خطرات جن کو دل کے اسباب کہتے ہیں مکتوب نمبر 32دفتر سوم

 اس بیان میں کہ وہ خطرات جن کو دل کے اسباب کہتے ہیں۔تجلی صوری کے اندازہ کے موافق ہیں اور کثرت وہمیہ کی حقیقت کی تحقیق اور اس کے مناسب بیان میں مقصود علی کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔

آپ نے لکھا تھا کہ ایک سالک نے کسی کامل سے پوچھا کہ میں خطرات کے ہجوم سے پریشان ہوں۔ تو اس کامل نے وَهُوَ ‌عَلَى ‌كُلِّ شَيْءٍ ‌مُحِيطٌ (اور وہ ہر شے پر محیط ہے) کے موافق جواب دیا کہ جب مطلوب کا احاطہ وشمول معلوم ہے۔ تو خطرہ کو وصل کے اسباب جاننا چاہیئے۔ نہ فصل کے موجبات سے ہمیشہ مشاہدہ کے دروازہ کو کھلا رکھنا چاہیئے اور غفلت کی کھڑکی کو بند کرنا چاہیئے۔ یہ بات تجلی صوری کے اندازہ کے موافق درست  ہے۔ جو اس راہ کے مقدمات میں سے پہلا مقدمہ ہے۔ اس مقام میں اگر وصل ہے۔ اگرچہ درحقیقت  فصل ہے۔ صورت کے اعتبار سے ہے اور اگر مشاہدہ ہے۔ اگرچہ حقیقت میں مباعده(دوری) ہے۔ وہ بھی صورت کے ملاحظہ سے موجود ہے۔ یہ تجلی اس راہ کے بزرگواروں کے نزدیک اعتبار سے ساقط ہے کیونکہ سالک کے وجود کو فنا کرنے والی نہیں۔ نیز اس تجلے میں  محق  و مبطل یعنی جھوٹے اور سچے شریک ہیں۔ ہندو جوگی اور یونان کے فلسفی بھی اس تجلے سے واقف ہیں اور اس مقام کے علوم و معارف سے محظوظ اور متلذذ ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ یہ دولت سچے کو صفاء قلب کے باعث حاصل ہوتی ہے اور جھوٹے کو صفاء نفس کے سبب سے۔ اسی واسطے وہ ہدایت کی طرف لے جاتی ہے اور  یہ گمراہی کی طرف لیکن دونوں صورت میں گرفتار اورمعنی سے بے خبر ہیں۔ بیت 

. صورت پرست غافل معنی چه داند آخر کو باجمال جاناں پنہاں چہکار دارد 

ترجمه بيت صورت کا جو ہے شیدامعنی کو جانے وہ کیا دلبر کے حسن سے پھر کیا تعلق اس کا

 لیکن سچے کو صورت کے تعلق سے نجات پانے کی امید ہے اور جھوٹا صورت ہی میں ہلاک و فانی رہتا ہے۔ انبیا علیہم الصلوة والسلام کے مذہب کو اختیار کرنے کے بغیر صورت کی گرفتاری سے نجات کا ملنا محال ہے۔ نیز صورت کےتجلے دائرہ علم میں داخل ہے، لیکن جب اس میں حال و ذوق پرتو ڈالتا ہے تو وہ علم سب حا ل ہو جاتا ہے۔ نیز اس تجلے میں مشہود کثرت ہے۔ لیکن وقت کے مظہر ہونے کے طور پر اور کثر ت کا شہود خواہ کسی طور پر ہو۔ وبال در وبال ہے۔ 

چاہیئے کہ باطنی نظر میں کثرت اور شہود(مشاہدہ)  کثرت کا نام ونشان تک نہ رہے اور واحدحقیقی کے سوا کچھ مشہود نہ ہوتا کہ فنا جو اس راہ میں پہلا قدم ہے۔ حاصل ہوجائے۔ کیونکہ فناء سے مراد یہ ہے کہ باطن سے ماسوی اللہ کا نسیان ہو جائے۔ پھر کثرت کی اس جگہ کیا مجال ہوگی اور کثرت کا شہود   وہاں کیا ہوگا اور خطرات کو جووصل کے اسباب اور مشاہدہ کے دروازے کہا ہے اس وصل و مشاہدہ سے مراد صوری وصل و مشاہدہ ہے جو عین مفارقت اور دوری ہے، کیونکہ وہ وصل جواس طائفہ عالیہ کے بزرگواروں کے نزدیک معتبر ہے۔ وہ مقام بقاء باللہ میں حاصل ہوتا ہے جوفناء اور تمام ماسوی کے نسیان کے بعد میسر ہوتا ہے۔ خطرہ کا ہونا اس دولت کے منافی ہے اور وسوسہ کا حاصل  ہونا اس مرتبہ کا مانع ہے۔ مقام فناء میں جو ا س وصل کی دہلیزہے خطرہ اس طرح دور ہوجاتا ہے کہ اگر تکلف کے ساتھ بھی اس کو یاد دلائیں تو اس نسیان کے باعث جو اس کو ماسوی سے حاصل ہو چکا ہے۔ ہر گز اشیاء اس کو یاد نہ آئیں۔ آپ نے لکھا تھا وَهُوَ ‌عَلَى ‌كُلِّ شَيْءٍ ‌مُحِيطٌ (وہ تمام اشیاء پر محیط ہے) احاطہ کا بیان اس عبارت میں نہیں آیا۔ مانا کہ موَلَّدین (وہ عجمی شخص جس نے عرب میں پرورش پائی)کی کلام سے ہے، کیونکہ کلام عجم میں احاطہ کا تعدیہ کلمہ علی کے ساتھ بہت آتا ہے اور عرب کی عبارتوں میں احاطہ کا تعدیہ کلمہ  علی کے ساتھ مشہور ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے۔ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ ‌مُحِيطًا اور جگہ فرماتا ہے۔ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ ‌مُحِيطٌ (اللہ تعالی ہر شے کو محیط ہے) آپ ظاہرا اس عبارت کو قرآن مجید سے خیال کر کے استشهاد کے طور پر لائے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس مطلب کا بیان قرآن مجید میں دوسری عبارتوں کے طور پر ہے۔ جیسے کہ گزر چکانیز آپ نے لکھا تھا کہ کثرت وہمی اور تعدد اعتباری نے اس طرح انبوہ کیا ہے کہ اکثر علماء نے تعدد وجود  سے غلطی میں پڑ کر مغز سے پوست پر اورلب سے قشر پر قناعت کی ہے۔ (اصل چھوڑ نقل کی طرف مائل ہو گئے)

کثرت وتعدد اگرچہ و ہمی اور اعتباری ہے۔ لیکن چونکہ حق تعالی کی صنع و ایجاد سے پیدا ہوا ہے اس لیے مضبوط اورمستحکم ہے اور دنیا و آخرت کا معاملہ اسی پر وابستہ ہے اور آثار خارجیہ اسی پر مرتب ہیں۔ وہم واعتبار ہر چند اٹھ جائے، لیکن اس کثرت وتعددکا اٹھ جانا ممنوع اور نا ممکن ہے، کیونکہ آخرت کا دائمی عذاب و ثواب جس کی نسبت مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے خبردی ہے۔ اسی کثرت وتعدد پر موقوف ہے۔ اس کثرت وتعدد کے اٹھ جانے کا حکم کرنا الحاد و زندقہ میں داخل ہے۔ نعود بالله من ذلک پھر صوفياء عالیہ اور علماء کرام دونوں اس کثرت وتعدد کے ثبوت اور استمرار کے قائل ہیں اور آخرت کا دائمی معامله اسی پرمنحصر جانتے ہیں، لیکن عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے)  کے وقت یہ کثرت چونکہ صوفیاء کے شہود(مشاہدہ)  سے مرتفع ہو جاتی ہے اس لیے اس کو وہمی اور اعتباری معلوم کرتے ہیں اور چونکہ نفس امر میں مرتفع نہیں ہوتی۔ اگرچہ  شہود سے مرتفع ہو جاتی ہے۔ اس لیے علماء اس کو موجود جانتے ہیں۔ پس دونوں گروہوں کا معنی میں اتفاق ہے اور نزاع لفظ کی طرف راجع ہے۔ ہر ایک گروہ نے اپنی اپنی دریافت کے اندازہ کے موافق حکم کیا ہے۔ صوفياء نے شہود کا اعتبار کیا ہے اور شہودی ارتفاع کا لحاظ کر کے اس کے وہمی اور اعتباری ہونے کا حکم کیا ہے اور علماء نے اس کےنفس امری ثبوت و استقرار کا لحاظ کر کے اس کے وجود کا حکم فرمایا ہے وَلِكُلٍّ ‌وِجْهَةٌ ہر ایک کے لیے ایک جہت ہے اس مضمون کو اس فقیر نے اپنے مکتوبات اور رسائل میں مفصل طور پر بیان کیا ہے اور فریقین کے نزاع کو لفظ کی طرف راجع کیا ہے۔ اگر کوئی امر پوشیدہ رہ جائے تو وہاں سے دیکھ لیں۔ علماء کی نظر صواب کے نزدیک اورنفس امر کے مطابق ہے اور صوفیاء کی نظر شکر اور غلبہ حال کے اعتبار سے ہے۔ ستارے دن میں پوشیدہ ہیں ونفس امر میں ثابت ہیں اور شہود(مشاہدہ)  سے چھپے ہوئے ہیں۔ ستاروں کے ثبوت کا حکم کرنا بہت ہی بہتر ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ ان کے عدم شہود(مشاہدہ)  کو ملاحظہ کر کے ستاروں کے نہ ہونے کا حکم کریں۔ علماء جو وجود کثرت کے قائل ہیں ان کا مقصود شریعت کا باقی رکھتا ہے۔ جس کی بناتعدد پر ہے اور صاحب شریعت کے وعدہ وعید کا جاری کرنا کثرت کے بغیرمتصورنہیں۔ صوفیاء بھی اس بات کو مانتے ہیں۔ اگر چہ تکلف کے ساتھ اس کو شریعت کے مطابق کرتے ہیں، لیکن جو کچھ علماء نے فرمایا ہے بے تکلف صادق اور بغیر حیلہ کے مطابق ہے اس میں کسی قسم کا غبار اور کدورت نہیں اور علماء مستقل اور دائمی وجود ثابت نہیں کرتے جس میں اعتراض کی گنجائش ہو اور واجب کے ساتھ شریک ہو۔ بلکہ ایک وجودضعیف ثابت کرتے ہیں۔ جو دوسرے سے عاریت کے طور پر ملا ہوا ہے۔ اس بات سے علماء کو جو دین کے بزرگوار ہیں۔ خطا کی طرف منسوب کرنا اورغلطی کی نسبت دینا سراسرغلطی اورمحض خطا ہے۔ ہم پیچھے رہنے والوں نے دین و شریعت کو علماء ہی سے حاصل کیا ہے اور مذہب و ملت کو انہی کے برکات سے اخذ کیا ہے۔ اگر ان میں طعن کی گنجائش ہو تو شریعت اور ملت سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اسی واسطے علماء نے سلف کے بزرگواروں پرطعن لگانے والے کو گمراہ اور بدعتی کہا ہے اور اس کے طعن کو دین میں گمراہ اور شک کے اسباب سے جان کر اس کے باطل ہونے کا حکم کیا ہے۔ آپ نے یہ بھی لکھا تھا کہ علماء نے مغزے پوست پر قناعت کی ہے۔ بیشک آپ نے صورتوں کو مغزخیال کیا ہے اورتنزیہ کو پوست۔ کیونکہ علماء کی دعوت اور گرفتاری تنزیہ کے ساتھ ہے اورتجلی صوری والوں کا مطلوب اورمشہود صورتیں او شکلیں ہیں۔ پھر انصاف کرنا چاہیئے کہ مغز کا گرفتار کون ہے اور پوست کامبتلا کون۔ وَإِنَّا ‌أَوْ ‌إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (ہم ہدایت پر ہیں یا تم اور ہم گمراہ ہیں یاتم) رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا ‌رَشَدًا  (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور سارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر) والسلام اولا و اخرا.

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ110ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں