رسالہ حورائیہ حضرت مولانا یعقوب چرخی

رسالہ حورائیہ حضرت مولانا یعقوب چرخی

رسالہ حورائیہ جسے رسالہ جمالیہ بھی کہا جاتاہے

بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

اللہ تعالی کی بہت زیادہ تعریف اور بے شمار ستائش جس نے انبیاء اور اولیاء  کے دلوں کو. صفات جلالیہ اور جمالیہ کا مظاہر بنایا اور رسولوں اور نبیوں کے پیشوا، بہت ہی درست رستے کے ہادی اور برگزیدہ ہستیوں کے آفتاب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر درود و سلام ہو اور آپ ﷺکی آل کرام اور اصحاب عظام ( رضوان اللہ علیم اجمعین ) جو نُجُومُ اهْتَدَى ”  (ہدایت کے ستارے) ہیں ، پر بھی ہو اور عام طور پر امت کے تمام علماء اور اولیاء پر رحمت اور بخشش ہو اور خاص کر واصلین کے قطب، عارفوں کے پیشوا اور محققین کے علوم کے وارث ، اس فقیر کے شیخ حضرت خواجہ بہاء الحق والدین ، البخاری المعروف بہ نقشبند، آپ کے خلفائے عظام ، احباب اور اصحاب پر قیامت کے دن تک (اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش )  ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالی کی رحمت کا اُمید وار یہ ضعیف بندہ یعقوب بن عثمان الغزنوی ثم الچرخى بَصَّرَهُ الله تَعَالٰی بِعُيُوبِ نَفْسِهِ  کہتا ہے کہ ایک سچے درویش اور گہرے دوست نے درخواست کی کہ ایک رباعی جو قطبوں کے قطب ،اہل عقل کے پیشوا، حقائق کی جانب خلقت کے مرشد ، صفات ربانی کے مظہر، اسرار الوہیت کے کشف کرنے والے حضرت ابی سعید  بن ابی الخیر قدس اللہ تعالی سرہ العزیز  کی طرف منسوب ہے، کے معنی بیان کیے جائیں ۔ ( لہذا اس فقیر نے ) ان کی خواہش کو قبول کرتے ہوئے یہ چند سطریں مختصر طور پر (اس رباعی کی شرع  میں ) بھی ہیں ۔ وباللَّهِ التَّوْفِيقِ وَ مِنْهُ الْإِسْتَعَانَةُ

رباعی

حوراء بنظاره نگارم صف زد                                               رضوان از تعجب کف خود برکف زد

آن خال سیه بران رخان مطرف زد                                     ابدال زبیم چنگ در مصحف زد

  ترجمہ حسیں آنکھ (والی حوروں ) نے میرے محبوب کے نظارہ کی خاطر صف بنائی،رضوان نے تعجب سے اپنی تھیلی کو تھیلی پر دے مارا۔اس پر اس سیاہ تل نے چہرے پر چادر ڈال لی اور ابدال نے چنگل سے ڈر کر (اپنی)  صورت کو بدل ڈالا۔

جاننا چاہیے کہ اس رباعی میں اللہ تعالی کے جمال و جلال کی صفت کی جانب اشارہ ہے۔ اس رباعی میں ایک ایسا راز (اثر ) ہے کہ اگر کوئی آدمی بیمار کے سرہانے ، شرائط کے مطابق اس کو  پڑھے تو دو بیمار صحت یاب ہو جائے ۔ إِنْ شَاءَ اللهُ تعالی۔

جانا چاہیے کہ اگر چہ اللہ تعالی کی صفات ( بہت زیادہ ہیں، لیکن ( ان صفات میں صفت ) جمال و جلال کو سب پر فوقیت حاصل ہے اور ذی الجلال والإكرام “ میں اس صفت کی طرف اشارہ ہے۔ سورۃ فاتحہ انہیں دو صفات کی حامل ہے۔

بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ – سب تعریف اور ستائش کے لائق وہ  پروردگار عالم اور (سب) جہانوں کا پالنے والا ہے، جس کے کرم سے دشمن بھی دوست کی طرح پرورش پاتا ہے۔

الرحمن ، اس جہاں (دنیا) میں مومنوں اور کافروں کو بہت ہی زیادہ بخشنے والا ۔ الرحيم – اس جہان (آخرت) میں اپنے دوستوں کو ہمیشہ کے لئے بہشت جاوداں عطا کرنے والا  – مالک یوم الدین  روز جزا (قیامت) کا بادشاہ ۔ دوستوں کو رزق اور جنت عطا کرنے والا اور دشمنوں کو مایوسی اور آتش (جہنم) سے ہمکنار کرنے والا ۔

حورا بنظارہ نگارم صفت رو۔ یعنی حوریں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت ہی زیادہ حسین ( حسن ) عطا کیا ہے اور ان کی تعریف میں کہا کہ فیهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ یعنی وہ حوریں نیک سیرت اور خوبصورت ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ” اگر اس جہاں کی اندھیری رات میں (جنت کی ) ایک حور ( کے تن سے ) قلامہ ، یعنی ناخن کی وہ زیادتی جو اس سے تراشی جاتی ہے، جتنا حصہ لے آئیں تو ساری دنیا ( اس سے ) روشن ہو جائے گی ۔ اس قدر حسن و جمال رکھتے ہوئے بھی وہ ( حوریں ) اگر اللہ تعالیٰ کی تجلیات سے ایک ذرے کا نظارہ کریں تو متحیر اور حیران ہو جا ئیں اور خود مظاہر انوار ( نور کے جلوہ ) ہونے کے باوجود بے ہوش  اور مدہوش ہو جائیں۔

ع۔ اے تابش نور از تو والے نازش حور از تو

ترجمہ: اے وہ ہستی کہ نور کی چمک تیری قدرت سے ہے اور حور کا ناز بھی تیرے کرم و عطا سے ہے۔ رضوان جو جنت کا مالک ( موکل و دربان ) ہے اور ہمیشہ جنت کی حوروں، باغوں اور گلزاروں کے نظارے سے مشرف ہے، وہ بھی اس نور ( تجلی الہی ) کے جلوے پر متحیر اور حیران ہو جائے۔ حضرت مصطفی ﷺ کی حدیث میں آیا ہے: حِجَابُهُ النُّورُ وَلَوْ كَشَفَ حجابة لا حترقت سُبْحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ ( یعنی: اس کا پردہ نور ہے، اگر اس کے پردے اٹھ جائیں تو اس کے چہرے کی تابناکیاں جل جائیں ، اس کے بندوں کی آنکھوں کی کیا بساط ہے۔) ۔ یعنی الله تبارک و تعالی کا حجاب نور ہے ( کیونکہ آیا ہے ) سُبْحانَ مَنِ احْتَجَبَ بِالنُّورِ عَنِ الظُّهُورِ وَالظُّهُورِ عَنِ الظُّهُورِ ( یعنی پاکی ہے اس ذات کے لئے (کہ جس کا نور حجاب میں ) نور ظہور سے ہے اور ظہورظہورہی سے ہے)

بيت

غرق آبیم و آب می طلبیم                                                 در وصالیم و بی خبر ز وصال

ترجمہ: ہم پانی میں غرق ہیں اور پانی مانگ رہے ہیں۔ ہم وصال میں ہیں اور ( لذت ) وصال سے بے خبر ہیں۔

اگر وہ نورانی حجاب اٹھایا جائے تو ظہور اور نور میں سے جس چیز پر ( بھی اس کا جمال ) پڑے ، وہ جل جائے۔ پس اگر حوریں اور رضوان اس نور میں سے ایک ذرے کا بھی نظارہ کریں تو ان کا بھی یہی حال ہو جائے ۔ اگر وہ کمال تک رسائی حاصل کر لیں تو بھی جل جائیں، جیسا کہ آنحضرت ﷺ کی حدیث میں آیا ہے، لیکن مخصوص انبیاء کی ایک جماعت ہے جو عنایت از لی کے طفیل اس جمال با کمال ( کی زیارت) سے مشرف ہوئی ہے۔ ( وہ سب زیارت کا شرف پاتے وقت ) بیخود ہوئے ہیں اور ان سے سوائے ان کے نام کے کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ وہ فنا فی اللہ اور باقی باللہ تھے اور یہ درجہ سوائے بنی نوع انسان کے کسی اور کو میسر نہیں ہوتا، کیونکہ وہ وَ نَفَخْتُ فيه من روحی (اور میں اس میں اپنی روح پھونکوں) سے مشرف ہوئے ہیں۔ (اور ایسا ہی آیا ہے کہ  وَلَا تَحْمَلُ عَطَايَا الملک الا مطايا الملک (بادشاہ کی عطا کو کوئی نہیں اٹھا سکتا، جب تک کہ بادشاہ خود اس کی توفیق نہ دے) جیسے کہ عارف رومی  کہتے ہیں، بیت :

چون روح در انظاره فنا گشت این بگفت                                   نظارة جمال خدا جز خدا نکرد

نامی است زمن برمن و باقی همه اوست

ترجمہ : جب روح فنا کے نظارہ میں ( محو ہوئی تو کہنے لگی: خدا کے جمال کا نظارہ خدا کےسواکسی نے نہیں کیا۔

ایک نام ہے مجھ سے مجھ پر اور باقی سب وہی ہے۔

یہ مصرع یعنی حور انظارہ نگارم صف زد ” الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ کے معنی کی طرف اشارہ ہے۔ وَاللهُ أَعْلَمُ ۔

آن خال سیه بران رخان مطرف زد . یعنی صفت جلال جو نسبت جمال سے حسینوں کے رخسار پر تل کی مانند ہے۔ وہ اس کی قلت اور اس کی کثرت کے باوجود ظاہر ہوئی ہے ۔

جیسے کہ حدیث قدسی میں آیا ہے ” سَبَقَتْ ‌رَحْمَتِي غَضَبِي اور اس میں مالِكِ يَوْمِ الدِّينِ “  کے معنی کی طرف اشارہ ہے جو اس کے ضمن میں سمجھ میں آتا ہے۔ دوستوں پر لطف اوردشمنوں پر قہر کرنا ( صفت جلال میں سے ہے ) اور یہ صفت جلال میں سے اس صفت جمال کی نسبت بہت ہی کم ہے جو ان چار اسماء باری تعالیٰ اللهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ “ کے ضمن میں عقل میں آتا ہے۔

ابدال اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں، جن کی بشریت اس صفت جلال سے اس کی قلت کے باوجود خوفزدہ ہو کر ملکیت اور ناسوتیت میں تبدیل ہو گئی ہے ۔ وہ عالم تقلید میں بھاگ آئے ہیں اور انہوں نے ظاہری استقامت کو اپنا شعار بنالیا ہے۔ وہ مکاشفات، مشاہدات اور آلاإِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ  کا شرف پانے کے بعد نفس امارہ کی صفت بالسو (۲۲)، جو قہر الوہیت کی مظہر ہے، سے بھی رہائی حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نےحبل متین  جو قرآن مجید ہے، کو مضبوطی سے پکڑ لیا ہے اور اسے اپنا پیشوائے مطلق اور راہنمائے حق سمجھ لیا ہے۔ حکیم سنائی غزنوی فرماتے ہیں، بیت:

اول و آخر قرآن زچہ ”بی آمدو ”سین                                   یعنی اندرره دین رہبر تو قرآن بس

ترجمه قرآن مجید کے شروع اور آخر میں ”ب“ اور ”س“ کیوں آئی ہے؟ (اس لئے  کہ ) یعنی دین کے راستے میں تیری راہنمائی کے قرآن کافی ہے۔

یہ ابدال خود بھی ) ہمیشہ کتاب وسنت پر قائم رہے اور انہوں نے (لوگوں کو بھی اس کی ) تبلیغ فرمائی ہے۔

سنائی کہتے ہیں، بیت:

گرد قرآن گرد زانکه هر که در قرآن گرفت

 آن جہاں رست از عقوبت این جهان رست از فتن

گرد نعل اسپ سلطان شریعت سرمه کن

تا شود نور الہی با دو چشمت مقترن

مژه در چشم سنائی چون سنانی باد تیز

گر زمانی زندگی خواہد سنائی بے سفن

ترجمه تو قرآن (مجید) کے گر گھوم، کیونکہ جس نے قرآن ( مجید ) سے ہدایت حاصل کی، وہ اس جہان ( آخرت ) میں عذاب سے بچ گیا ( اور ) اس جہان ( دنیا) میں فتنوں سے محفوظ رہا۔

تو شریعت کے بادشاہ ( حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ) کے گھوڑوں کے سموں کی گرد کا سرمہ بنا، تا کہ نو ر الہی تیری دونوں آنکھوں کو نصیب ہو جائے ۔ سنائی کی آنکھ میں پلک تیر کی مانند تیز ہو جائے ، اگر وہ زندگی کا ایک لمحہ بھی ( نبی اکرم ﷺ کی سنت کے بغیر زندہ رہنا چاہے۔

ابدال زیم چنگ در مصحف زد ( اس میں ) ایاکَ نَعْبُدُ  سے لے کر آخر سورة  الفاتحہ کے معنی کی طرف اشارہ ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالَی اَعْلَمُ ۔ یعنی ہم تیری بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہم مکاشفات ، مشاہدات اور صفات کے مظاہر ہونے کے بعد ( تیرے آگے ) دم نہیں مارتے اور سردار الانبیا ﷺ کی اقتدا کرتے ہیں، کیونکہ تیرے بندے اور رسول ﷺ نے فرمایا ہے : ” کمال عبودیت کو اپنا شعار بنانا ۔ ہر چنداللہ تعالی کی بے حد عنایت ہے ( پھر بھی ) ادب کا تقاضا ( کیا گیا) ہے۔جیسا کہ کہا گیا ہے:  کن عبد رَبِّ وَلَا تَكُن رَبِّ عَبْدِهِ ۔ (رب کا بندہ بن جا کسی بندے کا رب نہ بن )جب کتاب وسنت کے مضبوط حلقے کو مضبوطی سے پکڑا جائے تو ظاہری اور باطنی  دشمنوں سے خوف و خطرہ نہیں رہتا( جیسے ارشاد باری تعالی ہے)

وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حسبة –

رباعی

ز آنجا که جمال و جاه جانانه ماست                                         عالم همه در پناه جانانه ماست

مارا چه از آنکه عالمی خصم شوند                                            پیش و پس ما سیاه جانانه ماست

ترجمہ جہاں بھی ہمارے محبوب (اللہ کریم) کے جمال و جاہ کا سایہ ہے، ( وہاں ) ساری  دنیا ہمارے محبوب ( اللہ کریم ) کی پناہ میں ہے۔

ہمیں اس سے کیا، خواہ سارا جہان ہمارا دشمن ہو جائے ، ( کیونکہ ) ہمارے آگے اور پیچھے  ہمارے محبوب (اللہ کریم ) فوج ہے۔

لَهُ مُعَفَتٌ مَنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفِظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ

میں اس کی طرف اشارہ ہے۔

اهدنا الصراط المستقيم ۔ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ یعنی جو رستہ تو نے ہمیں دکھایا ہے ، اس پر ہمیں استقامت اور پائیداری کے ساتھ گامزن رکھ، جب تو نے ہمیں اپنی عنایت  اورعلت (محض فضل ) سے برگزیدہ کیا ہے اور (اپنا) عزیز بنایا ہے تو ( اب ہمیں کبھی ) رسوامت کر

صاحب وقوف قرآن عین المعانی قدس سرہ نے اھدنا کے معنی میں فرمایا ہے

اى اهْدِ قُلُوبِنَا إِلَيْكَ وَاقِمُ هَمَمْنَا بَيْنَ يَدَيْكَ وَكُنْ دليلنا منک علیک صراطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمُ ۔

یعنی: (اے اللہ!) ہمارے کو ہدایت عطا فرما اپنی طرف سے اور قائم رکھ ہماری ہمتوں کو  اپنے دست قدرت میں اور ہمارے لیے دلیل بنا اپنی طرف سے اپنے (ہی ) واسطے۔

تو ہمیں ) ان لوگوں کے راستے پر چلا ، جن پر تو نے انعام کیا ہے۔ یعنی جن کو تو نے قرآن ایمان ، عرفان، سرور انبیاء ﷺ کی پیروی ( آپﷺ کے دوستوں اور دوسرے صالحین کی محبت اور اس ( دنیا) اور اس جہان ( آخرت ) کی نعمت عطا فرمائی ہے۔

غيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ  ۔ ہمیں راہ راست پانے کے بعد ان لوگوں کے نقش  قدم پر نہ چلا، جن پر تیرا غضب ہوا۔ جیسے یہودیوں پر، تیر اغضب ہوا ، وَلَا الصَّالِينَ  اور نہ ہمیں جنت کی حقیقت سے آگاہ ہونے ، عالم ایقان کے وصول اور اپنی رحمان و رحیم صفات کے  مشاہدات کرانے کے بعد ان لوگوں کے راستہ پر چلا، جو گمراہ ہو گئے ہیں۔ جیسے عیسائی گمراہ ہو چکے ہیں ۔ آمین ۔ ایسا ہی ہو۔ یعنی جو کچھ ہم نے تجھ سے مانگا ہے ( وہ ہمیں ) عطا فرما اور اس پر ثابت قدم رکھ  تا کہ ہم ایسی تربیت حاصل کر لیں ۔ ہمیں قیامت میں ایسی رحمت نصیب ہو جائے اور ہمیں عبادت و استقامت کی توفیق مل جائے ۔ ہم ہدایت کا وجدان پالیں اور اس پر قائم رہیں کیونکہ تیرے غضب، گمراہی اور رسوائی کا خوف تیری بے نیاز ذات اقدس کے علاوہ کہیں سے میسر نہیں ہو سکتا، کیونکہ سب کچھ تجھی سے (نصیب ہوتا ) ہے تو ہمیں ہمارا مطلوب ہمارے باطنی حالات کی پاکیزگی کے ذریعے نصیب فرما اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ فرما، کیونکہ تمام عارفوں کا یہی مطلوب ہے۔ حکیم سنائی کہتے ہیں،

بیت

بردر میدان الا الله بتیغ لا اله                                             ہر قرینی کان غیر الله قربان داشتن

چون جمال زخم چوگان دیده شد در دست دوست                      خویشتن را پائے کو ہان گوی میدان داشتن

چون زداست دوست خوردی یک مزاق از جام جان                  لقمه بل را و جلوه هر دو یکسان داشتن

 میدان الا اللہ کے دروازے پر لا الہ کی تلوار سے، اللہ کے سوا جو دوست (بھی) ہوا سے قربان کر دینا۔

جب چوگان کے زخم کا جمال دوست کے ہاتھ میں دیکھ لیا تو (اب ) خود کو نچاتے ہوئے گو کی مانند میدان کی طرف چلتے رہنا۔

جب تو نے دوست کے ہاتھہ سے جام محبت کا گھونٹ چکھ لیا ہے تو پھر ) کڑوے اور میٹھے دونوں لقموں کو یکساں سمجھنا۔

تمت الرسالة الجمالية بعوْنِ اللَّهِ تَعَالَى ذِي الْفَضْلِ وَالْعَظْمَةِ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف مذکور کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور ہماری اس ادنی کاوش کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائیں ،اور سب مسلمانوں کے لئے اس کو دنیاو آخرت کی صلاح وفلاح کا ذریعہ بنائیں ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں