حق تعالی کے علم کی کیفیت مکتوب نمبر 21دفتر سوم

 بعض ان سوالوں کے جواب میں جوضمیروں کے ساتھ حق تعالی کے مشار الیہ ہونے اور زاہدوں کی فضیلت اورحق تعالی کی اپنی ذات کے علم کی کیفیت میں 

کیے گئے تھے۔ میر نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے۔

 اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔

آپ نے پوچھا تھا کہ جب ظلی اشیاء(تمام ممکنات) اپنی ماہیت سے اشیاءنہیں ہیں۔ بلکہ اپنے اصل(حق تعالی) کی ماہیت سے قائم ہیں تو چاہئے کہ اشیاء کا مشار الیہ لفظ هو(وہ) انت(تو) و انا (میں)سے وہی اصل ہو۔ اس وقت بعض ان صفات کا جواس اصل کے نا مناسب ہیں ۔ ضمیروں پرحمل کرنا کسی طرح صادق آتا ہے۔ جیسے کہ آنا اكل(میں کھانے والا ہوں ) وانا نام(میں سونے والا ہوں)۔

(جواب) جاننا چاہئے کہ ظل درحقیقت اگر چہ اپنی اصل سے قائم ہے، لیکن اس ظلیت کا ثبوت خواہ مرتبہ وخیال ہی میں ہو۔ ہمیشہ قائم ہے اور اس کی ظلیت کے احکام کے لیے دوام و بقا ثابت ہےاور خُلِقْتُمْ لِلْاَبَدِ(تم ہمیشہ کیلئے پیدا کئے گئے ہو) اس امر پر گواہ ہے ۔ظلیت کے اعتبار سے ان صفات کاضمیروں پرعمل کرنا جائز ہے کیونکہ وجود کے ہر مرتبہ کاحکم جدا ہے اور جو کچھ خدا میں گم ہے خدانہیں ہے۔ دوسرے آپ نے اس حدیث قدسی کے معنے پو چھے تھے۔ جوز اہدوں کی فضیلت میں وارد ہوئی ہے۔

(جواب) اس حدیث کے لفظی معنے ظاہر ہیں۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے کچھ دورنہیں کہ بعض لوگوں کو اس قسم کے فضائل اور خصائص و کرامات کے ساتھ مخصوص کرے اور ایسے ایسے درجات و مراتب عطا فرمائے کہ دوسرے لوگ رشک کریں اور ان کی گنتی میں جو آپ کا تر دو تھا کوئی تردد کا مقام نہیں ۔ حضرت خیر البشر علی الصلوة والسلام کی امت میں سے بہت سارے لوگ بے حساب بہشت میں جائیں گے۔ چنانچہ حدیث بیع میں آیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمی  بے حساب جنت میں جائیں گے۔ حاضرین نے پوچھا کہ یا رسول اللہ وہ کون لوگ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ هُمُ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (وہ لوگ ہیں جو نہ داغ دیتے ہیں اور نہ افسون پڑھتے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں)

 اس مقام میں سرعظیم ہے جس کا ظاہر کرنا مصلحت سے دور ہے، کیونکہ اکثر لوگوں کےفہم سے بعیدہے۔ اگر ملاقات کا موقع ملا تو یاد دلانا روبرو پھر اس کا بیان کیا جائے گا۔ اس سرکا تھوڑا سا حال دفتر دوم کے مکتوبات میں سے کسی مکتوب(99) میں درج ہو چکا ہے۔ اگرمل سکے تو وہاں سے دیکھ لیں آپ نے یہ بھی پوچھا تھا کہ   حق تعالی کاعلم اپنی ذات کی کُنْہ(ماہیتِ الٰہی جو ادراک سے پرے ہے۔انتہا، غایت) کو محیط ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اگر ہوسکتا ہے تو حق تعالی کامتناہی اور محدود ہونا لازم آئے گا۔

(جواب)جاننا چاہئے کہ علم کی دو قسمیں ہیں ایک حصولی ، دوسری حضوری، محال ہے کہ علم حصولی حق تعالی کی ذات کی کنہ کے متعلق ہو کیونکہ اس سے احاطہ اور تناہی لازم آتی ہے، لیکن جائز ہے کہ حق تعالی کاعلم حضوری حق تعالی کی ذات کی کنہ کے متعلق ہو اور کوئی تناہی لازم نہ آئے۔ والسلام – 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ72 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں