سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی

.

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

مؤلف غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کا مقدمہ 

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جو قادر علیم ،بصیر ، حلیم، وہاب، رحمن اور رحیم ہے۔ وہ ساری کائنات کا پروردگار ہے۔ اسی ذات اقدس نے اپنے نبی کریم پر قرآن جیسی عظیم اور پُرحکمت کتاب نازل فرمائی ہے۔ اس کتاب میں دین قویم(درست) اور صراط مستقیم ہے۔ 

بے حدوبے حساب صلاة و سلام ہوں خاتم رسالت،ہادی برحق، صاحب عزت و تکریم ، صادق و امین ذات اقدس پر جو نبی امی، عربی الاصل ہیں اور عرب و عجم کی طرف بہترین کتاب لانے والے ہیں۔ جن کا اسم گرامی محمد ہے اور صلاة و سلام ہوں آپ کی آل اطہار پر اور عظمت کردار کے مالک فخر انسانیت صحابہ کرام پر۔ 

حمد و صلاۃ کے بعد عرض ہے کہ :۔ 

علم ایک عالی مرتبت ، قابل فخر، نفع اندوز اور بزرگ ترین دولت ہے۔ اسی دولت کے ذریعے انسان رب العالمین تک پہنچتا ہے اور انبیاء مرسلین صلوة اللہ و سلامہ علیہم کی تصدیق کر تا ہے۔ 

الله تعالی نے اپنے فضل و کرم سے بندگان خدا کی ہدایت و رہنمائی کیلئے جن برگزیده اشخاص کو منتخب فرمایا ان میں علماء کرام کو خصوصیت حاصل ہے۔ یہ لوگ انسانیت کے سرخیل اور ہادیان عالم کے چنیدہ ہیں۔ علماء انبیاء کرام کے وارث اور نائب ہیں۔ وہ مسلمانوں کے آقاو مولا ہیں۔ رب قدوس کا ارشاد پاک ہے۔ 

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَالَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ (فاطر:22)پھر ہم نے وارث بنایا اس کتاب کا ان کو جنہیں ہم نے چن لیا تھا اپنے بندوں سے۔ پس بعض ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض درمیانہ رو ہیں اور بعض سبقت لے جانے والے ہیں نیکیوں میں حضورﷺکارشاد گرامی ہے : 

الْعُلَمَاءَ ‌وَرَثَةُ ‌الْأَنْبِيَاءِ بِالْعِلْم،ِ ‌يُحِبُّهُمْ ‌أَهْلُ ‌السَّمَاءِ وَيَسْتَغْفِرُ لَهُمُ الْحِيتَانُ فِي الْبَحْرِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ علماءعلم میں انبیاء کے وارث ہیں۔ آسمان والے ان سے محبت کرتے ہیں اور سمندر کی مچھلیاں قیامت تک ان کے لیے دعائے مغفرت کرتی رہیں گی“ حضور اکر مﷺکا اور ارشاد مبارک ہے: يَبْعَثُ اللَّهُ الْعِبَادَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ يُمَيِّزُ الْعُلَمَاءَ ، فَيَقُولُ : يَا مَعْشَرَ الْعُلَمَاءِ ، إِنِّي لَمْ أَضَعْ عِلْمِي فِيكُمْ إِلا لِعِلْمِي بِكُمْ ، وَلَمْ أَضَعْ عِلْمِي فِيكُمْ لأُعَذَّبَكُمُ ، انْطَلِقُوا فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ

قیامت کے دن اللہ تعالی جب اپنے بندوں کو دوباره زنده فرمائے گا تو علماء کرام کو ان سے الگ کرلے گا۔ اور فرمائے گا۔ اے علماء کے گروہ میں نے اپنا علم تمہارے سینوں میں ودیعت فرمایا کیونکہ میں تمہیں جانتا تھا۔ یہ نور تمہارے سینوں میں اس لیے تو نہیں رکھا کہ تمہیں عذاب دوں جاؤ تم سب جنتی ہو۔ میں نے تمہارے قصور معاف فرمادیئے 

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جس نے جنت کو عابدوں کے لیئے انعام کی جگہ بنایا اور عارفوں کے لیے قربت(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) کا محل۔ 

اس ( تمہید) کے بعد ابتداء میں جب اللہ تعالی نے اپنے نور جمال سے محمدﷺکو پیدا فرمایا جیسا کہ حدیث قدسی ہے: 

خَلَقْتُ مُحَمَّداً أوّلاً منْ نُورِ وَجْهِي میں نے سب سے پہلے اپنی ذات کے نور سے محمد ﷺکو پیدا کیا‘‘ 

أوّلُ ماخلقَ الله ُروحِي ، وأوّلُ ماخلقَ اللهُ نوري ، وأوَّلُ ماخلقَ اللهُ القلمَ ، وأوّلُ ماخلقَ اللهُ العَقلَسب سے پہلے اللہ تعالی نے میری روح کو پیدا فرمایا۔ سب سے پہلے اللہ تعالی نے میرے نور کو پیدا فرمایا۔ سب سے پہلے الله تعالی نے قلم کو پیدا فرمایا۔ سب سے پہلے اللہ تعالی نے عقل کو پیدا فرمایا 

ان تمام چیزوں کا مصداق ایک ہی ہے۔ یعنی سب سے پہلے اللہ تعالی نے حقیقت محمدیہ (اس سے مراد حیات روی اور حیات حیوی کا مصدر ہے۔ یہ اہل ایمان کے دلوں کی زندگی ہے۔ حقیقت محمد یہ خلق کی پیدائش کا سبب اور ماسوای اللہ کی 

اصل ہے)کو پیدا فرمایا۔ 

اسے نور کہا گیا ہے اس لیے کہ یہ ظلمانیت جلالیت سے پاک ہے۔ جیسا 

کہ رب قدوس کا ارشاد ہے : . 

قدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ (المائدہ :15 ( بیشک تشریف لایا ہے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور اور ایک کتاب ظاہر کرنے والی حقیقت محمدیہ کو عقل کہا گیا ہے کیونکہ وہ تمام کلیات کا ادراک رکھتی ہے۔ 

اے قلم کہا گیا ہے کیونکہ یہ علم کی منتقلی کا سبب ہے۔ جس طرح عالم حروفات میں قلم انتقال علم کا سبب ہے۔پس روح میں ان تمام چیزوں کا خلاصہ ہے کائنات کی ابتداء اور اصل ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے۔ 

أناَ مِنَ الله ، والمُؤمِنونَ مِنِّي میں اللہ سے ہوں اور مومن مجھ سے ہیں“ 

عالم لاہوت(روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناء ہے۔ کیونکہ فانی  کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ 

نہیں پہنچ سکتے) میں تمام ارواح نور محمدی سے بہترین اعتدال پر پید اہوئیں عالم لاہوت میں اسی کا نام حجلۃ الانس(دلہن کا کمرہ) ہے اور یہی عالم انسان کا وطن اصلی ہے۔ 

جب ذات محمدی کی تخلیق پر چار ہزار سال کا عرصہ بیت گیا تو اللہ تعالی نے نور پاک مصطفیﷺسے عرش اور دوسری تمام کلیات کو پیدا فرمایا اور اس کے بعد ارواح کو عالم اسفل کی طرف لوٹا دیا۔ اور اس عالم میں یہ روحیں جسموں میں منتقل ہو گئیں جیسا ارشادباری تعالی ہے۔ 

ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (التین :5)پھر ہم نے لوٹادیا اس کو پست ترین حالت کی طرف 

یعنی پہلے اسے عالم لاہوت سے عالم جبروت(عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے در میان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں) کی طرف لوٹایا اور اسے ان دونوں حرموں کے در میان جبروت کے نور سے ایک لباس پہنایا۔ اس لباس کا نام روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا )ہے۔ پھر روح کو اس لباس کے ساتھ عالم ملکوت کی طرف لوٹایا اور یہاں اسے نور ملکوت کا لباس پہنا دیا گیا۔ اس کا نام روح روانی (عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح سیر انی بھی کہتے ہیں)ہے۔ اس کے بعد روح عالم الملک(عالم شہادت یا عالم اجسام واعراض۔ اسی عالم میں روحیں جسموں میں داخل ہوتی ہیں۔ اس کا دوسرا نام عالم سفلی ہے) کو لوٹی۔ الملک کے نور کا لباس پہنا اور روح جسمانی کا نام پایا۔ اس عالم میں اجساد تخلیق ہوئے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ 

مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ (طہ:55( اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ۔

روح بحکم ایزدی اجساد میں داخل ہوئی۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

ونَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي (الحجر:29( اور پھونک دی اس میں اپنے فضل سے روح“ 

پس جب اجساد سے روحوں کا تعلق قائم ہو گیا تو وہ وعدہ الست کو بھول گئیں جو وعدہ انہوں نے اپنے رب سے عالم ارواح میں کیا تھا اور کہا تھا کہ ہاں تو ہمارارب ہے جیسا کہ اللہ تعالی اس کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ 

 أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ (الاعراف :172)کیا میں نہیں ہوں تمہارارب ؟ 

پس وہ نسیان کی وجہ سےیہیں کی ہو کر رہ گئیں اور اپنے وطن اصلی کونہ لوٹیں۔ اللہ جو کہ بے حد رحم فرمانے والا اور انسان کا حاجت روا ہے اسے اپنی مخلوق پر رحم آگیا اور اس نے اپنی جناب سے ایک کتاب نازل کی تاکہ اسے پڑھ کر انسان کو وطن اصلی یاد آجائے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ(ابراہیم :5)ور یاد د لاؤا نہیں اللہ کے دن“ 

یعنی وہ دن جب وہ واصل بحق تھے۔ نبوت ورسالت کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا بہت سارے انبیاء ، رسل اور کتابیں اپنے اپنے وقت پر آئیں تمام انبیاء ورسل کی بعثت اور تمام کتابوں کے نزول کی غرض و غایت ایک ہی تھی کہ بنی آدم کی روح کو وطن اصلی یاد آجائے۔ مگر بہت کم لوگوں کو وہ وطن یاد آیا معدودے چند روحیں تھیں جنہیں اس دنیا میں رہ کر یہ اشتیاق پیدا ہوا کہ وہ وطن اصلی کو لوٹ جائیں اور اپنے رب سے ملاقات کریں۔ نبوت ورسالت کا یہ سلسلہ روح اعظم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی پر اختتام پذیر ہوا۔ آپ کسی ایک دوریا ایک خطے کے نبی نہیں تھے۔ پوری انسانیت کےبخت خفتہ کو بیدار کرنے کے لیے تشریف لائے اور ہر علاقے کے لوگوں کو خواب غفلت سے جگانا آپ کا منصب قرار پایا آپ کوحکم دیا گیا کہ دلوں کوبصیرت (وہ قوت جو اولیاء کے دل سے پھوٹتی ہے اور نور قدس سے منور ہوتی ہے۔ اس سے انسان اشیاء کی حقیقت اور ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ اسے قوت قدسیہ بھی کہتے ہیں)کا نور دیں اور روحوں کے سامنے تنے پردوں کو منکشف کریں جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي (يوسف:108)آپ فرمادیجئے یہ میرا راستہ ہے میں تو بلاتا ہوں صرف اللہ کی طرف۔ واضح دلیل پرہوں میں اور وہ بھی جو میری پیروی کرتے ہیں ۔

بصیرت روح کی آنکھ ہے جو اولیاء کے لیے مقام جان میں کھلتی ہے۔ یہ آنکھ ظاہری علم سےوا نہیں ہوتی اس کے لیے عالم لدنی چاہیئے جو باطن سے تعلق رکھتا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً (الكہف :65)اور ہم نے سکھایا تھا اسے اپنے پاس سے (خاص) علم ۔

انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل بصیرت کی یہ آنکھ کسی ولی صاحب تلقین عالم لاہوت سے باخبر مرشد کامل کے ذریعے حاصل کرے۔ 

اے بھائیو ! ہوش میں آؤ اور توبہ کر کے اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو۔ اس راہ سلوک میں داخل ہو جاؤ اور روحانی قافلوں کے ساتھ اپنے رب کی طرف لوٹ جاؤ۔ قریب ہے کہ راستہ منقطع ہو جائے اور کوئی ہم سفر نہ رہے۔یاد رکھو! ہم اس کمینی دنیا کو بسانے نہیں آئے ہمیں اس خرابات سے آخر کوچ کرنا ہے۔ دوستو ! ہمیں خواہشات نفس کی پیروی نہیں کرنی چاہیئے۔ دیکھو ! تمہارے نبی کریم علیہ الصلوة والسلام تمہارے لیے چشم براہ ہیں۔ حضور ﷺنے فرمایا : 

غُمّيَ لأَجْلِ أُمَّتِي الّذينَ في آخِرِ الزَّمَانِ– میں اپنی امت کے ان لوگوں کے لیےغمگین ہوں جو آخری زمانہ میں ہوں گے“ 

جو علم ہمیں بارگاہ خداوندی سے عطا فرمایا گیا ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ علم ظاہر اور علم باطن(دل میں ظاہر ہونے والا علم نہ کہ ظواہر میں صوفیاء کرام علیہم الرحمۃ کی جماعت نے اس کی کئی قسمیں بیان کی ہیں۔ مثلا علم ، حال، خواطر ، يقين ، اخلاص ، اخلاق اس کی معرفت ، اقسام دنیا کی معرفت، توبہ کی ضرورت، توبہ کے حقائق، توکل، زهد ، انابت ، فناء، علم لدنی۔ )۔ یعنی شریعت اور معرفت۔ شریعت کا حکم ظاہر پر لاگو ہوتا ہے اور معرفت کا علم باطن پر۔ ان دونوں علوم کو نازل کرنے کا مقصد علم حقیقت (اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں)کو پانا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ ( الرحمن:19،20( اس نے رواں کیا ہے دونوں دریاؤں کو جو آپس میں مل رہے ہیں۔ ان کے در میان آڑہے آپس میں گڈمڈ نہیں ہوتے ۔

صرف علم ظاہر ی سے علم حقیقت تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ اور نہ ہی مقصود آسکتا ہے کامل عبادت کے لیے علم ظاہری اور علم باطنی کی تحصیل ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرائی ہے۔ 

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (زاریات :56( 

اور نہیں پیدا فرمایا میں نے جن و انس کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں ۔

میری عبادت کریں“ سے مراد یہ ہے کہ میری معرفت حاصل کریں کیونکہ معرفت کے بغیر عبادت ممکن ہی نہیں۔ 

معرفت(یہ ولی اللہ کی صفت ہے جو حق سبحانہ تعالی کو اس کے اسماء صفات سے پہچانتا ہے۔ اور الله تعالی اس کے معاملات میں سچائی پیدا کر دیتا ہے۔ اور اس کو اخلاق رذیلہ اور اس کی آفات سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ اس تزکیہ کے بعد وہ اللہ تعالی کا ہو کر رہ جاتا ہے وہ سر میں اللہ تعالی کے ساتھ مناجات کر تا ہے اور یہاں اس کی حاضری دائمی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ ایسے میں وہ وقت کا ترجمان بن جاتا ہے۔ اس کے اسرار قدرت  کو بیان کر تا ہے۔ اور تصرفات کے بارے گفتگو کرتا ہے۔ معرفت کے حامل شخص کو عارف کہتے ہیں) کے حصول کا صرف ایک ذریعہ ہے کہ انسان آئینہ دل سے حجاب نفس کو ہٹا دے۔ جب حجاب سرک جاتا ہے تو انسان دل کی گہرائیوں میں چھپے راز کے حسن کو اس آئینے میں عیاں دیکھتا ہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی ہے۔ 

 كُنْتُ ‌كَنْزًا ‌مَخْفِيًا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِأَنْ أُعْرَفَ

میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں سو میں نے مخلوق کو پیدا کیا کہ میری معرفت حاصل ہو جائے ۔

جب اللہ تعالی نے خود ہی بتادیا کہ تخلیق آدم کی وجہ معرفت خداوندی ہے تو پھر انسان پر لازم ہے کہ وہ معرفت حاصل کرے۔ 

معرفت کی دو قسمیں ہیں۔ معرفت صفات اور معرفت ذات معرفت صفات دارین میں جسم کیلئے خیر و فضل ہے اور معرفت ذات آخرت میں روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) کے لیے نعمت ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ (البقرة : 87.) اور ہم نے تقویت دی ا سے روح القد س سے“ 

عارفین روح القدس سے مؤید(تائید کنندہ) ہوتے ہیں۔ 

 معرفت کی یہ دونوں قسمیں صرف اسی وقت حاصل ہو سکتی ہیں کہ انسان دونوں علم، علم ظاہر اور علم باطن کو حاصل کرے۔ حضورﷺکارشاد گرامی ہے۔ 

الْعِلْمُ عِلْمَانِ : عِلْمٌ باللّسان ، وذَلِكَ حُجَّةُ اللَّهِ تعالى عَلَى ابن آدمَ وعلم بالجنانِ ؛ فذلك العِلْمُ النّافِعُعلم کی دو قسمیں ہیں، علم لسانی اور علم کی یہ قسم الله تعالی کی طرف سے ابن آدم پر حجت ہے اور دوسری قسم علم جنانی ہے۔ اور یہ دوسری قسم ہی علم نافع ہے“ 

سب سے پہلے انسان کو علم شریعت کی ضرورت ہے۔ روح اس علم کے ساتھ جوارح کے کسب کو حاصل کرتی ہے۔ جوارح کا کسب درجات(شریعت  کےعلم ظاہری پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انسان کو جو ثواب ملتا ہے اسے درجات کہا جاتا ہے) ہیں اس کے بعد اسے علم باطن کی ضرورت پڑتی ہے اور اس علم کے ذریعے روح علم معرفت میں معرفت خداوندی کے کسب کو حاصل کرتی ہے۔ علم معرفت کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ انسان ان رسوم کو ترک کر دے جو شریعت اور طریقت(سالکین کی راہ جو انہیں واصل بحق کرتی ہے۔ مثلا منازل سلوک کا طے کرنا اور مقامات میں ترقی کرنا) کے مخالف ہیں اور نمود و نمائش سے بچتے ہوئے صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے نفسانی اور روحانی ریاضتوں کو قبول کرلے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔

فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلا صَالِحًا وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (الكہف:110( 

پس جو شخص امید رکھتا ہے اپنے رب سے ملنے کی تو اسے چاہیئے کہ وہ نیک عمل کرے اور نہ شریک کرے اپنے رب کی عبادت میں کسی کو۔

 عالم معرفت یعنی عالم لاہوت انسان کا اصلی وطن ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اس عالم میں روح قدسی کی بہتر ین اعتدال پر تخلیق ہوئی۔ 

روح قدسی سے مراد انسان حقیقی ہے۔ انسان حقیقی کا اظہار صرف اسی وقت ہوتا ہے جب توبہ کی جائے اور تلقین پر عمل کیا جائے۔ 

کلمہ لا الہ الا اللہ کا لزوم انسان حقیقی کے وجود کو ظاہر کر سکتا ہے بشرطیکہ یہ ذکر پہلے زبان سے، پھر حیات قلبی سے اور پھر لسان جنان(ہر شے کا جوف، اندرونی حصہ ،جِس سے انسان اپنی اصلیت کو پہچانے) سے کیا جائے۔ انسان حقیقی یاروح قدسی کا دوسرا نام طفل معانی (انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق قدسی معنویات سے ہے۔ اسے طفل کہنے کی کئی وجوہات ہیں۔

1 ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ روح قدسی قلب سے تولد ہوتی ہے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ ماں کی طرح اس کی پرورش قلب کر تا ہے۔ پھر بچے کی طرح روح قدسی پرورش پاتی ہے حتی کہ بلوغت کی عمر کوپہنچ جاتی ہے۔ 

2۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تعلیم کا سلسلہ اکثر بچپن میں ہو تا ہے۔ بچوں کی طرح روح قدسی کو معرفت کی اکثر تعلیم دی جاتی ہے۔

 3۔ جس طرح بچہ گناہ کی آلائشوں سے پاک ہو تا ہے اسی طرح روح قدسی بھی گناه ، شرک غفلت اور جسمانیت سے پاک ہوتی ہے۔

4۔ جس طرح بچہ پاکیزہ صورت ہے اسی طرح روح قدسی بھی پاکیزہ صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواب میں ملا ئکہ یا دوسری پاک چیزیں بچے کی مثالی صورت میں نظر آتی ہیں۔ 

5۔ اللہ تعالی نے ابنائے جنت کو طفولیت کے وصف سے متصف فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد گرامی ہے۔ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ (الواقعہ:17) گردش کرتے ہوں گے ان کے اردگرد نو خیز لڑ کے جو ہمیشہ ایک جیسے ر ہیں گے“ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ (طور :24)ان کے غلام (بچے )حسن کے باعث یوں معلوم ہوں گے گویاوہ چھپے موتی ہیں“ 

6۔ روح قدسی کو یہ نام لطافت اور نظافت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ 

7۔ یہ اطلاق مجازی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق بدن سے ہے اور یہ انسان کے ساتھ صورت میں مماثلت رکھتا ہے۔ اب روح قدسی کا طفل معانی پر اطلاق اس بنا پر ہے کہ بچے میں ملاحت ہوتی ہے ۔ یہ اطلاق صغر سنی کی وجہ سے نہیں ہے۔ اور اس اطلاق کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے شروع میں روح قدسی کی صورت اس سے ملتی ہے۔ بہر حال روح قدسی یا طفل معانی انسان حقیقی ہے۔ کیونکہ اسے اللہ تعالی کے ساتھ انسیت(دل کے مشاہدہ سے روح کا لطف اندوز ہونا) حاصل ہے۔ جسم اور جسمانی طفل معانی کے محرم نہیں ہیں۔ جیسا کہ حضورﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

لِي‌ مَعَ اللَهِ وَقْتٌ لاَ يَسَعُنِي‌ فِيهِ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلاَ نَبِي‌ٌّ مُرْسَلٌبارگاہ خداوندی میں مجھے ایک ایسا وقت بھی حاصل ہو تا ہے کہ جس میں نہ تو کسی مقرب فرشتے کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ نبی مرسل کی‘‘ 

نبی مرسل سے مراد نبی کریمﷺکی بشریت اور مقرب فرشتے سے مراد حضور ﷺکی روحانیت جو کہ نور جبروت سے تخلیق ہوئی ہے۔ جیسے فرشتے نور جبروت سے ہیں اسی لیے یہ فرشتے نور لاہوت میں داخل نہیں ہو سکتے۔ رسول کریم ﷺنے فرمایا: 

إن لله جنة لا فيها حور ولا قصور ولا جنان ولا عسل ولا لبنبیشک اللہ تعالی کے ہاں ایک ایسی جنت بھی ہے جس میں نہ تو حور و قصور ہیں اور نہ باغ و بہارنہ شہد( کی نہریں) ہیں اور نہ دودھ( کے چشمے) وہاں صرف دیدار الہٰی کی دولت ہے“ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: 

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القيامۃ : 22 ، 23 ( کئی چہرے اس روز تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کے(انوار جمال) کی طرف دیکھ رہے ہوں گے“ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا : ستَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ القَمَرَ لَيْلَةَ البَدْرِعنقریب تم اپنے رب کو اسی طرح (عیاں) دیکھو گے جس طرح چودھویں رات کے اس چاند کو دیکھ رہے ہو“ 

اگر فرشتہ اور جسمانیت اس عالم میں داخل ہوں تو جل جائیں جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

لو كشفت سبحات وجهي جلالي لاحترق كل ما مد بصري اسی طرح حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا : لو دنوت أنملة لاحترقت

اگر میں انگلی کے پورے کے برابر بھی آگے بڑھوں گا تو جل جاؤں گا“ 

یہ کتاب کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کے حروف کے عدد کے برابر چوبیس فصلوں پر مشتمل ہے۔ رات دن کی بھی چوبیس گھڑیاں ہیں۔ اس مناسبت سے کتاب کی فصلیں بھی چوبیس ہیں۔ 

پہلی فصل انسان کی وطن اصلی کی طرف واپسی

انسان کی دو حیثیتیں ہیں۔ جسمانی اور روحانی۔

جسمانی انسان عام ہے اور روحانی خاص۔ روحانی انسان تو احرام باندھے۔اپنے اصلی وطن کی طرف یعنی قربت خداوندی(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) کے حصول کی راہ پر گامزن ہے۔ 

جسمانی انسان کی واپسی کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ وہ درجات کی طرف رجوع کرے۔ شریعت و طریقت(سالکین کی راہ جو انہیں واصل بحق کرتی ہے۔ مثلا منازل سلوک کا طے کرنا اور مقامات میں ترقی کرنا)  اور معرفت(یہ ولی اللہ کی صفت ہے جو حق سبحانہ تعالی کو اس کے اسماء صفات سے پہچانتا ہے۔ اور الله تعالی اس کے معاملات میں سچائی پیدا کر دیتا ہے۔ اور اس کو اخلاق رذیلہ اور اس کی آفات سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ اس تزکیہ کے بعد وہ اللہ تعالی کا ہو کر رہ جاتا ہے وہ سر میں اللہ تعالی کے ساتھ مناجات کر تا ہے اور یہاں اس کی حاضری دائمی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ ایسے میں وہ وقت کا ترجمان بن جاتا ہے۔ اس کے اسرار قدرت  کو بیان کر تا ہے۔ اور تصرفات کے بارے گفتگو کرتا ہے۔ معرفت کے حامل شخص کو عارف کہتے ہیں)پر بلا نمود و ریاء عمل پیرا ہو کر ثواب حاصل کرے کیونکہ درجات (شریعت کےعلم ظاہری پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انسان کو جو ثواب ملتا ہے اسے درجات کہا جاتا ہے) کے تین طبقے ہیں۔

 پہلا طبقہ :۔عالم الملک (عالم شہادت یا عالم اجسام واعراض۔ اسی عالم میں روحیں جسموں میں داخل ہوتی ہیں۔ اس کا دوسرا نام عالم سفلی ہے)میں جنت اور یہ جنت الماوی ہے۔ 

دوسراطبقہ :۔عالم الملكوت کی جنت اسے جنت النعیم کہتے ہیں۔ 

تیسراطبقہ :۔عالم الجبروت کی جنت یہ جنت الفردوس ہے۔ 

یہ نعمتیں جسمانیت کے لیے ہیں۔ ان عوالم تک جسمانیت اس وقت تک نہیں پہنچ سکتی جب تک کہ تین علوم کو حاصل نہ کر لے۔یعنی علم شریعت، علم طریقت اور علم معرفت۔ جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

الحِكمةُ الجامِعَةُ مَعرفَةُ الحَقُّ، والعَملُ بِها مَعرِفَةُ البَاطِنکامل دانائی حق تعالی کی معرفت ہے۔ اور اس کے مطابق عمل پیرا ہوناباطن کی معرفت ہے“ اسی طرح حضورﷺکا ایک اور ارشاد گرامی ہے ۔ اللَّهُمَّ، ‌أَرِنَا ‌الْحَقَّ ‌حَقّا ‌وَارْزُقْنَا ‌اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَااجْتِنَابَهٗاللہ! ہمارے سامنے حق کو واضح فرما اور اس کی پیروی کی توفیق دے اور باطل کو باطل کر کے دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق بخش دے۔ اسی طرح رسول کریم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے۔مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ وخالَفَها فَقدْ عرَفَ رَبَّهُ وتابَعهُ

جس نے اپنے نفس کو پہچانا اور اس کی مخالفت کی تو اس نے یقین اپنے رب کو پہچان لی اور اس کی فرمانبرداری کی“ 

انسان خاص کا اپنے وطن یعنی قربت کی طرف رجوع اور رسائی علم حقیقت(اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں) کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ علم حقیقت عالم لاہوت(روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فنا ہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے)میں توحید ہے۔ دنیا میں اللہ کی یکتائی کا عقیدہ ہے۔ اور یہ مقام ( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زہد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریعے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا)سوتے جاگتے عبادت سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ جسم پر جب نیند طاری ہو جاتی ہے تو دل کو زیادہ فرصت ملتی ہے اور وہ اپنے وطن اصلی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ رجوع یا توکلی طور پر ہوتا ہے یا جزوی طور پر۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى (الزمر:42 ( اللہ تعالی قبض کر تا ہے جانوں کو موت کے وقت اور جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا( ان کی روحیں) حالت نیند میں۔ پھر روک لیتا ہے ان روحوں کو جن کی موت کا فیصلہ کرتا ہے اور واپس بھیج دیتا ہے دوسری روحوں کو مقررہ میعاد تک بے شک اس میں اس کی قدرت کی( نشانیاں ہیں ان کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں اسی لیے حضور ﷺنے فرمایا : نؤمُ العالم خيرٌ من عِبادةِ الجاهلِعالم کا سونا جاہل کے عبادت کرنے سے بہتر ہے۔

مگر عالم کو یہ شرف صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ عالم کادل نور توحید سے زندہ ہو چکا ہو اور اسمائے توحید(اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) باطن کی زبان پر بغیر حرف وصوت جاری ہو چکے ہوں۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے۔ 

الإنسان سرّي وأنا سرَّةانسان میر اراز اور میں اس کا راز ہوں‘‘

دوسری حدیث کے الفاظ یوں ہیں: إن علم الباطن هو سرّ من سرّي، أجّعله فى قلب عبدي، ولا يقف عليه أحد غيريبیشک علم باطنی میرے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ میں نے اس راز کو اپنے بندے کے دل میں رکھ چھوڑا ہے۔ اس پر میرے سوا کوئی واقف نہیں ہو سکتا انسان کے وجود کا اصل مقصد ہے ہی علم تفکر جیسارسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے : 

تَفكُّر ساعة خيرٌ من عبادةِ سبعينَ سنةایک پل کا غور و فکر ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے“

 “ تفکر علم الفرقان ہے جسے توحید کہتے ہیں۔ اسی کی بدولت عارف اپنے مقصود ومحبوب تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ عارف اس علم کے نتیجے میں روحانیت کی پرواز کر کے عالم قربت(یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کانام بھی دیا جاتا ہے۔) تک پہنچتا ہے۔ پس عارف قربت کی طرف محو پرواز ہے جبکہ عابد جنت کی طرف پا پیادہ گامزن ہے۔ 

عارفین کے متعلق کسی نے کیاسچ کیا ہے۔ 

قُلوبُ العارفينَ لَها عُيونٌ               تَرى ما لا يَراهُ الناظِرونَ

وَأَجنِحَةٌ تَطيرُ بغَيرِ ريشٍ                  إِلى مَلَكوتِ رِبِّ العالِمينَ

عرفاء کے دلوں کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ یہ آنکھیں وہ سب کچھ دیکھ لیتی ہیں جو ظاہری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ ان( اہل اللہ ( کہ پر ہیں لیکن یہ پرندوں کے سے پرنہیں ہیں۔ وہ ان پروں کے ساتھ پروردگار عالم کی بادشاہی کی طرف محو پرواز رہتے ہیں۔ 

یہ پرواز عرفاء کے باطن میں جاری و ساری ہے۔ عارف انسان حقیقی ہے۔ 

وہ اللہ عزوجل کا محبوب، محرم راز اور اس کی د لہن ہے جیسا کہ ابو یزید (بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اولیاء اللہ، اللہ تعالی کی دلہنیں ہیں۔ دلہنوں کو محرموں کے سواء کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اولیاء کرام اللہ تعالی کے حضور حجاب انس میں مستور ہوتے ہیں۔ نہ انہیں کوئی دنیا میں دیکھ پاتا ہے اور نہ ہی آخرت میں ہاں صرف ایک آنکھ ان کےحق کا مشاہدہ( دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنا) کرتی ہے اور وہ ہے اللہ تعالی کی قدرت کی آنکھ جیسا کہ اللہ تعالی نے حدیث قدسی میں فرمایا :ا وليائي تَحْتَ قِبَائي لا يَعرِفُهُم غَيْرِي

میرے اولیاء میری قبا کےنیچے ہیں۔ انہیں میرے سواء کوئی نہیں پہچانتا۔

 لوگ دلہن کی صرف ظاہری سج دھج کو دیکھ سکتے ہیں۔ 

یحی بن معاذ رازی رحمۃ الله تعالی فرماتے ہیں ۔ 

ولی اللہ زمین میں اللہ تعالی کی خوشبو ہے جسے صرف صديق سونگھ سکتے ہیں۔ یہ خوشبو صدیقوں کے دلوں تک پہنچتی ہے۔ اسی لیے وہ اپنے مولا کی طرف مشتاق رہتے ہیں۔ تفاوت اخلاق کے مطابق ان کی عبادت بڑھتی جاتی ہے اور جوں جوں یہ لوگ عبادت میں بڑھتے ہیں اسی قدر فناء(بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) میں بڑھتے جاتے ہیں۔ کیونکہ فانی(اس شخص کو کہتے ہیں جو حظوظ نفس کے شہود سے فناءہو گیا) جس قدر باقی کا قرب حاصل کر تا ہے اسی قدر فناء(بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) ہوتا جاتا ہے ۔

ولی وہ ہے جو اپنے حال میں فناء ہو اور مشاہد حق میں باقی ہو۔ اسے اپنی ذات پر کوئی اختیار نہ ہو۔ اور نہ ہی اسے غیر خدا کے ساتھ سکون نصیب ہو۔ 

ولی وہ ہے جس کی تائید کرامات سے ہو۔ یعنی یہ مقام اس کی نگاہوں میں فروتر ہو۔ وہ خود افشاء کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ کیونکہ ربوبیت کے راز کو افشاء کرنا کفر ہے۔ جیسا کہ صاحب المرصادر حمہ اللہ تعالی نے فرمایا۔ اصحاب کرامات تمام کے تمام پس پردہ ہیں۔ کرامت مردان خدا کے لیے بمنزلہ حیض کے ہے ولی کے لیے ہزار مقامات ہیں۔ پہلا مقام کرامت ہے۔ جو اس سے گزر کیا تمام مقامات کو پانے میں کامیاب ہو گیا۔

دوسری فصل انسان کا پست ترین حالت (اسفل السافلین) کی طرف لوٹنا

جب الله تعالی نے عالم لاہوت(روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناءہے۔ کیونکہ فانی  کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے) میں روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) کو بہترین اعتدال پر پیدا فرمایا تو چاہا کہ اسے پست ترین حالت کی طرف لوٹائے۔ تا کہ وہ انسیت(دل کے مشاہدہ سے روح کا لطف اندوز ہونا) اور قربت(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے)میں ترقی کرے۔ جیسا کہ ارشاد رب العالمین ہے۔ 

فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ (القمر :55( میری پسندیدہ جگہ میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے پاس بیٹھے ہوں گے“ 

پہلے انسان عالم لاہوت سے عالم جبروت(عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے در میان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں)میں آیا۔ اس کے پاس توحید کا بیج تھا۔ اس نے یہاں اپنی نورانیت کا بیج بویا اور روح قدسی کو جبروتی لباس پہنایا گیا۔ اس کے بعد اسے یکے بعد دیگرے عالم ملکوت، عالم الملک(عالم شہادت یا عالم اجسام واعراض۔ اسی عالم میں روحیں جسموں میں داخل ہوتی ہیں۔ اس کا دوسرا نام عالم سفلی ہے) کی طرف بھیجا گیا۔ اسے لباس عنصری(اربعہ عناصر آگ ،مٹی،  پانی، ہوا  کا جسمانی وجود) دیا گیا تا کہ وہ اس عالم کو جلانہ دے ۔ لباس عنصری سے مراد جسد کثیف ہے۔ جبروتی لباس کی وجہ سے اسے روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا )، ملکوتی لباس کی وجہ سے اسے روح سیرانی (عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح روانی بھی کہتے ہیں) اور ملکی لباس کی وجہ سے اسے روح جسمانی کہتے ہیں۔ 

الاسفل کی طرف روح قدسی کے رجوع سے مقصود جسم اور دل کے واسطہ سے زیادہ درجہ اور قربت کا حصول ہے۔ یہ روح ارض قلب میں توحید کا بیج ہوتی ہے۔ اس سے توحید کا درخت اگتا ہے جس کا تنا باطن کی گہرائی میں پیوست ہو تا ہے اور اس درخت پر رضاء خداوندی کے لیے ثمرة توحید لگتا ہے۔ اسی طرح شریعت کا بیج جسم کی زمین ہوتی ہے جس سے شریعت کا درخت اگتا ہے اور اس سے ثواب کا پھل حاصل ہو تا ہے۔ 

اللہ تعالی نے تمام ارواح کو حکم دیا کہ ان اجساد میں داخل ہو جاؤ اور ہر ایک روح کیلئے جسم میں ایک خاص جگہ متعین فرمادیا۔ 

روح جسمانی کا مقام خون اور گوشت کی درمیانی جگہ قرار پائی روح روانی(عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح سیر انی بھی کہتے ہیں) کو قلب میں رکھا گیا۔ روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا )کو جان میں جبکہ روح قد سی کا مقام باطن ٹھہرایا گیا۔ 

ہر ایک روح کی مملکت جسم کے اندر دکان ہے۔ ہر ایک سامان تجارت رکھے نفع کمارہا ہے۔ یہ کاروبار ہر قسم کے نقصان کے خدشے سے پاک ہے۔ 

ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وجود کے اندر جاری معاملات کو سمجھے کیونکہ یہاں جو کچھ وہ حاصل کرے گا اس کی گردن کا نو شتہ ہو گا۔ جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

أَفَلاَ يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ(العاديات :9،10( 

کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا جب نکال لیا جائے گا جو کچھ قبروں میں ہے اور ظاہر کر دیا جائے گا جو سینوں میں پوشیدہ ہے“ اسی طرح ایک اور آیت میں فرمایا : وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِِرَهُ فِي عُنُقِهِ (الاسراء :13( اور ہر انسان کی( قسمت کا ( نوشتہ اس کے گلے میں ہم نےلٹکار کھاہے ۔

تیسری فصل اجساد میں روحوں کی دکانیں

روح جسمانی کی دکان پورا جسم ظاہری جوارح کے ساتھ ہے۔ اس کا سامان تجارت شریعت ہے۔ اور اس کا کاروبار شرک سے بچتے ہوئے اللہ تعالی کے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدَاَ (الکہف:110( اور نہ شر یک کرے اپنے رب کی عبادت میں کسی کو“ 

حضور ﷺ نے فرمایا : ‌إِنَّ ‌اللَّهَ ‌طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًااللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک ہی کو قبول فرماتا ہے“ 

اسی طرح حضورﷺکا ایک اور ارشاد گرامی ہے۔ إنَّ الله وتر يحبُّ الوتراللہ تعالی و تر(واحد) ہے اور وتر کو پسند فرماتا ہے ۔

لفظ وتر سے مراد نمود و نمائش سے بلند تر ہوتا ہے (یعنی اللہ تعالی بناوٹ سے پاک ہے اور اعمال میں اخلاص کو پسند فرماتا ہے) 

روح جسمانی کا نفع ولایت، مکاشفہ (اتصال یا تعلق باللہ کا نام مکاشفہ ہے۔ مکاشفہ سے چھپے راز عیاں ہو جاتے ہیں اور انسان باطن کی آنکھ سے سب کچھ دیکھنے لگتا ہے)اور تحت الثری سے آسمان بالاتک پوری کائنات کا مشاہدہ (دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنا) ہے۔ اس کی مثال کرامات کونیہ(  جس کا تعلق خلق و ایجاد سے ہے اورجو تمام موجودات و حوادث کو شامل ہے۔ اس کائنات میں خیر و شر، کفر و ایمان اوراطاعت و معصیت جو کچھ بھی ہو رہا ہے کونیہ کہلاتا ہے) جو مراتب رہبانیت سے ہے۔ مثلا پانی پر چلانا، ہوا میں اڑنا۔ طے مکانی ، دور سے سننا اور باطن میں جھانکنا اور اس قسم کی دوسری کرامات۔ آخرت میں اس کا نفع جنت، حور و قصور ، غلمان، شراب طہور۔ تمام نعمتیں، جنت الاولی میں گھر جو جنت الماوی ہے۔

 روح روانی(عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح سیر انی بھی کہتے ہیں) کی دکان قلب ہے۔ ان کی متاع علم طریقت(سالکین کی راہ جو انہیں واصل بحق کرتی ہے۔ مثلا منازل سلوک کا طے کرنا اور مقامات میں ترقی کرنا) اور اس کا کاروبار اللہ تعالی کے بارہ ، اصولی اسماء میں سے پہلے چار اسماء میں مشغول ہو تا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرائی ہے۔ 

وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا (الاعراف:180( 

اور اللہ ہی کے لیے ہیں نام اچھے اچھے۔ سو پکارو اسے انہیں نا موں سے اور یہ آیت اشارہ کر رہی ہے کہ اسماء مشغول ہونے کامحل ہیں۔ اور یہی علم باطن( دل میں ظاہر ہونے والا علم نہ کہ ظواہر میں صوفیاء کرام علیہم الرحمۃ کی جماعت نے اس کی کئی قسمیں بیان کی ہیں۔ مثلا علم ، حال، خواطر ، يقين ، اخلاص ، اخلاق اس کی معرفت ، اقسام دنیا کی معرفت، توبہ کی ضرورت، توبہ کے حقائق، توکل، زهد ، انابت ، فناء، علم لدنی۔ ) ہے۔ معرفت اسمائے توحید(اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط)) کا نتیجہ ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ 

إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‌تِسْعَةً ‌وَتِسْعِينَ اسْمًا، مَنْ ‌أَحْصَاهَا كُلَّهَا دَخَلَ الْجَنَّةَبیشک اللہ تعالی کےنناویں نام ہیں جس نے ان کا ورد کیاوہ جنت میں داخل ہوا 

حدیث میں لفظ احصاءسے مرادان اسماء سے متصف ہوتا ہے۔ اور ان اخلاق خداوندی کو اپنی ذات میں جاری کرنا ہے۔ یہ بارہ اسماء اللہ تعالی کے تمام اسماء کی بنیاد اور اصول ہیں۔ جن کے عدد کلمہ لا الہ الا اللہ کے حروف کے برابر ہیں۔ پس اللہ تعالی نے قلوب کی گہرائیوں میں ہر ایک حرف کے لیے ایک اسم کو ثبت فرما دیا ہے۔ ہر ایک عالم کے لیے تین اسماء ہیں۔ اللہ تعالی انہیں اسماء کے ذریعے محسنین کے دلوں کو اثبات بخشتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَة (الابراہیم:27( 

ثابت قدم رکھتا ہے اللہ تعالی اہل ایمان کو اس پختہ قول (کی برکت سے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالی ایسے لوگوں پر انسیت(دل کے مشاہدہ سے روح کا لطف اندوز ہونا) کی خاص کیفیت نازل فرماتا ہے جسے سکینہ کہا جاتا ہے۔ اس میں شجر توحید پروان چڑھتا ہے جس کی جڑ ساتویں زمین میں بلکہ تحت الثری میں ہے اور ٹہنیاں ساتویں آسمان تک بلند ہیں ۔ بلکہ عرش کے اوپر تک بچھی ہوئی ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے كَشَجَرَةٍ طَيِبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ

(ابراہیم:24( پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں بڑی مضبوط ہیں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں“ 

روح روانی کو اس کاروبار سے جو نفع ہو تا ہے وہ دل کی زندگی ہے۔ عالم الملكوت کو وہ اپنی دل کی آنکھ سے عیاں دیکھتا ہے۔ جنت کے باغ اسے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اہل جنت، جنت کے انوار اور فرشتے اس کے روبرو ہوتے ہیں۔ اور جب وہ اسمائے باطن کا مشاہدہ کر تا ہے تو اپنی زبان سے باطنی گفتگو کر تا ہے جو بلا حرف و صوت ہوتی ہے۔ اس کاروبار کی وجہ سے اس کا ٹھکانا دوسری جنت یعنی جنت النعیم قرار یا تاہے۔

 روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت (روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناء ہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے) اور عالم جبروت (عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے در میان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں) کے در میان ارواح کو عطا فرمایا )کی دکان جان ہے۔ اس کا سامان تجارت معرفت اور کاروبار باره اسماء میں سے در میان چار اسماء کادل کی زبان سے ورد ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا : 

الْعِلْمُ ‌عِلْمَانِ: وَعِلْمٌ عَلَى اللِّسَانِ فَذَاكَ حُجَّةُ اللَّهِ عَلَى ابْنِ آدَمَ. وَعِلْمٌ بِالْجَنَانِ فَذَاكَ ‌الْعِلْمُ ‌النَّافِعُ، ” علم کی دو قسمیں ہیں (1( علم لسانی (2( علم جنانی علم لسانی الله تعالی کی ابن آدم پر حجت ہے اور علم جنانی ہی علم نافع ہے“ کیونکہ علم کے تمام فائدے اسی دائرہ میں ہیں۔ حضور ﷺکا ارشاد ہے۔ إنَّ للقرآن ظهراً وبطناً ولبطنه بطناً إلى سبعة أبطن” 

قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ اور ہر باطن کا پھر ایک باطن ہے (یہ سلسلہ سات باطنوں تک (دراز) ہے“ آپﷺ کا ارشاد ہے: إنَّ الله أنزل القرآن على عشرة أبطن فكل ما هو أبطن فهو أنفع وأربح لأنه مِفَنٌ بیشک اللہ تعالی نے قرآن کو دس بطنوں پر نازل فرمایا۔ پس ہر باطن پہلے باطن سے زیادہ نفع بخش اور مفید ہے۔ کیونکہ اس میں پہلے کی نسبت زیادہ عجائب ہیں۔

 یہ اسماء ان بارہ چشموں کی مانند ہیں جو عصائے موسی کی ضرب سےپھوٹے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشادالہی ہے۔ 

وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْناً قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ (البقرہ:60( 

اور یاد کروجب پانی کی دعامانگی موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے تو ہم نے فرمایاماروا پنا عصا فلاں چٹان پر تو فور ابہہ نکلے اس چٹان سے بارہ چشمے۔ پہچان لیا ہر گروہ نے اپنا اپناگھاٹ 

علم ظاہری اس پاک پانی کی مانند ہے جو عارضی ہو جبکہ علم باطن(دل میں ظاہر ہونے والا علم نہ کہ ظواہر میں صوفیاء کرام علیہم الرحمۃ کی جماعت نے اس کی کئی قسمیں بیان کی ہیں۔ مثلا علم ، حال، خواطر ، يقين ، اخلاص ، اخلاق اس کی معرفت ، اقسام دنیا کی معرفت، توبہ کی ضرورت، توبہ کے حقائق، توکل، زهد ، انابت ، فناء، علم لدنی۔ ) چشمے کے اصلی پانی جیسا ہے( جوکبھی ختم نہیں ہوتا) علم باطنی ، علم ظاہری کی نسبت زیادہ نفع بخش ہے۔ اور علم کا یہ چشمہ ابد ی ہےکبھی خشک نہیں ہو تا۔

ارشاد ربانی ہے: وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ (یس:33( اور ایک نشانی ان کے لیے یہ مردہ زمین ہے۔ ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے نکالا اس سے غلہ پس وہ اس سے کھاتے ہیں۔ 

اللہ تعالی نے روئے زمین سے ایک دانا نکالا جو حیوانات نفسانیہ کی خوراک ہے، زمین انفس سے ایک دانا پیدا کیا جو ارواح روحانیہ کی خوراک ٹھہرا جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

من أخلص لله تعالى أربعين صباحاً ظهرت ينابيع الحكمة من قلبه على لسانهجس نے چالیس صبحیں اللہ کے خلوص میں کیں تو اللہ نے اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر جاری کر دئیے“ 

رہاروح سلطانی کا نفع تو انسان اس سے جمال خداوندی کا عکس دیکھتا ہے 

جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

مَا كَذّبْ الفُؤاد مَا رَأى (النجم:11( نہ جھٹلایادل نے جو دیکھ ( چشم مصطفی)نے 

اسی طرح حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے : المُؤْمِنُ مِرْآةُ المُؤمِن”ایک مؤمن دوسرے مؤمن کا آئینہ ہے“ 

پہلے مؤمن سے مراد ، بندہ کادل ہے اور دوسرے سے مراد اللہ تعالی کی ذات بابرکات ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا صفاتی نام مؤمن آیا ہے 

المُّؤْمِن المُهَيمِن العَزِيز الْجَبَّار المُتَكَبِر (الحشر:23( مانگنے والا، نگہبان، عزت والا، ٹوٹے دلوں کو جوڑنے والا متکبر۔

صاحب المرصاد فرماتے ہیں کہ اس طائفہ کا مسکن تیسری جنت یعنی جنت الفردوس ہے۔ 

روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) کی دکان باطن ہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی ہےالإنسان سرِّي وأنا سِرُّهْانسان میر اراز اور میں اس کا راز ہوں‘‘ 

روح قدسی کی متاع علم الحقیقت(اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں) ہے جسے علم التوحيد کہتے ہیں۔ اور اس کا معاملہ (کاروبار ( اسمائے توحید(اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) کا ورد ہے۔ یعنی آخر چار اسماء کا ورد۔ مگر یہ وظیفہ ظاہری زبان سے نہیں باطن کی زبان سے بغیر نطق کے کرنا ہو تا ہے اور اس کے لیے وقت مقرر نہیں دائمی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: 

وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (طہ:7( 

اور اگر توبلند آواز سے بات کرے تو تیری مرضی وہ تو بلا شبہ جانتا ہے رازوں کو بھی اور دل کے بھیدوں کو بھی“ 

اس کاروبار کا فائدہ یہ ہے کہ طفل معانی(انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) کا ظہور ہو جاتا ہے۔ اور وہ باطن کی آنکھ سے جلال و جمال خداوندی کوروبرو بغیر کا پردہ کے دیکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے۔ 

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القیامۃ:22،23( 

کئی چہرے اس روز تر و تازہ ہوں گے اور اپنے رب کے انوار جمال( کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ دیدار بلا کیف و کیفیت اور بلا تشبیہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الشوری:11( نہیں ہے اس کی مانند کوئی چیز اور وہی سب کچھ سننے والا ۔ دیکھنے والا ہے“ 

جب انسان اپنے مقصود کو پالیتا ہے تو عقلیں سوچنے سے قاصر ، دل عالم تحیر میں سر گرداں اور زبانیں گنگ ہوتی ہیں۔ حتی کہ صاحب مقام( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) خود بھی کوئی خبر نہیں دے سکتاوہ کہے بھی تو کیا کہے۔ الله تعالی مثال سے پاک ہے۔ اگر علماء تک ایسی چیزیں پہنچیں تو انہیں چاہیئے کہ وہ ان مقامات قلوب کو خوب سمجھیں ان کے حقائق کو جاننے کی کوشش کریں۔ اور کسی اعتراض کے بغیر اعلی علیین کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ اس طرح انہیں بارگاہ خداوندی سے علم لدنی حاصل ہو گا اور ذات احدیت( اللہ تعالی کی ذات یکتا) کی معرفت تک رسائی ہو گی۔ وہ ہر گز ہر گز اس مقام کا انکارنہ کریں اور تعرض کی روش سے بچیں۔ 

چوتھی فصل علوم کی تعداد کا بیان

علم ظاہر بارہ فنون پر مشتمل ہے۔ اسی طرح علم باطن کی بھی بارہ شاخیں ہیں۔ اس علم کو عوام، خواص اور اخص الخواص کی استعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے تقسیم کیا گیا ہے۔ 

جملہ علوم چار اقسام ہیں

1۔ شریعت کا ظاہری علم مثلاً امر، نہی اور دوسرے احکام۔

 2۔۔شریعت کا باطنی علم۔ اسے علم طریقت کہتے ہیں۔

 3۔  علم طریقت کاباطن۔ اسے علم معرفت کہتے ہیں۔

4 باطنی علوم کاباطن اسے علم حقیقت کا نام دیا جاتا ہے۔

ان تمام علوم کا حصول ضروری ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے۔ الشريعۃ شجرة والطريق أغصانها والمعرفة أوراقها والحقيقة ثمارها والقرآن جامع بجميعها بالدلالة والإشارة تفسيرا وتأويلا 

شریعت ایک درخت ہے۔ طریقت اس کی ٹہنیاں ہیں، معرفت اس کے پتے ہیں اور حقیقت اس کا پھل ہے۔ قرآن  تمام دلائل ، اشارات ،تفاسیراور تاویلات  کا جامع ہے“

المجمع کے مصنف فرماتے ہیں کہ تفسیر عوام کے لیے ہے اور تاویل خواص کے لیے کیو نکہ خواص ہی رسوخ فی العلم کے حامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ رسوخ کا معنی ہے علم میں ثبات ، استقرار اور استحکام جیسا کہ مضبوط تنے کابلند ترین درخت جس کی شاخیں آسمان تک جا پہنچی ہوں۔ رسوخ فی العلم کلمہ طیبہ کا نتیجہ ہے جو دل کی زمین کو پاک کر کے اس میں کاشت کیا جاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق الراسخون في العلم‘ کا عطف الا الله“ پر ہے (آل عمران:7) 

صاحب تفسیر کبیر (امام رازی رحمۃالله عليہ ( فرماتے ہیں کہ کہ اگر یہ(علم باطن) دروازہ کھل جائے توباطن کے سب دروازے کھل جاتے ہیں۔ 

انسان اللہ تعالی کے امر و نہی کا پابند ہے۔ اسے بارگاہ خداوندی سےیہ حکم مل چکا ہے کہ ان چار دائروں میں سے ہر ایک دائرہ میں نفس کی مخالفت کرے۔ 

نفس دائرہ شریعت میں مخالف شریعت کا موں کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ دائرہ طریقت میں موافقات کی تلبیس(کسی شخص کا یہ گمان کرتا کہ میں نے استقامت، توحید اور اخلاص کا لباس پہن رکھا ہے لہذا میں اللہ کا ولی ہوں لیکن حقیقت میں وہ لباس شیطانی دھوکہ ہو۔ اسےتلبیس کہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے مدعی ولایت کے ہاتھ پر خرق عادت کا ظہور ہو جاتا ہے وہ کرامت نہیں ہوتی بلکہ اسے مخادعہ (استدراج) کہتے ہیں) کا وسوسہ ڈالتا ہے مثلا دعوی نبوت و ولایت اور دائرہ معرفت میں شرک خفی کا وسوسہ ڈالتا ہے جسے وہ اپنے تئیں نورانیات کے دائرے کی چیز سمجھ رہا ہوتا ہے مثلا وہ ربوبیت کے دعوی کے لیے وسوسہ اندازی کرتا ہے۔ جیسا کہ رب قدوس نے فرمایا

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ (الجاثیہ :23 )

ذرا اس کی طرف تو دیکھو جس نے بنا لیا ہے اپنا خدا اپنی خواہش کو“ 

رہا حقیقت کا دائرہ تو اس میں شیطان، نفس اور ملائکہ داخل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ اس دائرے میں غیر خدا جل کر خاکستر ہو جاتا ہے۔ جبرائیل آمین نے بارگاہ نبوت میں عرض کی تھی۔ 

لو دنوت أنملة لاحترقت اگر میں انگلی کے پورے کے برابر بھی آگے بڑھا تو جل جاؤں گا“ 

 اس مقام( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) پر پہنچ کر بندہ مؤمن اپنے دونوں دشمنوں، نفس اور شیطان سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔ اور مخلص شمار ہونے لگتا ہے جیسا کہ رب قدوس کا فرمان مبارک ہے۔ 

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (ص:82-83 ) تیری عزت کی قسم! میں ضرور گمراہ کر دوں گا ان سب کو سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں ان میں سے تو نے چن لیا ہے اور جو بنده حقیقت کے دائرے تک نہیں پہنچ سکتاوہ مخلص نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ بشر ی صفات کی فناء(بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) بجز تجلی(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) ذات کے ممکن نہیں۔ اور جہولیت معرفت ذات سبحانہ کے بغیر مرتفع نہیں ہوسکتی۔ جب بندہ حقیقت کے دائرے میں پہنچ جاتا ہے توجہولیت مکمل ختم ہو جاتی ہے کیونکہ وہاں تو اللہ تعالی بندے کو علم لدنی سے نوازتا ہے۔ بغیر کسی واسطہ کے اپنی معرفت عطا کر تا ہے اور بندہ خضر علیہ السلام کی طرح اللہ تعالی کی تعلیم کے مطابق اس کی عبادت میں مشغول ہو جاتا ہے۔ 

یہی مقام مشاہدہ(دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنا) ہے جہاں انسان ارواح قدسیہ (عالم لاہوت میں نور کا لباس ) کو دیکھتا ہے۔ اپنے محبوب نبی کریم محمد مصطفیﷺکو پہچانتا ہے۔ اس کی انتہاء ابتداء کے ساتھ منطبق ہو جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام اسے ابدی وصال (اتصال بالحق کا دوسرا نام ہے وصال مخلوق سے انقطع کی قدر ہوتا ہے۔ ادنی وصال دل کی آنکھ سے مشاہدہ ہے۔ جب حجاب اٹھ جاتا ہے اورتجلی پڑتی ہے تو سالک کو اس وقت واصل کہاجاتا ہے )کی خوشخبری دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (النساء: 69 )اور کیا ہی اچھے ہیں یہ ساتھی“ 

اور جو اس علم حقیقت(اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں) تک نہیں پہنچاوہ حقیقت میں عالم ہی نہیں اگرچہ اس نے ہزاروں کتب پڑھی ہوں۔ 

جسمانیت جب ظاہری علوم پر عمل پیرا ہوتی ہے تو جزاء میں اسے صرف جنت ملتی ہے جہاں وہ تجلی صفات(بندے کا صفات خداوندی سے متصف ہونے کو قبول کر لیا بجلی صفات ہے) کاعکس پاتا ہے مگر وہ حریم قدس اور قربت(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ظاہری علم کا کام نہیں ہے۔ حریم قدس اور قربت پرواز کا عالم ہے۔ پرندہ بغیر پروں کے اڑ نہیں سکتا۔ صرف وہی بندہ ان علوم تک پہنچ سکتا ہے جو علم ظاہر کی اور علم باطنی کے دونوں پر رکھتا ہو جیسا کہ حدیث قدسی ہے۔ 

یا عبدی اذا اردت ان تدخل حرمی فلا تلتفت الی الملک والملکوت والجبروت لان الملک شیطان العالم والملکوت شیطان العارف والجبروت شیطان الواقف من رضی باحدٍ منھا فھو مطرودعندی اے میرے بندے !جب تو میرے حرم میں داخل ہونے کا ارادہ کرے تو ملک ، ملکوت اور جبروت کی طرف متوجہ نہ ہو۔ کیونکہ ملک عالم کا شیطان ہے۔ ملکوت عارف کا شیطان ہے اور جبروت واقف کا جو ان میں سے کسی ایک عالم سے راضی ہو گیا تو وہ میرے نزدیک مردود ہے“ 

مقصد یہ ہے کہ اسے قربت حاصل نہیں ہو گی۔ ہاں وہ مطرود الدرجات نہیں ہو گا (یعنی ثواب سے محروم نہیں ہو گا) چھوٹی منزلوں پر قناعت کرنے والے قربت حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مقصد کی پوری لگن نہیں رکھتے۔ گویاوہ ایک پر سے اڑنا چاہتے ہیں۔ (وہ ملک ، ملکوت اور جبروت کی نعمتیں بھی چاہتے ہیں) جب کہ اہل قربت کو تو وہاں تک رسائی ہوتی ہے جہاں وہ کچھ ہو تا ہے۔ 

مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا ‌أُذُنٌ ‌سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ جونہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔ نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے وہ جنت القربت ہے اس جنت میں نہ تو حورو قصور ہیں اور نہ شہد اور دودھ کی نہریں( انسان کو اپنی حیثیت پہچاننی چاہیئے۔ کسی ایسی چیز کا دعوی نہیں کرنا چاہیئے جس کا اسے حق نہیں پہنچتا۔ 

امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : 

اللہ تعالی ایسے آدمی پر رحم فرمائے جس نے اپنی حیثیت کا اندازہ لگایا اور اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھا، اپنی زبان کی حفاظت کی اور اپنی عمر کو ضائع نہیں کیا 

عالم کو چاہیئے کہ انسان حقیقی یعنی طفل معانی(انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) کا مطلب سمجھے اور اسمائے توحید( اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط)پر مواظبت اختیار کر کے اس کی تربیت کرے۔ اسے عالم جسمانیت سے نکل کر عالم روحانیت میں آنا چاہیئے۔ عالم روحانیت ، باطن کی دنیا ہے جہاں اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں رہتا۔ یہ دنیانور کا گویا ایک صحراء ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ اور طفل معانی اس میں محو پرواز ہے۔ اس کے عجائب و غرائب کو دیکھتا پھر رہا ہے اگر کسی کو خبر دینے کا امکان نہیں۔ یہ ان موحدین کا مقام ہے جو اپنی ذات کو عین وحدت میں فناء کر چکے ہوتے ہیں۔ ان کے باطن میں جمال خداوندی کا نور ہو تا ہے جسے وہ دیکھتے رہتے ہیں۔ گویا وہ صرف اللہ ہی کو دیکھتے ہیں۔ 

پس یوں سمجھیئے کہ جس طرح انسان سورج کو دیکھے تو دوسری کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتا اسی طرح جب انسان مشاہدہ حق میں مستغرق ہو جاتا ہے تو جمال خداوندی کے مقابلے میں وہ کسی اور کو کیسے دیکھ سکتا ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی ذات سے محو ہو جاتا ہے اور سراپا حیرت بن جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت سیدنا عیسی ابن مریم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا : . 

انسان انسانوں کی بادشاہی میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ پرندوں کی طرح دوسری مرتبہ پیدا نہیں ہوتا 

یہاں دوسری پیدائش سے مراد طفل معانی کی پیدائش ہے۔ یہ پیدائش روحانی ہے اور یہ پیدائش انسان کی حقیقی قابلیت سے ہوتی ہے۔ اور وہ ہے انسان کا باطن طفل معانی کا وجود صرف اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب علم شریعت اور علم حقیقت یکجا ہوتے ہیں۔ کیونکہ بچہ والدین کے نطفوں کے اجتماع سے پیدا ہوتاہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔ 

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ (الدهر:2 )بلاشبہ ہم ہی نے انسان کو پیدا فرمایا ایک مخلوط نطفہ سے“ 

اس معنی کے ظہور کے بعد بنده عالم خلق سے عالم امر کی گہرائیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ بلکہ تمام عالم عالم الروح کے سامنے ایسے ہی ہیں جیسے قطرہ سمندر کے سامنے۔ اس ظہور کے بعد علوم لدنی روحانی کا فیض با حرف و صوت پہنچتارہتاہے۔

پانچویں فصل توبہ اور تلقین کا بیان

یاد رکھیئے مذکوره مراتب سچی توبہ اور تلقین مرشد کے بغیر ہاتھ نہیں آتے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى (الفتح:26)اور انہیں استقامت بخش دی تقوی کے کلمہ پر۔

 اس سے مراد یہ ہے کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کسی ایسے مرشد کامل سےلے جس کا دل پاک و صاف ہو اور اس دل میں اللہ کے سواء کسی اور کابسیرا نہ ہو۔ اس سے مراد وہ کلمہ نہیں جو عوام الناس کی زبان پر جاری ہو تا ہے۔ اگر چہ عوام اور خواص کے کلمے کے الفاظ تو ایک جیسے ہیں لیکن ان کے معانی میں بہت فرق ہے۔ کیونکہ دل توحید کا بیج جب کسی زندہ دل سے اخذ کر تا ہے تواس کا دل بھی زندہ ہو جاتا ہے اور ایسابیج کامل بيج بن جاتا ہے۔ ایک نامکمل بیج کبھی نہیں اگ سکتا۔ اس لیے کلمہ توحید کے بیج کا تذکرہ قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے۔

 ایک تو ظاہر ی قول(زبان سے اقرار) کے ساتھ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔

 إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ (الصافات:35)جب انہیں کہا جاتا ہے کہ نہیں ہے کوئی معبود اللہ کے سوا ۔ یہ کلمات عوام کے حق میں نازل ہوئے۔

اور دوسرے علم حقیقی  (اللہ کی معرفت  کا علم حاصل کرنےکے بعد توحید کا زقرارتصدیق بالقلب  )کے ساتھ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے : 

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ (محمد:19) پس آپ جان لیں کہ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اور دعامانگا کریں کہ اللہ آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے نیز مغفرت طلب کریں مومن مردوں اور عورتوں کیلئے۔

یہ آیت اپنے شان نزول کے سبب خواص کی تلقین کے لیے نازل کی گئی ہے۔

تلقین ذکر

بستان شریعت میں ہے کہ سب سے پہلے جس شخص نے بارگاہ نبوت میں قریب ترین، آسان اور افضل راستے کی تمنا ظاہر کی وہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں نبی کریم ﷺنے وحی کا انتظار فرمایا حتی کہ جبرائیل امین حاضر ہوئے اور کلمہ طیبہ لا الہ الا للہ کی تین بار تلقین کی ۔ حضور ﷺنے اس کلمے کو دھرایا اور پھر حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو اس کی تلقین فرمائی ، پھر آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لے گئے انہیں بھی تلقین کی اور فرمایا : 

رَجَعْنَا مِنْ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ آئے“ 

یہاں جہاد اکبر سے مراد نفس کے خلاف جہاد ہے۔ جیسا کہ ایک اور حدیث میں فرمایا : 

أَعْدَى أَعْدَائِك نَفْسُك الَّتِي بَيْنَ جَنْبَيْكتیر اسب سے بڑا دشمن تیر اپنانفس ہے جو تیرے پہلو میں ہے“ 

تو اس وقت تک اللہ تعالی کی کامل محبت حاصل نہیں کر سکتا جب تک اپنے اندر نفس امارہ،( جو نفس بشری شہوانی طبیعت کے تقاضوں کا مطیع و فرمانبردار ہو نفس امارہ کہلاتا ہے۔ نفس امارہ اوامر و نواہی کی کچھ پرواہ نہیں کرتا اور لذات نفسانی میں منہمک رہتا ہے) نفس لوامہ اور نفس ملہمہ(ایسا نفس الہام خداوندی سے بھلائی کے کام کرتا ہے۔لیکن بتقاضا طبیعت اس سے برے کام بھی ہو جاتے ہیں) کو شکست فاش نہیں دے لیتا۔ نفس شکست کھا گیا توگویا تو اخلاق ذمیمہ سے پاک صاف ہو گیا۔ میری مراد اخلاق حیوانیہ مثلا کھانے پینے اور سونے میں زیادتی، لغو و بیہودہ گفتگو اخلاق شنیعہ مثلا غصہ ، گالی گلوچ، لڑنا جھگڑنا۔ 

اخلاق شیطانیہ مثل کبر و نخوت، حسد و کینہ وغیرہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اخلاق ذمیمہ ہیں۔ یہ تمام نفس سے تعلق رکھتے ہیں خواہ بدنی ہو یا قلبی ۔ جب انسان ان اخلاق ذمیمہ سے پاک ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ گناہوں سے واقعی پاک ہو چکا ہوتا ہے۔ اور اس کا شمارمتطہرین اورتوابین میں ہونے لگتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ . 

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرہ:222)

بیشک اللہ تعالی دوست رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے صاف ستھرارہنے والوں کو“ 

ظاہری گناہوں سے توبہ کرنے والے اس آیت کا مصداق نہیں ہیں۔ 

اگر چہ وہ تائب ہیں لیکن وہ توٗ اب نہیں ہیں۔ کیونکہ تواب مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس 

سے مراد خواص کی توبہ ہے۔

ظاہری گناہوں سے توبہ کرنے والے شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے جو گھاس کو کاٹ دیتا ہے جڑ سے اکھیٹر تا نہیں۔ ظاہر ہے یہ گھاس دوبارہ اگے گی اور پہلے سے زیادہ اگے گی۔ 

تواب کی مثال گھاس کو جڑ سے اکھیڑنے والے کی ہے۔ یہ گھاس دوباره نہیں اُگے گی اگر اُگ بھی آئی تو معمولی سی ہو گی جسے بہ آسانی اکھیٹرا جا سکتا ہے۔ تلقین ایک ایسا آلہ ہے جو مرید کے دل سے غیر اللہ کو کاٹ ڈالتا ہے کیونکہ کڑوا درخت کاٹ کر ہی اس کی جگہ میٹھے پھل کا درخت لگایا جا سکتا ہے۔ اس بات میں غور و فکر کرو اور سمجھنے کی کوشش کرو۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔ 

وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (شوری:25)

اور وہی ہے جو توبہ قبول کر تا ہے اپنے بندوں کی اور درگزر کر تا ہے ان کی غلطیوں سے۔

 ایک اور آیت کریمہ میں فرمایا

 إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (الفرقان:70 )

وہ جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کئے تو یہ وہ لوگ ہیں بدل دے گا الله تعالی ان کی برائیوں کو نیکیوں سے۔

اقسام توبہ

 توبہ کی دو قسمیں ہیں۔ توبہ عام اور توبہ خاص ۔

 توبہ عام تویہ ہے کہ انسان گناہ کو چھوڑ کر اطاعت کی طرف آجائے۔ اخلاق ذمیمہ کو ترک کر کے اخلاق حمیدہ کو اپنائے۔ جہنم کی راہ سے ہٹ کر جنت کے راستے پر چل دے۔ آرام و آسائش کی عادت کو چھوڑ کر ذکر و فکر اور مجاہدہ و ریاضت(دل کو طبیعت کے تقاضوں اور اس کی خواہشات سے پاک کرنا) کے ذریعے نفس کو مطیع کرنے کی کو شش کرے۔ (یہ عوام الناس کی توبہ ہے)

 توبہ خاص یہ ہے کہ انسان عوام کی توبہ کو حاصل کر لینے کے بعد حسنات سے معارف کی طرف، معارف سے درجات کی طرف ،درجات سے قربت (اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) کی طرف، قربت و لذات نفسانیہ سے لذات روحانیہ کی طرف لوٹے۔ خواص کی توبہ گویا تر ک ماسوا اس سے انس اور اس کی طرف یقین کی آنکھ سے دیکھنا ہے۔ 

یہ تمام چیزیں وجود کے کسب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور وجود کاکسب گناہ ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ ‌وُجُودُكَ ‌ذَنْبٌ لَا يُقَاسُ بِهِ ذَنْبُ تیر اوجود گناہ (حجاب)ہے اس(بشریت) سے بڑے گناہ کا قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا ۔( دیکھنے والوں کی نظر کے لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بشریت آپ ﷺ کی حقیقت کے لیے حجاب بن گئی دیکھنے والے اس بشریت کے پیچھے آپ کی حقیقت کو نہ دیکھ سکے جیساکہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہےوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ اور آپ کو ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، حالانکہ وہ بصارت سے محروم ہیں) عرفاء کہتے ہیں کہ ابرار کی حسنات مقربین کی سیئات ہیں اور مقربین کی سیئات ابرار کی حسنات ہیں اسی لیے حضورﷺروزانہ سو بار استغفار کرتے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ . 

وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ (محمد: 19 )اور استغفار کیا کریں کہ اللہ تعالی آپ کو گناہ سے محفوظ رکھے“ 

یہاں گناہ سے مراد وجود کا گناہ ہے۔ اسی کا نام انابت ہے کیونکہ انابت ماسوا اللہ کو چھوڑ کر اللہ کا ہو جانا آخرت میں قربت کے واسطے میں داخل ہو نا اور اللہ تعالی کی ذات گرامی کا دیدار حاصل کرنا ہے جیسا کہ حضور ﷺنے فرمایا: 

إن لله عبادا أبدانهم في الدُّنْيَا وَقُلُوبُهُمْ تحت العرشاللہ تعالی کے ایسے بندے بھی ہیں جن کے بدن تو دنیا میں ہیں لیکن ان کے دل تحت العرش ہوتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا دیدار اس دنیا میں نہیں ہو سکتا۔ ہاں صفات خداوندی کے عکس کودل کے آئینے میں دیکھناممکن ہے۔ جیسا کہ حضرت سیدنا امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے۔ 

: ”میرے دل نے اپنے رب کا دیدار کیا یعنی میرے رب کے نور کے ساتھ ۔ پس دل جمال خداوندی کے عکس کو دیکھنے کا آئینہ ہے۔ یہ مشاہدہ مرشد کامل کی تلقین کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔ مگر ضروری ہے کہ شیخ واصل بحق ہو اور اس کا سلسلہ طریقت آخر تک متصل ہو۔ وہ حضورﷺکے واسطہ سے اور اللہ تعالی کے حکم سے ناقصوں کی تکمیل کے لیے مقرر کیا گیا ہو (صاحب خلافت ہو) 

اولیاء خواص کے لیے بھیجے جاتے ہیں عوام کے لیے نہیں۔یہی فرق ہے ولی اورنبی میں نبی عام و خاص ہر ایک کے لیے مستقل بنفسہ مبعوث ہوتا ہے یعنی ولی مرشد صرف خواص کے لیے بھیجا جاتا ہے اور وہ مستقل بنفسہ نہیں ہو تا۔ ولی کو ہر حال میں اپنے نبی کی اتباع کرنا ہوتی ہے۔ اگر وہ استقلال بنفسہ کا دعوی کرے تو کافر ہو جاتا ہے۔ حضور ﷺنے اپنی امت کے علماء کو انبیاء بنی اسرائیل جیسا فرمایا ہے۔ کیو نکہ انبیاءبنی اسرائیل حضرت سیدنا موسی علیہ السلام کی شریعت کی اتباع کرتے تھے۔ یعنی ان کے علماء دین کی تجدید کرتے اور نئی شریعت لائے بغیر اسی شریعت کے احکام کی تاکید کرتے۔ اسی طرح اس امت کے علماء جنہیں منصب ولایت پر فائز کیا گیا ہے خواص کے لیے بھیجے گئے ہیں تاکہ وہ امر و نہی کی تجدید کریں۔ اور تاکید و تبلیغ، اصل شریعت کے تزکیہ کے ذریعے عمل میں استحکام پیدا کریں۔ تصفیہ اور تزکیہ سے مراد دل کی پاکیزگی ہے۔ دل معرفت کا محل ہے۔ یہ لوگ حضور (کے علم کے ذریعے خبر دیتے ہیں۔ جیسا کہ اصحاب صفہ(وہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم جو سب کچھ چھوڑ کر دعوت و ارشاد کے ہو کر رہ گئے تھے اسلامی تعلیمات کا بہت سا حصہ انہیں کے ذریعے روایت ہوا) معراج سے پہلے اسرار معراج بتایا کرتے تھے۔ امت محمدیہ کا کامل ولی وہی ہے جس کو یہ نور عطا کیا گیا ہو۔ یہ نور نبوت کا ایک جزو ہے اور ولی اللہ کے دل میں اللہ تعالی کی امانت ۔ عالم وہ نہیں جس کے پاس صرف ظاہری علم ہو۔ اگر چہ ظاہر کی عالم بھی وراثت نبوت کا حقدار ہے یعنی اس کی حیثیت ذوی الارحام(بہن بھائی جن کی ماں مشترک باپ مختلف ہوصرف ظاہری علم کے وارث) کی سی ہے۔ کامل وارث وہ ہے جو بیٹے(ماں باپ ایک ہوںظاہری وباطنی علم کے وارث) کی جگہ ہو۔بچہ اپنے والد کا ظاہر و باطن میں راز ہو تا ہے۔ اسی لیے حضور ﷺنے فرمایا

إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ كَهَيْئَةِ الْمَكْنُونِ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا الْعُلَمَاءُ بِاللَّهِ، فَإِذَا نَطَقُوا بِهِ أَنْكَرَهُ أَهْلُ الْغِرَّةِ بِاللَّهِعلم ایک چھپی ہوئی چیز کی مانند ہے جسے صرف علماء باللہ ہی جانتے ہیں۔ جب وہ اس علم کو زبان پر لاتے ہیں تو غافل لوگوں کے سواء کوئی انکار نہیں کرتا ۔

یہی وہ راز ہے جو معراج کی رات اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺکے قلب اطہر میں ودیعت فرمایا تھا۔ علم کے جو تیس ہزار باطن ہیں۔ ان میں سے یہ آخری باطن ہے۔ نبی کریم نے اس راز سے اپنے مقربین صحابہ اور اپنے اصحاب صفہ (وہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم جو سب کچھ چھوڑ کر دعوت و ارشاد کے ہو کر رہ گئے تھے اسلامی تعلیمات کا بہت سا حصہ انہیں کے ذریعے روایت ہوا) علیہم الرضوان کے علاوہ کسی عامی کو آگاہ نہیں فرمایا۔ اللہ تعالی ان مقربین بارگاہ کی برکتوں سے ہمیں مستفیض فرمائے اور ان کی نیکیوں اور احسانات کی بارش سےہمیں سیراب کرے۔ آمین یارب العالمین۔ 

علم باطن اسی راز کی طرف رہنمائی کر تا ہے۔ تمام علوم و معارف اسی راز کا چھلکا ہیں۔ جو علمائے ظاہر ہیں وہ بھی اس راز کے وارث ہیں۔ بعض کی حیثیت صاحب الفروض کیا ہے۔ بعض کی عصبات اور بعض کی ذوی الارحام کیا۔ یہ لوگ علم کے چھلکے کو دعوت الی سبیل اللہ کے ذریعے پھیلا رہے ہیں یہ مواعظ حسنہ سے کام لیتے ہیں یعنی مشائخ اہل سنت جن کا سلسلہ طریقت مولا علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے وہ علم کے مغز کے وارث ہیں۔ انہیں باب مدينۃ العلم کی وساطت سے یہی علم ارزانی ہوا ہے یہ لوگ حکمت کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل:125)اے محبوب بلایئےلوگوں کو اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت سے اور عمدہ نصیحت سے اور ان سے بحث (ومناظرہ) اس انداز سے مجھے جو بڑا پسندیدہ اور شائستہ ہو“ 

علماء ظاہر اور علماء باطن کی گفتگو تو ایک جیسی ہوتی ہے یعنی فروعات میں فرق ہوتا ہے۔ یہ تینوں معانی حضورﷺمیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یعنی مجموعی طور پر کسی اور کو عطا نہیں کیے گئے۔ ان معانی کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

 1۔ پہلی قسم :۔ علم کا مغز ہے۔ یہ علم حال ہے۔ یہ علم صرف مردان با صفا کو عطا ہوتا ہے جن کی ہمت کی تعریف حضور ﷺنے فرمائی ہے۔ 

هِمَّةُ الرِّجالِ تَقْلَعُ الجِبالَمردوں کی ہمت پہاڑوں کو اکھیڑپھینکتی ہے 

یہاں پہاڑوں سے مراد قساوت قلبی ہے جو بندگان خدا کی دعا اور تضرع سے محو ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا (البقرہ:269)

”اور جسے عطاکی گئی دانائی تو یقیناً اسے دے دی گئی بہت بھلائی 

2۔ دوسری قسم :۔ اس مغز کا چھلکا ۔ یہ علماء ظاہر کا حصہ ہے اور اس سے مراد موعظت حسنہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔ 

الْعَالِمُ يَعِظُ بِالْعِلْمِ وَالْأَدَبِ وَالْجَاهِلُ يَعِظُ بِالضَّرْبِ وَالْغَضَبِعالم علم اور ادب کے ذریعے سمجھاتا ہے جبکہ جاہل مار پیٹ اور ناراضگی سے۔

 3۔ تیسری قسم :۔ یہ چھلکے کا بھی چھلکا ہے۔ یہ حصہ امراء کو دیا جاتا ہے۔ وہ عدل ظاہر کی اور سیاست ہے جس کی طرف قرآن نے بایں الفاظ اشارہ کیا ہے۔ 

وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل:125) یہ لوگ اللہ تعالی کی صفت قہر کے مظاہر ہیں۔

 یہ نظام دین کی حفاظت کا سبب بنتے ہیں۔ جس طرح کہ سفید چھلکا اخروٹ کی حفاظت کرتا ہے۔ ظاہری علماء کا مقام سرخ اور سخت چھلکے کی مانند ہے اور فقرائے صوفياء عار فین مغز ہیں جو درخت اگانے کا اصل مقصود ہو تا ہے۔ یہی لب لباب ہے۔ اسی لیے حضور ﷺنے ارشاد فرمایا : 

يَا بُنَيَّ عَلَيْكَ بِمَجَالِسِ الْعُلَمَاءِ، وَاسْتَمِعْ كَلَامَ الْحُكَمَاءِ، فَإِنَّ اللهَ يُحْيِي الْقَلْبَ الْمَيِّتَ بِنُورِ الْحِكْمَةِ كَمَا يُحْيِي الْأَرْضَ الْمَيْتَةَ بِوَابِلِ الْمَطَرِعلماء کی مجلسوں میں بیٹھو اور علماء کا کلام سنو۔ کیونکہ اللہ تعالی نور حکمت سے مردہ دلوں کو زندگی بخشتا ہے جس طرح مردہ زمین کو بارش کے پانی سے زندہ کر دیتا ہے۔

 ایک اور حدیث پاک میں ہے۔ كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ كُلِّ حَكِيمٍ، وَإِذَا وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا”دانائی کی بات عقلمند آدمی کی گویاگمشدہ چیز ہے وہ اسے جہاں ملتی ہے حاصل کر لیتا ہے“ 

لوگوں کی زبانوں پر جاری کلمہ (لا الہ الا الله محمد رسول الله) لوح محفوظ سے نازل ہوا ہے۔ لوح محفوظ عالم الجبروت(عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے در میان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں) کے درجات سے ہے۔ اور جو کلمہ واصلین کی زبانوں پر جاری ہے وہ لوح اکبر سے بلا واسطہ زبان قدرت کے ذریعے قربت میں نازل ہوا ہے۔ ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ اسی لیے اہل تلقین (مرشد کامل) کی تلاش فرض ہے جیسا کہ حضور ﷺنے فرمایا

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍعلم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے“ 

حدیث پاک میں علم سے مراد علم معرفت و قربت ہے۔ باقی علوم ظاہرہ کی ضرورت اتنی ہے کہ انسان فرائض کوبجالا سکے جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ 

حياةُ القلبِ علمٌ فادَّخرهُ                 وموت القلب جهلٌ فاجتَنِبْهُ

وخيرُ مراددِكَ التَّقوَى فَزِدْهُ            كفاكَ بماوَعَظتُكَ فاتَّعِظْهُ

 دل کی زندگی علم ہے۔ اسے ذخیرہ کرلے۔ اور دل کی موت جہالت ہے اس سے دامن بچالے۔

 تیری بہترین مراد تقوی ہے اس میں اور اضافہ کر۔ میری یہ نصیحت تیرے لیے کافی ہے پس اسے پلےباندھ لے۔ 

جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى (البقرہ: 197)

اور سفر کا توشہ تیار کرو اور سب سے بہتر توشہ تو پرہیز گاری ہے“ 

اللہ تعالی کی رضا اس میں ہے کہ بندہ قربت کی طرف سفر کرے اور 

در جات (ثواب( کی طرف ملتفت نہ ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ (الکہف :30) بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے“ اور فرمایا : 

قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى (الشوری:23) آپ فرمائیے میں نہیں مانگتا اس(دعوت حق پر) کوئی معاوضہ بجز قرابت کی محبت کے

 ایک قول کے مطابق المودة فی القربی کا معنی عالم قربت(یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کانام بھی دیا جاتا ہے۔) ہے۔ 

چھٹی فصل اهل تصوف کے بیان میں

اہل تصوف کی وجہ تسمیہ یا تو یہ ہے کہ وہ نور معرفت و توحید سے اپنے باطن کا تصفیہ کرتے ہیں۔ یا یہ کہ وہ اصحاب صفہ (وہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم جو سب کچھ چھوڑ کر دعوت و ارشاد کے ہو کر رہ گئے تھے اسلامی تعلیمات کا بہت سا حصہ انہیں کے ذریعے روایت ہوا) جیسی (فقیرانہ) زندگی گزارتے ہیں یا پھر یہ کہ وہ صوف (اون) کا لباس زیب تن کرتے ہیں۔ مبتدی(وہ سالک  جو ابھی راہ سلوک کی ابتداء میں ہو)  بھیڑ کی اون کا لباس پہنتا ہے۔ متوسط بکری کی اون کا اور منتہی(وہ سالک  جو راہ سلوک کی انتہاء  پر پہنچ چکا ہو) پشم کا لباس پہنتا ہے۔ حسب مراتب احوال ان کے باطن کی حالت بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ کھانے پینے میں بھی باہم تفاوت ہوتا ہے۔ تفسیر مجمع البيان کے مصنف لکھتے ہیں : اہل زہد کو چاہیئے کہ وہ لباس اور کھانے پینے میں سخت چیزوں کا استعمال کریں۔ اصل معرفت کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ نرم چیزیں استعمال میں لائیں۔ لوگوں کا اپنے مراتب و منازل سے فروتر ہو کر رہنا سنت ہے تاکہ کسی طریقے میں حد سے تجاوز نہ ہو جائے۔ اہل تصوف کی چوتھی وجہ تسمیہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ حضرت احدیت ( اللہ تعالی کی ذات یکتا) میں پہلی صف کے لوگ ہیں۔ 

تصوف کا لفظ چار حروف پر مشتمل ہے۔ تاء ، صاد، وا ؤ، فا۔ 

تا:۔توبہ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں ، ظاہر کی توبہ اور باطن کی توبہ ظاہر کی توبہ یہ ہے کہ انسان اپنے تمام ظاہری اعضاء کے ساتھ گناہوں اور اخلاق رذیلہ سے اطاعت و انقیاد کی طرف لوٹ آئے اور قولاً و فعلاً مخالفات کو ترک کر کے موافقات کو اپنائے۔ 

باطنی توبہ یہ ہے کہ انسان باطن کے تمام اطوار کے ساتھ مخالفات باطنیہ سے موافقات کی طرف آجائے اور دل کو صاف کر لے۔ جب اخلاق ذمیمہ ، اخلاق حسنہ میں تبدیل ہو جائیں تو تاء کا مقام( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) مکمل ہو جاتا ہے۔ اور ایسے شخص کو تائب کہتے ہیں۔

 صاد :۔ صفاء کو ظاہر کرتا ہے۔صفاکی دو قسمیں ہیں۔ صفاء قلبی اور صفاء سری۔ 

صفاء قلبی تو یہ ہے کہ انسان بشری کدورتوں سے اپنے دل کو صاف کر کے مثلا کثرت اكل وشرب، کثرت کلام، کثرت نوم جیسی دل سے تعلق رکھنے والی کدورتیں اور اسی طرح ملاحظات دنیوی مثلا زیادہ کھانے کی فکر ، زیادہ جماع، اہل و عیال کی زیادہ محبت اور اسی طرح کی دوسری نفسانی کدورتیں جن سے اللہ تعالی نے روک دیا ہے۔ 

ان کدورتوں سے دل کو صاف کرنا ملازمت ذکر بغیر ممکن نہیں۔ 

شروع میں مرشد اپنے مرید کو ذکر بالجبر کی تلقین کرے تا کہ وہ مقام حقیقت تک پہنچ جائے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ

(الانفال:2( صرف وہی سچے ایماندار ہیں کہ جب ذکر کیا جاتا ہے اللہ تعالی کا تو کانپ اٹھتے ہیں ان کے دل“ 

یعنی ان کے دلوں میں خشیت پیدا ہو جاتی ہے تو ظاہر ہے خشیت صرف اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے کہ دل غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائیں۔ اور ذکر خداوندی سے اس کا زنگ اتر جائے۔ خشیت کے بعد خیر وشر جوانی تک مخفی ہوتا ہے اس کی صورت دل پر نقش ہو جاتی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے اَلْعَالِمُ يُنَقِّشُ وَالْعَارِفُ يُصَقِّلُ ” عالم نقش اٹھاتا ہے اور عارف اسےصیقل کرتا ہے۔ 

رہی صفائے سری تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ماسوا اللہ کو دیکھنے سے اجتناب کرے اور اس کو دل میں جگہ نہ دے۔ اور یہ وصف اسمائے توحید( اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) کا لسان باطن سے مسلسل ورد کرنے سے حاصل ہو تا ہے۔ جب یہ تصفیہ حاصل ہو جائے توصاد کا مقام پوراہو جاتا ہے۔

واؤ :۔واؤ ولایت کو ظاہر کرتی ہے۔ اور ولایت تصفیہ پر مرتب ہوتی ہے۔ جیسا کہ الله تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس:62( خبردار ! بیشک اولیاء اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے“ 

ولایت کے نتیجے میں انسان اخلاق خداوندی کے رنگ میں رنگ جاتا ہے 

جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

‌تَخَلَّقُوا ‌بِأَخْلَاقِ ‌اللَّهِ تَعَالَىاخلاق خداوندی کو اپنالو“ 

یعنی صفات خداوندی سے متصف ہو جاؤ۔ ولایت میں انسان صفات بشری کا چولہ اتار پھینکنے کے بعد صفات خداوندی کی خلعت زیب تن کر لیتا ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

إِذا أَحبَبْتُ عَبْداً كنتُ لهُ سَمعاً وبصراً ويداً ولساناً ، فبِي يسمَعُ وبِي يُبْصرُ وبِي يَبْطشُ وبِي ينطِقُ وبي يَمشيِجب میں کسی بندے کو محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کے کان، آنکھ ، ہاتھ اور زبان بن جاتا ہوں۔ (اس طرح) وہ میری سماعت کے ذریعے سنتا ہے۔ میری بصارت کے ذریعے دیکھتا ہے۔ میری قوت سے پکڑتا ہے میری زبان قدرت سے گفتگو کرتا ہے اور میرے پاؤں سے چلتا ہے 

جو آدمی اس مقام پر فائز ہو جاتا ہے وہ ماسوای اللہ سے کٹ جاتا ہے ۔ 

جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (الاسراء:81( 

اور آپ (اعلان فرما دیجئے آگیا ہے حق اور مٹ گیا ہے باطل۔ بیشک باطل تھاہی مٹنے والا۔

یہاں واؤ کا مقام مکمل ہو جاتا ہے۔ 

یہ حرف فناء فی اللہ کو ظاہر کرتا ہے۔یعنی غیر سے اللہ تعالی میں فناء ہو جانا جب بشری صفات فناء ہو جاتی ہیں تو خدائی صفات باقی رہ جاتی ہیں۔ اور خدائی صفات نہ فناء ہو تی ہیں نہ فساد کا شکار اور نہ زائل ہوتی ہیں۔ 

پس عبد فانی رب باقی اور اس کی رضا کے ساتھ باقی بن جاتا ہے اور بنده فانی کا دل سر ربانی اور اس کی نظر کے ساتھ باقی ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلا وَجْهَهُ” (القصص:88( ہر چیزہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے ۔

یہاں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد اللہ کی رضا اور خوشنودی لی جائے۔ یعنی ساری چیزیں فانی ہیں سوائے ان اعمال صالحہ کے جن کو صرف اللہ تعالی کی رضاء اور خوشنودی کے لیے سرانجام دیا جائے۔ پس وہ راضی برضا ہو جاتا ہے اور یہی بقا ہے۔ 

عمل صالح کا نتیجہ حقیقت انسان کی زندگی ہے جسے طفل معانی (انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر:10( اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور نیک عمل پاکیزہ کلام کو بلند کر تاہے ۔

ہر وہ کام جو غیر اللہ کے لیے ہو شرک ہے اور شرک کا مرتکب ہلاک ہونے والا ہے۔ جب انسان فناء فی اللہ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اسے عالم قربت(یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کانام بھی دیا جاتا ہے۔) میں بقا حاصل ہو جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ (القمر:55(

میری پسندیدہ جگہ میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے پاس (بیٹھے ( ہوں گے“ عالم لاہوت(روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناء ہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے) میں یہی انبیاء و اولیاء کے ٹھہرنے کی جگہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبہ:119( اور ہو جاسچے لوگوں کے ساتھ“ جب حادث(مخلوق) قدیم سے مل جاتا ہے تو حادث کا اپنا وجود نہیں رہتا کسی شاعر نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔ 

‌صِفَاتُ ‌الذَّات والأَفْعَالِ طُرًّا                                  قَدِيمَاتٌ مَصُونَاتُ ‌الزَّوالِ

اللہ تعالی کی تمام صفات اور افعال قدیم ہیں جو زوال پذیر ہونے سے محفوظ ہیں۔ 

جب فناء(بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) تمام ہو جائے تو صوفی حق کے ساتھ ہمیشہ کیلئے باقی بن جاتا ہے، قرآن کریم میں ہے : 

أَصْحَاب الْجَنَّة هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرہ:82( وہی جنتی ہیں۔ وہ اس جنت میں ہمیشہ رہنے والے ہیں“ 

ساتویں فصل ذکر و اذ کار کے بارے میں

اللہ تعالی ذکر کرنے والوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ (البقرہ:198( اور ذکر کرو اس کا جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی“ 

یعنی اللہ تعالی کا اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تمہارے ذکر کے مراتب کی طرف تمہاری رہنمائی فرمائی۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

فضَلُ ما أقولُ أَنا ومَا قالَهُ النَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي لا إله إِلاّ اللهبہترین کلمہ وہ ہے جس کا ورد میں کر تا ہوں اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کرتے رہے ہیں۔ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ ہے۔ 

ذکر کے ہر مقام کا ایک خاص مرتبہ ہے خواہ ذ کر جہری ہو یا خفی ہو۔ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی زبانی ذکر کی طرف رہنمائی کی ہے۔ پھر ذکر نفس ہے پھر ذکر قلب ، ذکر روح ، ذ کر سر، ذکر خفی اور آخر میں ذکر اخفی الخفی کا مرتبہ ہے۔

 لسانی ذکر :۔ گویا دل کو بھولا ہوا سبق یاد کرانا ہے۔ وہ اللہ تعالی کا ذکر بھول چکا تھا اس ذکر کے ساتھ اس کو یہ بھولا ہو اسبق یاد آجائے گا۔ 

ذکرنفس :۔یہ ذکر سنائی نہیں دیتا اور اس میں حرف و صوت پائے جاتے ہیں ہاں یہ باطن میں حس و حرکت کے ذریعے سنائی دیتا ہے۔

 ذکر قلبی :۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دل اپنی تہہ میں اللہ کے جلال و جمال کو ملاحظہ کرے۔ 

ذکر روحی :۔ صرف روح ذکر کرتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تجلیات(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) صفات کے انوار مشاہدہ میں آنے لگتے ہیں۔

ذکرسری :۔ اس سے مراد اسرارالہٰی کے مکاشفہ(اتصال یا تعلق باللہ کا نام مکاشفہ ہے۔ مکاشفہ سے چھپے راز عیاں ہو جاتے ہیں اور انسان باطن کی آنکھ سے سب کچھ دیکھنے لگتا ہے) کے لیے مراقبہ کرتا ہے۔ 

ذکر خفی :۔ مقصد صدق میں حجال ذات احدیت ( اللہ تعالی کی ذات یکتا) کے انوار کا معائنہ ذکر خفی ہے۔ 

ذکر اخفی الخفی :۔ حق الیقین کی حقیقت پر نظر رکھنا ذکر اخفی الخفی ہے ۔ اس ذکر سے سوائے اللہ تعالی کے کوئی مطلع نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ 

فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (طہ:7( وہ تو بلا شبہ جانتا ہے رازوں کو بھی اور دل کے بھیدوں کو بھی“ 

ذکر کی یہ صورت تمام عالموں تک پہنچنے والی اور تمام مقاصد کو پانے والی ہے یادرہے کہ ایک اور روح بھی ہے۔ اور کی یہ قسم تمام ارواح سے زیادہ لطیف ہے۔ اسی دوسری روح کا نام طفل معانی(انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) ہے۔ یہ اللہ تعالی کا ایک خاص عطیہ ہے جو بندے کو ان اطوار کے ذریعے اللہ تعالی کی طرف بلاتا ہے۔ عرفاء فرماتے ہیں کہ یہ روح ہر ایک کو نہیں ملتی بلکہ صرف خواص کو دی جاتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ (غافر:15( نازل فرماتا ہے وہی اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے ۔

یہ روح ہمیشہ عالم قدرت میں رہتی ہے اور عالم حقیقت(یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت(یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کانام بھی دیا جاتا ہے۔) کانام بھی دیا جاتا ہے۔) کا اس طرح مشاہدہ(دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنا) کرتی ہے کہ اس کی نظر غیر کی طرف کبھی ملتفت نہیں ہوتی جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

الدُّنْيا حَرَامٌ على أهْلِ الآخِرَةِ والآخِرَةُ حَرَامٌ عَلى أهْلِ الدُّنْيا والدُّنْيا والآخِرَةُ ‌حَرَامٌ ‌على ‌أهْلِ ‌اللهدنیا اہل آخرت پر حرام ہے اور آخرت اہل دنیا پر حرام۔ اور یہ دونوں (دنیاو آخرت) اللہ والوں پر حرام ہے۔

اللہ تعالی تک پہنچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ جسم صبح و شام شریعت مطہره کی پابندی کر کے صراط مستقیم پر گامزن رہے طالبان حقیقت پر فرض عین ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں رہیں جیسا کہ اللہ کریم کا ارشاد ہے۔ 

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ (آل عمران:191)وہ عقل مند جو یاد کرتے رہتے ہیں اللہ تعالی کو کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے اور غور کرتے رہتے ہیں ۔

آیت کریم میں قیام سے مراد دن ہے قعودسے مراد رات ہے اور جنوب سے مراد یہ ہے کہ قبض ، بسط ، صحت ، بیماری، غنی، فقر ،تنگی و ترشی ہر حالت میں اللہ تعالی کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ 

آٹھویں فصل شرائط ذکر کا بیان

ذکر کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اچھی طرح وضو کرے۔ ذکر کرتے ہوئے (نفی و اثبات کی) ضرب سخت لگائے اور آواز میں قوت پیدا کرے تاکہ انوار ذکر اس کے باطن میں پہنچ جائیں۔ اور ان انوار کے ذریعے اس کا دل حیات ابدی اخروی حاصل کرلے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَى (الدخان:56( نہ چکھیں گے وہاں موت کاذا ئقہ بجز اس پہلی موت کے“ 

اسی طرح حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ الانبياء والا ولياء يصلون في قبورهم كما يصلون في بيوتهم 

انبیاء و اولیاء اپنی قبروں میں اسی طرح نماز ادا کرتے ہیں جس طرح اپنے گھروں میں نماز اداکرتے تھے“ 

یعنی وہ ہمیشہ اپنے رب سے مناجات کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ظاہری نماز مراد نہیں ہے۔ جس میں قیام ۔ رکوع، سجود اور قعدہ ہو تا ہے بلکہ اس سے مرادبندہ کا اپنے رب سے مناجات کرنا اور رب کی طرف سے مناجات کے صلہ میں اپنی معرفت عطا کرتا ہے۔ پس عارف اپنی قبر میں احرام باندھے اپنے رب کی طرف محو سفر رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ 

إِنَّ الْمُصَلِّيَ ‌يُنَاجِي ‌رَبَّهُ نمازی اپنے رب سے مناجات کرتا ہے“ 

پس جس طرح زندہ دل نہیں سوتا اسی طرح وہ مرتا بھی نہیں ہے تو حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

تَنَامُ عَيْنَايَ وَلَا ‌يَنَامُ ‌قَلْبِي میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرادل نہیں سوتا۔

 من مات في طلب العلم بعث الله في قبره ملكين يعلمانه علم المعرفة وقام من قبره عالما وعارفا 

جو علم حاصل کرتے ہوئے فوت ہو جائے اللہ تعالی اس کی قبر میں دو فرشتے بھیجتا ہے جو اسے علم معرفت کی تعلیم دیتے ہیں اور ایسا شخص اپنی قبر سے عالم اور عارف بن کر اٹھے گا“ 

دو فرشتوں سے مراد نبی کریم ﷺاور ولی علیہ الرحمتہ کی روحانیت ہے کیونکہ فرشتے عالم معرفت میں داخل نہیں ہو سکتے اور نہ وہ تعلیم دے سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

کم من رجل مات جاهلا وقام يوم القيامة عالما وعارفا. وكم من رجل مات عالما وقام يوم القيامة جاهلا ومفلسا

کتنے ہی ایسے آدمی ہیں جو جاہل مریں گے لیکن قیامت کے دن عالم اور عارف بن کر اٹھیں گے اور کتنے ہی عالم مرنے والے قیامت کے دن جاہل اور کنگال بن کر اٹھیں گے“ اسی طرح الله تعالی کا ارشاد گرامی ہے : أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ (الاحقاف :20 )

تم نے ختم کر دیا تھااپنی نعمتوں کا حصہ اپنی دنیوی زندگی میں اور خوب لطف اٹھا لیا تھا تم نے ان سے۔ آج تمہیں رسوائی کا عذاب دیا جائے گابو جہ اس گھمنڈ کے جو تم کیا کرتے تھے“ حضور نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے۔ إِنَّمَا ‌الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے“ حضورﷺکی ایک اور حدیث مبارکہ ہے۔ إِنَّ ‌نِيَّةَ ‌الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ، وَنِيَّةَ ‌الْفَاسِقِ شَرٌّ مِنْ عَمَلِهِ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے اور فاسق کی نیت اس کے عمل سے بھی بری ہے“ 

کیونکہ نیت اعمال کی بنیاد ہے جیسا کہ ابھی حدیث گزری ہے۔ ظاہر ہے صحیح بنیاد ہوگی تو اس پر جو عمارت کھڑی ہوگی وہ بھی صحیح ہوگی اور اگر بنیاد میں فساد ہو گا تو پوری عمارت میں یہ فساد آئے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے 

مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ (الشوری:20 )

جو طلب گار ہو آخرت کی کھیتی کا تو ہم اپنے فضل و کرم سے اس کی کھیتی کو اور بڑھا دیں گے اور جو شخص خواہشمند ہے (صرف) دنیا کی کھیتی کا ہم اسے دیں گے اس سے اور نہیں ہو گا اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ۔

 انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس دنیا میں اہل تلقین (مرشد) سے حیات قلبی اخروی طلب کرے۔ قریب ہے کہ وقت گزر جائے۔ حضور ﷺ ‌مَنْ ‌طَلَبَ ‌الدُّنْيَا بِعَمَلِ الْآخِرَةِ فَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مَنْ ‌نَصِيبٍ

جس نے اعمال آخرت کے ذریعے دنیا طلب کی اس کا آخرت کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں ہو گا ۔

دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جو یہاں نہیں بوئے گاوہاں کچھ حاصل نہیں کر پائے گا یہاں کھیت سے مراد وجود کی زمین ہے آفاق کی نہیں۔

نویں فصل دیدار الہی کا بیان

دیدار الہی کی دو صورتیں ہیں۔

 (1) آخرت میں آئینہ دل کی وساطت کے بغیر اللہ تعالی کے جمال کا دیدار کرنا اور

(2) دنیا میں آئینہ دل پر صفات خداوندی کا عکس ملاحظہ کرنا۔ دنیا میں دیدار دل کی آنکھ سے ہے۔ اور اس میں صفات خداوندی کا عکس آئینہ دل پر پڑتا ہے تو انسان دل کی آنکھ سے اس عکس کا مشاہدہ کر تا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ 

مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى (النجم :11)نہ جھٹلایادل نے جو دیکھا ( چشم مصطفی) نے“ 

نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ المُؤْمِنُ مِرْآةُ المُؤمِنمؤمن مؤمن کا آئینہ ہے 

پہلے مؤمن سے مراد بندہ مومن کا دل ہے جبکہ دوسرے مؤمن سے مراد ذات باری تعالی ہے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے۔ 

السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ (الحشر: 23 )سلامت رکھنے والا ، اما ن بخشنے والا نگہبان“ 

جس نے دنیا میں صفات خداوندی کا دیدارکر لیاوہ بلا کیف آخرت میں اللہ تعالی کی ذات کے دیدار کا شرف حاصل کرے گا۔ رہے وہ دعوے جو اولیاء کرام علیہم الرحمۃ نے دیدار خداوندی کے بارے کیے ہیں۔ مثلا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا(رَاَیَ قَلْبِیْ رَبِّیْ بِنُوْرِ رَبِّیْ) میرے دل نے میرے رب کا دیدار کیا۔ یعنی میرے رب کے نور کے ذریعے ۔ حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ نے فرمایا۔ (لَمْ اَعْبُدْرَبّا کم اَرَاہُ)

میں ایسے خدا کی عبادت نہیں کروں گا جسے میں نے دیکھانہ ہو۔ ان تمام دعوؤں کو مشاہدہ صفات پر محمول کریں گے۔ پس جو شخص شیشے میں سورج کا عکس دیکھے وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے سورج دیکھا۔ اسی طرح اللہ تعالی اپنے نور کو باعتبار صفات مشکوة سے تشبیہ دیتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے 

كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ (النور :35)جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ ہو“ 

صوفياء فرماتے ہیں طاق سے مراد بندہ مو من کادل ہے اور المصباح یعنی چراغ باطن کی آنکھ ہے۔ یہی روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا )ہے اور شیشے سے مراد جان ہے اس کی صفت دریت ہے جو شدت نورانیت کو ظاہر کرتی ہے۔ پھر اللہ تعالی اس نور کے معدن و ماخذ کا تذکرہ فرماتا ہے۔ 

يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ (النور :35)جوروشن کیا گیا ہے برکت والے زیتون کے درخت سے‘ ‘ 

یہاں درخت سے مراد تلقین کا درخت ہے (بوٹی جو مرشد دل کی زمین میں بوتا ہے) توحید خاص کا صدور زبان قدس سے بلاواسطہ ہوتا ہے جس طرح حضور ﷺکاقرآن کریم سے اصل تعلق ہے۔ پھر یہ قرآن حضرت جبرئیل علیہ السلام کی وساطت سے تدریجاً نازل ہو تا ہے۔ دوبارہ نزول بذریعہ جبرائیل عوام کے فائدہ کے لیے تھا۔ اور اس لیے بھی کہ کافر و منافق اس کا انکار نہ کر سکیں۔ اس پر دلیل رب قدوس کا یہ فرمان مبارک ہے۔ 

وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ (النمل :6 )اور بیشک آپ کو سکھایا جاتا ہے قرآن حکیم بڑے داناسب کچھ جاننے والے کی جانب سے۔

 اسی لیے حضورﷺپہلے ہی ایک قانون مرتب فرماتے اور اس کے بعد جبرائیل امین وحی لیکر حاضر ہوتے۔ حتی کہ یہ آیت کر یمہ نازل ہوئی۔ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ (طہ : 114) اور نہ عجلت کیجئے قرآن کے پڑھنے میں اس سے پہلے کہ پوری ہو جائے آپ کی طرف اس کی وحی“ یہی وجہ تھی کہ معراج کی رات جبرائیل امین سدرة المنتہی پر رک گئے اور ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا سکے۔ اللہ تعالی نے درخت کی توصیف کی اور فرمایا : 

لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ (النور :35)جو نہ شر قی ہے نہ غربی ہے۔

اسے حدوث ، عدم ، طلوع و غروب معارض نہیں آتے بلکہ یہ درخت ازلی ہے کبھی زائل نہیں ہوا۔ جس طرح کہ اللہ تعالی واجب الوجود ہے۔ قدیم ہے، از لی اور ابدی ہے۔ کیونکہ یہ صفات اللہ تعالی کا نور اور تجلیات(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) ہیں۔ اور یہ ایک نسبت ہے جو اس کی ذات سے قائم ہے۔ ناممکن نہیں کہ نفس کا حجاب دل کے چہرے سے ہٹ جائے۔ دل ان انوار کے عکس سے زندہ ہو جائے اور روح اس طاق سے صفات حق کا مشاہدہ کرے۔ کیونکہ تخلیق کائنات کا اصل مقصد بھی اس مخفی خزانہ کو عیاں کرنا ہے جیسا کہ شعر گزر چکا ہے۔

رہاذات خداوندی کا دیدار تو وہ صرف آخرت میں ہو گا اور بلا واسطہ ہو گا۔ انشاء اللہ تعالی ۔ یہ دیدار باطن کی آنکھ سے ہوگا جسے طفل معانی(انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) بھی کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القيامۃ :22 )کئی چہرے اس روز ترو تازہ ہوں گے اور اپنے رب کے .(انوار و جمال) کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ 

حضور ﷺکا ارشاد ہے: 

رأَيْتُ ‌رَبِّي في صُورَةِ ‌شَابٍّ أَمْرَدٍ میں نے اپنے رب کا ایک بے ریش نوجوان کی صورت میں دیدار کیا 

شاید اس ارشاد گرامی میں نوجوان سے مراد طفل معانی ہو اور اللہ تعالی نے اس صورت میں آئینہ روح پربلا کسی واسطے کےتجلی فرمائی ہو۔ ورنہ اللہ تعالی تو صورت ، ماده، جسم کے خواص سے پاک ہے۔ صورت دکھائی دینے والے کے لیے آئینہ ہے۔ وہ نہ تو خودشیشہ ہے اور نہ خود دیکھنے والا ہے۔ پس اس نکتے کو سمجھنے کی کو شش کیجئے یہ بہت گہرا راز ہے۔ صفات کا انعکاس عالم صفات میں ہے عالم ذات میں نہیں کیونکہ عالم ذات میں تو سارے واسطے جل جاتے ہیں اورمحو ہو جاتے ہیں وہاں صرف اللہ تعالی کی ذات سماسکتی ہے کوئی غیر نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 

عرفت ربي بربی میں نے اپنے رب کو ، اپنے رب کے ذریعے پہچانا‘‘ یعنی اپنے رب کے نور کے ذریعے۔ حقیقت انسان ہی اس نور کے لیے محرم ہے جیسا کہ حدیث قدسی ہے۔ الإنسانُ سرّي وأنا سرُّهُ

انسان میرا راز ہے اور میں اس کا راز ہوں‘‘ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: ۔ أنا من الله تعالى والمؤمون منی . میں اللہ تعالی سے ہوں۔ اور مؤ من مجھ سے ہیں“ 

ایک اور حدیث قد ی ہے۔ خلقت محمدا من نور وجهی میں نے محمد ﷺ کو اپنی ذات کے نور سے پیدا کیا 

یہاں مقصود اللہ تعالی کی ذات مقدسہ ہے جو صفات رحمت میں تجلی فرماتی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے فرمایا : 

‌سَبَقَتْ ‌رَحْمَتِي غَضَبِي”میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی‘اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمد سے ارشاد فرمایا وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (الانبیاء :107) 

اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو ، مگر سراپا رحمت بنا کر سارے جہانوں کے لیے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ (المائدہ :15) بیشک تشریف لایا ہے تمہارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے ایک نور اور ایک کتاب ظاہر کرنے والی‘‘ اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرماتے ہیں۔ لَوْلَاكَ لَمَا ‌خَلَقْتُ ‌الْأَفْلَاكَ

اگر آپ (مقصود ( نہ ہوتے، تو میں افلاک کو پیدا نہ کر تا ۔

دسویں فصل ظلمانی اور نورانی حجابات کا بیان

(حجابات ظلمانی:طالب اور مطلوب کے در میان حائل پر دے۔ در اصل یہ شہوات و 

لذات جیسی جسم کی ظلمتوں کا دوسرا نام ہے۔

حجابات نورانی :یہ بھی طالب و مطلوب کے در میان پردے ہیں یعنی ان کا تعلق 

محرکات باطنیہ سے ہے مثلا عقل، سِرّ روح خفی جیسے نور روح کے پردے)

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ وَ مَن كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الأَخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً (الاسراء:72( 

اور جو شخص بنارہا اس دنیا میں اندھا وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا اوربڑاگم کردہ راہ ہو گا“ 

یہاں اندھے پن سے مراد دل کا اندھا پن ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت سے واقع ہے۔ 

فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ(الحج:46)

حقیقت تو یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں“ 

دل کے اندھا ہونے کا سبب حجابات کی ظلمت، غفلت اور نسیان ہے۔ کیونکہ رب قدوس سے کیے گئے وعدہ(اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ) کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ غفلت کا سبب امرالہٰی کی حقیقت سے ناواقفیت ہے اور جہالت اس لیے ہے کہ دل پر ظلماتی صفات چھا گئی ہیں۔ مثلا تکبر ، کینہ، حسد، بخل، غضب ، غیبت، چغلی، جھوٹ اور اس قسم کی کئی دوسری بری چیزیں۔ یہی صفات انسان کے بدترین حالت کی طرف لوٹنے کا سبب بنی ہیں۔ 

ان صفات مذمومہ کے ازالے کی واحد صورت یہ ہے کہ دل کے آیئنے کو توحید کی ’’ریتی‘‘(ذکر) کے ساتھ صیقل کیا جائے اور علم، عمل اور ظاہر وباطن میں سخت مجاہدہ اپنا کر دل کو صاف کیا جائے۔ اگر اس طریقہ کو اپنایا جائے تو دل اسماء و صفات(الہیہ) کے نور(توحید) سے ایک نئی زندگی حاصل کر لے گا اور اسے اپنا وطن اصلی(عالم لاہوت) یاد آجائے گا۔ پھر یہ دل اپنے وطن کے لیے مشتاق ہو گا۔ وہاں لوٹنے کے لیے بے تاب ہو گا اور اللہ رحمن اوررحیم کی عنایت سے اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ حجابات ظلمانیہ کے ازالے کے بعد نورانیت باقی رہ جائے گی اب روح کی آنکھ بینا ہو جائے گی۔ اسماء و صفات کے نور سے باطن میں روشنی پھیل جائے گی۔ پھر ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ نورانی حجابات بھی اٹھتے جائیں گے اور دل نور ذات سے منور ہو جائے گا۔ 

یاد رکھئے باطن میں دل کی دو آنکھیں ہیں۔ ایک چھوٹی آنکھ ہے اور دوسری بڑی آنکھ۔

 چھوٹی آنکھ :۔ یہ آنکھ اسماء و صفات کے نور سے تجلیات (غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں)صفات کا انتہائے عالم درجات تک مشاہدہ کرتی ہے۔ 

بڑی آنکھ :۔ یہ آنکھ عالم لاہوت(روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناء ہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے) میں انوار ذات کی تجلی کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اس سے مراد نور توحید احدیت( اللہ تعالی کی ذات یکتا) کے ذریعے قربت(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) ہے۔ یہ وہ مر تبہ ہے جیسے انسان موت کے بعد حاصل کر تا ہے یا موت سے پہلے بشری نفسانی صفات کو فناء کر کے حاصل کر تا ہے۔ جوں جوں وہ بشری صفات سے منقطع ہو تا جائے گا اسی قدر وہ اس عالم تک رسائی حاصل کر تا جائے گا۔ 

وصول الى اللہ کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ انسان کا جسم (نعوذ باللہ) اللہ تک پہنچ جائے جیسے ایک جسم دوسرے جم تک علم معلوم تک ، عقل معقول تک یا و ہم موہوم تک پہنچتا ہے۔ بلکہ اللہ تک پہنچنے کا مفہوم یہ ہے بلا قرب وبعد ، جہت و مقابلہ اور اتصال و انفصال کے بغیر اللہ تک رسائی حاصل کی جائے۔ جس قدر غیر سے انقطاع ہوگا اسی قدر اللہ تعالی سے وصال (اتصال بالحق کا دوسرا نام ہے وصال مخلوق سے انقطع کی قدر ہوتا ہے۔ ادنی وصال دل کی آنکھ سے مشاہدہ ہے۔ جب حجاب اٹھ جاتا ہے اورتجلی پڑتی ہے تو سالک کو اس وقت واصل کہاجاتا ہے ) ہو گا۔ اللہ تعالی پاک ہے جس کے ظہور و خفاءتجلی و استتار اور جس کی معرفت میں عظیم حکمت پوشیدہ ہے۔ 

جسے یہ مقام( اس سے مراد بندے کاوہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) دنیا میں مل گیا اور اس نے احتساب سے پہلے اپنا احتساب کر لیا تو وہ دونوں جہان میں کامیاب ہوا۔ ورنہ اسے عذاب قبر وحشر اور عذاب حساب و میزان اور شدائد پل صراط کا سامنا کرنا ہو گا۔ 

گیارہویں فصل سعادت و شقاوت کا بیان

یاد رہے کہ لوگ ان دو صورتوں سے خالی نہیں ہیں۔ اسی طرح یہ دونوں (سعادت اور شقاوت) ایک انسان میں بھی پائی جا سکتی ہیں۔ جب انسان کی نیکیاں اور اخلاص غالب آجاتا ہے تو اس کی بدبختی خوش بختی میں بدل جاتی ہے، نفسانیت کی جگہ روحانیت لے لیتی ہے۔ یعنی جب انسان خواہشات نفسانی کی اتباع شروع کر دیتا ہے تو معاملہ اس کے بر عکس ہو جاتا ہے۔ اگر (نیکی اور برائی کی( دو جہتیں مساوی ہو جائیں تو ایسے میں رجاء اور خیر کی توقع رکھنی چاہیئے کیونکہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے 

مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا (انعام:160)

جو کوئی لائے گا ایک نیکی تو اس کے لیے دس ہونگی اور(نیکیاں) اس کی مانند ۔

وضع میزان انہیں دونوں کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ جب خواہشات نفسانیہ مکمل روحانیت کا روپ دھار لیتی ہے تو میزان کی ضرورت نہیں پڑتی اور انسان بغیر حساب کے بار گاہ قدس میں حاضر ہو جاتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جنت قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جس شخص میں صرف برائی اور بدبختی ہو وہ بلا حساب و کتاب جہنم رسید ہو جاتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ ایک انسان کی برائیاں اور نیکیاں دونوں نامہ اعمال میں درج ہیں۔ اگر نیکیاں زیادہ ہیں تو ایساشخص بلا عذاب جنت میں جائے گا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ (القارعہ:6،7)

پس جس کے (نیکیوں کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہ دل پسندعیش (ومسرت)میں ہونگے 

اور جس شخص کی بر ائیاں زیادہ ہوں گی تو اسے برائیوں کے مطابق عذاب دیا جائے گا۔ پھر اسے جہنم سے نکال کر جنت میں پہنچایا جائے گا یعنی ایمان شرط ہے۔ (کفار کے لیے دوزخ کا دائمی عذاب ہے)

سعادت و شقاوت سے ہماری مراد نیکیوں اور برائیوں کا ایک دوسرے کی جگہ لینا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا۔ 

أَنَّ السَّعِيدَ قَدْ يَشْقَى وَأَنَّ الشَّقِيَّ قَدْ يَسْعَدُسعادت مندکبھی بد بخت بن جاتا ہے اور بد بخت سعادت مند ہو جاتا ہے ۔

جب نیکیاں غالب آجاتی ہیں تو انسان سعادت مند شمار ہونے لگتا ہے اور جب برائیاں غالب آجاتی ہیں سعادت مند شقی کہلانے لگتا ہے۔ انسان اگر توبہ کر کے ایمان لائے اور نیک روش اختیار کر لے تو الله تعالی اس کی بدبختی کو خوش بختی میں بدل دیتا ہے۔ رہی ازلی سعادت و شقاوت جو ہر انسان کی تدبیر میں لکھی جا چکی ہے جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد ہے۔ 

الشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ، وَالسَّعِيدُ مَنْ سَعِدَ فِي بَطْنِ أُمِّهِسعید اپنی ماں کے پیٹ میں سعید ہو تا ہے اور شقی اپنی ماں کے پیٹ میں شقی ہو تا ہے۔

 تو اس موضوع پر بات کرنے کی اجازت نہیں ۔ کیونکہ یہ راز تقدیر سے تعلق رکھتا ہے اسے حجت نہیں بنایا جاسکتا۔ 

صاحب تفسیر البخاری فرماتے ہیں : بہت سے راز ایسے ہیں جنہیں سمجھا تو جاسکتا ہے یعنی ان کے متعلق گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ جیسا کہ تقدیر کاراز۔ ابلیس نے اپنی سرکشی کو تقدیر کے سر تھوپ دیا۔ اسی لیے اس پر لعنت کی گئی جبکہ آدم علیہ السلام نے اپنی خطا کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا۔ اسی وجہ سے وہ کامیاب ہوئے اور ان پر رحم کیا گیا۔

عارف کی حکایت

 روایات میں آتا ہے کہ کسی عارف کامل نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا : تو نے فیصلہ فرمایا، تونے ارادہ فرمایا۔ تونے ہی میرےنفس میں معصیت کو پیدا کیا غیب سے آواز آئی۔ اے میرے بندے! یہ تو شرط وحدانیت ہے۔ شرط عبودیت تو یہ نہیں(یعنی تجھے یہ بات زیب نہیں دیتی) اس عارف نے پھر التجا کی۔ اور عرض کیا : (مولا!( میں نے خطا کی۔ میں گناہوں میں مبتلا ہوا، میں نے اپنی جان پر ظلم کیے۔ غیب سے پھر آواز آئی : میں نے تیرے گناہ معاف کر دیئے۔ تیری خطاؤں سے در گزر کیا اور تجھ پر رحم و کرم فرمایا : 

کچھ لوگوں نے مذکورہ حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ لفظ ام (ماں)سے مراد مجمع العناصر(عناصر اربعہ ہوا، پانی، مٹی اور آگ) ہے جس سے قویٰ بشری تولد ہوتے ہیں۔ مٹی اور پانی سعادت کے مظہر ہیں کیونکہ یہ دونوں حیات بخش ہیں اور دل میں علم، ایمان اور تواضع پیدا کرنے والے ہیں۔ مگر آگ اور ہوا ان کے بر عکس جلانے والی اور موت کا پیغام ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ان دو متضاد خصوصیات کے مادوں کو ایک جسم میں جمع فرمادیا جس طرح کہ بادل میں پانی اور آگ، نور اور ظلمت اکٹھے کر رکھے ہیں۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ (الرعد:12( 

وہی ہے جو تمہیں دکھاتا ہے (کبھی) ڈرانے کے لیے اور (کبھی) امید دلانے کے لیے اور اٹھاتا ہے (دوش ہواپر) بھاری بادل“ (بارش برسانے کیلئے پانی سے بھرے ہوئے)

معرفت خداوندی کیسے؟

یحی بن معاذ رازی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا : اللہ تعالی کی پہچان کاذر یعہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا متضاد چیزوں کو ایک جگہ جمع کرتا ہے اسی لیے انسان ام الکتاب کا نسخہ، اللہ تعالی کے جلال و جمال کا آئینہ اور پوری کائنات کا مجموعہ ہے۔ انسان پوری کائنات اور عالم کبریٰ(سب سے بڑا عالم) کہلاتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں یعنی صفت قہر و لطف سے پیدا فرمایا ہے۔ قہر و لطف کی دو متضاد صفات کی وجہ یہ ہے کہ آئینے کی دو جہتیں ہوتی ہیں ایک کثیف اور دوسری لطیف۔ پس انسان دوسرے تمام اشیاء کے برعکس اسم جامع کا مظہر ہے۔ کیونکہ باقی تمام اشیاء کی تخلیق ایک ہاتھ یعنی ایک صفت سے ہوئی ہے۔ رہی صرف صفت لطف تو اس سے صرف ملائکہ جیسی مخلوق کی پیدائش عمل میں آئی ہے۔ اور فرشتے اسم سبوح و قدوس کاہی مظہر ہیں۔ 

ابلیس اور اس کی ذریت کی پیدائش صفت قہر سے ہے جو کہ اسم الجبار کا مظہر ہے۔ اسی لیے اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ سے انکار کیا اور تکبر میں مبتلا ہو گیا۔

جب انسان پوری کائنات ، علوی(اعلی ترین) و سفلی(پست ترین) کے تمام خواص کا جامع ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ انبیاء و اولیاءلغزش سے خالی ہوں۔پس انبیاء نبوت ورسالت کے بعد کبائر سے معصوم ہوتے ہیں صغائر سے نہیں۔ جبکہ اولیاء معصوم نہیں ہیں۔ ہاں یہ عموما کہا گیا ہے کہ کمال ولایت کے بعد اولیاء کبائر سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ 

علامات سعادت

حضرت شقيق بلخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سعادت کی پانچ علامتیں ہیں دل کی نرمی، کثرت بکاء ، دنیا سے بے رغبتی، امیدوں کا کم ہونا اور حیاء کی کثرت۔ 

اور شقاوت کی پانچ نشانیاں ہیں۔ دل کا سخت ہو نا۔ آنکھوں کا آنسوؤں سے خالی ہو تا، دنیا میں رغبت ،لمبی امیدیں اور حیاء کی کمی۔ 

حضور ﷺنے ارشاد فرمایا : علامة السعيد أربعةً : إذا اؤتمن عَدَلَ، وإذا عاهدَ وفَّى، وإذا تكلَّمَ صَدَقَ، وإذا خاصمَ لمْ يشتُمْ. وعلامة الشّقيِّ أربعةٌ : إذا اؤتمن خانَ، وإذا عاهدَ أخلَفَ، وإذا تكلّمَ كذَبَ، وإذا خاصمَ يشتمُ النّاسَ ولا يعفو عنهم

سعادت مند کی چار نشانیاں ہیں۔ جب کوئی امانت سپرد ہو تو عدل کرے گا۔ وعدہ کرے گا تو پورا کرے گا۔ بولے گا تو سچ کہے گا۔ جھگڑے گا تو گالی نہ دے گا ۔ اور بدبخت کی بھی چار نشانیاں ہیں۔ جب اسے امین بنایا جائے گا تو خیانت کرے گا۔ وعدہ کرے گا تو وعدہ خلافی کرے گا۔ بولے گا تو جھوٹ بولے گا۔ کسی سے لڑے گا تو گالیاں دے گا اور لوگوں کو معاف نہیں کرے گا۔

حالانکہ معاف کرنا دین اسلام کی عظیم ترین خوبیوں میں سے ہے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ سے فرمایا

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ(الاعراف:199)

 میرے حبیب معاف کرنے کو اپنائیے نیکی کا حکم فرمایئے اور جہلاء سے اعراض کیجیے

اس آیہ کریمہ میں نبی کریم ﷺ سے معاف کرنے کا حکم ہی نہیں فرمایا بلکہ آپ کی امت کے لئے اس پر عمل کا ارشاد ہے کہ یہ حکم عام ہے اس لئے کہ جب بادشاہ کی طرف سے کسی کو حاکم کے کے نام حکم صادر ہوتا ہے تو اس کی ماتحت تمام رعا یا بھی شامل ہوتی ہے گو مخاطب صرف حاکم شہر یاناظم ہوتا ہے

 سیدنا غوث اعظم فرماتے ہیں فقیر نے خُذِ الْعَفْوَ کی جویہ تشریح کی ہے اس سے مراد یہ لی گئی ہے کہ اپنے اندرعفو کی صفت ہمیشہ ہمیشہ پیدا کر لیں چنانچہ لوگوں کی کوتاہیوں اور لغزشوں پر جسے در گذر کی عادت پڑ گئی گی حقیقتاً اس پر اللہ تعالی کے وصف گرامی عفو کا رنگ کا غالب آگیا۔

 جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ،( شوریٰ: 40) 

پس جو معاف کر دے اور اصلاح کر دے تو اس کا اجر اللہ تعالی پر ہے“ 

یاد رکھیئے ! شقاوت کا سعادت میں تبدیل ہونا اور سعادت کا شقاوت کی جگہ لینا تربیت کی تاثیرکے بغیر ممکن نہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : 

كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ

ہربچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ یعنی اس کے والدین اسے یہودی بنادیتے ہیں، نصرانی بنادیتے ہیں یا مجوسی بنادیتے ہیں ۔

اس حدیث سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہر ایک انسان میں سعادت اور شقاوت دونوں کی قابلیت ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہنا چاہیئے کہ یہ شخص سعیدازلی ہے یاشقی ابدی ہے۔ ہاں یوں کہنا جائز ہے کہ فلاں شخص خوش نصیب ہے جب کہ دیکھ رہا ہو کہ اس کی نیکیاں برائیوں پر غالب ہیں۔ اسی طرح کسی کو اعمال کی وجہ سے بد بخت بھی کہہ سکتا ہے۔ جو شخص اس اصول کو توڑے گا گمراہ ہو جائے گا کیونکہ اس نے گویا یہ عقیدہ اپنالیا کہ کچھ لوگ نیک عمل اور توبہ کے بغیر بھی جنت میں جا سکتے ہیں یا کچھ لوگ برائیوں کے بغیر جنہم میں جا سکتے ہیں۔ ایسا کہنا قرآن و سنت کے منافی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا نیک لوگوں سے جنت کا وعدہ ہے اور شرک و کفر میں مبتلا برے لوگوں کو جہنم کی آگ کی وعید سنائی گئی ہے۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔

 مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا (فصلت :46( جو نیک عمل کرتا ہے تو وہ اپنے بھلے کے لیے اور جو برائی کرتا ہے تو اس کا وبال اس پر ہے

الْيَوْمَ تُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ (غافر:17 ( آج بدلہ دیا جائے گا ہر نفس کو جو اس نے کمایا تھا۔ ذرا ظلم نہیں ہو گا آج

 وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى (النجم:39،40)

اور نہیں ملتا انسان کو مگر وہی کچھ جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور اس کی کو شش کا نتیجہ جلد نظر آجائے گا

 وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ (البقرہ:110( اور جو کچھ آگے بھیجو گے اپنے لیے نیکیوں سے ضرور پاؤ گے اس کا ثمر اللہ کے ہاں“ 

بارھویں فصل فقراء جنہیں صوفیاء کہا جاتا ہے

بعض علماء فرماتے ہیں کہ فقراء(یہ تصوف میں بہت بلند مقام ہے۔ اس مقام پر فائز لوگ دنیاو مافیھاسے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور انہیں بجز اللہ تعالی کے کسی کی ضرورت نہیں رہتی) اکثر صوف کا لباس زیب تن کرتے ہیں اس لیے انہیں صوفی کہتے ہیں۔ 

کچھ لوگ ان کی وجہ تسمیہ بتاتے ہیں کہ ماسوی اللہ سے دل کے تصفیہ و تزکیہ کی وجہ سے انہیں صوفی کہا جاتا ہے۔ 

ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ روز قیامت صف اول میں کھڑے ہونے والے مردان با صفا ہیں۔ صف اول کی وجہ سے انہیں صوفی کہا جاتا ہے۔ صف اول عالم قربت(یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کانام بھی دیا جاتا ہے۔) ہے۔ کیونکہ عالم چار ہیں اس عالم ملک(دنیا)، عالم ملکوت(اس سے مراد ارواح اور ملائکہ ہیں)، عالم جبروت(عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے در میان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں) اور عالم لا ہوت۔(روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناء ہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے)یہی عالم حقیقت ہے۔ اسی طرح علم کی بھی چار قسمیں ہیں۔ علم شریعت، علم طریقت ، علم معرفت ، اور علم حقیقت(اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں)۔ اسی طرح ارواح بھی چار ہیں۔ روح جسمانی، روح روانی، (عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح سیر انی بھی کہتے ہیں)، روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا )اور روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس )

بالکل اسی طرح تجلیات(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) بھی چار ہیں۔تجلی آثار ،تجلی افعال، تجلی صفات( بندے کا صفات خداوندی سے متصف ہونے کو قبول کر لیا بجلی صفات ہے) ، تجلی ذات(اس سے مراد مکاشفہ ہے۔ اس کا مبداء ذات خداوندی ہے اور یہ صرف اسماء و صفات کے واسطے سے ہی حاصل ہو تا ہے) اور عقل بھی چار ہیں۔ عقل معاش ، عقل معاد، عقل زمانی اور عقل کل۔ لوگ چار عالموں کے مقابلے میں اقسام اربعہ کی قید لگاتے ہیں یعنی علوم اربعہ ، ارواح، تجلیات اور عقول۔ 

بعض لوگ علم اول ، روح اول، عقل اول کو جنت اول یعنی جنت الماوی کے ساتھ مقید خیال کرتے ہیں۔ 

بعض دوسری اقسام کو جنت ثانی کے ساتھ مقید کرتے ہیں دوسری جنت سے مراد جنت النعیم ہے بعض تیسری اقسام کو جنت ثالثہ یعنی الفردوس کے ساتھ مقید کرتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ 

اہل حق فقراء عارفين ان تمام امور سے آگے قربت خداوندی(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) کی طرف نکل گئے ہیں وہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی چیز سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہ اللہ تعالی کے اس حکم کے پیرو ہیں۔ 

فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ (الذاریات :50) پس دوڑو اللہ کی طرف 

جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے۔ 

 الدُّنْيَا وَالآخِرَةُ ‌حَرَامٌ ‌عَلَى ‌أهْلِ ‌اللَّهِیہ دونوں (دنیاو آخرت) اہل اللہ پرحرام ہیں“

حدیث قدسی ہے۔محبتى محبة الفقراء میری محبت فقراء کی محبت میں ہے۔

 رسول کریم ﷺ نے فرمایا : الفقر فخری فقر سے مراد فناء فی اللہ ہے۔ جس کے دل میں ذاتی کوئی خواہش نہ ہو اور نہ ہی اس کے دل میں کوئی غیر یا کسی غیر کی محبت سما سکتی ہو۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے۔ 

لا يسعني ‌أرضي ‌ولا ‌سمائي وإنما يسعني قلب عبدي المؤمنمیں اپنی زمین اور اپنے آسمان میں نہیں سماسکتا مگر اپنے بندہ مؤمن کے دل میں سما جاتا ہوں۔

یعنی ایسابندہ مومن جس کا دل صفات بشری سے پاک اور منزہ ہو اور کسی غیر کا خیال بھی اس میں نہ رہے۔ پس ایسے دل میں اللہ تعالی کا نور منعکس ہو تا ہے اور یوں وہ اس دل میں سما جاتا ہے۔ 

حضرت بایزید بسطامی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ بندہ مومن کے دل کے ایک کونے میں اگر عرش اور اس کے ملحقات کو رکھا جائے تو اسے احساس تک نہ ہو۔ جوان اہل محبت سے تعلق خاطر رکھتے ہیں آخرت میں ان کے ساتھ ہوں گے۔ فقیروں سے محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان ان کی صحبت میں بیٹھنا پسند کرے ۔ ہمیشہ اللہ تعالی کا مشتاق رہے اور اس کے دل میں وصال (اتصال بالحق کا دوسرا نام ہے وصال مخلوق سے انقطع کی قدر ہوتا ہے۔ ادنی وصال دل کی آنکھ سے مشاہدہ ہے۔ جب حجاب اٹھ جاتا ہے اورتجلی پڑتی ہے تو سالک کو اس وقت واصل کہاجاتا ہے )کی تمنا کروٹیں لیتی رہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے۔ 

ألا طال شوق الأثرا إلى إقائي واني لا شته شوقا إليهم 

نیک بندوں نے میری ملاقات کا شوق عرصے سے دل میں پال رکھا ہے۔ میں ان سے کہیں زیادہ ان کی ملاقات کا مشتاق ہوں۔

“ صوفیاء کا لباس :۔صوفیاء کا لباس تین طرح کا ہو تا ہے۔ مبتدی(وہ سالک  جو ابھی راہ سلوک کی ابتداء میں ہو) کے لیے بکری کی اون متوسط کے لیے بھیڑ کی اورمنتہی(وہ سالک  جو راہ سلوک کی انتہاء  پر پہنچ چکا ہو)  کے لیے پشم۔ اس میں چار قسم کی اون ملی ہوتی ہے۔ 

تفسیر مجمع“ کے مصنف لکھتے ہیں ”زہاد کے لائق سخت لباس اور سخت کھانا پینا ہے۔ کیونکہ وہ مبتدی ہیں۔ جبکہ عرفاء واصلین کے لیے نرم لباس اور نرم کھانا ضروری ہے۔ 

مبتدی کے عمل میں دونوں رنگ حمیدہ اورذمیمہ ہوتے ہیں۔ متوسط میں اچھائی کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ مثلا شریعت کا نور، طریقت کا نور اور معرفت کا نور ۔ اس لیے ان کے لباس میں بھی تینوں رنگ ہوتے ہیں۔ یعنی سفید،نیلا اور سبز۔ جبکہ منتہی کا عمل تمام رنگوں سے خالی ہو تا ہے۔ جس طرح کہ سورج . کی روشنی میں کوئی رنگ نہیں۔ اور اس کا نور رنگوں کو قبول نہیں کرتا۔ اسی طرح منتہی لوگوں کا لباس بھی تاریکی کی مانند کسی رنگ کو قبول نہیں کرتا۔ یہ فناء (بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) کی علامت ہے اور ان کی معرفت کے نور کے لیے نقاب ہے جس طرح رات سورج کی روشنی کے لیے نقاب کا کام دیتی ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ (الاعراف :54) ڈھانکتا ہے رات سے دن کو“ اسی طرح ایک اور ارشاد ہے۔ وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا (النباء :10) نیز ہم نے بنادیارات کو پردہ پوش ۔

عقلمندوں کے لیے اس میں لطیف اشارہ ہے۔ 

ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ اہل قربت اس دنیامیں گویا مسافر ہیں۔ ان کے لیے یہ دنیا غم واندوه، محنت و مشقت اور حزن و ملال کی دنیا ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

الدُّنْيَا ‌سِجْنُ ‌الْمُؤْمِنِ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے ۔

اسی لیے اس جہان ظلمت میں لباس ظلمت ہی زیب دیتا ہے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺنے سیاہ لباس پہنا اور سیاہ عمامہ باندھا ہے سیاہ لباس مصیبت کا لباس ہے۔ یہ ان لوگوں کے جسم پر سجتا ہے جو مصیبت زدہ ہوں اور حالت غم واندوہ میں ہوں۔ صوفياء اہل عزاء ہیں کیونکہ وہ مکاشفہ (اتصال یا تعلق باللہ کا نام مکاشفہ ہے۔ مکاشفہ سے چھپے راز عیاں ہو جاتے ہیں اور انسان باطن کی آنکھ سے سب کچھ دیکھنے لگتا ہے) مشاہدہ اور معاینہ کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالی کے نور کے سامنے ہیں اور شوق عشق، اور روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) ، مرتبہ قربت و وصل کی طرح ابدی موت کی وجہ سے حالت غم میں ہیں اس لیے مدت العمران کے جسم پر اصل عزاء کا لباس ہی سجتا ہے۔ کیونکہ وہ منفعت اخروی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہوتے ہیں۔ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اللہ کریم کا حکم ہے کہ وہ چار ماہ اور دس دن تک سوگ کے لباس میں رہے کہ کیونکہ اس سے دنیوی منفعت چھن گئی ہے۔ پس جس سے اخروی منفعت چھن جائے تو وہ مدت العمر کیوں نہ سوگ منائے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : 

أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ ‌ثُمَّ ‌الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ سب سے زیادہ مصائب کا سامنا انبیاء کو کرنا پڑا۔ پھر ان کے صحابہ پھر ان کے دوست“

حضورﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ ۔ ‌الْمُخْلِصُونَ ‌عَلَى ‌خَطَرٍ ‌عَظِيمٍ

مخلصین کو بڑے بڑے خطرات کا سامنا ہے“ یہ ساری چیز فقر وغناء کی صفت سے تعلق رکھتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے۔ ‌الْفَقْرُ ‌سَوَادُ ‌الْوَجْهِ ‌فِي ‌الدَّارَيْنِ

فقر دونوں جہان میں سیاہ روی ہے“ (سواد الوجہ فی الدار ین :كلیتا اللہ تعالی میں فناءہو جانا۔ اس طرح کہ انسان کا مطلقا اپنا وجود نہ رہے۔ نہ ظاہراًنہ باطناً۔ نہ دنیاوی اعتبار سے اور نہ اخروی اعتبار سے۔یہی فقر حقیقی اور رجوع الی العدم ہے)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ فقر مختلف رنگوں کو قبول نہیں کرتا وہ صرف نور ذات کو قبول کر تا ہے۔ سیاہی کی حیثیت خوبصورت چہرے پر تل کی مانند ہے۔ جو حسن و ملاحت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اہل قربت جب جمال خداوندی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو پھر ان کی آنکھوں کا نور کسی غیر کو قبول نہیں کرتا۔ اور نہ کسی اور کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دارین میں ان کا ایک ہی محبوب ایک ہی مطلوب ہو تا ہے ان کی منزل حریم ذات کی قربت ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کو اپنی معرفت و وصل کیلئے پیدا فرمایا ہے۔ 

انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے مقصد حیات کو پانے کی کوشش کرے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی عمر لا یعنی کاموں میں صرف کر دے اور پس مرگ اپنی عمر عزیز کے ضیاع پر پچھتاتا پھرے۔

تیرھویں فصل طہارت کابیان 

طہارت کی دو قسمیں ہیں۔ ظاہری طہارت اور باطنی طہارت

 ظاہر ی طہارت شریعت کے پانی سے حاصل ہوتی ہے۔ 

جبکہ باطنی طہارت کے لیے توبہ تلقین مرشد، تصفیہ ، اور سلوک الطریق(راہ طریقت) کا پانی چاہیئے۔ شرعی وضو جسم سے کسی نجاست کے خروج سے جب ٹوٹ جاتا ہے ۔ تو تجدید وضو ضروری ہو جاتا ہے جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد ہے۔ 

من جد دالوضوء جدد الله إيمانه

جو تازہ وضو کر تا ہے اللہ تعالی اس کے ایمان کو تازگی بخش دیتاہے 

افعال ذ میمہ اور اخلاق ردیہ مثل تکبر، حسد، کینہ ، خود پسندی، غیبت جھوٹ اور خیانت ، خواہ خیانت آنکھ کی ہو، ہاتھوں کی ہو پاؤں کی ہویا کانوں کی ہو جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد ہے۔ 

الْعَيْنَانِ ‌تَزْنِيَانِ وَالْيَدَانِ ‌تَزْنِيَانِ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ہاتھ بھی 

جب ان سے باطنی وضو ٹوٹ جاتا ہے تو ان مفسدات سے خالص توبہ کر کے اور نادم ہو کر رجوع إلى الله استغفار اور ان مفاسد کو دل سے نکال پھینکنے کے عزم کے ساتھ دوبارہ باطنی طہارت حاصل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ عارف کو چاہیئے کہ ان آفات سے اپنی توبہ کی حفاظت کرے۔ تبھی اس کی نماز مکمل ہو گی 

جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ (ق:32) یہی ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا یہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا اپنی توبہ کی حفاظت کرنے والا ہے“ 

ظاہری وضو اور نماز کے لیے وقت مقرر ہے مگر باطنی وضو اور نماز کا تمام عمر کے لیے مسلسل صبح و شام اہتمام کرنا ضروری ہے۔ 

چودھویں فصل شریعت اور طریقت کی نماز کا بیان

شریعت کی نماز :۔ اس نماز کی فرضیت اس آیت کریمہ سے عیاں ہے۔ ارشادالہٰی ہے۔ 

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ (البقرہ :238( پابندی کرو سب نمازوں کی“ 

اس نماز سے مراد ظاہر کی جوارح سے ادا ہونے والے ارکان ہیں جس میں جسم حرکت پذیر ہو تا ہے۔ انسان قیام کر تا ہے۔ قرأت کر تا ہے۔ رکوع وسجود میں جاتا ہے۔ قعدہ کرتا ہے۔ تلاوت میں آواز ہوتی ہیں ۔ الفاظ ہوتے ہیں۔ اسی لیے حافظوا کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ طریقت کی نماز :۔ یہ دل کی نماز ہے۔ یہ نماز ابدی ہے اور اس کا ثبوت اللہ کریم کا یہ فرمان عالی شان ہے۔ 

وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ(البقرہ :238) ”اور خصوصا درمیانی نماز کی“ 

در میانی نماز سے مراد قلبی نماز ہے کیونکہ دل کو دائیں بائیں اور اوپر نیچے کے اعتبار سے جسم کے درمیان میں پیدا کیا گیا ہے۔ اسی طرح دل سعادت و شقاوت کے بھی در میان تخلیق ہوا ہے جیسا کہ رسول خداﷺکا ارشاد گرامی ہے۔

اَلْقَلبُ بينَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصابعِ الرّحمنِ يُقَلِّبُها كيْفَ يشَاء دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہے وہ اسے جیسے چاہتا ہے پھیر دیتاہے“ 

دو انگلیوں سے مراد صفت قہر(جلال) ولطف(جمال) ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی انگلیوں سے پاک ہے۔ اس آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ کو دلیل بنا کر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اصلی نماز دل کی نماز ہے۔ 

جب کوئی شخص دل کی نماز سے غافل ہو جاتا ہے تو اس کی دونوں نمازیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ یعنی دل کی نماز بھی اور جوارح(اعضاء و ظاہر) کی نماز بھی۔ جیسا کہ حضورﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

لا صَلاَةَ إلّا بِحُضُورِ القَلْبِحضور قلب کے بغیر کوئی نماز نہیں“ 

وجہ یہ ہے کہ نمازی اپنے رب سے ہم کلام ہو تا ہے۔ کلام کامحل(مقام) دل ہے۔ جب دل غافل رہاتو(باطنی) نماز باطل ٹھہری اور جوارح کی نماز بھی ٹوٹ گئی۔ کیونکہ دل اصل ہے اور باقی اعضاء اس کے تابع ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکا فرمان مبارک ہے۔ 

أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُہاں ہاں! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑاایسا بھی ہے کہ اگر صحیح ہو جائے تو سار بدن صحیح ہو جائے اور اگر بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جائے۔ یاد رہے گوشت کاوہ ٹکڑادل ہے“ 

شریعت کی نماز :۔ اس نماز کے لیے وقت مقرر ہے۔ یہ دن رات میں پانچ مرتبہ ادا ہوتی ہے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ یہ نماز مسجد میں باجماعت ادا کی جائے۔ رخ کعبۃ اللہ شریف کی طرف ہو اور انسان بلا ریاء و نمود امام کی اتباع کر رہا ہو۔ طریقت کی نماز :۔ یہ نماز پوری زندگی کو محیط ہوتی ہے۔ اس کی مسجد دل ہے۔ اور جماعت یہ ہے کہ باطن کی ساری طاقتیں اسمائے توحید( اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) کے ورد میں مشغول ہوں اور یہ ورد ظاہر کی زبان سے نہیں باطن کی زبان سے کیا جائے۔ اس نماز میں امام عشق ہوتا ہے جو جان کے محراب میں کھڑا ہوتا ہے۔ اس نماز کا قبلہ حضرت احدیت( اللہ تعالی کی ذات یکتا) اور جمال صمدیت ہے اور یہی اصلی کعبہ ہے۔ دل اور روح على الدوام اس نماز کو ادا کرتے ہیں۔ دل نہ تو سوتا ہے اور نہ مرتا ہے وہ نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں حیات قلبی کے ساتھ بلا صوت، قیام اورقعود اس نماز کی ادائیگی میں مشغول رہے۔ اور بارگاہ خداوندی میں عرض کناں رہے۔ 

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُّ (الفاتحہ:5( تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں“ 

یہ درخواست حضور ﷺکی اتباع میں ہوتی ہے۔ حضرت قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں عارف کے حال کی طرف اشارہ ہے۔ وہ حال ( کیفیت قلبی) غیبت سے حضور کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اس خطاب کا مستحق بن جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے۔ 

الأنبياءُ والأولياءُ يُصَلّونَ في قُبورِهِمْ كَما يُصلّون في بُيوتهِمْانبیاء اور اولیاء اپنی قبروں میں بھی اسی طرح نماز پڑھتے ہیں جس طرح اپنے گھروں میں نمازیں ادا کرتے ہیں“ 

مطلب یہ ہے کہ ان کے دل زندہ ہیں اس لیے وہ اللہ تعالی کی ذات اور اس کی مناجات میں مشغول رہتے ہیں۔ جب شریعت اور طریقت کی نماز جمع ہو جائے تو نماز مکمل ہو گئی۔ یعنی ایسے آدمی کی نماز ادا ہو چکی۔ ایسے آدمی کو اللہ تعالی روحانی طور پرا پنا قرب بخشتا ہے اور ثواب بھی عطا کرتا ہے۔ ایساشخص ظاہر میں عابد اور باطن میں عارف ہو تا ہے ۔ اور جب طریقت کی نماز حيات قلب کے ذریعے ادا نہیں ہوتی تو اجر ثواب کی صورت میں ملتا ہے قربت کی صورت میں نہیں۔ 

پندرھویں فصل عالم تجر ید میں معرفت کی طہارت

(سالک کا ایک مقام سے نکل کرتنہا ہو جانے نفس و شیطان سے خلاصی پانے  اور مقام حضور مدنظر رکھنے کو تجرید کہتے ہیں)

طہارت معرفت کی دو قسمیں ہیں۔ معرفۃ الصفات کی طہارت اور معرفۃالذات کی طہارت۔ معرفت صفات کی طہارت :۔ 

یہ طہارت صرف تلقین مرشد اور اسماء کے(دائمی ذکر) ذریعے دل کے آئینے کو نفوس بشری اور حیوانی سے پاک کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پس جب دل صاف ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی کے نور سے دل کی آنکھ بینا ہو جاتی ہے تو انسان دل کے آئینے میں جمال خداوندی کے عکس کو صفات کے نور سے دیکھنے لگتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

المُؤْمؤنُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ مومن اللہ تعالی کے نور سے دیکھتا ہے ۔

المُؤْمِنُ مِرْآةُ المُؤمِنمؤمن مؤمن کا آئینہ ہے۔

 کسی شخص کا قول ہےاَلْعَالِمُ يُنَقِّشُ وَالْعَارِفُ يُصَقِّلُ ”عالم نقش بڑھاتا ہے اور عارف صیقل کر تا ہے“ 

جب اسماء کے مسلسل ورد سے(قلب کے آئینے کا) تصفیہ مکمل ہو جاتا ہے تو صفات کی معرفت مکمل ہو جاتی ہے کیونکہ ان صفات کا انسان دل کے آئینے میں مشاہدہ کر تا ہے۔ 

معرفت ذات کی طہارت :۔ یہ طہارت فی السرّ ہے۔ اسے حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان باره اسماء و توحید( اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) میں سے آخری تین اسماء توحید کو نور توحید سے باطن کی آنکھ سے مسلسل ملاحظہ کرے پس جب انوار ذات کی تجلی(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) ہو گی توبشریت پگھل جائے گی اور مکمل فناء(بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) ہو جائے گی۔ یہ مقام( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) استہلاک اور فناء الفناء ہے۔ یہ تجلی تمام انوار کو مٹادیتی ہے جیسا کہ اللہ کریم کا ارشاد ہے۔ 

كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إلّا وَجْهَهُ(القصص : 88)ہر چیزہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے“ 

جب سب کچھ فناء ہو جاتا ہے تو نور قدس کے ساتھ صرف روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) باقی رہ جاتی ہے اور ہمیشہ دیدار میں مشغول رہتی ہے۔ یہ روح اسی کے ساتھ اس سے اس کی طرف دیکھنے والی ہوتی ہے۔ پس وہ بلاکیف و تشبیہ اس روح کی رہنمائی کرتا ہے۔ کیونکہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ(الشورى : 11)نہیں ہے اس کی مانند کوئی چیز ۔

پس محض نور مطلق باقی رہ جاتا ہے۔ اس سے آگے(کے معاملہ) کی کوئی خبر نہیں دے سکتا۔ کیونکہ وہ عالم محو ہے۔ وہاں عقل نہیں رہ سکتی کہ کچھ خبر دے اور نہ وہاں غیر اللہ کی رسائی ہو سکتی ہے جیسار سول اللہ ﷺکا ارشاد پاک ہے۔ 

لِي مَعَ اللهِ وَقْتٌ لاَ يَسَعُ فيهِ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلاَ نَبِيٌّ مُرْسَلٌاللہ تعالی کی معیت میں میرے لیے ایک ایسا وقت بھی مخصوص کیا گیا ہے جس میں نہ کسی مقرب فرشتے کی گنجائش ہے اور نہ ہی نبی مرسل کی“

یہ عالم تجرید (اس خیال سے کہ اللہ تعالی کا حق ادا کرنا واجب ہے انسان کا اپنے دل کو 

اغراض دین اور حال و مستقبل کی مصلحتوں سے پاک کر لینا تجرید ہے)ہے۔ وہاں کوئی غیر نہیں ہو تا۔ جیسا کہ حدیث قدسی تَجَرَّدْ تَصِلْ ( صفات بشری سے تجرد حاصل کر (مقصود تک) پہنچ جائے گا، تجرد سے مراد صفات بشری سے مکمل فناء ہونا ہے۔ پس وہ عالم تجرید میں خدائی صفات سے متصف ہو گا جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ 

تَخَلَّقُوا بِأَخْلاَقِ اللهِخدائی اخلاق کو اپنالو“ یعنی صفات خداوندی سے متصف ہو جاؤ۔ 

سولھویں فصل شریعت اور طریقت کی زکوة کا بیان

شریعت کی زکوة :۔ اس سے مراد دنیا کے مال سے ایک مقررہ حصہ سال میں صرف ایک بارمعین نصاب سے مصارف (مستحقین )زکوة کو دیا جاتا ہے۔

 طریقت کی زکوة :۔دنیا کے فقیروں اور آخرت کے مسکینوں میں محض اللہ تعالی کی خاطراعمال آخرت کو لٹادینا طریقت کی زکوة ہے۔ 

زکوة شریعت کو قرآن کریم میں صدقہ کہا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ (التوبہ:60)زکوۃتو صرف ان کے لیے ہے جو فقیر ،مسکین ہو۔

اسے صدقہ اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ مال فقیر اور مسکین کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ تعالی کے دست جودوسخا میں ہی جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالی اسے فوراً قبول فرمالیتا ہے۔ 

رہی طریقت کی زکوۃ تو وہ دائمی ہے۔(اس میں دنیاوی مال نہیں) بلکہ کسب آخرت اللہ کی خوشنودی کے لیے گناہ گاروں کو دے دیا جاتا ہے۔ پس اللہ تعالی ان کی نمازیں، زکوۃ، روزے،حج، تسبیح وتہلیل،۔تلاوت کلام مجید اورسخاوت و غیره نیکیوں کا ثواب گناہ گاروں کو دے دیتا ہے جس سے ان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ بنده مؤمن اپنے نامہ اعمال میں کچھ باقی نہیں چھوڑتا۔ خود مفلس ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالی اس شخص کی سخاوت اور افلاس پر نظر پسندیدگی فرماتا ہے جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد گرائی ہے۔ 

المُفْلِسُ فِي أَمانِ اللهِ فِي الدَّارَيْنِ مفلس دونوں جہان میں اللہ کی امان میں ہوتاہے“ 

بندہ اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے سب اس کے آقاکا ہے۔ قیامت کے روز اسے ہر نیکی پر دس گنا اجر ملے گا۔ جیسا کہ ارشادالہی ہے۔ 

مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا (الأنعام : 160)جو کوئی لائے گا ایک نیکی تو اس کے لیے دس ہو گی اس کی مانند ۔

زکوة کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ دل کو نفس کی صفت سے پاک کیا جائےجیسا کہ رب قدوس ارشاد فرماتا ہے۔ 

مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً. (البقرة : 245)

قرض سے مراد یہ ہے کہ اپنی تمام نیکیاں مخلوق پر احسان کے جذبے سے محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیدے۔ اور اس پر کسی قسم کا احسان نہ جتلائے۔ جیسا کہ فرمایا

لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ (البقرة : 264)مت ضائع کرواپنے صدقوں کو احسان جتلا کر اور دکھ پہنچا کر“ اور نہ ہی دنیا میں کسی عوض کا طالب ہو۔ یہ انفاق فی سبیل اللہ کی ایک 

لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ(آل عمران : 92) ہر گز نہ پاسکو گے تم کامل نیکی ( کار تبہ )جب تک نہ خر چ کرو (راہ خدا میں ان چیزوں سے جن کو تم عزیز رکھتے ہو۔

سترھویں فصل شریعت اور طریقت کےروزه کا بیان

شریعت کا روزہ :۔دن کے وقت کھانے پینے اور جماع سے رکنا شریعت کا روزہ ہے۔ 

طریقت کا روزہ :۔ظاہر اور باطن میں تمام اعضاء کو محرمات، مناہی اور ذمائم سے روکنا 

طریقت کا روزہ کہلاتا ہے محرمات و مناہی اورذمائم مثلا خود پسندی، تکبر، بخل وغیرہ طریقت کے روزے کو باطل کردینے والی چیزیں ہیں۔ 

شریعت کے روزے کے لیے وقت مقرر ہے جبکہ طریقت کاروزہ پوری عمر کے لیے ابدی ہے ۔ اسی لیے حضور ﷺنے فرمایا : 

رُبَّ ‌صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ

کئی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں بھوک کے سواء روزوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ 

اسی لیے یہ مقولہ مشہور ہے کہ کئی روزہ دار مفطر (روزہ نہ رکھنے والے) ہوتے ہیں اورکئی مفطر روزہ دار ۔ یعنی اپنے تمام اعضاء کو گناہوں سے بچاتے ہیں اور کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتے۔ حدیث قدسی ہے۔ 

وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا ‌أَجْزِي ‌بِهِ بے شک روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا

رب قدوس نے فرمایا( حدیث قدسی) يَصيرُ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ : فَرْحَةٌ عِنْدَ الإفْطَارِ، وفَرْحَةٌ عِندَ رُؤيَةِ جَمَالي

روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی تو افطار کے وقت کی ہے اور دوسری خوشی میرے جمال کی دید کے وقت کی ہے۔

اہل شریعت کے نزدیک افطار غروب آفتاب کے وقت کچھ کھاپی لینا ہے اور عید کی رات چاند کا نظر آنا ہے لیکن اہل طریقت کہتے ہیں۔ افطار جنت کی نعمتوں سے ہو گا جبکہ رب قدوس کے فضل سے انسان جنت میں داخل ہو گا۔ دیدار کے وقت کی مسرت سے مراد یہ ہے کہ بند مؤ من قیامت کے روز اللہ کریم سے ملاقات کرے گا اور اسے باطن کی آنکھ سے روبرو دیکھے گا تو اسے خوشی و مسرت حاصل ہوگی۔ 

روزے کی ایک تیسری قسم بھی ہے جسے حقیقت کا روزہ کہتے ہیں۔ 

حقیقت کا روزہ :۔اس سے مراد جان کا محبت غیر سے رکنا ہے اور سرّ کا مشاهده غیر کی محبتسے رکنا ہے۔ حدیث قد سی ہے۔

الإنسانُ سرّي وأنا سرُّهُانسان میر اراز اور میں اس کا راز ہوں

یہ سر نور خداوندی سے ہے یہ کسی غیر کی طرف مائل نہیں ہو تا۔ اور اللہ کے سواء اس کا کوئی اور محبوب مرغوب اور مطلوب بھی نہیں ہے۔ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ جب غیر کی محبت آگئی تو حقیقت کا روزہ فاسد ٹھہرا۔ اس روزے کی قضا صرف ایک صورت میں ہوسکتی ہے کہ انسان اللہ کریم کی طرف لوٹ آئے اور اس سے ملا قات کرنے کی کوشش کرے اس روزے کا صلہ آخرت میں اللہ تعالی کی ملا قات ہے۔ 

اٹھارویں فصل شریعت و طریقت کے حج کا بیان

حج کی دو قسمیں ہیں۔ حج شریعت اور حج طریقت 

حج شريعت :۔ یہ حج بیت الله شر یف سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے مخصوص ارکان اور شرائط ہیں۔ ان شرائط اور ارکان کو ادا کرنے سےحج کا ثواب ملتا ہے۔ اور جب کوئی شرط پوری نہ ہوسکے تو ثواب میں کمی آجاتی ہے ۔ کیونکہ رب قدوس کا حکم ہےحج مکمل کرو۔ 

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ (البقرہ :196)اور پورا کر وحج اور عمرہ اللہ کی رضا کیلئے 

حج شریعت کی شرائط میں سے اولاً احترام ہے۔ پھر مکہ میں دخول ہے ، پھر طواف قدوم، پھر وقوف عرفہ اور مزدلفہ پھر منی میں قربانی۔ اس کے بعد حرم پاک میں دوبارہ حاضری اور کعبۃ اللہ شریف کا سات چکروں میں طواف ہے۔ پھر حاجی زمزم کا پانی پیتے ہیں اور مقام ابراہیم علیہ السلام پر دو رکعت نفل نماز ادا کرتے ہیں۔ آخر میں احرام کھول دیا جاتا ہے اور اب شکار و غیرہ احرام کی صورت جو چیزیں اللہ تعالی نے حرام قرار دے دی تھیں حلال ہو جاتی ہیں۔ اس حج کا صلہ جہنم سے آزادی اورالله تعالی کی ناراضگی سے امن ہے۔ جیسا کہ کلام مجید سے ظاہر ہے۔ 

وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (آل عمران :97 )اور جو بھی داخل ہو اس میں ہو جاتا ہے (ہر خطر ہ سے) محفوظ

طواف صدور کے بعد لوگ وطن لوٹتے ہیں۔ 

حج طریقت :۔حج طریقت کی راہ میں زاد راہ اور سواری صاحب تلقین (مرشد کامل ( کی تلاش اور اس سے اخذ فیض ہے۔ یہی پہلا قدم ہے۔ اس کے بعد مسلسل ذکر باللسان اور اس کے معنی کو سامنے رکھنا ہے حتی کہ دل زندہ ہو جائے اس کے بعد باطنی ذکر کی باری آتی ہے یہاں تک کہ اسماء صفات کے مسلسل ورد سے من صاف ہو جائے۔ ایسے میں کعبہ سر(باطنی کعبہ) انوار صفات کے ذریعے سامنے آجاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ سب سے پہلے کعبۃ اللہ کو صاف ستھرا کرو۔ 

وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ (البقرہ : 125)

اور ہم نے تاکید کر دی ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام ( کو کہ خوب صاف ستھرارکھنا میراگھر طواف کرنے والوں کیلئے۔

 کعبہ ظاہر اس لیے صاف کیا جاتا ہے کہ طواف کرنے والے لوگ آئیں گے جو کہ مخلوق ہیں جبکہ کعبہ باطن اللہ تعالی کیلئے صاف ہوتا ہے۔ باطن کے کعبہ(قلب مومن) کو غیر کے خیال سے صاف کرکے اسے اللہ تعالی کی تجلی(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) کے قابل بنایا جاتا ہے۔ پھر روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) کا احرام باندھا جاتا ہے۔ پھر دل کے کعبہ میں حاضری دی جاتی ہے۔ اسم ثانی اللہ اللہ کےورد سے طواف قدوم ہوتا ہے۔ عرفات قلب میں حاضری ہوتی ہے۔ جو کہ ہم کلامی خدا کا مقام ہے۔ یہاں تیسرے ھو ھو اور چوتھے حق حق اسم مسلسل ورد کر کے وقوف کیاجاتاہے۔پھرعارف جان کے مزدلفہ میں جاتا ہے۔ پانچویں اور چھٹےیا حی یا قیوم اسم کا اکٹھا ورد کرتا ہے۔ اس کے بعد منی سرّ“ کو جاتا ہے جو کہ دونوں حرموں کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کچھ دیر کے لیے ٹھہر تا ہے پھر ساتویں اسم یا قہار کے ورد کے ساتھ نفس مطمئن کی قربانی دیتا ہے کیونکہ ساتواں اسم اسم فناء (بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) ہے۔ کفر کے حجابات اٹھ جاتے ہیں۔ جیسا کہ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ 

الكُفْرُ والإيمانُ مقامَان مِنْ وَرَاءِ العَرْشِ،وهمَا حِجابَان بين العبدِ وبينَ الحقّ أحدُهُمَا أسوَدُ والثَّاني أَبْيَضکفر اور ایمان عرش سے آگے دو مقام ہیں۔ یہی حق اور بندے کے در میان دو حجاب ہیں۔ ان میں سے ایک کا رنگ سیاہ ہے اور دوسرے کا رنگ سفید اس کے بعد حج طريقت ادا کرنے والا آٹھویں اسم پر ملازمت اختیار کر کے روح کو صفات بشری سے صاف کر کے حلق کرواتا ہے۔ پھر نو یں اسم پرملازمت اختیارکرتا ہے اور حرم باطن میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اعتکاف کرنے والوں کو سامنے دیکھتا ہے۔ اور دسویں اسم کے مسلسل ورد سے بساط قربت وانس میں معتکف ہو جاتا ہے۔ پھر انسان جمال صمدیت کو بلا کیف و تشبیہ دیکھتا ہے۔ گیارہویں اسم کی ملازمت کے ساتھ سات چکر لگا کر طواف کرتا ہے۔ اس گیارہویں اسم کے ساتھ چھ فروعی اسماء بھی ہوتے ہیں۔ طواف کر چکنے کے بعد وہ دست قدرت(وہ قوت جو ممکنات کو عدم سے وجود میں لاتی ہے۔ اسے صفت ربوبیت 

بھی کہتے ہیں) سے (خاص مشروب ( پیتا ہے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا (الانسان :21)اور پائے گا انہیں ان کا پروردگار نہایت پاکیزہ شراب“ 

یہ شراب بارہویں اسم کے پیالے میں بھری ہو گی۔ اللہ تعالی اپنےچہرہ اقدس سے نقاب الٹ دیتا ہے اور انسان اس کے نور کے ساتھ اس کا دیدار کرتاہے۔یہی مفہوم ہے اس حدیث قدسی کا مَا لاَ عَيْنٌ رَأَت۔ ”نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو گا ، یعنی ملاقات خداوندی کا منظر ’ ولا أُذُنٌ سَمِعَتْ نہ کسی کان نے سنا ہو گا۔ “ یعنی حرف و صوت کے واسطے کے بغیر کلام خداوندی۔ لا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَر” نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال گزراہو گا ،یعنی دیدار اور ہم کلامی خدا کا ذوق۔ پھر اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزیں حلال ہو جاتی ہیں۔ یعنی برائیاں نیکیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہاں اسمائے توحید( اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) کا تکرار ہو تا ہے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (الفرقان :70 )

مگر وہ جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے تو یہ وہ لوگ ہیں بدل دے گا اللہ تعالی ان کی برائیوں کو نیکیوں سے۔

 پھر انسان تصرفات نفسانی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اسے کسی چیز کا خوف اور کوئی حزن نہیں رہتا۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہےاَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس :62) سنو ! اولیاء اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے“ 

رزقنا الله وإياكم بفضله وكرمه 

پھر تمام اسماء کا ورد کر کے طواف صدور کر تا ہے اور آخر میں اپنے اصلی وطن کی طرف لوٹ آتا ہے جو عالم القدسی میں ہے اور جہاں اسے معتدل صورت میں پیدا کیا گیا تھا۔ یہ عالم الیقین سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ تاویلات کلام و عقل کے دائرہ میں آنے والی ہیں۔ اس سے آگے کی خبر دینا ممکن نہیں۔ کیونکہ عقل و فہم اس کے ادراک سے عاجز ہیں۔ اور خیالات کی وہاں تک رسائی نہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ كَهَيْئَةِ الْمَكْنُونِ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا الْعُلَمَاءُ بِاللَّهِ، فَإِذَا نَطَقُوا بِهِ أَنْكَرَهُ أَهْلُ الْغِرَّةِ بِاللَّهِ

ایک علم وہ بھی ہے جو چھپے ہوئے خزانے کی طرح ہے جس سے صرف علماء باللہ‘ ہی واقف ہیں۔ جب یہ علماء اس علم میں گفتگو کرتے ہیں تو کوئی انکار نہیں کر تاسوائے گم کردہ راہ لوگوں کے۔

 عارف اس سے کم کی بات کر تا ہے اور عالم باللہ اس سے آگے کی بات کر تا ہے ۔ عارف کا علم سرِّ خداوندی ہے جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے۔ وَلَا ‌يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ (البقرہ :255) اور وہ نہیں گھیر سکتے کسی چیز کو اس کے علم سے مگر جتنادہ چاہے“ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ ‌وَأَخْفَى اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى (طہ : 8 )

وہ تو بلا شبہ جانتا ہے رازوں کو بھی اور دل کے بھیدوں کو بھی۔ اللہ (وہ ہے کہ ( کوئی عبادت کے لائق نہیں بغیر اس کے ۔ اس کے لیے بڑے خوبصورت نام ہیں“ 

انیسویں فصل  وجد اور صفاء کا بیان

(حق کے راز کو پاکر روح کا خشوع اختیار کرنا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب انسان ذکر کی حلاوت محسوس کرتا ہے تو اس کے دل میں عشق کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا اور ضبط کے باوجود بھی کسی نہ کسی رنگ میں اظہار ہو جاتا ہے۔ اظہار کی کیفیت و جد ہے)

رب قدوس کا ارشاد ہے۔ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ (الزمر:23( اور کانپنے لگتے ہیں اس کے (پڑھنے سے)بدن ان کے جوڈرتے ہیں اپنے پروردگار سے پھر نرم ہو جاتے ہیں ان کے بدن اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف“ أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ (الزمر:22( بھلاوہ ( سعادتمند) کشادہ فرمادیا ہو اللہ نے جس کا سینہ اسلام کےلیے تو وہ اپنے رب کے دئیے ہوئے نور پر ہے پس ہلاکت ہے ان سخت دلوں کے لیے جوذکر خدا سے متاثر نہیں ہوتےجَذْبَةٌ مِنْ ‌جَذَبَاتِ ‌الْحَقِّ تُوَازِي عَمَلَ الثَّقَلَيْنِحق تعالی ( کے عشق) کا جذبہ جن وانس کے عمل کے برابر ہے“ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا ارشاد مبارک ہے۔ 

من لا وجد له لا دين لهجس میں وجد نہیں اس کا کوئی دین نہیں“

حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں الوجد في مصادفة الباطن من الله واردٌ يورث سروراً وحزناً

 وجدسے مراد باطن میں اچانک اللہ کریم کے بارے ایک ایسی کیفیت کا پیدا ہو جانا ہے جو سرور یا غم کا وارث بنادے ۔

وجد کی دو قسمیں ہیں۔

(الف) جسمانی نفسانی و جد (ب) روحانی رحمانی وجد

(الف)۔ نفسانی و جد :۔نفسانی و جد یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر بہ تکلف و جد جیسی کیفیت طاری کرلے یعنی کوئی ایسا جذبہ کار فرمانہ ہو جس کا تعلق غلبہ حال اور روحانیت سے ہو۔ یہ وجد محض نمود و نمائش اور شہرت کے جذبے سے کیا جاتا ہے وجد کی یہ صورت باطل ہے کیونکہ اس میں انسان بے اختیار نہیں اور نہ ہی اس کی قوت سلب ہوئی ہے(یہ وجد نہ کسی باطنی شوق کے غلبہ سے ہوتا ہے  اور نہ ہی جسم کے اختیار کے سلب ہونے سے ہوتا ہے )۔ ایسے وجد کی موافقت جائز نہیں ہے۔

( ب) روحانی و جد :۔اس صورت میں عشق کی قوت کار فرما ہوتی ہے۔ مثلا کوئی شخص خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کر تا ہے۔ کوئی موزوں شعر پڑھتا ہے۔ پر تاثیر ذکر کرتا ہے اور دل پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ جسم پر سے اختیار اٹھ جاتا ہے۔ یہ وجد روحانی اور رحمانی ہے۔ ایسے وجد میں موافقت مستحب ہے۔ آیت کریمہ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ 

فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ (الزمر:17،18( 

پس آپ مژدہ سنادیں میرے ان بندوں کو جو غور سے سنتے ہیں بات کو پھر پیروی کرتے ہیں اچھی بات کی“ 

اسی طرح عشاق اور پرندوں کی آواز اورگانوں کی خوش کن لے روح کی قوت کا موجب بنتی ہو شیطان اور نفس ایسے وجد میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ شیطان ظلمانیت اور نفسانیت میں تصرف کرتا ہے نورانیت اور روحانیت میں اس کا تصرف ممکن نہیں ہے۔ کیو نکہ نورانیت اور روحانیت سے وہ اس طرح پگھل جاتا ہے جس طرح نمک پانی میں۔ حدیث پاک سے بھی یہی ثابت ہے۔ کیونکہ آپ نے فرمایا آیات کریمہ کی تلاوت، حکمت، محبت اور عشق پر مبنی اشعار اور غم بھری آواز میں روح کے لیے نورانی قوت ہیں اس لیے ضروری ہے کہ نور ، نور سے ملے۔ اور یہاں نور سے مراد روح ہے جیسا کہ کلام مجید میں ہے۔ 

وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ (النور :26)ر جب وجد شیطانی اور نفسانی ہو تو اس میں نورانیت نہیں ہوتی۔ بلکہ اس میں تاریکی اور کفر ہو تا ہے۔ تاریکی ظلمانی یعنی نفس کو پہنچتی ہے اور اس کی سرکشی میں اضافہ کرتی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ 

الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ(النور :26) اس وجد میں روح کے لیے کوئی قوت نہیں ہوتی۔ حرکات وجد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک اختیاری اور دوسری اضطراری۔ 

پہلی صورت اختیاری حرکات کی ہے۔ اس کی مثال ایک تندرست و توانا آدمی کی حرکت جیسی ہے جسے نہ کوئی درد ہو اور نہ کوئی بیماری۔ یہ حرکات غیر مشروع ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ 

دوسری صورت اضطراری حرکات کی ہے۔ اس کے سبب کی نوعیت دوسری ہے۔ مثلا روح میں ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے جسے نفس روک نہیں سکتا کیونکہ یہ حرکات جسمانی حرکات پر غالب آجاتی ہیں۔ ان کی مثال بخار کی ہے۔ جب بخار شدت اختیار کر جائے تو نفس اسے برداشت کرنے سے عاجز آجاتا ہے اور ایسے میں وہ بے اختیار ہو جاتا ہے۔ 

وجد میں جب روحانی حرکات غالب ہوں تو ایساوجدحقیقی اور رحمانی ہوتا ہے۔ 

وجد اور سماع ایک ایسا آلہ ہیں جو جسم میں حرکت پیدا کر دیتے ہیں۔ جس طرح کے عشاق اور عارفوں کے دلوں میں جذبات امنڈ آتے ہیں۔ 

وجد اہل محبت کی غذا ہے اور طالبین کی قوت کا سبب ہے۔ 

ایک قول کے مطابق سماع کچھ لوگوں کے لیے فرض ، کچھ لوگوں کے لیے سنت اور کچھ لوگوں کے لیے بدعت ہے۔ خواص کیلئے فرض۔ اہل محبت کے لیے سنت اورغافلوں کیلئے بد عت ہے یہی وجہ ہے کہ داؤد علیہ السلام کے سر پر پرندے ٹھہر جاتے کہ آپ کی آواز سن سکیں۔ 

حرکت و جد کی دس صورتیں ہیں۔ بعض جلی ہیں جن کا اثر حرکات میں ظاہر ہوتا ہے اور بعض خفی ہیں کہ ان کا اثر جسم میں ظاہر نہیں ہوتا۔ مثلا دل ذکرالہی کی طرف مائل ہو جاتا ہے ۔ آدمی خوبصورت آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگتا ہے، روتا ہے اور غم و الم کا اظہار کرتا ہے۔ خوف و حزن سے کانپ اٹھتا ہے۔ جب اللہ کا ذکر ہو رہا ہو تاسف اور حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ باطن و ظاہر میں تجرد(اس خیال سے کہ اللہ تعالی کا حق ادا کرنا واجب ہے انسان کا اپنے دل کو اغراض دین اور حال و مستقبل کی مصلحتوں سے پاک کر لینا تجرد ہے) نصرت اور تغیر ظاہر ہوتا ہے۔ طلب، شوق اور سوز و جد ہی کی صورتیں ہیں۔ 

بیسویں فصل خلوت و گوشہ نشینی کا بیان

خلوت و گوشہ نشینی کی دو قسمیں ہیں۔ ظاہر ی اور باطنی۔ 

ظاہر ی خلوت :۔ ظاہر ی خلوت یہ ہے کہ کوئی شخص گوشہ نشینی اختیار کرلے اور اپنے آپ کو لوگوں سے الگ کر لے تاکہ دوسرے اس کے اخلاق ذمیمہ سے محفوظ رہیں نفس سے اس کی مالوفات(عادات) چھڑوا کر اور ظاہری حواس کو قابو میں رکھ کر اخلاص نیت کے ساتھ اپنے ارادہ کو قتل کرے اور اسے در گور کر دے تا کہ باطنی خواص پر فتح حاصل ہو جائے۔ اس ساری تگ و دو میں پیش نظر اللہ کی رضا اور دوسرے مسلمانوں سے دفع شر ہو جیسا کہ رسول الله ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ : وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ ‌مِنْ ‌لِسَانِهِ وَيَدِهِ

مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“ . فضول باتوں سے زبان کور و کے جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد ہے۔ سَلاَمَةُ الإنسانِ مِنْ قِبَلِ اللِّسَانِانسان کی سلامتی زبان کی طرف سے ہے“ 

آنکھوں کو خیانت، حرام کی طرف دیکھنے سے روکے اور اسی طرح کانوں، ہاتھوں اور پاؤں کو حرام کے قریب بھی نہ پھٹکنے دے جیسا کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ 

الْعَيْنَانِ ‌تَزْنِيَانِ آنکھیں زنا کرتی ہیں ۔

جوشخص،(ہاتھ پاؤں، کان، زبان، آنکھ وغیرہ) اعضاء سے زنا کر تا ہے قیامت کے روز قبر سے اس کے ساتھ ایک قبیح صورت شخص اٹھے گا۔ یہ شخص زناکار کے خلاف گواہی دے گا کہ یہ زنا کرتارہا ہے اور میں اس کے اعمال کی مثالی صورت ہوں ۔ الله تعالی اس گواہی پر زنا کار کامؤاخذه فرمائے گا اور اسے جہنم رسید کر دے گا۔ ہاں جو انسان توبہ کرے اور اپنے آپ کو اس قبیح حرکت سے روک لے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى  فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى (النازعات:40،41 ( اور اپنے نفس کو روکتا رہا ہو گا (ہربری) خواہش۔ یقینا جنت ہی اس کا ٹھکانا ہو گا“ 

تو قبیح صورت وہ شخص خوبصورت بے ریش نوجوان کی صورت میں ظاہر ہو گا اور توبہ کرنے والے شخص کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں لے جائے گا۔ اس توبہ کی وجہ سے وہ برے اعمال کے شر سے بچ جائے گا۔ گویا خلوت نے اسے اپنے حصار میں لیے رکھا اور وہ لوگوں سے کنارہ کشی کی وجہ سے گناہوں سےبچ گیا۔ اس کے عمل صالح قرار پائے۔ وہ احسان کرنے والوں میں شمار ہونے لگا جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ 

إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (التوبہ : 120)بیشک اللہ تعالی ضائع نہیں کر تا نیکوں کا اجر“ 

رب قدوس کا ارشاد ہے: إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (الاعراف :56 ( 

بیشک اللہ کی رحمت قریب ہے نیکو کاروں سے فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (الکہف:110( پس جو شخص امید رکھتا ہے اپنے رب سے ملنے کی تواسے چاہیئے کہ وہ نیک عمل کرے“ 

باطنی خلوت :۔باطنی خلوت یہ ہے کہ انسان نفسانی اور شیطانی تفکرات کو دل میں جگہ نہ دے۔ مثلا کھانے پینے کی محبت، اہل و عیال کا پیار، حیوانات سے دل لگی ، ریاء کاری ، ناموری اور شہرت جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

لشُّهْرَةُ ‌آفَةٌ، وَكُلٌّ يَتَحَرَّاهَا، وَالْخُمُولُ رَاحَةٌ وَكُلٌّ يَتَوَقَّاهَاشہرت آفت ہے اور ہر آدمی اس کا متمنی ہے گمنامی راحت ہے اور ہر ایک اس سےبچتا ہے“ 

اور اپنے دل میں بالاختیار تکبر ، خود پسندی بخل و غیرہ جیسی برائیوں کو در نہ آنے دے۔ خلوتی کے دل میں ان برائیوں کا خیال تک بھی گزر گیا تو اس کے عزلت گزینی فاسد قرار پائی دل برباد ہو گیا۔ اعمال صالحہ اور احسان کا قلع قمع ہوا۔ ایسادل بے فائدہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا۔ 

إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ (یونس:81( بیشک اللہ تعالی نہیں سنوارتاشریروں کے کام کو

جس شخص میں یہ برائیاں ہوں گی وہ مفسد ہے اگر چہ اس نے صالحین کا لبادہ کیوں نہ اوڑھ رکھا ہو۔ حضور ﷺکا ارشاد پاک ہے۔ 

إِنَّ ‌الْغَضَبَ لِيُفْسِدُ الْإِيمَانَ كَمَا يُفْسِدُ الْخَلُّ ‌الْعَسَلَغصہ ایمان کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو“ 

اسی طرح حضور ﷺکی ایک اور حدیث ہے۔ إِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ ‌النَّارُ ‌الْحَطَبَ

”حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ ایندھن کو پھر فرمایا : الْغِيبَةُ ‌أَشَدُّ مِنَ الزِّنَا

غیبت زنا سے بڑی برائی ہے“ الْفِتْنَةُ نَائِمَةٌ لَعَنَ اللَّهُ ‌مَنْ ‌أَيْقَظَهَا»یہ سویا ہوا فتنہ ہے۔ اللہ کی اس پر لعنت ہو جو اس کو بیدار کرے“ 

‌الْبَخِيلُ ‌لَا ‌يَدْخُلُ ‌الْجَنَّةَ وَلَوْ كَانَ عَابِدًابخیل عابد و زاهد ہو تو بھی جنت میں نہیں جائے گا االرِّيَاءَ ‌شِرْكٌ ‌خَفِيٌّدکھاوا شرک خفی ہے“ اور ریاء کو ترک کرنا اس گناہ( ریاء) کا کفارہ بن جاتا ہے ؟لا ‌يَدْخُلُ ‌الجنَّة نَمَّامٌچغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا“ 

اس کے علاوہ اور کئی احادیث اخلاق ذمیمہ پر پیش کی جا سکتی ہیں ان اخلاق سے بچنا بہت ضروری ہے۔ تعلیمات تصوف کا پہلا مقصود تصفیہ قلب ہے۔ ایک خلوت گزیں صوفی چاہتا ہے کہ وہ خلوت، ریاضت(دل کو طبیعت کے تقاضوں اور اس کی خواہشات سے پاک کرنا) ، خاموشی، مسلسل ذکر، محبت، اخلاص ، توبہ سلف صالحین صحابہ اور تابعین جیسا اہل سنت کاصحیح اعتقادا پنا کر ہوائے نفس کو جڑ سے اکھیڑپھینکے۔ جب توحید پر کامل یقین رکھنے والا مؤمن توبہ و تلقین اور اس کی دوسری تمام شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے خلوت نشین ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے عمل میں خلوص پیدا فرمادیتا ہے۔ اس کے دل میں نور پیدا کر دیتا ہے۔ اس کی شخصیت نرم و ملائم ہو جاتی ہے۔ زبان میں پاکیزگی آجاتی ہے ظاہری و باطنی حواس مجتمع ہو جاتے ہیں۔ اس کاعمل حضور باری میں پہنچ جاتا ہے اور جب وہ دعا کرتا ہے تو قبول ہوتی ہے۔ جیسا کہ وہ نماز میں کہتا ہے سَمِعَ ‌اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، یعنی اللہ نے اس کی دعا سن لی۔ اس کی آہ و زاری کو شرف قبولیت بخش دیا۔ثناگستری کے الفاظ کو نظر رحمت سے دیکھا اور قربت(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) کی صورت میں اپنے بندے کو اجر سے نوازا۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ إِلَيْهِ ‌يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر:10( اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور نیک عمل پاکیزہ کلام کو بلند کرتا ہے ۔

پاکیزہ کلام سے مراد زبان کا لغویات سے محفوظ ہو تا ہے۔ کیونکہ زبان اللہ تعالی کے ذکر اور توحید کو بیان کرنے کا آلہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ 

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون:1تا3( 

بیشک دونوں جہان میں بامراد ہو گئے ایمان والے۔ وہ ایمان والے جو اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں اور وہ جو ہر بیہودہ امر سے منہ پھیرے ہوتے ہیں۔ 

اللہ تعالی علم، عمل اور عامل کو اپنی قربت ، رحمت کی طرف بلند کرتا ہے 

اور مغفرت اوررضوان سے اس کے درجہ کو بڑھاتا ہے۔ 

خلوتی کو جب یہ مقامات( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا)حاصل ہو جائیں تو اس کا دل سمندر کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ اور وہ لوگوں کی ایذاء رسانی سے گدلا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ حضورﷺکارشاد گرامی ہے۔ 

کن بحرا لا تتغیر اے انسان تو سمندر بن جا پھر تجھے کوئی تبدیل نہیں کر سکے گا۔

سمندر کی صورت اختیار کر لے۔ اس میں جانیں کتنی بری جانیں غرق ہوتی ہیں۔ جیسے فرعون اور اس کے حواری غرق ہوئے(باطنی خلوت نشینی  کے وسیع قلب میں وسیع بیمایاں فنا ہو جاتی ہیں) لیکن اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔تبھی شریعت کی کشتی صحیح سالم اس سمندر(بحر قلب) میں تیرے گی۔ اور روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) اس کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر درحقیقت تک پہنچے گی۔ اور اس سے معرفت کے موتی، لطائف مکنونہ کے مرجان بر آمد ہوں گے۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ (الرحمن:22) نکلتے ہیں ان سے موتی اور مرجان“ 

کیونکہ یہ سمندر صرف اسے نصیب ہو سکتا ہے جس نے ظاہر اور باطن(بحر شریعت اور بحر حقیقت) دونوں دریاؤں کو جمع کر رکھا ہو۔ اس مقام کے حصول کے بعد قلب میں کوئی فساد بر پا نہیں ہو سکتا۔ ایسے شخص کی توبہ خالص توبہ ہے اور اس کا عمل نافع ہے۔ ایسا شخص جان بوجھ کر گناہوں کی طرف مائل نہیں ہو گا۔ اس کا سہو اور نسیان استغفار اور ندامت سے انشاء اللہ معاف ہو جائے گا۔ 

اکیسویں فصل خلوت کے اوراد

 خلوتی( گوشہ نشین ( کو چاہیئے کہ ہو سکے تو روزے رکھے۔ پانچ وقت کی نماز مسجد میں باجماعت (مستحب)اوقات پر تمام سنن ، شرائط اور ارکان کالحاظ رکھتے ہوئے ادا کرے اور ناغہ نہ ہونے دے ( فرض نماز کے علاوہ ( پچھلی رات کی تنہائی میں بارہ رکعت نماز تہجد ادا کرے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

وَمِنَ اللَّيْلِ ‌فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ (الاسراء:79)

اور رات کے بعض حصہ میں (اٹھو ( اور نماز تہجد ادا کرو ( تلاوت قرآن کے ساتھ) یہ نماز  زائد ہے آپ کے لیے ‌تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (السجدہ :16)

دور رہتے ہیں ان کے پہلو (اپنے) بستروں سے۔

 جب سورج طلوع ہو جائے تو اشراق کی نیت سے دور کعت نماز نفل ادا کرے اور دو رکعتیں نماز استعاذہ کی نیت سے پڑھے۔ ان دور کعتوں میں معوذتین کی قرآت کرے۔ اس کے بعد دو رکعتیں اور استخارہ کی نیت سے پڑھے۔ نماز استخارہ کی ہر رکعت میں ایک بار سورة فاتحہ ، ایک بار آیت الکرسی اور سات بار سوره اخلاص کی تلاوت کرے۔ ان نوافل کے بعد نماز چاشت کی چھ رکعتیں پڑھے اور اس کے بعد کفارہ بول(دوران پیشاب بے احتیاطی سے پیشاب کا جسم پر لگ جانا اور کپڑوں اور جسم کا ناپاک ہونا باعظ عذاب ہے اس کے کفارہ کیلئے ) کی نیت سے دور کعتیں ادا کرے۔ ان دور کعتوں میں فاتحہ کے بعد سات سات مرتبہ سورہ کوثر کی تلاوت کرے۔ ان دو نفلوں کا فائدہ یہ ہو کا پیشاب میں عدم احتیاط کی وجہ سے جو گناہ سرزد ہو جاتے ہیں یہ دو رکعتیں اس کا کفارہ بن جائیں گی اور عذاب قبر سے نجات مل جائے گی۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ 

‌اسْتَنْزِهُوا مِنَ الْبَوْلِ فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْهُ

پیشاب سے دامن بچا کے رکھے کیونکہ عام طور پر عذاب قبر اسی سبب سے ہوتا ہے ۔

چار رکعت صلاة التسبیح ادا کرے۔ اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت ملانے کے بعد قیام میں پندرہ مرتبہ یہ کلمہ پڑھے۔ ‌سُبْحَانَ ‌اللَّهِ ‌وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُپھر تکبیر کہے اور رکوع میں دس مرتبہ میں مذکورہ کلمہ پڑھے۔ تکبیر کہہ کر رکوع سے سر اٹھانے اور دس مرتبہ یہی کلمہ پڑھے۔ پھر دونوں سجدوں میں دس دس مرتبہ دونوں سجدوں کے در میان دس مرتبہ اور دونوں سجدوں کے بعد بیٹھے بیٹھے یہ کلمہ دس بار پڑھے ۔ یہی عمل دوسری، تیسری اور چوتھی رکعت میں دھرائے یہ نماز ہو سکے تو دن رات میں ایک بار پڑھے۔ نہیں تو ہر جمعہ کو۔ اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ہر مہینے میں ایک بار اور اگر اسے بھی معمول نہ بنا سکے تو سال میں ایک بار ورنہ زندگی میں ایک بار تو ضرور پڑھے۔ رسول کریم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا : جو شخص نماز تسبیح ادا کرے اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اگرچہ وہ ریت کے ذروں سے زیادہ ، ستاروں کی تعداد سے بڑھ کر اور تمام اشیاء کی گنتی کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ (نوٹ) طالب راہ حق کو روزانہ ایک یا دو مرتبہ دعائے سیفی پڑھنی چاہیئے۔ اس کے علاوہ روزانہ دو سو آیات قرآن کریم کی تلاوت بھی ضروری ہے پھر اللہ تعالی کا کثرت سے ذکر کرے۔ ذکر بالجہر کا قائل ہے تو ذکر بالجہر ورنہ ذکر خفی کرے ذکر خفی تبھی صحیح ہے کہ دل زندہ ہو جائے اور باطن کو زبان مل جائے۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ 

وَاذْكُرُوهُ كَمَا ‌هَدَاكُمْ (البقرہ:198) اور ذکر کرو اس کا جس طرح اس نے تم کو ہدایت دی“ 

ہر روز اس کلمہ کا ورد کرے۔ وَالرَّبُّ يُعْرَفُ ‌أَهْلُهُپھر سورۃ اخلاص ایک سو مرتبہ روزانہ تلاوت کرے اور نبی کر یمﷺپر ایک تسبیح درود پاک کی پڑھے۔ پھر کے أَسْتَغْفِرُ ‌اللَّهَ ‌وَأَتُوبُ إِلَيْهِیہ کلمات بھی دن میں ایک سو بار پڑھے۔ اگر ہو سکے تو نوافل اور تلاوت میں اضافہ کر دے کیونکہ اللہ تعالی کسی شخص کا اجر ضائع نہیں فرماتا۔ اس کا ارشاد ہے۔ 

إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (التوبہ:120( بیشک اللہ تعالی ضائع نہیں کر تانیکوں کا اجر“

بائیسویں فصل نیند اور اونگھ کے واقعات

 نیند میں انسان جو واقعات دیکھتا ہے ان کی کوئی نہ کوئی تعبیر ہوتی ہے۔ 

جیسا کہ رب قدوس کا ار شادیا ہے۔ 

لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ (الفتح:27(  یقیناً الله تعالی نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایاحق کے ساتھ“

اسی طرح حضورﷺکارشاد گرامی ہے۔ لَمْ ‌يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا ‌الْمُبَشِّرَاتُ

نبوت میں سے صرف سچے خواب باقی رہ گئے ہیں

 یہ خواب انسان دیکھتا ہے یا نہیں دکھائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ 

لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (یونس:64( 

انہیں کے لیے بشارت ہے دنیوی زندگی میں اور آخرت میں 

بعض علماء کے نزدیک اس سے مرادسچے خواب ہیں ایسے ہی حضور ﷺکا ارشاد پاک ہے۔ 

الرُّؤيا ‌الصَّالحة جُزْءٌ مِنْ سِتَّة وَأَرْبَعِينَ جُزْءاً مِنَ النُّبُوّة سچے خواب نبوت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جز ہیں ۔

حضورﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ مَنْ ‌رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي فِي ‌الْيَقَظَةِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي

جس نے خواب میں میری زیارت کی تو اس نے یقین بید اری میں میری زیارت کی۔ کیونکہ شیطان میری مثالی صورت میں ظاہر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ان لوگوں کی مثالی صورت میں جنہوں نے میری اتباع کی‘‘ 

یعنی شریعت و طریقت اور معرفت کے عمل کے نور سے میری فرمانبرداری کی اور حقیقت و بصیرت (وہ قوت جو اولیاء کے دل سے پھوٹتی ہے اور نور قدس سے منور ہوتی ہے۔ اس سے انسان اشیاء کی حقیقت اور ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ اسے قوت قدسیہ بھی کہتے ہیں)کی روشنی میں میری اتباع کرتے رہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا ‌وَمَنِ ‌اتَّبَعَنِي (يوسف:108( 

میں توبلاتا ہوں صرف اللہ کی طرف۔ واضح دلیل پر ہوں 

میں اور وہ بھی جو میری پیروی کرتے ہیں شیطان ان تمام انوار لطیفہ کی مثالی صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ 

صاحب مظہر لکھتے ہیں : یہ چیز نبی کریم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ جو شیطان رحمت، لطف اور ہدایت کے کسی بھی مظہر کی مثالی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ مثلا تمام انبیاء علیھم السلام اولیاء کرام، کعبۃ اللہ شریف، سورج، چاند سفید بادل، قرآن کریم اور اس قسم کے دوسرے مظاہر رحمت و لطف و ہدایت کیونکہ شیطان صفت قہر کا مظہر ہے۔ اس لیے وہ صرف اسی صورت مثالی میں ظاہر ہو سکتا ہے جس پر گمراہ کا لفظ صادق آسکتا ہو۔ جو شخص مظہر ذات ہادی ہو شیطان بھلا اس کی شکل و صورت کیسے اپنا سکتا ہے۔ ایک چیز اپنی ضد کی صورت میں ظاہر نہیں ہو سکتی کیونکہ اضداد کے درمیان تنافر اور بعد ہوتا ہے اور یہ اس لیے بھی ہے کہ حق اور باطل کے درمیان فرق قائم رہے۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ 

كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ (الرعد:17 ( 

یوں اللہ تعالی مثال بیان فرماتا ہے حق اور باطل کی“ 

رہی یہ بات کہ وہ صفت ربوبیت کی مثالی صورت میں ظاہر بھی ہو سکتا ہے اور دعوی ربوبیت بھی کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ایک صفت جلال کی ہے اور دوسری جمال کی۔ شیطان چونکہ صفت قہر کا گھر ہے اس لیے وہ صفت جلال کی مثالی صورت اپنا سکتا ہے۔ یعنی جب وہ ربوبیت کی مثالی صورت اپنائے گا تو دعوی ربوبیت نہیں کر سکے گا بلکہ ایسی صورت میں بھی ایسا دعوی کرے گا کہ اس پر گمراہ کن کا اسم صادق آئے گا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ اور شیطان ایسے اسم کی مثالی صورت بھی نہیں اپنا سکتا جو جامع ہو اور اس میں ہدایت کا معنی بھی پایا جاتا ہو۔ اس سلسلے میں گفتگو طوالت کا باعث ہو گی۔ رب قدوس کا ارشاد عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا ‌وَمَنِ ‌اتَّبَعَنِي مرشد کامل کی طرف اشارہ ہے جو ( علوم نبوت کا) وارث ہو۔ یعنی میرے بعد آنے والے وہ لوگ جو مسن و جہ میری باطنی بصیرت کی طرح باطنی بصیرت رکھتے ہوں گے۔ بصیرت سے مراد ولایت کا ملہ ہے جس کی طرف اللہ کریم کا یہ ارشاد بھی اشارہ کر تا ہے۔ 

وَلِيًّا مُرْشِدًا (الکہف:17( مددگار (اور) رہنما‘‘

خواب کی دو قسمیں ہیں۔ آفاقی اور انفسی۔ پھر ان میں ہر ایک کی دو ، دو قسمیں ہیں۔ 

 انفسی:۔یا تو اخلاق حمیدہ کی مثالی صورت نظر آئے گی یا اخلاق ذمیمہ کی ۔ اخلاق حمیده مثلا جنت اور اس کی نعمتیں حورو قصور ،غلمان اور سفید نورانی صحراء سورج چاند ، ستارے اور اس قسم کی دل سے تعلق رکھنے والے اخلاق کی مثالی صورتیں رہی نفس مطمئنہ (ایسانفس جسے حق سے سکون حاصل ہو اور وہ طمانیت کی کیفیت پا چکا ہو) سے تعلق رکھنے والے اخلاق کی مثالیں صورتیں مثلا حیوانات اور پر ندوں سے تیار شدہ غذا تو اس کے تعلق بھی انفسی خواب سے ہے کیونکہ نفس مطمئنہ کو جنت میں اس قسم کی خوراک دی جائے گی۔ جیسے بکری اور پرندوں کا بھنا ہوا گوشت وغیر ہ گائے بھی جنتی جانور ہے۔ اسے جنت سے دنیا میں اس لیے بھیجا گیا کہ آدم علیہ السلام اس سے زراعت سے متعلقہ کام سر انجام دے سکیں۔ اونٹ بھی جنتی ہے اور کعبہ ظاہر و باطن کی طرف سفر کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ 

گھوڑا جنتی جانور ہے۔ اللہ تعالی نے اسے جہاد اصغر و اکبر کا آلہ بنایا ہے۔ یہ تمام چیزیں آخرت سے تعلق رکھتی ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے۔ 

ان الغنم خلق من عسل الجنة والبقر من زعفرانها والابل من نورها والخيل من ريحها بیشک بکری جنت کے شہد سے پیدا کی گئی ہے۔ گائے جنت کے زعفران سے اونٹ جنتی نور سے اور گھوڑا جنتی ہو اسے 

رہی بات خچر کی۔ توخچر نفس مطمئنہ کی ادنی صورت مثالی ہے۔ جواسے خواب میں دیکھے تو سمجھ جائے کے خواب دیکھنے والا عبادت میں کوتاہی کر تا ہے اور قیام و قعود میں بوجھ محسوس کرتا ہے۔ ایسے شخص کی عبادت بے کار ہے۔ توبہ کرے تو اس کی کو شش ثمر بار ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔

وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَى (الکہف:88( 

گدھا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی مصلحت کے لیے ہے۔ یہ جنت کے پتھروں سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کو اس سے خد مت لیکر دنیا میں آخرت کے لیے توشہ تیار کرنا چاہیئے۔ 

اگر کوئی شخص خواب میں روح سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو دیکھے مثلا بے ریش نوجوان تو سمجھ لے کہ اس پر انوار خداوندی کی تجلی(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) پڑ رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اہل جنت تمام کے تمام اسی صورت میں ہوں گے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ 

‌أَهْلُ ‌الْجَنَّةِ ‌جُرْدٌ» ‌مُرْدٌ ‌كُحْلٌ” “اہل جنت موچھ داڑھی کے بغیر ہوں گے اور ان کی آنکھیں سر مگیں ہوں گی حضور ﷺکا ایک اور ارشاد گرامی ہے۔ رأَيْتُ ‌رَبِّي في صُورَةِ ‌شَابٍّ أَمْرَدٍ

میں نے اپنے رب کو ایسے نوجوان کی صورت میں دیکھا جس کی مسیں نہ بھیگی ہوں۔ 

بعض تعبیر دهنده فر ماتے ہیں کہ ایسے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس شخص کے آئینہ روح پر صفت ربوبیت کی تجلی فرمائی ہے۔ اسے طفل معانی(انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) کا نام بھی دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جسم کی تربیت کرنے والا ہے۔ اور رب اور بندے کے درمیان و سیلہ ہے حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر میر امربی نہ ہوتا تو میں اپنے رب کو نہ پہچانتا ۔ اس مربی سے مراد باطن کا مربی ہے۔ اور باطنی مربی کی تربیت ظاہر ی مربی کی تلقین کے ذریعے ہوتی ہے۔ انبیاء اولیاء کے جسم بھی تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور دل بھی جو لوگ ان کی تربیت کرتے ہیں انہیں ایک دوسری روح نصیب ہوتی ہے جیسا کہ پہلے مذکور ہو چکا 

ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ ‌يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ (غافر:15) نازل فرماتا ہے وہی اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتاہے ۔

مرشد کی تلاش اس لیے ضروری ہے کہ اس کی تربیت میں رہ کر انسان ایک روح حاصل کر لے جو دل کو زندہ کر دے اور مرید اپنے رب کی معرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اس مسئلہ کو سمجھنے کی کو شش کیجئے ۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس تاویل کی بناء پر خواب میں اللہ تعالی کا ایک خوبصورت اخروی صورت میں دیدار جائز ہے ۔ کیونکہ خواب میں نظر آنے والی صورت ایک مثالی صورت ہے جسے اللہ تعالی نے دیکھنے والے کی استعداد اور مناسبت سے تخلیق فرمایا ہے۔ یہ صورت حقیقت ذاتیہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی صورت سے پاک ہے یا وہ بذ اتہ دنیا میں دکھائی دے گا جس طرح نبی کریمﷺکا دیدار ہے۔ اس قیاس کو بنیاد بنا کر یہ نظریہ رکھنا جائز ہے کہ اللہ تعالی دیکھنے والے کی استعداد اور مناسبت کے مطابق مختلف صورتوں میں نظر آسکتا ہے۔ حقیقت محمدیہ(اس سے مراد حیات روی اور حیات حیوی کا مصدر ہے۔ یہ اہل ایمان کے دلوں کی زندگی ہے۔ حقیقت محمد یہ خلق کی پیدائش کا سبب اور ماسوای اللہ کی اصل ہے) کو بھی صرف وہی دیکھ سکتا ہے جو عمل ، علم ، حال اور بصیرت میں ظاہراً باطناً آپ کا وارث کا مل ہو نہ کہ صرف حال میں ۔ اس قیاس کی بناء پر ہر ایک صفت اسی طرح کی تجلی ڈالتی ہے جس طرح موسی علیہ السلام کے لیے انگور کے درخت میں آگ کی صورت میں صفت خداوندی ظاہر ہوئی ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ 

فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ (طہ:10( تو اپنے گھر والوں کو کہا تم( ذرا یہاں) ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے شاید میں لے آؤں تمہارے لیے اس سے کوئی چنگاری ۔

 اسی طرح صفت کلام سےتجلی فرمائی۔ ارشاد فر مایا وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَامُوسَى (طہ:17( اور ( ندا آئی)یہ آپ کے دائیں ہاتھ میں کیا ہے اسے موسی؟ 

یہ آگ دراصل نور تھا۔ لیکن اسے موسی علیہ السلام کے گمان اور طلب کے مطابق آگ کہا گیا ہے۔ درخت کو انسان سے ذرا سی بھی نسبت نہیں۔ تو کیاعجب کہ صفات خداوندی میں سے کوئی صفت حقیقت انسانی میں متجلی ہو جبکہ انسان نے صفات حیوانیہ سے دل کو پاک کرکے صفات انسانی سے متصف کر لیا ہو۔ جیسا کہ بعض اولیاء پر صفاتی تجلی کا ظہور ہوا مثلا بایزید بسطامی نے فرمایا سبحانی ما آعظم شانی جنید نے فرمایا : ليس في جبتي سوى الله ” اور ایسی کئی دوسری مثالیں

 اس مقام(اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) میں عجیب عجیب لطائف ہیں۔ جنہیں صوفیاء نے بیان کیا ہے۔ ان لطائف کی شرح بہت طویل ہے۔ 

پھر تربیت میں منا سبت ضروری ہے مبتدی(وہ سالک  جو ابھی راہ سلوک کی ابتداء میں ہو)  کی پہلے پہل اللہ تعالی اور نبی کر یم ﷺ کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہوتی اسی لیے اس کے لیے ولی کی تربیت میں رہنا ضروری ہے کیونکہ مبتدی اور ولی کے درمیان ایک مناسبت ہوتی ہے کیونکہ دونوں بشر ہیں۔ اسی طرح حضور ﷺجب بقید حیات ظاہری تھے تو کسی غیر کی تربیت کی ضرورت نہیں تھی مگر جب عالم آخرت کی طرف منتقل ہو گئے تو یہ صفت تعلق منقطع ہو گئی اور آپ تجرد(اس خیال سے کہ اللہ تعالی کا حق ادا کرنا واجب ہے انسان کا اپنے دل کو 

اغراض دین اور حال و مستقبل کی مصلحتوں سے پاک کر لینا تجرد ہے) محض کے مقام پر پہنچ گئے۔ اسی طرح جب اولیاء دار آخرت کور حلت فرما جائیں تو ان کی رہنمائی کسی کو مقصود تک نہیں پہنچا سکتی۔ اگر تو عقل مند ہے تو اسے سمجھنے کی کو شش کر ۔ اور اگر ابل فہم سے نہیں تو پھر ایک نورانی ریاضت (دل کو طبیعت کے تقاضوں اور اس کی خواہشات سے پاک کرنا)کے ذریعے تربیت حاصل کر جو نفسانیت اور ظلمانیت پر غالب آجائے کیونکہ فراست نورانیت سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ ظلمانیت سے اور اس لیے کہ نور صرف اس جگہ سے آتا ہے جو قریب ہو اور روشن بھی ہو۔ پس مبتدی کی (صاحب مزارولی ( کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے۔

ایک ولی جب تک اس دنیا میں ہے مبتدی کو اس سے ایک گونہ مناسبت ہے کیونکہ اس کی دو جہتیں ہیں ”تعلقیہ جسمانیہ اور تجرد یہ روحانی‘‘ کیونکہ وہ وراثت کا ملہ رکھتا ہے۔ پس اس روحانیت کی وجہ سے ولی کو نبی کریمﷺ کی مدد مسلسل پہنچتی رہتی ہے اور وہ اس سے دوسرے لوگوں کو روشناس کراتا رہتا ہے۔ اسے سمجھیئے اس سے آگے عمیق راز ہے جسے صرف اہل معرفت ہی سمجھ سکتے ہیں۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنافقون:8)

حالانکہ (ساری) عزت تو صرف اللہ کے لیے اس کے رسول کے لیے اور ایمان والوں کے لیے ہے ۔

باطن میں تربیت ارواح (کی صورت یہ ہے) کہ روح جسمانی سب سے پہلے جسم میں تربیت پاتی ہے۔ پھر روح روانی(عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح سیر انی بھی کہتے ہیں) قلب میں تربیت حاصل کرتی ہے۔ اس کے بعد روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا ) جان میں تربیت پاتی ہے۔ پھر روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) ہے جو سر میں تربیت حاصل کرتی ہے۔ یہ سر اللہ تعالی اور بندے کے در میان واسطہ ہے۔یہی حق اور مخلوق کے درمیان ترجمان ہے کیونکہ یہ اللہ کی محرم اور اس سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ 

رہا خواب جو کہ اخلاق ذمیمہ سے تعلق رکھتا ہے یہ صفت امارہ کی مثالی صورت ہو یا لوامہ کی یا ملہمہ(ایسا نفس الہام خداوندی سے بھلائی کے کام کرتا ہے۔لیکن بتقاضا طبیعت اس سے برے کام بھی ہو جاتے ہیں) کی تو یہ درندوں کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ مثلا چیتا، شیر، ریچھ بھیڑیا کتا اور خنزیر ہے۔ یا یہ مثالی صورت دوسرے جانوروں کی صورت میں نظر آئے گی مثلا لومڑی، تیندوا، بلی، سانپ، بچھو بھڑ وغیرہ۔ یہ چیزیں خواب میں نظر آئیں تو سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ صفت ذمیمہ کی مثالی صورت ہے اس سے احتراز ضروری ہے۔ لازم ہے کہ انسان روح کی راہ سے اسے ہٹائے۔ 

چیتا خود پسندی اور اللہ تعالی پر تکبر کرنے کی صفت کی مثالی صورت ہو گا۔ شیر تکبر اور مخلوق خداسے اپنے آپ کو برا سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ریچھ کا تعلق صفت غضب اور ماتحتوں پر غلبہ جیسے اخلاق ذمیمہ سے ہے۔ بھیڑ یا اکل حرام، حب دنیااور اس کے لیے قہر وغضب کو ظاہر کرتا ہے۔ 

خنزير :- کینہ ، حسد اور شہوانی خواہشات کی مثالی صورت ہو گی۔ 

خرگوش :۔ خیانت ، دنیاوی مکر و فریب کا پتہ دیتا ہے۔ لومڑی بھی کبھی 

انہیں صفات کو ظاہر کرتی ہے یعنی خرگوش زیادہ غفلت کی علامت ہے۔ 

تیندوا :۔ جاہلی عزت اور حب ریاست کی مثالی صورت ہو تا ہے۔

 بلی :۔بخل اور نفاق کو ظاہر کرتی ہے۔

 سانپ : گالی، غیبت اور کذب جیسی صفات ایذاء کی علامت ہے۔ ان دونوں میں کبھی حقیقی معنی بھی ہوتے ہیں جنہیں صرف اہل بصیرت سمجھ سکتے ہیں۔ 

بچھو : عیب جوئی ، غیبت اور چغلی کی علامت ہے۔

بھڑ چھپ کر مخلوق کو اپنی زبان سے تکلیف دینے کو ظاہر کرتی ہے۔ 

سانپ بھی عداوت ظاہر ی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب سالک خواب میں دیکھے کہ وہ موذی چیز سے لڑ رہا ہے یعنی دیکھ لینے کے باوجود غلبہ نہیں پارہا تو اسے عبادت اور ذکر میں مزید کوشش کرنی چاہیئے۔ تاکہ وہ اس پر غالب آجائے اور اسے قتل کر دے۔ یا پھر اسے بری صورت میں تبدیل کر دے۔ اگر سالک یہ دیکھے کہ وہ کسی موذی چیز پر غالب آگیا ہے یا اسے قتل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے تو سمجھ لے کہ اللہ تعالی نے اس کے تمام گناہوں کو معاف فرما دیا ہے جس طرح اللہ تعالی تائبین کے حق میں ارشاد فرماتا ہے۔ 

كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ (محمد:2)اللہ تعالی نے دور کر دیں ان سے ان کی برائیاں اور سنوار دیا ان کے حالات کو“ 

اور اگر سالک یہ دیکھے کہ موذی چیز انسانی شکل میں تبدیل ہو گئی ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی توابین کے بارے فرماتا ہے۔ 

إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (الفرقان :70)مگر وہ جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے تو یہ وہ لوگ ہیں بدل دے گا اللہ تعالی ان کی برائیوں کو نیکیوں سے۔

پس اس مرتبہ تو وہ ان برائیوں سے چھٹکارپا گیا مگر اس کے بعد ان سے غافل نہ رہے کیونکہ جب نفس نافرمانی اور نسیان جیسی خباثتوں سے تقویت حاصل کر لے گا تو وہ نفس مطمئنہ پر غلبہ پالے گا اور اس کے قابو میں نہیں رہے گا۔ اسی لیے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ انسان جب تک دنیا میں ہے ایک ایک لمحہ متناہی سے اجتناب کرے ۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نفس امارہ جو نفس بشری شہوانی طبیعت کے تقاضوں کا مطیع و فرمانبردار ہو نفس امارہ کہلاتا ہے۔ نفس امارہ اوامر و نواہی کی کچھ پرواہ نہیں کرتا اور لذات نفسانی میں منہمک رہتا ہے) کفار کی صورت میں نظر آجاتا ہے۔ نفس لوامہ یہودی کی صورت مثالی میں اور نفس ملہمہ(ایسا نفس الہام خداوندی سے بھلائی کے کام کرتا ہے۔لیکن بتقاضا طبیعت اس سے برے کام بھی ہو جاتے ہیں) نصرانی کی صورت مثالی میں ۔ اسی طرح کبھی یہ بدعتی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ 

تیئیسویں فصل اهل تصوف،اہل السنۃ اور اہل بدعت

 اصل تصوف کے بارہ فرقے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک فرقہ اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ صرف اسی گروہ کے افعال اور اقوال شریعت اور طریقت کے موافق ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ بلا حساب و کتاب جنت میں جائیں گے اور کچھ ایسے ہیں کہ جنہیں معمولی عذاب کے بعد جنت میں جانے کی اجازت ہو گی۔ اس(اہل السنت) گروہ کے علاوہ باقی گیارہ فرقے اہل بدعت کے ہیں۔ ان فرقوں کے نام یہ ہیں۔ 

خلولیہ :۔ ان کا نظریہ ہے کہ خوبصورت عورت یاامرد( بے ریش بچے) کو دیکھنا حلال ہے۔ ایسے خوبصورت چہرے میں حق کی صفت پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ(عورتوں اور امردوں کے ساتھ) رقص و سرود کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، تقبیل (بوسہ)و معانقہ (گلے لگنا) کو جائزسمجھتے ہیں۔ اور یہ سب چیزیں کفر ہیں۔ 

حالیہ:۔ان کے عقیدے میں رقص و سرود جائز ہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ پر ایک ایسی حالت بھی طاری ہوتی ہے جس کی تعبیر شریعت نہیں دے سکتی۔ یہ نظر یہ بدعت ہے اس میں حضور ﷺکی سنت کی موافقت نہیں ہے۔ 

اولیائہ :۔ یہ گروہ اس نظرئیے کا قائل ہے کہ اولیاء اللہ کیلئے شریعت کی پابندی ضروری نہیں کیونکہ وہ جب ولایت کے مرتبے کو پہنچ گئے تو شریعت کے مکلف نہیں رہے۔ ان کے نزدیک ولی،نبی سے افضل ہے کیونکہ نبی علیہ الصلو ۃو السلام کو جبریل امین کی وساطت سے علم ملا لیکن ولی کا علم جبریل کے واسطے سے نہیں۔ یہ تاویل محض غلطی ہے۔ یہ گروہ اسی نظریئے کی وجہ سے ہلاک ہو ایسا عقیدہ کفر ہے۔

 شمر انیہ :۔یہ گروہ کہتا ہے کہ صحبت قدیم ہے اسی لیے امر و نہی کی پابندی ضروری نہیں ہے شمر انیہ گانے بجانے اور دوسری مناہی(حرام) کو شرعا حلال جانتے ہیں۔ پہلے گھر سے عورت کی بچی خاوند کے لیے حلال بتاتے ہیں۔ یہ لوگ کافر ہیں اور ان کاقتل مباح ہے۔

 حبيہ :۔ ان کے نظرئیے کے مطابق جب انسان اللہ کے ہاں درجہ محبت تک پہنچ جاتا ہے تو اس سے شریعت کی ساری پابندیاں اٹھ جاتی ہیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے سے جسم کے مخصوص حصے (شرمگاہ) نہیں چھپاتے۔

 حوریہ :۔ ان کے نظریات فرقہ حالیہ سے ملتے جلتے ہیں۔ جب یہ لوگ و جد و حال سے افاقہ حاصل کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے حور سے مباشرت کی ہے۔ افاقہ کے بعد غسل کرتے ہیں۔ یہ گروہ پرلے درجے کا جھوٹا ہے اور اسی جھوٹ کی وجہ سے ذلیل و خوار ہیں۔ 

اباحيہ :۔ یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قائل نہیں ۔ حرام کو حلال سمجھتے ہیں اور عورتوں سے (بلا قيد ( اکٹھے ہو نا حلال بتاتے ہیں۔ 

متكاسلہ :۔ یہ لوگ کسب کے قائل نہیں۔ گھر گھر جا کر مانگتے ہیں۔ ان کا دعوی 

ہے کہ ہم نے دنیا ترک کر دی ہے۔ اس نظرئیے کی وجہ سے ذلیل و خوار ہیں۔

متجاہلہ :۔ یہ لوگ فاسقوں جیسا لباس پہنتے ہیں۔ اور دعوی کرتے ہیں کہ وہ بہ باطن اللہ والے ہیں۔ یہ بھی اسی عقیدہ کی وجہ سے ہلاک ہو گئے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ (هود:113( اور مت جھکو ان کی طرف جنہوں نے ظلم کیا ورنہ چھوئے گی تمہیں بھی آگ ۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے جس نے کسی قوم کی مشابہت کی انہی میں سے ہے۔

واقفیہ :۔ ان کے خیالات میں کوئی شخص اللہ تعالی کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا۔ ان لوگوں نے طلب معرفت کی راہ کو ترک کر دیا ہے اور یہ ان کےہلاک ہونے کی وجہ ہے۔

الہامیہ :۔ یہ علم کے قائل نہیں۔ تدریس سے روکتے ہیں اور حکماء کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن حجاب ہے۔ اشعار طریقت کا قرآن ہیں۔ اس لیے وہ قرآن کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ اپنے بچوں کو بھی اشعار کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کے عقیدے میں کوئی وردو وظیفہ جائز نہیں۔ اسی اعتقاد نے انہیں ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ ان باطل نظریات کے باوجود اپنے آپ کو اہل السنت بتاتے ہیں۔ 

یہ تمام فر تے اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ کیو نکہ اصل السنت والجماعت کا تو یہ عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺکی صحبت سے عشق کا جذبہ حاصل کیا۔ پھر یہ جذبہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بعد مختلف مشائخ تک پہنچا۔ ان سے کئی سلسلے رو پذیر ہوئے حتی کہ وہ جذبہ ماند پڑ گیا کئی اصل راہ سے ہٹ گئے اور صرف رسوم بلا معنی کی تقلید کرنے لگے پھر انہیں ظاہری رسوم کے حامل مشائخ کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ سنت کو چھوڑ کر بد عت کی راہ اپنالی۔ کوئی قلندری ہے تو کوئی حیدری۔ کوئی ادہمی کہلائے تو کوئی کسی اور نام سے منسوب ہوئے۔ ان کے بارے تفصیلی گفتگو بہت طوالت کا باعث ہو گی۔ موجودہ دور میں صاحبان طریقت و معرفت اور اہل ارشاد بہت ہی قلیل ہیں۔

 اہل حق کی دو نشانیاں ہیں۔ ایک نشانی ظاہر کی ہے اور دوسری باطنی۔

 ظاہری نشانی :۔ ظاہر کی علامت تو یہ ہے کہ وہ شریعت کے اوامر و نواہی کی پابندی کرتے ہیں۔ مشاہدہ کرنے والے یعنی فقہا ءان کے ظاہری اعمال کو دیکھ کر حق پر تصور کرتے ہیں۔

باطنی علا مت :۔ : جبکہ باطنی علا مت یہ ہے کہ ان کا سلوک مشاہدہ بصیرت(وہ قوت جو اولیاء کے دل سے پھوٹتی ہے اور نور قدس سے منور ہوتی ہے۔ اس سے انسان اشیاء کی حقیقت اور ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ اسے قوت قدسیہ بھی کہتے ہیں) پر ہے صاحبان بصیرت پاک و صاف باطن کے باعث انہیں پہچانتے ہیں اور ان کو دیکھ کر اسوۂ حسنہ کی تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالی اور نبی کریم ﷺکی روحانیت کے درمیان واسطہ ہیں۔ اور اپنی جگہ جسمانیت کے لیے بھی واسطہ ہیں۔ شیطان ان لوگوں کی مثالی صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالی کی راہ دکھانے والے ہوتے ہیں اور اپنے مریدوں کے لیے راہ حقیقت کا نشان منزل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اندھی تقلید کے قائل نہیں ہوتے۔ ان کی اور بھی بہت سی علامات ہیں جنہیں صرف چند لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ 

چوبیسویں فصل خاتمہ بالایمان  کا بیان

سالک کو فطانت(عقلمندی) اور بصیرت(وہ قوت جو اولیاء کے دل سے پھوٹتی ہے اور نور قدس سے منور ہوتی ہے۔ اس سے انسان اشیاء کی حقیقت اور ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ اسے قوت قدسیہ بھی کہتے ہیں) سے کام لینا چاہیئے۔

إِنَّ لِلَّهِ ‌عِبَادًا ‌فُطُنًا … طَلَّقُوا الدُّنْيَا وَخَافُوا الْفِتَنَا

جَعَلُوهَا لُجَّةً وَاتَّخَذُوا … صَالِحَ الْأَعْمَالِ فِيهَا سُفُنَا

 بے شک اللہ تعالی کے ایسے بھی عقیل و فہیم بندے ہیں جنہوں نے دنیا کو طلاق دے رکھی ہے اور دنیا کی مکاریوں سے خوفزدہ رہتے ہیں اور اس کے بھنور سے کنارے پر پہنچنے کے لئے انہوں نے نیک اعمال کی کشتی کووسیلہ بنا رکھا ہے ۔

سالک کیلئے ضروری ہے کہ وہ دیکھےاس کے اعمال کا انجام کیا ہو گا۔ اور اس کے بدلے اس کے ہا تھ کیا آئے گا۔ دنیا کی ظاہری کشش اور حسن و جمال سے دھوکہ نہ کھائے ۔ اہل تصوف کا اتفاق ہے کہ سالک احوال کی تدبیر سے غافل ہو تا ہے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ (الاعراف:99 ( پس نہیں بے خوف ہوتے اللہ کی خفیہ تدبیر سے۔ سوائے اس قوم کے جو نقصان اٹھانے والی ہوتی ہے۔ یعنی مخلص اللہ کی گرفت سے ڈرتے رہتے ہیں۔

 اسی طرح حدیث قدسی میں ارشاد خداوندی ہے۔

 یا محمد بشر المذنبين بأني غفور، وأنذر الصديقين بأني غيور اے محمد ! گناہ گاروں کو یہ مژدہ سنادو کہ میں بہت بخشنےنے والا ہو ںاورسچوں کو خبر دار کیجئے کہ میں بہت غیرتمند ہوں۔ 

اولیاء کی کرامات اور احوال مکر اور استدراج سے غیر محفوظ نہیں ہیں۔ ہال انبياء علیهم الصلوۃ والسلام کے معجزات میں یہ اندیشہ نہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے استدراج سے محفوظ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کہ ممکن ہے ولی یا اس کے معتقدین جسے کرامت تصور کرتے ہیں وہ استدراج ہو جس کے باعث اس کا خاتمہ بالخیر نہ ہو یہی وجہ ہے کہ سوء خاتمہ کا خوف سوء خاتمہ سے نجات کا سبب ہے۔

 حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اولیائے کرام خدا خوفی کے باعث اعلی علیین پر فائز ہو سکتے ہیں خوف کا امید پر غالب ہونا اچھا ہے ایسا نہ ہوکہ انسان بشری کمزوریوں کے باعث بھٹک جائے۔ بشریت انسان کا راستہ کاٹتی ہے اور انسان کو شعور تک بھی نہیں ہوتا۔ 

صوفیاء فرماتے ہیں کہ صحت میں خوف کی کیفیت غالب ہو اور مرض میں رجاء کی کیفیت رسول اللہ ﷺنے فرمایا :۔ 

لَوْ ‌وُزِنَ ‌رَجَاءُ الْمُؤْمِنِ وَخَوْفُهُ لَوُجِدَا سَوَاءً مؤمن کے خوف اور امید کا اگر موازنہ کیا جائے تو دونوں برابر ہوں گے“ 

”ہاں حالت نزع میں مومن کو چاہیئے کہ اللہ کے فضل و کرم پر زیادہ امید رکھے “ کیونکہ نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

لَا ‌يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ بِاللهِ الظَّنَّ ” تم میں سے جب کسی کو موت آئے تو ضروری ہے کہ اللہ کے متعلق حسن ظن رکھتا ہو۔ 

یعنی وہ سوچے کہ ‌وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ(الاعراف:156) اللہ تعالی کی رحمت اس کے غضب سے پہل کرنے والی ہے اور رَحْمَتِي ‌سَبَقَتْ ‌غَضَبِي، وَأَنَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ اس کی رحمت اور استعانت کی وسعت کی کوئی حد نہیں ہے۔ وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اس کے گھر سے اس کے لطف کی طرف بھاگے۔ اس سے اسی کی طرف دوڑے۔ عاجزی و انکساری کا اظہار کرے۔ گناہوں پر شرمندہ ہو سر اپا بندگی کا اظہار کر رہا ہو اس کے دروازے پر اپنے گناہوں کا اعتراف کرے ۔ اور یقین رکھے کہ اس کی الطاف بے پایاں اور رحمت تمام اس کے گناہوں کو ڈھانپ لے گی۔ وہ بہت کرم فرمانے والا رحم کرنے والا ہے۔ اس کے دروازے سے کوئی خالی ہاتھ واپس نہیں آتا۔ وہ داتا ہے۔ سب پر کرم کرنے والا ہے۔ 

اے اللہ۔ اے گم کردہ راہوں کاہادی۔ اے گناہ گاروں پر رحم فرمانے والا۔ تیرے علم کی کوئی انتہاء نہیں۔ زبان اسے بیان کرنے سے عاجز ہے۔ تیرا کرم سوال کا محتاج نہیں۔ اے میرے اللہ سید الرسل پر رحمتیں نازل فرما۔ ان کی آل پر اور ان کے تمام صحابہ کرام پر نظر کرم فرما۔ اے رب العالمین ! 

اصطلاحات کتاب هذا 

احدیت :اس سے مراد مخلوق کو چھوڑ کر اللہ تعالی کی ذات یکتا۔ 

اسماء توحيد :۔ اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط)

 انسیت :دل کے مشاہدہ سے روح کا لطف اندوز ہونا۔ 

اہل صفہ :حضور ﷺکے وہ غریب صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم جو سب کچھ چھوڑ 

کر دعوت و ارشاد کے ہو کر رہ گئے تھے 

بدایت :اسماء و صفات کا عالم ارواح میں تحقق۔ 

بصیرت :وہ قوت جو اولیاء کے دل سے پھوٹتی ہے اور نور قدس سے منور ہوتی ہے۔ اس سے انسان اشیاء کی حقیقت اور ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ اسے قوت قدسیہ بھی کہتے ہیں۔ 

تجرید:اس خیال سے کہ اللہ تعالی کا حق ادا کرنا واجب ہے انسان کا اپنے دل کو اغراض دین اور حال و مستقبل کی مصلحتوں سے پاک کر لینا تجرید ہے۔ 

تجلی:غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں۔ 

تجلی ذات :اس سے مراد مکاشفہ ہے۔ اس کا مبداء ذات خداوندی ہے اور یہ صرف 

اسماء و صفات کے واسطے سے ہی حاصل ہو تا ہے۔

تجلی صفات :۔ بندے کا صفات خداوندی سے متصف ہونے کو قبول کر لیا بجلی صفات ہے۔ 

تلبیس:کسی شخص کا یہ گمان کرتا کہ میں نے استقامت، توحید اور اخلاص کا لباس پہن رکھا ہے لہذا میں اللہ کا ولی ہوں لیکن حقیقت میں وہ لباس شیطانی دھوکہ ہو۔ اسےتلبیس کہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے مدعی ولایت کے ہاتھ پر خرق عادت کا ظہور ہو جاتا ہے وہ کرامت نہیں ہوتی بلکہ اسے مخادعہ (استدراج) کہتے ہیں۔ 

توحید :۔ : اللہ تعالی کی وحدانیت، یکتائی اور اس کے لاشریک ہونے کا حکم لگاناتوحید ہے۔ توحید کے کئی ارکان اور مراتب ہیں۔ 

جسم جسمانی : وہ جسم جو عالم ملک میں ہوتا ہے۔ 

جسم جلالی :اس سے مراد قبر، عظمت، کبریائی ، بزرگی ، بلندی اور اقدار کی صفت ہے۔ 

حجابات ظلمانی :طالب اور مطلوب کے در میان حائل پر دے۔ در اصل یہ شہوات و 

لذات جیسی جسم کی ظلمتوں کا دوسرا نام ہے۔

 حجابات نورانی :یہ بھی طالب و مطلوب کے در میان پردے ہیں یعنی ان کا تعلق 

محرکات باطنیہ سے ہے مثلا عقل، سِرّ روح خفی جیسے نور روح کے پردے۔

حجلہ انس :اس سے مراد عالم لاہوت ہے۔ 

حق الیقین:یقین کی دو انتہاء جو واصلین کی غایت ہے اس سے مراد صدق یقینی ہے اور اس کی شہادت وہ سالک دیتے ہیں جو مقامات علیا پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ فناء في اللہ کا مقام ہے۔

 حقیقت محمدیہ :اس سے مراد حیات روی اور حیات حیوی کا مصدر ہے۔ یہ اہل ایمان کے دلوں کی زندگی ہے۔ حقیقت محمد یہ خلق کی پیدائش کا سبب اور ماسوای اللہ کی 

اصل ہے۔ 

درجات :شریعت (علم ظاہری) پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انسان کو جو ثواب 

ملتا ہے اسے درجات کہا جاتا ہے۔

 دار فروانی :اس سے مراد وہ گھر ہے جو مقامات عالیہ پر فائز لوگوں کو ارزانی ہو تا ہے۔ اسی گھر میں اللہ تعالی عار فین کی حفاظت فرماتا ہے اور کائنات کی نگاہوں 

سے انہیں پوشیدہ رکھتا ہے۔ عارفین اسی گھر میں جلوہ فرما ہوں گے اور ان پر بلند و 

بالا گنبد ہوں گے کہ ان کے درجات کاصلہ ہو گا۔

 رؤی :وہ علمی راز جواللہ تعالی اپنے کسی مخلص بندے کے دل میں ودیعت فرماتا ہے۔ 

روح اعظم 😐 عقل اول، حقیقت محمدیہ، نفس واحده ، سب سے پہلے جسے اللہ تعالی 

نے پیدا فرمایا، خلیفہ اکبر ، جو ہر نورانی ہے جوہریت کے اعتبار سے نفس واحده نورانیت کے اعتبار سے عقل کہتے ہیں۔ اسی کے لیے عالم میں مظاہر کا وجود ہے۔ اسی سے عقل اول، قلم اعلی ، نور، نفس کلیہ اور لوح محفوظ جیسے اسماء کا وجود ہے۔ 

روح روانی :عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح سیر انی بھی کہتے ہیں۔ 

روح سلطانی :اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت 

کے در میان ارواح کو عطا فرمایا 

روح سیر انی :اس سے مراد روح روانی ہے جس کا تعارف پہلے گزر چکا ہے۔ 

روح قدسی :عالم لاہوت میں نور کا لباس . 

ریاضت :دل کو طبیعت کے تقاضوں اور اس کی خواہشات سے پاک کرنا۔ 

سواد الوجہ فی الدار ین :كلية اللہ تعالی میں فناء ہو جانا۔ اس طرح کہ انسان کا مطلقا اپنا وجود نہ رہے۔ نہ ظاہراًنہ باطناً۔ نہ دنیاوی اعتبار سے اور نہ اخروی اعتبار سے۔یہی فقر حقیقی اور رجوع الی العدم ہے۔ 

طريقت :سالکین کی راہ جو انہیں واصل بحق کرتی ہے۔ مثلا منازل سلوک کا طے کرنا اور مقامات میں ترقی کرنا۔

 طفل معانی :عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس صورت پر اللہ تعالی نے 

اسے پیدا کیا۔ اسے انسان حقیقی بھی کہتے ہیں۔

عالم اصلی :وہ عالم جس میں اللہ تعالی نے نور محمدی سے تمام ارواح کو پیدا فرمایا۔ 

ایسے عالم لاہوت بھی کہتے ہیں۔

 عالم جبروت :عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے در میان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں۔

 عالم حقیقت :یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کانام بھی دیا جاتا ہے۔

عالم قربت :اسے عالم حقیقت بھی کہتے ہیں۔ جس کی تشریح ابھی آپ پڑھ کر آئے ہیں۔ 

عالم لاہوت :روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناء ہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ 

نہیں پہنچ سکتے۔

عالم الملک :عالم شہادت یا عالم اجسام واعراض۔ اسی عالم میں روحیں جسموں میں 

داخل ہوتی ہیں۔ اس کا دوسرا نام عالم سفلی ہے۔

 عالم الباطن :دل میں ظاہر ہونے والا علم نہ کہ ظواہر میں صوفیاء کرام علیہم الرحمۃ کی جماعت نے اس کی کئی قسمیں بیان کی ہیں۔ مثلا علم ، حال، خواطر ، يقين ، اخلاص ، اخلاق اس کی معرفت ، اقسام دنیا کی معرفت، توبہ کی ضرورت، توبہ کے حقائق، توکل، زهد ، انابت ، فناء، علم لدنی۔ 

علم حقیقت:اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں۔

علم العرفان :یہ علم دل کا چراغ ہے۔ اس کی روشنی میں انسان خیر و شر کو دیکھ سکتا ہے۔ انسان جس قدر اللہ تعالی کی بادشاہی ، اس کی پیدا کردہ کائنات اور اس کی صفات میں غور و فکر کر تا ہے اسی قدر اس کا اشتیاق بڑھتا ہے اور وہ اللہ تعالی کے جمال کو منکشف دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ اسماء و صفات خداوندی میں اور زیادہ غور و تدبر کر تا ہے۔ اسے علم تفکر بھی کہتے ہیں۔

 علم يقين :یہ علم عطائی ہے اور صرف اولیاء کاملین و مقربین کو نصیب ہوتا ہے۔ اس کا طریق الہامات ، تجلیات فتوحات، مکشوفات اور مشاہدات ہیں۔ اسی کو علم لدنی کہتے ہیں۔ 

عین الروح:اسے بصیرت بھی کئے ہیں۔ بصیرت کی تعریف پہلے گزر چکی ہے۔ 

عین الیقین :یہ عطیہ ربانی ہے یہ علم الیقین کے ذر یعے حاصل ہو تا ہے۔ 

فانی:اس شخص کو کہتے ہیں جو حظوظ نفس کے شہود سے فناء ہو گیا۔ 

فقر: یہ تصوف میں بہت بلند مقام ہے۔ اس مقام پر فائز لوگ دنیاو مافیھاسے 

بے نیاز ہو جاتے ہیں اور انہیں بجز اللہ تعالی کے کسی کی ضرورت نہیں رہتی۔ 

فناء:بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا۔ 

قربت :اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے۔ . 

قدرت :وہ قوت جو ممکنات کو عدم سے وجود میں لاتی ہے۔ اسے صفت ربوبیت 

بھی کہتے ہیں۔

 الکسوۃالعنصر یہ :۔ لباس عنصری اس سے مراد نور کا لباس ہے جو روحوں کو عالم الملک 

 میں عطا ہوا ہے۔ 

کنز:ذات احدیت جو غیب کے پردوں میں بھی تھی۔ 

محویت :۔ بندے کا اللہ کی ذات کے علاوہ ہر وجود سے لا تعلق ہو جاتا۔ 

مشاهده:۔ دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنا۔ 

معرفت :یہ ولی اللہ کی صفت ہے جو حق سبحانہ تعالی کو اس کے اسماء صفات سے پہچانتا ہے۔ اور الله تعالی اس کے معاملات میں سچائی پیدا کر دیتا ہے۔ اور اس کو اخلاق رذیلہ اور اس کی آفات سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ اس تزکیہ کے بعد وہ اللہ تعالی کا ہو کر رہ جاتا ہے وہ سر میں اللہ تعالی کے ساتھ مناجات کر تا ہے اور یہاں اس کی حاضری دائمی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ ایسے میں وہ وقت کا ترجمان بن جاتا ہے۔ اس کے اسرار قدرت کو بیان کر تا ہے۔ اور تصرفات کے بارے گفتگو کرتا ہے۔ معرفت کے حامل شخص کو عارف کہتے ہیں۔ 

مقام:اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا۔

مکاشفہ :اتصال یا تعلق باللہ کا نام مکاشفہ ہے۔ مکاشفہ سے چھپے راز عیاں ہو جاتے ہیں اور انسان باطن کی آنکھ سے سب کچھ دیکھنے لگتا ہے۔ 

نفس امارہ : جو نفس بشری شہوانی طبیعت کے تقاضوں کا مطیع و فرمانبردار ہو نفس امارہ کہلاتا ہے۔ نفس امارہ اوامر و نواہی کی کچھ پرواہ نہیں کرتا اور لذات نفسانی میں منہمک رہتا ہے۔ 

نفس مطمئنہ :ایسانفس جسے حق سے سکون حاصل ہو اور وہ طمانیت کی کیفیت پا چکا ہو۔ 

نفس ملہمہ : ایسا نفس الہام خداوندی سے بھلائی کے کام کرتا ہے۔لیکن بتقاضا طبیعت اس سے برے کام بھی ہو جاتے ہیں۔

 نهایت :۔ روح کا اس صفاء کی طرف رجوع جواسے تعلق بالجسد سے پہلے حاصل تھی۔ 

نور قدسی :۔ وہ نور جس کا فیض عالم  ملکوت اور عالم جبروت کوپہنچتا ہے۔ 

وجد :حق کے راز کو پاکر روح کا خشوع اختیار کرنا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب انسان ذکر کی حلاوت محسوس کرتا ہے تو اس کے دل میں عشق کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا اور ضبط کے باوجود بھی کسی نہ کسی رنگ میں اظہار ہو جاتا ہے۔ اظہار کی کیفیت و جد ہے۔ 

وجود:سلطان حقیقت کے غلبے کے وقت بشریت کافناوجود ہے۔ 

وصال :اتصال بالحق کا دوسرا نام ہے وصال مخلوق سے انقطع کی قدر ہوتا ہے۔ ادنی وصال دل کی آنکھ سے مشاہدہ ہے۔ جب حجاب اٹھ جاتا ہے اورتجلی پڑتی ہے تو سالک کو اس وقت واصل کہاجاتا ہے 

يقين :۔ شک کا ازالہ ۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔ علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین۔ 


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں