رسالہ در آداب طریقت ۔ خواجہ یوسف ہمدانی

رسالہ در آداب طریقت

تصنیف عالم ربانی حضرت خواجہ یوسف ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ  

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

جو مرید اپنے پیر کی صحبت سے محروم ہو، اسے چاہئے کہ وہ روزانہ گر وہ صوفياء کے ملفوظات مقدسہ میں سے آٹھ (8) اوراق مطالعہ کیا کرے تا کہ وہ ملفوظات اس کے دل کی حیات کا سبب بن جائیں۔ (سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی   ارشاد فرماتے ہیں ۔ الحكايات جند من جنود الله يقوى بها قلوب المریدین (رسال قشیریہ) یعنی مشائخ کرام کی حکایات و ملفوظات خدائی لشکر ہیں جن سے مریدوں کے دل قوی ہوجاتے ہیں۔ )پس اسے چاہئے کہ اپنے طور طریقوں کی بنیاد چار ارکان پر رکھے ۔

رکن اول

ریاضت نفس ہے جس کی تفصیل طویل ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ اس کا

خوردونوش ، نیند اور لباس بقدر حاجت ہو، نہ کہ بقدرشہوت۔ اگر اسے روزانہ ایک بارکھانا کفایت کرے تو دوبارہ ہرگز نہ کھائے اور اگر کھانا بقدر کفایت ہو تو سیر ہو کر نہ کھائے ۔ بھوک اصل عظیم ہے جو مرید اپنی روش کو اس اصول کے مطابق نہیں کرتا ، غالب ہے کہ وہ عالم بالا سے عالم اسفل میں آ گرے اور تباہ و برباد ہو جائے ۔ جب تک نفس اماره مطیع نہیں ہو جاتا، شیطان دور نہیں ہو جاتا، دنیاوی خیال اس کی نگاہوں سےمحو نہیں ہو جاتا اور نفسانی خواہشات کاا مالہ (مائل یا منتقل کرنا)نہیں ہو جاتا اسے گو ہر مقصود نہیں مل سکتا۔ جب تک سالک طویل مدت بھوک کو اپنا پیشہ اور حرفہ(ہنر، مشغلہ) نہیں بناتا، یہ مذکورہ معانی اے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے۔

  دوسری ریاضت ،عزلت ہے۔ اس کی شرائط بہت ہیں جن کی شرح کا یہ رسالہ متحمل نہیں ہے۔ خلوت گزینی اور عزلت نشینی مبارک ہے۔ اس کے ثمرات میں سے ایک قلبی نگاه داشت ہےلہذاقلبی جمعیت ،خلوت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔

ریاضت کی دیگر اقسام میں سے ایک قسم کم خوابی ہے۔ کیونکہ نیند کو ضائع کرتی ہے، جسم کو سست کرتی ہے اور نشاط کار(قلبی اطمینان) کوختم کر دیتی ہے۔ حضرت امام غزالی  نے ارشاد فر مایا:

مرید کو چاہئے کہ وہ دن رات میں آٹھ گھنٹوں سے زیادہ نہ سوئے ۔جس شخص نے ایسا کیا اس کی تہائی عمر ضائع ہوگی ، بس یہی کافی ہے کہ اس کی عمرعزیز کا تہائی حصہ ہی ضائع ہو ۔ وہ خوردن اور خفتن ( کھانا پینا اور سونا) جو شرائط کے ساتھ ہوں کم تر نقصان رکھتے ہیں ۔

اس کی شرائط بہت ہیں ۔ اول درجہ یہ ہے کہ خوردونوش کی حاجت ہو ۔ بھوک کے وقت با طہارت ہو ، ایک برتن میں برادران طریقت سے مل کر کھائے لقمہ چھوٹا

لے ۔ کھانا باشرہ نہ ہو ۔ کوئی لقمہ ذکر کے بغیر نہ کھائے اور ہاتھ منہ دھونا ہر حال میں پیش نظر رکھے۔

مرید کو سوتے وقت چاہئے کہ وہ با طہارت (باوضو ) ہو ، معدہ پرنہ ہو، سوتے وقت ماثورہ دعا ئیں جو قرآن وحدیث میں آئی ہیں، پڑھے ۔ درود وسلام پڑھتا اور ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ اسے نیند آجائے ۔ جب بیدار ہو کر اٹھے تو پہلے ذکر کرے ،

دوم طہارت (غسل وضو) کرے،

 سوم ……..نماز ادا کرے نیز کوشش کرے کہ طلوع آفتاب تک نہ سوئے۔

 رکن دوم

یہ ہے کہ مرید کو چاہئے کہ اس کا لقمہ اور لباس رزق حلال کے ہو کیونکہ لقمہ

رزق مشکوک ومشتبہ کے قبیل سے ہوجاتا ہے۔ جبکہ الله تعالی نے كُلُوا مِنَ ‌الطَّيِّبَاتِ کے مطابق حلال کمائی سے طیب و پا کیزہ کھانے کا حکم دیا ہے۔

کسی شخص نے حضرت ابوعبدالله بن سالم بصری   سے سوال کیا ، کیا ہم کسب رزق کی عبادت میں مشغول رہیں یا توکل اختیار کریں ؟ انہوں نے فرمایا توکل رسول اللہ کا حال ہے اور کسب رزق رسول اللہ کی سنت ہے ۔کسب رزق کی سنت توکل سے عاجز ضعیف الحال کے لئے قائم کی گئی ۔ سو اس کیلئے طلب معاش وکسب جائز ہے تا کہ وہ سنت کے درجہ سے نہ گرے جس طرح کہ درجہ حال سے ساقط ہو گیا ہے جس بندہ مومن کو توکل کا حال ملا ہو اس کے لئے حال کی وجہ سے کسب رزق مباح نہیں کہ کہیں کسب پر ہی اعتماد نہ کر بیٹھے البتہ کسب معاونت اس کیلئے جائز ہے۔ :

 جس خوش بخت کو توكل على اللہ کی نعمت عظمی نصیب ہوتی ہے اللہ تعالی نورحکمت کی بدولت اسے ایسا قلبی سکون وقرار عطا فرماتا ہے کہ اس کی ہر حاجت کی ایسی سبیل پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ۔ آیات کریمہ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ اور وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا  وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ میں حال توکل کا ہی بیان ہے بذریعہ توکل حاصل ہونے والی فتوحات (رزق وغیرہ) طیب ہی ہوتی ہیں کیونکہ طیب کے خزانوں سے آتی ہیں ۔ سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی   سے لوگوں نے دریافت کیا کہ ظاہر میں تو آپ کوئی کام و کسب نہیں کرتے پھر کھاتے کہاں سے ہیں؟ فرمایا: میرا خدا تو کتے اور خنزیر کو بھی رزق دیتا ہے کیا یہ سمجھتے ہو کہ بایزید کونہ دے گا ۔ اہل اللہ فرماتے ہیں رزق العوام في يمينهم ورزق الخواص في يقينهم عوام کا رزق ان کے ہاتھ میں ہے اور خواص کا رزق ان کے یقین میں ہے۔

بارگاہ ربوبیت میں وہی اعمال صالحہ شرف قبولیت پاتے ہیں جن کا صدور رزق حلال کے باعث ہوتا ہے خصوصا نماز میں حضور ، وقوف و آگاہی سے کھائے ہوئے رزق حلال سے ہی ملتا ہے بلکہ عارف باللہ خواجہ باقی باللہ دہلوی  فرماتے ہیں ایسا کرنے سے تو ذکر وفکر کی بھی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔ حضرت مولانا روم نے خوب کہا۔

علم و حکمت زاید از نان حلال عشق و رقت آید از نان حلال

  حرام سے نوردل حاصل نہیں ہوتا اور حرام لباس سے قلبی صفائی اور عبادت کی لذت صورت نہیں پکڑتی۔ حضرت شیخ جنید قدس سرہ  کہتے ہیں: بقاء الطعم والمسکن يصلح الأمرکلہ

خوراک اور رہائش کی پاکیزگی سے تمام معاملات درست ہو جاتے ہیں۔

یہ بات اس لئے کہتے ہیں کہ راہ حق کے مرید اور راہ آخرت کے مسافر کو مشغولیات سے فراغت اور آزادی زیادہ ملے تو وہ تھوڑے مال کو پسند کرے گا ۔ آدمی کے لئے لباس، خوراک اور رہائش تینوں چیزیں ضروری ہیں ۔ جب یہ تینوں چیزیں پاک اور حلال ہوں گی تو اس کے تمام کام نیک ہوں گے۔

جس طرح حرام اور گناہ سے احتیاط اور پرہیز واجب ہے اس طرح حرام  خوروں اور فاسقوں کی صحبت ومجالست سے اجتناب کرنا چاہئے بلکہ جوشخص راہ ر است پر ہیں اور تیری راہ پر گامزن نہیں ہے اس سے دور رہنا چاہئے ۔ کیونکہ سالک کو کوئی چیز  راہ راست سے اتنا گمراہ نہیں کرتی جتنا نا اہل کی صحبت اسے جاده حق سے بھٹکاتی ہے۔

یہ معنی عیاں، ظاہر اور واضح ہے کہ جوشخص جاده شریعت پر گامزن نہیں ہوتا وہ شیطان کا پیروکار ہے۔ اگرچہ روز انہ اس سے ہزار کرامات ظاہر ہوں اور جو خلاف سنت کسی چیز کا اعتقاد رکھتا ہے وہ راہزن ہے۔ اگر چہ دنیا کے علوم کا حافظ ہو۔

رکن سوم

مجاہدہ ہے، مجاہد و دشمنان باطن کے خلاف جنگ ہے یعنی شیطان دنیا اور نفس امارہ ۔ جان لیجئے اک نفس، شیطان اور دنیا بندہ کے اختیار و ارادت کی راہ گذر پر (گھات لگائے بیٹھے ہیں ۔ اسے راہ دین سے بھٹکاتے ہیں ، شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے اور معصیت پرابھارتا ہے۔ نفس مکر کرتا ہے اور معصیت کا حکم دیتا ہے۔ دنیا اپنے آپ کو تیری نظر میں آراستہ کرتی ہے اور اپنی طرف دعوت دیتی ہے۔

مجاہدہ یہ ہے کہ سالک اپنے دل کے دروازے جو اختیار وارادت کامحل ہے، پر بیٹھے اور نگہبانی کرتا رہے کہ اس کے دل میں کیا آتا ہے۔ اگر معصیت کا خطرہ ہے تو  جان لے کہ اسے شیطان لایا ہے، اسے دفع کرنے میں مشغول ہو جائے اس کے دفع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ حریم حق میں صدق نیت اور حضور قلب سے التجا کرے۔ وہاں سے خطرہ معصیت کو جھٹک دے اور درگا ہ حق و جل سلطانہ کی استعانت کو ڈھال بنائے اور شیطان کے مقابلے میں ڈٹ جائے یہاں تک کہ وہ دفع ہو جائے۔

اگر سالک کے دل میں خاطر شہوانی ہے کہ جس میں نفس کی راحت و چاہت ہے پھر بھی درگاہ حق (جل جلالہ ) کی طرف متوجہ ہو اور اپنے نفس کو رنج پہنچائے جیسے بھوک اور شب بیداری یا سفر خیر میں پیدل چلنا یا لوگوں کے ہجوم میں ایسا کام کرنا جس سے نفس کو عار نفرت اورشکستگی ہو۔ جب تونے دشمن کو ضعیف کر دیا اور اس سے اسلحہ چھین لیا تو اس سے جنگ کرنا آسان تر ہوگیا۔

سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی  کی خدمت میں لوگوں نے  عرض کیا۔ سب سے بڑی بلا جوحق تعالی نے راہ سلوک میں آپ پرڈالی، کیاتھی؟ ارشاد فرمایا ……. اگر میں بیان کروں تو تم اسے سننے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ لوگ عرض گذار ہوئے سب سے چھوٹی بلاکیاتھی؟ فرمایا تم میں طاقت شنید نہیں ہے۔ کسی نے کہا سب سے چھوٹی بلا ( تكليف ) جو آپ نے خود کو دی…….. وہ کیاتھی؟ فرمایا کہ میں نے اپنے نفس سے اطاعت طلب کی تو اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو میں نے سال بھر اس سے پانی کو روکے رکھا۔ (یعنی پانی نہیں پیا)

مشائخ کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو اپنے نفس پر شفاعت کنندہ لے آئے مگر خودکار خیر بجانہ لائے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ وہ قبول ہوگا۔

بھوک اور شرعی ضرورت سے زائد کو برہنہ رکھنے سے تمام مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ ماحاصل اس کا یہ ہے کہ شیطان کے خلاف راو شریعت کی روش، بسیار طاعت اور حسن عبادت کی پابندی کی جائے ۔ راہ آخرت کا نور، قرب وکرامت حق مشاهدة جلال و جمال، اللہ تعالی کی ذات و صفات کے حقائق کی معرفت، کشف اسرار اور تجلی انوار سب مخالفت نفس سے حاصل ہوتے ہیں۔

پس لب لباب اس کا یہ ہے کہ دنیا آخرت کا حجاب ہے ۔ شیطان ، شریعت کا حجاب ہے۔ اور اپنی ذات ، حقیقت کا حجاب ہے ۔ اگر مجاہدہ دنیا کو پس پشت پھینکنے اور اس کا خیال کرنے کے لئے ہو تو دل اور سینہ سے جمال آخرت کا ہر آئینہ نمودار ہوتا ہے۔ اگر ماہر نفس امارہ کی عداوت کو توڑنے اور اس کی خواہش کی مخالفت کے لئے ہوتو ذوالجلال کی ذات و صفات کا مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔ جب ارباب مذاہب اور علماء و سلف صالحین نے شیطانی وسوسوں سے اپنے آپ کو بچایا ، گناہوں اور مخالفت شریعت سے خود کو پاک کرلیا تو ان پر حقائق و معانی اور ان کی شرح کے دروازے کھل گئے ۔ یہاں تک کہ جہانوں کے اصول وفروع ان کے کشف  کے طفیل

ہیں۔ الله تعالی نے ارشادفرمایا: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ ‌سُبُلَنَاخواطر کی حقیقت جو باطن میں نمودار ہوتی ہے چارقسم کی ہے۔

 اول… وسواس

دوم نفس کی ٹال مٹول،

 سوم، محبت دنیا کی آرائش،

چہارم خدائی فرمان سے

 الہام ملا ئکہ ۔ ان چاروں خواطر کی شناخت اور ان کے درمیان فرق کرنا نور قلب کے بغیر نہیں ملتا اور نور قلب بجز اللہ کے ذکر کے حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ

رکن چہارم

ذکر کے بیان میں ہے۔ جان لیجئے ! کہ راہ حقیقت کو اگر چہ عبادت، تقوی،  ریاضت اور مجاہدہ کی بہت ضرورت ہے لیکن جب تک ذکر نہ ہو یہ راستہ نہیں کھلتا۔ حضرت خواجہ علی خرقانی  رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فر مایا:

ذکر ولایت کا قلعہ ہے جسے ذکر کی توفیق دیتے ہیں اسے ولایت عطا فرماتے ہیں ۔ جسے ذکر سے معزول کر دیتے ہیں اسے ولایت سے محروم کر دیتے ہیں ۔ ذکر حقیقی   وہ ہے جو دل سے ہولیکن وہ سالک جوذ کرقلبی سے شادکام ہوایسے مرید کو چاہئے کہ اپنے بقیہ اوقات میں جب فرائض اور سنتوں سے فارغ ہو جانے سوائے ذکر کے کسی چیز میں مشغول نہ ہو۔

اگر چہ حق تعالی کے اذکار بہت ہیں لیکن سلطان الاسماء  نام اللہ ہے ۔ علاوہ از یں یہ چار کلمات بھی حق تعالی کے برگزیدہ ہیں ۔ سُبْحَانَ ‌اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ۔ کیونکہ سُبْحَانَ ‌اللَّهِ تسبیح ہے وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تحمید ہے وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ توحید ہے وَاللَّهُ أَكْبَرُ تکبیر ہے۔ ان کلمات میں سے جوکلمہ بھی اختیار کر لیں اچھا ہے لیکن اکثر سالکین نے لَا إِلَهَ إِلا اللَّهُ کو اختیار فرمایا ہے کیونکہ علایق(تعلق) وعوائق (رکاوٹ)کو ختم کرنے والا ہی کلمہ ہے۔ حقائق (حقیقتیں)وطرائق (طریقے) تک پہنچانے والا اور حجاب اٹھانے والا بھی یہی کلمہ ہے ۔ پس مرید کو چاہئے کہ وہ ہر روز وشب میں چند ساعت ( کم از کم عام مرید آدھا گھنٹہ اور آدھا گھنٹہ شام یوں معین کرے کہ سالک……….. بدن پاک، لباس پاک ، اورتعظیم و حرمت کو مدنظر رکھ کر اپنے گھر میں تنہا قبلہ رو ہو کر بیٹھے اور اس کلمہ کا وردکرتارہے۔ لَآ إِلَهَ إِلا اللَّهُ کی مد کوزیادہ کھینچے اور اپنے باطن پر توجہ مرکوز رکھے۔ ہر ماسوی الله جوخیال، ہوس اور چیز کے قبیل سے ہو سالک کے دل میں آئے ، اس کلمہ کی برکت سے دفع ہو جائے گی اور اس کلمہ کے کردار میں مواظبت کرے حتی کہ سالک کی حقیقت ( کیفیت ) یوں ہو جائے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے: الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ

جب سالک کا ذکر دائمی ہو جائے تو اس کی نگاہوں کے سامنے سے حجاب ، تار یکی اور خیال اٹھ جاتے ہیں پھر الله تعالی کا سحاب لطف وکرم منڈلانے لگتا ہے…….. باران فضل برسنے لگتی ہے……….لطف و سعادت کی با دنسیم چلنے لگتی ہے۔ اس وقت ایسی غیر مرئی اشیاء دکھائی دیتی ہیں ……….. ایسے لطائف سنائی دیتے ہیں …….. اور اسی لذتیں چکھائی  جاتی ہیں کہ جنہیں عبارت ولفظ بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔ اس کیفیت کو کسی بزرگ نے یوں بیان کیا ہے۔ بیت

دردی که مرا ز عشق تو ہست دانستنی ست و گفتی نیست

 ترجمہ: اے محبوب! تیرے عشق سے جو درد مجھے نصیب ہوا ہے وہ محسوس تو ہوتا ہے لیکن بیان نہیں کیا جاسکتا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں