئی چاہے نہ مانے : منافق جھوٹے بدعتی اپنی خواہش نفسانی کے سوار اپنے نفس کے موافق ، قرآن وحدیث کے مخالف حق کے دشمن اور جھوٹ کے دوست کے سوا میری بات سے کوئی نہیں بھاگتا ۔ اور ایسے کے دل کو اپنے آقا کے قرب کی طرف چلنا بھی نصیب نہیں ہوتا بغیر کسی الزام کے اپنے دل سے سنو اور دیکھو ، پھر نظر کرو، کہ تم کیسی عحبیب و  غریب چیزیں دیکھتے ہو۔ اللہ والوں سے ان کی سچائی سے الزام دور کرو. اور ان کے سامنے بغیر چون و چرا فنا ہو جاؤ۔ اور وہ تمہیں اپنی صحبت میں رکھیں گے اور تمہاری خدمت سے خوش ہو جائیں گے۔ اور جب ان کے پاس جاؤ تو اپنے ڈر کو دور کر دو، نعمت اور احسان سچوں کے دلوں پر نازل ہوتے ہیں۔ اور بھیدوں کے آنے کی جگہ ہدایت اور دن ان کے بھید دل پر اترتی ہے ۔ اگر تم چاہتے ہو کہ وہ تمہاری خدمت سے خوش ہو جائیں تو اپنے ظاہر اور اپنے باطن کو پاک کرو، اور ان کے سامنے کھڑے ہو جاؤ ۔ اپنے دل کی بدعت سے پاک کرو، چونکہ اللہ والوں کا اعتقاد نبیوں ۔ رسولوں اور سچوں کا اعتقاد ہوتا ہے ۔ انہی کے مذہب پر چلنے والے ہوتے ہیں ۔ یہ مذہب عاجزوں کا ہے۔ خرابی نہیں کرتے اور ان کے لیے ان کے دعوے پر دو منصف گواہ ہیں۔ ان دونوں کے انصاف کی بناء پر الزام سے بری ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالے کی کتاب اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔

اے لوگو! اپنی جانوں پر ظلم کرو۔ اور دوسروں پر ظلم نہ کرو ۔ ظلم گھروں کو دیران کرتا ہے ۔ اور ان کو (جڑ سے) اکھاڑ پھینکتا ہے۔ دلوں اور چہروں کو سیاہ کر دیتا ہے ۔ اور روزی میں تنگی کر دیتا ہے ۔ آپس میں ظلم نہ کرو کہ یہ قیامت کے دن اندھیرا ہوگا جسموں کی قیامت جلد ہی بر پا ہوتی ہے اور ہمارے لیے جسموں کا پیدا کرنے والا ہے ، جو ہمیں اپنے سامنے کھڑا کرتا ہے۔ ہمارے سے حساب وکتاب کرتا ہے اور ہمارے سے پوچھ گچھ کرتا ہے اور ہم سے کم اور زیادہ کو ختم کر دیتا ہے، اور ذرہ ذرہ کا مطالبہ کرتا ہے، میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اور اپنی خیر خواہی پر تمہارے سے مزدوری بھی نہیں چاہتا ہوں ۔ سود کے قریب مت جاؤ کہیں تمہارا پروردگار تمہارے سے جنگ کرے اور تمہارے مال سے برکت اُڑا دے۔ روپیہ کے بدلہ میں رد پیہ ادا کرو۔ اور جو کوئی تمہارے میں سے کسی محتاج کو قرض دے سکے۔ اور کچھ وقت کے بعد اللہ اس کو اتروا دے ۔ تو ایسا کر نا چاہیئے۔ اس سے اس کو دو دفعہ خوشی ہو گی۔ ایک مرتبہ آخر پر اور ایک مرتبہ اترنے پر تم ایسا اپنے پروردگار اعلی کے بھروسہ اور اعتبار پر کرو چونکہ وہ اس کا عوض دیتا ہے۔ اور ثواب دیتا ہے۔ اور برکت دیتا ہے۔ کوشش کرو، کہ تم کسی مانگنے والے کو نہ دیکھو مگر یہ کہ جو چیز حاضر ہو۔ اس کو دو تھوڑا دینا محروم کر دینے سے اچھاہے۔ اور اگر تمہارے پاس کوئی چیز موجود نہ ہو تو اس کوجھڑ کو مت۔ اور اس کو نرم بات کر کے لوٹا دو کسی بھی طرح اس کے (دل کو)توڑو مت . دنیا بدلنے والی ہے ۔ رات اور دن کے بدلنے سے بدلتی رہتی ہے جو کوئی مر گیا۔ اس کی قیامت برپا ہوگئی ۔ اور اس کے لیے ہے ، یا اس کے خلاف ہے۔ اس نے ہر چیز کو جان لیا ۔ آخر عافیت کے بعد مصیبت – فراخی کے بعد تنگی۔ زندگی کے بعدموت عزت کے بعد ذلت ہے۔ یہ ساری چیزیں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ ایک آتی ہے اور اس کی ضدچلی جاتی ہے ۔  اور آخرت میں پوری موت ہے۔ عارف مومن کی جب سرکی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ تو دل کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ سو مخلوق کو دیکھتا ہے۔ جس حال میں وہ ہوتی ہے۔ جب حق تعالے کی ذات حاضر ہو جاتی ہے تو مخلوق چلی جاتی ہے۔ جب آخرت حاضر ہوتی ہے تو دنیا چلی جاتی ہے جب سچ حاضر ہوتا ہے تو جھوٹ چلا جاتا ہے جب اخلاص حاضر ہو جاتا ہے تو شرک چلا جاتا ہے۔ جب ایمان حاضر ہوتا ہے تو اتفاق چلا جاتا ہے۔ ہر ایک چیز کے لیے ضد ہے۔ عقلمند آدمی نتائج کی طرف نظر کرتا ہے. دنیا کے  ظاہر اور اس کی زینت کو نہیں دیکھتا۔چو نکہ یہ جلد ہی بدلنے والی اور دُور ہونے والی ہے ، (پہلے) تم دور ہو جاؤ گے . پھر تمہارے بعد یہ دور ہو جائے گی۔ اپنے پروردگار اعلیٰ کی صحبت سے ان مصیبتوں کی وجہ سے مت بھاگو . جو تمہارے پر اس کی طرف سے وارد ہوتی ہے ۔ وہ تمہاری مصلحتوں کو تمہارے سے زیادہ جانتا ہے ۔ اور ادب اختیار کرو. وہ سچوں کے دلوں پر آتی ہے۔ پس آکر ان کو سلام کرتی ہے ۔ اور جہاں تک ہو سکے سفارش کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے سینہ سے لگا لیتے ہیں ۔ اور اس کی آنکھوں کو چومتے ہیں۔ اور اس کو صبر ، موافقت اور رضا کے ذریعہ بلند کرتے ہیں۔ چنانچہ کچھ عرصہ ان کے پاس رہتی ہے۔ پھر ان کے ہاں سے لے لی جاتی ہے، پس کہا جاتا ہے جگہ اور ضیافت کو کیسا دیکھا ۔ تو کہتی ہے ، بہتر جگہ ، بہتر مہمانی کرنے والا۔ بہتر را ہنمائی اور بہتر رہنمائی کرنے والا۔ اور منقول ہے کہ ان سرداروں میں سے ایک سے جو مصیبت میں مبتلا تھا۔ پوچھا گیا۔ آپ اس مصیبت میں کیسے ہیں تو فرمایا کہ میرے بارہ میں مصیبت سے پوچھو۔ اپنے پروردگاہ اعلیٰ کے ساتھ صبر کرو. چونکہ وہ تمہارے صبر کے بدلہ میں تمہاری مصیبت کو دور کرتے ہیں ۔ اور اپنے ہاں تمہارے درجے بلند کرتے ہیں . اپنی طرف سے اس کے ساتھ ہو جاؤ ۔ اللہ کے بارہ میں سچوں کے ساتھ اور اس کے ساتھ۔ اس کے ذریعہ سے اور اس کے لیے عمل کرنے والوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ اے اللہ ہمارے لیے مسخر کر دیجئے ۔ اور ہمارے پر آسان کر دیجئے۔ اور ہمارے لیے کھول دیجئے ، اور ہمارے اوپر اور ہمارے لیے آسان کر دیجئے  اپنے راہ ۔ آمین ۔

ایمان سے بیماری تنگدستی ، بھوک اور مطالب کی کثرت زیادہ ہو جاتی ہے۔وگر نہ تو ایمان نہیں۔ ایمان کا جو ہر مصیبت کے وقت کھلتا ہے اور اس کا نور تکلیف کے وقت ظاہر ہوتا ہے ، جیسے بہادری مصیبت کا شکر آنے پر ظاہر ہوتی ہے۔ تمہارے پر ورد گار اعلیٰ کو جو تم کرتے ہو۔ معلوم ہے ۔ اے بادشا ہو، اے  غلامو ۔ اے  خواص ۔ اے  عوام اے امیرو، محتاجو، اے اہل خلوت اس سے کسی کو پر دہ نہیں ، وہ بلند ذات تمہارے ساتھ ہے. تم کہیں بھی ہو۔ اے اللہ ! ہمیں مغفرت، معانی، مہربانی در گذر عنایت کفایت ، عاقبت اور معافی سے ڈھانپ لیجئے ۔ آمین

جس بھلائی اور برائی۔ سچ اور جھوٹ خلوص اور شرک اور فرمانبرداری اور نافرمانی میں تم لگے ہو۔ اللہ تعالی ان سب سے خبردار نگہبان حاضر اور ناظر ہیں تم اللہ تعالے کے دیکھنے سے شرم کرو۔ اور ایمان کی آنکھ سے دیکھو اور تم تو اللہ تعالے کی نظر کو اپنی چھ طرف سے دیکھا ہے، کیا تمہیں نصیحتیں کافی نہیں ہیں ۔ اگر تم نصیحت پکڑو اور اپنے دلوں کے کانوں سے سنور تو تمہیں اپنی خلوت اور جلوت میں اپنے پر درد گا ر اعلیٰ کی طرف سے یہی ڈر کافی ہو جائے ۔ اللہ تعالے کی انتظار میں رہو۔ اور اس کی نظر کی طرف اور کراما کا تبیین فرشتوں کی طرف دیکھو جو تمہارے اوپر مقرر ہیں ۔ ان دونوں سے ڈرو اور ان شرعی حدود سے نہ ڈرو – جو تمہارے اوپر تمہارے بادشاہ اور تمہارے امیر نے قائم کی ہیں۔ اگر تم ڈرے تو تمہارے ساتھ تمہارا والی بھی کیوں مشقت میں پڑے گا ۔ اے فقیر اے  بھوکے ۔ اے ننگے اے محتاج تم فریاد کرتے ہو۔ تمہاری خاموشی تمہارے لیے زیادہ پیاری اور تمہیں زیادہ فائدہ دینے والی ہے ۔ اللہ تعالے کا تمہارے حال کا جانناتمہیں تمہارے مانگنے سے بے نیاز کر دے گا۔ تمہیں مبتلا ہی یوں کرتا ہے ۔ کہ تم اس کی طرف رجوع کرو. چنا نچہ اپنے دل سے اس کی طرف رجوع کرو۔ اور جمے رہو۔ پس تم بھلائی ہی دیکھو گے۔ اس سے جلدی مت کرو۔ اس سے دریغ نہ کرو اور اس کو الزام مت دو تمہاری بھوک زہر ہے جس نے تمہیں بھڑکا دیا۔ اور زیادتی حاجت نے تمہیں یتیم بنا دیا۔ اللہ تعالے دیکھتے ہیں کہ کیا تم دوسرے پروردگاروں کے دروازہ کو پکڑتے ہو۔ تم اس سے راضی ہوتے ہو ۔ یا تم اس پر ناراض ہوتے ہو۔ تم اس کا شکر کرتے ہو یا اس کی شکایت کرتے ہو۔ تم اس سے راضی ہوتے ہو۔ یا تم اس پر ناراض ہوتے ہو عاجزی وانکساری اختیا رکرتے ہو۔ تمہیں آزماتا ہے تا کہ دیکھے کہ تم کیا جانتے کرتے ہو۔ اے جاہلو! تم نے غنی کا دروازہ چھوڑ دیا۔ اور فقیر کا دروازہ پکڑ لیا۔ تم نے سخی کا دروازہ چھوڑ دیا۔ اور کمینے کا دروازہ پکڑ لیا۔ تم نے قدرت والے کا دروازہ چھوڑ دیا۔ اور عاجز کا دروازہ پکڑ لیا ۔ اے اس سے جاہلو ! وہ جلد ہی تمہیں اکٹھا کرے گا۔ اور جس دن تمہیں اکٹھا کرے گا تمہیں اپنے سامنے کھڑا کرے گا۔ اکٹھا کرنے کے دن تمہیں مختلف انواع سے اکٹھا کرے گا۔ اے تمام مخلوق ۔ اللہ تعالے نے فرمایا : ” یہ فیصلہ کا دن ہے جس میں ہم نے تم کو اور اگلوں کو جمع کیا۔ پھر اگر تمہارا کوئی داؤ ہے۔ تو تم مجھ پر چلاؤ اور قیامت کے دن اللہ تعالے مخلوق کو اس زمین کے علاوہ اپنی زمین پر اکٹھا کریں گے جس پر کسی آدمی کا خون نہیں بہا یا گیا ۔ اور اس پر کوئی گناہ نہیں کیا گیا ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں شک وشبہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” (قیامت کی گھڑی میں کوئی شک نہیں اور بلاشبہ اللہ تعالے نے ان کو اٹھانا ہے جو قبروں میں ہیں نہ قیامت کا دن ہارجیت کا دن۔ افسوس کا دن۔ شرمساری کا دن یادگری کا دن ۔ کھڑے ہونے کا دن۔ گواہی کا دن بیان کا دن خوشی کا دن – غم کا دن ڈر کا دن امان کا دن آرام کا دن – سزا کا دن راحت کا دن – مشقت کا دن پیاس کا دن چھوٹ کا دن – پوشاک کا دن ننگ کا دن نقصان کا دن ہے۔ اس دن ایمان والے اللہ تعالے کی مدد سے خوش ہوں گے۔ اے اللہ ! ہم اس دن کی برائی سے آپ کے ساتھ پناہ پکڑتے ہیں۔ اور آپ سے بھلائی مانگتے ہیں۔ اور ہمیں دنیا میں نیکی دیجئے ۔ اور آخرت میں نیکی دیجئے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے۔

اکتالیسویں مجلس :-

عبادت عادت کا چھوڑنا ہے۔ یہ اس کو منسوخ کر دینے والی ہے.شریعت عادت کو مٹا اور اڑا دیتی ہے۔ اپنے پر درد گار اعلیٰ کی شریعت کو مضبوط پکڑو اور اپنی عادتوں کو چھوڑ دو۔ عالم عبادت پر قائم ہوتا ہے اور جاہل عادت پر قائم ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو اپنی اولاد کو اور اپنے گھر والوں کو بھلائی کے کام اور اس پر ہمیشگی کا عادی بناؤ ، اپنے ہاتھوں کو روپے کے خرچ کرنے کا عادی بناؤ۔ اور اپنے دلوں کو اس سے بے رغبتی کا عادی بناؤ اور اس کو اس کے محتاجوں پر خرچ کرنے سے دریغ نہ کرو اپنے سے ان کے سوال کو لوٹاؤ مت کہیں حق تعالی تمہارے سوال کو نہ لوٹا دیں۔ تہارے سوال کو کس طرح نہ لوٹا دیں، جبکہ تم نے اس کے ہدیہ کو لوٹا دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالے کا اپنے بندہ کی طرف ہدیہ اس کے دروازہ پر مانگنے والے کا ہوتا ہے بد بختی تمہاری تم شرم نہیں کرتے اپنے پڑوسی کو تنگدست اور بھو کاچھوڑ دیتے ہو۔ پھر تم ایک جھوٹے گمان کے ساتھ اپنی بخشش سے اس کو محروم رکھتے ہو ۔ تم کہتے ہو۔ اس کے پاس سونا چھپا ہے ۔ اور وہ تنگدستی ظاہر کرتا ہے۔ تم ایمان کا دعویٰ کرتے ہو ۔ اور سو رہتے ہو۔ حالانکہ تمہارا پڑوسی بھوکا ہوتا ہے، اور تمہارے پاس اتنا ہوتا ہے کہ تمہارے ہاں بچ رہتا ہے۔ اور تم اس کو نہیں دیتے ہو۔ جلدی ہی تمہارا مال تمہارے ہاتھ سے چھین لیا جائے گا ۔ اور جو تمہارے ہاتھ میں ہے ، تمہارے سامنے سے اٹھا لیا جائے گا ۔ اور غلبہ اور زبردستی سے تم ذلیل اور مغلوب ہو گے ۔ اور وہ دنیا جو تمہاری محبوبہ ہے تمہیں چھوڑ جائے گی۔ دنیا کو اضطرارمجبوری سے نہیں ۔ اختیار (پسند) سے چھوڑ دو۔ اپنے نصیبوں کی طرف نظر کرو۔ اور دوسروں کے نصیبوں کو مت دیکھو ۔ جو جان بچا دے، اور ننگ چھپا دے، اس چیز پر قناعت کرو۔ اس واسطے کہ اگر تمہارے لیے کوئی اور چیز ہے تو وہ اپنے وقت پر مل جائے گی ۔ یہ پاک اور خبر دار لوگوں کا کام ہے ۔ لالچ اور رسوائی کے بوجھ سے ان کے حالات کو چھپائے رکھو۔ زاہد لوگوں نے دنیا کو پہچانا ۔ انہوں نے اس کو پہچان کر اور تجربہ پر ہی چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے پہچان لیا ۔ کہ یہ پہلے سامنے آتی ہے. پھر پلٹتی ہے۔ (پہلے) دیتی ہے ۔ پھرچھینتی ہے۔ (پہلے، آجاتی ہے۔ پھر الگ ہو جاتی ہے۔ (پہلے) پیار کرتی ہے، پھر دشمنی کرتی ہے ۔ (پہلے) موٹا کرتی ہے. پھر کھا جاتی ہے۔ (پہلے) سر پر اٹھاتی ہے۔ پھر اوندھا گراتی ہے (اس) سے اپنے دلوں اور باطنوں کو خالی کرو۔ اس کے پستان سے (دودھ) مت پیو۔ اس کی گود میں مت بیٹھو ۔ اس کی زینت ، اس کی جلد کی نرمی ۔ اس کی سفیدی اس کی خوش گفتاری اور اس کے کھانوں کی شیرینی کی وجہ سے اس کی طرف رغبت نہ کرو۔ یہ زہر ملا کھانا ۔ مار ڈالنے والی ۔ جادو کرنے والی ۔ دھوکہ دینے والی ہے۔ عذاب ہے۔ باقی رہنے اور ٹھہرنے کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ ان کے حالات دیکھو جو پہلے اس کے ساتھ رہے۔ ان کے ساتھ اس نے کیا کیا۔ اس کی زیادتی چاہتے ہوئے اپنے آپ کو نہ مار ڈالو چو نکہ اس سے جو تمہارے پاس ہے۔ اس سے زیادہ نہ دے گی۔ زیادتی اور نقصان کی طلب چھوڑو چین سے رہو۔ ادب اختیار کرو اور قناعت کرو. الله تعالے نے اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نےسچ فرمایا۔ آپ کا فرمان ہے ۔ تمہارا پروردگارمخلوق روزی اور عمر سے فارغ ہو چکا ۔ اور جو کچھ قیامت تک ہونا تھا۔ اسے لکھ کر قلم خشک ہو گیا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جب اللہ تعالے نے قلم کو بتایا۔ فرمایا ۔ جاری ہو جا۔ (قلم نے عرض کیا )کاہے سے جاری ہو جاؤں اللہ تعالے نے فرمایا میرے اس حکم کے ساتھ جاری ہو جا جو میری مخلوق کے بارہ میں قیامت کے دن تک ہے۔

اگر تم موت کو یاد کرتے تو تمہا را نفس تمہارے سے کہاں بات کرتا اور تمہاری اپنے مولائے کریم کی اطاعت کے سلسلہ میں کہاں مخالفت کرتا۔ لیکن تم نے تو اس کو اپنا امیر اور اپنا سوار بنا رکھا ہے۔ تم نہیں پسند کرتے کہ اس کو موت کی یاد سے مغموم کرو اور نہ یہ اس سے تعرض کرتی ہے۔ اور تم اس کا اس سے تجربہ کرتے ہو تمہیں آگ کی طرف کھینچ لے جائے گا۔ اور تمہارے پاس بھلائی نہیں۔ اے نفس اور طبیعت اور مزے کے بندے تم اپنے باپ آدم علیہ السلام کی نسبت اور جوڑ سے نکل گئے ہو۔ اگر تم نے اپنے نفس کو ایسے دیکھا ہوتا ہے۔ نیک لوگ اپنے نفسوں کو دیکھتے ہیں۔ تویہاں سے بھاگ کھڑےہوتے بدنصیبی تمہاری خبر دار ہو جاؤ، تم نے اس کا سامان اٹھا رکھا ہے۔ اور اس کے بوجھ تمہارے پر ہیں۔ اور وہ تمہا را سوار ہے ۔ تم اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھائے پھرتے ہو ۔ ولی لوگوں نے اپنے نفسوں کو اپنی سواریاں مجاہدوں کا بوجھ اور عبادت کی تکلیفیں بنا یا ۔ اور ان پر سوار ہوئے ۔ اور ان سے (محفوظ) سلامتی کے ٹیلہ پر بیٹھے، بے شک دنیا اور آخرت آکر ان کے سامنے ان کی خدمت میں کھڑی ہوگئی۔ اس کو حکم کرتے ہیں اور ان کو منع کرتے ہیں ۔ آخرت سے اپنے پورے حصے دیر سے لیتے ہیں ۔ اور دنیا سے جلدی ہی ۔ اے اس بات کے سننے والو۔ اگر تم اس پر عمل نہ کرو . تو قیامت کے دن یہ تمہارے خلاف دلیل ہوگی۔ اور اگر تم نے اس پر عمل کیا ۔ تو یہ تمہارے حق میں دلیل ہوگی. کہتے ہیں ۔ اگر تم نے سن لیا۔ اور جان لیا۔ تو مزہ – گناہ اور غلط کاری کی مجلس میں تمہاری حاضری زیادہ نہ ہوگی چنا نچہ تمہاری حاضری جھوٹ غیر درست ہے ۔ سزا بغیر جزا ہے۔ برائی بے بھلائی ہے. اس قسم کی حاضری سے توبہ کرو، فائدہ اٹھانے کی نیت سے حاضر ہو ۔ اور تم نے فائدہ اٹھایا ہے ۔ اور میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ تمہیں میرے سے فائدہ پہنچائے گا۔ اور تمہارے دلوں ، تمہاری نیتوں اور تمہارے ارادوں کی درستگی کر دے گا۔ اور مجھے تمہارے سے حکم کی ادائیگی کی آس ہے ۔ اور شاید اللہ اس (طلاق) کے بعد کوئی نئی صورت پیدا کر دیں عنقریب تم خبردار ہو گے اور جان لو گے ۔ اے اللہ ! ہمیں بیداروں کی بیداری اور ان کا معاملہ نصیب فرمائیے۔ اور دین و دنیا اور آخرت میں ہمیشہ کی عفو و عافیت اور در گذر و معافی کے ساتھ ان کے حالات میں داخل کر دیجئے اے اللہ ! ہمیں اس دن اور ہر دن کی بھلائی نصیب فرمائیے ۔ ہمیں حاضر اور غائب کی بھلائی نصیب فرمائیے۔ اور ہم سے حاضروور غائب کی برائی دور فرمائیے۔ اور ہمیں ان بادشاہوں کی بھلائی نصیب فرمائیے ، جن کو آپ نے اپنی زمین پر جما دیا ہے۔ اور ہمیں ان کی بُرائی سے کافی ہو جائیے . اور بروں کی برائی سے اور نافرمانوں کے داؤ سے اور اپنے سب بندوں کی اور اپنی مصیبت کی برائی سے اور ہر زمین پر چلنے والے کی برائی سے کافی ہو جایئے۔ آپ سیدھی راہ پر ہیں بخش دیجئے ۔ گناہگاروں کو فرمانبرداروں کیلئے ۔ جاہلوں کو جاننے والوں کے لیے اپنے سے غائبوں کو حاضروں کے لیے۔

آپ سے چاہت رکھنے والوں کو عمل کرنے والے کے لیے اور گمرا ہوں کو ہدایت لانے والوں کے لیے ۔ اپنے دلوں سے برابر والوں مقابلوں اور شریکوں کو نکال دو۔ چونکہ اللہ تعالے شریک کو قبول نہیں کرتے ۔ خصوصاً اس دل سے جو اس کے گھر میں ہو۔ حضرات حسن اور حسین علیهما السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھیل رہے تھے۔ اور دونوں بچے تھے ۔ اور وہ (رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم) دونوں سے پوری طرح متوجہ ہو کر دونوں سے خوش تھے ۔ چنانچہ جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ سے فرمایا : کہ اس کو زہر دی جائے گی۔ اور یہ قتل ہوگا ۔ اور آپ کو یہ محض اس لیے فرمایا۔ کہ اس کو آپ کے دل سے نکال دے اور دونوں کے بارے میں آپ کی خوشی ان دونوں پر غم ہو جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی الله عنها کو بھلی جانتے تھے لیکن جب آپ کو وہ مشہور و معروف قصہ پیش آیا تو وہ اپنے بے گناہ ہونے اور ان کے گھر والوں کے بے گناہ ہونے کے علم و یقین کے باوجود آپ کے دل میں بری بن گئیں ۔ اس واسطے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے حق تعالے کا مقصد معلوم تھا۔ اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے جب حضرت یوسف علیہ السلام سے محبت کی اور ہوا جو کچھ ہوا۔ اُن کے اور ان کے درمیان جدائی کر دی۔ اور اس قسم کے بہت سے قصے اولیاء انبیاء علیہم السلام کو پیش آئے ۔ جوحق تعالی کے پیارے ہوتے ہیں نہ کہ غیر کہ ان کے دل اس کے ماسوا سے خوش ہوتے ہیں۔ تمہارے لیے اخلاص لازم ہے ۔ اس کے لیے نماز پڑھو۔ نہ کہ اس کی مخلوق کے لیے ۔ اس کے لیے روزہ رکھو ۔ نہ کہ اس کی مخلوق کے لیے ۔ دنیا میں اللہ کے لیے زندگی گذارو، نہ کہ اس کی مخلوق کے لیے ۔ اور نہ اپنے نفسوں کے لیے ۔ اپنی ساری عبادتیں اللہ کے لیے کرو . نہ کہ اس کی مخلوق کے لیے نیک اعمال اور اخلاص پر قدرت نہ ہوگی۔ مگر آرزوئیں کو تاہ کرنے سے ۔ اور آرزو کوتاہ کرنے پر قدرت نہ ہوگی۔ مگر موت کو یاد کرنے سے ، اور اس پر قدرت نہ ہوگی۔ مگر پرانی قبروں کو دیکھنے اور ان قبروں والوں اور یہ جن حالات میں تھے، ان پر غور کرنے سے بوسیدہ قبروں کے پاس بیٹھو اور اپنے آپ سے کہو وہ سب کھاتے تھے۔ پیتے تھے ۔ شادی کرتے تھے پہنتے تھے ۔ اور جمع کرتے تھے۔ اب ان کا کیا حال ہے، کونسی چیز انہیں فائدہ دیتی ہے ، سوائے نیک اعمال کے ان میں سے اب ان کے ہاتھ میں کوئی بھی چیز نہیں۔

اے اس شہر کے رہنے والو. تم میں ایسے بھی ہیں جو (مرنے کےبعد) اٹھنے اور چلنے کے قائل نہیں ۔ دہریہ مذہب کے پیروکار ہیں اور مارے جانے کے ڈر سے اپنے آپ کو چھپاتے ہیں۔ اور میں ان میں سے ایک گروہ کو جانتا ہوں مگر یہ کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے دکھاتا ہوں اور تمہارے سے چشم پوشی کرتا ہوں ۔ اے اللہ ! پردہ ، معافی ہدایت اور کفایت دے ۔ خرابی تمہاری ۔ اس کے اہل نہ بنو۔ تم اپنی بیوقوفی کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے لڑائی جھگڑا اور بحث و تمحیص کرتے ہو۔ چنانچہ اپنے ظاہر دین کی پونجی کو خاطر میں لاتے ہو ۔ آنکھ بند کر و ( دل پر ) دستک دور ادب اختیار کرو۔ تم اپنی قدر پہچانو ، کہ تم کون ہو۔ اور اپنے آپ میں عاجزی اختیار کرو تم غلام بنو۔ اور غلام اور جس چیز کا وہ مالک ہوتا ہے۔ اس کے اپنے لیے نہیں ہوتا ۔ اس کے آقا کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے لیے واجب ہے کہ آقا کے ارادہ و اختیار کے سامنے اپنا ارادہ ترک کر دے۔ اس کا کہنا آقا کے کہنے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ تم اللہ تعالیٰ سے توقع اپنے نفس کے لیے کرتے ہو۔ اور اللہ والے اپنے پروردگار اعلیٰ سے مخلوق کی خاطر توقع کرتے ہیں ۔ اس سے انہی کے لیے مانگتے ہیں ۔ اور اس پر انہی کی وجہ سے اصرار کرتے ہیں۔ وہی ہیں جنہوں نے مخلوق کو چھوڑ دیا ۔ اور اپنے دلوں کو مخلوق سے پاک کر لیا۔ ان کے دلوں میں مخلوق کا ایک ذرہ بھی نہیں رہتا ۔ ان کا ٹھہراؤ اسی کے ساتھ۔ اس کے لیے اور اسی کے ذریعہ سے ہے۔ وہ بغیر تنگی پوری کشادگی میں ہیں اور بغیر رسوائی پوری عزت میں ہیں۔ اور بغیر محردی پوری بخشش میں ہیں اور بلا رشک پوری شنوائی میں ہیں۔ اور بغیر لوٹا نے کے پوری قبولیت میں ہیں، اور بغیر غم کے پوری خوشی میں ہیں ۔ اور بغیر عاجزی کے زور والے ہیں۔ بغیر کمزوری طاقت والے ہیں۔ بغیر محرومی نعمت والے ہیں۔ انہوں نے بزرگی والی پوشاک پہن لی ہے۔ اور ا س ( الله تعالے) نے ان کے دلوں کے ہاتھوں میں سپرداری، طاقت اور تکوین کی توفیق حوالہ کر دی ہے۔ تکوین ان کے ہاتھوں میں ایسا خزانہ بن گئی ہے جو ختم نہ ہو ۔ اور ایسا مددگار جو مشقت میں نہ ڈالے جب ڈرتے ہیں۔ ان کی امان بڑھا دیتا ہے ۔ جب پیچھے ہوتے ہیں ان کو آگے کر دیتا ہے ۔ ان کی بات سنی جاتی ہے۔ اور ان کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔ اس نے مخلوق کی عقل و سمجھ سے بالا دنیا اور آخرت کا قبضہ ان کے حوالے کر دیا ہے ۔ آسمانی کائنات میں عظیم، سردار کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے علم سیکھا اور اس پر عمل کیا۔ وہ آسمانی کائنات میں عظیم سردار کے نام سے پکارا گیا۔ جس چیز میں اور جس چیز پر تم ہو۔ (ذرا سوچو. پس اگر تم دیکھو کہ وہ اللہ تعالے کی مرضی کے موافق ہے، تو اسے لازم پکڑو۔ اور اگر تم دیکھو۔ کہ وہ اللہ تعالے کی مرضی کے مخالف ہے تو اس کو چھوڑ دو اپنے کھانے میں اپنے پہننے ہیں۔ اپنے شادی کرنے میں۔ اپنی خاموشی میں اپنی بات میں۔ اپنے چلنے میں اور اپنے ٹھہرنے میں پر ہیز گاری اختیار کرو۔

جو تمہارے پاس ہے اس کو چھپاؤ . پس اگر تمہیں اس کی کسی دوسرے نے خبردی ہے۔ اس کا بوجھ تمہارے پر ہوگا۔ اور اگر تم نے اپنی طرف سے خبردی ہے تو تمہیں سزا ملے گی پس ادب یہی ہے کہ خبر دینے والے تمہارے سوا اور کوئی ہو۔ تم نہ ہو ۔ ایک نیک وہ ہے جو اپنے ساحل کی عبادت گاہ میں اپنی آستین کے سوراخ کے باطن میں سر مراقبہ میں کیے اپنے پروردگارہ اعلیٰ سے مانوس بیٹھا ہے۔ اس کو یاد کرتا ہے۔ جب اس کے پاس سے نیک انسانوں جنوں اور فرشتوں میں سے کوئی گزرنے والا گزرتا ہے تو اس کو کہتا ہے ۔ یہاں اللہ تعالی اور تمہاری اس سے محبت اور تمہاری اس کی یاد کی نعمت ہے۔ اے پاکباز ۔ اسے ایثار کر نے والے اے پر ہیز گار اے خبر دینے والے ۔ اے اخلاص والے ۔ اے احسان کیے گئے۔ اور وہ اس کی طرف اپنا سر بھی نہیں اٹھاتا ۔ اور جو کچھ اس سے سنا۔ اس کا اپنے دل سے اعتبار بھی نہیں کرتا ۔ جو یہاں بولتے ہیں- خرید و فروخت کرتے ہیں ۔ وہ یہ یکے بعد دیگرے سنتا ہے۔ اور ایسے گویا اس نے یہ سنا ہی نہیں۔ اور اس کی مثال ایسی ہے کہ جب اس میں سے کوئی مخلوق کی طرف لوٹتا ہے تو دنیا کے شفا خانہ میں ان کے لیے معالج ہوتا ہے۔ اس کی دوائیاں فائدہ کرنے والی کام کی ہوتی ہیں ۔ اور اس کا سرمہ دلوں کی آنکھوں کا بہنا بند کر دیتا ہے اور اس کی بیماریاں دور کر دیتا ہے ۔ وہ عافیت والا ہوتا ہے۔ اس سے عافیت چاہی جاتی ہے ۔ زندہ ہوتا ہے ۔ اس سے زندگی چاہی جاتی ہے۔ نور ہوتا ہے اور اس سے روشنی چا ہی جاتی ہے۔ اس کا پیٹ بھرا جاتا ہے، پینا ہوتا ہے پس اس سے سیرابی حاصل کی جاتی ہے ۔ سفارش کرنے والا ہے اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے ۔ کہنے والا ہوتا ہے۔ اس کی بات مانی جاتی ہے حکم دینے والا ہوتا  ہے۔ اس کا حکم بجا لایا جاتا ہے۔ منع کرنے والا ہوتا ہے۔ اس کا باز رکھنا مانا جاتا ہے۔ اپنے دلوں کی باتیں چھپاتے ہیں۔ اپنے معارف و علوم چھپاتے ہیں۔ ان کے دلوں کے دروازے ان کے پروردگار اعلیٰ کے قرب کے گھر کی طرف رات اور دن کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے پاس دلوں کی مہمانی کا گھر ہوتا ہے ۔ اور ان کے دل راست اور دن حق تعالے کے درود کی سماعت میں ہوتے ہیں اور دل جب درست ہوتا ہے تو وہ صحیح ہوتا ہے سب کچھ جان لیتا ہے، اس سے بچ نکلتا ہے ۔ اور سب سے بڑھ جاتا ہے۔ سب نیکیوں میں جیسے حضرت موسی علیہ السلام کا عصا جس میں اللہ تعالے نے ان کے لیے ساری خوبیاں جمع کر دیں۔ کہتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نے اس کو بہشت کے پودوں میں سے لیا ۔ اور اس کو حضرت موسی علیہ السلام کے حوالہ کر دیا ۔ جبکہ وہ فرعون کے (ڈر سے) بھاگے ۔ اور کہتے ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کے حوالہ کیا جنہوں نے اس کو ان کی طرف منتقل کیا۔ اور اللہ تعالے نے اس کو مخلوق کے لیے معجزہ بنا دیا۔ اور ان کی (حضرت موسیٰ علیہ السلام) نبوت کے لیے طاقت اور صحت ۔ اوران کو وہ چیز جس کے ساتھ وہ خاص تھا۔ اور دیگر چیزیں بخشیں ، حضرت موسیٰ علیہ السلام جب تھک جاتے تو اپنے جانور کی طرح اس پر سوار ہو جاتے۔ اور جب ان کو رکاوٹ ہوتی۔جبھی پل بن جاتا جس پر سے وہ گزر جاتے۔ جب آپ کا دشمن آتا۔ ان کی طرف سے اس کا مقابلہ کرتا۔ ایک روز حضرت موسی علیہ السلام ایک بیابان جنگل میں اکیلے سوائے پروردگار کے بغیر دوست بکریاں چرا رہے تھے۔ چنانچہ نیند کا غلبہ ہوا۔ پس جب بیدار ہوتے تو عصا کے سر ( لاٹھی کی چوٹی پر ) خون کا نشان دیکھا سو آپ نے اپنے گرد تلاش کی تو ایک بڑا سانپ مرا پڑا دیکھا جس پر آپ نے اس (عصا لاٹھی) کا اپنے سے دور کرنے پر اللہ کا شکر کیا۔ اور جب آپ کو بھوک لگتی تو اس وقت وہ درخت بن جاتا اور پھل لے آتا ۔ اور وہ بقدر ضرورت کھا لیتے ۔ اور جب آپ کو سورج کی دھوپ تنگ کرتی آپ اس کو اپنے پہلو میں چھوڑتے تو وہ ان کے لیے سایہ کرتا ۔ اسی طرح یہ بندہ جب اس کا دل صحیح ہو جاتا ہے اور اپنے پر ور دگا ر اعلیٰ کے قابل ہو جاتا ہے تو اللہ تعالے اس میں مخلوق کے لیے عام طور پر اور اس کے لیے خاص طور پر فائدہ رکھ دیتے ہیں ۔ فائدہ خاص اور عام ہے۔ جو ظاہر ہے وہ مخلوق کے لیے ہے۔ اور جو چھپا ہوا ہے اس کے لیے ہے جو سامنے ہے مخلوق کے لیے ہے۔ اور جو چھپا ہوا ہے۔ اس کے لیے ہے ۔ اور یہ بات۔ اول اس کا لا الہ الا الله محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ اور آخر اس کا تعریف و مذمت بھلائی برائی ۔ فائدہ نقصان لینے لوٹانے مخلوق کے آگے آنے اور ان کے پیچھے ہٹنے کا برا بر ہوتا ہے۔ اول کو صحیح کرو تا کہ دوسرا بھی صحیح ہو جائے ۔ جب تمہارا قدم پہلی سیڑھی پر نہ جما تو دوسری کی طرف کیسے بڑھے گا۔ نیک اعمال کا دارو مدار ان کے خاتمہ پر ہی ہے۔ تمہارا قول لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) دعوی ہے پس دلیل کہاں ہے ۔ اور وہ حکم شریعت کو پکا کرنا اور ان کو ان کے حقوق دینے کے ساتھ توحید و اخلاص ہے ۔ اور موحد کے پاس جو کچھ ہے۔ اس کے لیے بادشاہ سے بہتر ہے اور شیطان کی طرف سے نہیں ہے ، وہ اس سے رو گردانی کرتا ہے اور اپنے دل سے اپنے پروردگار اعلیٰ پر جما ہوا ہے۔ حق تعالے کے الٹ پھیر اور کاموں کو خود میں دیکھتا ہے اور اس کی مخلوق جو قضا و قدر کے پچھاڑے میں دونوں کو دیکھتا ہے کہ کس طرح کھلتے اور دیکھتے ہیں ۔

مخلوق کو کمزوری و عاجزی، بیماری و تنگدستی اور ذلت وموت کی آنکھہ سے دیکھتا ہے۔ اس کے لیے نہ دوست ہے اور نہ دشمن اور نہ اس کے لیے کوئی دعا کر تا ہے ۔ اور نہ اس کے لیے کوئی بد دعا کرتا ہے . جب پروردگا ر اعلیٰ کسی شخص کے حق میں اس کوبد دعا کے لیے گویا کرتا ہے تو اس شخص کے لیے بد دعا کرتا ہے ۔ اور اگر اس کو کسی شخص کے حق میں دعا کے لیے گویا کرتا ہے تو اس شخص کے لیے دعا کرتا ہے۔ وہ حق تعالیٰ کے امرونہی (حکم اور منع) کے ماتحت ہے ۔ دل اس کا ان فرشتوں کے ساتھ ہے جن کے حق میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے : ہم کو اس اللہ نے گویا کر دیا ہے جس نے ہر چیز کو گویا کیا ہے : اس طرح گویا ہوتا ہے، جس طرح قیامت کے دن ہاتھ پاؤں گویا ہوں گے پس جب ان کو انہی میں کا کوئی سرزنش کرتا ہے ۔ کہتے ہیں۔ ہمیں اس خدا نے گویا کر دیا ہے جس نے ہر چیز کو گویا کیا ہے جو بندہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات سے فانی ہو جاتا ہے اور اپنے پر وردگار اعلیٰ کی ذات کے ساتھ موجود ہوتا ہے ۔ اے اللہ ! ہمارے لیے ہماری دعاؤں کو درست فرما دیجئے۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے اور دوزخ کے عذاب سے بچایئے ۔

بیالیسویں مجلس :-

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ، آپ نے فرمایا، خرابی ہے اس شخص کے لیے جس نے اپنے کنبہ کو بھلائی کے ساتھ چھوڑا اور خود اپنے پروردگار کے سامنے برائی کے ساتھ آیا۔ میں تمہارے میں سے بہت سے لوگوں کو اس طرح پر دیکھتا ہوں۔ روپے پیسے بد پرہیزی کے ہاتھ جمع کرتے ہیں ۔ اور ان کو اپنے بیوی بچوں کے لیے چھوڑ جاتے ہیں ان کو ان کے حوالہ کرتے ہیں۔ اور حساب ان کے ذمہ ہوتا ہے ۔ اور سیری دوسروں کے لیے ہوتی ہے اور غم ان کے لیے ہوتا ہے اور خوشی دوسروں کے لیے ہوتی ہے ۔ اے دنیا کو دوسروں کے لیے چھوڑنے والو ! اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنو  ان کے لیے حرام مت چھوڑو پس تم اللہ تعالے کی خدمت میں برائی ۔ عذاب اور سزا کے ساتھ حاضر ہو، منافق اپنی اولاد کو اس مال کے حوالے کرتا ہے، جو اس نے اس کے لیے پیدا کیا۔ اور مومن اپنی اولاد کو اپنے پروردگار اعلیٰ کے حوالہ کر تا ہے ، اگر وہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے۔ کو پیدا کرتا۔ تو ان کو اس پیدا کردہ کے حوالہ نہ کرتا ۔ وہ بڑا ہے۔ اور اس نے جانا ہے کہ بہت سے لوگوں نے اپنی اولاد کو لوگوں کے چھوڑے ہوئے مال کے حوالہ کیا ہے ، چنانچہ وہ ضائع ہوئے۔ تنگدست بنے اور لوگوں سے اکتا گئے ۔ اور جو کچھ انہوں نے چھوڑا تھا اس سے برکت اٹھ گئی۔ برکت اس لیے چلی گئی ۔ کہ وہ (مال) بد پر ہیزی کے ہاتھ جمع کیا تھا اور اس لیے کہ انہوں نے اس پر اعتماد کیا تھا اور اپنی اولاد کو اس کے حوالہ کیا جس کے لیے ان کو چھوڑا ۔ اور اپنے پرور دگا ر اعلیٰ کو بھول گئے۔ منافق مخلوق کا بندہ ۔ روپے پیسے کا بندہ زور ، طاقت اور حصوں کا بندہ ۔ مالداروں ۔ بادشاہوں کا بندہ ہوتا ہے، اور بادشاہ اس کے دشمن ہوتے ہیں جو ان کو ان کے پروردگار کی طرف بلائے ۔ اور اس کے سامنے ان کو ذلیل کرے ۔ اور ان کے سامنے اس چیز کو کھولے جس میں وہ ہیں ایمان والے تنگی میں تکلیف میں سختی میں ، نرمی میں نعمت میں تنگدستی میں اور محرومی میں صحت میں ، بیماری میں غریبی میں، امیری میں مخلوق کے رُخ کرنے میں اور ان کی بے رخی میں اپنے پروردگا ر اعلیٰ کے ساتھ قائم رہتے ہیں ، اپنے تمام حالات میں ایک لحظہ کے لیے بھی اس کو اپنے دل سے دور نہیں کرتے ، تابعدار ہیں۔ حکمبر دار ہیں ۔ آرام پانے والے راضی رہنے والے ۔ موافقت کرنے والے اور لڑائی جھگڑا کو چھوڑنے والے اور دور رہنے والے. ہیں ۔ ان کو محض  ا امرونہی (حکم اور منع)  ہی موافق آتی ہے۔ اپنے تمام کارناموں میں قرآن و حدیث سے فتوے لو ۔ جب تمہیں اپنے دن کے معاملہ میں کوئی مشکل پیش آئے تو تم کہو ۔ اے قرآن تم کیا کہتے ہو. اسے حدیث تم کیا کہتی ہو ۔ اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے بھیجنے والے کی راہ بتائی۔ آپ کیا فرماتے ہیں جب تم نے ایسا کیا تو تمہاری مشکل حل ہو جائے گی ۔ اور تمہاری تاریکی ختم ہو جائے گی۔ جب تمہیں کسی چیز میں مشکل پیش آئے تو اس کے بارہ میں ظاہر میں شریعت والوں سے پوچھو ۔ اور باطن میں اپنے دل سے پوچھو ۔ اور اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض کو فرمایا۔ اپنے دل سے فتوی لو کہ اس میں کیا چیز پھرتی ہے، اور اگر فتوی دینے والے تمہیں فتوی دے چکے ہیں تو لوگوں کے سامنے آؤ۔ ان سے فتویٰ لے ۔ اور اگر وہ فتوی دیں جو تم نے کیا ۔ تو تمہیں ظاہر کے مفتیوں سے فتوے لینے کے باوجو د گمان کیوں ۔ تمہارے دل اور دربانوں میں کیا پردہ ، پھر تم فرشتہ کے پاس جاؤ ، کیا کہتا ہے ۔ اور اگر موافق ہو، تو موافقت بہت اچھی اور اگر اس نے مخالفت کی ۔ تو اپنی بات کے بغیر اس کی بات کی پابندی کرو۔ اگر تم مالک کا ہمیشہ ساتھ چاہتے ہو تو فرشتہ سے الگ ہو جاؤ۔ فرشتہ مالک سے پردہ ہے موجود صورت ہی مخلوق سے دلوں، باطنوں اور معنوں کے لیے قید ہے جس سے اللہ تعالے بڑی نیکی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو قید کرتے ہیں، اور اس کو اس کے دل کے قدموں پر اپنے سامنے کھڑا کر لیتے ہیں ۔ اور اس کے لیے دو پر پیدا فرما دیتے ہیں ۔ جن کے ذریعہ ان کے علم کی ہوا میں اڑتا ہے ۔ پھر اس کے قرب کے برزخ میں پناہ لیتا ہے اور باوجود اس کے اس پر رعب ڈالتا ہے۔ اور مطلب اور غرور جس میں وہ لگا ہے، کے چھوڑنے میں غیرت کے ہاتھ کی نجات ہے، اگر جو کچھ وہاں ہے ۔ اس کو جاننے کے بعد اس کا بازو کو تا ہی کرے ۔ اور اس کو اس کی معرفت سے رو کے جب تک بندہ دنیا میں رہتا ہے۔ اس کے لیے ڈر اور غرور کا چھوڑ نا ضروری ہے۔ اور اگر کسی حالت کو پہنچ گیا۔ پہنچ جائے۔ اس واسطے کہ دنیا تغیر و تبدیلی کا گھر ہے اور آخرت اقامت کا گھر ہے، اس میں نہ تغیر ہے نہ تبدیلی ۔ خرابی تمہاری ۔ دل کی رسائی کا دعوی کرتے ہو، حالانکہ وہ دروازوں اور بندشوں کے پیچھے بیٹری اور بوجھ میں قید پڑا ہے ۔

کھرے کھوٹے کے لیے دوسرے کے پاس جاؤ کسی چیز کے ساتھ تمہارے لیے درست نہیں۔ اور اگر تم اس لیے آؤ کہ میرے سے کھرے کھوٹے کی پرکھ کرا لو تو تم مت آؤ۔ اس واسطے کہ مشقت اٹھاؤ گے اور میں تمہارے سے تمہاری کھوٹی پونجی نہ لوں گا۔ اور اگر تم اس لیے آؤ کہ میں تمہارا سونا رکھ لوں۔ اور شبہ چاندی اور تانبہ سے نکال دوں۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ والے تو صراف ہوتے ہیں ۔ دین کے مال کی پرکھ کرتے میں اور اچھے اور خراب میں اور جو اللہ تعالے کے لیے ہے۔ اور جو مخلوق کے لیے ہے میں فرق کر دیتے ہیں۔ اللہ والے پیغام دینے لینے والے دوست معالج مکمل کرنے والے اور ہاتھ کی محنت کرنے والے ہوتے ہیں اور سب اپنے پروردگار اعلیٰ کا لحاظ کرتے ہیں ۔

اے لوگو! اپنے پروردگار اعلیٰ کو جواب دو، اور اس کو اس کی مخلوق کے بارہ میں جواب دو۔ اس کو جواب دو۔ اور مخلوق کو اس کی راہ بتاؤ ۔ تاکہ تمہارے ساتھ اس کو جواب دے ۔ اس سے غافل رہنے والوں کو یاد دلاؤ۔ ان کو ان پہ اس کے احسان یاد دلاؤ ۔ تاکہ تم اس سے محبت کرو۔ اللہ تعالے نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم فرمایا۔ اے  داؤد ! مجھے میری مخلوق کا پیارا بنا دو۔ حالانکہ جس کے لیے چاہتا ہے۔ اس کی محبت کا علم اس کو پہلے سے ہو چکا ہوتا ہے۔ اور جو اس سے پیار کرتا ہے اس کا علم بھی اس کو پہلے سے ہو چکا ہے۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام کو خود کو اپنی مخلوق کا پیارا بنا دینے کا حکم دیا ۔ تاکہ تمہارے لیے علم قدیم ظاہر ہو جائے ۔ جب تم کسی اندھیرے گھر میں ہوتے ہو اور تمہارے پاس چقماق اور رگڑ ہوتی ہے۔ اور تم رگڑتے ہو۔ کیا آگ ظاہر نہیں ہوتی ۔ جو اس چقماق میں پہلے سے تھی لیکن رگڑ نے اس کو ظاہر کر دیا۔ اسی طرح سے حق تعالے کی تکلیفیں مخلوق کے بارہ میں علم قدیم کو ظاہر اور بیان کر دیتی ہیں۔ امرونہی نیک بندے کو گنہ گار بندہ سے علیحدہ کر دیتے ہیں اور پورا کرنے والے کی تکلیف کی کوشش بھی امرونہی ہے۔ پورا دینے والا مقروض میرے مقروض سے پہچانا جاتا ہے۔ پہلے زمانہ میں برائی والے تھوڑے تھے اور وہ آج تھوڑوں سے بھی تھوڑے ہیں۔ مومن اللہ تعالیٰ سے محبت ہی کرتا ہے، اگرچہ اس کی آزمائش کرے ۔ اور اگر چہ اس کا کھانا پینا ۔ پہننا۔ عزت پانا صحیح رہنا کم کر دے ۔ اور اس سے مخلوق کو دور کر دے ۔ اور اس کے دروازہ سے بھاگتا نہیں بلکہ اس کی دہلیز سے چمٹا رہتا ہے ۔ جب دوسرے کو دیتا ہے اور اس کو محروم رکھتا ہے۔ تو نہ وحشت کھاتا ہے اور نہ اعتراض کرتا ہے ۔ اگر اس کو دیتا ہے۔ شکر کرتا ہے۔ اور اگر روک لیتا ہے صبر کرتا ہے۔ اس کا مقصود بخشش نہیں ہے ۔ اس کا مقصود اس کو دیکھنا اس کی نزدیکی اور اس کے ہاں جانا ہے. اے جھوٹو ! سچا سچے کو لوٹاتا نہیں اور مصیبت پر مظاہرہ نہیں کرتا ۔ بغیر جھوٹ – قول عمل ۔ دعویٰ اور دلیل کے سچ کو دیکھتا ہے۔ اپنے محبوب سے سیدھے جمے تیروں کی بناء پر پلٹتا ہٹتا نہیں بلکہ اپنے سینے پر لیتا ہے کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہے جو کوئی اپنی مانگی چیز کو جان لیتا ہے۔ اس پر خرچ کرتا ہے۔ آسان ہو جاتا ہے، سچا پیار کرنے والا اپنے محبوب کی تلاش میں ہمیشہ خطرات میں گھس جاتا ہے۔ اگر اس کے سامنے آگ ہو۔ اس میں گھس جاتا ہے۔ ایسی چیز سے بھڑ جاتا ہے جس پر دوسرا جسارت نہیں کرتا ہے۔ اس کا سچ اس کو اس مصیبت پر ابھار دیتا ہے۔ جس سےسچے اور جھوٹے میں تمیز ہو جاتی ہے ۔ ایک بزرگ نے کیا اچھی بات کہی ہے کہ دوست دشمن سے رضا مندگی میں نہیں ناراضگی میں ظاہر ہوتا ہے مصیبتوں اور تکلیفوں میں ایمان وایقان اور علم و معرفت ظاہر ہو جاتی ہے۔ مغز اور چھلکا میں تمیز ہو جاتی ہے۔ اس میں جو موافق ہو – مغز ہے ۔ اور جو اس میں لڑائی جھگڑا کرے چھلکا ہے۔ اپنے پروردگار اعلیٰ سے موافقت کرنے والا مخلوق کو اپنے دل سے نکال دیتا ہے بس مغز بغیر چھلکا رہ جاتا ہے جس سے یقین کی آنکھ سے اپنی توحید و توکل عقیدت و ارادت کو مضبوط کیا۔ وہ اللہ تعالے کے راستہ سے ہٹتا نہیں ہے۔ اور نہ اس کے دروازہ سے بھاگتا ہے۔ پایہ صدق و استقامت پر محبوب خدا بنا رہتا ہے۔ اللہ تعالے والے آرزو کرتے ہیں کہ نہ دنیا و آخرت کو نہ انسانوں کو ۔ نہ جنوں کو اور نہ فرشتوں کو دیکھیں ۔ آرزو کرتے ہیں کہ اپنی آنکھوں سے کسی کو نہ دیکھیں ۔ اور نہ کسی کی آنکھیں ان کو دیکھیں۔ جیسے کہ محب جب وہ اپنے محبوب کو پالیتا ہے پسند کرتا ہے ۔ کہ نہ اس کو اس کی تنہائی کی دیواریں دیکھیں اور نہ اس کے گھر کی اینٹیں۔ چاہتا ہے۔ نہ اس کو کنگھی کرنے والی دیکھے اور نہ جننے والی ۔ اور وں کے سوا اسی سے پیا رکرتے ہیں۔ اسی کی رضا مندگی چاہتے ہیں۔ نہ دنیا و آخرت نہ دین بخشش نہ تعریف و ستائش ۔ اور یہ نایاب سے بھی نایاب چیز ہے ۔ تم اپنی جانوں اپنے مزوں ۔ اپنی لذتوں کو پسند کرتے ہو۔ اور اس کا چہرہ تو تم سے چھپا ہے اس وقت تم کامیاب نہ ہو گے۔ اور اپنے پر ور دگا ر اعلیٰ کی نزدیکی کا منہ نہ دیکھو گے کھانے پینے پہنے اور شادی کرنے کا کتنا فکر کرتے ہو۔ تم زیادہ اسی کی بات کرتے ہو۔ یہاں تک کہ اپنی مسجدوں میں اپنے بیٹھتے وقت ۔ وہ تمہارے حق تعالیٰ کو یاد کرنے کے گھر میں مسجدیں اللہ تعالے کو یاد کرنے والوں سے خوش ہوتی ہیں ۔ اور غیر اللہ کو یاد کرنے والوں سے بیزار ہوتی ہیں۔ سب سے زیادہ تم بھوک اور تنگدستی سے ڈرتے ہو۔ اگر تم کو یقین ہوتا۔ اس قسم کی چیزوں کو نہ سوچتے ۔ تم اپنے پروردگا ر اعلیٰ کے ارادہ کے موافق بن جاؤ۔ اگرچہ تمہیں بھوکا رکھے۔ چنانچہ اپنے دل کی خوشی سے صبر کرو۔ اگر تمہارا پیٹ بھر دے ۔ تو اس کا شکر کرو ۔ وہ تمہاری بہتری کو خوب جانتا ہے۔ اس کے ہاں کنجوسی اور کمی نہیں ہے ۔ قصہ بیان کرتے ہیں کہ ستر نبی علیہم السلام ملتزم اور مقام کے درمیان مدفون ہیں۔ جن کو بھوک اور چچیڑیوں نے مار ڈالا۔ اس واسطے نہیں ۔ کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے ان کا پیٹ بھرتا ۔ بلکہ اس نے ایسا پسند کیا۔ اور ان سے اس پر راضی ہوا۔ یہ ان سے ان کو بلند کرنے کے لیے کیا۔ نہ کہ ان کو بے عزت کرنے کے لیے ۔ بلکہ اس لیے کہ دنیا اس کے سامنے ہیچ ہے۔ اس واسطے بندہ جب مخلوق میں سے اس کے سوا دوسرے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے اپنا ارادہ ہٹا دیتا ہے ۔ اور اس کے اور چیزوں کے درمیان پر وہ کر دیتا ہے تا کہ اس کی طبیعت کی آگ دب اور بجھ جائے۔ اور اس کی روح دنیا کے مقام پر منتقل ہو جائے ۔ اور اس آخرت کا شوق رکھے۔ جس میں اس کا پر ور دگار اعلیٰ ہے۔ چنانچہ وہ موت کی آرزو کرتا ہے۔ تاکہ اپنے پروردگار اعلیٰ کے ساتھ تنہا ہو جائے ۔ زیادہ غالب اور عام یہی ہے اور جو نادر ہے پس وہ اس کی مخلوق میں سے گنتی کے لوگ ہیں۔ دوسرا معنی کے اعتبار سے گنتی اور شمار سے باہر ہیں ۔ ان کو ایسے کام کے لیے پیدا کیا ۔ جس کو وہ جانتا ہے صحبت ۔ نیابت۔ سعادت اور اس کی طرف مخلوق کی دلالت کے لیے ان کو مشرق مغرب اور سمندر میں چھپاتا ہے مخلوق سے اپنی زبانوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ان کو اپنا نائب بنایا ہے۔ پس وہ نہ زندگی کی آرزو کرتے ہیں نہ موت کی ۔ اس میں وہ اپنے ارادہ سے خالی ہیں۔ ان کا ارادہ موقوف ہو گیا اور ان کے دل مطمئن ہو گئے ۔ اور خواہشات نفسانی ختم ہوگئیں۔ ان کی طبیعتوں کی آگ بجھ گئی ۔ اور ان کو ان کے شیطانوں سے دور کر دیا ۔ اور دنیا ان کے لیے ذلیل ہو گئی ۔ اور اس کو ان پر کوئی اختیار نہ رہا۔

اور یہ اس لیے کہ یہ ہرنا در سے بھی نادر ہے۔ حق تعالے کے محبوب ہیں ۔ اور اس کی مخلوق میں سے اس کی محبت کرنے والے ہیں۔ اے لوگو! تم محبت کرنے والے نہ ہو تو محبت کرنے والوں کی خدمت کرو۔ اور محبت کرنے والوں کے قریب ہو جاؤ۔ محبت کرنے والوں کو محبت کرو محبت کرنے والوں سے حسن ظن رکھو۔ ایک پوچھنے والے نے اس کو پوچھا۔ تم پہلی بار محبت کو اضطراری پاتے ہو کہ اختیاری فرمایا ۔ گنتی کے لوگ میں کہ حق تعالی ان کی طرف نظر کرتے ہیں تو ان سے محبت کرتے ہیں۔ اور ان کو ایک لحظہ میں ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف نقل کرتے ہیں جو محبت ان سے ایک گھڑی کرتے ہیں ۔ سالوں کے بعد ان سے محبت زیادہ نہیں ہوتی ہیں وہ ان سے بطور ضرورت محبت کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ جو نعمتیں ان کے پاس ہیں اسی کی طرف سے ہیں۔ نہ کہ دوسرے کی طرف سے ۔ وہ اس کی اپنے لیے مہربانی، پرورش اور بخشش دیکھتے ہیں۔ پس ان سے بلا تاخیر و تقدم بغیر درجہ بندی اور بغیر وقت گزاری محبت کرتے ہیں اور جنہوں نے پسند کیا ہے کہ محبت کرنے والے اللہ تعالے کو اس کی ساری مخلوق پر ترجیح دیتے ہیں۔ پھر دنیا اور آخرت پر ترجیح دیتے ہیں۔ حرام اور شبہ والی چیزوں کو چھوڑتے ہیں۔ حلال چیزوں کی کمی کرتے ہیں. اور موجودہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ لحاف  بستر نیند اور چین کو چھوڑتے ہیں۔ اور ان کی کروٹیں سونے کی جگہ سے جدا رہتی ہیں ۔ نہ ان کی رات رات ہے اور نہ ان کا دن دن ہے کہتے ہیں ۔ ہمارے معبود ہم نے سب کو اپنے دلوں کے پس پشت چھوڑا ۔ اور ہم آپ کی طرف جلدی چلے آئے۔ تا کہ آپ راضی ہوں۔ اپنے دلوں کے قدموں سے اس کی طرف چلتے ہیں ۔ اور کبھی اپنے باطن کے قدموں سے کبھی اپنی ارادت کے قدموں سے۔ کبھی اپنی ہمت کے قدموں سے کبھی اپنی سچائی کے قدموں سے کبھی اپنے محبت کے قدموں سے کبھی اپنے شوق کے قدموں سے کبھی اپنی عاجزی انکساری کے قدموں سے کبھی اپنے ڈر کے قدموں سے ۔ اور کبھی اپنی امید کے قدموں سے ۔ یہ سب کچھ اس کی محبت اور اس کی ملاقات کے شوق کی بنا پر ہے ۔ اے پوچھنے والے ! کیا تم ان میں سے ہو جو اللہ تعالے سے اضطراری اور اختیاری طور پر محبت کرتا ہے ۔ سو اگر نہ یہ ہے ۔ اور نہ وہ ہے تو خاموش ہو جاؤ۔ اور اسلام کی درستگی میں لگ جاؤ۔ کاش کہ تمہا را اسلام وایمان درست ہو جاتا۔ کاش تم آج یا کل کا فروں اور منافقوں کے گردہ سے نکل جاتے۔ کاش کہ تم مخلوق اور اسباب سے شرک کرنے والوں اور حق تعالے سے لڑنے جھگڑنے والوں کی مجلس سے اٹھ کھڑے ہوتے ۔ تم تو بہ کرو ۔ اور بادشاہوں کے خزانوں اور بھیدوں کے پیچھے نہ پڑو حضرت شیخ حماد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے جس نے اپنی قدر نہ پہچانی ۔ اس کو قدوں نے اس کی قدر پہچنوا دی ۔ اپنے قدر کا انکار کرنے کی بجائے اپنی قدر کومان لینا تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ چونکہ جاہل اپنی قدر سے اور دوسرے کی قدر سے جاہل ہوتا ہے، اے اللہ ! ہمیں دعوے کرنے والے چھوٹے جاہلوں میں سے مت کیجئے ۔ اے اللہ ! ہمیں اپنے مخلوق کے خواص میں سے بنائیے. اور ہمیں دنیا میں اور آخرت میں نیکی دیجئے۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے ۔

تینتالیسویں مجلس :

تمہارے میں توحید کتنی کم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا مندگی کتنی کم ہے۔ الا ماشاء اللہ کوئی ہی بیماری ہوگی جس میں جھگڑا اور غصہ نہ ہو۔ تمہارا اسباب اور مخلوق سے شرک کرنا کتنا زیادہ ہے ۔ تم نے فلاں فلاں کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ رب بنا رکھا ہے۔ جن کی طرف نقصان و نفع ۔ اور دینے اور روکنے کو منسوب کرتے ہو۔ ایسا مت کرو۔ اپنے پروردگار اعلیٰ کی طرف رجوع کرو ۔ اپنے دلوں کو اس کے لیےفارغ کرو ۔ اس کے سامنے گڑ گڑاؤ- اور اس سے اپنی حاجتیں مانگو۔ اپنی مشکلات میں رجوع کرو۔ تمہارے لیے دوسرا دروازہ نہیں۔ سارے دروازے بند پڑے ہیں ۔ اس کے ساتھ خالی جگہوں میں تنہا ہو جاؤ۔ اس سے باتیں کرو اس کو اپنے ایمان کی زبانوں سے مخاطب کرو. تمہارے میں سے ہر ایک کو جب اس کے گھر والے سو جائیں اور مخلوق کی آوازیں خاموش ہو جائیں۔ چاہیے کہ پاکی حاصل کرے اور اپنی پیشانی کو زمین پر رکھے۔ اور تو بہ کرے ۔ اور معذرت کرے۔ اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔ اور اس کی عطا کے پیچھے ہو جائے اور اپنی حاجتیں مانگے اور اس سے ہر اس چیز کا شکوہ کرے جس سے اپنا دل تنگ پاتا ہے۔ وہ تمہارا پروردگار اعلیٰ ہے ۔ دوسرا نہیں ۔ اور تمہارا معبود ہے۔ دوسرا نہیں تمہاری خرابی ۔ اس کی مصیبتوں کے تیروں کی وجہ سے مت بھا گو تمہارے میں سے جو آگے ہوتے ہیں۔ ان سے تکلیف تنگی سختی اور نرمی کا معاملہ کرتا ہے ۔ تاکہ اس کو پہچان لیں اور اس کا شکر کریں۔ اور اس کے ساتھ صبر کریں ۔ اور اس سے تو بہ کریں۔ سزائیں سونے والوں کے لیے ہوتی ہیں اور بدلے مومن ومتقی لوگوں کے لیے ہوتے ہیں۔ اور درجے نیکوں یقین کرنے والوں تائید کرنے والوں اورسچوں کے لیے ہوتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ہمارے نبیوں کے گروہ کو لوگوں سے زیادہ مصیبتیں درپیش ہوتی ہیں۔ پھر ان جیسوں کو  مومن کی جب آزمائش ہوتی ہے۔ صبر کرتا ہے۔ اور اپنی مصیبت کو لوگوں سے چھپاتا ہے۔ اور ان سے شکایت نہیں کرتا ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مومن کی خوشی اس کے چہرہ کی خوشی ہوتی ہے اور اس کا غم اس کے دل میں ہوتا ہے ۔ لوگوں سے خوشی سے ملاقات کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کو خبر نہیں ہوتی کہ اس کے دل میں کیا ہے ۔ (اللہ و ایمان والے) اپنے باطن کے خزانوں کو چھپاتے ہیں۔ اپنے دلوں کی عادت پر چلتے ہیں۔ غم دلوں کی عادت ہے اور ڈر جانوں کی خصلت ہے۔ غم دلوں پر حکمتوں اور رازوں کو برسانے والا بادل ہے۔ تم غم اور شکستگی پر صبر کیوں نہیں کرتے ہو ۔ حالانکہ اللہ تعالے نے ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے ۔ میں اس کے پاس ہوں جن کے دل میری وجہ سے ٹوٹے ہوتے ہیں۔ جب (دل) دوری سے ٹوٹتے ہیں، تو نزدیکی کے جوڑنے والا آتا ہے ۔ ان کو جوڑتا ہے ، جب مخلوق سے وحشت محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت آتی ہے۔ جو ان کو مانوس کر تی ہے ۔ جب مخلوق سے وحشت محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالے کے قرب سے مانوس ہوتے ہیں۔ جتنا دنیا میں ان کوغم رہتا ہے اتنی آخرت میں ان کو خوشی ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے بڑے غم اور ہمیشگی فکر والے تھے ۔ گویا کسی بات کرنے والے اور پکارنے والے کی طرف کان لگاتے ہیں۔ جو ان سے بات کرتا ہے اور انہیں پکارتا ہے۔ اور اسی طرح ان کی وصیت والے ان کے پیچھے والے ۔ ان کی نیابت والے ۔ اور ان کے وارث اپنے بڑے غم کو اور ہمیشگی فکر میں ہیں۔ ان کے افعال کی کس طرح پیروی نہ کریں۔ جبکہ وہ ان کی جگہ کھڑے ہیں۔ ان کا کھانا کھاتے ہیں۔ ان کا پانی پیتے ہیں۔ اور ان کے گھوڑوں پر سواری کرتے ہیں۔ ان کی تلواروں اور ان کے تیروں سے لڑتے ہیں۔ اللہ والے انبیاء علیہم السلام کے احوال و مقامات کے وارث ہوتے ہیں ۔ نہ کہ ان کے ناموں اور خطابوں کے ۔ اور ان خصوصیتوں کے جو ان کے لیے تھیں۔ اور اولیاء و ابدال کی فضیلتیں گنی چنی ہوتی ہیں ۔ نہ بڑھتی ہیں نہ گھٹتی ہیں۔ چنانچہ ان میں سے بعض وہ ہیں جن کی بات ان کی عمر کے پہلے حصہ میں ظاہر ہوتی ہے۔ اور بعض وہ ہیں جن کی بات عمر کے آخری حصہ میں ظاہر ہوتی ہے۔ ان کے حالات الٹنے پلٹتے رہتے ہیں۔ اور وہ علم الہی میں اللہ تعالے کا ولی ہوتا ہے۔ اور عصمت ہدایت اور ولایت کے لیے شرط نہیں ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد عصمت نہیں ہے۔ عصمت ان کی خصوصیتوں میں سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالے کے ولیوں میں کوئی ولی نافرمانی کرتا ہے فرشتے دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے کہتے ہیں۔ اللہ تعالے کے ولی کو دیکھو کس طرح نا فرمانی کرتا ہے ۔ اس کی نافرمانی – دوری اور نفاق سے تعجب نہیں کرتے۔ چو نکہ وہ جانتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد وہ دوست پیارا، نزدیکی محترم ، پاک . سفارشی. دوست اور وارث ہونے والا ہے۔ اے منافق ! تمہیں اس بات کا کیا سننا۔ نکل جاؤ تم اللہ تعالے کے دشمن ہو۔ اور اس کے رسول کے اور اس کے سارے انبیا و اولیاء علیہم السلام کے دشمن ہو۔ اگر اللہ تعالے سے شرم نہ ہوتی تو میں اترتا اور تمہیں گردن سے پکڑتا ۔ اور تمہیں نکال دیتا۔ ہر وہ چیز جس میں تم لگے ہو۔ ہوس ہے اے لوگو عمل کرو ۔ اخلاص اختیار کرو. خود پسندی میں نہ پڑو اور ان اعمال سے اپنے پروردگا ر اعلیٰ پر احسان نہ کرو وہ جن کے کرنے کی اس نے تمہیں توفیق دی خود پسند جاہل ہوتا ہے ۔ احسان کرنے والا جاہل ہوتا ہے اور مخلوق پر بڑائی جتانے والا جاہل ہوتا ہے تواضع رحمان کی طرف سے اور تکبر شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ۔ سب سے پہلا متکبر ابلیس تھا۔ جس پر لعنت ہوئی جس سے بیزاری ہوئی جو محروم ہوا ۔ اگر عاجزی و انکساری اونچا درجہ نہ ہوتی تو اس سے ان کی خوبی بیان نہ ہوتی جن سے وہ محبت کرتا ہے اور جو اس سے محبت کرتے ہیں اے ایمان والو! تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرے گا۔ تو عنقریب اللہ تعالی ایک ایسی قوم لائے گا۔ جن کو اللہ چاہتا ہے۔ اور وہ اس کو چاہتے ہیں۔ مسلمانوں پر نرم دل ہیں اور کافروں پر زبر دست ہیں۔

ایمان والے مومنوں کے لیے عاجزی اختیار کرتے ہیں اور کافروں کے لیے سخت ہوتے ہیں۔ مومنوں کے لیے ان کی عاجزی عبادت ہے ۔ مومن لوگوں پر بڑائی نہیں جتاتا، بلکہ ان کیلئے عاجزی اختیار کرتا ہے۔ اپنی عاجزی انکساری سے اپنا حال چھپائے رکھتا ہے. وہ بادشاہ سے اس کے گھر میں قریب ہے۔ پس جب غلاموں کے فیشن میں اس کے ساتھ نکلتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے دوستوں میں سے ایک کو معلوم نہ ہو۔ تو وزیر کے یہ شایان شان نہیں کہ اس پر بڑائی جتلائے ۔ اور اس کو نکالے ۔ اور کہے ۔ بادشاہ میرے سے مسکراتا ہے۔ بلکہ وہ تو اپنی ذات سے مسکراتا ہے ۔ اور اپنا کام کرتا ہے ۔ اور ظاہر کرتا ہے۔ جو اس کے ساتھ ہے۔ اس کا ایک غلام ہے ۔ اور اس کو ڈھانپتا اور چھپاتا ہے۔ تم ان کے حالات نہیں جانتے ۔ نہ ان کے فرمانوں کو مانتے ہو۔ تمہارا مخلوق کے ساتھ کھڑا ہونا ان سے تمہارا پر دہ ہے۔ دنیا میں مرتبہ کی خواہش اور سرداری کی چاہت ان سے تمہارے پر دے ہیں۔ اگر تمہیں ان کی طلب ہوتی۔ تم ان کو دیکھتے ۔ ان کی بات پر قناعت کرتے ۔ بدنصیبی تمہاری۔ تم ان کے پاس حاضر نہیں ہوتے ہو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں۔ ان کی طرح جو پیاس بجھنے پر پیتے ہیں ۔ چنانچہ شراب ( پینا) تمہارے پر عمل نہیں کرتی عمل کے اعتبار سے سب عامی ہیں ان میں ایک عامی وہ ہے ۔ جو اپنے علم پر عمل نہیں کر تا ہے۔ اگر چہ اس نے سارے علوم یاد کیے ہیں۔ جو کوئی اللہ تعالے کو نہیں پہچانتا . وہ عامی ہے ۔ جو کوئی اللہ تعالے سے ڈرتا ہے اور اس سے امید نہیں رکھتا۔ وہ عامی ہے ۔ اور جو کوئی اپنی خلوت و جلوت میں اس سے (اللہ تعالے) ڈرتا نہیں ہے۔ وہ عامی ہے۔ تمہارے حالات میرے ہاں سورج کی طرح روشن میں تم راہ نہیں پاتے ۔ تم بچے ہو۔ اپنے مزے چاہتے ہو۔ تم مخلوق کے غلام ہو۔ تم اس کی دین اور روک کے غلام ہو۔ اس کی تعریف اور مذمت کے غلام ہو ۔ میرے پر چھپو نہیں۔ میرے ہاں کوئی شک باقی نہیں ہے ، گھر کا اندر باہر میرے نزدیک ایک ہے ۔ جو کچھ بھی تمہارے ارادہ میں ہوتا ہے۔ اس کا تمہارے چہروں پر اثر ہوتا ہے۔ اور وہ اس پر اس کی طرف سے نشانی ہوتی ہے ۔ پاک ہے۔ وہ ذات جس نے مجھے تمہارے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ اور تمہارے سے بات کرا کر میری آزمائش کی ہے۔ بلاشبہ مجھے تمہارے سے ۔ اپنی ذات سے اور اپنے نصیبوں سے رغبت نہیں ہے۔ نہ کھاتا ہوں ۔ نہ پیتا ہوں ۔ نہ شادی کرتا ہوں۔ اور نہ (میں اس میں کوئی بات) دیکھتا ہوں۔ تمہارے سے ایک طرف کھڑا کر دیا گیا ہوں ۔ اور بات کے بغیر اشارہ سے ڈھانپ دیا گیا ہوں ۔ میں منافقوں نافرمانوں اور مشرکوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتا ۔ اور نہ ہی مجھے ان سے کوئی ضرورت ہے ۔ وہ بیمار ہیں۔ اور میں نے ان کا علاج شروع کر دیا ہے ۔ مومن ایمان سے بھرا ہوتا ہے۔ اس کو قدرت نہیں ہوتی کہ ان میں سے کسی کو دیکھے۔ اور اس کو ایک لمحہ کے لیے برداشت کرے ۔ جب کسی منافق۔ نا فرمان اور مشرک کو دیکھتا ہے ۔ غصہ آتا ہے ۔ اور اگر اس کا بس چلے۔ اس کو مار ڈالے ۔ ایک بزرگ تھے ۔ جب کسی کا فر کو دیکھتے ۔ غصہ ہوتے ۔ اور اپنے غصہ کی زیادتی کی وجہ سے زمین پر گر پڑتے ۔ اگر ان کی یہ بات اللہ تعالے کی غیرت اور اس کی نافرمانی کی شدت کی بنا پر پوری ہوتی ہے تو اس کے بندوں میں سے کوئی بندہ کیسے کفر کرتا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ وہ مبتدی تھے۔ اس لیے کہ شروع کمزور ہوتا ہے اور انتہا مضبوط ہوتی ہے ۔ ایک بزرگ سے منقول ہے ۔ فرمایا ۔ منافق کے سامنے اس عارف کے سوا کوئی نہیں ہنستا جس کا علم زیادہ ہو۔ اس کی تدبیر اچھی ہو ۔ اور اس کا علاج ٹھہرے۔ چنانچہ وہ اس کے سامنے مسکرا تا ہے ۔ ہاں میرے پاس تمہاری دوا ہے۔ زیادتی کرنے والے سے اچھی بات کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کو اپنی جانب کر لیتا ہے۔ اور اس کو اپنے ساتھ لگا لیتا ہے، یہاں تک کہ اس سے مانوس ہو جاتا ہے ۔ جب اس پر گرفت ہو جاتی ہے ۔ اس کی مرض کا علاج کرتا ہے۔ اس کے سامنے اسلام اور ایمان پیش کرتا ہے۔ اس کے سامنے دونوں کی بات اور دونوں کی خوبی بیان کرتا ہے۔ اس کے سامنے اس کے پروردگار اعلیٰ کی بات پیش کرتا ہے۔ اور اس کو اس کے ساتھ صلح کی ضمانت دیتا ہے۔ چنانچہ دن کے بعد جو دن آتا ہے اس کا کفر۔ اس کا نفاق اور اس کی نافرمانی کم ہوتی ہے۔ اس کے دل کی بیماری گھٹتی ہے۔ اور اس کی ذات اصلاح پذیر ہوتی ہے۔ اور اس کا ظاہر اور باطن بغیر دشمنی بغیر لڑائی جھگڑا۔ بغیر عیب دینے اور بغیرمارے اصلاح پذیر ہوتا ہے۔ حضرت عیسی بن مریم ۔ اور حضرت یحیی بن زکریا علیہما السلام جنگل میں پھرتے تھے ۔ جب ان کی رات پڑی ۔ حضرت یحی علیہ السلام ایمان دالوں کے گاؤں چلے گئے ۔ تاکہ ان کو جگائیں ۔ ان کو ڈرائیں. اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کے پروردگار اعلیٰ کے دروازہ پر لے جائیں۔ وہ یحیی علیہ السلام تھے ۔ جو ایمان والوں کے درمیان نماز روزہ کرنا چاہتے تھے ، اور وہ لوگوں کو حق تعالے کی طرف بلانا چاہتے تھے

عارف کی سوچ اور اس کی عبادت مخلوق کو اللہ کی طرف بلانا ہوتی ہے ۔ وہ ہمیشہ اللہ تعالے کے ساتھ اس طور سے رہتا ہے۔ مسلمان ہوتا ہے ۔ اور مومن ہوتا ہے۔ اور عارف اس کی بنیاد ہوتی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کا علم رعب ڈالنے والا اور کھٹکھٹانے والا ہوتا ہے۔ خرابی تمہاری ۔ تمہارا اسلام صحیح نہیں ہوا ۔ تم اس مقام تک کیسے پہنچتے ہو ۔ اور مخلوق کو سکھاتے پڑھاتے ہو۔ (نیچے اتر و) نہیں تو میں تمہیں سر کے بل گراؤں گا۔ دین مختلف ہوتے ہیں. ایمان حق اور باطل میں فرق کرتا ہے۔ اور ہر منافق کو اس کی گدی سے علیحدہ کرتا ہے اپنے منبر سے نیچے اتارتا ہے۔ اور اس کو لوگوں سے بات کرنے سے چپ کراتا ہے۔ اے ساری مخلوق. میں اللہ تعالے کی وجہ سے تمہارے سے بے نیاز ہوں۔ بے نیازی میرے ہاتھ ہے۔ اور میں دنیا سے ذرہ بھر بھی نہیں رکھتا ہوں. اگر وہ مجھ کو دے. تو مخلوق میں سے کون ہے جو میرے پر احسان کرے ۔ میں نے اس چیز کو اللہ تعالے کے ہاتھ سے لیا۔ اور اس کی شہرت کو بکو اس جانا۔ اور میں اپنے پروردگار اعلیٰ کا شکر کرتا ہوں جس نے مجھ کو امان دی ۔ جب میں کسی کو کوئی چیز دیتا ہوں ۔ تو اللہ تعالے کی توفیق سمجھتا ہوں کہ اپنی بخشش کو میرے ہاتھ پر کس طرح جاری کر دیا ۔ چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ وہی دینے والا ہے۔ نہ کہ میں ۔ وہ تمہاری ہمت کے مطابق دیتا ہے۔ اور تمہاری ہمت کے مطابق روک لیتا ہے۔ اور اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بے شک اللہ تعالے بڑے بڑے کاموں کو پسند کرتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے کاموں کو نا پسند کرتے ہیں ۔ اے لوگو! اپنے بچوں کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ کی عبادت اور اس کے ساتھ حسین ادب اور اس سے راضی رہنا سکھاؤ ۔ اور اپنی روزی کا اپنے دلوں سے فکر نہ کرو۔ بلکہ اس کی اپنی کمائی اور اپنی کوشش کی حیثیت سے فکر کرو میں تمہارے میں سے بہتوں کو دیکھتا ہوں کہ تم نے اپنے بچوں کو ادب سکھانا چھوڑ دیا ۔ اور اپنی روزی کی فکر میں لگ گئے ۔ الٹ کرو. ٹھیک کرو گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے سب حاکم ہیں۔ اور تمہارے سے تمہاری رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ اس کے بچے اور اس کی بیوی کے ادب کے بارے میں پرسش ہوگی ۔ اور اس کے بچوں اور اس کی بیوی سے سوال ہوگا ۔ ہر آقا سے اس کے غلام کے بارے میں اور ہر غلام سے اس کے آقا کے بارے میں سوال ہوگا ۔ استاد سے بچوں کے بارے میں اور مکھیا سے اس کے گاؤں والوں کے بارے میں اور بادشاہ سے اس کے اہل سلطنت کے بارے میں پوچھ ہو گی اور امیرالمؤمنین جو ساری مخلوق کا حاکم ہے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھ ہو گی. (الغرض گویا ) تمہارے میں سے کوئی نہ ہوگا جس میں سے ہر ایک سے علیحدہ سوال نہ ہو، کوشش کرو کہیں تم ظلم تو نہیں کرتے۔ اور حق داروں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرو ۔ آپس میں بخش دو اور آپس میں رحم کرو۔ تمہارے میں ایک دوسرے پر لعنت نہ بھیجے ۔ اور نہ ایک دوسرے کو دبائے۔ محاسبہ کرو۔ اور انجان بن جاؤ اور درشتی نہ کرو ۔

ایک دوسرے کی لغزشوں سے درگذر کرو۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے پردہ میں رہنے دور بلاٹوہ اور تلاش اچھی بات کا حکم کرو۔ اور بری بات سے منع کرو جو سامنے کریں . اسے نا پسند کردہ اور جو چھپا ہے۔ تمہیں اس سے کیا۔ پردہ پوشی کرو۔ اللہ تعالے تمہاری پردہ پوشی کریں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اسلامی )سزاؤں کو شکوک و شبہات کی بناء پر ساقط کر دو۔ اور حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے فرمایا ۔ اے علی! اس کی مانند۔ پھر گواہ بنا اور سورج کی طرف اشارہ فرمایا۔ احسان یہ ہے کہ تم دو۔ اور اپنا کوئی ہی حق لو اور اگر تم سے ہو سکے تو اپنا سارا حق بخش دو، اور اس پر اور چیز کا (اپنے پاس سے) اضافہ کرو۔ یہ بات تمہارے ایمان ویقین کی طاقت اور تمہارے اپنے پرورد گا ر اعلیٰ پر بھروسہ کی طرف لوٹتی ہے ۔ جب تم تول کر دو. تو بڑھا دو۔ اللہ تعالے قیامت کے روز تمہاری میزان بڑھا دیں گے ۔ اے تولنے والو ! بڑھتی دو۔ اللہ تعالے تمہیں جو چیز دیں گے بڑھتی دیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جب دوسرے شخص سے روپوں ایسی کوئی چیز قرض لو۔ تو ادائیگی کے وقت تولنے والے کے لیے فرمایا۔ تول اور بڑھا دو جب تم سے ایسے میں کوئی کسی آدمی سے کوئی چیز قرض لے تو جو اس سے لی۔ اس سے اچھی اس کو دے ۔ اور پہلے آپس میں شرط کیے بغیر اس کو بڑھتی دے۔

اے لوگو ! اللہ تعالیٰ سے اللہ کا قرب خرید و ۔ اللہ سے اللہ خرید اور جو نصیبے ہیں۔ تو ان کی تو تاریخ پڑی ہے ۔ نہ بڑھتے ہیں۔ اور نہ گھٹتے ہیں۔ چاہے تم ان کو مانگو، چاہے تم ان کو نہ مانگو، چاہے تم اپنے پروردگار کی عبادت کرو، چاہے تم اس کی نافرمانی کرور چاہے بھلائی کرو ۔ چاہے برائی کرو، ان کا پیچھے والا آگے نہیں ہوتا ۔ اور آگے والا پیچھے نہیں ہوتا ۔ تمہیں لازم ہے کہ تم اپنے دل سے مخلوق سے نکل جاؤ۔ اور خالق کے ساتھ اپنے بھیدوں کے قدموں پر کھڑے ہو جاؤ ۔ بے شک اللہ ہی رزاق ہے۔ اور غیر اللہ مرزوق (رزق دیا گیا )، وہی غی ہے اور غیر اللہ مرزوق ہے، وہی قادر ہے اور غیر اللہ عاجز ہے۔ وہی محرک مسکن مسلط اور مسخر (حرکت دینے والے سکون دینے والا کسی کو سر پہ کھڑا کر دینے والے اور کسی کو زیر کر دینے والا) ہے۔ اور ساری مخلوق اس کے سامنے اسباب ہے ۔ ہر چیز کے لیے ایک سبب بنا دیتا ہے مخلوق کو پھر اسباب اور دنیا کو اپنے دلوں سے اپنی خلوتوں سے ۔ اپنی جلوتوں سے اور اپنے باطنوں سے بھلا دو، اس کے ماسوا کو اپنے دلوں سے نکال دو۔ اس سے بچو۔ کہ تم اپنے دلوں کی طرف دیکھو ۔ اور ان میں غیر اللہ کی طلب اور غیر اللہ کا ارادہ ہو۔ اور اسلام لاؤ، تابعداری کرو ۔ ایک سمجھو۔ توحید اختیار کرو اور قضا پر راضی رہو. اور فیصلہ میں فنا ہو جاؤ۔ اپنے پروردگار اعلیٰ کی سنو ۔ اور اس کی مخلوق کی سننے سے الگ رہو۔ مخلوق سے الگ رہو۔ اور اس سے اندھے ہو جاؤ۔ بہادری کی گھڑی جس کی گھڑی ہے۔ تم سب تو بہ کرو۔ اسی گھڑی اپنے دلوں سے تو بہ کر و موت اور اس کے بعد کی چیزوں کو یاد کرو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔ اس کو زیادہ یاد کرو۔ اور مزوں کی مذمت کرو۔ پس جس نے تھوڑے میں یاد کیا ۔ اس کو زیادہ ملا۔ اور جس نے بہت میں یاد کیا۔ اس کو تھوڑا کیا ۔ موت کی یاد دلوں کی بیماری کی دوا ہوتی ہے۔ اور اس کے بادل دلوں پر برستے ہیں ۔ موت کا بھلانا دل کو سخت کر دیتا ہے ۔ اور اس کو طاعت میں سست بنا دیتا ہے ۔ اور مخلوق کی طرف دیکھنا اور مخلوق کی طرف منسوب کرنا اور اس کی طرف نقصان اور نفع کا منسوب کرنا اس کو کافر بنا دیتا ہے۔ اور اس کو برا بنا دیتا ہے۔ اور اس کو اپنے پروردگار اعلیٰ کی دید سے روک دیتا ہے ۔ انسان پر اعتماد کرنا ایمان کو کم کرتا ہے ۔ اور یقین کے نور کو مٹاتا ہے ۔ اور دل کو اس کے پروردگار راعلی سے روک دیتا ہے۔ اور اس کی طرف سے بیزاری کو دعوت دیتا ہے اور اس کی آنکھ سے گرا دیتا ہے۔ اور اس کی نزدیکی کے دروازہ کو بند کر دیتا ہے۔ اور افسوس تمہارے پر تم کیسے مرتے ہو۔ اور تم اس چیز پر ہو جس پر کہ تم ہو ۔ اور تمہارے دل اپنے پروردگار اعلیٰ کے ایمان ویقین – توحید و اخلاص اور علم و معرفت سے خالی ہیں۔ بدنصیبی تمہاری ۔ تمہاری شوخی کتنی زیادہ ہے کہ تم نے رات اور دن اپنے پر ور دگا ر اعلی پر اعتراض کو اپنی عادت بنا لیا ہے۔ اعتراض کرنے والا قرب کی ٹھنڈی ہوا نہیں پاتا ۔ اس کے ساتھ ذرہ بھی نہیں پڑتا ۔ اے دلوں کے فقیرو – اے ایمان کے بدنصیبو – اعتراض کرنا چھوڑ دو۔ اے اللہ ! ہمیں اور اپنی پسندیدہ چیزوں کو اکٹھا کر دیجئے۔ اور ہمیں اور اپنی نا پسندیدہ چیزوں کو الگ کر دیجئے ۔ اور ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی دیجئے ۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچایئے ۔

چوالیسویں مجلس :

ایک بزرگ سے منقول ہے ۔ فرمایا ۔ کہ منافق چالیس سال تک ایک  ہی حالت پر باقی رہتا ہے۔ اور صدیق (سچا ) ہر دن چالیس مرتبہ بدلتا ہے۔ منافق اپنے دل اپنے مزا ۔ اپنی طبیعت ۔ اپنے شیطان اور اپنی دنیا پر قائم رہتا ہے ۔ اللہ والوں کی خدمت میں نہیں رہتا ۔ اور نہ ریا کاری کی بنا پر ان کی طرف بڑھتا ہے۔ اور نہ زبانی ان کی مخالفت کرتا ہے۔ اس کا سارا فکر کھانا پینا ۔ پہننا۔ شادی کرنا اور مال جمع کرنا ہوتا ہے، کوئی پرواہ نہیں کرتا کس طریقہ سے حاصل ہوا ۔ اس کا جسم اور اس کی دنیا آباد ہوتے ہیں۔ اور اس کا دل اور اس کا دین بر باد ہوتے ہیں۔ مخلوق کو خوش کرتا ہے۔ اور خالق کو ناراض کرتا ہے۔ جب تک اس کا نفاق رہتا ہے۔ اس کا دل سخت اور سیاہ ہی رہتا ہے۔ چنانچہ نہ ہلتا ہے اور نہ پسند سے پسیجتا ہے۔ اور نہ نصیحت کو قبول کرتا ہے اور نہ سوچ سے سوچتا ہے۔ چنانچہ بلا شبہ چالیس سال تک ایک حالت پر رہتا ہے۔ اور صدیق (سچا) ایک حالت پر نہیں رہتا ہے۔ اس واسطے کہ وہ مقلب القلوب (دلوں کے پھیرنے والے) کے ساتھ اس کی قدرت کے سمندر میں گھس کر قائم رہتا ہے۔ اس کی لہر اس کو بلند کرتی ہے اور پھر جھکاتی ہے۔ وہ حق تعالے کے ایر پھیر اور اس کی الٹ پلٹ میں جنگل کے پرکھیت کے پودا نہلانے والے کے سامنے مردہ نہلانے والی اور جنانے والی کے ہاتھوں میں بچہ اور سوار کے بلا کے سامنے گیند کی طرح ہوتا ہے۔ وہ اپناظاہر اور اپنا باطن اس کے حوالہ کر چکا ہے۔ اور اس کی تدبیر سے راضی ہو چکا ہے ۔ اس کو اپنے کھانے کی۔ اپنے سونے کی اور اپنے مزوں کو فکر نہیں ہے۔ جبکہ اس کا فکر اپنے پروردگار اعلیٰ کی خفت اور اس سے راضی ہونے میں ہے ۔ اور اسی واسطے ایک بزرگ نے فرمایا ۔ اللہ والے ۔ ان کا کھانا مریضوں کا کھانا ۔ ان کا سونا ڈوبے ہوؤں کا سونا . اور ان کا بات کرنا ضرورت کا ہوتا ہے ۔ وہ اپنے دلوں سے اس طرح پُر کیوں نہ ہوں ۔ جب تک دوسرا گواہی نہ دے ۔ انہوں نے اپنے پروردگار کے علاوہ کو بھلا دیا ہے ۔ دنیا و آخرت اور اس کے ماسوا سے پرے ہو گئے ہیں ۔ اس کے دروازہ پر جھک گئے ہیں۔ اس کی موافقت کے دروازہ کی دہلیز سے چھٹ گئے ہیں۔ اور رضا مندی اور بے پروا ہی سے مل گئےہیں قضا و قدر ان کی خدمت کرتی ہے ۔ اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیتی ہے ۔ اور ان کو اپنے سروں پر اٹھاتی میں ۔ اگر تم اللہ والوں میں سے نہیں ہو تو اللہ والوں کی خدمت کرو۔ ان کی صحبت اختیار کرو ان کے پاس بیٹھو۔ ان کے قریب ہو جاؤ ۔ ان کے لیے اپنے مال خرچ کرو۔ ان کے افعال کی پیروی کرو ، نہ کہ ان کا کلام نقل کرنے اور اس کو اچھا سمجھنے اور اس پر تعجب کرنے کی ۔ دوستی اپنے دل کی کرو۔ نہ کہ اپنے کپڑوں کی پہنو وہ جس کو عام لوگ پہنتے ہیں۔ کرو وہ جس کو وہ نہیں کرتے ہم کھانے، پہننے اور شادی کرنے میں ترک دنیا نہیں سمجھتے۔ اللہ تعالے نے فرمایا ہے ۔ ” ترک دنیا کی نئی بات انہوں نے نکالی تھی جو ہم نے ان کیلئے نہیں لکھا تھا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اسلام میں ترک دنیا کی بات نہیں ہے برگزیدہ بندوں کی خانقاہیں ان کے اپنے دلوں میں ہوتی ہیں۔ اور ان کی روشنی اپنی جانوں ۔ اپنی نفسانی خواہشوں اور اپنی طبیعتوں پر ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کی تنہائیوں میں اس کی مناجات میں ان کو اپنے پروردگارا علی سے مشاہدہ کی بنا پر محبت حاصل ہوتی ہے. حق تعالے جب تم کو میری ز بان سے نیکوں کے حال کی خبر دیتے ہیں تو ان میں سے ایک دوسرے کو میری زبان پر نصیحت قبول کرنے کی خبر دیتے ہیں پس تم نصیحت قبول کرو. وہ تمہیں (باطن کی) صفائی کی طرف بلاتا ہے ۔ وہ تمہیں اپنی مخلوق کو چھوڑنے کی طرف اور اپنی طرف رغبت کرنے کے لیے بلاتا ہے ۔ وہ تمہیں بلاتا ہے کہ تم اس کو یاد کرنے والوں میں ہو جاؤ تا کہ اس کے ہاں یاد پا کر صبر کرو۔ سچا بندہ اپنے مولائے کریم کی تلاش میں رہتا ہے ۔ ظاہر میں ۔ باطن میں۔ خلوت میں جلوت میں رات میں۔ دن میں سختی اور نرمی کے وقت اور نعمت اور محرومی کے وقت اس کو یاد کرتا رہتا ہے ۔ یہاں تک اس کی یاد اس کے ہاں ہوتی ہے۔ اپنے ہاں اپنی طرف اور اپنے دل میں اس کی یاد سنتا ہے تم اللہ والوں کے آرام سے غافل ہو ۔ اے آرام سے غافلو تم غافل ہو۔ تم اپنی ذمہ داریوں سے دُور ہو۔ تم دنیا کے معاملات میں عقلمند ہو ۔ آخرت کے معاملات میں جاہل ہو۔ تم دلدل میں ہو۔ جتنے ہلتے ہو. اتنے ہی دھنستے ہو ۔ سچی پناہ ۔ توبہ اور عذر خواہی کے ساتھ اپنے ہاتھ اللہ تعالی کی طرف بڑھاؤ ۔ تا کہ تمہیں اس چیز سے چھڑا دے جس میں تم پھنسے ہو۔ خبردار ہو۔ میں تمہیں اپنے دلوں کی۔ اپنی خواہشوں کی۔ اپنی طبیعتوں کی ۔ اپنے مزوں کی اور اپنی کسر شان پر صبر کرنے کی طرف  بلاتا ہوں تم میری پکار کا جواب دو اور تم جلد یا بدیر اس کا پھل دیکھ لوگے ۔ خبردار ہو ۔ میں تمہیں سرخ موت کی طرف بلاتا ہوں ۔ اللہ کے نام سے کون جرات کرتا ہے کون آگے ہوتا ہے۔ کون جسارت کرتا ہے۔ کون خاطر میں لاتا ہے ۔ وہ موت ہے ۔ پھر ہمیشہ کی زندگی ہے ۔ بھا گومت صبر کرو۔ پھر صبر کرو، گھڑی بھر صبر بہادری ہے . اپنے پر ور دگا راعلیٰ کی موافقت پر صبر کرو تم میں سے جس نے رضا بالقضا کے بوجھ کو اٹھایا ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بوجھ کو اٹھائے گا ۔ اور اس کا نام بہادروں کے دفتر میں لکھے گا۔ جس نے اپنے دل میں خیال کیا۔ یقین کا مالک بنا ۔ اور جس نے اپنی چاہی چیز کو جان لیا ۔ اس پر خرچ کر دہ چیز آسان ہوئی۔ اپنی جگہ جمے رہو. اور جلدی مت مچاؤ ۔ سچے قدموں سے چلے آؤ ۔ یہاں تک کہ حق تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹاؤ ۔ اور اس وقت تک نہ چھوڑو جب تک کہ دروازہ تمہارے لیے کھول نہ دیا جائے ۔ اور سواریاں تمہاری طرف نکل آئیں ۔ اس سے اپنی حاجتیں مانگنے میں امیدیں لگاؤ جس طرح تمہیں اپنے بادشاہوں ، نوابوں اور اپنے مالداروں سے امیدیں لگانا پسند ہے ۔ اپنے پرورد گا ر اعلیٰ کی تلاش کرنے اور اس میں فنا ہونے کے سلسلہ میں اپنے اگلوں کی پیری کرو۔ اے اللہ ! آپ ہمارے پروردگار ہیں اور ان کے پر ورد گار ہیں۔ ہمارے خالق ہیں اور ان کے خالق ہیں۔ ہمارے رازق میں اور ان کے را زق ہیں چنانچہ ہمارے ساتھ بھی ان کا سا معاملہ فرما ئیے ۔ ہمارے میں اندر سے اور ہمارے اوپر سے بادشاہوں اور غلاموں نوابوں اور تابعدارن مالداروں اور تنگدستوں ، خواص اور عوام مہنگے اور سستے اور زیادہ اور تھوڑے کی شانوں کو اپنی طرف نکال لیجئے ۔ ہمیں اپنی یاد دیجئے۔ ہمارے سے اپنے معاملات میں مہربانی کیجئے ۔ ہمیں اپنے قرب سے قریب کیجئے۔ اور ہمارے دلوں کو اپنی محبت سے مانوس کیجئے ۔ اپنے شیروں اپنے بندوں اور ہر جانور جس کی چوٹی آپ کے قبضہ میں ہے اور جس کی موت پر گرفت ہے کی برائی سے کافی ہو جائیے۔ ہمارے لیے بروں کی برائی اور نافرمانوں کی چال بازی سے کافی ہو جایئے ۔ ہمیں اپنے اس گروہ میں سے بنائیے جس کے لوگ آپ کی جانب اشارہ کرنے والے ۔ آپ کی راہ بتانے والے . آپ کی طرف بلانے والے ۔ آپ کے سامنے عاجزی و انکساری کرنے والے اور آپ سے تکبر کرنے والوں ۔ اور آپ کی مخلوق میں سے ایمان والوں کے ساتھ تکبر کرنے والوں سے تکبر کرنے والے ہیں۔ آمین ۔

پینتالیسویں مجلس :-

مخلوق کے بازار سے گزر کر پار ہو جاؤ ۔ ایک دروازہ سے داخل ہو۔ اور ان سے (دوسرے دروازہ سے) اپنے دل سے اور اپنی نیت کے ساتھ نکل جاؤ ۔ اور اس ایک جنگلی پرندہ کی طرح سے ہو جاؤ جو نہ مانوس کرتا ہے اور نہ مانوس ہوتا ہے ۔ نہ دیکھتا ہے اور نہ دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح سے رہو۔ یہاں تک کہ تمہارا دل تمہارے پرورد گاراعلیٰ کے دروازہ کے قریب ہو جائے پس اللہ والوں کے دلوں کو یہاں کھڑا دیکھے۔ چنانچہ وہ تمہارا استقبال کریں ۔ اور تمہیں کہیں کہ تمہاری سلامتی ہی تمہاری مبارک باد ہے۔ اور تمہاری آنکھوں کے درمیان بوسہ دیں۔ پھر دروازہ کے اندر سے مہربانی کا ہاتھ باہر نکلے۔ پس تمہا را استقبال کرے ۔ اور تمہیں اٹھا کر لے جائے ، اور تمہارا اچھی طرح بناؤ سنگار کرے۔ تمہاری طرف متوجہ ہو۔ تمہیں کھلائےتمہیں پلائے تمہیں خوش کرے۔ اور تمہیں اس کی سیر اور انتظار میں دروازہ پر بٹھائے جو مریدوں اور طالبوں میں سے آئے ۔ اس کا ہاتھ پکڑے اور تمہاری آمد کے وقت اس کو تمہارے ہاتھ کے حوالہ کر دے جب تمہارے لیے یہ بات صحیح ہو جائے تو مخلوق کی طرف نکلو ۔ اور ان کے درمیان اس طرح رہو جیسے مریضوں کے درمیان معالج ۔ جیسے پاگلوں کے درمیان عقلمند – جیسے اپنے بچوں کے درمیان مشفق باپ ۔ اس سے پہلے کوئی بزرگی نہیں تم ان کیلئے منافق ہوگئے تم ان کے بندے ہوگئے ۔ تم ان کی اغراض کے تابع ہوگے۔ تم گمان کرتے ہو، کہ تم ان کا علاج کرتے ہو۔ حالانکہ تم ان سے شرک کرتے ہو ۔ ان کا علاج تمہارے لیے سزا بن جائے گا۔ کیونکہ جہالت سے جتنی خرابی ہوتی ہے ۔ اتنی اصلاح نہیں ہوتی ۔

مطلب کی بات کرو. اوربے مطلب بات چھوڑو۔ اگر تم نے اللہ تعالی کو پہچان لیا ہوتا ۔ تو تمہیں اس سے زیادہ ڈر ہوتا ۔ اور اس کے سامنے بات چیت تھوڑی ہوتی ۔ اور اس واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس نے اللہ تعالے کو پہچان لیا۔ اس کی زبان اٹکی یعنی گونگی ہوگئی اس کی دل کی زبان کے گنگ کے ساتھ۔ اور اس کے دل کی ۔ اس کے باطن کی اس کے اندر کی۔ اور اس کے صدق وصفا کی زبان بولتی ہے۔ اور اس کے باطن کی زبان گونگی ہو جاتی ہے ۔ اور اس کے حق کی زبان بولتی ہے۔ اور بے مطلب بات میں اس کی بات چیت کی زبان گونگی ہو جاتی ہے۔ اور مطلب کی بات میں اس کی بات چیت کی زبان بولتی ہے۔ اپنے حق میں اس کی طلب کی زبان گونگی ہو جاتی ہے۔ اور حق تعالے کی طلب کی زبان بولتی ہے۔ معرفت کے شروع میں کلام منقطع ہو جاتا ہے۔ اور اس کا سارا وجودپگھل جاتا ہے۔ خود سے اور تم سے فنا ہو جاتا ہے۔ پھر اگر حق تعالیٰ چاہتے ہیں تو اس کو کھول دیتے ہیں ۔ جب ان سے کلام منظور ہوتا ہے، اس کے لیے زبان پیدا کر دیتے ہیں ۔ اور اس سے اس کو گویا فرماتے ہیں ۔ اور حکمتوں اور بھیدوں میں سے جو چاہتے ہیں۔ اس سے اس کو بلواتے ہیں۔ اس کا کلام ایک دوا میں ایک دوا نور میں ایک نور حق میں ایک حق۔ درستی میں ایک درستی ستھرائی میں ایک ستھرائی بن جاتا ہے۔ چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے دل کے ساتھ ہی بات کرتا ہے۔ جب بغیر حکم کے بات کرتا ہے تو کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا ۔ غالب امر و فعل سے ہی بات کرتا ہے جو دبا لیتا ہے ۔ اور جب اس طرح ہوتا ہے تو حق تعالے اس بات پر بہت کریم ہیں ۔ کہ اس غالب پر گرفت فرمائیں۔ جس میں نہ نفس ہے نہ نفسانی خواہش ہے ۔ نہ طبیعت ہے ، نہ شیطان ہے۔ اور نہ ہی ارادہ ہے۔ جیسے ایک مردہ اپنے بولنے پر ۔ اور ایک سونے والا خواب دیکھنے پر پکڑا نہیں جاتا ہے ۔ حالانکہ دونوں اس کو دیکھتے ہیں۔ اور اس میں اس کا عمل کرتے ہیں۔ مردہ لوگوں سے ان کی موت کے بعد بھی کلام سنا گیا ہے جس نے مخلوق سے بغیر اس صفت کے کلام کیا۔ تو اس کا چپ رہنا بات کرنے سے بہتر ہے۔ پہلی صف میں محض بہادر لوگ ہی نکلتے ہیں جو بغیر بہادری اور بغیر جمعیت کے پہلی صف کی طرف نکلتا ہے۔ ہلاک ہوتا ہے خرابی تمہاری تم اللہ تعالے کی محبت کا دعوی کرتے ہو۔ اور تم غیر اللہ سے محبت کرتے ہو۔ تمہارا دعوی تمہاری ہلاکت کا سبب ہوگا ۔ محبت کا دعوی کیسے کرتے ہو۔ اور اپنے ہاں اس کی علامت تو دیکھتے نہیں ہو ۔ محبت بغیر دروازہ اور بغیر کنجی کے گھر میں آگ کی طرح ہوتی ہے۔ اس کا شعلہ اس کے اوپر سے نکلتا ہے۔ محب اپنی محبت کے دروازہ کو بند کر لیتا ہے۔ اور محبت کو چھپاتا ہے ۔ اور وہ اس سے ایسی زبان سے جو اس سے خاص ہے ۔ اور ایسے کلام سے جو اس سے خاص ہے۔ ظاہر ہوتی ہے ۔ اپنے محبوب کے ساتھ کسی دوسرے کو نہیں چاہتا ۔ اور یہ بات اس کی بڑی نشانیوں اور اس کی سچائی میں سے ہے ۔ اے  جھوٹے ، اے  مسخرے خاموش رہو ۔ تم ان میں سے کہاں ہو۔ تم محب نہیں ہو۔ محب کے لیے تو ایمان – حرکت۔ اور بے قراری ہوتی ہے۔ اور محبوب کے لیے سکون ہوتا ہے۔ آغوش محبت میں سکون سے سو رہا ہوتا ہے ۔ محب مشقت میں ہوتا ہے ۔ اور محبوب کے لیے راحت ہوتی ہے محب متعلم ہوتا ہے ۔ اور محبوب علم ہوتا ہے۔ محب مفید ہوتا ہے ۔ اور محبوب آزاد ہوتا ہے۔ محب دیوانہ ہوتا ہے اور محبوب عقلمند ہوتا ہے۔ بچہ جب سانپ کو دیکھتا ہے۔ چیختا ہے اور حواء نے جب سانپ کو دیکھا، خاموش رہی ۔ جو درندہ کو دیکھتا ہے چیختا ہے۔ اور بھاگتا ہے اور درندے درندوں سے کھیلتے ہیں اللہ تعالے نے فرمایا ہے : اور اللہ سے ڈرو۔ اور اللہ تمہیں سکھا پڑھا دے گا : محب ڈرنے والا اور اپنے آپ کو سنوارنے والا ہوتا ہے۔ دروازہ پر اپنے ہاتھ پاؤں اور اپنے دل کو سنوارتا ہے۔ پس جب سنور جاتا ہے ، قرب کے دروازہ سے داخل ہوتا ہے۔ حکم دروازہ پر سے چلا جاتا ہے، اور علم دروازہ کے اندر جاتا ہے۔ جس نے حکم کے دروازہ کو سنوار لیا اس سے علم مانوس ہوا ۔ اور اس نے اس کو کام کا مالک بنا دیا ۔ اور اس کو مالدار کر دیا۔ اور اس کو خزانہ دے دیا ۔ حکم مشترک دروازہ ہے۔ اور علم خاص دروازہ ہے۔ جو مشترک دروازہ پر حسن ادب اور طاعت اختیار کرتا ہے ۔ وہ خاص دروازہ کے پیچھے سے مانوس ہو جاتا ہے ۔ پیاروں کے گروہ میں سے ہو جاتا ہے ۔ اس وقت تک کلام نہیں جب تک کہ راستہ کو لازم پکڑنے والوں سے تمہاری بات لمبی نہ ہو جائے ۔ اور بندگی ثابت نہ ہو جائے۔ اور تم اپنے نفس پر یقین اور قصور کی نظر نہ کرو۔ جو اپنے نقصان پر نظر کرتا ہے اس کو کمال حاصل ہوتا ہے۔ اور جو اپنے کمال پر نظر کرتا ہے اس کو نقصان ہوتا ہے۔ الٹ کرو، ٹھیک کروگے مشورہ کرو۔ راہ پاؤ گے، صبر کرو۔ کامیابی ہوگی کوشش ہوگی۔ برداشت ہوگی صبر کرو . تمہارے پر صبر ہو گا خوش کر و تمہارے سے خوش ہوں گے مضبوط پکڑو تمہیں مضبوط کیا جائے گا ۔ سلامتی بھیجو۔ تم سلامت رہو گے . موافقت کرو اور تمہیں توفیق دی جائے گی ۔ خدمت کرو اور تمہاری خدمت کی جائے گی ۔ دروازہ کو لازم پکڑو ۔ اور تمہارے لیے کھلے گا۔ اس سے شتابی نہ کرو۔ اور تمہیں دیا جائے گا ۔ عزت کرو. تا کہ تمہاری عزت کی جائے، قریب ہو جاؤ ۔ اور تمہیں قریب کیا جائے گا ۔ اور کوشش کرے ۔ اور تمہارے لیے کوشش کی جائے گی ۔ دل جب اپنے پروردگار اعلیٰ کی طرف مجاہدوں تکلیفوں اور راستوں کو طے کرنے والے قدموں پر چلتا ہے تو اس تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے ہاں جما رہتا ہے۔ اس کے لیے لوٹنا باقی نہیں رہتا ہے۔ حکمت سے قدرت اور آلات و اسباب سے صانع اور سبب کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اپنی مشیت سے اپنے پروردگار اعلیٰ کی معیشت اور اپنی حرکت اور سکون سے اپنے پروردگار اعلیٰ کے حرکت و سکون کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔ اے دنیا کے طالبو ! جب تک تم اس کی طلب میں رہو گے تم مشقت میں رہو گے ۔ وہ اپنے سے بھاگنے والے کو ڈھونڈتی ہے ۔ اپنے سے بھاگنے والے کو خود اس کے پیچھے دوڑ کر آزماتی ہے پس اگر اس کی طرف توجہ کرتا ہے ۔ اور اپنے جھوٹ پر دلیل پکڑتا ہے۔ تو اس کو پکڑتی ہے۔ اور اس کی خدمت کرتی ہے۔ پھر اس کو مار ڈالتی ہے. پس اگر اس کی طرف توجہ نہیں کرتا ہے۔ اور اپنی سچائی اور خدمت پر دلیل پکڑتا ہے۔ تم اس سے بے رغبتی اختیار کر کے اور اس سے بھاگ کر ہی فائدہ اٹھاؤ گے ۔ اس سے بھاگو ۔ چونکہ یہ مار ڈالنے والی دھوکہ دینے والا اور جادو کرنے والی ہے ۔ اس کو اپنے دلوں سے اس سے پہلے چھوڑ دو۔ کہ یہ تمہیں چھوڑے . اس سے بے رغبتی اختیار کرو. اس سے پہلے کہ یہ تم سے بے رغبتی اختیار کرے ۔ اس سے شادی نہ کرو۔ اگر تم نے اس سے شادی کی، تو اپنے دین کو اس کا مہر مقرر نہ کرو یہ شادی کر تی ہے۔ پھر طلاق دیتی ہے۔ اس کا شادی کرنا اور اس کا طلاق دینا کتنی جلدی ہوتا ہے ۔ اگر تم نے اس کو اپنے دین سے طلاق دیا ۔ تو تمہارا دین اس کا مہر ہوگا۔ چونکہ نہ دنیا کا بدلہ ہوتا ہے۔ اور شہید مومن کا خون آخرت کا بدلہ ہوتا ہے۔ اور محب کا خون مولیٰ کے قرب کا بدلہ ہوتا ہے، بدنصیبی تمہاری تم جب تک دنیا کی خدمت کرتے رہو گے تو وہ تمہارا نقصان ہی کرے گی ۔ اور تمہیں فائدہ نہ دے گی۔ جب وہ تمہاری خدمت کرنے لگ جائے گی تو تمہیں فائدہ دے گی۔ اور تمہارا نقصان نہ کرے گی ۔ تو اس کو اپنے دل سے دور کرو۔ اور تم اس کی بھلائی۔ اس کی خدمت اور اس کی ذلت دیکھ چکے ہو۔ مومن کے دل کے سامنے اپنی بہترین صورت میں ہر طرح سے آراستہ ہو کر ظاہر ہوتی ہے ۔ پھر تم کہتے ہو۔ اری تم کون ہو پس وہ کہتی ہے ۔ میں دنیا ہوں اور تم روپے پیسے سے محبت کرتے ہو۔ ایک بزرگ سے منقول ہے کہ میں نے خواب میں ایک بن سنوری عورت دیکھی تو میں نے اس سے پوچھا تم کون ہوتی ہو۔ پس اس نے جواب دیا میں دنیا ہوں چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ میں تجھ سے اور تیری برائی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں، تو اس نے کہا روپے پیسے سے دشمنی کرو گے یہ تمہارے لیے میری برائی سے بچنے کے لیے کافی ہوگا۔ اے  جھوٹو ! اپنے پرورو گار اعلیٰ سے ارادت میں ہر بچے کے لیے یہ شرط ہے کہ ظاہر اور باطن میں اس کے ماسوا سے دشمنی رکھے ۔ ظاہر دنیا ۔ اس کے مزے دنیا دار اور جو کچھ ان کے ہاتھوں میں ہے . اور مخلوق کی تعریف و ستائش اور اس کی توجہ اور قبولیت ہے. اور باطن جنت اور اس کا آرام ہے جس کے لیے یہ بات صحیح ہو گئی ہے اس کے لیے ارادت بھی صحیح ہو گئی ہے۔ اور اس کا دل اپنے پروردگار اعلیٰ کے قریب ہو جاتا ہے ۔ اور اس کے قرب کا ہمنشیں اور اس کا مخلص بن جاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت دنیا اپنے روپ کے ساتھ اور آخرت اپنے روپ کے ساتھ آتی ہے ۔ یہ اپنی آراستگی سے اور وہ اپنے سراپا کے ساتھ آتی ہے ۔ دونوں نوکرانیاں بن کر اس کی خدمت کرتی ہیں۔ چنانچہ اس کی اچھائی نفس کے لیے ہوتی ہے۔ نہ کہ دل کے لیے۔ دنیا اور آخرت کا کھانا نفس کے لیے ہے ۔ نہ کہ دل کے لیے ۔ اور قرب کا کھانا دل کے لیے ہے ۔ یہی ہے جس کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں ۔ وہ اپنی مخلوق کے بارے میں اللہ تعالے کا ارادہ ہے۔ نہ کہ وہ جس کی طرف تم بلاتے ہو ۔ اے منافقو: عقلمند وہ ہے جو نتائج پر نظر کرتا ہے۔ اور کاموں کے شروع سے دھوکہ نہیں کھاتا ہے۔ عقلمند وہ ہے جو دنیا اور آخرت جو دونوں اللہ والوں کے لیے لونڈیاں ہیں سے قرض لیتا ہے۔ تم ان کی خدمت کرتے ہو۔ اور تم ان کا کلام سنتے ہو ، وہ دونوں کو جواب دیتا ہے. اور دونوں کا کلام سنتا ہے۔ دنیا سے خود اس کی تعریف سنتا ہے۔ تو اس سے وہ خریدتا ہے جس سے اس کی درستی ہو، اور دنیا سے اس کے فانی ہونے کی بنا پر بے رغبتی کرتا ہے . اور دوسری (آخرت) کا خیال اس لیے چھوڑتا ہے کہ وہ فنا ہونے والی پیدا ہونے والی اور اس کو اپنے پر ور دگا یہ اعلیٰ سے روکنے والی ہے۔ جو اس کی پیروی کرتا ہے۔ اور اللہ کے سوا اس سے رغبت رکھتا ہے چنانچہ دنیا اس کو کہتی ہے ۔ مجھے اپنے سایہ میں نہ لو۔ اور مجھ سے شادی مت کرو. اس واسطے کہ میں ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف اور ایک کے قبضہ سے دوسرے کے قبضہ کی طرف منتقل ہونے والی ہوں جب میں کسی کو دیکھتی ہوں۔ اس کو مار ڈالتی ہوں اور اس کا مال چھین لیتی ہوں مجھ سے ڈرد. کہ میں (مزہ) چکھانے والی مار ڈالنے والی اور بے وفائی کرنے والی ہوں ۔ میں نے کبھی اس کا قول پو را نہیں کیا جس نے میرے سے قول لیا ۔ اور آخرت اس کو کہتی ہے۔ میرے پر خرید و فروخت کی نشانی ہے ۔ میرے پروردگار اعلیٰ فرماتے میں بے شک اللہ نے ایمان والوں کی جانوں اور مالوں کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے ۔ میں تمہارے چہرہ پر قرب کی نشانی دیکھتی ہوں ۔ سو تم مجھ کو مت خریدو. اس واسطے کہ اللہ تعالے تمہیں میرے ساتھ نہ چھوڑیں گے جب اس کے ہاں یہ بات ثابت ہو گئی اور اس نے دونوں کو چھوڑ دیا۔ اور دونوں سے اپنے پرورد گا ر اعلیٰ کو چاہتے ہوئے پھر گیا۔ اللہ نے دنیا اس کی طرف لوٹا دی۔ چنانچہ ضرورت کے بغیر اس سے اپنے نصیبے وصول کرتا ہے اور آخرت کو اس کی طرف لوٹا دیا ۔ تا کہ اس کا بدلہ اس کے لیے ہو۔ اے اس کے اور اس کے چاہنے والو۔ اے اس سے اور اس سے راضی ہونے والو سنو۔ یہ جس کو میں نے تمہارے لیے بیان کیا۔ تمہارے لیے دوا ہے ۔ سو تم اس کو استعمال کرو. جو کوئی کسی چیز کو چھوڑتا ہے۔ وہ چیز اس کو ڈھونڈتی ہے۔ مخلوقات کو چھوڑو، تاکہ خالق تمہارے سے محبت کرے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب کی مثال ایسی ہے جیسے اس مریض کی مثال جو ایک مشفق طبیب کی گود میں ہو۔ وہ خود اس کا ہو۔ اے لوگو! میرے سے (یہ بات اور نصیحت) قبول کرو اور دنیا کو چھوڑو اس واسطے کہ اس سے تمہاری رغبت اور محبت تمہیں آخرت اور تمہارے پر ور دگا ر اعلیٰ کے قرب سے روکتی ہے ۔ اور تمہارے دلوں کی آنکھوں کو اندھا کرتی ہے۔ دنیا میں دھنسنا تمہیں آخرت سے روکتا ہے ۔ اور دل کی ہم نشینی تمہیں حق تعالے سے روکتی ہے ۔ اے  جا ہلو ! آخرت کے عمل سے دنیا مت کھاؤ۔ پھر ٹوٹے میں پڑو۔

تریاق کے بغیر دنیا کا کھانا مت کھاؤ۔ اس واسطے کہ اس کا کھانا زہر ملا ہے ۔ اس کا تریاق تو اس کو چھوڑنا اور اس کے دل سے(دانائی کے سمندر سے قدرت کے سمندر کی طرف طب سے اس طبیب کی طرف) نکلنا ہی ہے جو تمہارے لیے اس کے زہر اور اس کے گوشت کے درمیان فرق کر دیتا ہے ۔ کیا تم نے سنا یا دیکھا نہیں کہ سپیرا سانپ کو پکڑتا ہے۔ پھر اس کو ذبح کرتا ہے۔ اور اس کو پکا تا ہے۔ اور اس کے زہر کو ڈھلکا تا ہے۔ پھر اس کا گوشت کھاتا ہے۔ حق تعالے دنیا کی زہر ان کا فروں، گنہگاروں کے لیے کر دیتے ہیں جو اس پر اتراتے ہیں۔ ان کے علاوہ دوسروں کے لیے کس طرح صاف نہ کریں۔ جبکہ وہ اس کے مہمان ہیں۔ ان سے وہ کرتا ہے۔ جو محب اپنے محبوب کے حق میں کرتا ہے۔ ان کے لیے ترشی سے شیرینی کو گندی سے ستھری کو چن دیتے ہیں جن سے چاہت ہوتی ہے۔ ان کے لیے کھانا پینا پہننا اور سب چیزیں جن کی ان کو ضرورت ہو ۔ صاف کر دیتے ہیں۔ یہ تکلف زہد اختیار کرنے والا کبھی صاف ہوتا ہے اور کبھی صاف نہیں ہوتا۔ کبھی کھڑا ہوتا ہے اور کبھی بیٹھتا ہے . اور زاہدوں کے لیے تو حقیقت کھل چکی ہوتی ہے چنانچہ گندی سے صاف چیز کو پہچانتا ہے ۔

(ویسے صاف چیز اس کو پکارتی ہے۔ اور گندی بھی اس کو پکارتی ہے۔ اللہ والوں کی طرفیں ایک ہی ہوتی ہیں۔ ان کے لیے ایک ہی طرف براقی رہتی ہے ۔ ان کے سامنے مخلوق کی طر نیں تنگ ہو جاتی ہیں ۔ اور حق تعالئے کی طرف ان کے لیے کھل جاتی ہے۔ ان کے لیے مخلوق کی طرفیں ان کی سچائی کے ہاتھوں بند کر دی جاتی ہے۔ اور ان کے دلوں کے ہاتھوں خالق کی طرفیں کھول دی جاتی ہیں۔ بے شک ان کے دل کھل جاتے ہیں ۔ بڑھ جاتے ہیں۔ بڑے ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے دلوں کے دروازوں پر گرد و غبار پڑ جاتا ہے۔ پس ان کے مالک اور ان کے خالق سوائے کسی کو ان میں داخل ہونے کی قدرت نہیں ہوتی ہے ۔ اللہ والوں میں سے ہر کوئی دنیا میں سورج اور چاند کی طرح ہوتا ہے۔ یہ دونوں دنیا کی روشنی کا باعث ہیں۔ اور دونوں کا دنیا کی طرف رخ کرنا جو کچھ اس میں ہے۔ اس کو جلا ڈالے۔ تم مردے ہو۔ زمین کی سطح پر کب چلتے ہو عقل سیکھو۔ کہ نہ تم کو عقل ہے اور نہ تم مردوں میں سے ہو ۔ تم مردوں کو مخلوق کے سرداروں اور اس کے بڑوں کو پہچانتے ہی نہیں ہو۔ تمہاری بات پتہ دیتی ہے جو تمہارے دل میں ہے۔ زبان دل کی ترجمان ہوتی ہے ۔ جب تمہیں ایک آدمی سے محبت اور دوسرے سے دشمنی پڑ جاتی ہے۔ پھر تم اس کو محبت نہیں کرتے ہو. اور اس سے تم اپنے دل سے اور طبیعت سے دشمنی کرتے ہو۔ بلکہ ان دونوں کے حکم سے رو گردانی کرو. دونوں کو قرآن حدیث کے سامنے پیش کرو۔ اگر اس سے مل جائیں جس سے تم محبت کرتے ہو تو اس کی محبت کی طرف بڑھو۔ اور اگر اس چیز سے مل جائیں جس سے تم دشمنی رکھتے ہو تو اپنی اس سے دشمنی سے باز آؤ۔ اور اگر دونوں اس کے خلاف کریں ، تو اس کی دشمنی کی طرف بڑھو، خرابی تمہاری ۔ تم مجھ سے دشمنی کرتے ہو۔ اس وجہ سے کہ میں حق بات کہتا ہوں اور تمہیں حق پر جماتا ہوں مجھ سے محض اللہ تعالے سے جاہل بات کا زیادہ اور عمل کا تھوڑا ہی دشمنی اور جہالت کرتا ہے، اور مجھ سے محض – قرب نے مجھ کو ہر چیز سے غذا دی ہے. میرے ارد گرد پانی بہت ہے۔ اور میں مینڈک کی طرح ہوں، مجھے یارا نہیں کہ جو کچھ میرے پاس ہے اس کی بات کروں ۔ انتظار کر رہا ہوں کہ پانی ڈالا جائے ۔ اور میں بات کروں. اس وقت تم اپنی اور دوسرے کی خبر سنو گے تم کب توبہ کرو گے۔ اے  بد نصیبو! اے گنہگا رو! اپنے پروردگار اعلیٰ سے توبہ کے ذریعہ سے صلح کرو اگر مجھ کو اللہ تعالے اور اس کے علم سے شرم نہ ہوتی تو میں کھڑا ہوتا اور تمہارے میں سے کسی کا ہاتھ پکڑتا ۔ اور اس سے کہتا کہ تم نے ایسا ویسا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تو بہ کرو تمہارے حق میں اور تمہارے سے کوئی بات نہیں جب تک مولائے کریم سے تمہارا ایمان تمہارا یقین اور تمہاری معرفت مضبوط نہ ہو جائے۔ اس وقت تم مضبوط کڑے سے لٹک جاؤ گے ۔ اور یہ تمہارے دل کا اس کی طرف پہنچنا ہو گا چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امتوں پر فخر کریں گے۔ اے اپنے زبان سے ایمان لانے والے ۔ اپنے دل سے کب ایمان لاؤ گے۔ اے اپنی جلوت میں ایمان والے اپنی خلوت میں کب ایمان والے ہو گئے۔ دل کے ایمان سے ہی نجات ہے۔ یہی چیز فائدہ دینے والی ہے ۔ دل کے کفر کے ساتھ زبان کا ایمان اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ منافق کا ایمان ان کا ایمان ہوتا ہے جو تلوار سے ڈرتے ہیں۔ اے اللہ کے بندو۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید مت ہو۔ اور اللہ تعالے کے فیض سے نا امید نہ ہو۔

اے دل کے مردو۔ اپنے پروردگار اعلیٰ کی یاد اور اس کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی اور ذکر کی مجلسوں میں حاضری میں ہمیشگی اختیار کرو. اور یہ چیز تمہارے دلوں کو اس طرح زندہ کر دے گی جیسے مردہ زمین کو اس پر بارش کا بر سنا زندہ کر دیتا ہے جب دل اللہ تعالے کی یاد پر ہمیشگی اختیار کرتا ہے تو اس کو علم و معرفت – توحید و توکل اور ماسوائے اللہ سے روگردانی کرنی آتی ہے۔ مختصر یہ کہ دوامی ذکر دنیا اور آخرت میں دوامی خیر کا سبب بنتا ہے ۔ جب تک تم دنیا اور مخلوق کے ساتھ رہتے ہو۔ اس وقت تک تم تعریف و مذمت کا اثر قبول کرتے ہو۔ چونکہ یہ چیز تمہارے دل میں تمہاری نفسانی خواہش میں اور تمہاری طبیعت میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ جب تمہارا دل تمہارے پروردگا ر اعلیٰ سے مل جاتا ہے۔ اور تمہارا معاملہ اس کے حوالے ہو جاتا ہے تو تمہارا اس سے اثر قبول کرنا جاتا رہتا ہے۔ اور تم ایک بھاری بوجھ سے آرام حاصل کرتے ہو جب تم اپنی طاقت اور اپنے قرب پر اعتماد کر کے دنیا میں مشغول ہو جاتے ہو۔ کاٹتی ہے ۔ ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہے مشقت میں ڈالتی ہے اور ناراض کرتی ہے۔ اور اسی طرح جب تم اپنی پوری طاقت سے آخرت میں مشغول ہو جاتے ہو۔ تو وہ تم کاٹ ڈالتے ہو۔ اور جب تم حق تعالے سے مشغول ہو جاتے ہو . تو اس کے ہاتھ کی طاقت اور اس پر توکل کی بنا پر معاش کا دروازہ کھل جاتا ہے. اور اس کی توفیق کے ہاتھ فرمانبرداریوں کا دروازہ کھل جاتا ہے جب تم اس کی طلب کی جگہ تک پہنچ جاؤ تو اس سے طاقت اور توبہ و تائید حاصل کرنے میں سچائی مانگو۔ تمہارے دل کے اور تمہارے باطن کے قدم دنیا اور آخرت کے شغل سے فارغ ہو کر اس کے سامنے جمع جائیں گے ۔ بدنصیبی تمہاری تمہارا دل بیمار ہے بس کھاتے میں گڑ بڑ کرنے سے اسے محفوظ کرو۔ یہاں تک کہ اس کو اپنے پروردگار کی طرف سے عافیت نصیب ہو۔ بدنصیبی تمہاری ۔ تم قرب خدا وندی کی کس طرح حرص کرتے ہو۔ اور تمہارا دل تمہارے پر غالب ہے۔ اور تمہاری خواہش نفسانی تمہیں بھینچتی ہے ۔ اور مزوں اور لذتوں کی طرف جھکاتی ہے ۔ اور تمہاری طبیعت کی آگ تمہاری پر ہیزگاری اور بیداری کو جلاتی ہے۔ عقل سیکھو ۔ یہ اس کا کام نہیں جو موت پر ایمان و یقین رکھتا ہے۔ یہ اس کا کام نہیں جو حق تعالیٰ کے دیدار کا منتظر ہے۔ اور اس کے حساب وکتاب اور نوک جھونک( پوچھ گچھ) سے ڈرتا ہے۔ نہ تمہیں کوئی فکر ہے۔ نہ تمہیں پر ہیز گاری حاصل ہے۔ تمہیں دنیا اور آخرت جمع کرنے ۔ ان دونوں کے بارے میں سوچنے ، اہل دنیا اور اہل آخرت کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے اور ان کے سامنے ذلیل ہونے میں رات اور دن چین نہیں ہے۔ اللہ والے دنیا۔ زندگی اور مخلوق کی پریشانی کم از کم اٹھاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کی مثال اس آدمی کی ہے جس نے اپنی سواری خراسان کی طرف بھیجی ۔ سو جسم اس کا حاضر ہے. اور دل اس کا سارا گھر ہے ۔ مومن اپنا مال آخرت کی طرف بھیجتا ہے۔ اس نے وہاں ٹھکا نہ کیا ہے ۔ سو صبر کرتا ہے اس میں آزمایا جاتا ہے۔ اس کا سارا دل حق تعالے کے قرب میں ہوتا ہے۔ اور اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے۔ مومن اپنے ایمان میں رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالے کو پہچاننے والا اس کا جاننے والا۔ اس کا نزدیکی اور اصل میں اس کا بن جاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت اس کو ہر چیز پر ترجیح دیتا ہے ۔

اور اپنے اس محل کی کنجی جو اس کے لیے جنت میں ہے۔ داروغہ کے حوالہ کر دیتا ہے، اپنے باطن کو جنت کے دروازوں کی طرف چھپاتا ہے۔ پس ان کو بند کرتا ہے۔ اور مخلوق اور وجود کے دروازے بند کرتا ہے۔ اور اپنے آپ کو بادشاہ کے دروازہ پر ڈالتا ہے۔ وہاں بیمار بن جاتا ہے۔ اور اس طرح گرتا ہے ، گویا گوشت کا ٹکڑا گرایا ہوا ہے منتظر ہے۔ کہ مہربانی کے قدموں کا اس پر گزر ہو۔ پس اس کو روندیں۔ نظر کرم کے پڑنے اور کریم و احسان کے ہاتھ کے بڑھنے کا انتظار کرتا ہے۔ چنانچہ جونہی وہ اس حال میں ہوتا ہے۔ اچانک وہ خبر دار طبیب کے سامنے محبت کی آغوش اور قرب کے پردہ میں ہوتا ہے ۔

پس اس کا علاج کرتا ہے ۔ اس کی طرف اس کی طاقت لوٹا دیتا ہے۔ اس سے محبت کرتا ہے۔ اور اس کے سامنے اپنا حال اور زیور اور جو چاہتے ہیں نکالتا ہے۔ اور اس کو مہربانی کے کھانا سے کھلاتا ہے ۔ اور اس کو محبت کی شراب سے پلا تا ہے ۔ چنانچہ اس وقت مہربانی نزدیکی کے گھر میں آتی ہے ۔ اور ملنے کی بزرگی سے خوشی ہوتی ہے ۔ ساری مخلوق اس کے ماتحت ہو جاتی ہے ۔ اور اس کی طرف مہربانی کی نظر سے دیکھتا ہے اور حق تعالے کے اخلاق اختیار کیے ہوتا ہے۔ اس واسطے کہ اس سے ملنے والوں کے دل مخلوق کی مہربانی سے بھرے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں اور کافروں کی طرف اور خواص و عوام کی طرف مہربانی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ ان سے شرعی حدود کی پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے سب پر مہربانی کرتے ہیں ۔ ظاہر میں مطالبہ ہوتا ہے۔ اور باطن میں مہربانی ہوتی ہے۔ اے اللہ کے ہندو جب تم اللہ والوں میں سے کسی ایک کو دیکھو تو اس کی خدمت کرو ۔ اور اس کی (بات اور نصیحت) قبول کرو۔ اس واسطے کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ اے گھروں اور خانقاہوں میں نفس طبیعت خواہش نفسانی اور علم کی کمی کے ساتھ بیٹھنے والو تمہیں لازم ہے کہ علم پر عمل کرنے والے شیوخ کی صحبت اختیار کرو۔ ان کی پیروی کرو اپنے قدم ان کے قدموں کے پیچھے ڈالو۔ ان کے سامنے عاجزی کرو. اور ان کی شکستگی پر صبر کرو یہاں تک کہ تمہاری خواہشات نفسانی زائل ہو جائیں اور تمہارے دل شکستہ ہو جائیں . اور تمہاری طبیعتوں کی آگ بجھ جائے۔ چنانچہ اس وقت تم دنیا کو پہچانو گے پس اس پر افسوس کرو گے۔ وہ تمہاری باندی بن جائے گی۔ اس پر تمہاری طرف سے جو قرض ہے ۔ وہ نہیں دے گی۔ اور وہی اس کے نزدیک تمہارے تقسیم شدہ نصیبے ہیں ۔ ان کو تمہارے لیے لائے گی۔ اور تم اپنے پروردگار اعلیٰ کے قرب کے دروازہ پر ہو گے ۔ یہ اور آخرت اس کی باندیاں ہوتی ہیں ۔ جو حق تعالیٰ کی خدمت کرتا ہے۔ جب دل میں توحید پر ورش پاتی ہے ۔ تو ہر روز بڑھوتری میں ہوتا ہے۔ جونہی بڑھ جاتا ہے۔ اور بڑا ہو جاتا ہے، اور بلند ہو جاتا ہے تو زمین کی سطح پر اور آسمان کے اندر غیراللہ  کو نہیں دیکھتا ہے، ساری مخلوق اس کے تابع ہوتی ہے ۔ اپنے گھر کے باطن اور اپنے پروردگار اعلیٰ کے درمیان کھڑا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس وقت اس سے ٹھکا نہ پاتا ہے ، اور اس سے مل جاتا ہے۔ اور اپنے زمانہ کا بادشاہ بن جاتا ہے۔ قضا و قدر اور حکم پر قدرت پاتا ہے۔ بادشاہ کے چنے ہوئے اس کی خدمت کرتے ہیں اور اپنی ذات سے قریب کرتا ہے ۔ اے لوگو ! اللہ اور اس کے رسول اور اس کی مخلوق میں سے نیک لوگوں نے سچ فرمایا ۔ وہ بڑی ذات بھی سچی ہے۔ اس واسطے کہ اس نے فرمایا ۔ اور اللہ سے زیادہ بات کا سچا کون اور نیک لوگ بھی اس کی سچائی سے نکلے ہیں ۔

جب تمہارے دل کو حق تعالے کے دروازہ پر کھڑا ہونا پسند آجاتا ہے تو تمہا را شرک اور تمہاری طلب زائل ہو جاتی ہے ۔ اور تمہارا حسن ادب زیادہ ہو جاتا ہے صبر خواہشات نفسانی کو زائل کر دیتا ہے، صبر عادتوں کو فنا کر دیتا ہے۔ اور اسباب کو ختم کر دیتا ہے ۔ اور (چھوٹے) خداؤں کو نکال باہر کرتا ہے۔ تم گرفتار ہوس ہو۔ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے اولیاء علیہم السلام اور اس کی مخلوق میں سے خواص سے جاہل ہو۔ تم دعویٰ چھوڑنے کا کرتے ہو۔ اور رغبت رکھتے ہو تمہارا چھوڑنا قدموں کا لنگڑا پن ہے۔ تمہاری ساری رغبت دنیا اور مخلوق میں ہے تمہیں اپنے پروردگار اعلیٰ سے کوئی رغبت نہیں ہے۔ ارے آؤ۔ اور اپنے پر ور دگا ر اعلیٰ کے سامنے کھڑے ہو جاؤ حسن ظن اور حسن ادب کو بہتر بناؤ تاکہ میں تمہیں تمہارے پروردگار اعلیٰ کی راہ بتاؤں اور تم اس کی طرف راستہ پہنچانو ۔ اپنی ذات سے غرور کا لباس اتارو۔ اور عاجزی کا لباس پہنو – عاجزی کرو۔ یہاں تک کہ انکسار اختیار کرو۔ تا کہ ہر اس چیز کو جس میں تم ہو. اور جس پر تم ہو۔ اٹھ جائے۔ یہ سب حرص پر حرص ہے۔ جب تم دل کے خیال۔ خواہش نفسانی کے خیال اور شیطان کے خیال دنیا کے خیال، آخرت کے خیال پھر بادشاہ کے خیال پھر سب کے آخر میں حق تعالیٰ کے خیال سے خواہشات سے روگردانی کرتے ہو۔ جب تمہارا دل صحیح ہو جاتا ہے۔ تو خیال کے وقت ٹھہر جاتا ہے۔ اور کہتا ہے ۔ تم کون سا خیال ہو۔ اور تم کس کی طرف سے ہو۔ پس وہ کہتا ہےکہ میں ایسا ویسا خیال ہوں ۔

تمہارے میں سے بہت ساروں کو حرص پر حرص ہے ۔ اپنی خانقاہوں میں بیٹھے مخلوق کی پوجا کرتے ہو۔ یہ بات جہالت کے ساتھ محض تنہائیوں میں سے بیٹھنے سے نہیں آتی ہے۔

علم – عالموں اور عاملوں کی تلاش میں اتنا چلو ۔ کہ چلنے کی (ہمت) نہ رہے ۔ یہاں تک چلو کہ چلنے میں کوئی چیز تمہارے چلنے کا ساتھ نہ دے ، فرمایا۔ پھر جب تم عاجز ہو جاؤ تو اپنے ظاہر کے ساتھ بیٹھ جاؤ ۔ پھر اپنے دل اور اپنے معنی کے ساتھ جب ظاہری اور باطنی طور پر تھک ہار جاؤ گے۔ تو اللہ تعالے کی طرف سے قرب اور اس سے ملنا نصیب ہو گا جب تم اپنے دل کے خطرے ختم کر دو گے اور تمہارے اعضا اس کی طرف چلنے لگیں گے تو یہ تمہارے اس سے قریب ہونے کی نشانی ہو گی۔ چنانچہ اس وقت خود کو حوالہ کر دے۔ اور (آگے) ڈال دے۔ یہ تمہارے لیے جنگل میں خانقاہ بنائے گا یہ تمہیں ویرانہ میں بٹھائے گا۔ یا تمہیں آبادی کی طرف لوٹائے گا۔ اور دنیا و آخرت جنوں انسانوں اور فرشتوں اور روحوں کو تمہاری خدمت میں کھڑا کر دے گا جب تم حق تعالے کے دروازہ پر کھڑے ہو جاؤ گے عجب چیز کیا عجب چیزیں دیکھو گے تمہارے کھانے کی تمہارے پینے کی تمہارے پہننے کی تمہارے وجود کی محبت ۔ اور لوگوں کی تعریفت و مذمت یہ سب چیزیں جسمانی اعمال ہیں۔ نہ کہ دلوں کے اعمال ۔ یہ دل باغ بن جائے گا جس میں درخت اور پھل ہوں گے۔ اس میں جنگل – ویرا نے نہریں اور پہاڑ ہوں گے۔ انسانوں۔ جنوں فرشتوں اور روحوں کے جمع ہونے کی جگہ ہو جائے گی ۔ یہ بات عقل سے بالا ہے۔ اے اللہ ! اگر وہ چیز جس میں میں ہوں حق ہے ، تو اس کو چلنے والوں کے لیے ثابت فرما دیجئے ۔ آپ نے فرمایا۔ تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔ اخلاص اس جگہ ہوتا ہے۔ اور سینہ کی طرف اشارہ کر رہے تھے ۔ یعنی ان چیزوں کا تعلق دل سے ہے. زبان اور ہاتھ سے نہیں جو کوئی اصلاح چاہیے۔ مشائخ کے قدموں کے نیچے کی زمین بن جائے ۔ ان شیوخ کی صفت کیا ہے؟ دنیا اور مخلوق کو چھوڑنے والے ہیں ۔ ان دونوں کو اور جو کچھ عرش سے تحت الثری تک ہے (یعنی ساتوں آسمانوں کو اور جو کچھ ان میں ہے، اور رساتوں زمینوں) کو اور جو کچھ ان میں ہے الوداع کہہ دینے والے ہیں۔ (ایسے میں) جنہوں نے سب چیزوں کو چھوڑا ۔ اور ان کو ایسے شخص کی طرف الوداع کہی۔ جو پھر کبھی بھی ان کی طرف نہ پلٹے ۔ اور ساری مخلوق کو چھوڑ دیا ۔ اور منجملہ مخلوق وہ خود بھی ہیں۔ (یعنی اپنے نفوس اور ذرات کو بھی چھوڑ دیا اور اب) ان کی ہستی اپنے پروردگار کے ساتھ ہے۔ (کہ وہی فرمائے تو کھائیں اور بولیں ورنہ منہ بند کیے پڑے رہیں ) جو شخص اپنے نفس کا وجود رکھتے ہوئے اللہ تعالی کی صحبت کا طالب ہو ۔ وہ نفس پرستی اور بے ہودگی میں ہے جس کا زہد اور توحید صحیح ہو جائے وہ لوگوں کے ہاتھوں اور ان کی سخاوت کی طرف نہیں دیکھتا ۔ وہ خدائے بزرگ و برتر کے سوا کسی کو دینے والے نہیں سمجھتا۔ اور نہ ہی اس کے سوا کسی کو مہربانی کرنے والا جانتا ہے ۔ اور اے دنیا والو ! تم سب کے سب ان باتوں کے سننے کے کتنے محتاج ہو۔ اے پُر از جہالت زاہدوتمہیں ان باتوں کے سننے کی کتنی ضرورت ہے ۔ بناوٹی زاہدوں میں سے اکثر لوگ مخلوق کے پجاری اور مشرک بنے ہوئے ہیں کہ سب زہدو عبادت جاہ و مال حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے،) تم شرک سے اپنے رب کے دروازہ کی طرف بھاگو ۔ اور اس کے پاس کھڑے رہو۔ (مصیبتوں کے آنے سے بھا گومت) جب تم اس کے دروازے پر کھڑے ہو اور تمہارے پیچھے سے مصیبتیں آئیں تو اس کے دروازہ سے چمٹ جاؤ چونکہ تیری توحید اور تیری سچائی کی ہیبت سے وہ خود تم سے دفع ہو جائیں گی پس جب تم پر مصیبتیں آئیں تو تمہارے لیے لازم ہے صبر و استقلال پکڑو ۔ اس سے گلاب کا پانی ٹپکے ۔ تمہارے لیے کوئی بزرگی نہیں تم دنیا میں عمل کرتے ہو ۔ دنیا اپنا حصہ پالیتی ہے اور تم چاہتے ہو کہ کل آخرت بھی تمہارے لیے ہو۔ تمہارے لیے کوئی بزرگی نہیں۔ مخلوق کے لیے عمل کیا۔ اور چاہتے ہو۔ کہ کل خالق تمہارے لیے ہو۔ اور اس سے قریب ہو ۔ اور اس کی طرف نظر ہو۔ تمہارے لیے کوئی بزرگی نہیں ۔ ظاہر اور غالب تو یہی ہے۔ اور اگر تمہیں (کچھ) دے، وہ بغیر عمل کے بھی مہربانی کر دیتا ہے، پس وہ اسی پر ہے میری سنو۔ اور عقل سے کام لو۔

ان کی بات سے شروع کرتا ہوں ۔ اور اس کی تعریف کرتا ہوں اللہ تعالے نے مجھے میرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے اس کا اہل بنایا ہے۔ اور میں اپنے ابا جان اور امی جان رحمتہ اللہ علیہما سے بری ہوں میرے والد صاحب نے دنیا کو اس پر قابو پانے کے باوجود اس کو چھوڑا ۔ اور والدہ صاحبہ اس بات سے خوب واقف ہیں ۔ اور ان کی اس بات سے راضی تھیں۔ دونوں نیکی – دیانت مخلوق اور میرے پر شفقت کے مالک تھے مخلوق سے نہیں ۔ ان دونوں کی طرف سے میں رسول اور مرسل کی طرف آیا ہوں ۔ اپنی ساری خیر اور نعمت ان دونوں کے ساتھ اور پاس سمجھتا ہوں . مخلوق میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ارباب میں سے اپنے پروردگار اعلیٰ کے علاوہ کسی کو نہیں چاہتا ہوں ۔ تمہاری بات تمہاری زبان سے ہے۔ تمہارے دل سے نہیں ۔ تمہاری صورت سے ہے۔ تمہارے معنی سے نہیں ۔ ایک صحیح دل اس بات سے بھاگتا ہے جو زبان سے نکلتی ہے۔ اس کو سننے کے وقت دل اس طرح ہو جاتا ہے۔ جیسے پرندہ پنجرہ میں ۔ جیسے منافق مسجد میں جب کسی مجلس میں سچوں میں کوئی ایک منافق عاملوں میں سے کسی ایک سے بھڑااور ٹکرا جاتا ہے تو اس کی پوری پوری تمنا اس سے نکل جانے کی ہوتی ہے۔ اللہ والوں کے لیے دکھاوا کرنے والو ۔ نفاق رکھنے والو ۔ جھوٹ بولنے والوں . دعوی کرنے والو ۔ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے چہروں پر نشانیاں ہوتی ہیں اور مزید یہ نشانیاں ان کی باتوں میں ہوتی ہیں سچوں سے اس طرح بھاگتے ہیں، گویا وہ حشر سے بھاگ رہے ہیں۔ ڈرتے ہیں کہیں اپنے دلوں کی آگ سے جلا نہ دیں۔ فرشتے ان کو سچوں اور نیکوں سے دور رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک عوام کے نزدیک آدمی ہوتا ہے ۔ اور سچوں کے نزدیک سور ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اس کا کچھ وزن نہیں ہوتا ۔

اے لڑکو۔ تمہارے لیے طبیب کا حکم ماننا لازم ہے، چونکہ وہ تمہاری امراض کا علاج کرتا ہے۔ اور اس کی مانو۔ اور تم بچ جاؤ گے تم شاگرد کی پیری کرو. کہ وہ تم کو استاد کے پاس اٹھالے جائے گا حکم علم کا غلام ہوتا ہے ۔ اس کی پیروی کرو اور دیکھو ۔ کہاں داخل ہوتا ہے ۔ اس کے پیچھے داخل ہو جاؤ اپنے پروردگار اعلیٰ کا دروازہ طلب کرو اور حکم کے ساتھ اچھی طرح گزر بسر کرو جو کہ دروازہ کا غلام ہے جب تم حکم کی پیروی نہ کرو گے تو تمہیں علم تک بھی رسائی نہ ہوگی۔ کیا تم نے اپنے پر ور دگار اعلیٰ کا فرمان نہیں سنا۔ ۔ اور جو تم کو رسول دے . اس کو لے لو ۔ اور جس چیز سے تم کو منع کرے سو چھوڑ دو جب تم اپنے پروردگا ر اعلی کے دروازہ پر حکم کے ساتھ اچھی طرح گزر بسر کرو گے۔ اور اس کے ساتھ پکارو گے تمہیں جواب دے گا ۔ اور تمہارے لیے اپنے قرب کا دروازہ کھول دے گا ۔ اور تم کو اپنی مہربانی اور اپنی عزت کے خووں پر بٹھائے گا ۔ اس کے مہمان بن جاؤ گے ۔ تمہارے دلوں سے باتیں کرے گا۔ اور تمہارے باطنوں سے محبت کرے گا ۔ اور ان کو وہ علم سکھائے گا۔ جس کو اپنی مخلوق میں سے تمہارے خواص کو سکھاتا ہے۔ چنانچہ اس کا علم اس کے اور مخلوق کے درمیان اور اس کا علم اس کے اور تمہارے درمیان ہو جاتا ہے ، چونکہ حکم مشترک ہے اور علم خاص ہے حکم ایمان ہے۔ اور علم عیان ہے ۔ اے اللہ ! ہمیں ہمارے اعمال میں علم و اخلاص دیجئے۔ اور ہمیں اپنے علم کی اطلاع دیجئے۔ اور ہماری اطلاع پر جما دیجئے۔ اور ہمیں دنیا میں نیکی دیجئے اور آخرت میں نیکی دیجئے۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی مہربانی سے نیک کام پورے ہوتے ہیں۔

خاتمہ بالخیر)

استاد امام عالم زاہد عابد عارف متقی قطب فرد غوث شیخ المشائخ و اولیا سیدناد شیخنا شیخ محی الدین ابو محمد عبد القادر حسنی حسینی بن ابو صالح عبدالله جیلی رضی الله عنه اللہ ان کو ہم سے راضی کرے اور ہمیں ان کے کلام باعتبار لفظ معنی علم اور عمل سے فائدہ پہنچائے) کی تصنیف سے جلاء الخواطر کا نسخہ مکمل ہو گیا ۔

دصا یا غوثیہ

یہ ہے جس کی (پیر ) کامل عالم کا شف حقائق مقتدائے خلائق قطب ربانی غوث صمدانی حق و دین کے زندہ کر نیوالے شیخ عبد القادر حسنی جیلانی قدس الله سر العزیز  نے وصیت کی ہے۔ اے بیٹے ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور خوف کرنے اور اپنے والدین  اور سارے مشائخ کے حقوق کو ضروری سمجھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ چونکہ اس سے اللہ اپنے بندہ سے راضی ہوتا ہے۔ اور چھپے کھلے حق کی حفاظت کرو. اور فہم و فکرغم وہم اور رونے کے ساتھ قرآن کی تلاوت کو ظاہر و باطن خفیہ و علانیہ مت چھوڑو ۔ اور سب احکام میں محکم آیات کی طرف رجوع کرو که قرآن مخلوق پر اللہ کی حجت ہے۔ اور علم دین سے ایک قدم بھی ادھر ادھر نہ ہو، اور فقہ کا علم سیکھو ۔ اور جاہل اور عالمی صوفی مت ہو۔ اور بازار والوں سے بھا گو کہ یہ مسلمانوں کے حق میں دین کے چور اور راہ کےلٹیرے ہیں اور اہل توحید وسنت کے عقائد اختیار کرو اور نئی باتوں سے بچ جاؤ کہ ہر نئی بات بدعت ( ہر دو خطوط وجدانی ختم کرنے ہیں ) اور گمراہی ہے ۔ اور نوعمر لڑکوں عورتوں، بدعتیوں ۔ دولتمندوں اور عام لوگوں سے خلا ملا نہ رکھو کہ یہ چیزتمہارا دین برباد کر دے گی تھوڑی دنیا پر قناعت کرو اور خلوت اختیار کرو. اور خوف خدا سے رویا کرو۔ اور حلال کھاؤ کہ یہ نیکیوں کی کنجی ہے ۔ اور حرام کو ہاتھ مت لگاؤ کہیں تمہیں قیامت کے دن آگ نہ لگ جائے. اور حلال (جائزہ حلال کی روزی سے) لباس پہنو کہ تم ایمان اور عبادت کی حلاوت پاؤ گے۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ اور اپنے اللہ تعالے کے سامنے کھڑے ہونے کو مت بھولو اور رات کی نماز اور دن کے روزے کثرت سے رکھو۔ اور امام و پیشوا بنے بغیر نماز اور دوسرے دینی کاموں میں) (مسلمانوں) کی جماعت کو مت چھوڑو ۔ اور سرداری اور حکومت مت چاہو۔ چونکہ جو سرداری اور حکومت کو پسند کرتا ہے ، وہ کبھی فلاح نہیں پاتا ہے. اور دستاویز ات پر دستخط نہ کیا کرو۔ اور حکام وسلاطین کے ہمنشیں مت بنو۔ اور وصیتوں میں  دخل نہ دور اور لوگوں کے (معاملات) سے اس طرح بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو۔ اور خلوت اختیار کرو تاکہ تمہارا دین برباد نہ ہو۔ (ضروریات دین کے پیش نظر ) سفر کیا کرو کہ تندرست رہو گے ، اور قیمتیں پاؤ گے اور مشائخ کے دل کا خیال رکھو۔کہ بلا وجہ گرانی اور پریشانی لاحق نہ ہو) اپنی تعریف پر دھوکہ مت کھاؤ۔ اور اس کی بات پر غم نہ کرو جو تمہاری مذمت کرتا ہے، مذمت اور تعریف تمہارے نزدیک برابر ہو جانی چاہئیں ۔ اور ساری مخلوق سے خوش خلقی سے پیش آؤ اور عاجزی و انکساری اختیار کرو. کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ کہ جس نے اللہ کے لیے عاجزی و انکساری اختیار کی ہے۔ اللہ اس کو بلند کرتا ہے۔ اور بڑائی کرتا ہے۔ اللہ اس کو نیچا دکھاتا ہے اور ہر حالت میں نیک و بد کے ساتھ ادب سے پیش آؤ۔ اور ساری مخلوق کو اپنے سے بہتر سمجھو خواہ چھوٹے ہو خواہ بڑے اور ہمیشہ ان کو نظر رحمت سے ہی  دیکھا کرو۔ اور ہنسومت کہ ہنسنا غفلت کی نشانی ہے. اور یہ دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم کو معلوم ہوتا جو مجھ کو معلوم ہے، تو تم ہنستے کم اورروتے بہت اللہ کے داؤ سے نڈر نہ ہو ۔ اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو ۔ اور ڈر اور امید کے درمیان لازم ہے۔ اور روزہ نہ ہونے کی حالت میں صاف ستھرے ، پاکدامن راستبانہ با ادب خدا رسیده دانشمند صاحب علم جاہل صوفیوں سے دور ہونے والے اور مشائخ کی مال سے جان سے اور عزت سے خدمت کرنے والے بنے رہو۔ اور ان کے دلوں کا ان کے اوقات کا اور ان کی عادتوں کا خیال رکھو۔ اور ان کی کسی بات پر اعتراض نہ کر وہاں اگر شریعت کے خلاف ہو۔ تو تم اس میں ان کی پیروی مت کرو. اگر تم ان پر اعتراض کرو گے تو کبھی فلاح نہ پاؤ گے ۔ اور لوگوں سے (کچھ) نہ مانگو۔ اور ان سے مقابلہ کرو۔ اور نہ ہی کل کے لیے کوئی چیز بچا کر رکھو۔ اس واسطے که رزق جتنا قسمت میں لکھا ہے ۔ اللہ دے گا ۔ اور اللہ نے تمہیں جو دے رکھا ہے۔ اس میں طبیعت اور دل کے سخی بنو بخل اور حسد سے بچو کہ بخیل اور حاسد دوزخ میں جائیں گے اور اپنا حال (اللہ کے ساتھ) کسی بھی طرح ظاہر نہ کرو۔ اور ظاہر کو مت سنوارو کہ یہ باطن کی ویرانی ہے۔ اور رزق کے معاملہ میں اللہ پر بھروسہ کرو کہ بلا شبہ اللہ  ضامن ہیں ۔ اور جاندار کو روزی دیتے ہیں۔ اللہ تعالے نے فرمایا۔ اور زمین پر کوئی چلنے والا نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اس کی روزی اللہ کے ذمہ ہے ۔ اور ساری مخلوق سے نا امید ہو جاؤ اور ان سے دل نہ لگاؤ۔ اور حق بات کہو اگر چه کڑوی ہو۔ اور ہر معاملہ خالق کے سپرد کرو اور مخلوق میں سے کسی کی طرف مت جھکو۔ ورنہ حق تعالے تمہیں اپنے دروازہ سے دھکیل دیں گے۔ اور اپنی جان کا محاسبہ کیا کرو۔ اس واسطے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں . ایک آدمی کے اسلام کی بہتری بے مطلب کاموں کو چھوڑنا ہے۔ اور ساری مخلوق کے اللہ کے لیے خیر خواہ بن جاؤ۔ کھانا پینا۔ سونا اور بات کم کرو اور مت کھاؤ ۔ مگر فاقہ پر اور مت بات کرو مگر ضرورت سے اور مت سوؤ مگر نیند کے غلبہ پر اور رات کی نماز اور دن کے روزے زیادہ رکھو۔ اور مجلس سماع لوجہ اللہ بھی ہو۔ تو بھی اس میں زیادہ نہ بیٹھو ۔ کہ یہ نفاق پیدا کرتا ہے پھر دل کو مردہ کرتا ہے۔ اور اس کا انکار بھی نہ کرو کہ بعض لوگ اس کے اہل بھی ہیں. اور سماع محض ان کے لیے صحیح ہے جس کا دل زندہ ہو۔ اور اس کا نفس مردہ ہو ۔ اور جو اس حالت پر بھی اس کا بھی روزہ ۔ نماز اور وظائف میں مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے ۔ اور چاہیئے کہ تیرا دل غمگین ہو اور تیرا بدن بیمار ہو، اور تیری آنکھ آنسو بہاتی ہو۔ اور تیرا عمل ریاء سے خالی ہو۔ اور تیری دُعا کوشش سے ہو۔ اور تیرے کپڑے پرزے ہوں۔ اور تیرے رفیق فقیر لوگ ہوں۔ اور تیرا گھر مسجد ہو۔ اور تیری جائیدا دعلم دین ہو۔ اور تیرا سنگھار نہ ہو ۔ اور تیرا مونس رب کریم ہو کسی کو اپنا دینی بھائی نہ بناؤ جب تک تمہیں پانچ عادتیں ظاہر نہ ہو جائیں فقر کو تو نگری پر ترجیح دیتا ہو۔ آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہو۔ عزت پر مسکنت کو ترجیح دیتا ہو۔ باطنی اور ظاہری اعمال میں صاحب نظر ہو، اور مرنے کے لیے تیار ہو۔

اے بیٹے ! دنیا اور اس کی زیبائشوں سے دھوکہ مت کھانا ۔ کہ دنیا ہری بھری ٹھنڈی میٹھی چیز ہے جو اس سے چپٹا۔ وہ اس سے چپٹی ۔ اور جس نے اس کو چھوڑا اس نے اس کو چھوڑ دیا ۔ اور اس واسطے بھی کہ اس کے باقی رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اور رات اور دن اس سے آخرت کی طرف کوچ کرنے کے لیے تیار رہو۔ اے بیٹے ! خلوت نشینی اختیار کرو۔ اور اللہ کے ڈر سے اپنے دل میں اکیلے تنہا اور فکر مند رہو۔ اللہ کی دی ہوئی بزرگیوں کو پہچانو۔ اور دنیا میں مسافر کی طرح رہو ۔ اور اس سے اسی طرح نکل جاؤ . جس طرح اس میں داخل ہوئے تھے۔ کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ قیامت کے دن تمہارا کیا نام (شقی یا سعید) ہوگا ۔ حضرت شیخ رضی اللہ عنہ کی نصیحت اپنے الفاظ شریف کے ساتھ تمام ہوئی ۔ اور یہ ان کے مخلصین د مستفیدین میں جو چاہے ۔ اور ان سے راضی ہو ۔ اس کے لیے موثر و مبلغ ہے ۔ آمین یا رب العالمین۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں