شیاطین کے مکرو فریب(مکائد الشیطان)

شیاطین کے مکرو فریب(مکائد الشیطان)

شیطان کے مکرو فریب  محدث امام ابن ابی الدنیا کی کتاب مکائد الشیطان کا اردو ترجمہ جس میں جن،شیطان، بھوت،،پریت کی مکاریاں اور فریب کاریوں پر  احادیث نبویہ اورمعتبر روایات شامل ہیں

جنات کی قسمیں

حدیث نمبر (1)

حضرت ابو دردا نے کہا کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
اللہ تعالی نے تین قسم کے ” جن “ پیدا فرمائے ہیں۔
پہلی قسم : سانپ ، بچھو اور زمین کے کیڑے مکوڑے۔
دوسری قسم : وہ ہے جو فضا میں ہوا کے مانند ہے۔
تیسری قسم : ان کی ہے جن پر حساب و عقاب واقع ہوگا ۔ ( إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة)

حدیث نمبر (2)

جنات کی ہیئت اور شکل

حضرت یسیر بن عمر و رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا بیان ہے کہ ہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں بھوتوں کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا : کوئی بھی اس صورت کو بدل نہیں سکتا جس پر اللہ تعالی نے اسے پیدا کیا ہے۔ ہاں!
جنوں میں کچھ جادو گر ہوتے ہیں جیسا کہ انسانوں میں جادوگر ہوتے ہیں، تو جب تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو اذان کہو ( یعنی بھوتوں کے دیکھنے کے وقت اذان کہو ( إرشاد الساري الشرح صحيح البخاري ج: د. ص: ٢٠٣. باب ذكر الجن وثوابهم وعقابهم المطبعة الكبرى مصر)

حدیث نمبر (3)

حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ کہ نبی پاک ﷺسے غیلان ( جنات کی ایک نوع غیلا ن ہے، اہل عرب کا خیال تھا کہ وہ مختلف شکل اختیار کر کے لوگوں کو راستہ سے بھٹکا دیتے ہیں) کے بارے میں پوچھا گیا تو سرکار ﷺنے فرمایا: وہ جنوں کا جادوگر گروہ ہے۔ (العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني)

حدیث نمبر (4)

حضرت یزید بن جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ہر مسلمان کے گھر کی چھت پر کوئی نہ کوئی مسلم جن ضرور ہوتا ہے، جب گھر والے دو پہر کا کھانا کھاتے ہیں تو جنات بھی اتر کر ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ اور جب شام کا کھانا کھاتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ شام کا کھانا کھاتے ہیں ۔ اللہ تعالی ان کے ذریعہ ( جنوں کے ذریعہ ) ان لوگوں کی (اہلِ خانہ کی ) حفاظت فرماتا ہے ۔( العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني)

حدیث نمبر (5)

حضرت قیس بن ابوحازم رضی اللہ عنہ نے کہا:
جس گھر میں کوئی بچھونا بچھا ہو، اور اس پر کوئی سوتانہ ہوتو اس پر شیطان سوتا ہے۔ جنات آپس میں ایک دوسرے کو انسان کی عورتوں کے پیچھے لگنے سے منع کرتے ہیں۔

ابلیس کا بچھونا

حدیث نمبر (6)

حضرت حسن بن حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میں ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہاکے پاس ایک چیز کے متعلق استفسار کے لیے گیا تو انہوں نے کہا: میں اپنی مجلس میں بیٹھی تھی کہ اچانک میرے گھر کی چھت پھٹ گئی اور میرے قریب اس شگاف سے اونٹ یا گدھے کے برابر سیاہ فام چیز گری۔ میں نے اس سے پہلے اس طرح سیاہ فام اور بھاری بھر کم چیز نہ دیکھی تھی۔ وہ کہتی ہیں وہ چیز مجھ سے قریب ہوئی اور اس کے ساتھ ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا، میں نے اسے کھولا، اس میں لکھا ہوا تھا:
” من رب عكب إلى عكب “
یہ پیغام ابلیس کے رب کی جانب سے ابلیس کی طرف ہے ) نیک لوگوں کی نیک بیٹیوں پر تیرے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے پھر وہ چیز جہاں سے آئی تھی وہیں لوٹ گئی اور میں اسے دیکھ رہی تھی ۔
راوی کہتے ہیں: جو خط ان کے پاس تھا انہوں نے اسے مجھے دکھایا ۔ ( لقط المرجان في أحكام الجان، فصل تعرض الجن نساء الإنس، ص: ١٢٨، مكتبة القرآن، قاهره. )

حدیث نمبر (7)

حضرت یحی بن سعید سے رضی اللہ عنہ روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب حضرت عمر و بنت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کی جاں کنی کا وقت آیا تو ان کے پاس چند تا بعی تشریف لائے مثلاً حضرت عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد اور ابو سلمہ بن عبید الرحمن وغیرہ۔ ان حضرات کی موجودگی میں عمرو پر غشی طاری ہوگئی ، اچانک ان حضرات نے چھت کے ٹوٹنے کی آواز سنی اور ایک کالا سانپ چھت سے گر اجو ایک تنے کے مانند تھا ، وہ عمرو کی جانب بڑھنے لگا کہ اتنے میں سفید کاغذ کا ٹکڑاگرا جس میں لکھا ہوا تھا اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان اور رحم والا عکب کے رب کی جانب سےعکب کی طرف۔ تجھے نیک لوگوں کی بیٹیوں کی طرف کوئی راہ نہیں ہے۔ جب اس نے خط دیکھا تو جہاں سے آیا تھا وہیں سے چلا گیا۔ ( دلائل النبوة للبيهقى ج: ، ص : ١١٦، ١١٧، باب ماجاء في حرز الربيع بنت معوذ بن عقداء، دار الكتب العلمیہ)

حدیث نمبر (8)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا:
عوف بن عفراء کی بیٹی اپنے بستر پر لیٹی تھیں تو انھیں محسوس ہوا کہ ایک حبشی ان کے سینے پر سوار ہو گیا ہے اور اپنا ہاتھ ان کے حلق پر رکھ دیا ہے، اچانک ایک پیلے کا غذ کا ٹکڑا آسمان و زمین کے درمیان اڑتے ہوئے ان کے سینے پر آ کر گرا، حبشی نے اسے لے کر پڑھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا ( لکین کے رب کی جانب سے لکین کی طرف ) نیک بندے کی بیٹی سے پر ہیز کر، تجھے اس پر کوئی راہ نہیں ہے۔ تو وہ اٹھا اور اپنا ہاتھ میرے حلق کی جانب بڑھایا اور اپنے ہاتھ سے میرے گھٹنے پر مارا تو وہ سوج کر بکری کے سر کی طرح ہو گیا۔ وہ ( بنت عوف ) کہتی ہیں ، اس کے بعد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے پورا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا: اے میری بھتیجی ! جب تجھے خوف ہو تو تو اپنا کپڑا اپنے اوپر ڈال لے ان شاء اللہ تعالیٰ تجھے کوئی چیز ہرگز ضرر نہ پہنچائے گی ۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کو ان کے والد کے سبب بچا لیا، ان کے والد معرکہ بدر میں شہید ہوئے تھے(لقط المرجان في أحكام الجان ص: ۱۲۸ مكتبة القرآن، قاهره . دلائل النبوة للبيهقي ج- ص: ، باب ماجاء في حرز الربيع بنت معوذ بن عفراء، دار الكتب العلمية)

حدیث نمبر (9)

شیطان کے مکر وفریب سے بچنے والا

حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلم رضی اللہ عنہ نے کہا: دو شخص مقام اشجع سے اپنی دلہن کے پاس آ رہے تھے ایک مقام پر ایک عورت ان کے پاس آئی اور اس نے کہا: تم دونوں کا کیا ارادہ ہے؟ وہ لوگ کہنے لگے ہم اپنی عورت کے پاس جا رہے ہیں ۔ اس عورت نے کہا: مجھے سب معلوم ہے جب تم لوگ فرصت پاؤ تو میرے پاس آجانا۔ فراغت کے بعد وہ اس کے پاس پہنچے، وہ کہنے لگی میںتمہارےساتھ چلوں گی ۔ ان دونوں نے اسے اپنی ایک اونٹنی پر سوار کر لیا اور وہ ایک دوسرے کا پیچھا کرنے لگے، یہاں تک کہ جب وہ ایک ریت کے ٹیلے کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگی مجھے کچھ ضرورت ہے۔ ان لوگوں نے اونٹنی بٹھا دی ۔ ( اور وہ چلی گئی ۔ ) ان دونوں نے تھوڑی دیر اس کا انتظار کیا ، جب تاخیر ہوئی تو ان میں سے ایک اس کے پیچھے چلا اور وہ بھی واپس نہ آیا۔ دوسرا شخص کہتا ہے کہ : میں بھی اسے تلاش کرنے نکل پڑا تو میں نے دیکھا کہ وہ عورت اس شخص کے پیٹ پر بیٹھی اس کا جگر چبا رہی ہے، میں یہ منظر دیکھتے ہی لوٹ آیا اور اپنی سواری پر سوار ہوکر اپنا راستہ تیزی سے طے کرنے لگا۔ تو وہ عورت میرے سامنے آکر کہنے لگی کہ تجھے بہت جلدی ہے؟ تو میں نے کہا کہ تو نے تاخیر کر دی ( اسی وجہ سے میں چلا آیا ) اب سواری پر بیٹھو۔ اس نے دیکھا کہ مجھے اپنی سانس پر قابو نہیں ہے تو پوچھا تجھے کیا ہوا ہے؟ میں ہے یا ہوا نے کہا: بے شک ہمارے سامنے ایک ظالم و جابر بادشاہ ہے۔ تو اس نے کہا: کیا میں تجھے ایک ایسی دعا نہ بتاؤں کہ اگر تو اسے بادشاہ کی ہلاکت کے لیے پڑھ لے تو تو اسے ہلاک کر دے اور اس سے اپنا حق حاصل کر لے؟ میں نے کہا ( بتاؤ ) وہ کون سی دعا ہے، اس نے بتایا:
” اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ وَمَا أَظَلَّتْ، وَرَبَّ الأَرْضِينَ وَمَا أَقَلَّتْ، وَرَبَّ الرِّيَاحِ وَمَا أَذْرَتْ، وَرَبَّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَضَلَّتْ، أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ، تَأْخُذُ لِلْمَظْلُومِ مِنَ الظَّالِمِ حَقَّهُ، فَخُذْ لِي حَقِّي مِنْ فُلانٍ فَإِنَّهُ ظَلَمَنِي “
ترجمہ:اے زمین و آسمان کے رب اور اس کے جو اس میں ہے، ہواؤں کے رب اور اس کے جسے وہ اڑائے ، اور شیاطین کے رب اور اس کے جسے وہ گمراہ کرے، تو احسان فرمانے والا ، زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور عزت و بزرگی والا ہے، تو ظالم سے مظلوم کا حق دلاتا ہے، تو فلاں سے میرا حق دلا دے، کیوں کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے ۔ ( وہ کہتے ہیں ) کہ میں نے اس عورت سے دعا دہرانے کے بارے میں کہا تو وہ دہرانے لگی یہاں تک کہ میں نے اسے یاد کر لیا اور وہ دعا اس کے خلاف پڑھ دیا۔ ( وہ کہتے ہیں کہ ) میں نے کہا ” اللَّهُمَّ إِنَّهَا ظَلَمَتْنِي، وَأَكَلَتْ أَخِي“. اے اللہ! اس نے میرے اوپر ظلم کیا اور میرے بھائی کو کھا گئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی شرم گاہ پر آسمان سے ایک آگ اتری اور اسے دوٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ دونوں ٹکڑے ادھر اُدھر ہو گئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بھوتنی ہے جو لوگوں کو کھاتی ہے، اور رہا بھوت تو وہ جنوں سے ہے۔ لوگوں کے ساتھ لہو ولعب کرتا ہے، انھیں باطل چیزوں میں مبتلا کرتا ہے اور ریاح خارج کرتا ہے بس ۔ (العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني)

حدیث نمبر (10)

بھوت کو دیکھ کر کیا کرنا چاہیے؟

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: بھوت دیکھنے کے وقت ہمیں اذان پکارنے کا حکم دیا گیا ہے ۔( مصنف عبد الرزاق )

حدیث نمبر (11)

حضرت معاویہ بن نفیل عجلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
میں قاضی ” رے “ عنبسہ بن سعید کے پاس تھا اور ان کے پاس ثعلبہ بن سہیل آئے تو عنبسہ نے ان سے کہا: تم نے سب سے زیادہ تعجب خیز چیز کون سی دیکھی ہے ۔ انہوں نے کہا: میں صبح پینے کے لیے پانی رکھتا تھا اور صبح کو وہاں کچھ نہیں پاتا تھا، ایک دن میں نے دوبارہ پانی رکھا اور سورہ یسین شریف پڑھ دیا، جب صبح ہوئی تو میں نے پانی کو اسی حالت پر پایا اور اندھا شیطان گھر کے چاروں طرف گھوم رہا ہے۔
” آیت الکرسی“ شیطان سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے :

حدیث نمبر (12)

حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا :
یا رسول اللہ ﷺ غفلت کے عالم میں شیطان میرے پاس آجاتا ہے۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم اسے دیکھو تو ” أَجِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “ پکارو یا رسول للہ میری مد فرمائیں راوی کہتے ہیں کہ میں نے شیطان کو دیکھا اور اسے پکڑ لیا لیکن اس نے مجھے دھوکا دے دیا اور کہا: مجھے چھوڑ دو میں دوبارہ نہیں آؤں گا ۔
(میں نے چھوڑ دیا ) پھر میں سرکار ﷺ کی بارگاہ میں آیا تو آپ نے فرمایا: قیدی ۔ کہاں گیا ؟ میں نے عرض کیا: میں نے اسے چھوڑ دیا، کیونکہ اس نے دوبارہ نہ آنے کی قسم کھائی ہے۔ سرکار ﷺنے ارشاد فرمایا: وہ جھوٹا ہے اور وہ جھوٹ کے عادی ہوتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ پھر اسے پکڑا اس مرتبہ بھی اس نے نہ آنے کی قسم کھائی تو میں نے اسے چھوڑ دیا اورسر کا رﷺ کی بارگاہ میں آیا۔
سرکار ﷺنے فرمایا: قیدی کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا میں نے اسے پکڑا تو اس نے دوبارہ نہ آنے کی قسم کھائی اس لیے میں نے چھوڑ دیا۔ سرکار نے فرمایا: وہ جھوٹا ہے عنقریب دوبارہ آئے گا۔
راوی کہتے ہیں کہ : وہ دوبارہ پھر آیا اور میں نے اسے پکڑ لیا وہ کہنے لگا مجھے آزاد کر دو میںتمہیں ایک ایسی چیز بتاؤں گا کہ اگر تم اس پر عمل کرو گے تو شیطان کبھیتمہارےپاس نہیں آئے گا۔ تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اس نے کہا: ” آیت الکرسی “پڑھ لیا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ : میں سرکار ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: تیراقیدی کہاں ہے؟ میں نے پورا واقعہ سر کا ر ﷺ سے بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: وہ جھوٹے ہوتے ہیں لیکن یہ بات اس نے سچ کہی ہے۔ (الجامع الترمذى ، مصنف ابن أبي شيبه)

حدیث نمبر (13)

حضرت ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ اپنے باغ سے پھل توڑ کر اپنے کمرہ میں رکھ دیتے پھر ” جن“ کمرہ میں آکر اس کی چوری کر لیتے اور خراب کر دیتے ، تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے شکایت کی ، حضور ﷺ نے فرمایا : وہ ” جن “ہے۔ لہذا اس کی آہٹ سننا، جب ان کی دھمک سنو تو کہو بسم اللہ میں رسول خداﷺ کو بتاؤں گا تو ایسا ہی کیا۔ ” جن “ بولا: اےاسیدتم مجھے تکلیف دیتے ہو تم نبی ﷺ کی خدمت میں جاؤ اور میں تم سے پختہ عہد کرتا ہوں کہ اب نہ تمہارےگھر آؤں گا نہ پھل کی چوری کروں گا اورتمہیں ایک آیت بتاتا ہوں، گھر میں پڑھ دو گے تو ” جن “وہاں نہ آئیں گے اور برتن پر پڑھ دو گے تو اس کا ڈھکن نہ کھلے گا۔ کہا وہ ”آیت الکرسی“ہے پھر سرین ڈھیلی کر کے گوز چھوڑنے لگا، پھر اسید حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بتا یا اور کہا کہ جب بھا گا تو گوز چھوڑ رہا تھا حضور ﷺ نے فرمایا: تم سچ کہہ رہے ہو اور وہ جھوٹا ہے۔ (المعجم الكبير للطبراني )

حدیث نمبر (14)

حضرت ابوالاسود دؤلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا :
مجھے وہ واقعہ سنایئے جس میں آپ نے شیطان کو پکڑا تھا، تو انہوں نے کہا: مجھے نبی پاک ﷺ نے مسلمانوں کے صدقات کی حفاظت پر مامور کیا، میں نے تمام کھجور ایک کمرے میں رکھ دیا اور مجھے اس میں کچھ کمی نظر آئی میں نے اس کے بارے میں سرکار علیہ الصلاة السلام کو بتایا، تو آپ نے ارشاد فرمایا: شیطان چراتا ہے۔ (حضرت معاذ یہ کہتے ہیں ) میں کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا، اچانک ایک سخت تاریک سایہ آیا اور دروازہ کو ڈھانپ لیا، پھر لگاتار وہ صورت بدلتا رہا اور دروازہ کے شگاف سے گھر کے اندر آگیا، میں اسے پکڑنے کے لیے مکمل تیار تھا، جب وہ کھجور کھانے لگا تو میں نے اس پر چھلانگ لگائی اور اسے مضبوطی سے اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لے لیا۔ پھر میں نے کہا: اے دشمن خدا! تو شیطان نے کہا: مجھے چھوڑ دو کیوں کہ میں کثیر العیال اور فقیر ہوں، اور ” نصیرین“ کا ” جن “ ہوں ۔ حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے یہ گاؤں میرا مسکن تھا لیکن بعثت نبوی کے بعد ہمیں اس گاؤں سے نکال دیا گیا۔ مجھے چھوڑ دو میں ہر گز دوبارہ نہیں آؤں گا۔ حضرت معاذ کہتے ہیں :
میں نے اسے چھوڑ دیا۔ حضرت جبریل ، سرکار علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں ضر ہوئے اور پورے واقعہ سے آگاہ کر دیا۔ نبی پاک ﷺ نے فجر کی نماز ادا فرمائی پھر سرکار کے ایک منادی نے ندادی۔ معاذ بن جبل کہاں ہیں؟ میں حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: چور کہاں ہے؟ میں نے آپ کو پورا واقعہ بتا یا سر کا ﷺ نے فرمایا: جاؤ وہ عن قریب پھر آئے گا۔ سرکار کے فرمان کے مطابق وہ دوبارہ پھر آیا۔ حضرت معاذ کہتے ہیں : میں کمرے میں گیا اور دوازہ بند کر دیا وہ پھر دروازے کے شگاف سے اندر داخل ہوا اور کھجور کھانے لگا، میں نے اس کے ساتھ وہی برتاؤکیا جیسا کہ پہلی مرتبہ کیا تھا۔ اس نے کہا: میں ہر گز دو بارہ تمہارےپاس نہیں آؤں گا، میں نے کہا: اے دشمن خدا! تو نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں دوبارہ نہیں آؤں گا ؟ اس نے کہا یقیناً میں نہیں آؤں گا اور اس کی علامت یہ ہے کہ تم میں سے جب کوئی شخص سورہ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھ لیتا ہے تو اس رات کوئی جنات اس گھر میں داخل نہیں ہوتا ہے۔ (دلائل النبوة لأبي نعيم اصبہانی)

حدیث نمبر (15)

حضرت ابو اسحاق رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے باغ کی طرف تشریف لے گئے ۔ وہاں آپ نے ایک چیخ سنی ، آپ نے کہا: یہ کیا ہے؟ تو ایک ” جن “ نے کہا: ہم قحط سالی کے شکار ہو گئے ہیں اور آپ کے پھلوں کو کھانا چاہتے ہیں، کیا آپ کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں ! دوسری رات پھر تشریف لے گئے اور اس بار بھی شور و غو نا سنا اور کہا یہ کیا ہے؟ ایک ” جن “ نے عرض کیا : ہم قحط سالی کے شکار ہیں اور آپ کے پھلوں کو کھانا چاہتے ہیں کیا آپ اس کی اجازت دیتے ہیں؟ فرمایا: ہاں ! پھر ارشادفرمایا: کیا تم مجھے اس چیز کے بارے میں بتاؤ گے جس سے ہم تم سے محفوظ رہیں۔ اس نے کہا” آیت الکرسی“ ہے۔ ( یعنی آیت الکرسی شیطان سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ ) (العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني)
” آیت الکرسی“ مریضوں کے لیے دوا ہے :

حدیث نمبر (16)

حضرت ولید بن مسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کسی درخت یا کھجور کے درخت کے پاس آیا اور وہاں اس نے ایک آواز سنی تو بات کرنا چاہا لیکن کوئی جواب نہ ملا تو اس نے ” آیت الکرسی“ شریف پڑھا تو وہ اس کے پاس اتر آیا ( یعنی درخت پر موجود شخص نیچے آ گیا ) اس نے نیچے اترنے والے شخص سے کہا : ہمارا ایک آدمی بیمار ہے، ہم کس کے ذریعہ سے اس کی دوا کریں، اس نے کہا: جس کے ذریعہ تو نے مجھے نیچے اتارا۔ ( یعنی آیت الکرسی )

حدیث نمبر (17)

حضرت ابومنذرضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے حج کیا تو ایک بڑے پہاڑ کے نیچے اترے لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں ” جن “ رہتے ہیں۔ پانی کی طرف سے ایک بوڑھا آیا، میں نے کہا: اے ابو شمیر اس پہاڑ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ کیا یہاں کچھ دیکھا ہے؟ کہا : ہاں ! ایک دن میں نے تیر کمان لی اور ڈرتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں پانی کے چشمہ کے پاس ایک لکڑی کا گھر بنا کر اس میں ٹھہرا ، اچانک پہاڑی بکرے آئے ، میں انہیں ہٹاتا مگر وہ کچھ نہیں ڈرتے پھر اس چشمہ سے پانی پی کر اس کے پاس بیٹھ گئے ۔ میں نے ایک کو تیر ماری، اس کے جگر میں لگی تو ایک چیخ کسی نے ماری پھر پہاڑ سے سب بھاگ نکلے اور ابوشمیر پر ایک پنجڑا خوفناک انداز میں پیش ہوا تو انہوں نے سفید چکا چوند کرنے والی شمع کے مانند تیر چبھو دی ۔ کہا گیا ابن صبع ہے تو ایک بولا۔ کیوں قتل نہ کر دیا، کہا بس میں نہ تھا۔ پوچھا کیوں؟ کہا اس لیے کہ جب وہ پہاڑ پر آیا تو اس نے تعوذ پڑھ لیا تھا، جب سنا تو سکون ہو گیا۔

شیطان پر قرآن کا اثر

حدیث نمبر (18)

حضرت قیس بن حجاج رضی اللہ عنہ نے کہا:
میرے شیطان نے مجھ سے کہا کہ جب میں تیرے اندر داخل ہوا تھا، تو جڑ کی طرح تھا لیکن آج میری حالت گوریے کی مانند ہے، میں نے کہا: یہ کیسے؟ شیطان نے کہا: تو نے مجھے کتاب اللہ کے ذریعہ پگھلا دیا ہے۔

مومن کا شیطان لاغر اور کمزور ہوتا ہے

حدیث نمبر (19)

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
مومن کا شیطان لاغر و ناتواں ہوتا ہے۔ (إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة)

مؤمن اور شیطان کے درمیان جھگڑا

حدیث نمبر (20)

حضرت ابن لہیعہ رضی اللہ عنہ نے موسیٰ بن وردان سے روایت کرتے ہوئے حدیث بیان کی ، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سر کار ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بے شک مومن اپنے شیطان کو اسی طرح کمزور کر دیتا ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی سفر میں اپنے اونٹ کو کمزور کرتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل )

حدیث نمبر (21)

حضرت ابوخالد وابلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا:
میں ایک وفد کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اس وقت میری بیوی میرے ساتھ تھی ، ہم ایک جگہ اترے، میری بیوی میرے پیچھے تھی۔ میں نے کچھ بچوں کی چیخ و پکار سنی تو بلند آواز سے قرآن پڑھنا شروع کر دیا پھر میں نے کچھ چھوٹنے جیسی آواز سنی ( وہ لڑکے میرے پاس آئے ) میں نے ان سے ان کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے جواب دیا کہ: ہم کو شیاطین نے پکڑ لیا تھا اور وہ ہمارے ساتھ لہو ولعب کر رہے تھے، جب آپ نے بلند آواز سے قرآن پاک پڑھا تو وہ لوگ ہمیں چھوڑ کر بھاگ گئے ۔

شیطان اور انسان کا دل

حدیث نمبر (22)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ آقاے کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
یقینا شیطان اپنی ناک انسان کے دل پر رکھے ہوئے ہے، تو جب بندہ مومن اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان بھاگ جاتا ہے۔ اور جب انسان اللہ کے ذکر سے غافل ہو جاتا ہے، تو شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالنے لگتا ہے ۔ (إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة)

کلمه “لا الہ الا اللہ دل سے شیطان کو بھگا دیتا ہے

حدیث نمبر (23)

حضرت عمر و بن مالک نکری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ابوالجوزہ کو یہ کہتے سنا:
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، یقیناً شیطان دلوں سے چمٹا ہوا ہے ، شیطانی سوچ والا اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طاقت نہیں رکھتا، کیا تم بازاروں اور مجالس میں نہیں دیکھتے کہ شیطان تقریبا ہر دن ان میں سے کسی کے پاس آتا ہے پھر وہ ذکر الہی سے غافل ہو جاتا ہے، شیطان کو دل سے صرف ”لا اله إلا الله “ ہی دور کر سکتا ہے ۔ پھر اس آیت کریمہ کی تلاوت کی : وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا (بنی اسرائیل : 21)
اور جب تم قرآن میں اپنے اکیلے رب کی یاد کرتے ہو تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہیں نفرت کرتے ۔

انسان کے کس حصہ میں شیطان رہتا ہے؟

حدیث نمبر (24)

حضرت خالد بن معدان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا :
ہر انسان کی ریڑھ کی ہڈی سے شیطان چمٹار ہتا ہے، اپنی گردن اس کے کاندھے پر لٹکائے رہتا ہے اور اس کے دل پر اپنا منھ کھولے رکھتا ہے۔

حدیث نمبر (25)

حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ مطرف نے کہا :
میں نے غور کیا تو انسان کو اللہ عز وجل اور ابلیس کے درمیان پڑا ہوا پایا، تو اگر اللہ اس کو بچانا چاہے تو بچا لیتا ہے، ورنہ اسے ابلیس لے جاتا ہے۔

کیا زلزلے شیطان کی وجہ سے آتے ہیں؟

حدیث نمبر (26)

حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
بے شک ابلیس باندھا ہوا ہے، جب وہ حرکت کرتا ہے ( تو فساد برپا ہوتا ہے ) روئے زمین پر دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان جو بھی فساد ہوتا ہے یہ اس کی حرکت کے سبب ہوتا ہے۔

بڑے شیطان کا مکروفریب

حدیث نمبر (27)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام نےارشاد فرمایا:
شیطان تمہارےپاس آتا ہے اور کہتا ہے : تم کو کس نے پیدا کیا ؟ تو بندہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے، پھر شیطان کہتا ہے: اللہ کوکس نے پیدا کیا ؟ تو جب تم میں سے کوئی اسے پائے تو یہ کہے : ”آمنت باللهِ وَرَسُولِهِ “ ( میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا) کہ اس کے سبب وہ بھاگ جاتا ہے۔(کنز العمال)

ولہان وضو کا شیطان ہے

حدیث نمبر (28)

ابن ابی الدنیا نے اپنی اس سند سے روایت کیا جو حسن تک پہنچتی ہے ، انہوں نے کہا:
وضو کے شیطان کو ” ولہان“ کہا جاتا ہے۔ وہ لوگوں کو وضو میں ہنساتا ہے۔ حضرت طاوس فرماتے ہیں: وہ شیطانوں میں سب سے زیادہ سخت شیطان ہے۔

عالم شیطان پر عابد سے زیادہ بھاری ہے

حدیث نمبر (29)

حضرت علی بن عاصم رضی اللہ عنہ ایک بصری محدث سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
ایک عالم اور ایک عابد کے درمیان راہ سلوک میں اسلامی بھائی چارگی تھی ۔ شیاطین نے ابلیس سے کہا: ہم ان دونوں کے درمیان تفریق کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ تو ابلیس ملعون نے کہا: میں ان دونوں کے لیے کافی ہوں۔ تو وہ عابد کے راستے میں بیٹھ گیا، یہاں تک جب عابد آیا اور ابلیس کے قریب پہنچا تو ابلیس اس کے سامنے ایک ایسے بزرگ کی صورت میں ظاہر ہوا جس کی پیشانی پر سجدوں کا نشان تھا، اور عابد سے کہنے لگا کہ میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا ہے، میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ عابد نے اس سے کہا۔ پوچھو، اگر اس کے بارے میں مجھے معلوم ہوگا تو بتاؤں گا ۔ ابلیس نے اس سے کہا: کیا اللہ تعالی کی انڈے میں بغیر کسی کمی و بیشی کے زمین و آسمان، پہاڑ، درخت اور پانی جمع کر سکتا ہے ؟ تو عابد متعجب ہو کر کہنے لگا، بغیر کمی پیشی کے اور عابد نے توقف کیا۔ پھر ابلیس نے کہا جاؤ۔ اور پھر شیطان اپنے ساتھیوں کے پاس جا کر کہنے لگا کہ میں نے تو عابد کو ہلاک کر دیا۔ کیونکہ اسے اللہ کے معاملے میں شک کرنے والا بنا دیا۔
پھر ابلیس عالم کے راستے میں بیٹھا، تو جب عالم کو آتا ہوا د یکھا تو اس کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا: میرے دل میں ایک سوال آیا ہے، میں آپ سے اس کا جواب پوچھنا چاہتا ہوں۔ تو عالم نے کہا: پوچھو، اگر جواب معلوم ہو گا تو بتاؤں گا ۔ ابلیس نے کہا کیا اللہ تعالی کسی انڈے میں بغیر کسی کمی پیشی کے زمین و آسمان، پہاڑ، درخت اور پانی جمع کر سکتا ہے؟ عالم نے جواب دیا: ہاں ۔ پھر ابلیس نے ایک انکار کرنے والے شخص کی طرح اپنے سوال کو دہرایا کہ بغیر کمی و زیادتی کیئے ہوئے؟ عالم نے ڈانٹتے ہوئے کہا: ہاں، اور اس آیت کریمہ کی تلاوت کی : إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيًّا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونَ (قرآن مجید) اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کو چاہے تو اس سے فرمائے ہو جاوہ فوراً ہو جاتی ہے۔
پھر ابلیس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: عالم کے پاس سے تم بھی اسی طرح واپس آجاتے ۔
جب شیطان کسی بندۂ مومن کوفتنہ میں مبتلا نہیں کر پاتا ہے تو بہت روتا ہے:

حدیث نمبر (30)

حضرت صفوان رضی اللہ عنہ اپنے ایک شیخ سے روایت کرتے ہیں ، کہ انہوں نے فرمایا: جب کوئی مومن دنیا میں شیطان کے فتنہ میں مبتلا ہوئے بغیر مر جاتا ہے تو شیطان اس پر خوب روتا ہے۔

ابلیس ” جن “ کا باپ ہے

حدیث نمبر (31)

حضرت ابن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابلیس جنوں کا باپ ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام انسان ہیں اور تمام انسانوں کے باپ ہیں اسی طرح ابلیس ” جن “ ہے اور تمام جنوں کا کا باپ ہے(العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني)
ابلیس کے رونے کی آواز ( اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے۔ )

حدیث نمبر (32)

حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس پر لعنت فرمائی تو اس کی صورت ملائکہ کی صورت سے بدل گئی ، پھر وہ گریہ وزاری کرتے ہوئے خوب رویا ۔ ( بیان کیا جاتا ہے ) کہ قیامت تک ہر رونے کی آواز اسی سے ہے۔
حضرت سعید نے فرمایا: جب شیطان نے حضور ﷺ کو مکہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو دوبارہ آہ و فغاں کیا۔ حضرت سعید فرماتے ہیں: جب نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے مکہ کو فتح کیا، تو پھر سے ابلیس نے خوب جزع و فزع کیا۔ اس قت اس کی ذریت اس کے پاس جمع ہو گئی ، تو اس نے کہا : تم سب امت محمد ! سے شرک میں مبتلا ہونے کی امید نہ رکھو۔ ہاں تم ان کو دین کے معاملہ میں آزمائش میں ڈالو اور ان کے درمیان شعر گوئی اور نوحہ خوانی عام کرو۔ (العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني)

حدیث نمبر (33)

حضرت عمرو بن دینار رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اپنے شیخ سے سنا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس ملعون کو پیدا فر مایا، تو وہ خراٹے لینے لگا۔

ابلیس اور اس کا کنبہ

حدیث نمبر (34)

حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ابلیس کے پانچ بیٹے ہیں اور اس نے ان میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی کام پر لگا دیا ہے۔ راوی نے ان میں سے ہر ایک کا نام شمار کیا ۔ پہلا” ثَبْرَ “ ، دوسرا” الأَعْوَرَ “ ، تیسرا ” مِسْوَطَ “ ، چوتھا ” دَاسِمَ “ اور پانچواں” زَلَنْبُورَ “ ہے۔ پھر ان میں ہر ایک کا کام بیان کیا:
ثبر : وہ مصیبتوں والا ہے کہ یہ ہلاک ہونے، گریباں چاک کرنے ، رخساروں کو پیٹنے اور ڈینگ مارنے کا حکم دیتا ہے۔
اعور: تو وہ زنا والا ہے، کہ وہ خود زنا کرتا ہے اور زنا کو آراستہ پیراستہ کر کے دوسروں کو زنا پر آمادہ کرتا ہے۔
مسوط : تو وہ جھوٹا ہے، جھوٹی خبر سن کر دوسروں کو بتا تا ہے، تو وہ دوسرا شخص اپنی قوم سے جا کر کہتا ہے کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا، اس کا چہرہ میں پہچانتا ہوں لیکن اس کا نام نہیں جانتا، وہ مجھ سے ایسا ایسا بیان کر رہا تھا ( اس طرح جھوٹ عام ہو جاتا ہے )
داسم :تو اس کا کام یہ ہے کہ وہ آدمی کے ساتھ اس کے گھر جاتا ہے اور گھر والوں کے عیب بتا کر اس کو ان پر غضبناک کرتا ہے۔
زلنبور: تو وہ بازاری ہے اور اپنا جھنڈا بازار میں نصب کیے ہوئے ہے۔ ( جہاں پر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے )۔
کون سا فریب اور دھو کا ابلیس کو زیادہ محبوب ہے :

حدیث نمبر (35)

حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
صبح سویرے ابلیس اپنے لشکر کو زمین پر پھیلا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو گمراہ کیا میں اس کی تاج پوشی کروں گا۔ ان میں سے ایک کہتا ہے : میں فلاں کے پیچھے لگا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ تو ابلیس کہتا ہے، ہو سکتا ہے وہ دوبارہ شادی کرلے۔ پھر دوسرا کہتا ہے : میں فلاں کے پیچھے لگا رہا یہاں تک کہ وہ نافرمان ہو گیا۔ ابلیس نے کہا: ہوسکتا ہے کہ وہ نیکوکار ہو جائے ۔ تیسرے کہنے والے نے کہا: میں فلاں کے پیچھے لگا رہا یہاں تک کہ اس نے زنا کر لیا۔ اس بات پر شیطان نے اسے شاباشی دی اور کہا: تم نے کام کیا ہے۔ پھر ایک شیطان نے کہا کہ میں فلاں کے پیچھے لگا رہا یہاں تک کہ اس نے شراب پی۔ اس کو بھی شیطان نے سراہا اور کہا: یہ کام ہے۔ آخر میں ان میں سے ایک نے کہا: میں فلاں کے پیچھے لگا رہا یہاں تک کہ اس نے قتل کر دیا۔ تو ابلیس نے اسے خوب سراہا اور کہا: یہ کام بہت بڑا ہے ۔( تلبیس ابلیس لابن جوزی ، كنز العمال فى سنن الأقوال والأفعال )
عورت ابلیس کا ایسا تیر ہے جو کبھی خطا نہیں کرتا :

حدیث نمبر (36)

حضرت حسن بن صالح رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میں نے سنا ہے کہ ایک شیطان نے ایک عورت سے کہا کہ تو میرا آدھا لشکر ہے اور تو میرا ایسا تیر ہے جس سے میں وار کرتا ہوں تو کبھی خطا نہیں کرتا اور تو میری راز داں ہے اور میری ضرورت کے وقت تو میرا پیغام پہنچاتی ہے ۔ (تلبيس ابليس لإبن جوزى )
انتہائی غصہ شیطان کا پھندا ہے :

حدیث نمبر (37)

حضرت وہب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ایک راہب نے شیطان سے کہا کہ انسان کی کون سی عادت تجھے اس پر آسانی سے مسلط کر دیتی ہے؟ شیطان نے کہا : سخت غصہ۔ بے شک جب کوئی بندہ جلدی غصہ میں آجاتا ہے تو ہم اس کو ایسے الٹتے پلتے ہیں جیسے کوئی بچہ گیند الٹتا پلٹتا ہے۔ (تلبيس ابليس لإبن جوزی)

حدیث نمبر (38)

دنیا شیطان کا جال ہے

حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
جب نبی پاک ﷺ مبعوث ہوئے تو ابلیس ملعون نے اپنے شیاطین کو صحابہ کے پاس بھیجنا شروع کیا لیکن وہ ابلیس کے پاس سادہ کاغذ لے کر واپس آئے ، اس نے کہا: کیا بات ہے، تم ان سے کچھ فائدہ نہ حاصل کر سکے ۔ انہوں نے کہا: ان کے جیسے افراد کے ساتھ بات تو کبھی بھی ہمارا سامنانہ ہوا۔ ابلیس نے کہا: ان کے پاس ٹھہرے رہو، ہوسکتا ہے کہ دنیا ان پر ظاہر ہو جائے ، اسی وقت اپنی ضرورت پوری کر سکو گے ۔

شیطان انسان کی رگوں میں گردش کرتا ہے

حدیث نمبر (39)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
ہم شیطان سے کیسے بچ سکتے ہیں، حالانکہ وہ ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے ۔ (صحيح البخاري كتاب بدء الخلق باب صفة ابليس )

حدیث نمبر (40)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفو عار وایت ہے ، انہوں نے فرمایا:
بے شک انسان کا شیطان سے تعلق ہے اور فرشتوں سے بھی تعلق ہے، شیطان کی قربت انسان کو برائی کرنے اور حق کو جھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے، اور فرشتوں سے تعلق اچھائی کرنے اور حق کی تصدیق پر برانگیختہ کرتی ہے، تو جو شخص اس دوسری صفت کو پائے ، تو سمجھ لے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، تو اللہ کی حمد بجالائے ۔ اور جو شخص پہلی والی خصلت محسوس کرے تو وہ اللہ کی پناہ طلب کرے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی : ” الشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ “ شیطان تمہیں اندیشہ دلاتا ہے محتاجی کا حکم دیتا ہے بے حیائی کا ۔ ( جامع الترمذى كتاب تفسير القرآن . كنز العمال )

ابلیس کی سب سے بڑی چال بازی

حدیث نمبر (41)

حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ا
للہ تعالی نے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے ، ابلیس ان کو عورت کے ذریعہ ہلاک کرنے سے مایوس نہ ہوا۔
ابلیس کا اپنے رب سے گفتگو کرنا:

حدیث نمبر (42)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔
جب ابلیس زمین پر اتر اتو اس نے کہا: اے میرے رب ! تو نے مجھے زمین پر اتار دیا اور مجھے مردود بارگاہ کر دیا، تو میرے لیے کوئی گھر مقرر فرمادے، اللہ نے فرمایا: تیرا گھر غسل خانہ ہے۔ اس نے عرض کیا: میرے لیے بیٹھنے کی جگہ مقرر فرمادے، اللہ نے فرمایا: تیرے بیٹھنے کی جگہ بازار اور راستے کی بیٹھکیں ہیں ، پھر اس نے عرض کیا: میرے لیے کوئی غذا مقرر فرمادے، اللہ نے فرمایا: ہر وہ غذا جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، پھر اس نے عرض کیا : اے اللہ ! میرے لیے پینے کی کوئی چیز مقرر کر دے، فرمایا ہر نشہ آور چیز ، پھر عرض کیا: میرے لیے کوئی مؤذن مقرر کردے ( یعنی ایسی چیز جو میری طرف لوگوں کو دعوت دے ) فرمایا : بانسری، پھر اس نے عرض کیا: میرے لیے کتاب مقرر کر دے ، تو فرمایا: گودائی (یعنی گودائی کے ذریعہ جو لکھا جائے وہ تیرے لیے کتاب ہے ) پھر اس نے عرض کیا: میرے لیے کوئی بات مقرر کر دے تو فرمایا : جھوٹ ، پھر عرض کیا: میرے لیے رسول ( پیغام پہنچانے والا ) مقرر کر دے، فرمایا: کا ہن، پھر عرض کیا: میرے لیے کوئی جال پیدا کر دے، فرمایا: عورتیں ( یعنی شیطان عورتوں کے ذریعہ لوگوں کو آسانی سے گم راہ کر سکتا ہے۔ ) (معجم الکبیر الطبرانی)
حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ شیطان کا مکر و فریب:

حدیث نمبر (43)

حضرت سالم بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: جب حضرت نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے تو اس میں ایک بوڑھے کو دیکھا جسے پہچانتے نہ تھے ۔ فرمایا: تو کس لیے داخل ہو گیا ؟ بوڑھے نے کہا: میں بس آپ کے ساتھیوں کی دل جوئی کے لیے آگیا ہوں کیوں کہ ان کے جسم اگر چہ آپ کے ساتھ ہیں، لیکن ان کے دل میرے ساتھ ہیں ۔
حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا : اے دشمن خدا ! نکل جا ( حقیقت میں وہ اہلیس تھا ) اس نے کہا: پانچ چیزوں کی بنیاد پر میں لوگوں کو ہلاک کرتا ہوں ، تین چیزیں میں آپ سے بیان کیے دیتا ہوں ۔ دو چیزیں بیان نہیں کروں گا ، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی جانب وحی فرمائی کہ اے نوح تمہیں ان تین چیزوں کی حاجت نہیں ہے اس کو حکم دو کہ وہ ان دو چیزوں کے بارے میں بتائے ( جن کو وہ چھپا رہا ہے ) کیوں کہ لوگ انہیں دو چیزوں کی وجہ سے ہلاک ہوں گے۔ پھر ابلیس نے کہا: وہ دونوں یہ ہیں :
(1) – حسد : اس کی وجہ سے مجھ پر لعنت کی گئی اور میں مردود بارگاہ ہوا۔
(2) – حرص : حضرت آدم علیہ السلام کے لیے پوری جنت مباح تھی ، میں نے لالچ کے ذریعہ ان سے اپنی ضرورت پوری کی ( انہوں نے اس درخت سے کھایا جس سے ان کو روکا گیا تھا )۔
رادی کہتے ہیں: ابلیس نے موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی اور کہا: اے موسیٰ ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول منتخب فرمایا ، اور آپ سے ہم کلام ہوا۔ اور میں اللہ تعالیٰ کا گناہ گار بندہ ہوں، میں تو بہ کرنا چاہتا ہوں ، لہذا آپ اپنے رب کی بارگاہ میں میری سفارش فرمادیجیے تا کہ وہ میری تو بہ قبول کرلے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی ۔ ندا آئی اے موسیٰ! میں نے تیری دعا کو قبول کر لیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ابلیس سے فرمایا : تجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدم کی قبر کا سجدہ کرلے، تیری تو بہ قبول کر لی جائے گی۔ (یہ سن کر ) اس نے تکبر اختیار کیا اور غضبناک ہو کر کہنے لگا : جب وہ زندہ تھے تو میں نے ان کا سجدہ نہ کیا تو کیا مرنے کے بعد ان کا سجدہ کروں گا ؟
ابلیس نے کہا : اے موسیٰ ! آپ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میری سفارش کی ہے اس وجہ سے آپ کا مجھ پر کچھ حق ہے ، ( اس نے کہا ) تین مقام پر مجھے یاد کر لینا اور ہلاکت انہیں تینوں میں ہے۔
(1) – جب تو غصہ ہو تو مجھ کو یاد کر لینا، کیونکہ اس وقت میری بات تیرے دل میں ہوتی ہے میری نظر تیری آنکھ میں ہوتی ہے اور میں تیری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہوں(یعنی جب بھی غصہ آئے تو سمجھ لو کہ ابلیس ہی کی بنیاد پر ہے )
(2) ۔ جنگ کے دن مجھے یاد کرنا کیونکہ جب کوئی بندہ جہاد کے لیے جاتا ہے تو میں اسے گھر والوں کی یاد دلاتا ہوں ، یہاں تک کہ وہ لوٹ آتا ہے۔
(3) – غیر محرم عورت کے ساتھ بیٹھنے سے بچو کیونکہ میں اس کا پیغام تیرے پاس لاتا ہوں اور تیرا پیغام اس تک لے جاتا ہوں ۔ ( یہ تینوں ابلیس کے پھندے ہیں اس لیے ان حالات میں خود پر قابورکھنا ضروری ہے۔ (لقط المرجان فصل تعرض الشيطان )

حدیث نمبر (44)

حضرت ابو العالیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی لنگر انداز ہوئی تو آپ نے جہاز کے پچھلے حصہ پر اہلیس کو دیکھا ، حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا: تیرے لیے تباہی ہو ، تیری وجہ سے زمین والے غرق ہوئے اور تو نے انہیں ہلاک کر دیا، ابلیس نے کہا: اب میں کیا کروں؟ آپ نے کہا: تو بہ کر، اس نے کہا: اپنے رب سے پوچھئے کیا میری تو بہ قبول ہوگی ؟ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی ، وحی آئی اے نوح ! اس کی تو بہ یہ ہے کہ وہ قبر آدم کا سجدہ کرے۔ پھر آپ نے ابلیس سے کہا: تیرے لیے تو بہ کا طریقہ مقرر کیا گیا ہے ، اس نے کہا: دہ کیا ہے ؟ فرمایا: تو قبر آدم کا سجدہ کرلے ، اس نے کہا: جب آدم باحیات تھے میں نے ان کا سجدہ نہ کیا تو کیا مرنے کے بعد میں ان کو سجدہ کروں گا ۔ (تلبیس ابلیس)

حدیث نمبر (45)

حضرت لیث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا:
حضرت نوح علیہ السلام سے ابلیس نے ملاقات کی اور کہا: اے نوح ! حسد اور حرص سے بچو، کیونکہ میں نے حسد کیا تو جنت سے نکال دیا گیا، اور آدم علیہ السلام نے شجر ممنوعہ (جس درخت سے انہیں روکا گیا تھا ) پر لالچ کیا تو جنت سے نکال دئیے گئے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شیطان کا مکروفریب:

حدیث نمبر (46)

حضرت عبد الرحمن بن زیاد بن انعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اسی درمیان ابلیس آیا ، اس کی حالت یہ تھی کہ اس کے سر پر ایک رنگ برنگی لمبی ٹوپی تھی ، جب وہ حضرت موسیٰ کے قریب پہنچا تو ٹوپی اتار کر رکھ دی۔ پھر ان کے پاس آکر سلام کیا ” السلام عليك يا موسیٰ “ (اے موسیٰ علیہ السلام تم پر سلامتی ہو ) آپ نے کہا: تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا: ابلیس، آپ نے فرمایا : اللہ تجھے زندہ نہ رکھے، کس لیے آیا ہے؟ اس نے کہا: میں آپ کو سلام کرنے آیا ہوں، اس قد رو منزلت کی بنیاد پر جو اللہ کے نزدیک آپ کو حاصل ہے۔ آپ نے فرمایا: جو چیزتمہارےسر پر تھی وہ کیا ہے؟ کہنے لگا اس کے ذریعہ میں انسان کے دلوں کو لے بھاگتا ہوں ، آپ نے فرمایا: وہ کون سی چیز ہے کہ بندہ جب اسے کرلے تو تو اس پر غالب آجاتا ہے؟ ابلیس نے کہا: جب کوئی خود پسندی میں مبتلا ہو جائے ، اپنے عمل کو زیادہ سمجھنے لگے اور اپنے گناہوں کو بھول جائے ( تو میں اس پر غالب آجاتا ہوں ) مزید یہ بھی کہا : میں آپ کو تین چیزوں سے منع کرتا ہوں:
(1)ایسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ ہو جو آپ کے لیے حلال نہ ہو، کیوں کہ ایسی عورت – جب کوئی شخص کسی غیر محرم عورت کے ساتھ بیٹھتا ہے تو میں بذات خود اس کے ساتھ ہوتا ہوں حتی کہ میں اس کو عورت کے فتنہ میں مبتلا کر دیتا ہوں ۔
(2) جب بھی آپ اللہ تعالی سے کوئی عہد کریں تو اسے ضرور پورا کریں؛ کیونکہ جب کوئی بندہ اللہ سے عہد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ رہتا ہوں، یہاں تک کہ اس شخص کو عہد پورا نہیں کرنے دیتا۔
(3) – جب تم صدقہ نکالنا چاہو تو فوراً نکال دو، کیونکہ جب کوئی صدقہ نکالنا چاہتا ہے تو میں خود اس کے ساتھ رہتا ہوں یہاں تک کہ اسے ادا کرنے سے روکتا ہوں۔ پھر ابلیس یہ کہتا ہوا بھا گا ، ہاے افسوس ! موسیٰ ان تین چیزوں کے بارے میں جان گئے جن سے انسان کو بچنا چاہیے ۔ (تنبيه الغافلين بأحاديث سيد المرسلين )

حدیث نمبر (47)

ضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
ہم سے ہمارے بعض شیوخ نے حدیث بیان کی کہ: حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے مناجات کر رہے تھے ۔ اسی دوران ابلیس آگیا، اس وقت ایک فرشتہ آکر کہنے لگا : اے ابلیس ! اس حالت میں تو ان سے کیا چاہتا ہے، اس نے کہا: ان سے وہی چاہتا ہوں جو ان کے باپ آدم علیہ السلام سے چاہا تھا جب کہ وہ جنت میں تھے۔ (تنبيه الغافلين بأحاديث سيد المرسلين )
حضرت ایوب علیہ السلام کے ساتھ شیطان کا مکر وفریب:

حدیث نمبر (48)

حضرت طلحہ بن مصرف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
ابلیس نے کہا کہ میں نے کبھی ایوب علیہ السلام کی جانب سے کوئی ایسی چیز نہ پائی جس سے میں خوش ہو جاؤں ، مگر یہ کہ جب وہ (اپنی تکلیف کی وجہ سے ) کراہتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ان کو تکلیف پہنچادی ۔ (لقط المرجان فصل تعرض الشيطان)

حدیث نمبر (49)

حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ابلیس نے حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی سے کہا تم لوگوں کو کس سبب سے تکلیف پہنچی ہے ، انہوں نے کہا: ” اللہ کے مقدر کرنے سے ابلیس نے کہا: تم میرے ساتھ چلو وہ چل پڑیں ، ابلیس نے ایک وادی میں ان کی تمام زائل نعمتوں کو دکھایا اور کہا: اگر تم میرا سجدہ کرو گی تو یہ تمام چیزیں تم کو لوٹا دوں گا ، آپ نے کہا: میں اپنے شوہر سے اجازت لے لوں پھر آپ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو اس کی اطلاع دی ، آپ نے فرمایا : اب تو جان لے کہ وہ شیطان ہے، اگر تو نے اس کا مطالبہ پورا کیا تو ضرور میں تجھے سوکوڑے ماروں گا۔ (لقط المرجان فصل تعرض الشيطان )

حضرت ذوالکفل علیہ السلام کے ساتھ شیطان کا مکر وفریب

حدیث نمبر (50)

حضرت ذوالکفل علیہ السلام کے بارے میں عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
ایک نبی نے اپنی قوم سے فرمایا: تم میں کوئی ایسا ہے جواس بات کی ذمہ داری لے کہ وہ غضبناک نہ ہو اور میرے ساتھ میرے درجے میں ہو اور میرے بعد قوم میں میرا نائب ہو؟ ایک نوجوان نے کہا: میں ان چیزوں کی ضمانت لیتا ہوں ۔ اس نبی نے مذکورہ کلمات اس نوجوان کے سامنے دہرایا ، نو جوان نے کہا: میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں، جب وہ نبی وصال فرما گئے تو وہ نو جوان ان کا قائم مقام ہوا، ایک دن ابلیس ان کے پاس انہیں غضبناک کرنے آیا ، انہوں نے ایک شخص سے فرمایا: اس کے ساتھ جاؤ، وہ گیا اور واپس آ کر بتایا کہ اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ دوبارہ پھر ابلیس آیا تو انہوں نے اس کے ساتھ دوسرے کو بھیجا اس نے واپس آکر اطلاع دی کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا۔ جب تیسری مرتبہ اہلیس آیا تو انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا لیکن وہ نکل بھاگا ، ان کا نام ذوالکفل اس وجہ سے پڑا کہ انہوں نے یہ ذمہ داری قبول کی تھی کہ غصہ نہ کریں گے۔

حضرت یحیی بن زکریا علیہما السلام کے ساتھ شیطان کا مکر و فریب

حدیث نمبر (51)

حضرت وہیب بن ورد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
ہمیں خبر پہنچی ہے کہ خبیث ابلیس ، حضرت یحیی بن زکریا علیہما السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں آپ کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں ، آپ نے فرمایا: تو جھوٹا ہے، تو مجھے نصیحت نہ کر البتہ اولا د آدم کے متعلق بتا، اس نے کہا: میرے نزدیک وہ تین طرح کے ہوتے :
(1) ان کی پہلی قسم ہم پر بہت سخت ہے ہم اس قسم کے لوگوں کے پاس جاتے ہیں یہاں تک کہ انہیں فتنہ میں مبتلا کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن وہ تو بہ واستغفار کر کے ہمارا کیا دھرا کارت کر دیتے ہیں ہم دوبارہ ان کے پاس جاتے ہیں ہم ان سے نا امید نہیں ہوتے لیکن ہم اپنے مقصد میں کامیاب بھی نہیں ہوتے گویا ہم ان کی جانب سے سخت مشقت میں مبتلا رہتے ہیں۔
(2) دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو ہمارے قبضہ میں اسی طرح ہوتے ہیں جیسےتمہارےبچوں کے ہاتھ میں گیند ، ہم جہاں چاہتے ہیں ان کو پھیر دیتے ہیں۔
(3) اور آخری قسم تو وہ آپ ہی کی طرح معصوم ہیں ، ہم ان کی جانب سے کسی چیز پر قادر نہیں۔ حضرت یحییٰ نے فرمایا: کیا تو نے مجھ پر کبھی قابو پایا ہے، وہ کہنے لگا: نہیں، مگر ایک مرتبہ جب آپ کھانا کھانے جارہے تھے میں نے آپ کے لیے اس کھانے کی لذت کو بڑھا دیا حتی کہ آپ نے اپنی مقرر ہ مقدار سے زیادہ کھالیا۔ اور اس رات آپ سو گئے اور جس طرح نماز ادا کر تے تھے اس طرح نہ کر سکے، آپ نے فرمایا: یقینا میں بھی پیٹ بھر کھانا نہیں کھاؤں گا، الیاس نے کہا یقینا میں آپ کے بعد کسی نبی کو نصیحت نہ کروں گا ۔ (لقط المرجان فصل تعرض الشيطان)

حدیث نمبر (52)

حضرت عبد الله بن طریق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا:
حضرت یحی بن زکریا علیہ السلام نے ابلیس سے ملاقات کی اور فرمایا: اے ابلیس! مجھے بتا کہ تیرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون لوگ ہیں، اور سب سے زیادہ نا پسندیدہ کون ہیں، اس نے کہا: میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بخیل مسلمان ہیں، اور سب سے زیادہ نا پسندید و فاسق سخی ہیں، آپ نے فرمایا: وہ کیسے ؟ اس نے کہا: بخیل کابخل مجھے کافی ہے اور فاسق سخی پر مجھے اندیشہ ہے کہ اللہ تعالی اسے اس کی سخاوت کی بنیاد پر معاف کردے اور اس کی سخاوت کو قبول کرے۔
پھرابلیس یہ کہتا ہوا بھاگ گیا، کہ اگر آپ یحی نہ ہوتے تو میں آپ کو کچھ نہ بتاتا ۔ (القط المرجان)

حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام کے ساتھ شیطان کا مکر وفریب

حدیث نمبر (53)

حضرت سفیان بن عینیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
حضرت عیسی بن مریم سے ابلیس نے ملاقات کی اور کہا: ” آپ ربوبیت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے ، ماں کی گود میں آپ نے کلام کیا، حالانکہ آپ سے پہلے اس طرح کسی نے بھی کلام نہ کیا۔ کلام حضرت عیسی نے فرمایا: بلکہ ربوبیت اور عظمت اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے قوت گویائی عطا فرمائی ، پھر وہ مجھے موت دے گا اس کے بعد پھر زندہ فرمائے گا۔ ابلیس نے کہا: ” آپ ربوبیت کے عظیم درجے سے سرفراز ہوئے کیونکہ آپ مردوں کو زندہ کرتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا : ربوبیت تو اس اللہ کے لیے ہے جو مجھے اور اسے جس کو میں نے زندہ کیا موت دے گا ، پھر وہ مجھے زندہ کرے گا۔ ابلیس نے کہا : ” قسم خدا کی آپ زمین و آسمان کے معبود ہیں ، راوی کا بیان ہے : اس قول پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اپنے پروں کے ذریعہ اس کو ایک جھٹکا دیا جس کی وجہ سے وہ سورج کی پہلی کرن تک جا پہنچا، پھر دوسرا جھٹکا دیا تو وہ کیچڑ والے پانی میں جا پہنچا، پھر آخری جھٹکا دے کر اسے ساتویں سمندر میں داخل کر کے دھنسا دیا یہاں تک کہ اس نے کیچڑ کا مزا چکھ لیا، پھر وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکلا ، اے ابن مریم! جو تکلیف مجھے تم سے پہنچی ہے وہ کسی کو کسی سے نہ پہنچی ہو گی ۔ (لقط المرجان )

حدیث نمبر (54)

حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شیطان نے حضرت عیسی علیہ السلام سے ملاقات کی اور کہا: اے ابن مریم! اگر آپ سچے ہیں تو اس بلند چوٹی پر چڑھ کر خود کشی کر کے دکھائیے۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا: تیرے لیے تباہی ہو، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے:
اے ابن آدم اتو مجھے اپنی ہلاکت کے ذریعہ نہ آزما، میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں ۔ (لقط المرجان )

حدیث نمبر (55)

حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:
کہ حضرت عیسیٰ پہاڑ کی چوٹی پر نماز پڑھ رہے تھے اتنے میں ابلیس آیا اور اس نے کہا : آپ کا خیال ہے کہ ہر چیز قضا و قدر سے ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، ابلیس نے کہا: خود کو پہاڑ سے نیچے گرادیجیئے اور یہ کہیئے کہ تقدیر کی بنیاد پر ہوا ۔ آپ نے فرمایا:
اےلعین ! اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے، بندوں کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو آزمائیں(لقط المرجان)

حدیث نمبر (56)

حضرت سعید بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہما السلام نے ابلیس کی جانب دیکھا اور فرمایا : یہ دنیا کا سردار ہے، دنیا کی جانب نکلا اور دنیا ہی مانگا، دنیا کی کسی چیز میں میں اسے شریک نہیں کروں گا حتی کہ اس پتھر میں بھی جسے میں اپنے سر کے نیچے رکھتا ہوں، اور میں جب تک دنیا میں رہوں گا کبھی ہنسوں گا نہیں۔ (تلبيس ابليس )

حدیث نمبر (57)

حضرت ابن حلبس رضی اللہ عنہ نے کہا:
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک شیطان دنیا کے ساتھ ہے، مال کے ساتھ اس کا مکر ، خواہشات کے وقت اس کی تزئین اور شہوت کے وقت اس کی کامیابی ہے۔ محمد بن ادریس کی سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔ البتہ حدیث کا آخری جز خواہشات کے وقت اس کی کامیابی ہے“ اس روایت میں نہیں ہے ۔ (تلبيس ابليس )

قارون کے ساتھ شیطان کا مکر و فریب

حدیث نمبر (58)

حضرت احمد بن ابوالحواری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے ابوسلیمان اور ان کے سوا دوسروں سے سنا ، انہوں نے کہا:
قارون کے سامنے ابلیس ظاہر ہوا، راوی کہتے ہیں: قارون ایک پہاڑ پر چالیس سال تک عبادت میں مشغول رہا یہاں تک کہ عبادت کے معاملے میں وہ بنو اسرائیل میں ممتاز ہو گیا۔ راوی کہتے ہیں: ابلیس نے قارون کے پاس اپنے چند شیاطین کو بھیجا لیکن وہ اس پر قدرت نہ پاسکے، تو وہ بذات خود قارون کے پاس آیا اور اس کے ساتھ عبادت کرنے لگا، قارون کبھی کبھی کھا تا پیتا لیکن یہ کچھ نہ کھا تا پیتا ، اور وہ قارون کی قوت سے زیادہ عبادت وریاضت کرتا ، راوی کہتے ہیں: کہ قارون ابلیس کے سامنے جھک گیا، تو ابلیس نے اس سے کہا: اے قارون میں اس سے راضی ہوا، تو بنواسرائیل کے جنازے اور جماعت میں حاضر نہ ہو، راوی نے کہا: پھر ابلیس نے قارون کو پہاڑ پر شب بیداری سے روکا ، یہاں تک کہ اس کو گرجا گھر میں داخل کر دیا، راوی کہتے ہیں: بنو اسرائیل کے لوگ ان کے پاس کھانے پینے کی چیزیں لے جاتے ایک مرتبہ ابلیس نے قارون سے کہا: اے قارون ! اگر ہم اس سے راضی ہیں تو ہم بنو اسرائیل پر بوجھ بن گئے ہیں، قارون نے کہا : تو پھر بہتر کیا ہوگا ؟ اس نے کہا : ہم ایک دن کمائیں اور جمعہ تک عبادت کریں ، قاروں نے کہا: ٹھیک ہے۔ پھر ابلیس نے اس سے کہا: ہم اس سے راضی ہو گئے کہ نہ ہم صدقہ کریں گے اور نہ ہی کوئی کام کریں گے، تو قارون نے کہا: تو بہتر کیا ہو گا ؟ ابلیس کہنے لگا ہم ایک دن عبادت کریں اور ایک دن کمائیں قارون نے اس طرح کرنا شروع کیا اور ابلیس اسے چھوڑ کر بھاگ گیا، اور قارون پر دنیا غالب آگئی ۔ (نعوذ باللہ من الشیطن وشره ہم شیطان اور اس کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں ۔
بندوں کے ساتھ شیطان کا مکر و فریب :

حدیث نمبر (59)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا :
لوگ اللہ تعالی کو چھوڑ کر ایک درخت کی عبادت کرتے تھے۔ ایک شخص اس کے پاس آکر کہنے لگا : ضرور میں اسے کاٹ دوں گا یہاں تک کہ ایک مرتبہ رضاے الہی کی خاطر اس درخت کو کاٹنے آیا ، راستے میں شیطان اس سے انسانی صورت میں ملا اور کہنے لگا، کیا ارادہ ہے؟ اس نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر لوگ جس درخت کی عبادت کرتے ہیں میں اسےکاٹنا چاہتا ہوں، شیطان نے کہا: جب تو اس درخت کی عبادت نہیں کرتا تو اس کی عبادت سے تجھے کیا نقصان ہے، اس نے کہا: میں اسے ضرور کاٹوں گا ، شیطان نے کہا: کیا تیرے لیے یہ بہتر نہ ہوگا کہ تو اس کو نہ کاٹے اور اس کے عوض ہر صبح تیرے تکیے کے پاس تجھے دو دینار ملیں ۔ وہ کہنے لگا ، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ شیطان نے کہا: میں ذمہ دار ہوں، وہ شخص واپس ہو گیا، اور جب صبح ہوئی تو اپنے تکیے کے نیچے دودینار پایا لیکن جب دوسری صبح ہوئی تو کچھ بھی نہ پا کر غضب ناک ہوا اور پھر درخت کاٹنے کے ارادہ سے نکل پڑا ، اس مرتبہ شیطان اس کے سامنے اپنی اصل صورت میں ظاہر ہوا اور کہنے لگا: کہاں جا رہے ہو؟ اس نے جواب دیا، اللہ تعالی کے سوا جس درخت کی عبادت کی جاتی ہے اسے کاٹنے جا رہا ہوں، شیطان نے کہا : تو جھوٹا ہے ، تو اس کو نہیں کاٹ سکتا۔ اس کے باوجود وہ اس کو کاٹنے کے لیے آگے بڑھا، اسی وقت زمیں اس کو لے کر دھنس گئی قریب تھا کہ وہ مر جائے ، شیطان نے اس سے کہا: تو جانتا ہے میں کون ہوں؟ میں شیطان ہوں، پہلی مرتبہ تو رضاے الہی کی خاطر اس درخت کو کاٹنے چلا تو میں نے دودینار کے ذریعہ تجھے دھوکا دیا اور تو کاٹنے سے رک گیا۔ لیکن دوسری مرتبہ تو دینار کے لیے آیا ہے اس وجہ سے میں تجھ پر قابو پا گیا۔
ایک راہب کے ساتھ شیطان کا مکر و فریب :

حدیث نمبر (60)

حضرت عبید بن رفاعہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
بنو اسرائیل میں ایک راہب تھا شیطان نے ایک مرتبہ ایک لڑکی کو پکڑ کر اس کا گلا گھونٹ دیا اور اس کے گھر والوں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس کی دوافلاں راہب کے پاس ہے۔ گھر والے اس راہب کے پاس اپنی لڑکی لے کر گئے لیکن راہب نے اولاً قبول کرنے سے انکار کر دیا، پھر وہ لوگ اصرار کرنے لگے حتی کہ راہب لڑکی کو اپنے پاس رکھنے پر راضی ہو گیا، لڑکی راہب کے پاس رہنے لگی پھر شیطان راہب کے پاس آیا اور راہب کو زنا پر اکسایا یہاں تک کہ راہب نے اس کو حاملہ کر دیا ، پھر شیطان اس کے پاس آیا اور کہنے لگا ، اب تو آپ رسوا ہو جائیں گے۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ تو اسے قتل کر دے اور جب اس کے گھر والے آئیں تو کہہ دینا کہ وہ اپنی فطری موت مرگئی ہے، راہب نے اس لڑکی کو قتل کر کے دفن کر دیا ، اب شیطان اس لڑکی کے گھر والوں کے پاس آیا اور ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ راہب نے تمہاری لڑکی کے ساتھ زنا کیا اور اسے قتل کر کے دفن کر دیا ، شیطان کی بات پر لڑکی کے گھر والے راہب کے پاس اپنی لڑکی کی خبر لینے آئے ، راہب نے جواب دیا، وہ تو مر گئی ، انہوں نے راہب کو گرفتار کر لیا۔ پھر شیطان راہب کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں نے ہی اس لڑکی کا گلا گھونٹا، میں نے ہی اس کے گھر والوں کو اسے تیرے پاس لانے کا مشورہ دیا، اور میں نے ہی تجھ کو اس معاملے میں پھنسایا ہے۔ لہذا اگر تو میری اطاعت کرے تو نجات پا جائے گا پھر اس نے کہا: میرا سجدہ کرو،راہب نے دو سجدے کیے، اس کے متعلق اللہ فرماتا ہے : كَمَثَلِ الشَّيْطَنِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِئَ مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبِّ الْعَلَمِينَ (قرآن مجید)
شیطان کی کہاوت جب اس نے آدمی سے کہا کفر کر پھر جب اس نے کفر کر لیا، بولا : میں تجھ سے الگ ہوں ۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہان کا رب ہے۔ ( تنبيه الغافلين )
حضور ﷺ کے ساتھ شیطان کا مکر و فریب :

حدیث نمبر (61)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی پاک ﷺ مکہ شریف میں سجدہ ریز تھے کہ اسی درمیان ابلیس آیا اور آپ کی گردن کو روند نا چاہا ، تو حضرت جبریل علیہ السلام نے اپنے پر کے ذریعہ اس کو زور کا جھٹکادیا یہاں تک کہ وہ اردن میں جاکے گرا۔ (دلائل النبوة لأبي نعيم)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ شیطان کا مکر و فریب :

حدیث نمبر (62)

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺایک صحابی کہیں تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں ان سے شیطان ملا اور جھگڑنے لگا۔ یہاں تک کہ ان دونوں نے آپس میں کشتی شروع کر دی۔ بالآخر صحابی رسول ﷺ نے شیطان کو چت کر دیا۔ تو شیطان نے کہا: مجھے چھوڑ دو، میں تم کو ایک عجیب و غریب بات بتاؤں گا ، صحابی رسول ﷺ نے اس کو چھوڑ دیا اور کہا: بتاؤ شیطان نے کہا : نہیں بتاؤں گا۔
راوی کہتے ہیں : دونوں پھر لڑنے لگے یہاں تک کہ صحابی نے دوبارہ اس کو چت کر دیا ، وہ کہنے لگا: مجھے چھوڑ دو، میں آپ کو ایک عجیب و غریب بات بتاؤں گا ، انہوں نے چھوڑ دیا اور کہا : بتاؤ ۔ اس نے کہا: نہیں بتاؤں گا۔
راوی کہتے ہیں : تیسری مرتبہ بھی وہ دونوں لڑ پڑے یہاں تک کہ صحابی رسول ﷺ اس کے سینہ پر سوار ہو گئے اور اس کا انگوٹھا چبانے لگے۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو، انہوں نے کہا: جب تک تو وہ عجیب و غریب چیز نہیں بتائے گا، میں تجھے نہیں چھوڑوں گا ۔ اس نے کہا: وہ سورۂ بقرہ ہے، اس کی کسی بھی آیت کو شیطانوں کے بیچ پڑھ دیا جائے تو وہ بھاگ جائیں گے اور جس گھر میں اس کی تلاوت کی جائے اس میں بھی شیطان داخل نہیں ہوں گے ۔ لوگوں نے پوچھا ، اے ابو عبد الرحمن ! وہ کون سے صحابی تھے۔ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سوا کون ہوں گے۔

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ساتھ شیطان کا مکر و فریب :

حدیث نمبر (63)

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
میں نے حضور اکرم ﷺ کے ساتھ جنات اور انسان سے جنگ کیا ہے، ان سے پوچھا گیا: آپ نے جنات اور انسان کے ساتھ کس طرح جنگ کیا ، انہوں نے فرمایا: ایک سفر میں ہم حضور ﷺ کے ساتھ تھے ایک جگہ ہم نے قیام کیا ، پھر میں نے اپنا مشکیزہ اور ڈول پانی لانے کے لیے لیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو! پانی کے پاس ایک شخص آئے گا اورتمہیں پانی لینے سے منع کرے گا ۔ (حضرت عمار فرماتے ہیں۔ ) جب میں کنویں کے منڈیر کے پاس پہنچا تو وہاں ایک سیاہ فام جنگجو شخص آیا اور کہنے لگا: ” قسم خدا کی آج تم پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں لے سکتے” ، اس کے بعد ہم دونوں میں کشتی ہونے لگی یہاں تک کہ میں نے اس کو چت کردیا اور ایک پتھر کے ذریعہ اس کا منہ اور ناک توڑ دی پھر اپنا مشکیزہ بھر کر حضور ﷺ کی بارگاہ میں آیا۔ آپ نے فرمایا: کیا پانی کے پاس کوئی آیا تھا ، میں نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا: کیاتمہیں معلوم ہے کہ وہ کون تھا ؟ میں نے کہا: نہیں ! آپ نے فرمایا : وہ شیطان تھا۔ (العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني)

عبد اللہ بن حنظلہ ﷺ اور شیطان

حدیث نمبر (64)

حضرت محمد بن حوط رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ( جو اشراف مدینہ میں سے ہیں ) انہوں نے صفوان بن سلیم سے روایت کی ، انہوں نے کہا : اہل مدینہ عبداللہ بن حنظلہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ جس وقت وہ مسجد سے نکل رہے تھے شیطان ان سے ملا اور کہا :
اے ابن حنظلہ! کیا تم مجھے پہچانتے ہو ، آپ نے فرمایا: ہاں! وہ کہنے لگا: میں کون ہوں؟ انہوں نے کہا: تو شیطان ہے۔ اس نے کہا: کیسے پہچانا؟ انہوں نے کہا: میں اللہ کا ذکر کرتے ہوئے نکلا لیکن تجھے دیکھتے ہی میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو گیا تو میں سمجھ گیا کہ تو شیطان ہے ، اس نے کہا :
اے ابن حنظلہ اتم نے صحیح پہچانا، میں تمہیں کچھ باتیں بتاتا ہوں اسے یادرکھنا، انہوں نے کہا: مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ وہ کہنے لگا : سن لو ، اگر اچھی بات ہو گی قبول کر لینا اور اگر بری بات ہوگی تو رد کر دیتا۔ اس نے کہا: اے ابن حنظلہ! اللہ کے سوا ہرگز کسی سے کچھ نہ مانگتا اورغصے کے وقت خود پر قابو رکھنا۔

(ابلیس اور مرنے والا ) جانکنی کے وقت شیطان کی چال بازیاں

حدیث نمبر (65)

حضرت عطا بن یسار رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ایک شخص کی جانکنی کے وقت اس کے پاس ابلیس آیا اور کہا اب تو مجھ سے نہیں بچے گا۔

نبی کریم ﷺ کے ساتھ شیطان کا مکروفریب

حدیث نمبر (66)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا: بے شک ایک ” جن “ آپ کے لیے مکر و فریب اختیار کرتا ہے تو جب آپ اپنے بستر پر تشریف لے جائیں تو ” آیت الکرسی“ پڑھ لیا کریں۔( العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني)
حضرت شعبی سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میرے پاس ایک مرتبہ شیطان آیا اور جھگڑنے لگا دوبارہ پھر آیا اور جھگڑنے لگا تومیں نے اس کے حلق کو پکڑ لیا، تو قسم ہے اس رب کی جس نے حق کے ساتھ مجھے مبعوث فرمایا، میں نے اس کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک اس کی زبان کی ٹھنڈک میرے ہاتھ میں نہ محسوس ہونے لگی، اگر سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو یقینا وہ مسجد میں پڑا ہوتا ۔ (كنز العمال)

شیطان کا حضور ﷺ کو جلا نے ارادہ

حدیث نمبر (67)

حضرت عبد الرحمن بن ابولیلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:
ایک شیطان ہاتھ میں آگ کا شعلہ لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اس وقت آپ نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے قیام فرمایا اور أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيمِ پڑھا، اس کے باوجود وہ نہیں بھاگا ، اتنے میں جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا یہ پڑھو:
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ الَّتِي لَا يُجَاوِزُهُنَّ بِرْوَلَا فَاجِرَ مِنْ شَرِّ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزُلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَمِنْ فِتَنِ اللَّيلِ وَالنَّهَارِ میں زمین میں داخل ہونے والے، اس سے نکلنے والے، آسمان سے اترنے والے اس کی جانب چڑھنے والے اور شب و روز کے شر سے اللہ کے ان تمام کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں جن سے کوئی نیک و فاجر تجاوز نہیں کر سکتا ۔ تو سر کار نے اس دعا کو پڑھا، شعلہ بجھ گیا اور وہ منہ کے بل گر پڑا ۔ (سلاح اليقظان لطرد الشيطان)

حدیث نمبر (68)

حضرت یحیی بن ابو کثیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا:
انسان کے سینہ میں وسوسوں کا ایک دروازہ ہے، جس کے ذریعہ وسوسہ پیدا ہوتا ہے۔( الدر المنثور)

ملعون ہونے سے پہلے ابلیس کا نام

حدیث نمبر (69)

حضرت ابومثنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: پہلے ابلیس کا نام نائل تھا ، جب اس پر اللہ کی پھٹکار پڑی ، اس کا نام شیطان رکھ دیا گیا۔

کیا ابلیس اشراف ملائکہ سے تھا ؟

حدیث نمبر (70)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے ، انہوں نے کہا:
پہلے ابلیس کا نام عزازیل تھا اور وہ چار پر والے افضل ملائکہ سے تھا، اس کے بعد راندہ درگاہ ہو گیا ۔ (لقط المرجان)

حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس لعین کے درمیان مکالمہ

حدیث نمبر (71)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
جب حضرت آدم علیہ السلام ہندوستان کی سرز میں پراتا رے گئے، اس وقت ان کا سر آسمان کو چھورہا تھا ، زمین نے اپنے رب سے آدم علیہ السلام کے ثقل کی شکایت کی تو اللہ تعالی نے اپنا دست قدرت ان کے سر پر رکھا تو وہ سترگز کم ہو گئے اور حضرت آدم علیہ السلام اپنے ساتھ کھجور، کیلا اور لیموں لے کر آئے ۔ تو جب وہ زمین پر تشریف لے آئے (شیطان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) اپنے رب سے عرض کیا : اے میرے رب تو نے اس کے اور میرے درمیان عداوت پیدا کر دی ہے تو اگر تو اس کے خلاف میری مدد نہیں کرے گا تو میں اس پر قادر نہ ہو سکوں تو اللہ نے فرمایا :
میں تم سے پیدا ہونے والے ہر بچے کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر کر دوں گا ، انہوں نے عرض کیا : اے رب کچھ اضافہ فرمادے۔ اللہ نے فرمایا : جب تک جسم میں روح رہے گی اس وقت تک اس کے لیے تو بہ کا دروازہ کھلا رہے گا۔ پھر عرض کیا: الہی اس پر کچھ اضافہ فرما دے۔ تو اللہ نے فرمایا: میں ایک گناہ پر ایک گناہ اور ایک نیکی پر اس کا دس گنا اجر یا جتنا میں چاہوں لکھوں گا۔ اس کے بعد ابلیس نے بارگاہ الہی میں عرض کیا: اے رب یہ تیرا مکرم بندہ ہے، اگر تو اس کے خلاف میری مدد نہیں فرمائے گا تو میں اس پر قابو نہیں پاسکوں گا۔ تو اللہ نے فرمایا: آدم کے لڑکوں کے برابر تیرے بھی لڑکے ہوں گے ۔ اس نے عرض کیا : اے رب اس پر کچھ اضافہ فرمادے ۔ اللہ نے فرمایا: تو ان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑے گا اور ان کے سینوں میں اپنا گھر بنا لے گا ۔ اس نے کہا : اے رب اس پر کچھ اضافہ فرما۔ تو اللہ نے فرمایا: أَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَ شَارِكُهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ) اور ان پر لام (لشکر ) باندھ لا اپنے سواروں اور اپنے پیادوں کا اور ان کا ساتھی شریک ) ہو مالوں اور بچوں میں ۔( سورة بنی اسرائیل آیت : ۱۳)

حدیث نمبر (72)

حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بے شک شیطان انسان کے رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ (الصحيح المسلم كتاب السلام )

جنات سے اللہ تعالیٰ کے فرشتے مومنوں کی حفاظت کرتے ہیں

حدیث نمبر (73)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی پاکﷺنے ارشاد دفرمایا
ہر مؤمن بندہ کے ساتھ تین سو ساٹھ فرشتے مقرر ہیں جو اس کی ان تمام چیزوں سے حفاظت کرتے رہتے ہیں جن پر وہ قدرت نہیں پاتا۔ سات فرشتے انسان کی اسی طرح حفاظت کرتے ہیں جیسے موسم سرما میں شہد کے پیالے کو مکھیوں سے بچایا جاتا ہے۔ اگر وہ فرشتے ظاہر ہو جا ئیں تو تم انہیں ہر نرم اور سخت زمین پر ہاتھ کو پھیلائے ہوئے اور منہ کو کھولے ہوئے دیکھو گے۔ اگر بندہ ایک لمحہ کے لیے اپنی حفاظت کرنے پر مقرر کر دیا جائے تو شیاطین اسے اچک لیں گے ۔ (إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة)

حدیث نمبر (74)

حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
ہر بندہ کے لیے حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں ہر گرنے والی دیوار، کنویں میں گرنے اور ہر قسم کی مصیبت سے اس کی حفاظت کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب تقدیر الہی آتی ہے تو وہ حفاظتی گروہ رخصت ہو جاتا ہے تو تقدیر جو اسے پہنچانا چاہتی ہے، اسے پہنچا دیتی ہے۔

شیطان کا سرمہ اور اُس کا تھوک

حدیث نمبر (75)

حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: نہیں پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:
یقینا شیطان کا ایک سرمہ ہے اور تھوک ہے، جب انسان اس کا سرمہ لگا لیتا ہے تو اس کی آنکھیں ذکر الہی سے غافل ہو جاتی ہیں، اور جب وہ اس کا تھوک چاٹ لیتا ہے تو اس کی زبان فحش گو ہو جاتی ہے۔ (كنزالعمال )

حدیث نمبر (76)

حضرت سالم بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: حضرت ابوموسی ہے کے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خبر تاخیر سے پہنچی، آپ کی بارگاہ میں ایک ایسی عورت کو لایا گیا جس پر شیطان آتا تھا۔ آپ نے اس سے حضرت عمر کے بارے میں پوچھا، وہ کہنے کی جب میرا شیطان آئے گا میں ان کے بارے میں بتاؤں گی، جب شیطان آیا عورت نے اس سے حضرت عمر کے بارے میں دریافت کیا، اس نے کہا: میں نے انہیں ایک چادر لپیٹے ہوئے صدقہ کے اونٹ کی نگہبانی کرتےہوئے ایسے شخص کرتے ہوئے پایا اور وہ ایسے شخص ہیں کہ جب بھی شیطان انہیں دیکھتا ہے اوندھے منہ گر جاتا ہے، فرشتہ ان کے سامنے ہوتا ہے اور روح القدس ان کی زبان سے گویا ہوتے ہیں۔

تمت بعون الملك الوهاب


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں