رسالہ والدیہ خواجہ عبید اللہ احرار

رسالہ والدیہ خواجہ عبید اللہ احرار

رسالہ والد یہ کو فارسی نثر میں خواجہ ناصر الدین عبید اللہ احرار نے اپنے والد خواجہ محمود شاشی کے کہنے پر طالبان راہ حق کی ہدایت کے لیے تالیف کیا تھا ۔ اس لیے یہ والد یہ کے نام سے مشہور ہو گیا ۔
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد لله الأحد بذاته وكبريائه الواحد بصفاته واسمائه والصلاة على من تجلى له بذاته مع جميع صفاته. بعد افائه عن الكل محمد الذى اوتى جوامع الكلم ليكمل بها طوائف الامم و يعلم جميع الخلايق لطائف الحكم ، و على آله و اصحابه الذين كشفوا الحجب عن جمال وجهه الباقي.
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو اپنی ذات میں یکتا ہے اور بڑائی میں بھی اور جو اپنے اوصاف اور اسماء میں بے مثال ہے۔ اللہ پاک کی رحمتیں ہوں اس ذات پر جس پر اللہ نے اپنی تمام صفات کی تجلیات نازل فرمائیں، یعنی محمد ﷺ پر جن کو جامع کلمات عطا ہوئے تاکہ ان کے ذریعے سے دنیا بھر کی تمام قوموں کی زندگیوں کو مکمل کر دے اور تمام مخلوقات کو دانائی کی لطیف لطیف باتوں کی تعلیم دے اور پھر رحمتیں نازل ہوں آپ ﷺ کی آل پر اور آپ ﷺ کے اصحاب پر جنھوں نے اللہ پاک کی باقی رہنے والی ذات کے چہرے کے جمال سے پردوں کو ہٹا دیا ۔)
اما بعد
اس کتابچے کی تالیف کا سبب یہ تھا کہ اس فقیر کے والد محترم نے اس کے بارے میں حسن ظن کی بنا پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ اہل اللہ کے اقوال پر اور ان کی زندگیوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں تحریر کر دوں جن کو معمولات بنانے کے بعد روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل ہو جا ئیں اور حقیقی علوم کی تفصیل بھی ممکن ہو لیکن یہ نظری بحثوں اور منطقی دلائل سے پاک وصاف ہوں ، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
جس نے اپنے علم کے مطابق عمل کیا ، اللہ پاک اس کو ایسا علم عطا فرمائے گا جو اس کے پاس نہ تھا ( یا اس کو اس چیز کا علم عطا کرے گا جس کا علم اسے پہلے نہ تھا ۔ ) والد گرامی کے حکم کی اطاعت بہر حال مجھ پر فرض تھی اور اللہ پاک کی شان ربوبیت کے احترام و لحاظ کا تقاضا بھی یہی تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فقیر پر اگر اللہ پاک کی صفت ربوبیت کے اثرات مرتب ہوئے ہیں تو وہ ان بزرگوں یعنی اہل اللہ ہی کے ذریعے ہوتے ہیں ۔ بعض اہل اللہ نے اس بیان کی مزید تصدیق میں کہا ہے کہ اللہ پاک کی صفت ربوبیت کے پیش نظر ، آداب یہ ہیں کہ جن مظاہر نے ربوبیت کے اثر کو قبول کیا ہے ، ان کی تعظیم ان کے مظہر ہونے کی بنا پر ضروری قرار پاتی ہے ۔ اس لیے کہ اس تعظیم کی اہمیت قرآن پاک کی اس آیت سے اجاگر ہو جاتی ہے۔
وَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ الأمور ( البقره :210 )
اور تمام امور کا آخری مرجع اللہ پاک ہی کی ذات ہے ( وہی ان کا اصل مقصود ہے اور وہی اصل فیصلہ کرنے والا ہے ۔ سب معاملات اس کے سامنے پیش ہوں گے )

اس مختصر ( سے کتابچے ) میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے جس کی بدولت اللہ پاک کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ اس کتاب کے ناظرین اور قارئین سے درخواست ہے کہ وہ اس مختصر ( کتابچے ) کے مؤلف کو اس کی عبارتوں میں تلاش نہ کریں بلکہ اس کو حق کے زیر تصرف اس طرح سمجھ لیں جس طرح لکھنے والے کے ہاتھ میں قلم ہوتا ہے، لہذا اگر یہ مؤلف کی طرف توجہ نہیں کرتے ( اور اصل عبارت کو ملحوظ نظر رکھتے ہیں ) تو پھر ان کا شمار ایسے لوگوں کے زمرہ میں ہو جائے گا جن کو اللہ کی ذات سے بغیر کسی واسطے کے علوم حاصل ہو جاتے ہیں ، اس لیے ان کے آگے مجازی وجود عدم کے حکم میں ہے ( یعنی معدوم ہے ) ۔ جیسا کہ بعض عارفین نے اہلِ نظر کو مخاطب کر کے کہا تھا :
اخذتم علومكم عن الرسوم ميتا عن ميت و اخذنا علومنا من الحي الذي لا يموت و من كان وجوده مستفاداً من غيره فحكمه عندنا حكم اللاشي فليس للعارف معول وجوده غير الله البته بالله استعين و عليه اتوكل و لا حول ولا قوه الا بالله.
تم نے دنیاوی رائج طریقوں کے مطابق علوم کا اکتساب کیا ہے لیکن علم حاصل کرنے والا بھی ایک نہ ایک دن مر جانے والا ہے اور علم سکھانے والا بھی فانی ہے، جب کہ ہم نے اپنے علوم اس ذات سے حاصل کیے ہیں جو زندہ پائندہ ہے اور جس کو موت نہیں ، اس طرح جس چیز کا وجو د اپنے سوا کسی اور چیز سے وابستہ ہے وہ ہماری نظر میں لاشے ہے، یعنی کوئی شے نہیں ہے، لہذا عارف کے لیے اس کے وجود کا سہارا سوائے اللہ کے کوئی اور نہیں ہو سکتا، میں اللہ سے مدد طلب کرتا ہوں، اسی پر تو کل رکھتا ہوں اور کوئی طاقت اور تدبیرا ایسی نہیں جو خدا کے بغیر موثر ہو سکے ۔ )
اللہ پاک کا ارشاد ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ( الذاريات : 56 )
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔ )
مفسرین فرماتے ہیں ، اس آیت میں عبادت سے مراد معرفت ہے ، اس لیے عبادت ، ظاہری اعمال سے تعلق رکھتی ہے اور ظاہری اعمال پر اعتبار و قیاس کرنا درست نہیں ہے، نیز خلقت ( تخلیق کرنے ) کے عمل یا مخلوقات سے مراد یہ ہے کہ تخلیق کا عمل یا مخلوقات ظاہری اعمال سے خالی نہیں ہیں بلکہ ظاہری اعمال معرفت کے تابع ہیں اور معرفت ہی اس اصل مقصود بالذات ہے۔ بعض صوفیاءنے لِيَعْبُدُون ( تا کہ وہ میری عبادت کریں ) کو اس کی اصل حقیقت سے منسلک کر دیا ہے ( گویا ہر ایک کا پیمانہ معرفت اس کے اپنے احوال و کوائف کے مطابق ہوا کرتا ہے ) اس کی وجہ یہ ہے کہ ان صوفیاء کے نزدیک عبادت دونوں ظاہری اور باطنی اعمال پر حاوی ہے جب کہ معرفت باطنی کا تعلق اعمال سے ہے ، لہذا او پر مذکورہ تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔
تمام محققین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کیے بغیر اللہ پاک کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی اور آپ ﷺ کی اتباع اس بات پر موقوف ہے کہ پہلے یہ علم ہو جائے کہ کس چیز میں آپ کی اتباع کی جانی چاہیے اور یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تین چیزیں وابستہ نظر آتی ہیں،
1 – قول 2 عمل اور 3 کیفیت یا حال
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا تعلق آپ کی زبانِ مبارک سے ہے، آپ ﷺ کا فعل ظاہر سے تعلق رکھتا ہے جب کہ آپ ﷺ کا حال باطن کے ساتھ وابستہ ہے۔
لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں اتباع کی جانی چاہیئے ، اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ عارف باللہ کے لبوں پر کوئی ایسی بات نہیں آنی چاہیئے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے خلاف ہو، مثلاً غیبت ، دروغ گوئی اور ہر وہ بات جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو، بلکہ وہ زبان پر ایسے الفاظ لائے جو ہمیشہ دل کی نورانیت کا سبب ہوں ) اور اس میں اضافہ کریں ) ، مثال کے طور پر قرآن کی تلاوت کی جائے اور ان ماثور دعاؤں کا التزام کیا جائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعتا ثابت ہیں اور بندگان خدا کو ترغیب دے کہ ان کی ( حضور ﷺ کی ) شریعت کی متابعت کریں اور چاہیے کہ قرآن پاک اور دعائیں ایسی پڑھے جن پر اس کی زبان کو عبور ہو، تاکہ جو کچھ دل میں ہو زبان اس کی صحیح اور بھر پور تر جمانی کرے ( ور نہ یہ جھوٹی گواہی ہوگی یعنی دل میں کچھ اور ہے اور زبان کچھ اور اقرار کر رہی ہے ) اگر امی ہے یعنی قرآن مجید کو نہیں پڑھ سکتا ہے تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ دل میں یہ اعتقاد رکھے کہ قرآن اللہ پاک عز وجل کا کلام ہے اور نہایت ادب و تعظیم کے ساتھ اس کو سیکھنا شروع کر دے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی اتباع کا مقصود یہ ہے کہ معرفت حق کا طالب اپنے ظاہر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے سنوار لے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور طرز حیات کو ( کسی پل بھی ) ترک نہ کرے ، اس لیے کہ جس قدر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو ترک کیے رکھے گا اس قدر اس کو ( روحانی ) خسارہ اٹھانا پڑے گا ۔ اسی طرح ضرورت پڑنے پر، اپنے مومن بھائیوں کی ہر معاملے میں مدد کرنا ، اپنے ہاتھوں پاؤں اور زبان سے ان کی حاجت روائی کرنا سراسر صفائے قلب اور اس کی نورانیت کا سبب ہوگا ۔ اس سلسلے میں خاص کر ان لوگوں کی امداد اور معاونت کرنا زیادہ نفع کا سبب ہو گا جو اپنی لَو خدا سے لگائے ہوئے ہیں ، اس لیے کہ ان لوگوں کو اللہ پاک نے اپنی محبت کا نمونہ بنایا ہے اور وہ ( طالب معرفت ) خود بھی اس بات کو پسند کرے کہ اس کی توجہ ہمیشہ اللہ پاک کی طرف ہی مبذول رہے، اس لیے کہ اللہ پاک کی توجہ کی کیفیت میں ان کے دل میں ذات الہی کے جمال کا عکس نمایاں ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ ہوتے تو انسان ہی ہیں اس لیے ان کو کھانے پینے کی اشیاء ، رہنے کے لیے گھر اور پہننے کے لیے کپڑوں کی ضرورت رہتی ہے ، اس صورت حال میں دنیا وی آلائش سے ان کا تعلق جس قدر رہے گا ، اسی قدر ان کے دل کے آئینے میں غبار سا ظاہر ہوگا اور اسی قدر ذات الہی کے جمال کے مشاہدے سے وہ دور رہیں گے ۔ اگر کسی صاحب دولت کو اللہ پاک ان محتاج لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی توفیق عطا فر مادے تو اس کو بھی ان کو حاصل ہونے والی برکاتِ الہیہ سے حصہ ضرور ملے گا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ان بندگانِ خدا کی ضروریات کو پورا کر دیا جائے گا تو ان کی توجہ ذات حق ہی کی طرف مرکوز رہے گی اور ان کا یہ حال وکیف برقرار رہے گا ۔ آپ یوں کہہ لیجیے کہ صاحب دولت شخص نے ان کی حاجت روائی کر کے گویا ان کے دلوں کو اللہ پاک کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اس بات کو ہم مزید بہتر انداز میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان اہل اللہ کی حاجتوں کو پورا کرنے والے صاحب دولت کی ذات ، اللہ پاک کے صفاتی نام ” الکافی“ کے ایک مظہر کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اللہ پاک کی ایسی صفت کے اظہار پر یعنی ان اہل اللہ کی ضروریات پوری کرنے کی توفیق ملنے پر اللہ پاک کا شکر گزار رہے، اگر وہ شکر گزار رہے گا تو یہ اس بات کی دلیل ہو گی کہ صاحب دولت نے اپنی ذات کو درمیان سے نکال دیا ہے ( وہ یہ سارا کام اللہ پاک کی خوشنودی کے لیے کر رہا ہے ) اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص اللہ پاک کی کسی ایک صفت سے متصف ہو جائے ، دوزخ کی آگ کا اس سے کوئی کام نہیں ۔ – نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن نفس ، دل اور سرّ جیسے کئی روحانی مراتب رکھتا ہے اور ان سب مراتب میں اللہ پاک نے آپ ﷺ کو کمال عطا کر دیا ہے جو ، ہر مرتبے کے لائق ہے اور جب تک اتباع کرنے والے کو یہ علم نہ ہو کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کس چیز میں اتباع کر رہا ہے اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے ذریعے نفس، دل اور سرّ میں روحانی اثرات نظر نہیں آسکتے ۔ یہ الگ سچائی اپنی جگہ قائم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تر روحانی مراتب کا کامل ادراک نہ کسی نبی کی ذات کے لیے ممکن ہے اور نہ ہی کسی ولی کے لیے ،لیکن ہر شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری اتباع کی بدولت ان کمالات میں اپنے حصے کی برکات بقدر متابعت ضرور حاصل ہو جائیں گی ۔
نفس نبی کریم ﷺ کی اتباع سے ، مرتبہ نفس کی مخصوص اصطلاح کے تناظر میں مراد یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کی مخالفت کی جائے اور ہر اس شے سے اجتناب کیا جائے جو شریعت کے خلاف ہو۔ پابندی دوام کے ساتھ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے بعد نفس کا نبی کریم ﷺ کے نفس کے ساتھ ایک طرح کی مناسبت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے اور اس مناسبت کے مطابق اتباع کرنے والے کے نفس پر نبی کریم ﷺ کے نفس کی صفات جلوہ ریز ہونے لگتی ہیں ۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے فتیلہ سے دھواں اٹھ رہا ہے ، اس دھوئیں کی مناسبت سے فتیلہ کا آگ سے ایک تعلق ہے اور وہ اس تعلق کی مناسبت سے آگ کو جذب کر رہا ہے اور اس سے دھواں نکل رہا ہے۔ یہی حال روحانی کوائف کا ہے۔ جس قدر اتباع کرنے والے کا نفس نفس رسول ﷺ کی کیفیت سے ہمرنگ ہوگا ، اسی قدر اس پر اس کے اثرات بھی مرتب ہوں گے
(اور یوں پیروی کرتے کرتے وہ روحانیت کے ارتقائی مدارج حاصل کرتا چلا جائے گا۔ یا اس طرح اتباع کرنے والا جس مرتبہ میں اتباع کرے گا ، اس مرتبہ سے مناسبت کے مطابق ہی اس کے اپنے مرتبے میں اثرات مرتب ہوں گے ۔ اگر مرتبہ نفس ہے تو نفس پر، مرتبہ دل ہے تو دل پر اور اگر مرتبہ سرّ ہے تو اس کے مرتبہ سرّ پر اثرات واقع ہوتے جائیں گے اور اتنا ہی کمال بھی حاصل ہوگا ۔ )
اور جب کمال اس مرتبے کا ہو گا جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے تو پھر اللہ پاک اتباع کرنے والے فرد سے محبت کرنے لگے گا اور اس کو اپنی ذات کے اسرار سے آگاہ کر دے گا ۔ ارشادِ باری کے مطابق :
قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ( آل عمران : 31)
اےنبی آپ ان سےکہہ دیں کہ اگر تم اللہ پاک سے محبت کرتے ہو تو پھر میری اتباع کرو ۔ اس طرح اللہ پاک خود تم سے محبت کرنے لگے گا ۔ )
حضرت حق اسے اپنا دوست بنا لیتے ہیں اور اپنا محرم اسرار شمار کرتے ہیں ، اگر چہ در حقیقت محبت و دوستی کا یہ رشتہ رسول اکرم ﷺ کی ذات سے ہی استوار ہے اور خدائی محبت و دوستی بھی اس لیے حاصل ہوتی ہے کہ اتباع کرنے والا رسول اکرم ﷺ کی صفات سے متصف ہوتا ہے ۔ اگر چہ ان صفات سے متصف ہونا بھی ایک استعداد ہے اور یہ استعداد بھی محض اللہ پاک کا فضل و کرم ہے ۔ اگر آپ اس نکتے پر غور کریں گے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ اللہ پاک ہر مرتبے میں اپنی ذات کے سوا کسی کو محبوب نہیں ٹھہرا تا یعنی ہر مرتبہ میں اس کا مقصود یہ ہے کہ بندگان خدا کا رشتہ محبت ، خدا ہی سے استوار رہے ۔
شعر ملاحظہ ہو۔
يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَه چه قرار است به زیر پرده مگر خویش را خریدار است
يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ (اللہ پاک ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ پاک سے محبت کرتے ہیں ) یہ کیسا اقرار و بیان ہے؟ دیکھا جائے تو در پردہ اللہ پاک خودا اپنا خریدار ہے ۔
( صوفیانہ نقطہ نظر کے مطابق ) آئینہ دل میں جس ذات کا جمال منعکس ہو رہا ہے اس کو اپنا محبوب بنانا ، مقصود بالذات نہیں ہے بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ اپنی ذات کا مشاہدہ اس آئینہ جمال میں ہو جائے ۔ گویا محبوب بنانے کا یہ سارا عمل صرف اور صرف اس لیے ہے کہ صوفی عارف خود کو اپنا محبوب بنالے ( یا یوں کہیے کہ وہ اپنی ذات کو دوست کے اندر لے جا کر بٹھا دے ) ۔ حق تعالی انبیاء اور اولیاء کے وجودات کے آئینے میں ان کی استعداد کے مطابق ہی اپنی ذات کا پر تو ڈالتا ہے اور اپنی صفات کی روشنیاں اور تجلیاں بکھیرتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ تجلیات کے آثار کے ظہور کے وقت استعداد قبولیت جتنی مکمل ہو ، اتنی ہی فضیلت بعض نبیوں کو دوسرے نبیوں پر ملی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
وَلَقَدْ فَضَّلُنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ ( الاسرا: 55)
(ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ )
اس آیت میں اس فضیلت انبیاء علیہم السلام کی طرف اشارہ ہے ۔
چونکہ نبی کریم ﷺ کے آئینہ باطنی کی استعداد جوہری تمام انبیاء کے مقابلے میں زیادہ کامل واکمل ہے اس لیے سب انبیاء سے بڑھ کر آپ کی ذات کے آئینہ باطنی پر اللہ پاک کی ذات کا پر تو اور اُس کے اسماء وصفات کی روشنیاں منعکس ہوئیں ، اور پھر آپ ﷺ کی امت کو اتباع کے سبب الله نبی کریم ﷺ پر منعکس ہونے والی جملہ تجلیات سے حصہ ملا ہے ۔
ارشادِ باری کے مطابق :
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ ( آل عمران : 110 ) تم بہترین امت ہو“ کا خلعت فاخرہ آپ ﷺ کی امت کو عطا ہوا ۔ )
یہی وہ باریک نکتہ ہے جس کا اظہار پیغمبر خدا ﷺ نے ان الفاظ میں کیا ہے۔
وَ لَقَد تَمَنَّى إِثْنَا عَشَرَ نَبِيا أَنَّهُمْ كَانُوا مِنْ أُمَّتِي (بارہ انبیاء ایسے ہیں جنھوں نے یہ تمنا ظاہر کی ہے کہ کاش وہ میری امت سے ہوتے ) ۔
گویا یہ انبیا ء اچھی طرح جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی امت کو وہ کمال حاصل ہے جو کسی اور امت کو نہیں ملا ( یعنی ان کی امت دوسری امتوں کے مقابلے میں مکمل واکمل ہے ) ۔ ان کو اس بات کا بھی علم تھا کہ اس کمال کا حصول بھی تو نبی کریم ﷺ کی اتباع ہی سے وابستہ ہے اور یہ انبیاء کی بلند ہمتی ہے کہ وہ اپنے لیے اس کمال کا تقاضا کرتے ہیں ۔
چونکہ یہ بات طے ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اتباع کے بغیر روحانیت کے بلند ترین مراتب تک نہیں پہنچا جا سکتا ، اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجانی چاہیئے کہ آپ ﷺ کی اتباع ہر ایک کے حسب حال اس طرح ممکن ہے کہ اتباع کرنے والے کا دل غیر حق کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہ رکھے اور ہر طرح کے دنیاوی رشتوں اور معاملات سے بالکل منقطع ہو جائے ، اور یہ کیفیت بغیر محبت کی استعداد کے حاصل نہیں ہو سکتی ۔ محبت کا جو ہر اگرچہ اللہ پاک کی کرم نوازیوں میں سے ہے لیکن اس کا حصول چند شرائط کی بنا پر ہی بتدریج ممکن ہے ۔ اس محبت کا اصل سرمایہ یہ ہے کہ معرفت حق کا طالب اور سنت رسول ﷺ کی اتباع کرنے والا اپنے دل کو اللہ کی ذات کے سوا ہر قسم کی محبت سے خالی کر دے ۔ محبت کا ابتدائی طریقہ یہ ہوتا ہے کہ محبوب کا نام زبان پر بار بار آتا ہے اور دل میں بھی اس کی یاد کی حکمرانی ہوتی ہے۔ دل یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ محبوب ہی کا نام ہے اور یہ کیفیت تب حاصل ہو سکتی ہے جب اتباع کرنے والا کسی لمحے ذکر محبوب سے غافل نہ ہو، یہاں تک کہ دل میں سے گزرنے والے خیالات اور واہموں کی بجائے صرف ذات خدا ہی کا خیال غالب رہے ۔ جب دل کی کیفیت ایسی ہو جائے تو پھر اس کو ہاتھ سے جانے نہ دے اور ذکر محبوب کو اپنا دائمی وظیفہ بنائے رکھے حتی کہ یاد الہی کی لذت سے قلب کو لذت سی محسوس ہونے لگے ۔ پھر اس لذت کو برقرار رکھنے کی کوشش بھی کرے تا کہ دل کو اس لذت محبوب کے سوا کسی اور چیز کی لذت سے کوئی علاقہ ہی نہ رہے ۔ دل پورے کا پورا اس کیف کی لذت سے سرشار رہے۔ اگر وہ چاہے بھی کہ کسی اور چیز کی ۔ لذت کی طرف دل کو آمادہ کر لے تو ایسا نہ کر سکے ۔ یہی وہ حال وکیف ہے جس میں اتباع کرنے والوں کو حضرت حق کے حضور میں ”مکالمہ و مناجات کا ایک خاص مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے ، اور حال یہ ہو جاتا ہے کہ جب کوئی بات کرتا ہے تو وہ اللہ ہی کے ذریعے سے کرتا ہے ۔ اگر وہ کسی چیز کو غور سے دیکھ رہا ہو تو حقیقت میں اس کو وہاں اللہ ہی دکھائی دے رہا ہوتا ہے اور وہ اس کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔
از بس که دو دیده در خیالت دارم در هر چه نظر کنم تو می پندارم
میری دونوں آنکھیں تیرے خیال پر مرکوز ہیں ۔میں جس چیز پر بھی نظر جماتا ہوں اس میں ، میں یہ سمجھ رہا ہوتا ہوں کہ تو ( وہاں نظر آ رہا) ہے ۔ )
یہ وہ مرتبہ ہے جس میں ( اہل اللہ اور رسول اکرم ﷺ کی اتباع کرنے والے کو اپنی ذات میں کھوئے بغیر حضوری کی کیفیت حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ پاک کے جمال ذاتی کی روشنیاں اس کے دل پر پڑتی ہیں ، یہاں تک کہ اس کیفیت میں وہ اللہ پاک کے جمال کا مشاہدہ بھی کر لیتا ہے۔ اس کو ایسے کان مل جاتے ہیں جن کے ذریعے وہ سنتا ہے اور اس کو ایسی زبان مل جاتی ہے جس کے ذریعے وہ مناجات کرتا ہے ، اور جب یہ کیفیت مستقل ہو جاتی ہے تو پھر ظاہری اعمالِ دنیاوی میں مشغول رہنے کے با وجود اللہ پاک کے ساتھ اس کا معنوی رشتہ قائم رہتا ہے ۔ گو یا دنیاوی اعمال رکاوٹ نہیں بنتے ، اس لیے کہ ایسے شخص کامل کا باطن ، اللہ پاک کے حضور مناجات اور اس کے مشاہدے کے کیف سے مربوط ہوتا ہے اور ظاہری طور پر وہ مخلوقات کے ساتھ اپنے معاملات نباہتا ہے ۔ سالک کی اس طرح کی پر سائی کی طرف اس شعر میں بھی اشارہ ملتا ہے ، جسے حضرت رابعہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے ۔ فرماتی ہیں

إِنِّي جَعَلْتُكَ فِي الفُؤَادِ مُحَدِّثِي
وَ أَحْبَبْتُ جِسْمِي لِمَنْ أَرَادَ جُلوسي
فَالْجِسْمُ مِنِّي لِلْجَلِيس مؤانس
وَحَبِيبُ قَلْبِي فِي الْفُؤَادِ انِيَسِي

ترجمه میں نے تجھ کو اپنے دل میں میرےساتھ باتیں کرنے والا بنا لیا ہے اور میں نے اس کے لیے اپنے جسم سے محبت کی ہے جو میرا انہیں ہے۔ یعنی میرا جسم میرے ہم نشین کے لیے انسیت و محبت کے جذبات رکھتا ہے اور میرے دل کا حبیب میرے فؤاد ( عقل و شعور و ذہانت ) کے نہاں خانے میں میرا انیس بن کر موجود ہے ۔
نیز

از درون شو آشنا و از برون بیگانه وش
این چنین زیبا روش کم می بود اندر جهان

ترجمه:اندر ( باطن ) سے آشنا ( واقف ) بنے رہو اور باہر سے بیگانوں کے سے بن کر رہو۔ اگر چہ یہ ایسا اسلوب ہے جو اچھا تو ہے مگر دنیا میں بہت کم ہوتا ہے ۔
جس کسی صاحب دولت کا دل اس دنیا میں رہتے ہوئے ، اللہ پاک کی ذات سے رشتہ جوڑ لے تو وہ جب وہ اس دنیا سے سفر آخرت پر روانہ ہوگا اور اس کی روح بدن سے جدا ہو گی تو وہ بغیر کسی رکاوٹ کے واصل باللہ ہو جائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر چہ اس کو دنیا میں بھی وصل کے رشتے کی کیفیت حاصل تھی مگر کبھی کبھی بشری تقاضوں کے نتیجے میں اس کے دل پر ایک بار یک سا پر وہ آجاتا تھا ، لیکن روح کے بدن سے کٹ جانے کے بعد بشریت کے ذریعے آڑے آنے والا پردہ باقی نہیں رہتا ۔ اور یوں روح کے، بدن سے الگ ہو جانے کے بعد اللہ کی ذات سے اتصال میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی ، اس کیفیت کو ہم ایک مثال کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں ۔ اور وہ یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر کسی مرد کو کسی صاحب جمال کا شیفتہ دیوانہ بنانا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو بتا دیتے ہیں کہ فلاں شہر اور فلاں محلے میں ایک ایسا صاحب جمال رہتا ہے، تمہیں چاہیے کہ اس سے دوستی اور محبت کا رشتہ پیدا کر لو، اس لیے کہ اس کے ساتھ دوستی میں بہت لذت ہے، اس طرح اس ( صاحب جمال ) کی بابت باتیں سن کر وہ اس کی طرف رغبت محسوس کرتا ہے ، اس لیے کہ آدمی فطرتا اس چیز سے میل رکھتا ہے جس کی دوستی میں اس کو لذت حاصل ہوتی ہو لیکن اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کس طریقے سے اس کی دوستی حاصل ہو سکتی ہے، پھر لوگ اس کو یہ طریقہ بھی بتاتے ہیں کہ دوستی پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اس کا نام بکثرت لو اور دل میں سوائے اس کے کسی اور کے خیال تک کو نہ آنے دو، اگر وہ ایسا کرنے لگے گا تو پھر ( اس کے دل میں )کشش اور رغبت کی کیفیت اور زیادہ ہو جائے گی اور جب وہ اس کیفیت کو مستقل رہنے دے گا تو اس کو صاحب جمال کی محبت میں لذت بھی زیادہ آنے لگے گی ۔ جب لذت زیادہ آئے گی تو اس کے دل میں اس کے لیے کشش بھی بڑھے گی اور جب کیفیت لذت اس کے ہاتھ سے نہیں جائے گی تو اس کا اپنا اختیار ( پسند و نا پسند ) اس کے ہاتھ میں نہیں رہے گا ، پھر اس کی کیفیت یہ ہوگی کہ چاہتے نہ چاہتے دونوں صورتوں میں وہ اس سے محبت کرنے لگے گا اور اس پر قائم رہے گا ، اس کیف کے بعد اس کے دل کی ساری کی ساری کائنات پر اسی کی محبت غالب آجائے گی ، پھر اس کو کسی اور کا اندیشہ اور خیال تک نہ آئے گا اور وہ محبوب کے ساتھ انتہائی مشغول ہونے کے باوجود محبوب کے نام کو بھی بھول جائے گا ۔ اس صورتحال میں محبت کا غلبہ اس پر طاری ہو جائے گا اور پھر وہ اپنی ذات کے دونوں پہلوؤں یعنی محب و محبوب کو وحدت صرف کی شکل میں ایک ہی رنگ میں دیکھے گا یعنی ایک ہی رنگ کو غالب دیکھے گا ، یعنی اس کو خالص یکتائی ہی نظر آئے گی ، یہ خالص یکتائی کیا ہے ، تصوف کی اصطلاح میں یہ وحدت صرف کہلاتی ہے اور جن دو پہلوؤں کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے وہ دراصل طالب حق کے دو کیف ہیں ۔ ایک کیف میں یہ محبت کرنے والا ہوتا ہے جب کہ اس کا دوسرا کیف اس ذات کی تاثیر ہے جس کو وہ اپنا محبوب سمجھتا ہے ۔ گویا اس کیف میں طالب و مطلوب میں دوئی کا شائبہ تک نہیں رہتا ) ۔
جب یہ معلوم ہوا کہ کسی چیز کی محبت کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے نام کو بار بار یاد کرنے میں خود کو مشغول رکھا جائے تو پھر اس کے مطابق بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ تمام اذکار میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ کا ذکر ہے، اس لیے کہ یہ کلمہ نفی و اثبات کا مرکب ہے، بندے کو جو حجاب‘ حاصل ہوتا ہے تو وہ اس کے دل میں بصورت “کونیہ“ کا نقش جم جانے کے سبب حاصل ہوتا ہے ، اس نقش میں غیر کا اثبات ہوتا ہے اور حق کی نفی ، اس بنا پر جب تک یہ حجاب مٹ نہ جائے ، قرب الہی حاصل نہیں ہو سکتا ، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اثبات حق کیا جائے اور حق کے غیر کی نفی ، اور اس مذکورہ ذکر کے اندر بھی یہی مفہوم ہے ۔
لہذا مبتدی اگر چاہتا ہے کہ مشغول ہو جائے تو سب سے پہلے اس کو امل کو ( یعنی امنگوں اور آرزوؤں کو ) مختصر کرنا ہوگا ۔ وہ اپنی زندگی کو اس سانس میں محصور سمجھ لے جو وہ لے رہا ہے یا جو اس کے اندر ہے اور اس سانس کو وہ زندگی کی آخری سانس سمجھتے ہوئے لا الہ الا اللہ کے ذکر میں خود کو اس طرح مشغول کر لے کہ لا الہ الا اللہ میں اس کو ہر چیز جو غیر حق نظر آئے ، اس کو نکال باہر کرے، اور پھر الا اللہ کے اندر اللہ پاک عز و جل کو اپنے معبود و محبوب کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہوئے دیکھے، چنانچہ جتنی بار وہ لا الہ الا اللہ کہے ، اتنی بار دل میں یہ کہے کہ حق تعالیٰ کے سوا کوئی بھی معبود ( لائق عبادت ) نہیں ہے اور وہ اس کیفیت میں اس قدر مشغول ہو جائے کہ ذکر کو چنداں منقطع نہ ہونے دے بلکہ ہر حال میں اس ذکر میں مشغول و مصروف رہے ۔ اگرکبھی اچانک غفلت کا شکار ہو جائے تو ایسا ممکن ہے ۔ آپ خود ہی بتائیں کہ اگر کسی آدمی کا قیمتی موتی کہیں کھو جائے اور پھر اس کو دوبارہ یاد آ جائے ( یا مل جائے ) تو اس کے ملنے پر مارے خوشی کے ( اس کا کیا حال ہوگا ، لہذا خدا کے ذکر سے کسی وقت اچانک غافل ہونے کے بعد جب اس کو یاد آ جائے گا تو اس کا دل بھی اسی طرح مارے خوشی کے بے حال ہو جائے گا ، اگر وہ ذکر الہی پر قائم رہے گا تو اس درجہ پر پہنچ جائے گا کہ بظاہر اس کو ترک بھی کر دے گا تو بھی اس کا دل ذکر الہی میں مشغول رہے گا اور اس حال کا ہونا دلیل ہے ( اس بات کی ) کہ اس کا دل ذکر الہی ) سے متاثر ہوا ہے ، لیکن وہ اس کیف کو کافی نہ سمجھ بیٹھے بلکہ ذکر الہی میں یوں مشغول رہ کر اس درجے تک جا پہنچے کہ ذکر الہی باقی دوسرے تمام خیالات و خواہشات پر غالب آجائے ، اور یہ ایسا کیف ہے جس میں دل پر اللہ تعالی کی محبت کا غلبہ ہی غلبہ نظر آتا ہے ۔ دل غیر اللہ کی محبت سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے اور جب دل کا رشتہ غیر اللہ سے منقطع ہو جائے تو پھر سمجھو اللہ پاک کے ساتھ اس کا تعلق نہایت درست انداز میں پیدا ہو چکا ہے اور یہ وہ وقت ہو گا کہ جب سلطان محبت اس کے دل پر حاوی آجائے گا اور دل غیر (اللہ ) سے خالی ہو جائے گا ، اور جب اس طرح دل کا غیر (اللہ ) سے تعلق نہ رہے تو حق سے تعلق درست ہو جائے گا ۔ اب وہ بات کرے گا تو گویا اللہ نے بات کی ہے اور جس چیز میں وہ نظر دوڑائے گا تو سمجھو اس کو وہاں اللہ دکھائی دیتا ہے گویا وہاں اللہ ہی اس کے مد نظر ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت حق نے دل کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ وہ کسی لمحے بغیر تعلق کے نہیں رہ سکتا ۔ اگر غیر اللہ سے اس کا تعلق ٹوٹے گا تو اللہ کی ذات سے اس کا تعلق استوار رہے گا ، وہ چاہے یا نہ چاہے ، اور پھر اس کیف میں اس کا دل ہمیشہ باتیں بھی کرے گا ، باتیں سنے گا بھی اور اس کی بصیرت و بصارت بھی اپنا کام کرے گی ، اور جب اس کی گویائی ، بینائی اور شنوائی ( سماعت ) کا رشتہ غیر اللہ سے ٹوٹ جائے گا تو پھر یقینا ، یہ بات کرے گا تو اللہ کے ذریعے کرے گا ، دیکھے گا تو اللہ کے ذریعے ہی دیکھے گا اور سنے گا تو اللہ ہی کے ذریعے سنے گا اور وہ ہمیشہ حق تعالیٰ کے ساتھ مرتبہ مناجات کو استوار کیے رکھے گا ۔ اس مرتبے میں پہنچ کر ذکر ، دل کی ذاتی صفت بن جاتا ہے اور ذکر کی حقیقت جو حرف و صوت سے پاک ہوتی ہے ، آئینۂ دل کے جو ہر سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے پھر پورے کا پورا دل حق تعالیٰ کو چاہنے لگتا ہے ، اس چاہت کی دو کیفیات ہیں ، ایک وہ کیفیت جس میں پورے کا پورا دل حق تعالیٰ کو محبوب محسوس کرتا ہے اور اس سے پیار کرتا ہے اور ایک وہ کیفیت ہے جس میں وہ یاد خدا کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے ، ان دو کیفیات میں فرق ہے ، نیز پورے دل کے ساتھ چاہت والی کیفیت در اصل بہت زیادہ محبت کا نتیجہ ہوتی ہے جس کو عشق کا نام دیا جاتا ہے ، جب عشق کے مرتبے میں مزید ترقی آتی ہے تو ذکر کرنے والے شخص کی موہوم ہستی ، اس حقیقی ہستی میں فنا ہو جاتی ہے جس کا وہ ذکر کرتا ہے، یہ وہی مقام ہے جہاں ذاکر اور مذکور ایک ہو جاتے ہیں ۔ ذاکر کی صفت ذاکریت ، مذکور کی صفت مذکوریت میں ضم اور گم ہو کر رہ جاتی ہے اور پھر لَا يَذْكُرُ الله إلا الله ( جب وہ اللہ کو یا د کرتا ہے تو صرف اللہ ہی کو یا د کر رہا ہوتا ہے ) کی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے ، اور ذاکر جب اپنی موہوم ہستی کو فنا ہوتے دیکھتا ہے تو تمام اشیا کی ہستی بھی اس کی نظروں میں معدوم یعنی نیست ہو جاتی ہے ۔
آیت کریمہ: كُلُّ شَيْ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهُهُ ( ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی عظمت و وجاہت کے(قصص: 188) کے اسرار سے پردے ہٹنے لگتے ہیں اور پھر لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ) آج بادشاہی کس کی ہے؟ لِلَّهِ الْوَاحِدِ القَهَّارُ ( خدائے یکتا و قہار کی [غافر : 14] ) کے چہرے سے نقاب ہٹ جاتی ہے۔
جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ اتباع ہی بلند ترین مراتب کے حصول کا ذریعہ ہے تو مبتدی ( نو آموز یا نو وارد ) اگر یہ سعادت جلد حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کو ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا چاہیے جن کا ظاہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہو اور جن کا باطن ( جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں ) ذکر کے ایسے مرتبے میں ہو کہ وہ کمالات الہیہ کا مظہر بن چکے ہوں ، اس لیے کہ حضرت حق جل جلالہ نے دل کی تخلیق ہی کچھ اس انداز میں کی ہے کہ وہ جس کسی کی صحبت اختیار کرے گا ، اس کے اثرات ضرور قبول کرے گا ، اور یہ بات خود اپنے ذوق سے بھی معلوم کی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی کسی مصیبت زدہ شخص کے پاس بیٹھے گا تو وہ بھی غمگین ہو جائے گا، اگر وہ کسی ایسے مردِ خدا کی صحبت اختیار کرے گا جس پر بسط ( کشادگی باطن ) کی کیفیت غالب رہتی ہے تو اس پر بھی بسط کی کیفیت غالب رہے گی ( طبیعت پر قبض یعنی جس کی کیفیت طاری نہیں ہوگی ) ۔ اگر وہ ایسے دو آدمیوں کی ہم نشینی اختیار کرتا ہے جن پر یہ دونوں کیفیات غالب ہوں تو اس کے سبب اس میں بھی یہ دونوں کیفیات غالب ہو جائیں گی ، اور یہ سب دل کے کمال کی قابلیت ہے، اگر دل کے اندر اس دل کے طرح اثرات قبول کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو کمالات کے حصول کی کوئی صورت ممکن ہی نہ ہوتی ، لہذا جو بھی اہل باطن کی صحبت اختیار کرے گا ، اس کے باطن پر ان کا باطن اثر انداز ہوگا اور اس کو کسی حد تک اللہ کی ذات کی طرف میلان اور کشش بھی محسوس ہو گی ، اور جس قدر اس کو اللہ پاک کی طرف میلان و رغبت کی کیفیت حاصل ہو گی یہ بھی اتنا ہی ماسوا سے کٹ جائے گا ۔ جس قدر وہ ماسوا سے الگ ہو کر رہے گا ، اسی قدر اس کے اندر اللہ کی طرف میلان بھی پیدا ہو گا ۔ گویا میلان اور انقطاع دونوں کے احوال ایک دوسرے کے متناسب ہوتے ہیں ( میلان زیادہ ہے تو اس لیے کہ ماسوا اللہ سے انقطاع کی کیفیت زیادہ ہے ۔ انقطاع زیادہ ہے تو اس لیے کہ مبتدی کا اللہ کی طرف میلان زیادہ ہے ) اور پھر یہ میلان و انقطاع ایک ایسے مرتبے پر مبتدی کو لے جاتا ہے جہاں مبتدی کا کسی سے کوئی علاقہ نہیں رہتا ۔ اس کیفیت میں وہ سرتا پا حق تعالی کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، کوئی ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی صحبت کے اندر بلکہ ایک لحظہ میں ، ان اہل اللہ کی رفاقت ، اس کے باطن کو مکمل طور پر علائق سے الگ کر دے اور یہ سراپا ، حق تعالٰی کی طرف متوجہ ہو جائے ، ذیل کے شعر میں مراتب روحانیہ میں سے کسی ایک مرتبے پر پہنچنے کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔
آنکه به تبریز دید یک نظر شمس دین طعنه زند بر دهه سخره کند برجله
( جو سرزمین تبریز میں شمس الدین کو ایک مرتبہ دیکھ لے تو وہ عام انسانوں پر طعنہ زنی کرنے لگے اور جولاہے کا تمسخر اڑائے۔)
لیکن اس کیفیت پر ثابت قدم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بعض مشائخ عظام کا قول ہے کہ حق تعالیٰ تک رسائی تو آسان ہے لیکن اس ( وصالِ ایزدی ) پر ثبات و استحکام پیدا کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس حال میں طالب حق کا باطن غیر اللہ سے پاک ہو ، اس حال میں اس کو حق کا وصل ہو جاتا ہے ، اس لیے کہ بغیر کسی تعلق کے یہ رشتہ وصال قائم ہو ہی نہیں سکتا ، جیسا کہ ہم نے پہلے ہی اس کے بارے میں کہا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ طالب حق کو کسی لمحے اللہ پاک کے ساتھ رشتہ اتصال کے قائم ہونے کا علم نہ ہو، اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ طالب حق کی استعداد کمزور ہو اور اس کو اپنی اس روحانی حالت کی انتہائی نزاکت کا احساس نہ ہوا ہو لیکن کبھی کبھار حق تعالی کی ذات سے متصل ہونے کا شعور بھی ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ بھی قوت استعداد ہی ہے اور پھر اس تعلق کا دائمی ثبات بھی ہے جو کہ نیکوکاروں کی دائمی صحبت اور باطن و ظاہر میں ان کے ادب واحترام کے ذریعے ہی ممکن ہے ، اگر وہ آداب صحبت میں سے کسی ایک ادب ( طریقے) کو ترک کر دے گا تو اس کی بنا پر وہ ان کے دل سے دُور ہو جائے گا اور جب ان کے دل سے دُور ہو جائے گا تو اس کا وہ حال باقی نہ رہے گا جو کیفیت اتصال کے سبب تھا یا جس کی بدولت اسے حق تعالیٰ کے ساتھ وصل کا شعور ہوتا تھا ، اس لیے کہ یہ حال بھی طالب حق کو ان پاکبازوں کے دل کے ساتھ رابطے کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ دل کا دل کے ساتھ جو رابطہ ہوتا ہے، اس کے ذریعے سے یہ فیض منتقل ہوتا ہے، پھر طالب حق کا حال ، ان ہی پاکبازوں کے حال کی طرح ہو جاتا ہے اور جب ان کے دلوں سے طالب حق کا رابطہ نہ رہے تو اس کا یہ حال بھی باقی نہیں رہتا ۔ اکثر ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو ان پاکبازوں کی صحبت و ہم نشینی کا ذوق حاصل ہو جاتا ہے لیکن ان کی
یہ کیفیت دائمی نہیں ہوتی
بی عنایات حق و خاصان حق گر ملک باشد سیاه هستش ورق
( حق کی عنایات اور حق تعالیٰ کے خاص بندوں کی صحبت کے بغیر، انسان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ) اگر کوئی فرشتہ بھی ہو تو اس کا نامہ اعمال سیاہ رہ جائے گا۔)
وَاللَّهُ أَعْلَمَ لَهُ الْحَمْدِ وَ الْمَنْه واللہ اعلم ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ۔ )


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں