فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی

فیوض غوث یزدانی
شہنشاہ  بغداد سید السادات غوث صمدنی قطب ربانی محبوب سبحانی الشیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ الحسنی الحسینی کے مواعظ کا مجموعہ
پہلی مجلس
محبوب  سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پہلی مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الاول فی عدم الاعتراض علی اللہ ‘‘ ہے۔
منعقده 3 شوال 545 بروز صبح اتوار بمقام مسافر خانہ خانقاہ شریف
امور تقدیر کے نزول کے وقت ذات الہی پر اعتراض کر نادین و توحید کی موت ہے:
اللہ تعالی عزت وجلال والا ہے، امور تقدیر ( خواہ وہ امر خیر ہو یا امرشر ) کے نازل ہونے کے وقت بندے کا ( اللہ تعالی پر اعتراض کرنا ( بندے کے ) دین وتو حید (اللہ کو ایک جاننا) ۔ تو کل وبھروسہ، اخلاص ویقین وروح کی موت ہے ۔(جو ) بندہ مومن ہے )وہ تقدیری حادثوں میں ) چون و چرا ( کیوں اور کس لئے( کونہیں جانتا، بلکہ ( رب کی طرف سے اس آزمائش میں ) سرتسلیم جھکاتے ہوئے صرف ہاں کہتا ہے ۔ نفس تو کلی طور پر مخالفت اور جھگڑا کرنے والا ہے، جوشخص نفس کی اصلاح کرنا چاہے وہ نفس سے جہاد کرے تاکہ نفس کی برائی اور شرارت سے محفوظ ہو جائے ۔ کیونکہ نفسانی خواہشات ( تو اول تا آخر )شرارت در شرارت ہیں ۔ چنانچہ جب نفس کو مشقت میں ڈالا جائے گا (یعنی مجاہدہ کیا جائے گا ) نفس کی مخالفت کی جائے گی تب اطمینان حاصل ہوگا ،نفس کی ساری خواہشیں نیکیوں سے بدل جائیں گی ، اور نفس کلی طور پر سب گناہ چھوڑ نے اور اللہ کی عبادت کرنے کے لئے موافقت کرے گا اس لمحے ارشاد باری تعالی ہوگا: يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی طرف لوٹ آ ‘‘۔ (اس حال میں کہ تو رب سے راضی ہے،نزول رحمت و مغفرت کے باعث اور تیری اطاعت وفرماں برداری کی وجہ سے تیرارب تجھ سے راضی ہے)۔ اس مقام پر (نفس کی ہر طرح کی شرارتیں دور ہو جاتی ہیں اور) سالک کو ذوق سلیم حاصل ہوتا ہے (نفس کا توکل وبھروسہ درست ہو جا تا ہے اور اس سے شک وشبہ زائل ہو جاتے ہیں اور اللہ کے سوا اس کا تمام مخلوقات سے (کسی ضررو مصیبت میں )کوئی تعلق واسطہ نہیں رہتا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام رضا میں سرتسلیم خم :
اس مقام پر نفس مطمئنہ کے لئے اپنے (روحانی) باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ نسبت کامل ہو جاتی ہے۔کیونکہ انہوں نے ( نمرود کے دہکائے ہوئے الاؤ میں) ہر طرح کی خواہشیں ترک کر کے اپنی ہستی کو مٹاڈالا (یعنی اپنے نفس کوفنا کر دیا اور اپنے محبوب ( رب تعالی کی محبت میں کسی غیر کی مددکو شرکت جانا ۔ وہ روحانی طور پر اللہ کے قریب تھے (اس قربت نے فنا کے بعد بقاعطا کی ) ، قلب مبارک سکون سے معمور تھا ، اور آپ نے مقام رضا میں سرتسلیم خم کر دیا۔ مصیبت اور امتحان کے اس کڑے وقت میں آپ کے پاس سب مخلوقات حاضر ہوئیں اور (اپنی اپنی ہمت ، طاقت اور رسائی کے مطابق )آپ کو اپنی مدد کی پیش کش کی ۔ آپ نے فرمایا: مجھے تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرے مالک کو میری حالت اور مصیبت کا بخوبی علم ہے، اس کی بار گاہ میں مجھے سوال کرنے کی کوئی حاجت نہیں ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رضائے الہی میں تو کل و تسلیم صحیح ہوا تو ارشاد باری تعالی ہوا:
قُلْنَا يَانَارُ كُونِي ‌بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ “ہم نے (آگ کو حکم دیا :اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا‘‘۔ جولوگ مصیبت پرصبر کر نیوالے ہیں، اللہ تعالی دنیامیں ان کی بے حساب مدد کرتا ہے، اورصبر کرنیوالوں کو آخرت میں بے شمارنعمتیں عطا فرمائے گا ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّمَا ‌يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍصبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا‘‘۔ ( یعنی صابراتناثواب پائیں گے جس کا کوئی حساب و شمار نہ ہوگا )۔ جولوگ ( رضائے الہی کے لئے دکھ تکلیفیں برداشت کرتے ہیں تو اس سے تو کوئی بھی چیز ڈھکی چھپی نہیں ، وہ سب کچھ جانتا ہے۔ بندے نے جب کئی سال اس کی مہربانیاں اور لطف وکرم دیکھے ہیں تو اگر مصیبت آ جائے تو اس گھڑی کی تکلیف پر صبر کرنا چاہئے ۔ اس ایک گھڑی کا صبر اعلی درجہ کی بہادری ہے۔جیسا کہ ارشادفرمایا: ” إِنَّ اللَّهَ ‌مَعَ الصَّابِرِينَ – بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس کی مدد اور نصرت (فتح) ہمیشہ شامل حال ہے ۔مصیبتوں کے ساتھ ساتھ صبر کرو۔ اللہ کے لئے خبر دار وہوشیارر ہو۔ اور اس راہ میں کسی قسم کی غفلت نہ کرو۔ تمہاری یہ خبر داری اور ہوشیاری موت کے بعد نہ ہو۔ کیونکہ اس وقت کی ہوشیاری کس کام کی ، بے نفع و بے فائدہ ہے ۔ تم موت سے ہم کنار ہونے سے پہلے (یعنی اللہ تعالی سے ملاقات سے پہلے ہی ہوشیار ہو جاؤ بیدار ہو جاؤ، اس سے پہلے کہ تمہیں تمہارے ارادے کے بغیر بیدار کیا جائے از خود بیدار ہو جاؤ، ور تمہیں شرمندگی ہوگی ، اورایسے وقت میں تمہارا شرمندہ ہونا کچھ فائدہ نہ دے گا،۔سوچو اور اپنے دلوں کی اصلاح کرلو، کیونکہ دلوں کی اصلاح اوردرستی سے تمہاری سب حالتیں درست ہو جائیں گی
انسان کے دل کا معاملہ
اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:’ أَلَا إِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلَّهُ أَلَا ‌وَهِيَ ‌الْقَلْبُ’’انسان کے بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب یہ تندرست ہو جائے (سنور جائے تو سارا بدن تندرست (سنورا) رہتا ہے،۔ اور جب وہ بیمار ہو جا تا (بگڑ جا تا ہے تو سارا بدن بیمار ہو جا تا ( بگڑ جا تا ہے ۔ مطلع ہو جاؤ گوشت کا وہ ٹکڑ ادل ہے۔
پر ہیز گاری، خوف، اللہ پر توکل ، اللہ کی وحدانیت کا اقرار علم میں اخلاص (یعنی ہر کام اللہ ہی کے لئے ہے اس میں دکھاوے کا دخل نہ ہو۔ ) ، ان سب کے ہونے سے دل کا حال اچھا اور درست رہتا ہے اور ان سب کے نہ ہونے سے دل کا معاملہ بگڑ جاتا ہے، دل بدن کے پنجرے میں ایک پرندے کی طرح ہے، جس طرح موتی ڈبیہ میں ، جیسے مال خزانے میں، لہذا اعتبارتو پرندے کے ساتھ ہے نہ کہ پنجرے کے ساتھ ، اسی طرح موتی اور مال کے ساتھ ہے نہ کہ ڈ بیااورخزانے کے ساتھ ۔ ( یعنی انسان کو چاہئے کہ مقصود ذاتی اور عرضی ہی کو مد نظر رکھے ) ۔
دعا والتجاء: اللـهـم اشـغـل جـوارحنا بطاعتک ونور قلوبنا بمعرفتك واشغلنا طول حياتنا في ليلنا ونهارنا بمراقبتک والحقنا بالذين تقدموا من الصلحين وارزقنا كما رزقتهم وكن لنا كما كنت لهم امین
”اے اللہ! ہمارے سب اعضاء کو اپنی طاعت و بندگی میں مشغول کر دے اور ہمارے دلوں کو اپنی معرفت کے ساتھ منور کر دے اور ہمیں عمر بھر رات دن ( غرض کہ ہر وقت اپنے ہی خیال میں مصروف رکھ، اور تیرے جو نیک بندے ( ہم سے پہلے گزر چکے ہیں، ہمیں ان کے (مراتب میں) برابر رکھنا اور ہمیں بھی ویسا ہی رزق اور حصہ عطا فرما جیسا کہ انہیں عنایت فرمایا اور ہمارے لئے بھی ویسا ہی ہو جا جیسا کہ تو ان کے لئے ہو گیا تھا۔آمین!۔
اللہ ہی کے ہور ہو
اے میری قوم کے لوگو! اللہ ہی کے ہور ہو جیسے کہ نیک بندے اس کے ہور ہے تا کہ تم پر بھی وہی انعام ہو جوان پر ہوا یعنی اللہ تعالی تمہارے لئے ویسا ہی ہو جائے جیسا کہ ان کے لئے ہوگیا تھا۔ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالی تمہارا ہورہے،تو (تمہیں چاہئے کہ تم اس کی طاعت میں لگے رہو، کوئی مصیبت آنے پر صبر کرو، اپنے اور اپنے غیر کے سب کاموں میں اللہ کی رضا میں راضی رہو، ۔ ایک جماعت نے دنیا کو ترک کیا ( بے رغبتی کی ) ، تقوی و پرہیز گاری اور دیانت داری سے دنیا میں طرح طرح کے فائدے اٹھائے ، پھر آخرت کی طرف متوجہ ہوئے ، اور اس کی طلب کے لئے عمل کئے ، نفس کشی کی ( نفسانی خواہشوں کو مارا ) اپنے پاک پروردگار کی فرماں برداری کی ، پہلے اپنے نفسوں کو نصیحت کی ، پھر اوروں کو وعظ ونصیحت کرتے رہے۔ (یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ان کا شیوہ ر ہا)۔
پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرو:
بیٹا! پہلے اپنی حالت درست کرو، پھر دوسرے کی طرف دھیان دو۔ تمہیں چاہئے کہ پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرو۔ اس سے پہلے دوسروں کو وعظ ونصیحت نہ کرو اس لئے کہ تیرے پاس کوئی ایسی شے باقی نہ ہو جس کے باعث خود تجھےابھی اصلاح کی ضرورت و حاجت ہو، (یعنی ابھی کچھ عیب باقی ہیں جو کہ اصلاح طلب ہیں ۔ افسوس ہے تجھ پر کہ تو خود بینائی سے محروم ہے (اندھا ہے ) ، اوروں کو کیا راہ دکھائے گا ، دوسروں کی رہبری کیسے کرے گا ۔ راہ دکھانا تو بینائی والے ( آ نکھ والے )کا کام ہے۔ دریا میں ڈوبنے والے کو وہی بچا سکتا ہے جو خو دا چھی طرح سے تیرنا جانتا ہو اللہ کی طرف وہی لاسکتا ہے جو کہ خوداللہ کو پہچانتا ہو ( یعنی عارف کامل ہی اللہ کی طرف رجوع کرا سکتا ہے ۔ اور جو راہ سے ہٹا ہوا ہے ( گمراہ ہے، جاہل ہے ، وہ کسی کی کیسے رہنمائی کرسکتا ہے۔
جب تک تو خوداللہ کو نہ پہچان لے اور اسے دوست نہ رکھے ، اور تیرا ہر عمل بھی اس کے لئے نہ ہو ، تیرے کلام و وعظ بے فائدہ ہیں ، تجھے غیر سے کوئی واسطہ نہ ہو اور نہ اس کا ڈر، ڈر خوف صرف اللہ ہی کا ہوتصرفات الہی میں تجھے چون و چرا نہیں کرنا چاہئے ، آواز کی سختی اور زبان کی تیزی سے کلام و وعظ نہیں ہوتے بلکہ یہ کام تو دل سے ہوتا ہے، تنہائی ( خلوت ) کا کام بزم آرائی ( جلوت ) میں نہیں ہوتا ۔ جبکہ تو حید گھر کے دروازے پر ہو اور شرک گھر کے اندر،یہ سراسر نفاق ہے۔
افسوس ہے تجھ پر، کہ تیری زبان تو تقوی و پرہیز گاری کا اظہار کر رہی ہے جبکہ تیرادل ( زبان کے برعکس ) گناہ میں مبتلا ہے، زبان تو شکر ادا کر رہی ہے، جبکہ دل ناشکرا ہے، حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالی ہے:
يَا ابْنَ آدَمَ خَيْرِي إِلَيْكَ نَازِلٌ وَشَرُّكَ ‌إِلَيَّ ‌صَاعِدٌ”اے آدم کے بیٹے میری طرف سے تو تجھ پرخیر و برکت کا نزول ہوتا ہے اور تیری طرف سے میری جانب برائی آتی ہے۔“
تجھ پر افسوس اس بات کا ہے کہ تو اللہ کاحقیقی بندہ ہونے کا دعوی کرتا ہے جبکہ اطاعت و تابعداری اس کے غیر کی کرتا ہے، اگر تو واقعی اس کا سچا بندہ ہوتا تو تیری دوستی اور دشمنی اللہ ہی کے لئے ہوتی ۔ سچا اور حقیقی مسلمان اپنے نفس اور شیطان اور اپنی خواہشوں کے پیچھے نہیں چلتا ( پیروی نہیں کرتا وہ شیطان سے کوئی شناسائی نہیں رکھتا جو اس کے پیچھے چلے ( تابع داری کرے) ،دنیا کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے سامنے جھکے اور ذلیل ہو۔ بندہ تو دنیا کو نا کارہ سمجھتا ہے اور آخرت کی طلب کرتا ہے اور جب آخرت کا حصول ہوتا ہے تو اسے بھی چھوڑ دیتا ہے اور اپنے مالک ومولی سے جا ملتا ہے، ہر وقت اس کی عبادت اس کے ملنے کے لئے کرتا ہے، جیسا کہ اس نے یہ ارشاد باری تعالیٰ سنا ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ اور انہیں یہی حکم ہوا کہ اللہ کی بندگی کریں ہر ایک چیز سے کنارہ کش ہوکر‘۔ مخلوق میں سے کسی کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ بس اللہ کو ایک جانو ( یہی اصل توحید ہے ) ، سب چیزیں وہی پیدا کرنے لا ہے، تمام چیزیں اس کے دست قدرت میں ہیں۔ غیر اللہ سے مراد یں مانگنے والے، یہ کہاں کی عقل مندی ہے، کیا کوئی ایسی چیز بھی ہے جو اللہ کے خزانے میں موجودنہیں۔ اس کریم نے قرآن پاک میں ارشادفرمایا:
وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا ‌خَزَائِنُهُ اورکوئی چیز ایسی نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں‘۔
فضل واحسانات کی بارش:
اے بیٹا !تقدیر کے پرنالے کے نیچے صبر کا تکیہ لگا کر راضی برضا کا ہار گلے میں پہن لے اور کشائش کے انتظار میں عبادت گزار ہوکرمیٹھی نیند سو جا، جب تو ایسا کرے گا تو مالک تقد یر اپنے فضل واحسان سے تجھ پر ایسی نعمتیں نازل کرے گا کہ جن کی آرزو اور طلب کرنا بھی تجھے اچھی طرح سے نہ آ تا۔
تقدیر کی موافقت کرو
اے لوگو تقدیر کی موافقت کرو اور مالک کی رضا پر راضی رہو اور سید عبدالقادر کے کہے پرعمل کر و جوکہ تقدیر کی موافقت میں کوشش کرنے والا ہے تقدیر کی موافقت (ہی) نے مجھے قادر (مطلق) تک پہنچا دیا ہے۔
تقدیرشاہی قاصد ہے۔
اے لوگو! آؤ کہ تم اور ہم تقدیر اور امرالہی کے سامنے جھک جائیں، اپنے ظاہر اور باطن ہر دو حال میں سرتسلیم خم کریں اور تقدیر کی ہمر کابی کرتے ہوئے چلیں، کیونکہ تقدیرتو شاہی قاصد ہے تقدیر کے بھیجنے والے کی خاطرتقدیرکی تعظیم وتو قیر کرنا فرض ہے ۔ اور جب ہم اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کر یں گے تو اس کی رہنمائی میں ہم قادر مطلق ) تک پہنچ سکیں گے۔
هُنَالِكَ ‌الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ اس جگہ حقیقی ولایت وسلطنت اللہ ہی کی ہے ۔‘‘ (وہاں کسی پیادے یا سوار کودخل ہی نہیں وہاں خاص شہنشاہی حکم و احکام ہیں۔) وہاں قادر( مطلق ) کے پاس بحرعلم ( الہی) سے سیراب ہو، اس کے خوان فضل سے کھانا کھاؤ ، اور اس کی محبت سے انس حاصل کرو جو کہ تمہاری غم خوار ہوگی اور اس کی رحمت کے پردوں میں چھپ جانا خوش گوار اور مبارک ہوگا ، بارگاہ قادر سے یہ مقام ومرتبہ دنیا کے تمام قبیلوں اور کنبوں کے لاکھوں انسانوں میں سے کسی ایک صاحب نصیب (یعنی مقدر والے) شخص کو ملتا ہے ۔
باعمل علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں:
اے بیٹا! تو اپنے لئے پر ہیز گاری اور شریعت کی پابندی کو لازمی سمجھ نفس، حرص اور شیطان اور بدوں کی صحبت سے بچتارہ ان کے جہاد میں صاحب ایمان اپنے سر سے خود نہیں اتارتا -اپنی تلوار کو بے نیام رکھتا ہے، نہ زین اتار کر اپنے گھوڑے کی پشت بر ہنہ کرتا ہے ، زین پر ہی خواب کی مانند نیند کرتا ہے ۔
تو اولیاء اللہ کی طرح ہے کہ جن کا طعام ( کھانا )فاقہ ہے، ان کا بولنا ، کلام کرنا ضرورت کے وقت ہے، خاموش رہنا ان کی عادت ہے، اللہ کے امر (حکم) سے بات کرتے ہیں ایسا کرنا ان کے لئے مقدر ہو چکا ہے دنیا میں اہل اللہ ، اس کی تحریک سے لب کھولتے ہیں ،دنیا میں ان کا بولنا اس طرح ہے جس طرح کہ قیامت کے دن سب اعضاء اللہ کے علم سے بات کر یں گے ۔ اللہ تعالی ان میں قوت کلام پیدا کرے گا ، جس نے کہ ہر ایک بولنے والے کوقوت گویائی عطا فرمائی ہے ۔ انہیں اس طرح بلاتا ہے جیسے وہ ( پتھروں وغیرہ ) جمادات کو گویا کر دیتا ہے، انہیں بھی قوت گویائی بخشتا ہے ۔ ان کے لئے گویائی کے اسباب مہیا کر دیتا ہے، اور پھر وہ بولنے لگتے ہیں ، جب انہیں کسی امر خاص پر بلانا مقصود ہوتا ہے تو اس کے لئے انہیں تیار کر دیتا ہے، جب اللہ نے چاہا کہ مخلوق کو اپنے عذاب سے ڈرائے ،خوف دلائے ،اوراپنی رحمت کی خوش خبری سنا ئے ۔ چنانچہ حجت قائم کرنے کے لئے نبیوں اور رسولوں کو قوت گویائی عطا فرما دی ، جب اس گروہ یا اس کو اپنے پاس بلا لیا تو ان کے قائم مقام ( نائب کے طور پر ) باعمل علماء کو پیدا فرمایا اور انہیں ایسی قوت گویائی عنایت فرمائی جس سے کہ نبیوں کے نائب بن کر مخلوق کی اصلاح کر سکیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: إِنَّ ‌الْعُلَمَاءَ ‌وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ. ” (باعمل ) علماء ( ہی ) انبیاء کے وارث ہیں ۔
اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا:
اللہ کے بندو! اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو، اور خاص اس کی عنایت کی ہوئی خیال کرو، کیونکہ اس نے ارشاد فرمایا:
وَمَا بِكُمْ ‌مِنْ ‌نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ”جو کچھ نعمتیں تمہیں پہنچ رہی ہیں سب اللہ ہی کی طرف سے ہیں ۔‘‘ اس کی نعمتوں میں عیش کرنے والو! تم سے ان نعمتوں کا شکر کہاں ہے؟ – غافلونعمتیں وہ عطا کرتا ہے تم انہیں اس کے غیر کی طرف سے خیال کرتے ہو، اورکبھی تم انہیں محدود سمجھ کر ان نعمتوں کے انتظار میں رہتے ہو جو ابھی حاصل نہیں ہوئیں اور کبھی ان نعمتوں کے ذریعہ نافرمانی کی راہ چل پڑتے ہو۔
بادشاہ حقیقی کے در پر آؤ
اے بیٹا! گوشہ تنہائی میں تجھے ایسی پرہیز گاری اختیار کرنی چاہئے جو نافرمانی اور بے راہروی سے نجات دلائے اور ایسا مراقبہ کرو کہ جو تجھے اللہ تعالی کی نظر رحمت اور شفقت ( جو تیری طرف ہے ) کی یادولائے تم محتاج اور بے قرار ہو کر چاہتے ہو کہ یہ نظر رحمت گوشہ تنہائی میں تمہارے ساتھ ہو۔پھر تجھے نفس حرص اور شیطانوں سے لڑائی کی سخت ضرورت ہے تاکہ تو انہیں زیر کرے۔
بڑے (بزرگ) لوگوں کی خرابی و تباہی لغزشوں ( غلطیوں کوتاہیوں ) سے ہے زاہدوں کی خرابی نفسانی خواہشوں سے ہے۔ اور ابدالوں کی خرابی وبربادی تنہائی میں فکر اور خطرات سے ہے، اور صدیقوں کی خرابی نظر کے بھٹکنے سے ہے ، ان کی مصروفیت اور ان کا کام تو اپنے دلوں کی حفاظت ہے کہ غیر اللہ سے دلوں کو نظر میں رکھیں ) ، کیونکہ وہ بزرگ تو بادشاہ کے دروازے کے نگہبان و محافظ ہیں، وہ مخلوق خدا کو اس کی معرفت ( معرفت الہی ) کی طرف بلانے والے ( دعوت دینے کے مقام پر کھڑے ہیں۔ اور ہر وقت زندہ دلوں کو آوازیں دیتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں: اے سلامتی والے دلو! اے راستی والی روحو! اے انسانو!،اے جنو ! اے مولی کی طلب رکھنے والو! بادشاہ حقیقی ومالک کے در پر آؤ، تم اپنے دلوں کے پاؤں اور تقوی وتوحید اور کامل پرہیز گاری کے قدموں سے بڑھو، ترک دنیا و ما سوا اللہ اور معرفت، ان سب کے قدموں کے ساتھ ( مقامات طے کرتےہوئے دوڑے چلے آؤ۔“
ان پاک باز لوگوں کا یہی منصبی فرض ہے، ان کا کام مخلوق کی اصلاح ہے۔آ سمانوں اور زمین عرش عظیم سے لے کر فرش زمین تک (غرض کہ ہر جگہ ان کا تصرف جاری وساری ہے۔
ایمان زندگی ہے، کفر مردنی ہے :
اسے بیٹا!اپنی نفسانی خواہشوں اور حرص کو چھوڑ دے اور ان پاکباز لوگوں کے قدموں میں مٹی کی طرح بچھ جا،ان کے سامنے خاک کی طرح مٹ جا ، جیسا کہ اللہ تعالى ‌يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ (یعنی زندہ کو مردے سے نکالتا ہے، اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے) ۔ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے والدین سے جو ( کفر کی وجہ سے مردہ تھے، نکالا، ایمان والا ( مؤمن ) زندہ ہے اور کفر والا کافر مردہ ہے، خدا پرست (اس کی وحدانیت کا اقرار کر نے والا ) زندہ ہے ، بت پرست ( کفروشرک کرنے والا مر دہ ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے کلام ( حدیث قدسی میں ارشاد فر مایا ہے ‌أَوَّلَ ‌مَنْ ‌مَاتَ مِنْ خَلْقِي ‌إِبْلِيسُ-”میری مخلوق میں سب سے پہلے مرنے والا ابلیس ہے ۔“ یعنی اس نے میری نافرمانی کی اور اس گناہ کی وجہ سے اس (کے ایمان کی موت واقع ہوگئی ، اور وہ مردہ ہو گیا ( یعنی گناہ کرنا ایمان والے کے لئے موت ہے ۔ یہ آخری زمانہ جھوٹ اور نفاق کا بازار گرم ہے، اس لئے (احتیاط کا تقاضا ہے کہ منافقوں،جھوٹوں اور دجالوں کے پاس ہرگز نہ بیٹھو۔
منافق نفس کی ہم نشینی اور شیطان کا دوستانہ
افسوس کہ تیر انفس منافق ، جھوٹا ، کفر کر نے والا ہے ، فاسق و فاجر اور شرک کرنے والا (غیر اللہ کا پیرو ) ہے، تیری اور اس کی کیسے بن آئے۔ تو اس کی مخالفت کر موافقت بند کر ، اسے زنجیروں سے باندھ دے، آزاد انہ چھوڑ ، اسے قید کر دے ۔ اس سے جو مشقت کا کام لینا ہے وہ ضرور لے، نفس کو عبادت اور مجاہدوں سے کچل دے۔ نفسانی خواہشوں پر سوار ہو جا، یہ نہ ہو کہ وہ تم پر سوار ہو جائیں ، طبیعت کا کسی حال میں ساتھ نہ دے:
کیونکہ وہ تو دودھ پیتے بچے (طفل شیرخوار ) کی طرح ہے جسے کسی طرح کی سمجھ بو جھ ہی نہیں ہے، تم ایک دودھ پیتے بچے کی بات مان کر کس طرح اس سے کچھ سیکھ سکتے ہو ، اور اس کے کہے کو کیسے مان سکتا ہے، رہی بات شیطان کی تو شیطان تمہارا اور تمہارے باپ آدم علیہ السلام کا دشمن ہے تم کس طرح اس کی طرف مائل ہو گئے اور اس کی بات مانو گے، حالانکہ تمہارے اور شیطان کے درمیان قدیم دشمنی اور (ہابیل کا )خون ہے، اس کا اعتبار نہ کرنا، کیونکہ وہ تمہارے ماں باپ ( حضرت آدم وحواعلیہما السلام) کا قاتل ہے، لہذا ( حیلے بہانے سے ) جب وہ تم پر قابو پالے گا تو ( جھانسا دے کر) تجھے بھی تیرے والدین کی طرح قتل کر دے گا ، چنانچہ تو تقوی کو اپنا ہتھیار بنالے، اللہ کی توحید اور اس کا مراقبہ اور خلوت میں پر ہیز گاری اور صدق اور اللہ سے مدد چاہنے کو اپنا لشکر بنا، یہ ہتھیار اوریہ لشکر ایسے ہیں جو شیطان کو شکست فاش دے کر اس کی جڑ کاٹ دیں گے اور اس کے لشکر کو ملیامیٹ کر دیں گے اور تم شیطان کو شکست دینے میں کیسے کامیاب نہ ہو گئے جبکہ حق تعالی ( اس کی شکست کے لئے) تمہارے ساتھ ہے۔
اللہ کی طرف یکسوئی کیسے ہو:
اے بیٹا! دنیا اور آخرت کو ملا کر ایک ہی جگہ پر کر دے، دونوں جہان ( دنیا و آخرت) سے بے نیاز ہو کر اپنے مالک ومولی کی طرف یکسوئی اختیار کرو، تیرے دل میں دنیا و آخرت کی محبت وطلب نہ ر ہے ۔ ماسوی اللہ کو ترک کر کے گوشہ نشیں ہو جا اور اللہ کی طرف متوجہ ہو خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی قید میں مت پھنسو، ان سب اسباب سے لاتعلق ہو جا، ان خواہشات نفسانی سے دامن چرالے، چنانچہ جب تجھے اس طرح قدرت حاصل ہو جائے تو (یہ طریقہ اختیار کر کہ ) دنیا نفس کے لئے ، آخرت کو دل کے لئے اور مولی کی محبت کو باطن کے لئے رہنے دے۔
حقیقی تو بہ دل کے اعمال سے ہے:۔
اے بیٹا !نفس اور حرص اور دنیا وآخرت کے پیچھے نہ چل صرف اللہ ہی کے ہور ہو، حالانکہ تمہارے ہاتھ ایسا خزانہ لگا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا ایسا کرنے سے تجھے اللہ تعالی سے ایسی ہدایت ملے گی جس کے بعد گمراہی نہیں ہے، تو گناہوں سے تو بہ کر کے اپنے رب کی طرف دوڑ جا۔ تو جب تو بہ کرے تو زبان اور دل ( ظاہر و باطن ) دونوں سے تو بہ کر توبہ کا مطلب ہے ) تیرے دل کے لباس کا پلٹ دینا، تو اپنے دل کی چادر پلٹ دے گناہوں کا لباس خالص توبہ اور حقیقی طور پر اللہ سے شرمندہ ہو کر اتاردے حقیقی توبہ دل کے اعمال سے ہے جو ظاہری اعضاء کوشرعی اعمال سے پاک کر لینے سے ہو۔ بدن کیلئے الگ عمل ہے اور دل (قلب) کیلئے الگ دل جب عالم اسباب اور مخلوق کے تعلقات کو ترک کر دیتا ہے تو توکل اور معرفت کے سمندر میں سوار ہوتا ہے، اور بحرعلم الہی میں غوطے لگا تا ہے، یوں سبب کو چھوڑ کر سبب بنانے والے(مسبب) کو طلب کرتا ہے، ایسا شخص جب سمندر کے بیچ میں پہنچتا ہے تو اس وقت وہ کہنے لگتا ہے
الَّذِي ‌خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ “جس نے مجھے پیدا کیا ہے وہی مجھے ہدایت دے گا ۔ اللہ تعالی اس سالک کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک رہنمائی فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ سیدھے راستے (صراط مستقیم) پر جا نکلتا ہے۔ اس سفر میں جب اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو راستے کی خرابی اور بھول بھلیاں دور ہو جاتی ہیں، راستہ روشن ہوتا چلا جاتا ہے- طالب (الہی) کا دل منزلیں طے کرتا ہوا ہر ایک چیز (ماسوا اللہ کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے، اور اگر کبھی راستے میں اسے ہلاکت کا خوف ہو تو و ہیں اس کا نور ایمان ظاہر ہوکر دل کی ڈھارس بندھا دیتا ہے۔ وحشت اور خوف کی آگ سرد پڑ جاتی ہے، اور اس کے بدلے میں انس کی روشنی اور قرب الہی کی مسرت حاصل ہوتی ہے۔
اہل ایمان اور دوزخ کا ڈر
اے بیٹا! اگرکوئی بیماری یا تکلیف آئے تو اس کا صبر کے ہاتھوں سے استقبال کر اللہ تعالی کی طرف سے دوا آ نے تک تسکین خاطر جمع رکھ ۔ دوا آ جائے تو اس کا شکر کے ہاتھوں سے استقبال کر۔( اس لئے کہ مصیبت آنے پر صبر کرنا اورنعمت ملنے پرشکر کرنے کا حکم ہے۔) اس حالت میں تجھے بہت جلد عیش و شادمانی حاصل ہوگا ۔
دوزخ کی آگ کا خوف اہل ایمان کے جگروں کو چھلنی ، چہروں کو زرداور دلوں کوغم زدہ کر دیتا ہے۔ اس مقام پر جب وہ ثابت قدم ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالی ان کے دلوں پر اپنی مہربانی کے دریا سے رحمت کا پانی برساتا ہے، ان کے لئے آخرت کا دروازہ کھول دیتا ہے، انہیں ان کے مقام دکھا دیئے جاتے ہیں، طالبان حق کو جب سکون اور اطمینان اور کچھ راحت میسر آتی ہے، تو اللہ تعالی ان پر اپنے جلال کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس عالم میں ان کے دل کو پاش پاش اور اسرار ( باطن) کوٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے ۔ یہ حال انہیں پہلے سے بھی زیادہ خوفزدہ کر دیتا ہے، ان کی یہ حالت جب اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو پھر ان پر اپنے جمال کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔ انہیں سکون ملتا ہے، اطمینان حاصل ہوتا ہے اور وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں ۔ اور یوں انہیں یکے بعد دیگرے اپنے اپنے مقامات اور درجات حاصل ہو جاتے ہیں۔
بندگی و بندہ ہونے کا اظہار آ زمائش کے وقت ہوتا ہے:
اے بیٹا تجھے کھانے پینے ، لباس پہننے، نکاح وشادی کرنے ، گھر بار اور جمع پونچی کرنے کی سوچ اور فکر نہ ہونے چاہئے ، یہ تو نفس اور طبیعت کی ضرورتیں ہیں ، قلب و باطن کی ضرورت نہیں ، قلب و باطن کو مولی کی سچی طلب ہے۔ تیری ضرورتوں نے تجھے کس قدر غم زدہ کر دیا ہے، (یعنی تیری ضرورت نے تجھے فکر میں ڈال رکھا ہے ۔ تیری ضرورت صرف وہی کچھ ہونا چاہئے اللہ تعالی اور جو کچھ اس کے پاس ہے، دنیا کا بدلہ آ خرت ہے اور مخلوق کا بدلہ خالق ہے۔ جو کچھ تم ( عمل کی صورت میں دنیا میں چھوڑو گے اس کا بدلہ اور اس سے بہتر آخرت میں پاؤ گے (سوچو کہ اگر تمہاری زندگی کا ایک ہی دن باقی ہے تو آخرت کی تیاری کر اور موت کے فرشتے کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوجا۔ دنیا لوگوں کے لئے کچھ ہی دیر میں ختم ہونے والی ہے جبکہ آخرت ان کے آباد ہونے کا مقام ہے۔ جب غیرت الہی جوش میں آتی ہے تو ان کے اور آخرت کے بیچ میں حائل ہو جاتی ہے۔ یہاں تکوین کو آخرت کا قائم مقام کر دیا جا تا ہے، آخرت کی جگہ خاص نعمتیں ملتی ہیں تو انہیں نہ دنیا کی طلب رہتی ہے اور نہ آخرت کی حاجت رہتی ہے۔
اےجھوٹے !دنیا کے طلب کرنے والے !نعمت کی حالت میں تو اللہ سے محبت کا دعوی کرتا ہے، اور جب اس کی طرف سے کوئی پریشانی آتی ہے تو اس طرح بھاگتا ہے گویا کہ اللہ تعالی سے تجھے محبت ہی نہ تھی ، بندے کی اصلیت آزمائش کے وقت کھلتی ہے ۔ اللہ کی طرف سے مصیبت آنے پر اگر تم نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا تو تم واقعی اس سے محبت کرنے والے ہو۔ اور اگر مصیبت میں گھبرا گئے ، ڈگمگا گئے تو پہلے کا کیا کرایا بیکار جائے گا اور ساتھ ہی تمہارا ( محبت کا جھوٹا دعوی ظاہر ہو ۔ جائے گا۔
محبت میں سب آزمائشیں ہیں:
ایک شخص رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
یارسول اللہ ﷺمیں آپ سے محبت رکھتا ہوں ۔“ آپ ﷺ نے فرمایا: فقر ومحتاجی کی مصیبتیں اٹھانے کے لئے تیار ہوجا ،اورفقر کی چادر اوڑھ لے ۔‘‘ ایک اور شخص حاضر خدمت ہوا اور عرض کرنے لگا: “یارسول اللہ ﷺ میں اللہ تعالی کومحبوب رکھتا ہوں ۔“ حضور ﷺ نے ارشادفرمایا: تو بلا ومصیبت کے لئے چادر بنالے۔“
اللہ اور رسول کی محبت میں مصیبت اور فقر کی برداشت لازمی ہے، اسی لئے ایک عارف کامل نے فرمایا: ”محبت میں سب قسم کی مصیبتیں (آزمائشیں ) ہیں ۔اگر تم دعوی محبت نہ کرو تو بچے رہو۔ ایسا نہ ہوتو ہر ایک شخص اللہ تعالی کی محبت کا دم بھرنے گئے لہذا فقر اور مصیبت پر ثابت قدم رہنے کواللہ اور رسول کی بنیاد قرار دیا گیا۔
‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطافرما۔ اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھے۔ آمین!
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 10،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 14دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان

دوسری مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے دوسری مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثانی فی الفقر ‘‘ ہے۔
منعقده 5 شوال 545 بروزمنگل بمقام مدرسه قادر یہ بغداد شریف
فقر وصبراہل ایمان کے سوا کسی غیر میں اکٹھے نہیں ہو سکتے:
اے اللہ کے بندے اللہ کے ساتھ تیری غفلت اور غرور تجھے اس سے دور کر دے گا، اورتجھے اللہ سے الگ پھینک دے گا۔ اس سے پہلے کہ تجھے مار پڑے اور ذلیل و بے عزت کیا جائے ، اور مصیبتوں بلاؤں کے سانپ اور بچھو تجھے ڈسنے لگیں، تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ اپنی مغروری اور غفلت سے باز آ جاؤ ۔ چونکہ تم نے مصیبت و بلا کی مارکا مزہ چکھاہی نہیں، اس لئے ضرور دھوکہ میں پڑ رہے ہو، جو نعمتیں تجھے میسر ہیں۔ان میں پڑ کرمت اتراؤ، کیونکہ وہ عنقریب مٹ جانے والی ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے:
حَتَّى إِذَا ‌فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً” جب وہ ہماری عطا کردہ نعمتوں پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں ایک دم دبوچ لیا۔“ اللہ تعالی کی نعمتوں کے حصول میں صبر کرنے کے باعث ہی کامیابی و فتح مندی ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالی نے صبر کے لئے سخت تا کید فرمائی ہے۔ فقر اور صبر اہل ایمان کے سوا کسی غیر میں اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ محبت والے مصیبت سے آزمائش کئے جاتے ہیں ، اور وہ آزمائش میں صبر کرتے ہیں، مصیبتوں اور آزمائشوں کے باوجودان پر نیک کاموں کے کرنے کا الہام ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف سے ان پر جونئی نئی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں تو صبر سے برداشت کرتے ہیں، اگر صبر نہ ہوتا تو مجھے ہرگز اپنی مجلس میں نہ د یکھتے گویا کہ مجھے ایک جال بنا دیا گیا ہے جس کے ذریعے شروع رات سے اخیر رات تک پرندوں کا شکار کیا جا تا ہے ۔ میری آنکھ کھول دی جاتی ہے اور میرے پاؤں کو بھی کھول دیا جاتا ہے۔ (وقت تنہائی ہے) ۔ دن میں آنکھیں بند ہوتی ہیں اور میرے پاؤں جال ( پھندے ) میں جکڑے ہوتے ہیں – قضاوقد ر کا یہ فعل تمہاری حالت کی اصلاح ونصیحت کے لئے ہے مگر تم نہیں پہچانتے ہو، اگر اللہ کی توفیق مجھے راستہ نہ دکھاتی (یعنی اگر میں راضی برضا نہ ہوتا تو کون عقل مند ہے جو اس شہر میں بیٹھتا اور اس شہر کے رہنے والوں کے ساتھ رہن سہن اختیار کرتا ، جس شہر میں دکھاوا، مکاری ، نفاق اور ظلم عام ہے۔ شبہ اور حرام کی کثرت ہے، اللہ کی دی گئی نعمتوں پر ناشکری کی جاتی ہے، اور ان نعمتوں کے بل بوتے نافرمانیوں اور فسق و فجور پر مد دحاصل کی جاتی ہے، ایسے لوگ بکثرت ہیں جن کے حالات مختلف پہلو رکھتے ہیں: جو اپنے گھر میں فاجر ، دکان پر آ کر پرہیز گار، اپنے تہہ خانے میں زندیق ( بے دین ) ہوں ، اور کرسی پر بیٹھ کر صدیق بن جائیں ، اگر میں حکم (شریعت) کا پابند نہ ہوتا تو جو کچھ تمہارے گھروں کے اندر ہوتا ہے ،سب بیان کر دیتا مگر میں ایک مکان کی بنیاد رکھ رہا ہوں جس کو عمارت کی تعمیر کی ضرورت ہے، اور میرے روحانی بچے (مرید ) ہیں جو تربیت کی حاجت رکھتے ہیں ، میرے پاس علم الہی کی بعض ایسی معلومات ہیں، اگر میں انہیں ظاہر کر دوں تو میرے اور تمہارے درمیان جدائی کی وجہ بن جائیں ، اس وقت میں جس حالت میں ہوں ، اس میں مجھے تمہاری ہدایت کے لئے ) نبیوں اور رسولوں کی طاقت کی ضرورت ہے، آدم علیہ السلام سے لے کر میرے زمانہ تک جو نیک انسان گزرے ہیں، مجھے ان کے صبر کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر ) میں قوت ربانی کا محتاج ہوں ۔ اللهم لطفا وعينا وموافقة ورضا آمین! الہی میں تیرے لطف و مدد اور توفیق اور رضا چاہتا ہوں۔ آمین۔
ایمان قول اور عمل دونوں کا نام ہے:
بیٹا ! تم دنیا میں ہمیشہ کی زندگی اور خواہشیں پوری کرنے کے لئے نہیں پیدا کئے گئے ، اللہ کے جن نا پسندیدہ کاموں میں تو مبتلا ہے، انہیں چھوڑ دے، بدل دے، تم نے صرف کلمہ لا إله إلا الله محمد رسول اللہ زبان سے پڑھ کر یہ سمجھ لیا کہ عبادت و اطاعت الہی سے بری الذمہ ہو گئے، ایسا کرنا تجھے کچھ نفع نہ دے گا جب تک کہ تم اس کے ساتھ کوئی اور چیز یں نہ ملاؤ گے۔ ایمان قول اورعمل دونوں کا نام ہے۔ گناہ کرتے جانا، نافرمانی میں مبتلا رہنا اللہ کی مخالفت میں لگے رہنا ،ان سارے کاموں پر اصرار بھی کرنا اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا چھوڑ دینا روزہ رکھنا ترک کر دینا ،صدقہ اور نیکی کے کام نہ کرنا، ایسے میں صرف کلمہ شریف پڑھ کر ایمان کا دعوی کرنا قبول نہ کیا جائے گا اور نہ ہی تمہیں کچھ نفع دے گا ۔ عمل کے بغیر کلمہ شہادت تجھے کیا فائدہ دے گا۔ جب تم لا إلـــہ الا اللہ کہہ کر توحید کے مدعی بن گئے تو تم سے تمہارے دعوے کی تصدیق کے لئے گواہ طلب کئے جائیں گے، تمہیں علم ہے کہ وہ گواہ کیا ہیں اور کون ہیں؟ – احکام الہی کا بجالانا ، اور جن کاموں سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہنا، آفتوں پر صبر کرنا اور تقدیر الہی کو تسلیم کر لینا تمہارے دعوی توحید کے یہی گواہ ہیں اور جب تم ان اعمال پر کار بند ہو جاؤ گے تو) اخلاص ربانی کے بغیر کوئی بھی عمل قابل قبول نہ ہوگا۔ اس کی بارگاہ میں کوئی قول عمل کے بغیر اور کوئی عمل اخلاص اور اتباع شریعت کے بغیر مقبول نہیں ہے ۔
اپنے مال سے فقیروں کے دکھ بانٹو ۔ اپنی استطاعت اور قدرت کے مطابق تھوڑی بہت جو مددان کی ہو سکےکرتے رہو، ان کے سوال کو رد کر کے انہیں خالی ہاتھ نہ لوٹاؤ ۔ اللہ کو عطا بڑی محبوب ہے ۔ عطا کرنے میں تم اللہ کی موافقت کرو، اس کے شکر گزار ہو کہ اس نے تمہیں اس نیکی کی توفیق بخشی اور مال کے عطا کرنے پر قدرت عنایت فرمائی۔ افسوس تو تمہاری اس بات پر ہے کہ سائل اللہ کے لئے سوال کرتا ہے( اللہ کے نام پر ہدیہ مانگتا ہے ۔ ) تم میں دینے کی قدرت بھی ہے۔ اس کے باوجود تم ہدیہ عطا کرنے والے اللہ کی طرف ہد یہ لوٹانے سے خودکو کیوں روکتے ہو، (اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب تو میری طرف متوجہ ہوتا ہے مجھے اپنے دل کا حال سنانے کی کوشش کرتا ہے ، باتیں ( وعظ ) سنتا ہے اور روتا ہے ۔ اور جب تیرے پاس کوئی سائل (میرے نام پر خیرات مانگنے کے لئے آتا ہے تو تیرا دل سخت ہو جا تا ہے۔ ( تیرے اس رویئے اور طرزعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میرے پاس بیٹھ کر تیراوعظ سنناسنانا اور رونا خالصا اللہ کے لئے نہیں تھا۔ میرے پاس بیٹھ کر تیرا وعظ سننا پہلے باطن سے پھر دل سے ہونا چاہئے ، پھر ظاہری اعضاء سے کہ وہ نیکی اور بھلائی میں مشغول رہیں، اور جب تم میرے پاس آؤ تو اپنا علم اور عمل اور زبان، اپنا حسب ونسب سب کو بھلا کے آؤ اور اپنامال اور اپنے اہل وعیال ،قبیلہ سب کچھ چھوڑ کے آؤ، ماسوا اللہ سے دل کو خالی کر کے میرے سامنے کھڑے ہوتا کہ میں تمہیں اپنے قرب اورفضل واحسان کا لباس پہنا دوں۔ میرے پاس آتے وقت جب تم اس پر عمل کرو گے تو تمہاری یہ کیفیت اس پرندے کی طرح ہوگی جو صبح کے وقت اپنے گھونسلے سے بھوکا نکلتا ہے اور شام کو جب لوٹتا ہے تو اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے۔ دل کی نورانیت اللہ کے نور سے ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اتَّقُوا ‌فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ تَعَالَى مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
اے فاسق (وبدکار )صاحب ایمان (یعنی مومن) سے ڈرتا( بچتا رہ ، اپنے گناہوں کی نجاست سے لتھڑ کر اس کے پاس نہ جا۔ کیونکہ وہ اللہ کے نور سے
جس حالت میں تو مبتلا ہے، تجھے دیکھ لے گا ، تیرا شرک اور نفاق اس پر کھل جائے گا،تیرے کپڑوں کے نیچے جو تیرے بدعمل ، تیری ذلتیں اور رسوائیاں پوشیدہ ہیں ، سب دیکھ لے گا۔ ( تجھے اس سے حیا کرنی چاہئے ) ۔ جوشخص صاحب فلاح اور خلاص کو ( نیک نیتی سے نہیں دیکھتا، وہ فلاح اور خلاصی نہیں پاسکتا، تو حرص کا مجسمہ ہے۔تیر ا ملناجلنا حرص والوں کے ساتھ ہے۔
کسی سائل نے سوال کیا کہ یہ اندھا پن کب تک رہے گا ، ارشادفرمایا: – یہاں تک کہ طبیب کے پاس جائے ۔ اس کی دہلیز پر تکیہ لگائے ، طبیب کے ساتھ نیک گمان رکھے، اپنے دل سے اس کی طرف سے تہمت و بدگمانی نکال ڈالے۔ اپنی اولادسمیت اس کے در پر بیٹھا رہے۔ اس کی کڑوی دوا کو صبر کے ساتھ نوش کرے۔ اس وقت تمہاری ( دل کی) آنکھوں سے ( ظاہری و باطنی ) اندھا پن دور ہو جائے گا۔‘‘
شان فقر دل کے ترک دنیا کرنے میں ہے:
فقر کی شان کھر درے(موٹے )لباس اور ناقص (وبے مزہ ) کھانا کھانے میں نہیں ہے،۔فقر کی شان تو دل کے ترک دنیا کرنے (زہد اختیار کرنے میں ہے، عاشق صادق پہلے پہل اپنے باطن پر صوف کا لباس پہنتا ہے، پھر وہ اپنے ظاہر کی طرف بڑھتا ہے، ( اس میں ترتیب اس طرح سے ہے کہ پہلے اپنے باطن کو صوف ( جامہ تصوف) پہنا تا ہے، پھر قلب (دل) کو ، پھر نفس کو ، پھر اپنے ظاہری اعضاء کو ظاہر اور باطن کھر درا ہو جائے ( یعنی سراپا صوف پوش ہو کر ) نیک بن جا تا ہے تو اس کی طرف شفقت و رحمت واحسان کا (ربانی) ہاتھ بڑھتا ہے اور اللہ کی طرف سے طاری کردہ مصیبت پر بڑا انقلاب لے آ تا ہے ۔ اس سے غم واندوہ کاسیاہ (ماتمی لباس اتار کر جامہ راحت پہنا دیتا ہے۔ اس کی مشقت اور تکلیف نعمت سے _بخش ورنج سرور سے، ڈر خوف امن سے ،دوری قرب ونزدیکی سے اور،فقر ومحتاجی کو غنا وامیری سے بدل دیتا ہے۔ شریعت کے احکام تمہارے پاس امانت ہیں:
اے بیٹا! قسمت سے لکھے (یعنی رزق کو زہد کے ہاتھ سے تناول کر ، رغبت کے ہاتھ سے نہ کھا، کھا کر رونے والااس شخص کی طرح نہیں ہوتا جو کھا کر ہنسنے والا ہے۔ اپنے نصیب کا رزق اس طرح کھاؤ کہ تمہارا دل اللہ کے ساتھ مشغول ہو، یوں تو کھانوں کے شر سے بچارہے گا ،جس چیز کی اصلیت سے تم واقف نہیں ہوا سے از خود کھانے سے بہتر ہے کہ طبیب کے ہاتھ سے کھاؤ۔
اے سننے والو تمہارے دل کس چیز نے سخت بنا دیئے ،تم سے دیانت داری جاتی رہی ،آپس کی محبت و مہربانی بھی دور ہو گئی۔شریعت کے احکام تمہارے پاس امانت ہیں تم نے ان پرعمل کرنا چھوڑ دیا اور تم میں خیانت رائج ہوگئی۔ تجھ پر افسوس ہے کہ تیرے نزدیک امانت کی کوئی اہمیت نہیں ۔ کچھ ہی دنوں میں تیری آنکھوں میں پانی اتر آئے گا اور تیرے ہاتھ پاؤں آ ہنی زنجیر سے جکڑے جائیں گے۔ اللہ تعالی تم پر اپنی رحمت کا دروازہ بند کر دے گا ، اور اپنی مخلوق کے دلوں میں تیری طرف سے سختی ڈال دے گا ،اوروہ جو تجھ پر احسانات کرتے ہیں ان سے انہیں روک دے گا اپنے سروں کو اپنے رب کے ساتھ محفوظ رکھو، اور اس سے ڈرتے رہو، اس لئے کہ اس کی پوچھ گچھ نہایت ہی سخت اور تکلیف دہ ہے، تمہیں تمہاری امن اور عافیت کی جگہ اور غرور و نافرمانی سے پکڑے گا ، اس سے خوف کرو، وہی زمین و آسمان کا مالک ہے۔ شکر کے ساتھ اس کی نعمتوں کی حفاظت کرو، کرنے اور رکنے سے حکم کا سننے اور ماننے سے مقابلہ کرو، اس کی سختی اورتنگی کو صبر کے ساتھ اور کشادگی وسعت کوشکر سے مقابلہ کرو، تم سے پہلے جو نبی اور رسول، صالحین و عابدین گزر چکے ہیں۔ان کا بھی اسی پرعمل تھا، وہ نعمتوں پر شکر اور مصیبتوں پر صبر کیا کرتے تھے، تم اس کی نافرمانی اور گناہوں کے خوانوں سےالگ ہو جاؤ ، اور اس کی اطاعت و تابع داری کے خوانوں سے کھاؤ۔ اللہ کی حدوں کی حفاظت کرونرمی و آسانی آ ئیں توشکر کرو جب تنگی آئے تو اپنے گناہوں سے توبہ کرواوراپنے نفسوں سے جھگڑا کرو، کیونکہ اللہ کسی حالت میں اپنے بندوں پرظلم نہیں کرتا، موت اور اس کے بعد در پیش آنے والے حالات کو یاد کرو، تمہارے ساتھ اللہ کا جو حساب اور مہربانیاںہیں ، انہیں یادرکھو، غفلت کی نیند کب تک سوتے رہو گے نادانی و جہالت نفس کی بے ہودگی حرص میں قائم رہنے کی عادت کب تک رہے گی۔اللہ کی عبادت اور شریعت کی پابندی میں ادب کو مدنظر کیوں نہیں رکھتے ، عادت کو ترک کر دیناہی عبادت ہے، قرآن وحدیث کے احکام سے سبق کیوں نہیں سیکھتے اس کے مطابق کیوں نہیں چلتے۔
دل کی زندگی تو یہ ہے کہ…….
اے بیٹا! اندھے پن، نادانی اور غفلت و خواب کی حالت میں لوگوں کے ساتھ میل جول نہ کر۔ ان سے دل کی آنکھوں علم اور بیداری سےمل، اگر ان سے کوئی اچھی بات ہے تو تو بھی ان کا ساتھ دے-ان کی تابعداری کر،اگر ان میں کوئی قابل نفرت اور خلاف شرع بات دیکھے تو ان کا ساتھ نہ دے ، خود بھی ان سے بچ اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کر اللہ کے معاملے میں تم پوری طرح سے غفلت میں ہو، تمہارے لئے ضروری ہے کہ احکام الہی کی تعمیل کے لئے بیدار ہوشیار ہو جاؤ اور مسجدوں ہی کے ہور ہو، نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درودوسلام بھیجو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
لو نزل من السماء نار ما نجا منها إلا أهل المساجد – اگر آسمان سے آگ اترے تو مسجد والوں کے سوا کوئی اور شخص اس سے نجات نہ پائے گا۔‘‘ نماز ادا کرنے میں اگر تم غفلت کرو گے تو تمہاری نماز اللہ تک نہ پہنچے گی ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‌إذَا ‌كَانَ ‌سَاجِدًا سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ افسوس ہے کہ تو کتنی تاویلیں (ردوبدل) کرتا ہے اور رخصتیں(سہولات آسانی نرمی ) تلاش کرتا ہے یاد رکھ تاویلیں کرنے والا بے وفا دھوکہ باز ہوتا ہے ۔ کاش کہ ہم ، محض عزیمت( سختی ومشقتی برداشت کرتے ہوئے شرعی احکام کی تعمیل کرنا عبادت میں جتنی تکلیف زیاد و برداشت کی جائے ، اسی قدر اجر بھی زیادہ ہوگا۔) پرعمل پیرا ہوتے ، اپنے اعمال میں اخلاص کرتے ، تب ہی اللہ کے احکام سے ہمیں خلاصی ہوتی ( نجات ملتی )۔ لہذا کیا حال ہوگا جب کہ ہم تاویلیں اور رخصت تلاش کر یں ،عزیمت بھی گئی اور اہل عز یمت بھی گزر گئے ،یہ تو رخصت کا دور ہے عزائم کا زمانہ گیا، یہ دکھادے (ریا)، نفاق اور ناحق مال چھین لینے کا دور ہے ۔ ایسے لوگ بہت ہیں کہ نماز وروزہ ، حج اور زکوۃ ،اور نیکی کے سب کام لوگوں کے (دکھاوے کے لئے کرتے ہیں ، اپنے خالق و مالک کے لئے نہیں کرتے ۔ آج کل لوگوں کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ مخلوق کی خوشی کو مقدم رکھیں مخلوق کو راضی رکھیں ، اس میں خالق اور اس کی منشاء ورضا مندی کا مطلق خیال نہ کر یں، اس لئے تم سب کے دل مردہ ہو چکے ہیں، نفس اپنے خواہشوں اور طلب دنیا کے ساتھ زندہ ہیں۔ زندگی وزندہ دلی یہ ہے کہ مخلوق سے کٹ کر خالق کے ساتھ جڑا جائے ، خالق کے ساتھ تعلق قائم کیا جائے ۔ کیوں کہ اس مقام پر ظاہری صورت کا تو اعتبار ہی نہیں ہے۔ دل کی زندگی تو یہ ہے کہ احکام الہی بجا لائے ، نہی سے بازرہے اور بلاؤں ، حادثوں پر صبر کر کے اور تقدیر کے امور میں سرتسلیم خم کرے۔
دین کی زندگی ، شیطان کی موت:
اے بیٹا! تقدیر کے امور پر راضی برضا ہو کرخودکواللہ کے سپردکر دے۔ پھر تو استقامت اختیار کر ، ہر کام کے لئے بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے، پھر اس پر عمارت کی ۔ رات اور دن کی تمام گھڑیوں میں اس پر ثابت قدم رہنا اور ہمیشگی کرنا چاہئیے۔ افسوس ہے کہ تولا پرواہ ہے، اپنے ہر کام میں غور وفکر کیا کر ، ہر معاملے میں فکر کرنا تو دل کا کام ہے، جب تو اس میں اپنے لئے بہتری ( نیکی ) پائے تو اللہ کا شکر ادا کر، اللہ کی نعمت پر شکر کرنا لازم ہے، اور جب تو اس میں اپنے لئے برائی دیکھے تو اس سے توبہ کر لے۔ اس غوروفکر سے تمہارادین زندہ ہوگا اور شیطان کی موت ہوگی ، اس لئے فرمایا کہ
‌تَفَكُّرُ ‌سَاعَةٍ ‌خَيْرٌ ‌مِنْ ‌قِيَامِ ‌لَيْلَةٍ’’ایک گھڑی کا فکر ساری رات کی عبادت سے بہتر ہے ۔
تھوڑے عمل پر کثیراجر:
اے محمد ﷺ کے امتیو ! تم اللہ کاشکر ادا کرو، کیونکہ اس نے تم سے پہلے گزر جانے والی امتوں کے زیادہ اعمال کی نسبت تمہارے تھوڑے عمل کو بھی قبول فرمالیا ہے۔ تم دنیا میں سب سے بعد میں آئے ہو جبکہ اللہ کی رحمت سے قیامت کے دن سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگے ۔ تم میں سے جو شخص صحیح وتندرست ہے، اس جیسا کسی امت کا اور کوئی صحیح نہیں ہے،تم امتوں کے سردار اور امیر ہوجبکہ وہ تمہاری رعایا ہیں، جب تک تو لوگوں سے اس کی نعمتوں میں جھگڑا کرتارہے گا، اور اپنے دکھاوے اور نفاق سے ان سے فائدہ اٹھا تا رہے گا تو تندرست نہ ہوگا ، اپنے نفس اور حرص وطمع میں گھرار ہے گا صحیح نہ ہوگا، ۔ جب تک تو دنیا میں رغبت کرنے والا ہے، تیرے لئے (روحانی طور پر) تندرستی وصحت نہیں ہے۔ جب تک تیرادل ماسوا اللہ پر بھروسہ کرنے والا رہے گا، تجھے اللہ پر اعتماد نہ ہوگا ، اور پھر تجھے ( روحانی طور پر صحت وتندرستی نہ ہوگی ۔
اللهم ارزقنا الصحة معك ‌وآتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے اللہ! ہمیں اپنا قرب اور صحت عطا فرما اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 20،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 21دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
تیسری مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے تیسری مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثالث فی عدم تمنی الغنی ‘‘ ہے۔
منعقده 8 شوال المکرم 545 بروز جمعتہ المبارک بوقت صبح بمقام مدرسہ قادر یہ، بغداد
اپنے نصیب پرخوش رہنے والا ہی خوش نصیب ہے:
اے فقیر! تو مالدار بننے کی آرزو نہ کر ، ہوسکتا ہے کہ مال )کی کثرت ( تیری تباہی کا باعث ہو۔اے بیمار! تو تندرست و صحت مند ہونے کی خواہش نہ کر ، شائد کہ تیری تندرستی تیری ہلاکت کا سبب بن جائے ۔ دانائی اختیار کر کے (اپنی محنت کے نتیجہ کومحفوظ کر ، ( اس حکمت عملی سے ) تیرا انجام قابل قدر ہوگا ۔ جو نعمت حاصل ہے اس پر قناعت کر ، اس سے زیادہ کی طلب نہ کر ، مالک کی رضا پر راضی رہ تمہارے مانگنے پر اللہ سے جو ملے گا، یہ تجربے کی اور آزمائی ہوئی بات ہے کہ اس میں راحت اور آسائش نہ ہوگی، ہاں جب بندے کے دل میں القائے الہی سے کوئی تمنا ڈال دی جائے ، اس میں (یقینا ) برکت ہوگی ، اس سے ہر طرح کی خرابی دور کر دی جائے گی ، عام طور سے تمہیں اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی ۔ بخشش صحت و تندرستی ، دین دنیا اور آخرت میں ہمیشہ کی صحت کا سوال کرنا چاہئے ۔ اور تجھے اسی پر اکتفا اور قناعت کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی سے کسی خاص چیز کی پسند کا اظہار کر کے اپنی خودمختاری نہ جتا، اور نہ اپنے جبر کا اظہار کر ، ورنہ بھاری شدید نقصان اٹھائے گا – اپنی جوانی اور طاقت اور مال سے ذات الہی اور اس کی مخلوق پر اترامت، کیونکہ اس کی پکڑ بڑی سخت ہے، دوسروں کی طرح تمہیں بھی اپنی گرفت میں لے لے گا۔ اس کی گرفت بڑی مصیبت میں ڈالنے والی ہے۔
دورنگی چھوڑ دے، یک رنگ ہوجا:
افسوں تجھ پر کہ تم صرف زبان سے مسلمان ہو، دل سے مسلمان نہیں ( یعنی مسلمان ہونے کا زبانی اقرار کیا ہے، دل سے اس کی تصدیق نہیں کی باتیں مسلمانوں والی ہیں ، کام مسلمانوں والے نہیں ، محفلوں میں، مجلسوں میں تو مسلمان ( دکھائی دیتا ہے لیکن اکیلے میں اس کے برعکس ہے، کیا تجھے معلوم نہیں کہ جب تو نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا، اور نیکی کے اور کام کرے گا ، اگر یہ سب کچھ خالص اللہ کے لئے نہیں تو تم پکے منافق ہو۔ اور اللہ کی رحمت سے بہت دور ہو، اب بھی وقت ہے کہ تو بارگاہ الہی میں اپنے تمام عملوں، باتوں اور گندے مقاصد سے توبہ کر لے۔ اللہ والے کے کسی کام میں نفاق ( خوشامد نہیں ہوتا ۔ وہ اعلی مقام ومرتبہ پانے والے ہیں ، وہ یقین والے ہیں ، اللہ کو ایک ماننے والے ہیں ، اخلاص والے ہیں ، اور اللہ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں اور مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں ، اس کی عطا کردہ نعمتوں اور احسانوں پر شکر ادا کرتے ہیں ۔ اپنی زبانوں سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ لوگوں سے دکھ اور تکلیفیں اٹھا کر اللہ کے سامنے ہنستے مسکراتے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کے بادشاہ نا کارہ ہیں، زمین پر بسنے والے مردے ہیں ، عاجز ہیں ،محتاج، پیار اور تنگ دست ان کے خیال میں بہشت اجاڑ اور دوزخ کی آگ بجھی ہوئی ہے، ان کی نظر میں نہ زمین ہے نہ آسمان ، نہ ہی ان میں کوئی رہنے والا ہے ، ان کی توجہ ہر طرف سے ہٹ کر ایک ہی طرف (مرتکز ہوگئی ۔ پہلے وہ دنیا داروں کے ساتھ تھے۔ پھر آخرت اور آخرت والوں کے ہمراہ ہوئے ۔ پھر دنیا وآخرت کے رب اور اس کے محبوبوں سے جا ملے اپنے دلوں سے خدا کے ساتھ سیر کر کے واصل بحق ہو گئے اور رستہ چلنے سے پہلے ہی رفیق کو پالیا اوراپنے اور اس کے درمیان درواز کھول لیا۔
مردان الہی جب تک اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں، اللہ (بھی) ان کا ذکر کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے سب گناہ جھڑجاتے ہیں۔ غیر اللہ سےگم ہوکر ان کا وجوداللہ کی ذات کے ساتھ موجود ہوتا ہے، کیونکہ یہ ارشاد الہی انہوں نے سن رکھا
‌فَاذْكُرُونِي ‌أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ” تم مجھے یادکرو میں تمہیں یادکروں گا تم میرا شکر کرو ناشکری نہ کرو ۔“ چنانچہ انہوں نے اس شوق کے باعث کہ اللہ ان کا ذکر کرے، وہ ہمیشہ ذکر الہی میں مصروف رہتے ہیں ، انہوں نےحدیت قدسی میں یہ ارشادالہی سنا:
‌أَنَا ‌جَلِيسُ مَنْ ذَكَرَنِي“جوشخص میراذ کر کرتا ہے، میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔‘‘
چنانچہ ا للہ والوں نے مخلوق کی محفلیں ترک کر دیں اور یا دالہی پر قانع ہوکر رب تعالی کے ہمنشیں ہو گئے ۔ علمبغیرعمل کے نفع نہیں دیتا:
اے لوگو! حرص نہ کرو تم تو سراپا حرص بن رہے ہو، یہ علم بغیر عمل سے نفع نہیں دیتا ۔ تمہیں اشد ضرورت اہے کہ یہ سیاہی جو سپیدی پر ہے (یعنی قرآن مجید ) ، اس پرعمل کرو، احکام الہی پر متواتر ہر دن اور ہر سال عمل کرتے رہو تا کہ اس کا نیک اجر تمہارے ہاتھ لگ سکے۔
علم عمل کو آواز دیتا ہے
بیٹا! تیراعلم تجھے پکارتا ہے کہ اگرتو مجھ پرعمل نہ کرے گا تو میں تیرے خلاف نقصان دہ دلیل و حجت ہوں، اگر مجھ پر عمل کرو گے تو میں تیرے موافق ( نافع دلیل و حجت ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: یهتف العلم بالعمل فإن أجابة وإلا ارتحل ترتحل بركته وتبقى حجتہ ترتجل شفاعته لك من مولاه وينقطع دخوله عليك في حوائجك إرتحل ليه وبقى قشورا فان لب العلم لا يصح
علم عمل کو آواز دیتا ہے اگر عمل سن لے تو بہتر ور نہ علم چل دیتا ہے، اس کی برکت اٹھ جاتی ہے، عالم کی محنت ( دھری رہ جاتی ہے ، تیرے علم کا اللہ تعالی سے شفاعت ( کرنے کا حق چلا جاتا ہے، حاجت اور ضرورت کے وقت اس کا تیرے پاس آ نا موقوف ہو جاتا ہے ۔ یعنی علم کا مغز رخصت ہو جا تا ہے اور اس کا پوست( چھلکا ) باقی رہ جاتا ہے ، اس لئے علم کا مغز و جوہرعمل ہے ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و تابعداری اس صورت میں صحیح ہو سکتی ہے کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہے اس پر عمل کیا جائے جب تم آپ ﷺ کے بتائے ہوئے تمام حکموں پرعمل کرلو گے تورسول اللہ ﷺ تیرے قلب اور باطن ( دونوں ) پر تو جہ فرماکر اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش فرمادیں گے، تمہاراعلم تمہیں آواز دیتا ہے اگرتم اسے نہیں سنتے ، جائے ، کیونکہ تمہارے پاس قلب سلیم نہیں ہے، اس کی بات دل اور باطن کے کانوں سے سنو اور اس پر توجہ کرو، کیونکہ تو اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے،عمل کے ساتھ علم تجھے اس عالم (اللہ تعالی جوکہ علم کا نازل کرنے والا ہے ) کے قریب کر دیتا ہے، جب اس حکم پر جو کہ علم اول ہے عمل کر لو گے تو تم پر دوسرے علم کا چشمہ پھوٹ نکلے گا،تمہارے پاس دوعلموں کے چشمے جاری ہو جائیں گے، تمہارے قلب میں حکم اور ظاہر و باطن کا علم بھر دیا جائے گا ، اس وقت تم پر اس نعمت (لازوال ) کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگی ۔ اس سے اپنے بھائیوں اور مریدوں کی غم خواری کرنا ۔ علم کی ز کوۃ یہ ہے کہ علم کو عام کر دیا جائے ، اورخلق خدا کو خدا کی طرف دعوت دی جائے ۔
اولیاء کرام نبی اللہ ﷺ کے نائب اور حقیقی وارث ہیں:۔
اے بیٹا! جس نے صبر کیا اس نے قدرت پالی ( گویا وہ قادر ہو گیا ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّمَا ‌يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ و صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا ۔‘‘
تم کسب ( کمائی کر کے کھاؤ، دین فروشی سے نہ کھاؤ، کسب و کمائی سے کھاؤ ، اور اپنی کمائی سے دوسروں کی بھی دل داری کرو، ایمان والوں کی کمائی صدیقوں کے طباق ہیں۔ ان کے کسب، پیشے اور محنت کی غرض صرف فقیروں اور مسکینوں کی خدمت کرنا ہے (یعنی ان کی کمائی میں فقیروں اور مسکینوں کے سوا کسی اور کا حصہ نہیں۔ وہ خلق خدا پر رحمت کر نے کی آرزو رکھتے ہیں ۔ اس خیرات سے ان کا مقصد رضائے الہی اور محبت حقانی کا حصول ہے، کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشا دسنا ہے: ‘ الْخَلْقُ كُلُّهُمْ ‌عِيَالُ ‌اللَّهِ، فَأَحَبُّ خَلْقِهِ إِلَيْهِ أَنْفَعُهُمْ ‌لِعِيَالِهِ – لوگ اللہ کی عیال ( کنبہ ) ہیں،اورلوگوں میں اللہ کا سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اللہ کی عیال کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے ۔
اولیاء اللہ خلقت کے اعتبار سے گونگے ، بہرے اور اندھے ہیں ، ان کے دل جب اللہ کے نزدیک ہوجاتے ہیں تو وہ نہ غیر اللہ کودیکھتے ہیں اور نہ غیراللہ کی بات سنتے ہیں، قرب الہی کے باعث انہیں شدت سے رونا آتا ہے، ان پر اللہ کی ہیبت طاری ہوتی ہے۔ اللہ کی محبت انہیں محبوب کے پاس قید کر دیتی ہے۔ وہ جلال اور جمال کے درمیان رہتے ہیں، دائیں بائیں دھیان نہیں کرتے ، پیچھے کی بجائے ان کی توجہ سامنے ہی رہتی ہے، انسان، جن اور فرشتے غرض سب طرح کی مخلوق ان کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہتی ہے حکم اور علم ان کے خادم بن جاتے ہیں، اللہ کا فضل ان کی غذا ہے، ، بوئے محبت ( انس ) انہیں تروتازہ رہتی ہے، اس کے فضل کے طعام سے کھاتے ہیں، اور اس کی انسیت کے شربت سے پیتے ہیں ۔ کلام الہی سننے کے شغل کے باعث خلقت کا کلام نہیں سنتے ،غرض ان میں اور عام خلقت میں زمین و آسمان کا فرق ہے ( اولیاء کرام ایک جنگل ومیدان میں ہیں اور دوسری مخلوق دوسرے میدان میں ) خلق خدا کو احکام الہی سناتے ہیں، اور جن باتوں سے اللہ نے روکا ہے ان سے روکتے ہیں ، وہ نبی ﷺ کے نائب اور حقیقی وارث ہیں ۔ ان کا کام خلقت کو دروازہ حق پر پہنچانا ہے، اور ان پراللہ کی حجت کو قائم کرنا ہے، سب چیز یں ان کے مقام پر رکھتے ہیں (یعنی ہر شے کوقرینے سے رکھتے ہیں۔ ہر صاحب فضل کو اس کے حصے کافضل دیتے ہیں ، وہ کسی کی حق تلفی نہیں کرتے ،اپنی طبیعتوں اور نفسانی خواہشوں کی پیروی نہیں کرتے ۔ اللہ ہی کے لئے محبت کرتے ہیں، اور اللہ ہی کے لئے نفرت کرتے ہیں، ان کا سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہے، کسی غیر کا ان میں کچھ عمل دخل نہیں ، جس کا مکمل طور پر یہ حال ہو جائے تو اس پر کمال محبت ختم ہو جا تا ہے۔ (یعنی تمام انسان ، جن اور فرشتے ،زمین و آسمان اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور اس کے تابع فرمان بن جاتے ہیں)۔ اے منافق! – مخلوق واسباب کے پجاری! اے رب تعالی کو بھول جانے والے ! تم چاہتے ہو کہ اللہ نے جو مقام ومرتبہ اپنے اولیاء کرام کو دیا ہے، وہ تجھے بھی مل جائے جبکہ تم بد خصائل میں مبتلا ہواللہ کے دربار میں تمہاری کوئی عزت نہیں ، تمہاری کوئی قدر نہیں ۔ پہلے مسلمان بنو ( اسلام لاؤ) پھر توبہ کرو۔ پھرعلم پڑھو اور عمل کرو۔ اخلاص پیدا کر، ورنہ تجھے ہدایت نصیب نہ ہوگی۔ تم پر افسوس ہے۔ مجھے تم سے کوئی دشمنی نہیں ،سوائے اس بات کے کہ، میں تجھ سے حق بات کہتا ہوں ، اور اللہ کے دین کی تعمیل میں تم سے نہیں ڈرتا ، میں نے مشائخ عظام کے کلام کی سختی اور سفر وفقر کی مشقت میں پرورش پائی ہے، جب میں تمہیں مخاطب کر کے کوئی کلام کروں تو اسے اللہ کی طرف سے سمجھو۔ اس لئے کہ اس نے مجھ سے کہلوایا ہے۔ جب تم میرے پاس آؤ تو اپنے آپ سے اور اپنے نفس سے اپنی خواہشوں سے خالی ہو کہ آؤ اگر تیرے دل کی آنکھیں ہوتیں توتو مجھے ان سب چیزوں سے خالی دیکھتا ۔مگر تیری الٹی سمجھ تیرے لئے خرابی کا باعث ہے۔
اے مرید!مجھ سے فائدہ اٹھانے کی خواہش رکھنے والے! ۔ میری صحبت میں بیٹھنے کی آرزو کرنے والے! میری اپنی حالت یہ ہے کہ جس میں نہ خلقت ہے نہ دنیا اور نہ آخرت ہے۔ لہذا جوشخص میرے ہاتھ پرتو بہ کرے اور میری صحبت میں رہے، اور میرے بارے میں حسن ظن رکھے، اور میرے کہے پرعمل کرے ، وہ بھی ان شاء اللہ ایسا ہی ہو جائے گا ، اللہ تعالی:
انبیاء کرام کی تربیت اپنے کلام ( وجی ) سے فرماتا ہے، اوراولیاء کرام کی تربیت اپنی حدیث (یہاں حدیث سے مراد اولیا اللہ کے دلوں میں القائے ربانی ہے)سے فرماتا ہے جو قلبی الہام ہے۔ اولیاء کرام، انبیاء کرام کے وصی اور خلفاء اور بچے ہیں، اللہ تعالی کلام کرنے والا ہے، کلام کرنا اس کی صفت ہے، اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے کلام کیا ، خالق وعلام الغیوب نے کلام کیا کسی مخلوق نے نہیں ، خالق نے موسی علیہ السلام سے بلا واسطہ ایسا کلام کیا جو انہوں نے سمجھ لیا اور یہ کلام ان کی عقل تک پہنچ گیا اللہ تعالی نے ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ سے بھی بلا واسطہ کلام فرمایا ، یہ قرآن مجید ایک مضبوط رسی ہے جو تمہارے اور رب کے درمیان تنی ہوئی ہے، جسے جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے پاس سے آسمان سے آپ ﷺ پر اتارا ، جیسا کہ اللہ نے فرمایا دیا اور اس (جبرائیل) نے خبر دے دی ۔ اس بات کا انکار کرنا جائز نہیں۔ اللهم اهد الكل وتب على الكل وارحم الكل الہی ہم سب کو ہدایت دے ، اور سب کی توبہ قبول کر اور سب پر رحم فرما
حکایت خلیفہ معتصم باللہ :
امیرالمومنین معتصم باللہ سے حکایت ہے کہ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اس بات کا اقرار کرتے ہوئے تو بہ کی کہ
خدا کی قسم میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس ظلم سے توبہ کرتا ہوں جو میں نے (امام احمد بن حنبل (علیہ الرحمہ) کے حق میں کیا تھا، باوجود اس کے کہ میں خوداس (ایذارسانی کا بانی نہ تھا، میرے علاوہ اور لوگ تھے جو اس کا سبب بنے تھے ۔( اس کے دور میں معتزلہ کا فتنہ کلام اللہ غیر مخلوق اور حادث ہے امام احمد نے اس کے خلاف دلائل دئیے ۔ خلیفہ معتصم معتزلہ کے زیر اثر تھا، اس کے دربار میں ان کا بڑا عمل دخل تھا خلیفہ نے امام صاحب کوکوڑے لگوائے اور قید کر دیا ۔ اس کے باوجودامام اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور آخر تک یہی فرماتے رہے کہ قرآن کلام الہی ہے اور غیر مخلوق ہے )
ایسے کام میں لگوجود نیاد آ خرت میں فائدہ دے:
اس مسکین جس معاملے میں بات کرنے کا فائدہ نہیں اس میں بات نہ کر مذہب کے بارے میں بے جاتعصب کو چھوڑ دے، اور ایسے کام میں لگو جو دنیا وآخرت میں فائدہ دے، تمہیں بہت جلد اپنی خبر معلوم ہو جائے گی ، پھر میری بات کو یاد کرے گا ، اور بہت جلد نیزہ بازی کے وقت دیکھ لو گے کہ سر پر خود نہ (پہنا ہوتو سر پر کتنے کاری زخم لگتے ہیں، اپنے دل کو دنیا کی سوچوں اور غموں سے خالی کر دو، کیونکہ عنقریب تم سے ان کی پوچھ کچھ ہوگی ، یا تو دنیا سے چلا جانے والا ہے ،د نیا میں عیش و آرام کی زندگی کی تمنامت کر، وہ تیرے ہاتھ نہ لگے گی ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
العيش عيش الأخرة عیش (بس) آخرت کی عیش ہے ۔“ اپنی امید کو گھٹا دینا کہ (اس سے) تجھے دنیا میں زہد حاصل ہو جائے گا، کیونکہ زہد کے معنی یہی ہیں کہ اپنی امید کوگھٹا دیا ،بروں کی دوستی چھوڑ دے۔ تجھ میں اور ان میں جوتعلق ہے اسے توڑ دے، اور نیکوں کے ساتھ ناطہ جوڑ لے۔ اگربروں میں اپنا کوئی قریبی ہو تو اس سے بھی الگ ہو جا۔ اگر کوئی دور والا نیکیوں کے ساتھ ناطہ جوڑے، اگربروں میں اپنا کوئی قریبی ہوتو اس سے بھی الگ ہو جاؤ، اگر کوئی دور والا نیکوں میں سے ہو تو اس سے واسطہ بنالے، جس سے تم محبت کرو گے اس کے اور تمہارے بیچ قرابت ہو جائے گی، جس سے تو دوستی کرنا چاہتا ہے اسے آزمالے، پر کھلے۔
کسی بزرگ سے پوچھا گیا کہ قرابت کیا چیز ہے؟ فرمایا: محبت جو چیز تیرے نصیب میں ہے اور جو چیز نصیب میں نہیں، دونوں کی طلب چھوڑ دے نصیب کی آرزو کرنا بے فائدہ و بے کار ہے ( وہ تو خود ہی بن مانگے ملے گا ۔ اور جو چیز نصیب میں نہیں ، اس کی تمنا کرنا جان کا عذاب اور رسوائی ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
من جملة عقوبات الله عز وجل يعبده طلب مالم يقسم له بندے کا ایسی چیز طلب کرنا جو اس کی قسمت میں نہیں لکھی گئی ، بھی اللہ کے عذابوں میں سے ایک ہے۔
اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کا مشاہدہ کرنا:
اے بیٹا اللہ کی بنائی ہوئی چیزیں اس کے ہونے کی دلیل ہیں بنے ہوئے کی مہارت و کاری گری سے متعلق غوروفکر کر تو اس کے بنانے والے تک پہنچ جائے گا۔ اس کے بنانے والا تجھے مل جائے گا۔) صاحب ایمان و یقین عارف کامل کی دو آنکھیں ظاہر میں ہیں اور دوباطن میں ہیں۔ وہ ظاہری آنکھوں سے زمین پر پیدا ہونے والی چیزیں دیکھتا ہے، اور باطنی آنکھوں سے آسمانوں میں پیدا ہونے والی چیز یں دیکھتا ہے، پھر اس کے دل سے سب پر دے ( حجاب ) اٹھا دیئے جاتے ہیں، اور وہ کسی تشبیہ اورکسی کیفیت کے بغیر اللہ کو دیکھتا ہے ۔ چنانچہ وہ مقرب ومحبوب الہی ہو ہے، اور محبوب سے تو کوئی راز چھپا ہی نہیں رہتا، کوئی پردہ نہیں رہتا ۔ جو دل مخلوق نفس وطبیعت ، حرص اور شیطان سے خالی ہو، اس سے پردے اٹھادیئے جاتے ہیں ، وہ اپنے ہاتھ سے زمین کے خزانوں کی کنجیاں پھینک دیتا ہے ، اس کے نزدیک قیمتی پتھر اور مٹی برابر ہوتے ہیں، تو عقل سے کام لے، میرے کہے پر غور کر ، سوچو۔ سمجھو، بلاشبہ میں نے کلام کو پالیا ہے، اس قیمتی کلام کے جو ہر میں ، اس کے باطن میں معنی خیز راز ہے۔
عقل مندی اس کے در کا رہور ہنے میں ہے:
اے بیٹا !مخلوق سے خالق کا شکوہ نہ کر، بلکہ اس سے کر کہ وہی قدرت رکھتا ہے، اس کے سوا کسی دوسرے کو قدرت نہیں ۔ مصیبتوں، بیماریوں اور صدقہ خیرات کا چھپانا اچھائیوں کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، اپنے دائیں ہاتھ سے جب صدقہ خیرات کرو تو اس بات کا خیال رہے کہ اس کا بائیں ہاتھ کو علم نہ ہو، نیا کے سمندر سے بچ کے رہو، کیونکہ اس میں بہت سی خلقت ڈوب چکی ہے۔ توحید والوں کے سوا کوئی نجات نہیں پاسکا۔ وہ بہت گہرا سمندر ہے، وہ ہر ایک کو ڈبو دیتا ہے ،سوائے اس امر کے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے دنیا کے سمندر سے نجات عطا فرمادے۔ جیسا کہ قیامت کے دن ایمان والوں کو دوزخ کی آگ سے نجات عطا فرمائے گا، کیونکہ سب کو دوزخ کے اوپر سے گزرنا ہوگا (اس لئے کہ پل صراط دوزخ پر قائم ہے ، اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے گا نجات عطا فرمائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا ‌وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا اورتم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا گز ردوزخ پر نہ ہو، تمہارے رب کے ذمہ یہ ضرور فیصلہ کن بات ہے۔ دوزخ کی آگ سے اللہ تعالی فرمائے گا کہ تو سرداور سلامتی والی ہو جا تا کہ میرے بندے جو مجھ پر ایمان لائے ،میرے لئے اخلاص رکھنے والے ،میری طرف رغبت رکھنے والے، میرے ساتھ رہ کر غیر کو چھوڑ دینے والے، تیرے اوپر سے (باامن گزر جائیں – یار شادالہی ویسا ہی ہو گا جیسا کہ نمرود کی آگ کو حکم ہوا جو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کیلئے جلائی تھی ، ارشادالہی یہ تھا: يَانَارُ كُونِي ‌بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ اللہ تعالی نے جب دنیا کے سمندر سے کسی کو نجات دینا ہوتی ہے تو ارشادفرماتا ہے: يا بحر الدنيا أمانا لا تغرق هذا العبد المراد المحبوب فينحو منه اے دنیا کے سمندر! میرے اس محبوب و مراد بندے کو نجات دے اور غرق نہ کرنا۔
چنانچہ اللہ کا محبوب دنیا کے سمندر سے نجات پا لیتا ہے (یعنی یہ شخص صاحب باطن ہو جا تا ہے جیسا کہ موسی علیہ السلام اور آپ کی قوم کو اس دریا ( نیل سے نجات عطا فر مائی وہ کریم اپنے فضل و کرم سے جسے جو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے اسے بے حساب رزق دیتا ہے۔ سب بھلائیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ دینا، نہ دینا — امیر کر دینا غریب کر دینا ،اس کے دست قدرت میں ہے، عزت وذلت بھی اس کے اختیار میں ہے ۔ اس کے کسی امر میں کسی غیر کا عمل دخل نہیں، صاحب دانش وہی ہے جو اس کے در کا ہور ہے ، اور غیر کے دروازے کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ مگراے بد بخت! میں دیکھتا ہوں کہ تو مخلوق خدا کو راضی کرتا ہے اور خدا کو خفا ،دنیا کی عمارت کھڑی کر کے آ خرت کو بر باد کرنے پے تلا ہوا ہے، تو جلد ہی گرفتار ہو جائے گا، تجھے وہی پکڑے گا جس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہے ۔ اس کی پکڑ کے کئی طریق ہیں۔ تجھے تیری ولایت سے الگ کردے، بیماری ، ذلت محتاجی میں مبتلا کر دے، تیرے اوپرسختیاں اور غم مسلط کر دے، مخلوق کی زبانوں اور ہاتھوں کو مسلط کر دے – تیرے نقصان پر ساری خلقت کواکسادے۔ اے غفلت میں پڑے انسان! ہوشیار ہو جا، بیدار ہو جا، اللهم يقضنا بك ولك آمين! و “البی! ہمیں اپنے ساتھ اور اپنے لئے بیدار کر!۔آمین!‘‘
دنیا کی طلب نے تجھے غافل کر دیا ہے:
اے بیٹا! تو دنیا کی طلب میں ایسا نہ بن جا جیسے کوئی رات کے اندھیرے میں لکڑیاں جمع کرنے والا ہوتا ہے، وہ نہیں جانتا کہ اندھیرے میں اس کا ہاتھ کہاں جاپڑے اور اس کے ہاتھ کیا لگ جائے ، میں دیکھ رہا ہوں کہ تو اپنے دھندے میں رات کولکڑیاں جمع کرنے والے کی طرح ہے۔ رات بھی اندھیری ہے، چاندنی نہیں، اورلکڑیاں جمع کرنے والے کے پاس روشنی (مشعل) بھی نہیں، وہ ایسے ریگستان میں ہے جہاں گھنی جھاڑیاں ہیں اور مار دینے والے موذی جانور بھی ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی موذی ( سانپ یا بچھو اسے ڈس لے ( اندھیرے میں ممکن ہے لکڑی کے دھوکے میں سانپ پر ہاتھ ڈال دے۔ تجھے چاہئے کہ تو لکڑیاں دن کو جمع کرے (یعنی غفلت چھوڑ کر ہوشیاری سے کام کر ۔ کیونکہ آفتاب کی روشنی تجھے ایذا دینے والی چیزوں پر ہاتھ ڈالنے سے بچائے رکھے گی ۔نیا کے دھندوں میں آفتاب تو حید وشرع اور تقوی کے ساتھ چل ، آفتاب تجھے نفس کی خواہشوں، حرص و شیطان اور غیر کے جال میں پھنسنے سے بچا تارہے گا، اور دنیا کی سیر میں جلد بازی کرنے سےتجھے روکے گا ۔
جلدی کا کام شیطان سے منسوب ہے:
تجھ پر افسوس ہے، جلدی نہ کر ، جس نے کام میں جلدی کی ، یا خطا کی ، یا اس سے قریب ہوا اور جوسوچ سمجھ کر سنبھل کر ،آ ہستگی سے چلا ، وہ مراد کو پہنچایا اپنی مراد کے قریب ہوا، جلدی کا کام شیطان سے منسوب ہے، اور آہستگی سے کام کرنا رحمان کی طرف سے ہے۔دنیا جمع کرنے کی حرص اکثر تمہیں جلد بازی (عجلت ) پر اکساتی ہے ، قناعت سے کام لے، اس لئے کہ قناعت ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم ہو نے کا نہیں ۔ جو چیز تمہاری قسمت میں نہیں اس کی تمنا کیوں کرتے ہو۔ وہ تمہارے ہاتھ بھی نہ لگے گی ۔ اپنے نفس کو روکو اور رب کی رضا پر شا کر رہو، اس کے غیر سے کوئی واسطہ نہ رکھو۔ انہی باتوں کا التزام کر ، یہاں تک کہ تو خدا شناس ہو جائے ، تب تو ہر چیز سے بے پرواہ و بے نیاز ہو جائے گا ۔ تیرادل معرفت کے اسرار سے آشنا ہو جائے گا اور باطن صفا ہو جائے گا ، اور رب تعالی تجھے تعلیم دے گا ، چنانچہ تمہارے سر کی آنکھوں میں دنیاء دل کی آنکھوں میں آخرت، باطن کی آنکھوں میں ماسوا اللہ، ذلیل ہوں گے ۔ تمہارے نزدیک اللہ کے سواکسی چیز کی عظمت، قدرومنزلت نہ رہے گی ۔ ایسے میں تم سب خلقت کے نزدیک صاحب عظمت ہو جاؤ گے۔
خوف خدا ہر بند دروازے کی چابی ہے:۔
بیٹا! اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے سامنے کوئی دروازہ بند نہ ر ہے تو اللہ سے ڈرو، کیونکہ خوف خداہر بند دروازے کی چابی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا ‌يَحْتَسِبُ’’جوشخص خوف خدا کرتا ہے، اللہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا، اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں کااسے گمان نہ ہو ۔ تو اللہ کی تقدیر سے اپنے نفس اور کنبے، مال اور دنیا کے دوستوں کے بارے میں موزانہ مت کیا کر کیا تجھے اس کی ذرا بھی حیا نہیں کہ تو اللہ پر حکم چلاتا ہے کہ اس کی تقدیرکو بدل دے، اس کے حالات کو بدل دے – کیا تو اس سے بڑا حاکم ہے۔ زیادہ علم رکھتا ہے، زیادہ رحمت والا ہے۔ (نہیں ہرگز نہیں تو بھی اور ساری خلقت بھی اس کے (عاجز بندے ہیں وہی تمہاری اور ساری خلقت کی حسن تدبیر کرنے والا ہے۔ اگر تم دنیا و آخرت میں اس کی صحبت میں ( مصاحبت میں) رہنا چاہتا ہے تو سکون اور خاموشی کے ساتھ لب بستہ ہو جا۔ زبان پر تالا لگا دے۔
جن کی دنیا میں حسن ، جن کی آخرت بھی حسن :
اولیاء اللہ اللہ کے سامنے بادب ہیں ، اس کے حضور کسی قسم کی بے جا حرکت نہیں کرتے جب تک اس کی طرف سے ان کے دلوں کو واضح حکم نہ آ جائے ، وہ ایک قدم بھی اٹھانے کے روادار نہیں، وہ مباح چیزوں سے نہ کوئی چیز کھاتے ہیں نہ لیتے ہیں، نہ نکاح کرتے ہیں ، نہ اپنے اسباب کو برتتے ہیں ، جب تک کہ الہام کے ذریعے ان کے دلوں میں اس کی واضح اجازت نہ مل جائے ، وہ خدا کی ذات کے ساتھ قائم ہیں، جو ذات دلوں اور نگاہوں کو پلٹنے والی ہے ، انہیں اپنے رب کے بغیر قرار ہی نہیں حتی کہ دنیا میں وہ دلوں کے ساتھ چلتے ہیں اور آخرت میں اپنے جسموں کے ساتھ ملیں گے ۔ اللهم ارزقنا لقائك في الدنيا والاخرة للذنا بالقرب منك والرؤية لك اجعلنا ممن يرضى بك عما سواك ‌ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی دنیا اور آخرت میں اپنی ملاقات ہمارے نصیب کر اپنی قربت اور زیارت سے ہمیں لذت عطا فرما ہمیں ان لوگوں میں سے کر دے جو تیرے ما سوا کو چھوڑ کر تجھ سے راضی ہیں ۔ اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے گی‘‘ – آمین!
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 28،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 25دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
چوتھی مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چوتھی مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الرابع فی التوبۃ ‘‘ ہے۔
منعقده 10 شوال المکرم 545 بروز اتوار بوقت صبح ، بمقام خانقاہ شریف
جس پر بھلائی کا دروازہ کھلا ہے ، وہ اسے غنیمت جانے:
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: ‌مَنْ ‌فُتِحَ ‌لَهُ بَابٌ مِنَ الْخَيْرِ فَلْيَنْتَهِزْهُ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي مَتَى يُغْلَقُ عَنْهُو جس کسی کے لئے بھلائی کا دروازہ کھولا جائے ،اسے چاہئے کہ غنیمت جانے ، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ وہ دروازہ اس پر کب بند کر دیا جائے ۔
اے لوگو! تم پر جب تک زندگی کا دروازہ کھلا ہے اسے غنیمت سمجھو، اس لئے کہ وہ عنقریب بند ہو جانے والا ہے۔ نیکی اور بھلائی کے کام کرنے کی جب تک تم قدرت رکھتے ہواسے غنیمت جانو ، جب تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے،اسے غنیمت سمجھو۔ اس میں داخل ہو جاؤ ،نیک وصالح بھائیوں کی ملاقات کا جو دروازہ کھلا ہے، اسے غنیمت جانو ، اے لوگو! جو تم نے توڑڈالا ہے اسے بنا ڈالو، جو کچھ نا پاک کیا ہے، اسے دھو ڈالو ۔ جو گدلا ( گندا کیا ہےاسے صاف کرلو، جو بگاڑ لیا ہے اسے سنوار لو، اوروں سے جولیا ہے، اسے لوٹا دو، اپنی نافرمانی اور بھاگ دوڑچھوڑدو اور اللہ کی طرف چلے آؤ ۔
مخلوق کا بندہ یا خالق کا بندہ:
اے بیٹا! یہاں خلق و خالق کے سوا اور کوئی نہیں ہے، اگر خالق کے ساتھ رہے تو اس کا بندہ ہے ۔ اگر مخلوق کے ساتھ رہے تو اس کا بندہ ہے، جب تک دل سے ویرانوں اور چٹیل میدانوں کو طے نہ کر لے، اور باطن سے ہر ایک چیز سے جدا نہ ہو جائے ، تو کسی شمار قطار میں نہیں ، کیا تجھے نہیں معلوم کہ طالب مولی اس کے ہمراہ ہے مگر سب سے جدا ہے۔ یقین جانو کہ مخلوقات میں سے ہر ایک چیز بندے اور خدا میں حجاب ہے ۔ جس چیز پر نگاہ ٹھہر جائے وہی حجاب بن جاتی ہے۔
کاہلی وسستی محرومی وندامت کا باعث بنتی ہے ۔
اے بیٹا! کابلی وسستی نہ کر، کیونکہ کاہل ہمیشہ محروم رہتا ہے ، اور ندامت اس کے گلے کا ہار بن جاتی ہے، تو اپنے عملوں کواچھابنا کیونکہ اللہ تعالی نے دنیاو آخرت میں تیرے لئے اچھائی کی ہے ،ابومحمد نبی علیہ الرحمہ کہا کرتے تھے الھــم اجعلنا جيدين ، اے اللہ انہیں کھرا (اچھا) کردے‘‘جبکہ وہ اللهم اجعلنا جیادا کہنے کا ارادہ فرماتے تھے لیکن خوف کے باعث ان کی زبان ان کا ساتھ نہ دیتی تھی ، جوفرمان آپ زبان سے ادا نہ کر سکے، اس کا مفہوم یہ تھا ’الہی! ہمیں خالص مخلص بنا دے ۔ جس نے لذت پائی اسے معرفت الہی حاصل ہوئی ۔ خلقت کے ساتھ اچھا میل ملاپ شرعی میل جول ہوتو اس میں کچھ بھلائی اور نیکی نہیں قدرومنزلت بھی کچھ نہیں ، اہل صفا اور برگزید ہ لوگ عملوں کے مقبول اورر دہونے کا خاص علامتوں سے جان لیتے ہیں۔
دنیا میں جو بونا ہے، آخرت میں وہی کا ٹنا ہے:
اے بیٹا! تو دعا کا ایک تسلسل قائم کر دے اور اللہ کی رضا کی طرف متوجہ ہو، اگر دل کو کوئی اعتراض ہوتو زبان سے دعا نہ مانگ ، کیونکہ تیرا کام تو مانگنا ہے، دینا نہ دینا تو اللہ کی مرضی ہے، تو دعا کرنے میں غفلت نہ کر) زبان ودل ، دونوں کویکسوکر کے دعا مانگ، دنیا میں انسان نے جو بھلائی یا برائی کی ہے، قیامت کے دن یاد آئے گی ، اس وقت شرمندہ ہونا کچھ فائدہ نہ دے گا، اور اسے یاد کرنا بیکار جائے گا، عزت تو تب ہے کہ مرنے سے پہلے سب کیا کرایا یاد کرو، فصل کی کٹائی میں لگے لوگوں کو دیکھ کرکھیتی باڑی اور بوائی کی فکر فضول ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: الدنيا مزرعة الأخرة فمن زرع خيرا حصدا غبطة ومن زرع شرا حصد ندامة دنیا آخرت کی کھیتی ہے، جس نے بھلائی بوئی ، بھلائی پائے گا ، اور باعث مسرت ہوگا، جو برائی ہوئے گا۔ وہاں ندامت اٹھائے گا۔
اگر مرتے وقت تمہیں اس کا خیال آیا تو اس وقت کا خیال کرنا ذرا بھی فائدہ نہ دے گا۔ اللهم نبهنا من نوم الغافلين عنك الجاهلين بك . آمين! الہی! ہمیں غافلوں اور جاہلوں کی نیند سے ہوشیار و بیدار کر آمین!‘‘
قرآن وسنت پر عمل کرنے سے ہی نجات ہے:
اے بیٹابروں کی صحبت تمہیں نیکوں سے بدگمان کر دے گی اللہ کی آخری کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے سائے تلے چل کر ہی نجات مل سکتی ہے۔
اللہ سے ایسی حیا کروجیسا کہ حیا کا حق ہے:۔
اے لوگو! اللہ سے ایسی حیا کروجیسا کہ حیا کا حق ہے۔ چند روزہ زندگی کو غفلت سے ضائع نہ کرو، تم ایسی چیزیں جمع کرنے میں لگے ہوجنہیں کھا نہیں سکتے ۔ امید لگائے بیٹھے ہو، مگر پانہیں سکتے ۔ ایسی تعمیر یں کر رہے ہو جن میں رہ نہیں سکتے ، رضائے الہی کے مقام سے یہ سب کچھ تمہارے لئے حجاب ہے، اللہ کے ذکر نے عارفوں کے دلوں کو اپنے دائرہ اثر میں لے رکھا ہے اور ماسوا کے ذکر کو بھلائے دیتا ہے یہ مرتبہ پانے پرجنت میں ٹھکانہ پایا، جنتیں بھی دو ہیں:ایک نقد ،ایک ادھار(جنت موعودہ)
کہ جس کا وعدہ ہے، نقدی جنت دنیا میں ہے یعنی : راضی برضارہنا، دل کا اللہ سے قریب ہونا ، اور اس سے سرگوشی کرتے رہنا ، دل اور ذات الہی کے درمیان سے پردوں کا اٹھ جانا ، ایسے دل والے کو تنہائی ( خلوت میں بلا کیف وتشبیہ کے ذات الہی کا ساتھ رہتا ہے۔ لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اس کی مثل کوئی چیز نہیں ، وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔‘‘
جنت موعودہ وہ ہے کہ جس کا اللہ تعالی نے اہل ایمان کے لئے وعدہ فرمایا ہے، جس میں بغیر کسی حجاب کے اللہ کا دیدار ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر خیر اللہ کی طرف سے ہے، اور ہر شر غیر اللہ کی طرف سے ہے ، اللہ کی طرف رخ کروتو خیر ہی خیر ) ہے۔ اس سے رخ موڑ وتو شر ( ہی شر) ہے۔
جس عمل پر بدلے کی طلب ہو، وہ عمل تیرے لئے ہے اور جس عمل سے اللہ کی رضا مقصود ہو، وہ عمل اللہ کے لئے عمل کا بدلہ چاہو گے تو بدلے میں مخلوق ملے گی ۔ جب عمل خالص اللہ کے لئے کرو گے تو اس کی جزا اللہ کا قرب اوراس کا دیدار ہو گا، یاد رکھو بدلے کی امید میں عمل ہرگز نہ کرو ، ذات الہی کے مقابل دنیا کیا چیز ہے، آخرت کیا چیز ہے اور ما سوا اللہ کیا چیز ! نعمت کی آرزو نہ کر نعمت دینے والے کی جستجو کر، مکان کی تعمیر سے نیک ہمسائے کی خواہش کر ، بعد میں تلاش بے کار ہے، وہ ہر شے سے پہلے ہے، ہر ایک شے کا بنانے والا ہے، اور ہرشے کے بعد ہے۔
سلطنت و ولایت تب ملتی ہے جب …..
موت کو یا دکر، مصیبتوں پرصبر کر ، اور ہر حال میں اللہ پر توکل رکھ۔ یہ تینوں چیزیں جب تم پر تمام ہو جائیں تو تجھے۔ ولایت مل جائے گی ۔- موت کو یاد کرنے سے تم دنیا سے بے رغبت ہو جاؤ گے۔ اللہ سے تمہاری جو امیدیں وابستہ ہیں، ان میں صبر سے کامیابی ہوگی ، تو کل کے باعث تمہارے دل سے سب چیز یں نکل جائیں گی اور تیرارب سے تعلق جڑ جائے گا ، دنیا و آخرت اور ما سوا اللہ کا خیال نہ ر ہے گا، مشرق مغرب، جنوب شمال او پر نیچے، غرض ہرسمت سے راحت و حمایت ملے گی ، اوراللہ کی حفاظت میں آ جاؤ گے، خلقت میں سے کوئی تمہیں ایذا نہ پہنچا سکے گا۔ خوف کے دروازے اور اطراف بند کر دی جائیں گی۔
تم بھی انہی میں شامل ہو جاؤ گے جس پاک جماعت کے حق میں یہ ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّ ‌عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ”میرے(خاص) بندوں پر تیرازورنہ چلے گا۔
اہل توحید اورمخلص بندے ( جن کا ہر عمل اللہ ہی کے لئے ہوتا ہے، کسی کو دکھاوے کے لئے نہیں۔ ان پر شیطان کا زور کیسے چل سکتا ہے ، منزل کے اخیر میں قوت گویائی حاصل ہوتی ہے ،منزل کے آغاز میں نہیں ۔ اس کے شروع سے کلی طور پر خاموش رہنا ہے ۔ اور اس کی انتہا میں بولنا ہی بولنا ہے (یعنی کل گویائی ہے ) ۔ مخلص کا ظاہر نہ دیکھو۔ اس کا ملک دل میں اور بادشاہت اس کے باطن میں ہے۔ ایسے (مخلص ) لوگ بہت کم ہیں کہ جنہیں ظاہری اور باطنی سلطنت ملی ہو ( یعنی ظاہری و باطنی بادشاہت کے جامع ہوں۔)
قلب کے رب سے واصل ہونے کو کامل ہونا چاہئے:
تو اپنی حالت کو ہمیشہ چھپائے رکھ، یہاں تک کہ تیرادل کامل ہو جائے ، قلب کے رب سے واصل ہونے کو کامل ہونا چاہئے ۔ جب کامل ہو گئے ، اور جہاں پہنچنا تھا پہنچ گئے ، اس درجہ کمال پر کچھ پرواہ نہ کر ، اب تم کیسے پرواہ کرو گے حالانکہ تم نے اپنے حال کو ثابت کر دکھایا اور اپنے مقام کو قائم ومستحکم کر لیا ہے، اور تیرے حفاظت کرنے والوں نے اپنی حفاظت میں لے لیا ہے ، خلقت تیرے لئے ستونوں اور جنگل کی لکڑی کی طرح ہے، ان کی مدح سرائی اور برائی کرنا تیرے لئے ایک سا ہے، ان کا دھیان دینا اور بے دھیانی کرنا برابر ہے ، اب تو تمہی ان کی بنی کے بنانے والے، اور بگڑی کے بگاڑنے والے ہوں، اور اپنے خالق کی اجازت سے ان میں تصرف کرنے والے ہو، کھولنا اور با ندھنا ( حل عقد ) تیرے اختیار میں ہوگا ، حکومت تیرے دل کے ہاتھوں میں ہوگی اور شناخت تیرے باطن کے ہاتھوں میں آ جائے گی۔ جب تک یہ سب درست حالت میں نہ ہو کوئی بات نہ کر ، ورنہ عقل سے کام لے۔
کسی صاحب بصیرت کا دامن تھام لے :۔
کسی لالچ میں نہ پڑ، تیرے دل کی آنکھیں نہیں ہیں کسی ایسے کو ڈھونڈ جو دل کی آنکھیں رکھتا ہو، صاحب بصیرت ہو، جو تیری رہنمائی کر سکے ۔ اس کا دامن تھام لے۔ اس کی رائے پر عمل کر ، اس کے حکم کی تعمیل کر اس سے سیدھی راہ جان لے، تجھے کچھ خبرنہیں کسی جاننے والے علم رکھنے والے کا کھوج لگا۔ اس کی رہنمائی میں سیدھی راہ چلتے جا، تا کہ تجھے معرفت کی حقیقت حاصل ہو جائے ، اس وقت راہ سے بھٹکے ہوئے تیری طرف رجوع کر لیں گے ، راہ بھولے ہوئے تیرے پاس سہارالیں گے اور تو فقیروں اورمسکینوں کے لئے خوان بن جائے گا، تیری سمت ہر آنے والا روحانی غذا سے سیر ہوگا۔
خوش اخلاقی سے جواں مردی کی شان ہے:
اللہ کے رازوں کی حفاظت کرنا اور اس کی مخلوق کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا جواں مردی کی شان ہے ۔ ( خوش اخلاقی پر کچھ خرچ نہیں آتا لیکن یہ بندے کا وقار بڑھادیتی ہے۔ مولی کریم کی تلاش اور اس کی رضا مندی کے لئے اس کے ماسوا کو چھوڑ دینا تم میں ہے کہاں! طالب مولی بننے سے تو کہیں دور ہے، کیاتم نے اللہ تعالی کا یہ ارشادنہیں سنا: ‌مِنْكُمْ ‌مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا ‌وَمِنْكُمْ ‌مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ
“تم میں سے کوئی دنیا کا طلب گار ہے، اور کوئی آخرت کو چاہنے والا ہے ۔‘‘
دوسری جگہ ارشادفرمایا: يُرِيدُونَ ‌وَجْهَهُ’’انہیں صرف رضائے الہی کی جستجو ہے۔ اگر تیرا نصیب ساتھ دیتا تو غیرت الہی تیرے شامل حال ہوتی جو تجھے ہر ایک ماسوا اللہ سے چھڑالیتی ، اور تیرا ہاتھ پکڑ کر تجھے اللہ کی درگاہ پر لا کھڑا کرتی ، اس لئے کہ
هُنَالِكَ ‌الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ”یہاں اللہ کی ہی ولایت ہے جو کہ حق ہے۔“ تو اب بھی کوشش کر جب تجھے یہ مقام ومنصب حاصل ہو جائے گا تو بغیر کسی محنت ومشقت کے دنیا اور آخرت تیرے خادم بن کر حاضر ہوں گے۔ تیرے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں گے۔
ہر خطرہ ووسوسہ کی ایک خاص علامت ہے:
تو اللہ تعالی کا درواز کھٹکھٹا اوراس پر ثابت قدم رہ۔اللہ کے در پر پڑار ہے گا تو ہر طرح کے خطرات،خطرۂ نفس، خطر حرص خطرہ قلب، خطرۂ شیطان اور خطر فرشتہ غرض سب طرح کے خیالات و خطرات ظاہر ہو جائیں گے ۔ اس وقت تم پر کھل جائے گا کہ کون سا خطرہ حقانی ہے اور کون سا وسوسہ شیطانی ہے، ہر ایک کی خاص علامت ہے، اس خاص علامت سے تم پہچان لو گے۔ اس موقع ومقام پر تیرے پاس خطرہ ر بانی آئے گا ( جسے الہام کہتے ہیں )، یہ خطرۂ ربانی تجھے – ادب سکھائے گا ، ثابت قدم کرے گا۔کھڑا کرے گا۔ بٹھائے گا، حرکت دے گا، سکون دے گا ، نیکی کا حکم دے گا، برائی سے بچائے گا ۔
وقت سے پہلے اور مقدر سے بڑھ کر کچھ نہیں
اے لوگو! تم کثرت اور کمی کی ، اور اگلے اورپچھلے کی طلب نہ کرو، کیونکہ تقدیرتم میں سے ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ حصہ مقرر کئے ہوئے ہے، اور وہی کچھ ہونے والا ہے، اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کی کتاب (تقدیر) اور روزانہ کی مخصوص تحریر نہ ہو، وقت سے پہلے اور مقدر سے زیادہ کچھ نہیں )۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: فرع ربك من الخلق والخلق والرزق والأجل جف القلم بما هو كائنه “تمہارارب ہر ایک مخلوق کی پیدائش ، رزق اور زندگی ( کی مدت ) لکھ کر فارغ ہو چکا ہے، ہونے والی سب چیزیں لکھ کر قلم خشک ہو گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہرکسی کا مقدر متعین کر دیا ہے، اب وہ ہر شے سے فارغ ہو چکا ہے، اب اس کی قضا سابق ہے، جو علم بن کر سامنے آتی ہے، اس (قضا) پر ہونے اور نہ ہونے اور کسی الزام کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب کسی شخص کو اپنی بریت و بچت کے لئے کوئی عذرتر اشنا روانہیں کہ وہ تقدیر ونصیب کے حکم پر کوئی انگلی اٹھائے کوئی اعتراض کرے، جو ہونا ٹھہر چکا ہے ، وہ تو ہوکر رہے گا ، جو کچھ پہلے سے طے شدہ ہے، اسے تو ہونا ہی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے : ‌لَا ‌يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ
“وہ جو کچھ کرتا ہے، اس کے بارے میں کچھ نہ پوچھا جائے گا لوگوں سے ان کے اپنے کئے پر پوچھا جائے گا ۔ اللہ کی موافقت اور اس سے محبت باعث خوش خبری ہے:
اے لوگو! تم اس ظاہر پرعمل کرو جو سفیدی پر سیاہی کی صورت میں ہے، یعنی لکھے ہوئے پر ایسا کرنے سے تم میں باطنی عمل کے لئے شوق پیدا ہوگا ، اس ظاہر پر عمل کرنے سے باطن ( کی زباں) کو سمجھنا آجائے گا، اس (دائرہ کار میں: – پہلے تمہارا باطن سمجھتا ہے۔ پھر اس سے تمہارے قلب پر اظہار ہوتا ہے، پھر قلب تمہارے نفس پر املا کرتا ہے، پھر نفس زبان پر املاکرتا ہے،آخر میں زبان مخلوق خدا پر املا کرتی ہے۔
امر کا یہ سلسلہ ان ذرائع سے خلقت کے فوائد اورمصلحتوں کے لئے یکے بعد دیگرے جاری ہے ۔ اللہ کی موافقت کرنا اور پھر اس سے محبت کرنا تمہارے لئے خوش خبری کا باعث ہے، اللہ کواپنا محبوب سمجھنا مبارک ہے ۔
محبت کا دعوی اور قرینہ محبت سے تہی دامن:
تم پر افسوس اس بات کا ہے کہ تمہیں اللہ سے محبت کا دعوی تو ہے مگر تم اس بات سے بے خبر ہو کہ میت کا قرینہ کیا ہے۔ محبت کے لئے کچھ شرطیں ہیں:
اپنے اور غیر کے معاملے میں اس کے تابع رہنا، اس کے غیر کو نہ چاہناء اس سے انس رکھنا ،اس کے ساتھ رہنے سے وحشت نہ پکڑنا، بندے کے دل میں جب اللہ کی محبت قرار پکڑتی ہے، تو اسی سے دل لگتا ہے ۔ جو چیز اس سے رو کے، بری لگتی لہذا تو اپنے (محبت کے جھوٹے دعوے سے توبہ کر لے ۔ اللہ کی محبت گوشہ نشینی ( خلوت ) ، آرزواور جھوٹ اور نفاق اور بناوٹ سے نہیں ملا کرتی ، ان سب سے تو بہ کر ، اور پھر تو بہ پر ثابت قدم رہ توبہ کرنا کمال نہیں تو بہ پر قائم رہنا کمال ہے – پودالگا نا کوئی شان کی بات نہیں ، شان اور فخر کی بات تو پودے کی استقامت، اس کی شاخیں پھوٹنے اورپھل لانے میں ہے۔
سرکار غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ تنگی اور ترشی ، امیری اور غریبی،سختی اور نرمی ، بیماری اور تندرستی ،نیکی اور بدی ،ملنے اور نہ ملنے ، ہر حال میں تقدیر الہی کی موافقت پکڑو۔ میرے خیال میں سرتسلیم خم کرنے اور اس کی رضا میں راضی رہنے سے بڑھ کر اور کوئی دوا نہیں ۔ اللہ تعالی جب کسی چیز کا حکم دے، اس سے وحشت نہ دکھاؤ ،یعنی اس سے گھبراؤ نہیں اور نہ ہی اس میں جھگڑا کرو ، اس کا گلہ یا شکایت اس کے غیر سے نہ کرو، غیر سے شکوہ کر نے سے تم پر مصیبت اور بڑھ جائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ خاموشی اور سکون اختیار کرو اور گمنامی میں رہو ۔ اس کے سامنے ثابت قدم رہو، اور جو کچھ وہ تمہارے ساتھ اور تمہارے معاملات میں کرے دیکھتے رہو اور اسے بخوشی دیکھتے جاؤ ، اس کے تصرفات ( تغیر و تبدل ) پر خوشی کا اظہار کرو کہ یہ سب اس کی طرف سے ہے جسے محبوب مانا ہے ، اگر تم اس کے ساتھ اس طرح پیش آؤ گے تو وہ وحشت کو انسیت سے اور رنج کو خوشی سے ضر در بدل دے گا۔ (اس لئے کہ رنج اور کلفت میں ہی انعام ہے، اور پھر جو کچھ محبوب کی طرف سے آئے ، اس میں سراسر خوشی ہی خوشی ہے۔ ہم اس کے حضور میں بس یہی دعا کرتے ہیں: اللهم اجعلنا في جنايك ومعك ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ یا الہی ! تو اپنی حضوری میں ہمیں اپنے ساتھ رکھے اور دنیا میں بھلائی عطا فرما، اورآ خرت میں بھلائی عطا فرمااور عذب دوزخ سے بچائے رکھ آمین۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 39،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 31دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
پانچویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پانچویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الخامس فی سبب حب اللہ للعبد ‘‘ ہے۔
منعقد ہ 12شوال 545 بروزمنگل بوقت عشاء، بمقام :مدرسہ قادر یہ بغداد شریف
کفایت الہی کو کافی سمجھنا ہی حقیقی بندگی اور سچی غلامی ہے: اے بیٹا اللہ کی بندگی کہاں ہے! تو حقیقی بندگی اور سچی غلامی کی جستجو کر اپنے سب کاموں ، اپنی تمام ضروریات کو اللہ کی کفایت کو ہی کافی سمجھے ۔ تو تو اپنے مالک سے بھا گا ہوا غلام ہے، اس کی طرف لوٹ چل، اس کے سامنے اپنا سر جھکا دے، اس کے تابع ہو جا، اس کے حکم کی تعمیل کر اور اس کے منع کئے ہوئے سے بازرہ ، اس کی قضا پرصبر اور موافقت کر اور تواضع اختیار کر ، جب ان باتوں میں تو کمال حاصل کر لے گا تو تیری بندگی اور غلامی اپنے آقا کے لئے کامل ہو جائے گی ، اور وہ تیرے سب کاموں میں کفیل ہوگا ، ارشاد باری تعالی ہے: أَلَيْسَ اللَّهُ ‌بِكَافٍ عَبْدَهُ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں!‘‘
جب اللہ کے لئے تیری غلامی صحیح ہو جائے گی تو وہ تم سے پیار کرے گا۔ (تمہیں اپنا محبوب بنالے گا اور تمہارے دل میں اپنی محبت کو اور زور دار کر دے گا ۔ اس کے ساتھ تمہارے انس اور اس کی قربت بغیر کسی مثقت اور بغیر جستجو کے حاصل ہو گی ، تجھے اس کے غیر کی محبت اچھی نہ لگے گی، پھر تو اس سے ہر حال میں راضی رہے گا۔اب اگر وہ چاہے:
ز مین کوفراخ ہونے کے باوجود تم پر تنگ کر دے، کشائش و وسعت کے باوجودتم پر دروازے بند کر دے،تمہیں اس سے کسی طرح کی شکایت نہ ہوگی ، اب تم نہ غیر کے در پر جاؤ گے اور نہ غیر کے ہاں کھانا کھاؤ گے ایسے میں تم حضرت موسی علیہ السلام سے مل جاؤ گے، کہ اللہ تعالی نے ان کے حق میں ارشادفرمایا:
‌وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ اور دودھ پلانے والی ( دائیوں کا دودھ ان پر پہلے ہی حرام کر دیا۔‘‘
ہمارا پاک پروردگار ہر چیز کا دیکھنے والا ہے، ہر چیز میں حاضر ہے، ہر چیز کے ساتھ ( نگہبان ) اور ہر چیز سے قریب ہے، ۔ تم کسی حالت میں اس سے غائب ( اوجھل نہیں ہو سکتے ،معرفت کے بعد انکار کرنا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ پہچان کر ایسےبن جانا کہ جیسے جانتے نہیں انتہائی تکلیف دہ اور تلخ ہے۔
صبر میں دنیا اور آخرت کی راحت ہے:
تجھ پر افسوس ہے کہ تو اللہ کو پہچانتا ہے، اس کے باوجود اس سے منہ پھیرتا ہے اوراس کا انکار کرتا ہے ۔ اس سے منہ پھیر، ورنہ ہر طرح کی خیر سے محروم کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ صبر کر (حوصلہ رکھ ) ، ثابت قدم رہ، غیر کی طرف نہ جھک ، کیا تجھے خبر نہیں کہ جس نے صبر کیا ، وہ قادر ہو گیا ، پھر یہ تیری کیسی سمجھ ہے، اور تجھے کیسی جلدی ہے ، ذراسوچ
ارشاد باری تعالی ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ”اے ایمان والو! صبر کرو اور صبر کی تاکید کرو، اور آپس میں ربط پیدا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، تا کہ تم فلاح پاؤ۔“
صبر کے بارے میں قرآن مجید میں بہت سی آیتیں آئی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صبر میں کیا کیا نعمتیں اور عطائیں ہیں،اچھابدلہ ہے بخشش ہے،صبر میں دنیا اور آخرت کی راحت ہے،صبر کو اپنے اوپر لازم کرلو، کیونکہ تم نے دین ودنیا کےلئے صبر کی خوبیاں جان لی ہیں۔ قبروں کی زیارت ضرور کیا کرو، اللہ کے نیک بندوں (صلحاء کے ہاں آنا جانا اور بھلائی کے کام کرنا اپنے اوپر لازم سمجھو لو، ایسا کرنے سے تمہارے سب کام درست ہو جائیں گے ،سب بگڑے کام بن جائیں گے تم ان لوگوں جیسے نہ ہو جاؤ ہ کہ جب انہیں نصیحت کی جائے تو قبول نہ کریں، اور جب وہ سنیں تو اس پر عمل نہ کر یں۔
چار چیزوں سے دین جا تارہتا ہے:
( یادرکھو ) ان چار چیزوں سے دین جا تا رہتا ہے۔ جن چیزوں کے بارے میں علم ہے، ان پرعمل نہیں کرتے ، جس چیز کے بارے میں علم نہیں ، اس پر عمل کرتےر ہو ؟ جسے تم جانتے نہیں ہوا سے حاصل نہیں کرتے ،( جاہل ہی رہتے ہو ) علم حاصل کرنے والوں کو روکتے ہو کہ علم حاصل نہ کریں۔
اللہ کے دشمنوں سے مشابہت اختیار نہ کرو
اے لوگو! جب تم مجلس ذکر میں آتے ہو تو تمہارے آنے کا مقصد محض سیر وتفریح ہوتا ہے، تم علاج کے ارادے سے حاضر نہیں ہوتے ہو ، اور واعظ کے پندونصائح پر کوئی دھیان نہیں دیتے ، بلکہ اس کی بھول ، خطا اورلغزش پر نظر رکھتے ہو اور اس کی ہنسی اور مذاق اڑاتے ہو، سر ہلا ہلا کر اللہ کے ساتھ جوا کھیلتے ہو، ایسا کر کے خطرات میں پڑتے ہو، سچے دل سے سر کو نہیں ہلاتے، ان حرکتوں سے توبہ کرو اللہ کے دشمنوں سے مشابہت نہ اختیار کرو اور جو کچھ سنواس سے فائدہ اٹھاؤ۔ اور نصیحت پرعمل کرو۔ نیابت اور خلافت الہی کے لئے تربیت و تیاری:
اے بیٹا! تو عادت کا اسیر ہو کے رہ گیا ہے تو رزق طلب کرنے میں اور سبب پر تکیہ کر کے پابند ہو گیا ہے، اور سبب پیدا کرنے والے کو اور اس پر توکل کرنے کو بھول بیٹھا ہے، اس لئے تو نئے سرے سے عمل کر اور عمل کو اخلاص کے ساتھ کر ، ارشاد بارتعالی ہے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ”میں نے جن اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ انہیں ہوس اور کھیل کود، اور کھانے پینے ، سونے اور نکاح کرنے کے لئے نہیں پیدا کیا۔
اے غافلو غفلتیں چھوڑ دو، جاگ جاؤ، تمہارا دل اس کی طرف اگر ایک قدم چلتا ہے تو اس کی محبت تمہاری طرف کئی قدم بڑھتی ہے، وہ اپنی محبت والوں سے ملاقات کا ان سے بھی زیادہ شوق رکھتا ہے، ‌يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ. ” جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق عنایت فرماتا ہے ۔ بندہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کے لئے اسباب پیدا فرما دیتا ہے ۔ جب کسی بندے سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اسے اس کے لئے تیار کر دیتا ہے، اس بات کا باطن سے تعلق ہے ،ظاہر سے نہیں ۔ جب بندے میں یہ سب خوبیاں اجاگر ہو جاتی ہیں تو اس کا زہد د نیا آ خرت ، اور ترک ماسوا اللہ میں درست ہو جا تا ہے،صحت اور قربت ، ملک اور سلطنت اور امارت (سرداری ) اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں، تب: – اس کا ذرہ پہاڑ بن جاتا ہے۔ اس کا قطرہ دریا بن جاتا ہے۔ اس کا ستارہ چاند بن جاتا ہے۔ اس کا چاند سورج بن جا تا ہے – اس کا تھوڑازیادہ ہو جا تا ہے۔ اس کا عدم وجود بن جا تا ہے۔اس کی فنابقا بن جاتی ہے۔ اس کی حرکت سکون وثبات بن جاتی ہے۔
اس کا درخت بلند ہو کر عرش الہی تک بلندی ( رفعت ) پا تا ہے ۔ اس کی جڑ زمین تک پھیلتی ہے، اس کی شاخیں د نیا اور آخرت پر سایہ کرتی ہیں ، یہ شاخیں اورٹہنیاں کیا ہیں حکم اور علم دنیا اس کے نزدیک انگوٹھی کے حلقہ کی طرح ہے،نہ دنیا اسے غلام بناسکتی ہے ۔ نہ آخرت اسے قید کر سکتی ہے، نہ کوئی بادشاہ یا ماتحت اس کا حاکم ہوسکتا ہے۔ نہ کوئی در بان اسے روک سکتا ہے، نہ کوئی اسے پکڑ سکتا ہے، نہ کوئی گدلا اسے میلا کر سکتا ہے، جب یہ اوصاف بہ کمال ہوں تو یہ بندہ مخلوق کے ساتھ ٹھہرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اور وہ ان کا ہاتھ تھام کر ( بیعت کر کے دنیا کے سمندر سے پارا تار دینے کے قابل ہو جا تا ہے۔ چنانچہ اگر اللہ تعالی (اپنی نیابت اور خلافت کے لئے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسےلوگوں کے لئے رہبر -ان کا طبیب -انہیں ادب سکھلانے والا نہیں مہذب بنانے والا ،ان کی ترجمانی کرنے والا ، ان کو تیرا نے والا ، ان کی نگہبانی کرنے والا ، ان کے لئے چاند اور سورج بنا دیتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی اگر بندے سے (رشد و ہدایت کا کام چاہتا ہے تو ایسا ہو جا تا ہے۔ ورنہ ایسے بندے کو اپنے پاس پردے میں چھپا رکھتا ہے اور اپنے غیروں سے غائب کر دیتا ہے، ایسے افراد( اولیاءاللہ ) میں سے خاص ( گنے چنے ) لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی طرف سے مخلوق کی جانب پوری حفاظت اور کامل سلامتی کے ساتھ آتے ہیں۔ انہیں مخلوق کی مصیبتوں کی اصلاح اور ہدایت کی توفیق عطا ہوتی ہے۔
دنیا کا زاہد ( تارک الدنیا ) آخرت سے آزمایا جا تا ہے ، اور دنیا و آخرت کا زاہد ( تارک الدنیا وآخرت ) رب کے ہاں دنیا وآخرت سے پرکھا جا تا ہے،تم تو یوں غافل ہوئے پڑے ہو کہ جیسے تمہیں مرنا ہی نہیں۔ گویا تم قیامت کے دن اٹھائے نہیں جاؤ گے ، جیسے اللہ کے سامنے تمہیں حساب نہیں دینا، یا پھر پل صراط سے تم نے گزرنانہیں، تمہاری یہ کیفیات ہیں، حالانکہ تم اسلام اور ایمان کے دعوے دار بھی ہو، اگر تم قرآن اور اس کے علم پرعمل نہ کرو گے تو ( یہ سب) تمہارے خلاف حجت سمجھے جائیں گے جب تم اہل علم کے ہاں جاؤ گے، اور ان کی تعلیم پرعمل نہ کرو گے ،تو تمہارا ان کے پاس جانا تمہارے خلاف حجت ہے،تم پر اس کا گناہ ( بالکل اسی طرح ہوگا جیسے تم نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ کے فرمان کو نہ مانتے ۔
قیامت کے دن ہر ایک پر اللہ کا خوف، اس کا جلال اور عظمت، اس کی کبریائی اور عدل سے عام ہو گا، دنیا کے ۔ بادشاہوں کی حکومتیں جاتی رہیں گی ، اور صرف اس کا ملک باقی رہے گا۔ قیامت کے دن سب اسی کی طرف رجوع کریں گے۔ اسی دن اولیاء اللہ کی سلطنت و بادشاہت عزت و امارت (سرداری اور ان پر اللہ کا انعام واکرام ظاہر ہوں گے۔ (قیامت کے دن کی بات تو دور کی بات ہے وہ تو آج بھی بندوں اور شہروں کے کوتوال ومحافظ ہیں، اور پہاڑوں پر غالب ہیں۔ زمین کا قائم رہنا انہی کے دم قدم سے ہے۔ حقیقت میں وہی خلقت کے امیر اور سردار ہیں، اور اللہ کے سچےنائب اور حقیقی خلیفہ ہیں۔ ان کا یہ حال باطن کے لحاظ سے ہے ظاہر کے اعتبار سے نہیں ، آج ان کے باطن ( کے کمالات کے ظہور کا دن ہے، کل قیامت کے دن ان کے ظاہر کا ظہور ہوگا (یعنی حجاب اٹھ جائے گا۔)
اپنے اپنے دائرہ کار میں بہادری کے جوہر
( اپنے اپنے دائرہ کار میں بہادری کے جوہر یہ ہیں ): – غازیوں کی بہادری یہ ہے کہ میدان جنگ میں کافروں کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں ، صالحین کی شجاعت یہ ہے کہ اپنے نفسوں اور خواہشوں اور عادتوں اور شیطانوں اور میرے ہم نشینوں (انسان نما شیطانوں کے مقابلے میں ڈانواں ڈول نہ ہوں ، – اولیاء اللہ کی بہادری یہ ہے کہ دنیا و آخرت اور ماسوا اللہ سے بے رغبتی اختیار کر یں ۔
اہل دین ہی حقیقت میں انسان ہیں:
اے بیٹا! اس سے پہلے کہ تجھے مجبور ہو کر جا گنا پڑے، جاگ جا، ہوشیار ہو جا، دین دار بن جا اور اہل دین سے میل جول رکھ، اہل دین ہی ( حقیقت میں ) انسان ( کہلانے کے حق دار ہیں۔ لوگوں میں عقل والا وہی ہے جو اللہ کے حکموں کو مانے (فرماں برداری کرے ۔ اور سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو اس کے حکموں کو نہ مانے (نافرمانی کرے ) ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
‌بِذَاتِ ‌الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ تربت بمعنى افتقرت وأثرت إذا استغنى – تیرے ہاتھ مٹی لگے (یعنی تو محتاج ہو جائے ) اور جب غنا طلب کرے تو منہ میں خاک پڑے۔ جب تیراہل دین سے میل جول ہوگا ، ان سے دوستی ہو گی تو اس محبت کے بدلے دونوں ہاتھ اور تیرا دل مستغنی ہو جائیں گے تو نفاق اور اہل نفاق سے، اور ریا کار سے دور بھاگ ، کیونکہ منافق اور ریا کار کا کوئی عمل مقبول نہیں ، جس عمل میں اللہ کی رضا چاہو گئے وہی عمل مقبول بارگاہ الہی ہوگا ، عمل کی ظاہری صورت قبول نہ ہوگی ،قبولیت کے لائق تو تمہاری باطنی حالت ( اور نیت ) ہے ۔ اللہ کی ذات تیرے اس عمل کو شرف قبولیت عطا کرتی ہے جس میں تم اپنے نفس اور خواہش، اور شیطان اور دنیا کی پوری ) مخالفت کرو گے۔عمل میں اخلاص پیدا کر اپنے کسی عمل پر ناز نہ کر اللہ کے ہاں تیراو ہی عمل قبول کیا جائے گا جس میں اللہ کی رضا پیش نظر ہوگی ،نہ کہ دہ عمل ( مقبول ہوگا) جس میں مخلوق کی طرف دھیان ہو۔ تیرے لئے افسوس کی بات یہ ہے کہ تو مخلوق کی خوشنودی کے لئے عمل کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ( تیرا یہ دکھاوے کاعمل) ، خالق کے ہاں شرف قبولیت کا درجہ پا جائے ، (ایسے عمل میں رکھا ہی کیا ہے ، یہ تومحض حرص و ہوس ہے ( تیرے لئے بہتر یہی ہے کہ ) تو فرحت وسر ور اور فخر وغرور اور ہوس کو چھوڑ دے۔ خوشی کوکم کر دے غم زیادہ اٹھا ، اس لئے کہ تو غم کدے اور قید خانے میں رہ رہا ہے۔
رسول اکرم ﷺ کے حالات زندگی کو دیکھو ،آپ ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ بالعموم غمگین زیادہ رہتے تھے، خوشی تھوڑی کرتے ، ہنستے کم تھے،کبھی کبھی تبسم فرماتے تھے، وہ بھی دوسروں کا دل خوش کرنے کے لئے ہوتا تھا ۔ آپ کا قلب اطہر غموں اور شغلوں سے پر تھا،اگر صحابہ کرام کی محبت اور دنیا کے معاملات ( جن کی تکمیل کے لئے آپ مامور تھے نہ ہوتے تو آپ حجرہ مبارک سے باہر تشریف نہ لاتے اور نہ کسی کے پاس بیٹھتے ۔
دنیا کی فکر حجاب بھی ہے اور عذاب بھی
اے بیٹا! جب اللہ تعالی کے ساتھ تیری خلوت صحیح ہو جائے گی تو :- تیرا باطن مد ہوش ہو جائے گا۔ دل کی صفائی ہو جائے گی ، تیری نظر سراپا عبرت بن جائے گی، تیرا دل مجسم فکر ہو جائے گا ، – تیری روح اور باطن اللہ تعالی سے واصل ہو جائیں گے۔دنیا کی فکر تو حجاب بھی ہے اور عذاب بھی، آخرت کی فکرعلم بھی ہے اور دل کی زندگی بھی ، اور جس بندے کو اللہ کی طرف سے فکر نصیب ہو، اسے دنیا و آخرت کے احوال کا علم عطا فرمادیا جا تا ہے گویا اولیاءاللہ کو بھی علم غیب عطا کیا جا تا ہے ۔ ) – افسوس کی بات یہ ہے تو نے اپنے دل کو دنیا میں لگا کر ضائع کر دیا ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے دنیا میں جو تیرا مقدر ہے، یا جو کچھ تجھے ملنے والا ہے، تیرے نصیب میں لکھ دیا ہے، اور اس کے ملنے کے اوقات کا بھی اپنے (احاطہ علم میں اندازہ لگالیا ہے، تجھے ہر روز کا رزق ملتارہے گا، چاہے تو اس کے حصول کے لئے ) سوال کرے یا نہ کرے، (البتہ ) تیری حرص تجھے اللہ اورمخلوق کے سامنے رسوا کر رہی ہے – ایمان کی کمی کی وجہ سے تو رزق کے لئے سوال کرتا ہے، ایمان کی کثرت کے باعث تو دست سوال نہیں بڑھا تا (یعنی اگر گزارے سے زیادہ مل جائے تو سوال کرنا چھوڑ دیتا ہے ۔ اور اگر اتنامل جائے کہ رکھنے کو جگہ نہ رہے تو خدا کے وجود سے انکار کا بھی امکان ہے۔
جاہل آدمی سبب کے چکر میں مسبب کو چھوڑ بیٹھا:
اے بیٹا! ایسی قطعی یقینی بات جس کا کرنا مقصود ہے، اس میں ٹھٹھایا مسخری نہ کر ۔ کیونکہ جب تک تیرادل مخلوق میں لگا رہے گا ، وہ خالق کے ساتھ کیسے لگےگا،سبب کے چکر میں پڑ کر سبب والے کے ساتھ کیسے رہے گا ، – ظاہر و باطن کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں، جس بات کو تو سمجھتا ہے اور جسے نہیں سمجھتا، وہ دونوں کیسے یکجا ہو سکتے ہیں، عقل میں آنے والی چیز اور عقل سے باہروالی دونوں کیسے جمع ہوسکتی ہیں، جومخلوق کے پاس ہے اور جو خالق کے پاس ہے، دونوں یکجا کیسے ہو سکتے ہیں ، وہ بندہ کتنا بڑا جاہل ہے جوسبب پیدا کرنے والے کو بھول بیٹھا ہے، اور سبب ہی میں مشغول ہے، سبب میں پڑ کر مسبب کو چھوڑ بیٹھا ہے، جو باقی رہنے والا ہے اسے بھلا بیٹھا ہے ، اور جو فانی ہے اس کے ساتھ خوش ہے، (اس سے بڑھ کر اور کون بیوقوف ہے)۔
جاہلوں کی صحبت نقصان دہ ہے:
اے بیٹا! تو جاہلوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، ان کی جہالت تم پر بھی اثر کرتی ہے، جاہل کی صحبت نقصان دہ ہے۔ خسارے کی بات ہے، ایمان والوں ، یقین والوں اور باعمل عالموں کی صحبت میں بیٹھا کرو، اہل ایمان کا حال کیسا اچھا ہے ، ان کے تصرفات میں کس قدر بھلائیاں ہیں ، ان کے مجاہدوں اور ریاضتوں نے انہیں ان کے نفسوں اور خواہشوں پر غالب کر دیا ہے، اس غلبے نے انہیں کس قدرمضبوط اور قومی کر دیا ہے۔ اسی لئے رسول ﷺ نے ارشادفر مایا: بشر المؤمنين في وجهه وحزنه في قلبه “مومن کی خوشی اس کے چہرے پر ( چمک رہی ہوتی ہے، اور غم اس کے دل میں چھپا ہوتا ہے )‘‘۔یہ اس کی قوت ضبط ہے کہ مخلوق کے سامنے خوشی کا اظہار کرتا ہے اور ( افشائے راز کے خیال سے محبت الہی کو دل میں چھپاتا ہے ۔ اس کا غم سدا کاغم ہے، اس کا تفکر بہت ہے جیسے اس کا رونا زیادہ ہے،اور ہنسناکم ، اس لئے سرکار دوعالم ﷺ نے ارشادفرمایا: لا راحة للمؤمن غير لقاء ربه وصل الہی کے سوا مومن کو راحت نہیں ۔
صاحب ایمان اپنے غم کو خندہ پیشانی کی اوٹ میں چھپائے رہتا ہے، ظاہری طور پر وہ ریاضت اور کسب میں لگا رہتا ہے، اور باطنی طور پر اپنے رب کے پاس سکون کرتا ہے، اس کا ظاہر اس کے اہل وعیال کے لئے ہے اور باطن رب کے لئے۔ وہ اپنا راز اپنے اہل، اولا د، ہمسایوں متعلقین اور مخلوق الہی میں سے کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا ۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی سن رکھا ہے:
اسْتَعِينُوا على ‌أُمُوركُم ‌بِالْكِتْمَانِ ۔ اپنے کاموں پر راز داری میں مددلیا کرو‘‘
اپنے احوال کو چھپاتے رہو، اللہ کا ولی اپنی ضرورت کو ہمیشہ چھپا تارہتا ہے، اگر کسی وقت جذ بہ اس پر غالب آ جائے ، ان کی زبان سے (اسرار کا کوئی کلمہ نکل جاتا ہے تو وہ فورابات کو سنبھالتے ہوئے اس کا تدارک کر لیتا ہے، اور الفاظ بدل دیتا ہے، اور ( اتفاق سے ) جو راز اس سے افشاء ہو جا تا ہے ، اسے چھپاتے ہوئے اس کے لئے معذرت کر لیتا ہے۔
اہل بصیرت کو اپنا آئینہ بنالو:
اے بیٹا! تو مجھے اپنا آئینہ بنا ۔ اپنے دل کا آئینہ بنا، اپنے باطن اور اعمال کا آئینہ بنا ، مجھ سے قریب ہو جا یقینی طور پر میرے قرب کی وجہ سے تو اپنے نفس میں وہ کچھ دیکھ سکے گا جو مجھ سے دور رہنے کی وجہ سے نہیں دیکھ پایا۔ اپنے دین کے حوالے سے اگر تجھے کچھ پوچھنا ہے تو مجھ سے پوچھ۔ میں اللہ کے دین کے حوالے سے تمہاری کوئی الجھن نہ رہنے دوں گا، شریعت الہی کی تعمیل کے لئے میں نہایت بے باک اور بے جھجک ہوں ، میں نے دین ایسے مضبوط ہاتھ والوں اور راسخ ارادے والوں سے سیکھا ہے جونہ تو منافق تھے اور نہ ہی کوئی فائدہ اٹھانے والے تھے (سراسرا خلاص تھے ،تو دنیا کو گھر میں چھوڑآ اور میرے قریب ہو جا، یقینی طور پر میں آخرت کے دروازے پر کھڑا ہوں، میرے پاس ٹھہر ، میری بات کو سن اور چند روزہ زندگی میں اس پرعمل کر ، نجات کا دارو مدار اللہ کے خوف میں ہے ، اگر تجھے اللہ کا خوف نہیں تو نہ دنیا میں سکون ہوگا ، نہ ہی آخرت میں امن ہوگا ۔ ا
للہ تعالی کا سامنے موجود نہ ہونے کے باوجود اس کا خوف ہونا ہی اسے جاننا ہے، (یعنی خوف الہی اور علم ایک ہی چیز ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ ‌الْعُلَمَاءُ
’’اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔
یعنی میرے بندوں میں وہ اہل علم میرا (اللہ کا)ڈرر کھتے ہیں جوعمل کرنے والے ہیں ( باعمل ہیں ، اور اپنے کئے کااصلہ (بدلہ )نہیں چاہتے ، بلکہ اس کی قربت اور اس کی رضا کی آرزو رکھتے ہیں ۔ اس کی محبت کے ارادے سے اس کی دوری اور حجاب کو دور کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ ہر وقت اس خیال میں رہتے ہیں کہ ان پر دنیا و آخرت میں رحمت الہی کا دروازہ نہ بند کیا جائے وہ دنیاوآخرت اور ماسوا اللہ کی کوئی تمنا نہیں رکھتے۔ دنیا ایک گروہ کے لئے ہے، اور آخرت کسی اور گروہ کے لئے ، اور اللہ کی ذات ایک اور گروہ کے لئے ہے، اس گردہ والےوہ ہیں جو ایمان والے ہیں۔ یقین والے ہیں۔ عرفان والے ہیں۔ اس کے دوست ہیں۔ اس کے ڈروالے ہیں۔ اس کے سامنے عاجزی کرنے والے ہیں، غم رکھنے والے ہیں ، بن دیکھے اللہ کا خوف رکھتے ہیں۔ اللہ کی ذات ان کی ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہے اور ان کے دل کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے، یہ لوگ بھلا کیوں نہ اس سے خوف کھائیں،وہ ہر روز اک نئی شان میں ہے، ذات سے ذات میں تبدیلی لانا ہے، حال سے حال میں تغیر لاتا ہے، کسی کی مدد کرتا ہے ،کسی کو ذلیل محروم کرتا ہے، ،وہ کسی کو زندہ کرتا ہےکسی کو مارتا ہے، ۔ کسی کو مردود کرتا ہے، کسی کو اپنے سے دور کرتا ہے ۔کسی کو مقبول بنا تا ہے،کسی کو اپنے قریب کرتا ہے، لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ
وہ جو چاہے کرے، کوئی پوچھ گچھ ہیں، اور جو کچھ لوگ کر یں تو ان سے باز پرس ہوگی۔“
اس کے حضور یہی التجا ہے
اللهـم قـربـا إليك ولا تبا عدنا عنك ‌ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
’’الہی! ہمیں اپنا قرب نصیب فرما، اور ہمیں اپنے سے دور نہ رکھ، اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کرے ،۔ اور ہمیں آخرت میں بھلائی عطا کرے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ، آمین!‘‘۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 46،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 36دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
چھٹی مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چٹھی مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السادس فی نصیحۃ المومن لاخیہ ‘‘ ہے۔
منعقده 15 شوال 545 ھ مدرسہ قادریہ، بغداد شریف
ایمان والا ،ایمان والے کے لئے آئینہ ہے:
اللہ کے ولیوں کے دل صاف اور پاک ہوتے ہیں۔ وہ خلقت کو بھولنے والے اللہ کو یاد کرنے والے،دنیا کو بھلا دینے والے،آخرت کو یاد کرنے والے، جو کچھ تمہارے پاس ہے، اسے بھولنے والے، جو کچھ اللہ کے پاس ہے،اسے یادکرنے والے ہیں ۔تم ان سے اوران میں جو خوبیاں ہیں، ان سے محروم ہو(حجاب میں ہو )، آخرت کو چھوڑ کر دنیا میں مشغول ہو۔ تمہیں اللہ سے کوئی حیا نہیں تم نے حیا کا دامن چھوڑ دیا ہے،اور اس کے سامنے بے شرم بنے ہوئے ہو۔ میرے عزیز اپنے ایمان والے بھائی کی باتوں کو مان لے، اس کی مخالفت کی راہ نہ اپناؤ، یقینی طور پر وہ تم میں وہ کچھ دیکھتا ہے جو تم اپنے نفسوں میں نہیں دیکھتے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: المؤمن مرأة المؤمن وایمان والا ، ایمان والے کے لئے آئینہ ہے ۔‘‘
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے سچا خیر خواہ ہے، اسے نصیحت کرتا ہے ۔ جو کچھ اسے معلوم نہیں اس کے بارے میں اسے بتلا تا ہے ۔ اس کی خوبیاں اور خامیاں الگ الگ کر دیتا ہے، اسے نفع دینے والی اور نقصان دینے والی باتوں کی خبر دیتا ہے۔
پاک ہے وہ ذات جس نے میرے دل میں خلقت کی خیر خواہی ڈال دی ہے، اور اسے میرا سب سے بڑا مقصد بنا دیا ہے۔ یقینی طور پر میں ایک نصیحت کرنے والا ہوں ، اور خیر خواہی کا صلہ نہیں چاہتا، میراصلہ تو اللہ کے ہاں ہے، جو مجھےمل چکا ہے۔ مجھے دنیا کی کوئی طلب نہیں۔ مجھے آخرت کی کوئی تمنا نہیں ۔ میں ماسوا اللہ کی بندگی نہیں کرتا ، میں تو اللہ کے سواکسی کی عبادت نہیں کرتا، جو کہ خالق ہے، یکتا ہے، یگانہ ہے، قدیم ہے، تمہاری فلاح ونجات میں میری خوشی ہے اور تمہاری تباہی و بربادی میرے لئے دکھ اور غم کا باعث ہے۔ میں جب اپنے مرید صادق کا چہرہ دیکھتا ہوں کہ جس نے میرے ہاتھ پر فلاح ونجات پائی تو میں اور تروتازہ اور توانا ہو جا تا ہوں لباس پہنتا ہوں اور خوش ہوتا ہوں، اور کہتا ہوں کہ اس کا وجود میرے ہاتھ سے کیسی عمدہ پرورش اور اچھی تربیت پا کر نکلا۔
اے بیٹا! میں تجھے چاہتا ہوں، اپنے آپ کو نہیں ، اگر تجھ میں کچھ تبدیلیاں آئیں گی تو تیری ہی حالتیں بدلیں گی ، میری نہیں۔ میں تو سب منزلیں طے کر چکا ہوں، تیری میری دوستی تیری وجہ سے ہوئی ہے، تو مجھ سے اپنے لئے محبت کرتا ہے، مجھ سے تعلق واسطہ رکھ تا کہ تو بھی جلد از جلدان منزلوں سے گزر سکے۔
حرص اور نفس کے بندے نہ بنو :
اے لوگو! اللہ اور اس کی مخلوق پر غرور اور تکبر کرنا چھوڑ دو۔ اپنے آپ کو پہچانو اپنے نفسوں میں تواضع و انکساری اجاگر کرو، تمہارا وجود ایک پلید بوند سے بنا ہے تمہاری شروعات ذلیل پانی سے ہوئی ، اور تمہارا انجام ایک پھینکے ہوئے مردار کی طرح ہے۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جن کوطمع در بدر لئے پھرتی ہے، اور حرص کے بندے بن کے رہ جاتے ہیں، نفسانی خواہش انہیں بھڑ کا کر ایسی چیز کی طلب میں بادشاہوں کے در پر لے جاتی ہے جو ان کے نصیب میں نہیں ہے- اور اگر نصیب میں ہے تو نہایت ذلالت اور حقارت سے اس کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کاارشاد گرامی ہے:
اشد عقوبات الله عز وجل يعبده طلبه ما لم يقسم له . . اللہ تعالی کے سخت ترین عذابوں میں سے اپنے بندے کے لئے یہ ہے کہ وہ ایسی چیز کی طلب کرے جو اس کی قسمت میں نہیں ہے۔“
افسوس اس بات کا ہے کہ تو اپنی تقدیر اور کاتب تقدیر کونہیں جانتا، کیا تجھےیہ گمان ہے کہ دنیا والے وہ چیز تجھے دینے پر قدرت رکھتے ہیں جو تیرے مقدر میں نہیں۔ (ہرگز نہیں ، ) یہ شیطانی وسوسہ ہے جو تیرے دل و دماغ میں بس گیا ہے، تو اللہ کا بندہ نہیں ، بلکہ اپنے نفس اور حرص اور شیطان اور عادت اور درہم و دینار کا بندہ ہے، کوشش کر کہ تجھے کوئی نجات دہند ہ مل جائے تا کہ اس کی پیروی سے تجھے بھی فلاح ونجات مل سکے، (یعنی مرشد کامل کی جستجو کر ۔)
اللہ کے ایک کامل ولی فرماتے ہیں: من لم يرى المفلح لا يفلح ”جس نے نجات والے کو نہ دیکھا ،اس نے نجات نہ پائی‘‘۔ تو کسی فلاح والے کو اگر دیکھتا بھی ہے تو سر کی آنکھ سے دل اور باطن اور ایمان کی آنکھ سے نہیں دیکھتا، تیرے پاس تو ایمان ہی نہیں تو دیکھنے والی آنکھ کہاں سے لاؤ گے جس سے نجات دلانے والے کو دیکھ سکے، ارشاد باری تعالی ہے: فَإِنَّهَا لَا ‌تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ ‌تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ”وہ (ظاہری) آنکھوں کو اندھا نہیں کرتا لیکن جوسینوں میں دل ہیں ۔ان ( کی آنکھوں کو اندھا کرتا ہے ۔‘‘ جو شخص خلقت کے ہاتھوں سے دنیا پانے کی خاطر حرص اور لالچ کرتا ہے، اور دین کو ایک (معمولی) انجیر کے بدلے میں فروخت کرتا ہے ۔ بقا کوفنا کے بدلے بیچ ڈالتا ہے، اس لئے اس کے ہاتھ نہ یہ دنیا لگتی ہے نہ آخرت، جب تک تمہارا ایمان ناقص ہے، اپنے نفس کی اصلاح کر اور اکل حلال کے حصول کے لئے کوشش کر ، تا کہ تو مخلوق کا محتاج نہ ہو جائے ، چنانچہ اپنے دین کو بیچ کر لوگوں کا مال نہ کھاؤ ، اور (اس غلط کاری سے باقی کو فانی سے نہ بدل ،ہاں جب تمہارا ایمان قوی اور کامل ہو جائے تو ہر سبب سے علیحدہ ہو جاؤ ، ارباب باطلہ سے قطع تعلق کرلو، اور اللہ تعالی پر توکل کرو۔ اپنے دل سے سب چیزوں کو چھوڑ دینے کی راہ اختیار کرو، دل کے ہمراہ اپنے شہر اور اہل وعیال ، اور اپنی دکان ( کاروبار ) اور اپنے جان پہچان والوں سے نکل جا، اور جو کچھ تیرے پاس ہے، اپنے اہل وعیال، اپنے بھائیوں اور دوستوں کو دے دے تیری حالت ایسی ہو جائے کہ جیسے موت کے فرشتے نے تیری روح قبض کر لی ہے اور موت کے اچکنے والوں نے تجھے اچک لیا ہے ، تو موت کا لقمہ بن گیا ۔ گو یا زمین پھٹ گئی اور تم اس میں سماگئے۔ یعنی تقدیر اور قضا نے تجھے اٹھا کر علم ومعرفت کے دریا میں ڈبو دیا ہے ۔ جو شخص اس مقام پر پہنچ گیا، عالم اسباب والے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ اسباب کے اثرات ظاہر پر پڑتے ہیں ، باطن پرنہیں ۔ اس حال میں سبب دوسروں کے لئے ہوتے ہیں، اس کے لئے نہیں۔
اے لوگو اگر تم پوری طرح سے دل کے ساتھ ان سب باتوں پر عمل نہیں کر سکتے تو اسباب اوران سے تعلق کو چھوڑ دو اگر تم سےیہ کلی طور پر نہ ہو سکے تو جس قدر ہو سکے اس قدرہی سہی ، اگر پوری طرح سے نہیں تو تھوڑا ہی سہی ، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
‌تَفَرَّغُوا ‌مِنْ ‌هُمُومِ ‌الدُّنْيَا ‌مَا ‌اسْتَطَعْتُمْجس قدر استطاعت ہو، دنیا کے بکھیڑوں سے بچ جاؤ۔“
سب کچھ اسی سے مانگو،غیر کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ: بیٹا! اگر دنیا کی فکروں سے آزاد ہونے کی ہمت ہے تو ہو جاؤ، ورنہ اپنے دل کے ساتھ اللہ کی طرف دوڑ لگا دے اور اس کے دامن رحمت کو تھام لے،تاوقتیکہ تمہارے دل سے دنیا کی فکر نکل جائے ۔وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور ہر ایک چیز کے جاننے والا ہے، ہر چیز اس کے دست قدرت میں ہے، اس کے در کے ہور ہواور التجا کرو کہ تمہارے دل کو غیر سے پاک کر دے ، اور اسے ایمان اور اپنی معرفت اور اپنے علم سے بھر دے اور اپنے غیر سے بے نیاز کر دے اور تجھے یقین عطا فرمادے، اور تیرے دل کو اپنے ساتھ مانوس کر دے اور غیر کے انس سے نجات بخشے اور تیرے سب اعضاء کو اپنی اطاعت و بندگی میں لگائے رکھے، سب کچھ اس سے مانگو، غیر کی سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ ،اپنے جیسے بندوں کے سامنے نہ جھکو، بلکہ غیر کو چھوڑ کر اس کے ہورہو، اپناہر معاملہ اس کے ساتھ اس کے لئے رکھ، اس میں دوسرے کا تعلق نہ ہونے پائے ۔
دل سے عمل نہ ہو تو علم بیکار ہے:
اے بیٹا اگرز بان پر علم کا چشمہ جاری ہو اور علمی طور پر دل ساتھ نہ ہوتو یہ سوجھ بوجھ اللہ کی طرف ایک قدم بھی نہ بڑھنے دے گی ،سیر تو دل کی سیر ہے، قرب الہی تو باطنی قرب ہے،عمل حقیقی معنوں میں عمل ہے، جس میں اعضاء شرعی حدود کی پاسداری کرتے دکھائی دیں اور اس کے بندوں کی تواضع وانکساری اللہ ہی کے لئے کی جائے ، جوشخص اپنے نفس کو بلند مرتبہ جانےسمجھ لواس کی کوئی قدرومنزلت نہیں ، جس نے خلقت کے دکھلاوے کے لئے عمل کئے ، اس کا کوئی عمل نہیں،حقیقی عمل تو خلوت ہی میں ہوتے ہیں جلوت میں ان کا اظہار نہیں کیا جا تا سوائے ان کے ، جن کا ظاہری طور پر کرنا شرعا لازم ہے (یعنی نماز روزہ وغیرہ)، تجھ سے بنیاد کی مضبوطی میں کوتاہی سرزد ہوگئی ہے، نا پختہ بنیاد پر بننے والی عمارت کو مضبوط کرنا کیا فائدہ دے گا، اوپر کی چھت وغیرہ اوپر ہی اوپر دوبارہ مضبوط کی جاسکتی ہے، مگر بنیاد کی کمزوری کا کیا علاج ہے ،اعمال کی بنیادتوحید اور اخلاص پر ہے، جس کے پاس تو حید اور اخلاص نہیں ، اس کا کوئی عمل نہیں ۔ لہذا توحید اور اخلاص کے ذریعے اپنے عمل کی بنیاد کو مضبوط کرو، اپنی طاقت وقوت کے بل بوتے اعمال کی عمارت نہ اٹھا یہ بھروسے کی بات نہیں، بلکہ اللہ کی مدد اور نصرت سے اعمال کی عمارت بناء توحید واخلاص ہی اصل معمارہیں شرک و نفاق نہیں ،حقیقی توحید والاو ہی ہے جس کے علم کا چاند بلند ہوکر روشنی بکھیرے،( منافق کے کئے سے کچھ بھی نہیں بنتا۔)
ہماری التجاودعا یہی ہے کہ اللهم باعد بيننا وبين النفاق في جميع أحوالنا ‌ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ النار “یا الہی! ہمارے سب احوال میں ہم میں اور نفاق میں دوریاں ڈال دے اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ آمین!‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 55،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 41دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
ساتویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ساتویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السابع فی الصبر ‘‘ ہے۔
منعقدہ 17شوال 545 ھ بروز اتوار بمقام خانقاہ شریف
اللهم صل على محمد و على آل محمد وافرغ علينا صبرا و ثبت أقدامنا و كير عطائك لناوارزقنا الشكر عليه إلى آخر الدعاء
یا الہی ! حضرت محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر رحمت بھیج ، اور ہمیں صبر کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمارے لئے اپنی عطا ئیں اور زیادہ کر دے اور ہمیں شکر کرنے کی توفیق عطافرما۔آخر دعا تک ۔“
دنیا کی زندگی آفتوں اور مصیبتوں سے بھری پڑی ہے:
اے لوگو! صبر سے کام لو، دنیا کی زندگی آفتوں اور مصیبتوں سے بھی بھری پڑی ہے۔ کوئی بچ سکا تو بہت ہی کم ،د نیا کی کوئی نعمت ایسی نہیں کہ جس کے ساتھ مصیبت اور غم نہ ہو۔ اس میں کوئی خوشی ایسی نہیں کہ جس کے ساتھ رنج نہ ہو، اس میں کوئی فراخی ایسی نہیں کہ جس کے ساتھ تنگی نہ ہو۔
شریعت کے دائرے میں دنیا سے اپنے مقدر کا لکھا لیتے رہو، یقینی بات تو یہ ہے کہ دنیا کی لذتوں سے جو مرض لاحق ہوا، شریعت ہی اس کا علاج ہے۔
بیٹا! جب تو کسی کے دامن سے وابستہ ہو تو قسمت کا لکھا شرع کے ہاتھ سے لے، جب تو خاص دوست (صدیق) کے مرتبہ پر پہنچے تو اپنا نصیب امر الہی کے ہاتھ سے حاصل کرو، اور جب تو فانی فی اللہ، واصل اور مقرب بارگاہ ہو جائے تو الہی فعل کے ہاتھوں سے لے ۔ پھر تجھے شرعی امور کا حکم دیا جائے گا ، اور ناپسندیدہ سے رو کے گا، تیرے دل میں فعل کے لئے خود بخود تحریک ہوگی۔
اللہ کے بندے تین طرح کے ہیں:
اللہ کے بندے تین طرح کے ہیں:
عامی -خاصی۔ خاص الخاص،
عامی وہ مسلمان ہے جو پر ہیز گار ہو، جوشریعت کا پابند ہو، اور شرع سے کسی پل جدا نہیں ہوتا ، اور اللہ کے اس فرمان پرعمل پیرا ہو
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا جو کچھ رسول ﷺ نے تمہیں دیا ہے، لےلو، اور جس چیز سے روکا ہے ، رکے رہو۔“ جب اس کے حق میں یہ تمام ہوتا ہے، اور اس کے ظاہر و باطن پرعمل کر چکے تو اس کا قلب ایسا روشن ہو جا تا ہے کہ وہ اس سے ہرشے کو دیکھنے لگتا ہے، اگر وہ کوئی چیز شریعت کے دائرے میں حاصل کرے تو اس کے لئے اپنے دل سے یقین چاہتا ہے،اور الہام ربانی کا منتظر رہتا ہے، کیونکہ الہام ربانی ہرشے میں عام ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا’’اس نے نیکی اور بدی اس کے دل میں ڈال دی ہے ۔‘‘ وہ اپنے دل سے اعتبار چاہتا ہے اور الہام ربانی کا منتظر رہتا ہے ، اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ ظاہرامر پرعمل کرتا ہے اور وہ ظاہرامر یہ ہے کہ جو کچھ اس معیشت تیار کرنے والی دکان میں ہے، دینے والا دے رہا ہے، سب اس کے ہاتھ میں اور ملکیت میں ہے۔
پھر یہی عام خاص بن کر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، اور اپنے دل سے اعتماد چاہتا ہے، اور دل کے نور سے روشنی حاصل کر کے اس بارے میں امرالہی کو دیکھ لیتا ہے۔ یہ مقام تب حاصل ہوتا ہے جب وہ شریعت پرعمل کرتا ہے،اور اس کے ایمان کی قوت اور توحید کی قوت اور قوی جائے اور اس کا دل خلقت اور دنیا سے الگ ہو جائے ، دنیا کے جنگلوں اور دریاؤں کو عبور کر لے، اس مقام پر صبح صادق نمودار ہوتی ہے، اور سب طرح کے انوار :نورایمان،نورقرب الہی ، نورعمل ،نور بصر،نورتحمل واطمینان حاصل ہو جاتے ہیں، یہ ثمرات شرعی حقوق کے ادا کرنے کے بعد اس کی متابعت کی برکت سے حاصل ہوتے ہیں۔
اور خاص الخواص، یہ لوگ ابدال ہیں ۔ ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے شریعت سے اعتماد (فتوی) لیتے ۔ پھر اللہ کا امر اور اس کا فعل اورتحریک دیکھتے ہیں اور اس کے الہام کے منتظر رہتے ہیں۔ ان تین طبقوں کے علاوہ تباہی در تباہی ،بیماری ، حرام در حرام ،دین کے سر کا درد، دین کے دل کا پھوڑا ہے، اور بدن میں سل کا مرض ہے۔
تمہارے اعمال اس کی نظر میں ہیں:
اے لوگو! اللہ تعالی طرح طرح سے (اپنے تصرفات سے) تمہارے احوال میں تبدیلی لاتا ہے تا کہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو، تمہارے اعمال اس کی نظر میں ہیں)-: تم ثابت قدم رہتے ہو ، یالڑکھڑ ا جاتے ہو، امرالہی کی تصدیق کرتے ہو، یا انہیں جھٹلاتے ہو، جوشخص رضائے الہی میں راضی نہ ہو، اس کی ہم نوائی نہیں ہوتی ، نہ ہی توفیق دی جاتی ہے ، جو قضائے الہی میں راضی نہیں اللہ بھی اس سے راضی نہیں ، جو خودنہیں دیتا، اسے بھی نہیں دیا جاتا ۔ جوکسی سے نہیں ملتا، کوئی اس کے پاس بھی چل کے نہ آئے گا۔
ثابت قدمی کے بغیر ایمان کا دعوی خام ہے:
جاہل آدی! تیرا خیال ہے کہ اللہ تیری مرضی ومنشاء سے تغیر و تبدل کرے، کیا تو دوسراالہ ہے کہ اللہ تیری موافقت کرے۔ یہ تو الٹا معاملہ ہے، تو اس کے خلاف کرتا کہ ہدایت پائے ، اگر اللہ نے تقدیر نہ بنائی ہوتی تو جھوٹے دعوے نہ پہچانے جاتے ، جواہر کی پرکھ تجربوں سے ہوتی ہے، جس طرح تیرانفس احکام الہی کا انکاری ہے تو اپنے نفس کی ماننے سے انکاری ہو جا، جب تو اپنے نفس کی ماننے سے انکار کر دے گا تو دوسرے کے انکار پر بھی قدرت پالے گا ، ایمانی قوت کے اندازے سے ہی خرابیاں دور ہوسکتی ہیں ، ایمانی کمزوری سے گھر بیٹھنا اسے بزدل بنادے گا، اور اسے دور کرنے سے عاجز اور گونگا ہو جائے گا۔
ایمان کے قدم ہی ایسے ہیں جو انس وجن کے شیطانوں کے مقابلے پر ڈٹے رہیں، آفتوں اور مصیبتوں کے آنے پر نہ ڈگمگائیں، ثابت قدمی کے بغیر ایمان کا دعوی جھوٹا ہے، اگر ایمان کا دعوی ہے تو ہر ایک سے دشمنی کر اور سب کے خالق سے دوستی کر ، اگر وہ چاہے تو ایسی چیز کو تمہاری محبوب بنا کر محفوظ رکھے کہ جس سے تمہیں نفرت تھی ، کیونکہ دل میں محبت ڈالنے والا وہ ہے نہ کہ تم ہو، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفر مایا: ‌حُبِّبَ ‌إِلَيَّ مِنْ ‌دُنْيَاكُمُ النِّسَاءُ، وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ ”تمہاری دنیا سے تین چیز یں ایسی ہیں جو میری محبوب بنا دی گئی ہیں،خوشبو،عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔نبی کریم ﷺکیلئے یہ چیزیں بعد میں محبوب کی گئیں، پہلے آپ کی طرف سے نفرت ، ان کا ترک اور بے نیتی اور روگردانی تھی ۔ چنانچہ
فرغ أنت قلبك مما سواه حتى يحبب هو إليك ما يشاء من ذلك تو اپنے دل کو ماسوا اللہ سے خالی کر دے تا کہ وہ ان میں سے جس کی بھی جا ہے تیرے دل میں محبت ڈالدے۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 59،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 43دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
آٹھویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے آٹھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثامن فی عدم المرااۃ ‘‘ ہے۔
منعقده 19/شوال 545 بروز منگل بوقت عشاء بمقام : مدرسہ قادریہ
ریا کار کا ظاہرآباد ہے اور باطن ویران:
ریا کار کا لباس بظاہر صاف ستھرا اور دل پلید ہوتا ہے، مباح چیزوں میں زہد کرتا ہے اور نیکی کمانے میں سستی کرتا ہے۔ دین ( بیچ کر اس کے ذریعے کھا تا پیتا ہے۔۔۔ پر ہیز بالکل نہیں کرتا، کھلے عام حرام کھا تا ہے ۔ اس کی یہ حرکتیں عام لوگوں سے اوجھل ہیں جبکہ خواص اس کی حقیقت سے واقف ہیں، اس کاز ہد اور عبادت دکھاوے کے ہیں ۔ ریا کارکا ظاہرآباد ہے اور باطن ویران!
تیرے انداز زندگی پر افسوس ہے۔ اللہ کی طاعت قلب سے ہوتی ہے، قالب سے نہیں ، یہ سب چیز یں قلب اور باطن اور معانی سے تعلق رکھتی ہیں، ظاہر سے ان کا کوئی واسطہ نہیں، ظاہری طور پر تو جس لباس میں ہے اسے اتاردے، تا کہ میں تجھے اللہ سے ایسا لباس لے دوں جو کبھی پرانا نہ ہو ۔ یہ پہلے والا لباس اتاروتو وہ تمہیں پہناؤں، اللہ کے حقوق ادا کرنے میں جو لباس رکاوٹ بنتا ہے، اسے اتار ڈال ۔ جس لباس میں تو خلقت سے ملتا ہے اور خلقت سے تیرے شرک کا باعث بنتا ہے، اسے اتار کر پھینک دے۔ نفسانی خواہشوں اور بدمزاجی ، اورغرور اور نفاق کا پہناوا، اور خلقت میں اپنی مقبولیت اور ان کی توجہ اور عطیوں کے سب لباس الگ کر دے، دنیا کے کپڑے اتار کر آخرت کا لباس پہن لے، اپنی ہستی اور طاقت اور قوت سے کنارہ کش ہو جا -سب کو چھوڑ کر اللہ کے سامنے عاجز وکمزور ہو جا، اپنی قوت اور طاقت پر بھروسہ کرنا چھوڑ دے خلقت میں سے کسی کو شریک نہ بنا اور ایسا کر کے شرک کی آفت سرنہ لے۔ ایسا کرنے سے : – تیرے اردگر دالطاف ربانی ہوں گے، رحمت الہی تیرے پاس ہوگی ۔ تجھے اطمینان نصیب ہوگا۔ نعمت واحسان کے کپڑے پہنو گے،تو رحمت سے مل جائے گا۔ تو اللہ کی طرف دوڑ ۔ سب کچھ اتار کر ، سب سے قطع تعلق کر کے اس کی طرف بھاگ کھڑا ہو۔ تا کہ وہ تجھے مطمئن کر دے اور حقیقت پر پہنچادے، اور پھر تیری ظاہری و باطنی قوتوں کو ملا دے۔ پھر اگر تم پر سب جہانوں کے دروازے بند کر دیئے جائیں اور سب طرح کے بوجھ لاددیئے جائیں تو مجھے کچھ نقصان نہ پہنچے گا بلکہ اللہ کی حفاظت تیرے شامل حال رہے گی۔
جس شخص نے خلقت کو توحید کے ہاتھ سےدنیا کوزہر کے ہاتھ سے اور ماسوا ان کو بے رغبتی کے ہاتھ سے فنا کر دیا، اس نے کامل نجات اور فتح حاصل کر نی دنیا وآخرت کی بھلائیوں سے نواز دیا گیا۔ اس سے پہلے کہ تمہاری زندگی کا سفر تمام ہو جائے ،اپنے نفسوں اور شیطانوں اور خواہشوں کو مار ڈالنالا زم ٹھہرالو: ۔ عام موت سے پہلے خاص موت کے ساتھ ضرور مر جاؤ ( وہ ماسوا اللہ سے جدائی ہے۔)
ایمان والا پہلے اپنے باطن کو آباد کرتا ہے ، پھر ظاہرکو :
اے لوگو! میرا کہامانوں میں اللہ کی طرف سے ، اسی کی طرف بلانے والا ہوں، تمہیں اپنے نفس کی طرف نہیں بلکہ اس کے دراور طاعت کی طرف بلاتا ہوں ، منافق خلقت کو اللہ کی طرف نہیں بلکہ اپنے نفس کی طرف بلاتا ہے وہ تو نفسانی لذتوں ،خلقت میں مقبولیت کا طالب اور دنیا سے پیار کرنے والا ہے۔
جاہل آدمی! تو میری نصیحت پر کان نہیں دھرتا اور نفس و خواہشات کے ساتھ خلوت خانہ میں اکیلا بیٹھتا ہے۔ تجھے شیخ کامل کی ضرورت ہے، نفس اور حرص کوقتل کر دے اور ماسوا اللہ سے قطع تعلق کر لے، اپنے پیران عظام کے دروازے کولازم پکڑ ، فیض صحبت اٹھا، پھران سے الگ ہوکر اللہ کا ہم نشین ہو جا، جب تجھے ہی مرتبہ کامل طور پر حاصل ہو جائے تو اللہ کے حکم سے خلقت کی دوا، ہدایت کرنے والے، اور ہدایت قبول کئے گئے ہو جاؤ گے۔
تیری زبان پر ہیز گار اور دل گنہگار ہے، زبان اللہ کی تعریف کرنے والی جبکہ دل اس کے خلاف کرنے والا ہے ۔
تیرا ظاہر مسلمان اور باطن کا فر ہے، تیرا ظاہر تو حید والا اور باطن بت پرست ہے، تیراز ہد اور دین ظاہری ہے اور باطن خراب اور ویران جیسے غلاظت پر سپیدی اورگندگی کے ڈھیر پر قفل ہے جب تو اس حالت پر ہے تو شیطان نے تیرے دل پر خیمہ لگا کر اپنا ڈیرہ جمالیا
ایمان والا پہلے اپنے باطن کو آبادکرتا ہے پھر ظاہر کو جیسے کوئی شخص گھر بنا تاہے توپہلے اس کے اندر والے حصے پر بڑی رقم خرچ کرتا ہے مگر اس کا دروازہ خراب ہی ہوتا ہے، جب گھر کی اندرونی تعمیر مکمل ہو جاتی ہے تب دروازہ بنا تا ہے۔ اسی طرح سے سالک اللہ کے ساتھ ابتدا کرے اور اس کی رضا طلب کرے، پھر اس کے حکم سے خلقت کی طرف توجہ کرو، اس توجہ کی ابتدا آخرت کی تحصیل کے لئے ہے، اس کے بعد دنیا سے اپنی قسمت کا لکھا حاصل کرو۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 62،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 45دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
نویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے نویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس التاسع فی ابتلاء المومن ‘‘ ہے۔
بوقت منعقد ہ22شوال 545 بروز جمعہ صبح ، بمقام :مدرسہ قادر یہ
ایمان والے کی آزمائش میں کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے:
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد عالی ہے: لَا يعذب الله حَبِيبَهُ وَلَكِنْ قَدْ ‌يَبْتَلِيهِ
اللہ اپنے محبوب کو عذاب نہیں دیتا لیکن کبھی آزمائش میں ڈالتا ہے۔‘‘
ایمان والے کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے آزمائش میں کوئی مصلحت ضرور ہے، جس کا بعد میں دنیا یا آخرت میں ظہور ہوتا ہے، لہذا وہ اس مصیبت کے ساتھ راضی اور اس پر صبر کرنے والا ہے، وہ اپنے پاک پروردگار پرکسی قسم کی تہمت نہیں رکھتا، اس کارب اس بلا کی وجہ سے اسے دوسرے امور سے روک دیتا ہے۔ اے دنیا میں مشغول رہنے والو! ان مقامات پر تمہیں کلام کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ تم اپنی زبانوں سے کلام کرتےہو دل سے نہیں، تم اللہ سے ، اور اس کے کلام سے ، اس کے پیغمبروں اور ان کے پیروکاروں سے روگردانی کرنے والے ہو، نبیوں کے پیروکار ہی ان کے خلفاء اور وصی ہیں ، تم تقدیر اور قدرت میں جھگڑا کرنے والے ہو، تم نے اللہ کی عنایات وعطایات کو چھوڑ کر خلقت کی عطاؤں پر تکیہ کر لیا ہے ۔ تمہاری بات اللہ اور اس کے نیک بندوں کے نزدیک اس وقت تک سنے جانے کے لائق نہیں، جب تک کہ تم اخلاص کے ساتھ تو بہ نہ کرو، اور توبہ پر ثابت قدم نہ ر ہوا اور اپنے ہرنفع اور نقصان میں راضی برضا ہو جاؤ کہ جس چیز میں خواہ عزت دے یا ذلت دے، امیری اور فقیری میں، عافیت اور مرض میں، ان چیزوں میں جن سے محبت رکھتے ہو، اور ان چیزوں میں جن سے نفرت رکھتے ہو۔
خدمت کرو یہاں تک کہ مخدوم بن جاؤ:
اے لوگو! اللہ کی اطاعت کرو تا کہ تمہاری اطاعت کی جائے ، خدمت کرو یہاں تک کہ مخدوم بن جاؤ، ۔ تقدیر اورقضائے الہی کی اتباع کرو، اس کے خادم بن جاؤ حتی کہ وہ تمہارے تابع اور خادم ہو جائیں ، ان کے سامنے جھک جاؤ یہاں تک کہ وہ تمہارے سامنے جھک جائیں ، کیا تم نے سنانہیں: ‌كَمَا ‌تَدِينُ تُدَانُ ”جبیاتم برتو گے، ویسا ہی تم سے برتا جائے گا۔“ جیسے تم ہو جاؤ گے جیسے عمل کر کے ویسے تم پر حکم مقرر کیا جائے گا۔ تمہارے اعمال ( جیسے تمہارے حاکم اللہ اپنے بندوں پرظلم نہیں کرتا تھوڑے عمل پر وہ بہت اجرت دیتا ہے، صحیح کا نام فاسد نہیں رکھتا، بچے کا نام جھونا نہیں رکھتا۔
دنیادی بادشاہ تمہارے نصیب سے زیادہ دینے پر قادر ہیں:
اے بیٹا! جب تو خدمت کرے گا ،مخدوم بنا دیا جائے گا، جب تو تقدیر کے ساتھ موافقت کر ے گا ، توفیق خبر دے دیا جائے گا۔ اللہ ہی کی خدمت گزاری کرے اسے چھوڑ کر دنیاوی بادشاہوں کی خدمت میں نہ لگ جانا جو تجھے نفع دے سکتے ہیں، نہ کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ اللہ کی طرف سے لا پرواہی نہ کر، یہ تجھے کیا دے سکتے ہیں۔ کیاوہ چیز دے سکتے ہیں جو تیرے نصیب میں نہیں ہے۔ کیا وہ ایسی چیز تمہاری قسمت میں کر سکتے ہیں جواللہ نے تمہاری قسمت میں نہیں کی ہے، ان کے پاس تو نئی چیز کوئی بھی نہیں ہے، اگر تم یہ کہو کہ وہ ( قسمت سے باہر کی چیز دے سکتے ہیں تو تم نے کفر یہ بات کہی، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ کی ذات کے سوا کوئی:
نہ دینے والا ، نہ روکنے والا ، نہ ضرر دینے والا ، نہ نفع پہنچانے والا، نہ پہلے ہے، نہ پیچھے ہے بعد میں باقی رہنے والا اللہ ہی اللہ ہے ، اگر تو یہ کہے کہ میں اسے جانتا ہوں تو میں تجھ سے کہوں گا کہ تو اسے کیسے جانتا ہے۔ اگر تو اسے جانتا پھر اس کے غیر کو اس پر فوقیت نہ دیتے۔
اللہ سے یوں شرما جیسے اپنے نیک پڑوسی سے شرماتا ہے:
تم پر افسوس ہے کہ دنیا کے بدلے تم آخرت کو کیسے خراب کرتے ہو، اپنے نفس اور خواہش اور شیطان اور خلقت کی اطاعت کر کے اپنے مالک کی تابع داری کیسے فاسد کرتے ہو، اس کے غیر سے شکوہ وشکایت کر کے اپنے تقوی کو کیوں ضائع کرتے ہو، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالی : پرہیز گاروں کا حافظ و ناصر ہے، ان سے بدی کو روکنے والا ہے،ان کو تعلیم دینے والا ہے , انہیں اپنی معرفت عنایت کرنے والا ہے۔ ان کا ہاتھ پکڑنے والا ہے، ان کے دلوں کو دیکھنے والا ہے، انہیں تکلیف دہ چیزوں سے نجات عطا کرنے والا ہے، – انہیں ایسی جگہ سے رزق پہنچانے والا ہے، جہاں سے انہیں گمان بھی نہیں ،
اللہ تعالی نے اپنی بعض کتابوں میں ارشادفرمایا:
يا ابن ادم استحي مني كما تستحيي من جارك الصالح – ” اے ابن آدم ! مجھ سے یوں شرما جیسے اپنے نیک پڑوسی سے شرماتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
إذا أغـلـق العبد ابوابه وارخى استارة واختفى من الخلق وخلا بمعاصي الله عز وجل يقول ال عز وجل يا ابن ادم جعلتني أهون الناظرين إليك . ’’ جب کوئی بندہ اپنے دروازے بند کر لیتا ہے، اور ان پر پردے ڈال دیتا ہے، اور خلقت سے چھپ جاتا ہےاور اس خلوت میں اللہ کی نافرمانی کرنے لگتا ہے۔
تو اللہ تعالی ارشادفرماتا ہے:۔ اے ابن آدم !تو نے اپنی طرف دیکھنے والوں میں سب سے زیادہ ادنی درجے کا مجھے سمجھا تو خلقت سے شرم کرتا ہے اور مجھ سے شرم نہ آئی۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 65،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 48دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
دسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے دسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس العاشر فی عدم التکلف ‘‘ ہے۔
منعقد ہ24شوال 545 بروز اتوار بوقت صبح
متقین اور منافقین کا عبادت الہی میں تکلف :
رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: «أَنا ‌والأتقياء من أمتِي بُرَآء من التَّكَلُّفمیں اور میری امت کے متقی تکلف سے بیزار ہیں ۔ متقی اللہ کی عبادت بلا تکلف کرتا ہے، کیونکہ عبادت تو اس کی عادت بن گئی ہے وہ اللہ کی بندگی اپنے ظاہر اور باطن دونوں سے اللہ کی بندگی بلا تکلف کرتا ہے۔ جبکہ منافق ہر حال میں تکلف کرتا ہے، خاص طور سے اللہ کی عبادت ظاہری طور پر تکلف سے ادا کرتا ہے، باطنی طور پر عبادت کا ترک کرنے والا ہے، ، وہ متقیوں کے مقام میں داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، ہر مقام کی بات الگ ہے، اور ہر عمل کے انسان بھی جداگانہ ہیں، لڑائی کے لائق بھی وہی ہے جو خاص طور سے اس کے لئے پیدا کیا گیا۔
نفاق والو! اپنے نفاق سے تائب ہو جاؤ اور اپنے فرار سے باز آؤ ۔ (اپنی اس بدخصلت کے باعث ) شیطان کو اپنی ہنسی اڑانے اور راحت پانے کا موقع کیوں دیتے ہو۔تمہاری نماز اور تمہارے روزے خلقت کے لئے ہیں ، خالق کے لئے نہیں ہیں، یہی حال تمہارے صدقے اور زکوۃ اور حج کا ہے۔ یہ سب بیکار ہوگا، عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ ( عمل کرنے والے، مشقت اٹھانے والے ) ۔ اگر تم نے اس کا تدارک نہ کیا تو بہ نہ کی معذرت نہ کی تو عنقریب تم دہکتی ہوئی جہنم میں جلائے جاؤ گے۔ شریعت کی اتباع کو اپنا شعار بنالو، نئی نئی باتیں پیدا نہ کرو، سلف صالحین کا طریقہ لازم پکڑو، صراط مستقیم پر چلو۔ اللہ تعالی کوکسی سے تشبیہ نہ دواور نہ ہی اس کی تعطیل( معطل ہونا بیکار ہونا اللہ تعالی کسی کی مثل ہے اور نہ ہی بیکار) ٹھہراؤ ہے۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی سنتوں پرعمل پیرا ہو جس میں کوئی تکلیف اور بناوٹ نہ ہو۔سنتوں کا یہ اتباع بغیر کسی سختی و تشدد کے بغیر کسی بے ادبی و گستاخی اور بغیر کسی غور وفکر کے ہو۔ ایسا کرنے سے اللہ تعالی تم پربھی ایسی وسیع رحمت والطاف کر یمانہ فرمائے گا جو تم سے پہلوں پر کئے ۔
اوروں کو نصیحت خودرافضیحت :
تیرے پرافسوس ہے کہ تو قرآن حفظ کرتا ہے مگر اس پرعمل نہیں کرتا، رسول ﷺکی احادیث یاد کرتاہےمگر ان پرعمل نہیں کرتا، تو یہ کیا کر رہا ہے۔
لوگوں کو کرنے کے لئے کہتا ہے اور خود وہ نہیں کرتا ، دوسروں کو روکتا ہے اور خود اس سے نہیں رکتا
ارشاد باری تعالی ہے:
كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ اللہ کو سخت ناپسند ہے وہ بات کہ وہ کہو جو خودنہ کرو ۔“
وہ کیوں کہتے ہو جس کے خلاف خود کرتے ہو، ذرا شرم نہیں کرتے ۔ کیوں ایمان کا دعوی کرتے ہو اور ایمان نہیں لاتے ۔ ایمان ہی آفتوں کا مقابلہ کرنے والا ہے، ایمان ہی ہمارے بوجھوں کے نیچے صابر ہے۔ایمان ہی مقابل کو بچھاڑ نے والا اور ٹھکانے لگانے والا ہے۔ ایمان ہی اپنی خوبیوں کے باعث مکرم ومعظم ہے،ایمان ہی اللہ کی تعظیم کرتا ہے، ایمان کی کرامت تعظیم اللہ کے لئے ہے، جبکہ نفس وحرص کی کرامت ، شیطان اور اغراض نفسانیہ کے لئے ہے۔ جو اللہ کے در کو چھوڑ دیتا ہے، وہ خلقت کے در پر جا بیٹھتا ہے۔ جو اللہ کے راستہ کو کھو دیتا ہے اور اس سے بہک جاتاہے، وہ مخلوق کی راہ اختیار کرتا ہے، جس بندے سے اللہ بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے، اس پر خلقت کے دروازے بند کر دیتا ہے، خلقت کے عطیئے اس سے روک دیتا ہے۔تا کہ:
اس طریقہ سے اسے اپنی طرف پھیر لے، گہرے پانیوں سے نکال کر اسے کنارے پر لا کھڑا کرے،اسے ناچیز سے چیز بنادے۔
تجھ پر افسوس ہے کہ تو سردیوں کے موسم میں اپنے تالاب کنارے بیٹھ کر خوش ہوتا ہے، عنقریب گرمیوں کا موسم آ کے جو پانی تیرے پاس ہے اسے چوس کر لے گا ، تالاب خشک کر کے تجھے مار ڈالے گا، تو دریا کنارے قیام کر جس کا پانی گرمیوں میں بھی ختم اور خشک نہیں ہوتا، اور سردیوں میں پھیلتا اور بڑھتا ہے، اللہ کے ساتھ رہ کر اللہ والا بن جا ، اور مالدار ، عزت والا ، امارت والا ، حاکم اور حکم چلانے والا بن جائے گا، اللہ کا تعلق جسے ماسوا سے بے پروا کر دے، ہر شے اس کی محتاج ہو جاتی ہے، یہ مقام زینت و آراستگی اور تمنا سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس چیز سے حاصل ہوتا ہے جو سینوں میں قرار پاتی ہے، اور جس کی تصدیق بندے کے عمل سے ہوتی ہے۔
کم گوئی تیری عادت اور گمنامی تیرالباس ہو:
اے بیٹا! کم گوئی تیری عادت اور گم نامی تیرا لباس ہونا چاہئے ، اور خلقت سے دور رہنا تیرا مقصود ہونا چاہے ۔ اگر ہو سکے تو زمین میں سرنگ نکال کر اس میں چھپ جاءچھپے رہنا تیری عادت ہو جائے ، یہاں تک کہ تیرا ایمان بڑھ جائے اور تیرے ایقان کے پاؤں جم جائیں، تیرے صدق وسچائی کے بازوؤں کے پرنکل آئیں ، اور تیرے دل کی آنکھیں کھل جائیں۔ اس مقام پر پہنچ کر تو اپنے مکان کی زمین سے بلند ہو جائے گا اور علم الہی کی فضا میں اڑنے لگے گا،مشرق ومغرب ، خشک وتر، زمین و پہاڑ اور آسمان وزمین کا چکر لگائے گا ۔ تیرے ساتھ تیرار ہبر ، تجھے امان دینے والا ہوگا ، اور اس سفر وحضر کا رفیق ہوگا اس وقت:
تیری زبان کو قوت گویائی عنایت ہوگی ، یہ گمنامی کالباس اتار دینا ،خلقت سے بھاگنا چھوڑ دینا، خلوت خانہ کی سرنگ سے نکل آنا ،یقینی طور پر تو خلقت کے لئے دوا ہے ۔ ان کے ملنے ملانے سے تیرے نفس کا کچھ نقصان نہیں ۔ ان کی کمی اور زیادتی ، ان کی تعریف اور برائی ، آنے اور نہ آنے کی پرواہ نہ کرنا ، کہاں گرے، کہاں پڑے، یہ دل سے نکال ڈال کیونکہ تو اپنے رب اللہ تعالی کی حضوری میں ہے۔
ایک ہی دل میں دنیاو آخرت اور خالق و مخلوق کی سمائی کیسے:
اے لوگو! اپنے خالق کو پہچانو اور اس کے حضور ادب سے رہو، جب تک تمہارے دل اس سے دور ہیں تم بے ادب بنے رہو گے۔ جب دل اس کے قریب ہو جائیں تو خوب ادب کرو، بادشاہ کی سواری آنے سے پہلے خدمت گارشور شرابے میں لگے رہتے ہیں : سواری آ جانے پر سب بادب بن کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، کیونکہ وہ اس سے قرب کی حالت میں ہیں، تب ان میں سے ہر ایک کسی گوشے کی طرف بھاگنے لگتا ہے ۔ خلقت کی طرف متوجہ ہونا خالق سےرخ پھیرنے کے برابر ہے، تمہیں فلاح ونجات حاصل نہ ہو گی جب تک کہ تو دوستوں سے الگ نہ ہو جائے اور اسباب سے کوئی واسطہ نہ ر کھے ۔نفع و نقصان میں خلقت کا دھیان چھوڑ دے،تم-بظاہر تندرست ہو مگر باطن میں بیمار ہو۔ بظاہر مال دار ہومگر حقیقت میں مفلس ہو ۔چلتے پھرتے زندہ ہومگر حقیقت میں مردہ ہو، ظاہری طور پر موجود ہومگر حقیقت میں معدوم ہو یہ اللہ کی ذات سے بھا گنا اور اس سے اعراض کرنا کب تک رہے گا،دنیا کی تعمیر آبادی اور آخرت کی خرابی و بربادی کب تک کرو گے ،تم میں سے ہر ایک کا ایک ہی دل ہے چنانچہ – اس سے دنیا و آخرت دونوں کی محبت کیسے کرو گے، اس میں خالق ومخلوق کی سمائی کیسے ہو ، یہ بات ایک ہی وقت میں ، ایک ہی دل میں کیونکر حاصل ہوسکتی ہے ۔ یہ دعوی جھوٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْكَذِبُ ‌مُجَانِبُ ‌الْإِيمَانِ كُلُّ ‌إنَاءٍ ‌يَنْضَحُ ‌بِمَا ‌فِيهِ’’جھوٹ ایمان سے دور رکھنے والا ہے، برتن میں جو کچھ ہوگا اس سے وہی ٹپکے گا۔‘‘ اسی لئے اللہ کے بعض بندوں کا کہنا ہے: الظاهر عنوان الباطن ’’ظاہر باطن کی خبر دیتا ہے ۔‘‘۔
تمہارا باطن اللہ اور اس کے خاص بندوں پر ظاہر ہے جب تمہیں اللہ کے خاص بندوں میں سے کوئی مل جائے تو اس کے سامنے بادب رہو ، اسے ملنے سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرو، اس کے پاس جا کر خود کو نا چیز سمجھ اور عاجزی اختیار کرو، صالحین کے لئے عاجزی اختیار کرنا، اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرنا ہے، عاجزی اختیار کرو، کیونکہ اللہ عاجزی اختیار کرنے والے کے درجات کو بلند کر دیتا ہے۔ بڑے کا ادب کرو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْبَرَكَةُ ‌مَعَ ‌أَكَابِرِكُمْ’’بڑوں میں برکت ہے ۔ راوی( مؤلف کتاب ) کا کہنا ہے کہ حضور ﷺ کی بڑے سے مرادعمر کا بڑا نہیں ہے۔ بلکہ بڑھاپے کے ساتھ احکام الہیہ کی بجا آوری اور ممنوعات سے ر کے رہنا مراد ہے ۔ اور اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پابندی کرنا ہے، جو کہ پر ہیز گاری کے ساتھ ہو،حقیقت میں فرماں بردار ہی بڑا ہے، وگرنہ عمر کے کتنے ہی بڑے ہیں جن کی تعظیم کیسی ،ان سے سلام کرنا بھی جائز نہیں ، اور نہ ان کے دیکھنے میں برکت ہے، بڑے وہ ہیں جو : _متقی ہیں ، صالحین ، پرہیز گار ہیں ، علم پرعمل کرنے والے ہیں، عمل میں اخلاص کر نے والے ہیں ، جن کے دل صاف ہیں، ماسوا اللہ سے اعراض کرنے والے ہیں، اللہ ہی کے لئے عمل کر نے والے ہیں، جواہل دل ہیں ، اللہ کی معرفت والے ہیں، اللہ سے قرب والے ہیں، دلوں کا علم جب زیادہ ہو جاتا ہے، وہ اپنے رب سے قریب تر ہو جاتے ہیں، ہروہ دل جس میں دنیا کی محبت ہے، وہ اللہ سے حجاب میں ہے ( محبوب نہیں، محجوب ہے – ہر وہ دل جس میں آخرت کی محبت ہے، وہ اللہ کے قرب سے حجاب میں ہے۔ جس قدر تجھے دنیا میں رغبت ہوگی ، اس قدر آ خرت میں رغبت کم ہو جائے گی اور جس قدر رغبت آخرت میں ہو گی ،اتنی ہی اللہ کی محبت کم ہو جائے گی ، اس لئے اپنی ذات اور مقام کو پہچانو ۔ اپنے نفسوں کو اس درجہ پر نہ چھوڑ و جس درجہ میں اللہ نے انہیں جگہ نہیں دی ، اسی لئے اللہ کے بعض ولیوں نے فرمایا: من لم يعرف قدرة عرفته الاقدار قدرہ ” جس نے خودکونہ پہچانا ، تقدیر الہی اسے اس کی پہچان کر دے گی۔‘‘ چنانچہ ایسی جگہ نہ بیٹھو کہ جہاں سے اٹھادیا جائے ۔ جب کسی کے ہاں جاؤ تو ایسی جگہ نہ بیٹھو جہاں تجھے صاحب خانہ نے نہ بٹھایا ہو، کیونکہ تجھے وہاں سے ہٹا دیا جائے گا، اگر حیل و حجت کرو گے تو اٹھا کر ذلیل کر کے نکالے جاؤ گے۔
انبیاء اور علما خلقت کے نگہبان ہیں:
اے بیٹا! تو نے عمل نہ کیا اور اپنی عمر کتابیں پڑھنے اور انہیں یاد کرنے میں ضائع کردی تمہیں کیا فائدہ ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
يقول الله عز وجل يوم القيمة للانبياء والعلماء التم کنتم رعاۃ الخلق فما صنعتم في رعاياكم ويقول للملوك والأغنياء التم كنتم خزان كنوزي هل واصلتم الفقراء وربيتم الايتام وأخرجتم منها حقي الذي كتبته عليكم ” قیامت کے دن اللہ تعالی انبیا علیہم الصلوۃ والسلام اور علماء رحمہم اللہ سے فرمائے گا:’’ تم مخلوق کے نگہبان تھے تم نے اپنی رعایا کے ساتھ کیا کیا ، اور بادشاہوں اور امیروں سے فرمائے گا: ” تم میرے خزانوں کے خازن تھے، کیا تم نے محتاجوں کے حقوق ادا کئے ۔ اور کیا تم نے یتیموں کی پرورش کی اور تم نے ان سے میراحق (زکوۃ نکالا جو میں نے تم پر فرض کیا تھا‘‘۔ اے لوگو! رسول کریم ﷺ کے فرمان سے نصیحت حاصل کرو، اور ان کے کہے پر عمل کرو، کس چیز نے تمہارے دل سخت کر دیئے ہیں۔ اللہ کی ذات پاک ہے جس نے اپنی خلقت کے دکھ اٹھانے کی مجھے ہمت عطا فرمائی ہے، میں جب اڑنے کا ارادہ کرتا ہوں تو تقدیر کی قینچی میرے پر کاٹ دیتی ہے اور اڑنے سے روک دیتی ہے، اس کے باوجود مجھے اطمینان ہے کیونکہ میں شاہی بارگاہ میں مقیم ہوں ۔
منافقو! اپنی حالت پر خود ہی غور کرو
اے منافق! تجھ پر افسوس ہے کہ تو اس شہر سے میرے نکل جانے کی آرزورکھتا ہے۔ اگر میں حرکت کروں تو امر بدل جائے ، اعضاءالگ ہو جائیں ، اور اپنی بات بگڑ جائے ، بڑی تبدیلیاں آ جائیں ، لیکن میں جلد بازی سے اللہ کے عذاب آنے سے ڈرتا ہوں۔ میں خود سے تیار نہیں بلکہ ایسا ہونا میری تقدیر سے ہے، ایسا ضرور ہوگا، میں اس کے موافق اور اس کے حوالے ہوں ، الہی سلامتی اور تسلیم عنایت فرما۔ تیرے لئے افسوس ہے تو میری ہنسی اڑاتا ہے۔ حالانکہ میں اللہ کے در پر کھڑا ہوں اور اس کی مخلوق کو اس کی طرف بلا رہا ہوں ۔تجھے عنقریب جواب مل جائے گا، میں اوپر کی طرف ایک ہاتھ ہوں اور اس کے نیچے ہزاروں ہاتھ ہیں۔ اے منافقو ا تم جلدہی اللہ کا عذاب دیکھ لو گئے ، دنیا و آخرت میں اس کی مار پڑے گی ، زمانے کو حمل ٹھہرا ہوا ہے، اس سے جو کچھ بھی پیدا ہو گا تم جلد ہی دیکھ لو گے، میں تو دست قدرت کے تصرف میں ہوں ۔ کبھی وہ مجھے پہاڑ بنا دیتا ہے ، کبھی وہ مجھے زرہ بنا دیتا ہے او رکبھی دریا کر دیتا ہے ۔ کبھی وہ مجھے قطرہ بنا دیتا ہے ۔ کبھی وہ مجھے آفتاب بنادیتا ہے، اور کبھی چمک اور روشنی ۔وہ مجھے رات اور دن کی طرح پالتا رہتا ہے، كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ” وہ ہر ایک دن نئی شان میں ہے۔ بلکہ ہر ایک میں، آج کا دن (یعنی دنیا تمہارے لئے ہے، اور ایک پل تمہارے (یعنی اللہ کے ولیوں کے لئے ہے ۔
خلقت کی ایذارسانی پرحق کی رضا کے لئے صبر اختیار کر
اے بیٹا! اگر تم سینے کی فراخی اور دل کی خوشی چاہتے ہوتو خلقت کی ایک نہ سنو، اوران کی بات پر توجہ نہ دو۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ وہ اپنے خالق سے خوش نہیں ، پھر تم سے کیسے خوش ہوں گے ۔ ان میں سے اکثر بے عقل اور اندھے ہیں اور بے ایمان ہیں ، بلکہ اللہ کی تصدیق کرنے کی بجائے تکذیب کر تے ہیں ، ان لوگوں کی اتباع کروجو غیر اللہ کو کچھ نہیں سمجھتے، غیر اللہ کی نہیں سنتے۔ غیر اللہ کونہیں دیکھتے۔ تو خلقت کی ایذارسانی پرحق کی رضا کے لئے صبر اختیار کر، طرح طرح کی مصیبتوں کی آزمائش برداشت کر ، اللہ کا اپنے برگزیدہ بندوں کے ساتھ یہی وطیرہ ہے کہ:
ان کو سب سے الگ کر دیتا ہے،طرح طرح کی مصیبتوں ، آفتوں اور مشقتوں سے ان کی آزمائش کرتا ہے۔دنیاد آ خر ت اور عرش سے لے کر فرش تک ہر چیز ان پر تنگ کر دیتا ہے۔
جس سے ان کی ہستی فنا ہو جاتی ہے ، جب ان کی ہستی فنا ہو جاتی ہے تو انہیں نیا وجود عطا کرتا ہے، انہیں اپنا بنالیتا ہے نہ کہ غیر کا ،اب انہیں اپنے ساتھ قائم کرتا ہے نہ کہ دوسرے کے ساتھ انہیں نئی زندگی عطا کرتا ہے، جیسا کہ ارشادفرمایا: ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ‌فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ پھر ہم نے انہیں دوبارہ پیدا کیا، با برکت ہے اللہ ، سب سے اچھا پیدا کرنے والا ۔ پہلی خلقت مشترک ہے اور دوسری تنہائی والی ، جو اسے اپنے بھائیوں اور تمام ہم جنسوں سے جدا کر دیتی ہے ۔اس کے پہلے معنی میں تغیر و تبدل ہو جا تا ہے۔ اس کی بلندی پستی ہو جاتی ہے، وہ اللہ والا روحانی ہو جاتا ہے، اس کا دل غیر کود یکھنے سے تنگ ہو جاتا ہے۔ اس کا باطنی دروازہ مخلوق سے بند ہو جا تا ہے،
دنیا و آخرت، اور جنت و دوزخ ، اور ساری خلقت اور سب طرح کے عالم اسے ایک ہی معلوم ہوتے ہیں ، پھر یہ چیز اس کے باطن کی دسترس میں دے دی جاتی ہے وہ اسے ایسے نگل جاتا ہے کہ وہ ظاہرہی نہیں ہوتا ۔ ایسے دست باطن میں قدرت کے نشان ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ اس کا ظہور حضرت موسی علیہ السلام کے عصا مبارک میں ہوا۔ پاک ہے وہ ذات جو اپنی قدرت جس چیز میں اور جس کے ہاتھ میں چاہے ظاہر کرتا ہے، موسی علیہ السلام کا عصا جادوگروں کی ڈھیروں رسیاں وغیرہ نگل گیا ۔ اس کے اندر کوئی تبدیلی نہ آئی ، اللہ تعالی نے چاہا کہ فرعونیوں کو بتا دے کہ یہ اس کی قدرت ہے، حکمت نہیں ۔ اس دن جادوگروں نے جو مظاہرہ کیا تھا، وہ حکمت اور فن ہندسہ پرمبنی تھا ، اور جو کچھ موسی علیہ اسلام کے عصا میں ظاہر ہوا وہ اللہ تعالی کی قدرت اور خلاف عادت معجزہ تھا، اسی لئے جادوگروں کے سردار نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص سے کہا: موسی (علیہ السلام) کی طرف دیکھے، وہ کس حال میں ہیں ۔ اس نے کہا: موسی (علیہ السلام) کارنگ متغیر ہو گیا ہے،اورعصا اپنا کام کر رہا ہے۔
پھر سردار نے کہا: یہ اللہ تعالی کا عمل ہے، موسی (علیہ السلام کانہیں کیونکہ جادو گر اپنے جادو سے، اور صانع اپنی صنعت سے خوف نہیں کھاتا۔ ان کا یہ معاملہ دیکھ کر وہ جادوگر سردار اپنے ساتھیوں سمیت موسی علیہ السلام پر ایمان لے آیا۔
حکمت والے علم سے اللہ کی قدرت تک رسائی :
اے بیٹا! حکمت چھوڑ کر قدرت کی طرف کب دھیان دو نگے ۔ تیراعمل حکمت کے ذریعے اللہ کی قدرت سے کب ملائے گا ۔ تیرے عملوں کا اخلاص کب تجھے قرب الہی کے دروازے تک لے جائے گا۔ معرفت کا آفتاب عام و خاص کے دلوں کے چہرے کب تجھے دکھلائے گا، تو سنبھل جا! – بلا سے ڈر کے اللہ سے نہ بھاگ ۔ وہ اس سے تیری آزمائش کرتا ہے تا کہ معلوم کرے کہ تو رب کی طرف رجوع کر کے اس کا دروازہ چھوڑتا ہے یا نہیں۔ تو ظاہر کی طرف رجوع کرتا ہے یا باطن کی طرف ، پائے گئے کی طرف جاتا ہے یا نہ پائے گئے کی طرف ، دیکھے گئے کی طرف جاتا ہے یا نہ دیکھے گئے کی طرف ۔
تیرے حضور التجا ہے: اللهم لا تبتلناه اللهم ارزقنا القرب منك بلا بلاء والتهم قربا و لطفا ، اللهم قربا بلا بعده لا طاقة لنا على البعد منك ولا على مقاساة البلاء فارزقنا القرب منك مع عدم نار الأقـات فـإن كان ولا بد من ثار الأقات فاجعلنا فيها كالشمندل الذي يبيض و يفرح في النار وهي لا تضـرة ولا تخرفة اجعلها علينا كنار إبراهيم خليلك أثبت حوالينا عشبا كما أنبت و تولنا كما توليته واحفظنا كما حفظته . حواليه واغينا عن جميع الأشياء كما أغنيته واي
الی! ہمیں آزمائش میں نہ ڈال، الہی ہمیں آ زمائش کے بغیر اپنا قرب عطا فرما، الہی! اپنا قرب ولطف عنایت فرما، الہی! ہمیں ایسا قرب عطا فرما جس میں دوری نہ ہو، ہم میں تجھ سے دوری کی طاقت نہیں ، نہ بلا کے برداشت کرنے کی ہمت ہے، آفتوں کی آگ بجھا کر اپنا قرب عنایت فرما: قرب کے لئے اگر آفتوں کی آگ ضروری ہے تو آتشی کیڑے (سمندل ) جیسا کر دے، جو آ گ ہی میں انڈے دیتا اور بچے نکالتا ہے، آگ نہ اسے جلاتی ہے نہ کوئی ضرر دیتی ہے، ہم پر اس آگ کو خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ کے مشابہ کر دے ۔ جیسے ان کے ارد گر دگلزار کھلایا، ہمارے آس پاس بھی چمن کھلا دے، جیسے انہیں سب چیزوں سے بے نیاز کر دیا تھا ہمیں بھی ان سب سے بے نیاز کر دے، جیسے ان کا والی اور غم خوار بنا، ہمارا بھی والی وغم خوار بن جا، جیسے ان کی حفاظت کی ، ہماری بھی حفاظت کر ، آمین!‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سیکھو اور ان کی پیروی کرو:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سفر سے پہلے رفیق کو،گھر سے پہلے ہمسائے کو-وحشت سے پہلے غم خوار کو مرض سے پہلے پر ہیز کو مصیبت سے پہلے صبر کو -قضاسے پہلے رضائے الہی کو ، حاصل کر لیا تھا ، تم اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سیکھو، ان کے کہے اور کئے میں ان کی پیروی کروسے پاک ہے وہ ذات جس نے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بلا کے دریا میں ان پرمہربانی کی ،۔ انہیں بحر بلا میں تیرنے کا حکم دیا اور خودان کی مددفرمائی ، انہیں دشمن پر حملے کا حکم دیا اور خودان کے ساتھ سوار تھا، انہیں بلند چوٹی پر چڑھنے کا حکم دیا اور اپنا ہاتھ ان کی کمر میں ڈال رکھا تھا ۔ انہیں خلقت کی دعوت طعام کا حکم دیا اور خرچ اپنے پاس سے دیا ہے، عنایت باطنی اور پوشیدہ مہربانی اس کا نام ہے۔
قضاوقدر کے وقت اللہ کے سامنے چپ رہو
اے بیٹا! قضا وقدر کے آتے وقت اللہ تعالی کے سامنے خاموش رہو، تا کہ اس کی طرف سے ہونے والی بہت سی رحمتیں دیکھ سکو کیا تم نے حکیم جالینوس کے غلام کا حال نہیں سنا وہ جان بوجھ کر گونگا بیوقوف اور بھولا بھالا بنا رہا اور اس طرح جالینوس کا تمام علم سیکھ لیا، بہت بک بک کرنے دل کے ساتھ جھگڑنے سے اس پر اعتراض کرنے سے تیرے دل میں اللہ کی حکمت نہ آئے گی۔ اللهم ارزقنا الموافقة وترك المنازعة ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی ہمیں موافقت اور ترک منازعت عطا فرما، اور دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھلائی عطافرماء ، اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔ آمین!‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 67،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 48دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
گیارہویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سےگیارھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الحادی عشر فی معرفۃ اللہ عز وجل ‘‘ ہے۔
منعقد ہ 29 شوال 545 بروز جمعہ بوقت صبح ، بمقام مدرسه قادر یہ
وہی اول وہی آخر، وہی ظاہر وہی باطن ، وہی قدیم واز لی ہے:
اے لوگو! اللہ کی پہچان حاصل کرو، اس سے بے خبری نہ کرو، اس کی فرماں برداری کرو، نافرمانی چھوڑ دو ، اس کی موافقت کرو، اس کے خلاف نہ چلو، اس کی قضا وحکم پر راضی رہو، اس میں جھگڑا نہ کرو، اللہ کواسی کی بنائی ہوئی چیزوں (صنعت) سے پہچانو، وہی خالق ہے، وہی رازق، وہی اول ہے، وہی آخر، وہی ظاہر ہے، وہی باطن، وہی قدیم ہے، وہی ازل، وہی دائم ہے، وہی ابدی ،جو چاہے وہ کرنے والا ہے
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ” جو کچھ وہ کرے، پو چھانہ جائے گا۔ دوسرے جو کچھ کریں پوچھے جائیں گے ۔
وہی فنی کرنے والا، وہی محتاج کرنے والا ،وہی نفع دینے والا ، . وہی نقصان دینے والا ،وہی زندہ کرنے والا ، وہ موت دینے والا ۔
وہی سزا دینے والا ، وہی ڈرسنانے والا ۔وہی امید دلانے والا،اس سے ڈرو، اس کے غیر سے نہ ڈرو، اسی سے امید رکھو، اس کے غیر سے امید نہ لگاؤ،
اس کی حکمت وقدرت کے ساتھ چکر کھاتے رہو تا کہ اس کی تقدیر (قدرت ) تمہاری دانائی (حکمت) پر غالب آ جائے ، اس سیاہی سے جوسفیدی پر ہے، ادب سیکھو (یعنی قرآن مجید پر عمل پیرا ہو )، تا کہ جو چیز تم میں اور اس میں پھر رہی ہے، حاصل ہو جائے ، شرعی حدود ( جن کی طرف ظاہری اشارہ ہے باطنی نہیں ) تو ڑنے سے بچو ۔ اس درجہ تک، صالحین میں سے کوئی کوئی رسائی پا تا ہے، ہر ایک نہیں ، شرع کے دائرہ کار سے باہر ہمارے لئے کوئی حاجت نہیں، اس امر کی پہچان اس کو ہے جو اس کے اندر آئے ، فقط حال بیان کرنے سے اسے کوئی نہیں پہچان سکتا، تم اپنے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے کمر باندھ لو ۔ آپ ﷺ نے جو کرنے کے لئے فرمایا، وہ کئے جاؤ ، اور جس سے روک دیا، اس سے باز رہو ۔ یہاں تک کہ مالک تمہیں اپنی طرف آنے کے لئے پیغام بھجوائے ( موت کا فرشتہ آ پہنچے)تب رسول اکرم ﷺ کا اکرام کرتے ہوئے ان سے اجازت چا ہو، اور درگاہ میں حاضر ہو جاؤ۔
ابدال کون ہیں ، ان کا مقام ومرتبہ کیا ہے؟
ابدال کا نام ابدال اسی وجہ سے ہے کہ وہ اپنا ارادہ مشیت ایزدی کے خلاف نہیں رکھتے ، اس کے اختیار کے ساتھ اپنا کوئی اختیار نہیں رکھتے ، ظاہری حکم پر حکم لگاتے ہیں ، اور ظاہری اعمال پر عمل کرتے ہیں ۔ پھر ایسے اعمال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو کہ ( تنہائی میں) انہی کے لئے خاص ہیں، جب ان کی منازل اور درجات میں ترقی ہوتی ہے تو وہ امر ونہی کے بجالانے میں اور زیادہ کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ایسے مقام پر جا پہنچتے ہیں کہ جہاں یہ امر ہے اورنہ نہی ہے ۔ بلکہ ان سے اثر قبول کر کے شرعی احکام ان کی طرف نسبت کئے جاتے ہیں ، اور یہ تنہائی میں ہوتے ہیں۔ بالعموم وہ خلقت سے غائب رہتے ہیں اور حق تعالی کی معیت میں رہتے ہیں، امر ونہی بجالانے کے وقت حاضر ہو جاتے ہیں ،امرونہی دونوں کے نگہبان ہوتے ہیں تا کہ حدود شرعی میں سے کوئی حد ضائع نہ ہو جائے ، فرض کی گئی عبادات کا ترک کرنا بے دینی ہے، جبکہ منع کی ہوئی چیزوں سے نہ ر کنا گناہ ہے، فرض کی گئی عبادت کسی شخص سے کسی حال میں ساقط نہیں ہوتی
رضائے الہی کے لئے نفس اورمخلوق کے خلاف ہو جا:
اے بیٹا! اللہ کے حکم و عمل کے ساتھ عممل کر، دائرے سے باہر نہ نکل ، قَالُوا بَلَى کا عہد نہ بھول،اپنے نفس اور حرص اور شیطان اور عادت اور دنیا سے جہاد کر اللہ کی مدد سے نا امید نہ ہو، اس کی مدد تیری ثابت قدمی کے ساتھ آتی رہے گی ، ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ۔ دوسری جگہ ارشادفرمایا: فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ ‌الْغَالِبُونَ بیشک اللہ والے ہی غالب ہیں ۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ ‌سُبُلَنَا جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا، ہم انہیں اپنے دربار کے کئی رستے بتاتے ہیں
خلقت کے پاس اللہ کا شکوہ کرنے سے اپنی زبان کو روک لے، رضائے الہی کے لئے نفس اورمخلوق کے خلاف ہوجا۔ اس کی فرماں برداری کا حکم دے اور نافرمانی سے روک ، انہیں گمراہی اور بدعت سیئہ اور حرص اور نفس کی موافقت سے باز رکھ ، انہیں کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرنے کا حکم دے۔
قرآن مخلوق نہیں اللہ کا کلام ہے۔
اے لوگو! کلام الہی کا احترام کرو اور اس سے ادب کھو ۔ اللہ اورتم میں وصال کرانے والی یہی اللہ کی کتاب ہے ۔ اسے مخلوق نہ ٹھہراؤ اللہ فرماتا ہے ھذا کلامی میرا کلام ہے ۔ اورتم کہتے ہو کہ:’یہ اس کا کلام نہیں‘‘ جس نے اللہ کارد کیا اور قرآن کو مخلوق بتایا اس نے صریح کفر کہا، اور اللہ اس سے بیزار ہے – یہی قرآن پڑھا جاتا ہے۔ یہی قرآن سنا جا تا ہے۔ یہی قرآن دیکھا جا تا ہے۔ یہی قرآن صحیفوں میں لکھا ہوا ہے، – یہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔۔حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم نے فرمایا:
قلم مخلوق ہے ، جو اس سے لکھا گیا ( قرآن ) غیر مخلوق ہے، قلب ( دل ) مخلوق ہے، جو اس میں حفظ کیا گیا ( قرآن ) غیر مخلوق ہے ۔ اے لوگو! قرآن سے عمل کے ساتھ نصیحت پکڑو، اس میں جھگڑا نہ کرو، اعمال کثیر ہیں جبکہ اعتقاد کے کلمات تھوڑے ہیں، قرآن پر ایمان لاؤ ، اور دل سے تصدیق کرو، اور اعضاء سے عمل کرو، جو چیز نفع دینے والی ہے اس میں مشغول ہو جاؤ، ناقص اورر ذیل عقلوں کی طرف دھیان نہ دو،
در از زبان اور جاہل دل سے کچھ نفع نہیں:
اے لوگو اعقل سے نقل کا کچھ نتیجہ نہیں نکلتا، نص کو قیاس سے ترک نہیں کیا جاسکتا ۔ گواہ کو چھوڑ کر دعوے پر اکتفانہ کرو، لوگوں کا مال ثبوت اور گواہ کے بغیر محض دعوے سے حاصل نہیں ہوتا ، رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: ولَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْواهُم، لادَّعى رِجالٌ أموالَ قَومٍ ودِماءَهُم ‌ولكن ‌البَيِّنَةُ ‌على ‌المُدَّعي ‌واليَمينُ ‌على ‌مَنْ ‌أَنْكراگر کسی کو محض دعوی سے کچھ حاصل ہو سکتا تو ایک قوم دوسری قوم پر اپنے مال اور خون کا دعوی کرتی ، لیکن (یاد رکھو ) مدعی پر گواہ ضروری ہیں اور انکار کرنے والے پر قسم کھانا ‘‘۔ زبان دراز اور جاہل دل سےکچھ نفع نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: إِنَّ أَخْوَفَ ‌مَا ‌أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي كُلُّ مُنَافِقٍ ‌عَلِيمِ ‌اللِّسَانِ: خود مجھے خوف ہے ، اور امت پر خوف کرتا ہوں ،زبان دراز منافق سے ۔“
اطاعت الہی پر انعام و اکرام :
اے علم والو! اے جاہلو! اے حاضرو! اےغائیبو! اللہ سے حیا کرو اور اپنے دلوں پر نگاہ ڈالو!اس کے حضور میں ذلیل ہو جاؤ، اپنے نفسوں کو صبر کرنا سکھاؤ ،اپنے نفسوں کو تقدیر الہی کے گرزوں کے نیچے ڈال دو ۔ نعمتوں پر شکر کرتے ہوئے گرزوں کی ضربوں کو برداشت کرو، اللہ کی فرماں برداری میں روشنی کو اندھیرے سے ملا دو، اس کی عبادت میں رات دن ایک کر ڈالو، جب یہ سب تم کر گز رو گے تو اللہ کی طرف سے دنیا میں بزرگی اور عزت اور آخرت میں جنت حاصل ہوگی ۔
دنیا کی ہر شے کی محبت چھوڑ دے:
اے بیٹا! اس بات کی کوشش کر کہ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہ ہو جس سے تجھے محبت ہو، تو سب کی محبت چھوڑ دے ۔جب یہ مقام مل جائے تو تو : – ایک پل کے لئے بھی اپنے نفس کے ساتھ نہ چھوڑا جائے گا۔ اگر بھولے گا تو یاد دلا دیا جائے گا۔اگر غافل ہوگا تو بیدار کر دیا جائے گا، غرض نظر رحمت تمہیں غیر کی طرف دیکھنے کے لئے نہ چھوڑے گی ، جسے یہ ذوق حاصل ہوا اس نے اللہ کو پہچان لیا۔ اس طرح کے لوگ خلقت میں گنے چنے ہوتے ہیں جومخلوق کے پاس ٹھہر نانہیں چاہتے ،
اللہ کی محبت میں اپنی ہستی کو مٹا دینے والے
آفتیں اور بلائیں منافقوں کے دلوں کے سروں پر سوار ہیں ، اللہ کے ولی جب کبھی اپنے دلوں کی آنکھوں سے اللہ کے غیر کی طرف دیکھتے ہیں تو شرمسار ہو جاتے ہیں، اور اپنی سلامتی کے لئے مخلوق کی طرف سے (ایک طرح سے ) آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اللہ پر اعتراض کرنے سے بچنے کے لئے اپنی زبانیں (گویا) کاٹ لیتے ہیں،۔
اور اللہ کے ہاں سکون پانے کے لئے ، اس کے حضور پڑے رہتے ہیں ۔ رات دن ، مہینے اور سال ان پر گزرتے چلے جاتے ہیں، مگر وہ اس ایک حالت پر قائم رہتے ہیں ۔ اللہ کے لئے ان کے معمولات و معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اللہ کی مخلوق میں وہ سب سے بڑھ کر نقل والے ہیں ، اگرتم انہیں دیکھو تو دیوانہ کہو۔ اگر وہ تمہیں دیکھیں تو یہ کہیں کہ یہ لوگ قیامت کے دن پر ایمان ہی نہیں لائے ہیں ، ان کے دل غم زدہ اور ٹوٹے ہوئے ہیں، وہ ہمیشہ ڈرے ہوئے اور تر سے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالی جب ان کے دلوں پر اپنےجلال اور عظمت کے پردے اٹھا تا ہے تو ان کا خوف بڑھ جاتا ہے ، قریب ہے کہ ان کے دل پھٹ جائیں ، ان کا جوڑ جوڑ الگ ہو جائے ، اللہ تعالی جب ان کایہ حال دیکھتا ہے تو ان پر اپنی رحمت اور جمال مہربانی اور امید کے دروازے کھول دیتا ہے ۔ اس طرح سے ان کی ہر طرح کی بے قراری کو قرار آ جاتا ہے۔
دل میں غیر اللہ کو بسانے سے نجات نہ ہوگی :
مجھے تو طالب آخرت اور طالب مولی کے دیکھنے کا اشتیاق ہے۔ مجھے طالب دنیا اورمخلوق اور نفس اور حرص سے کیا مطلب! ۔ سوائے اس کے کہ میں اس کے علاج سے محبت کروں، کیونکہ وہ مریض ہے، اور مریض سے طبیب کے سوا کون محبت کرتا ہے
افسوس کی بات یہ ہے کہ تو اپنا حال ان سے چھپاتا ہے جبکہ وہ ان سے چھپنا محال ہے ۔ اور مجھ پر یہ ظاہر کر تے ہو کہ تم طالب آخرت ہو، حالانکہ تم طالب دنیا ہو ۔ تمہارے دل کی حرص تمہارے ماتھے پر لکھی ہوئی ہے۔ تمہارے باطن کی بات تمہارے ظاہر سے ظاہر ہے، تمہارے ہاتھ کا دینارکھوٹا ہے، اس میں فقط ایک دانگ سونا ہے اور سب چاندی ہے،یہ کھوٹا سکہ مجھے نہ دکھا ، میں نے ایسے بہت دیکھے ہیں ، یہ مجھے دے دو، اور اس پر پورا اختیار بھی دو، تا کہ میں اس سے جتنا سونا ہے،الگ کروں اور کھوٹ کو پھینک دوں، تھوڑی مقدار میں کھرا بہت سے ردی مال سے بہتر ہے، اپنے دینار کے لئے مجھ پر بھروسہ کرو، میں سکہ بنانا جانتا ہوں ، میرے پاس اس کے لئے اوزار ہیں ۔ ریاء اور نفاق سے تو بہ کر، اپنے نفس پر گناہ کا اقرار کرنے میں جھجک محسوس نہ کر، کیونکہ اخلاص والوں میں سے اکثر پہلے منافق تھے ۔ اس لئے بعض صوفی یہ فرماتے ہیں:
لا يعرف الإخلاص إلا المرائي – اخلاص کونہیں پہچانتا سوائے ریا کار کے ۔‘‘ ایسے لوگ شاذ و نادر ہوتے ہیں جو شروع سے آخر تک مخلص ہوں ، شروع شروع میں بچے جھوٹ بولتے ہیں ،اورمٹی اور گندی چیزوں سے کھیلتے ہیں ، اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں ۔ اپنے والدین کی چوریاں کرتے ہیں اور چغلیاں کرتے ہیں ، جب انہیں سمجھ آنے لگتی ہے تو ان کے عیب تھوڑے تھوڑے کم ہونے لگتے ہیں،ماں باپ اور استادوں کا ادب کرنے لگتے ہیں اور ان کے طریقوں پر چلنے لگتے ہیں۔
اللہ جس بندے سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے ادب سکھا دیتا ہے اور برائیاں چھڑادیتا ہے، اور جس سے برائی کا ارادہ کرے، اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، چنانچہ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو جاتے ہیں ، اللہ نے مرض اور علاج دونوں پیدا کئے ۔گناہ مرض ہے اور عبادت دوا، ظلم مرض ہے اور عدل دوا،خطا مرض ہے اور صواب دواء “- اللہ کی نافرمانی مرض ہے، اور گناہوں سے تو بہ دواء دوا کا اثر تب ہوگا جب اپنے دل سے مخلوق کو الگ کر دے گا ، اور اپنے دل کورب سے ملا دے گا، اس کی طرف ایسا بلند کرو کہ تیری روح آسمان پر اور گھر زمین پر ہو، اپنے علم کے ذریعے دل کے ساتھ اللہ سے تنہائی اختیار کرو، حکم کی تعمیل کے لئے مخلوق میں شامل ہو جاؤ،عمل کی کسی خصلت میں ان سے مخالفت نہ کرو تا کی عمل اور مخلوق کو تمہارے خلاف حجت نہ ر ہے ، ظاہری طور پر خلقت کے ساتھ رہو اور باطنی طور پر اللہ کے ساتھ رہو، اپنے نفس کو بے مہار نہ چھوڑو ۔ اگر تم اس پر سواری نہ کرو گے تو وہ سوار ہو جائے گا – اگرتم نہ ا سےبچھاڑو گئے تو و ہ تمہیں بچھاڑ دے گا،
اگر تمہارا نفس اللہ کی عبادت میں تمہاری تابع داری نہ کرے تو بھوک پیاس اور ذلت و برہنگی اور خلوت کے کوڑوں سے اس کی ایسی جگہ خاطر کرو جہاں کوئی اس کا غم خوار نہ ہو، جب تک تجھے اطمینان نہ ہو جائے ، اسے سزادے، اس کی کمر سے چابک نہ اٹھانا یہاں تک کہ مطمئن ہو کر ہر حال میں اللہ کی فرماں برداری میں لگ جائے نفس کے اطمینان کے باوجودڈانٹ ڈپٹ کرتے رہو، اس سے کہو کہ کیا تو نے یہ اور وہ نہیں کیا ، ، اس طرح کرتے رہو یہاں تک کہ نفس بالکل انکساری کی حالت میں آ جائے ۔
ان سب باتوں پر مجھے جب ہی مد دمل سکتی ہے جب تو مراد الہی کا طالب ہو، اور اس کی موافقت کرے اور گناہوں سے بچے تمہارا ظاہر و باطن ایک ہو جائے ، موافقت کر ے مخالفت نہ کرے، اطاعات و عبادت ہو معصیت نہ ہو ، شکر ہو، ناشکری نہ ہو، ذکرویاد ہو،نسیان نہ ہو ۔ خیر ہی خیر ہو شر نہ ہو ،
جب تک غیراللہ کا تیرے دل میں بسیرا ہے، نجات وفلاح نہ ملے گی ،خواہ ہزار برس تک دہکتی آگ پر سجدہ کرے، اس حال میں کہ تیرا دل غیر اللہ کی طرف متوجہ ہو، اس سجدے کا ذرا فائدہ نہ ہوگا، نہ آخرت سدھرے گی اس حال میں کہ دل ما سوا اللہ کے ساتھ دوستی بنائے رہے، اللہ کی محبت میں ہرگز سعادت نہ پاؤ گے جب تک کہ سب کچھ ملیامیٹ نہ کر دو ۔ بظاہر چیزوں سے بے رغبتی ظاہر کرنا اور دل کا ان کی طرف دھیان کرنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا ، کیا تجھے نہیں معلوم کہ جو کچھ سب کے سینوں میں ہے، اللہ کوان کی خبر ہے، حالانکہ تیرے دل میں اس کے غیر نے ڈیرہ جمارکھا ہے۔
جاہل علماء سے دھوکا نہ کھاؤ:
اے بیٹا! اللہ کی بردباری دیکھ کر مغالطہ میں نہ پڑ، اس کی پکڑ بہت سخت ہے، وہ علماء جو درحقیقت اللہ سے جاہل ہیں۔ دھوکا نہ کھاؤ، ان کا ساراعلم انہیں نقصان پہنچانے والا ہے نفع دینے والانہیں، وہ اللہ کے حکم کے عالم ہیں ، اس کی ذات سے جاہل ،لوگوں کو امرالہی بتاتے ہیں ،خودعمل نہیں کرتے ، جس کام سے روکتے ہیں ، خودنہیں رکتے ،خلقت کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں، خود بھاگتے ہیں ۔ اپنی نافرمانیوں اور کوتاہیوں سے اللہ کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ میرے پاس ان کے نام تاریخ وار لکھے اور گنے ہوئے ہیں
اللهم تب علي و عليهم و ھبنا كلنالنبيك محمد صلى الله عليه وسلم ولا بينا إبراهيم عليه السّلام و اللهم لا تسلط بعضها على بعض وانفع بعضنا ببعض وادخلنا كلنا في رحمتک امين الہی تو میری اوران کی توبہ قبول کر، اور ہمیں اپنے نبی ﷺ کے صدقے میں اور ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کے طفیل بخش دے،الہی ہمارے بعض کو بعض پر مسلط نہ کر اور ہمارے بعض کو بعض سے نفع دے ۔ اور ہم سب کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے۔ آمین!‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 77،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 54دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
بارہویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے بارہویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثانی عشر فیی النھی عن الطلب من غیر اللہ ‘‘ ہے۔
منعقدہ 2 ذیقعدہ 545 بروز اتوار بوقت صبح ، بمقام : خانقاہ شریف
دنیا کے طالب کثیر ہیں ، آخرت کے طالب قلیل :
اے بیٹا! اللہ کے لئے نہ تیری ارادت صحیح ہے، اور نہ ہی تیرا حقیقت میں کچھ اس کا ارادہ ہے ۔ کیونکہ جو بندہ اللہ کی محبت کا دعوے دار ہو اور اس کے غیر کا بھی طالب ہو، اس کا دعوی باطل ہے ، خلقت میں دنیا کے طالب کثیر ہیں اور آخرت کے طالب قلیل ، – اللہ کے حقیقی ارادے والے مرید تھوڑے سے بھی تھوڑے ہیں، وہ اپنی قلت اور نایابی میں کبریت احمر( کبریت احمر سرخ گندھک جو پارے کو خالص سونا بناتی ہے ۔) کی طرح ہیں ، بلکہ شاذ و نادر ، اور ایک آدھ ہی بازیاب ہے، وہ قبائل کے جھگڑے مٹانے والے ،زمین کے معدن اور اس میں حکومت کر نیوالے ہیں ، شہروں اور ان میں بسنے والوں کے کوتوال ہیں ۔ ان کے ذریعے خلقت سے بلا دور ہوتی ہے، انہیں کے طفیل اللہ تعالی آسمان سے بارش برساتا ہے، ۔ انہیں کے سبب سے زمین سبزہ زار رہتی ہے۔
وہ اپنے حال میں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ کی طرف ، ایک شہرسے دوسرے شہر کی طرف، ایک ویرانے سے دوسرے ویرانے کی طرف بھاگتے پھرتے ہیں ۔ جو کبھی مشہور ہو جاتے ہیں، جہاں پہچان لئے جائیں وہاں سے چل دیتے ہیں، سب سے منہ موڑ لیتے ہیں، دنیا کی کنجیاں ، دنیا والوں کو سونپ دیتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ اسی حال میں رہتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے گرد خدائی قلعے بن جاتے ہیں ۔ الطاف ربانی کی نہریں ان کے دلوں کی طرف جاری ہوتی ہیں، لشکر الہی حفاظت کے لئے ان کو گھیرے میں لے لیتا ہے، ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ نگہبانی کی جاتی ہے سب کا اعزاز واکرام کیا جا تا ہے ۔ انہیں خلقت پر حاکم بنا دیا جاتا ہے، یہ سب باتیں ان کی عقلوں سے باہر ہیں۔ایسے میں ان پر خلقت کی طرف توجہ کرنا فرض ہو جاتا ہے، وہ طبیب ہیں، باقی مخلوق مریض بڑے افسوس کی بات ہے کہ تو دعوی کرتا ہے کہ میں ان میں سے ہوں ، بتا
تجھ میں ان کی کیا علامت ہے، اللہ کے قرب ولطف کی کیا علامت ہے۔ اللہ کے پاس تیرا کیا مقام اور منزل ہے۔ عالم بالا میں تیرا کیا نام اور لقب ہے۔تیرا دروازہ کس حال پر بند کیا جا تا ہے۔ تیرا کھانا پینا مباح ہے یا خالص حلال ، تیری خواب گاہ دنیا ہے یا آخرت ،یا قرب الہی، تیری رات کہاں گزرتی ہے، وحدت میں تیرا ہم نشیں کون ہے،خلوت میں تیراغم خوارکون ہے، اے جھوٹے ،وحدت میں تیرا ہم نشین تیر انفس اور شیطان اور حرص اور دنیا کی فکر ہے ، اور بزم میں انسانی صورت والے شیطان غم خوار ہیں، وہ برے دوست ہیں ، بہت بکواس کرنے والے تیرے دوست ہیں ، یہ مقام ومرتبہ ولایت محض دعوی کرنے سے اور فضول باتوں سے حاصل نہیں ہوتا، اس بارے میں تمہاری گفتگومحض حرص ہے، جس کا کوئی فائدہ نہیں ، اللہ کے حضور خاموش اور گمنام رہو، اس کے سامنے کسی طرح کی بے ادبی سے گریز کر و، اگر اس بارے میں تم کوئی بات کرنا ضروری سمجھتے ہو تو تیری بات اللہ اور اللہ والوں کے ذکر سے برکت حاصل کرنے کے انداز پر ہو، کیونکہ تیرا دعوی تو ظاہری طور پر ہے اور تیرادل معرفت سے خالی ہے ۔ ہر ظاہر جس کی باطن سےیگا نگت نہ ہو ، وہ ظاہری وضع قطع جھوٹی اور بکواس ہے، کیا تو نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نہیں ‌مَا ‌صَامَ ‌مَنْ ‌ظَلَّ ‌يَأْكُلُ ‌لُحُومَ ‌النَّاسِ-’’اس نے روزہ نہیں رکھا جو روزے میں لوگوں کا گوشت کھائے ۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر ارشاد فر مایا کہ روزہ، کھانے پینے اور ترک جماع کا نام نہیں ، بلکہ روزے میں گناہوں سے بچنا ضروری ہے ۔
غیبت سے بچو! کیونکہ غیبت نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جیسے لکڑی کو آ گ جلاتی ہے ۔ اس کے نصیب میں فلاح ونجات ہے جس نے غیبت کو چھوڑ دیا ، اور جو غیبت کرنے میں مشہور ہو جائے ، وہ لوگوں کی نظروں سے گر جاتاہے شہوت کی نظر سے نہ دیکھو، کیونکہ وہ دلوں میں گناہ کابیج بوتی ہے، ایسی نظر والے کا انجام نہ دنیا میں اچھا ہے نہ آخرت میں –
جھوٹی قسم سے بچو! کیونکہ وہ اپنے گھر ویران کر دیتی ہے، جھوٹی قسم سے مال اور دین کی برکت ختم ہو جاتی ہے
تجھ پرافسوس ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچتاہے اور اپنے دین کا نقصان کرتا ہے، اگرتجھے سمجھ ہوتی تو سمجھتا کہ اصل نقصان یہی ہے اور تو کہتا ہے: خدا کی قسم! میرے مال جیسا مال سارے شہر میں نہیں ہے، اور نہ کسی اور کے پاس موجود ہے۔ خدا کی قسم یہ اتنی اتنی قیمت کا ہے اور مجھے اتنے میں پڑا ہے ۔حالانکہ تم اپنی سب باتوں میں جھوٹے ہو، اور پھر جھوٹا گواہ بھی لاتے ہو، اور خدا کی قسم کھا کر کہتے ہو کہ میں سچا ہوں، عنقریب تجھ پر مصیبت آئے گی ، تو اندھا اورا پاہچ ہو جائے ، اللہ تم پر رحم فرمائے اللہ کے حضور با دب رہو ۔ جس نے شرعی آداب سے ادب نہ سیکھا قیامت کے دن دوزخ کی آگ اسے ادب سکھائے گی۔ یہ بیان سن کر آپ ( حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ ) سے کسی نے پوچھا جس شخص میں یہ پانچوں بد خصائل ہوں ، یا ان میں سے بعض ہوں ، کیا اس کے روزے اور وضو کے باطل ہونےکا حکم لگایا جائے گا ؟‘‘ ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فر مایا: ’’اس کا روزہ اور وضوتو باطل نہ ہوگا لیکن ہمارا وعظ نصیحت کے انداز میں ڈرانے اور خوف دلانے کے لئے ۔
کل کا کیا بھروسہ، پھر یہ غفلت کیسی اور کیوں ہے
اے بیٹا! شائدکل کا دن اس حال میں آئے کہ تو سطح زمین سے گم ہو جائے ، اور زمین کے نیچے قبر میں جاسوئے ۔یا شائد دوسری گھڑی میں ہی ایسا ہو جائے کل کا بھی کیا بھروسہ، پھر یہ غفلت کیسی اور کیوں ہے؟ کس چیز نے تمہارے دل کو سخت کردیا ہے تم پتھر ہو تم کون ہو؟ ۔ میں بھی تم سے کہہ رہا ہوں اور دوسرے بھی مگر تم ایک ہی جگہ پر ٹکے ہو تم پر قرآن بھی پڑھا جاتا ہے اگلے لوگوں کے قصے سنائے جاتے ہیں ، رسول پاک کی حدیثیں سنائی جاتی ہیں مگر تم ٹس سے مس نہیں ہوتے ، نہ ہی تم بدلتے ہو اور نہ ہی ڈ ر تے ہو اور نہ ہی تمہارے عمل بدلتے ہیں ، جوشخص مجلس وعظ میں حاضر ہواور : – غیرت حاصل نہ کرے، نصیحت قبول نہ کرے جان لو! وہ ایک بہترین جگہ پر تو ہے مگر اچھی جگہ والوں میں سب سے برا ہے۔
اولیاء اللہ کوحقارت سے دیکھنا تیری کم نگاہی ہے:
اسے بیٹا! اولیاء اللہ کو حقارت سے دیکھنا تیری کم نگاہی ہے ۔تجھے معرفت الہی حاصل ہوتی تو ان کے مقام کوسمجھتا اور مرتبہ سے واقف ہوتا ۔ تجھے اعتراض ہے کہ یہ لوگ تہمت لگائے گئے ہیں ۔ ہمارے ساتھ کیوں نہیں ملتے جلتے ، ہمارے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے ،
تیرا یہ کہنا اس لئے ہے کہ تو خود اپنے ہی نفس سے جاہل ہے، جب تجھے اپنے نفس کی پہچان کم ہے تولوگوں کے مرتبہ کی پہچان بھی کم ہوگی ، اس لئے تو غافل ہے، تجھے دنیا اور اس کے انجام کی معرفت جس قدر کم ہوگی ، اس قد رآ خرت کےانجام کی معرفت کم ہوگی ، اور آخرت کی معرفت جس قدر کم ہوگی ،اسی قد رذات الہی سے جاہل رہے گا ۔ اے دنیا میں مشغول ہونے والے! – عنقریب قیامت کے دن تیرا نقصان اور ندامتیں تجھ پر ظاہر ہو جائیں گی ۔ قیامت کا دن، ہار جیت کا دن ہے، رسوائی اور شرمندگی کا دن ہے۔ نقصان اور خسارے کا دن ہے، قیامت کے دن سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کر لے، تجھ پر اللہ کا جو کرم ہے اور نرم رویہ ہے، اس سے کچھ گمان نہ کر خطاؤں اور نافرمانیوں سے تمہاری بہت بری حالت ہے، گناہ اور نافرمانیاں بندے کو کفر تک لے جاتے ہیں، جیسے بیماری موت کا پیغام لاتی ہے۔ تجھے چاہئے کہ موت کے آنے سے پہلے تو بہ کرے، موت کے فرشتے کے آنے سے پہلے اللہ سے رجوع کر لے۔
اولیاءاللہ کی آزمائش بلندی درجات کے لئے ہے:
اے جوانو ! توبہ کرو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی کسی مصیبت میں ڈال کر تمہیں آزماتا ہے، تا کہ تم اس کی طرف رجوع کرو مگر تم کچھ سمجھے نہیں ، اپنے گناہوں پر برابر اصرار کر رہے ہو، ان دنوں چند ایک مخصوص بندوں کے علاوہ جو بھی کسی مصیبت میں ہے، اسے آزمایا جارہا ہے ۔ اس کے لئے آزمائش عذاب ہے نعمت نہیں، گناہوں کی سزا ہے، در جات اور مقامات کا بڑھنا نہیں ۔ اولیاء اللہ کی آزمائش اس لئے ہے تا کہ اللہ کے ہاں ان کے درجات بلند ہوں ، وہ آزمائش پر صبر کرتے ہیں ، کیونکہ ان کا مقصوداللہ کی ذات ہے، اس آزمائش پر جب وہ پورے اترتے ہیں تو ان کی حکومت کامل ہو جاتی ہے، جب تک یہ مقام حاصل نہ ہوان کا اعتقاد ہی رہتا ہے کہ وہ ہلاکت میں ہیں۔
یہی التجا ہے: اللهم لا هلک نسئلک القرب منك والنظر اليك في الدنيا والأخرة في الدنيا بقلوبنا وفي الأخرة باعيننا، الہی ہمیں ہلاک نہ کر ہم دنیا اور آخرت میں تجھ سے تیرے قرب اور تیری نظر رحمت کا سوال کرتے ہیں دنیامیں تیراد یدار دل کی آنکھوں سے کریں اور آخرت میں تیراد یدارسر کی آنکھوں سے کریں ۔
صبر کے ساتھ بلا ہر نیکی کی بنیاد اور جڑ ہے:
اے لوگو اللہ کی رحمت اور کشاکش سے نا امید نہ ہو کہ کشائش قریب ہے ۔ نا امید نہ ہو، کہ بنانے والا (صانع ) تو اللہ کی ذات ہے، مایوس نہیں ہونا چاہئے ،تمہیں نہیں معلوم کہ وہ اس خستہ حال کے بعد کوئی بہتر حالت پیدا کر دے، بلا سے مت بھا گو، بلا پرصبر کرد، صبر کے ساتھ بلا ہر نیکی کی بنیاد اور جڑ ہے، نبوت اور رسالت، ولایت اور معرفت الہی ، اور محبت کی جڑ بلاہی ہے، جب تک بلا پر صبر نہ کرو گے تمہارے لئے کوئی بنیادن ہیں ، بنیاد ہی سے عمارت کی بقا ہوتی ہے ، کیا تو نے کوئی ایسا گھر دیکھا ہے جس کی بنیاد نہ ہواور ریت کے ٹیلے پر واقع ہو، تو بلا اور آفتوں سے اس لئے بھا گتا ہے کہ ولایت اور معرفت اور قرب الہی کی ضرورت نہیں ، صبر کرو اور عمل کرتے رہو، تا کہ تم اپنے دل اور باطن اور روح کے ساتھ قرب الہی کے دروزاے تک پہنچ سکو ،۔
علماء اور ولی اور ابدال نبیوں کے وارث ہیں، جو کہ رہبر ورہنما ہیں، اور پیغام کے پہنچانے والے ہیں ، اور اللہ کے ولی ان کے آگے آگے ان کی خبر دینے والے ہیں ، ایمان والا اللہ کے سوا نہ کسی سے ڈرتا ہے، اور نہ اس کے غیر سے کوئی توقع یا امید رکھتا ہے ۔ اس کے دل اور باطن میں اعلی درجہ کی قوت رکھی گئی ہے، ایمان والوں کے دل اللہ کے ساتھ ہوتے ہوئے قوت والے کیسے نہ ہوں ، حالانکہ وہ اس کی طرف پہنچے ہوئے ہیں ، اور ہمیشہ اس کے پاس رہتے ہیں۔ ان کا جسم ( قالب ) زمین پر ہے ، جبکہ دل ( قلوب ) اللہ سے وابستہ ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ ‌الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ
” بے شک وہ ہمارے ہاں برگزیدہ اور عزت والوں میں سے ہیں ۔ وہ اپنے اہل خانہ اور اہل زمانہ سے عزت والے اور ممتاز ہوتے ہیں، ان کے باطن متمیز اور جسم روشن ہیں ، اس لئے وہ خلقت سے الگ رہتے ہیں، خواہشوں سے کنارہ کش ہیں۔یہ آ کے قدم رکھتے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے سبزہ اگتا ہے۔ ان کا واپسی کا ارادہ ہی نہیں ، تنہائی سے پیار کرتے ہیں، ویرانوں، جنگلوں ،چٹیل میدانوں اور دریا کے کناروں کو آبادی پر ترجیح دیتے ہیں ، جنگل کی سبزیاں کھاتے ہیں ۔ جنگل کے تالابوں سے پانی پیتے ہیں ، جنگلی وحشیوں کی مانند ہو جاتے ہیں ،
اس عالم میں اللہ تعالی ان کے دلوں کو قرب عطا کرتا ہے، انہیں اپنامونس بنالیتا ہے، ان کے ظاہری جسم رسولوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ قائم ہیں، ان کے باطن اللہ سے جڑے ہیں ، وہ خدمت الہی میں رات دن خلوت میں کھڑے ہیں، مشتاقوں کی راحت اور ان کے انس کی خوشی اللہ کی معیت میں ہے ۔
معرفت الہی کا دارو مدار قلب و باطن کی صحت و صفائی پر ہے:
اے بیٹا مٹھاس کے لئے کر واہٹ ، سدھار کے لئے بگاڑ ، اور صفائی کے لئے میلا لازم ہے، اگر تو مکمل صفائی چاہتا ہے تو خلقت کو دل سے جدا کر دے، اور دل کوحق سے ملادے، دنیا سے منہ موڑ لے اہل وعیال کو چھوڑ دے، انہیں اللہ کے سپردکر دے، اپنے دل سے ان سب کو نکال دے اور ان سے الگ ہو جا، آخرت کے دروازے کے قریب ہو، اور اس کے اندر چلے جا، اگر اللہ کو وہاں نہ پائے تو الٹے پاؤں بھاگ آ ، اور اس کا قرب طلب کر ، اگر وہ مل جائے تو اس کے ہاں ہر طرح کی صفائی ہو جائے گی ، اللہ کے چاہنے والے کو اس کے غیر سے کچھ سروکار نہیں ہوتا ، ۔۔ جنت، راحت کے ان طلب گاروں اور ان تاجروں کا گھر ہے جنھوں نے دنیا کو جنت کے بدلے بیچ دیا ہے، اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا:
وَفِيهَا مَا ‌تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ’’اور جنت میں تو وہی چیزیں ہیں جنہیں نفس مانگتے ہیں اور آنکھوں کی لذتیں ہیں ۔‘‘ یہاں دل کی خواہش، باطن کی طلب، باطن الباطن کی مانگ کا کوئی ذکر نہیں ، جنت روزہ داروں کے لئے ہے، ۔ شب بیداروں کے لئے ہے،جنہوں نے شہوات دنیا کو چھوڑ دیا ہے، اور اخروی لذتوں کے تمنائی ہیں ۔ جنھوں نے کھانے کے بدلے کھانے کو، باغ کے بدلے باغ کو۔ گھر کے بدلے گھر کو بیچ دیا ہے، میں تم سے(نیک) اعمال کا طالب ہوں باتوں کا نہیں۔ وہ عارف جو خاص طور سے اللہ ہی کے لئے عمل کرنے والا ہے، اس کی مثال اہرن( سندان) کی سی ہے، کہ جس پر ہر وقت ضرب پر ضرب لگائی جاتی ہے، لوہا گرم کر کے کوٹا جا تا ہے۔ اور وہ بولتا تک نہیں – اوراس عارف کی مثال زمین کی طرح ہے، کہ جس پر لوگ چلتے پھرتے ہیں۔ طرح طرح کی تبدیلیاں آتی ہیں۔ -تمام تصرفات ہوتے ہیں، اور اس کے ہونٹ سلے رہتے ہیں، اللہ والے اللہ کے سوا کسی کو نہیں دیکھتے، اور نہ کسی کی سنتے ہیں ، ان کے دل زبان نہیں رکھتے ۔ وہ اپنے آپ سے اور غیروں سے مٹ چکے، ان کا رہن سہن سدا سے ایسا ہے، اللہ جب چاہتا ہے ان کے ظاہر ہونے کے اسباب کر دیتا ہے۔ ان کے دلوں کو زبان بخش دیتا ہے، جیسے وہ اپنے آپ میں نہ ہوں ، شہنشاحقیقی اپنے رافت اور رحمت کے ہاتھ میں لے لیتا ہے ۔ ہے، انہیں اپنے لئے بنا تا ہے اور وجودعطا کرتا ہے، -ان کا ہونا اس کے لئے ہے، اس کے غیر کے لئے نہیں ،جیسا کہ اس نے موسی علیہ السلام کو بنایا تھا ، اوران سے ارشادفرمایا:
وَاصْطَنَعْتُكَ ‌لِنَفْسِي ۔ میں نے تمہیں خاص اپنے لئے بنایا‘‘۔ اور اپنے لئے فرمایا:
لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ’’اس کی مثل کوئی شے نہیں ، وہ سننے والا ہے ، دیکھنے والا ہے ۔ انس بغیر وحشت کے- راحت بغیر مشقت کے نعمت بغیر رنج کے – خوشی بغیرغم کےمٹھاس بغیرتلخی کے
شاہی بنا تباہی ،حاصل ہوتی ہے ۔ هُنَالِكَ ‌الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ۔ وہاں تو صرف حق تعالی ہی کی سلطنت ہے۔ جواس حال کو پہنچا، اسے بہت جلد راحت حاصل ہوتی ہے،آرام ملتا ہے۔ اب جس حالت میں تم ہو، دنیا میں اس حالت میں ہرگز راحت نہیں پا سکتا ۔د نیا تو آفتوں اور جھوٹ کا گھر ہے، تجھے اس سے نکل جانا چاہئے ، ضروری ہے کہ تم اسے اپنے ہاتھ سے اپنے دل سے نکال پھینکو، اگر ایسا کرنے کی تجھ میں قدرت نہ ہوتو دنیا کو اپنے ہاتھ میں چھوڑ دے، اور اسے اپنے دل سے نکال ڈال، جب تجھے قوت مل جائے تب دنیا سے الگ ہو جا، دنیا کو ہاتھ سے چھوڑ دے اورفقیروں اور مسکینوں کو جو خدا کا کنبہ ہے، دے دے ۔ اس کے باوجود جو تیرا نصیب ہے ، تجھے ضرور ملے گا، تیرے مقدر کا لکھا ضائع نہ ہوگا ، خواہ تو غنی ہے یا فقیر، چھوڑ دینے والا ہے یا رغبت کرنے والا ۔ معرفت الہی کا دار و مدار قلب اور باطن کی صحت و صفائی پر ہے، قلب و باطن کی صفائی علم سیکھنے، اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور اللہ کی سچی طلب سے ہوتی ہے۔
ظاہری اور باطنی فقہ کا حصول:
ائے بیٹا! کیا تم نےسنانہیں پہلے سمجھ پیدا کر، پھر گوشہ نشین ہو، پہلے ظاہری فقہ حاصل کر، پھر باطنی فقہ کی طرف توجہ کر ۔ پہلے ظاہری فقہ پرعمل کر تا کہ ایسے علم پرعمل کا قرب حاصل ہو جس سے تم واقف نہیں (یعنی باطنی علم ) — یہ ظاہری علم ، ظاہر کی روشنی ہے، اور باطنی علم ، باطن کی روشنی ہے، یہ روشنی تیرے اور تیرے رب کے بیچ ایک نور ہے ۔ ( علم پرعمل کرنے سے تمہارا راستہ تمہیں اللہ کے قریب کر دے گا ، ) تم میں اور اللہ تعالی کے درمیان جو دروازہ ہے، کشادہ ہو گا ، اور دروازہ جو تمہارے لئے خاص ہے ، کھول دیا جائے گا ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ”اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور ہمیں آخرت میں بھلائی عطا کرے ۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ آمین!‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 85،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 58دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
تیرہویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے تیرھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثالث عشر فی تقدیم الاخرۃ علی الدنیا ‘‘ ہے۔
منعقدہ4/ ذیعقدہ 545 بروزمنگل بوقت عشاء، بمقام : مدرسہ قادر یہ
آخرت کود نیا پر مقدم کر ، دونوں میں فائدہ ہوگا :
بیٹا! آخرت کو دنیا پر مقدم کر، دونوں میں فائدہ ہوگا ، لیکن جب دنیا کو آخرت پر مقدم کرے گا تو تو دونوں میں نقصان اٹھائے گا ۔ اور یہ تیرے عذاب کا باعث ہوگا ، جس کا تجھے حکم نہیں ملا، اس میں کیوں لگتا ہے۔ اگر دنیا میں نہ لگو گے تو اللہ کی مدد حاصل ہوگی ، اس کے حصول کی توفیق عنایت فرمائے گا، جب اس سے کوئی چیز لے گا اس میں برکت رکھ دی جائے گی، ایمان والا دنیا وآخرت دونوں کے لئے عمل کرتا ہے، دنیا کے کام ضرورت کے مطابق انجام ویتا ہے، وہ اتنی مقدار پرگزر کرتا ہے جتنی کسی سوار کوتو شہ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ دنیا سے ( ضرورت سے زیادہ حاصل نہیں کرتا ، جاہل اپنی ساری توانائیاں دنیا کے لے اور عارف کی ساری کوششیں آخرت اور پھر اللہ کیلئے ہوتی ہیں ۔تیرے سامنے جب دنیا سے ایک روٹی آ جائے اور تیرا نفس تجھ سے جھگڑنے لگے اورکی خواہش کرے تو اس لمحے اس کی طرف دیکھ جسے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی میسر نہیں ۔ تیرے لئے فلاح ہے نہ نجات، جب تک کہ تو اپنے نفس سے اللہ کے لئے عداوت اور بغض نہ رکھے ، صدیق لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں ، آپس میں صدق اور قبول کی خوشبو سونگھتے ہیں۔
اے اللہ اور اس کے صدیقوں اور نیکیوں سے منہ موڑنے والے،خلقت کی طرف توجہ کرنے والے، خدا کا شریک ٹھہرانے والے، تیرا دھیان ان کی طرف کب تک رہے گا، وہ تمہیں کیا نفع دے سکتے ہیں؟ ۔ ان کے ہاتھ میں نہ نفع اور نہ ضرر، نہ عطا ہے نہ منع ، جمادات اور ان میں کچھ فرق نہیں، ان سے نفع اور نقصان کی کیا امید رکھتے ہوں ۔ شہنشا حقیقی ایک ہی ہے، نفع ونقصان پہنچانے والا ایک ہی ہے۔ حرکت وسکون دینے والا ایک ہے، مسلط کرنے والا بھی ایک ہی ہے۔ مسخر کرنے والا ایک ہی ہے۔ عطا کرنے والا ایک ہی ہے,عطا سے روکنے والا ایک ہی ہے، پیدا کر نے والا ایک ہی ہے رزق دینے والا ایک ہی ہے یعنی اللہ کی ذات پاک!
وی قدیم ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا ، وہی خلقت سے پہلے اور تمہارے ماں باپ اور مال والوں سے پہلے موجود تھا۔ وہی آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں ، اور ان کے درمیان ہے، پیدا کرنے والا ہے، – لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اس کی مثل کوئی نہیں ، وہی سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے ۔‘‘
اے مخلوق الہی! تجھ پر سخت افسوس ہے، کہ اپنے خالق کو جیسا کہ پہچاننا چاہئے تم نہیں پہچانتے ۔ قیامت کے دن اگر اللہ نے مجھے کچھ اختیار بخشا تو تمہارے شروع سے اخیر تک سب بو جھ اٹھالوں گا،۔
اے قرآن پڑھنے والے ز مین و آسمان والوں کو چھوڑ کے میرے سامنے پڑھ ۔ میں اس کی خوب سمجھ رکھتا ہوں، جو کوئی علم شریعت پر عمل کرتا ہے تو اس کے اور اللہ کے درمیان دروازہ کھل جاتا ہے ، جس کے ذریعے سے اس کا دل بارگاہ الہی میں داخل ہو جا تا ہے، لیکن اے عالم ! تو تو قیل وقال کرنے اور مال جمع کرنے میں لگا ہے مگر اپنے علم پرعمل کرنے کی طرف توجہ نہیں ۔ اس حال میں تیرے ہاتھ علم کا ظاہر لگتا ہے، اس کا باطن نہیں ۔ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جب کسی کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے، تو پہلے اسے علم عطا کرتا ہے ، پھر اس کے دل میں عمل اور عمل کے لئے اخلاص ڈالتا ہے ۔ اور یوں اسے اپنے سے اپنی طرف اور قریب کر دیتا ہے ، پھر اسے علم قلوب اور اسرار کی تعلیم دیتا ہے ، پھر اسے اپنے غیر کےسوا اپنے لئے خاص کر لیتا ہے، اور اسے اپنا برگزیدہ بنالیتا ہے، جیسے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو برگزیدہ بنا کر ارشاد فر مایا وَاصْطَنَعْتُكَ ‌لِنَفْسِي میں نے تمہیں خاص اپنے لئے بنایا۔‘‘ نہ اپنے غیر کے لئے ، نہ خواہشوں اور لذتوں اور عادتوں کے لئے ، نہ زمین کے لئے نہ آسمان کے لئے ، نہ جنت اور دوزخ کے لئے ،سلطنت کے لئے اور نہ تباہی کے لئے ، تمہیں کوئی چیز مجھ سے نہیں روک سکتی ، اور نہ کوئی شغل اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، نہ میری طرف سے کوئی صورت تمہیں قید کر سکتی ہے، اور نہ کوئی مخلوق میرے اور تمہارے درمیان حجاب بن سکتی ہے، اور نہ کوئی خواہش مجھے بے پرواہ کر سکتی ہے،۔
گناہ کی نجاست تو بہ اور اخلاص کے پانی سے دھو :
اے بیٹا! گناہ کر کے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بلکہ اپنے کپڑوں سے گناہ کی نجاست کو توبہ کے پانی سے دھودے تو بہ اخلاص سے کر ، اور اس پر استقامت اختیار کر ۔ اور دین کے کپڑے میں جو گناہ کی بد بو پڑی ہے، اسےمعرفت الہی کی خوشبو سے پاک اور معطر کر ۔ تو جس مقام پر ہے، اس سے بچ اور ڈر، اس حالت میں تو جس طرف بھی رخ کرے گا، درندے اور تکلیفیں تیرے اردگرد ہوں گے، جو تجھے ضرر دیں گے ، تو ان سے اپنا رخ پھیر کر اللہ کی طرف اپنے دل سے رجوع کر ، اپنی عادت اور حرص اور خواہش سے نہ کھا، ان پر دو عادل گواہوں کی گواہی لے یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ، پھر ان پر دوسرے دو گواہ اور طلب کریعنی قلب اور امرالہی کی گواہی لے، جب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ اور قلب کی اجازت مل جائے تو چوتھے کی اجازت یعنی امرالہی کا انتظار کر ۔ رات کو لکڑیاں جمع کرنے والے کی طرح نہ ہو، کہ جو وہ جمع کرتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ کیا لگے گا، خالق یا مخلوق یہ چیز تنہائی اور آرزو اور تمنا اور تکلیف اور بناوٹ سے ہاتھ نہیں لگتی ، بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو سینوں کے اندر قرار پکڑتی ہے، اور عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، اس عمل سے کہ جس سے مقصود اللہ کی رضا ہو نہ کہ اس کے غیر کی ۔
دعوی طالب حق ہونے کا طلب مخلوق کی ہے:
اے بیٹا عافیت و آرام یہی ہے کہ عافیت چاہنا چھوڑ دے تونگری یہی ہے کہ تو نگری کی طلب ترک کر دے ،دوایہی ہے کہ دوا کی تمنا نہ ر ہے، کامل دوا یہ ہے کہ-اپنے سب معاملات اللہ کے سپردکر دے، تمام اسباب سے قطع تعلق کر لے، اعزاء واقارب سے دلی طور پر جدا ہو جا، زبانی اقرار کی بجائے اللہ کو دل سے ایک جان ، توحید اورز ہد دونوں کا جسم اور جان سے تعلق نہیں بلکہ توحیددل میں ،زہد دل میں، تقوی دل میں، معرفت دل میں علم الہی دل میں، محبت الہی دل میں ،قربت الہی دل میں ہے، تو عقل کر ، حرص نہ کر، بناوٹ اور تکلف نہ کر،تو حرص اور بناوٹ، تکلف اور جھوٹ ، ریا اور نفاق میں گھر گیا ہے تمہارا کامل مقصود یہی ہے کہ خلقت کو اپنی طرف کھینچ لو، تمہیں نہیں معلوم کہ جب تم دل سے ایک قدم خلقت کی طرف چلتے ہو تو خدا سے کس قدر دور جا پڑتے ہو، تمہیں دعوی تو طالب حق ہونے کا ہے، جبکہ دل میں طلب مخلوق کی ہے، تمہارا حال اس شخص کی طرح ہے جس نے کہا کہ میرا ارادہ مکہ معظمہ جانے کا ہے، اور چل دیا خراسان کو، چنانچہ مکہ سے دور ہوتا چلا گیا ،تجھے یہ دعوی ہے کہ میرا دل مخلوق سے الگ ہو چکا ہے تو پھر مخلوق کا ڈر خوف کیونکر ہے، اورمخلوق سے کوئی،امید کس لئے ہے، تمہاراظا ہرز ہد ہے جبکہ باطن میں خلقت کی رغبت ہے ، تمہارا ظاہر حق کا ہے جبکہ باطن خلقت کا ہے۔یہ امر زبان درازی سے حاصل نہیں ہوتا ۔ ایسی حالت میں نہ خلقت ہے نہ دنیا – نہ آ خرت اور نہ ماسوا اللہ – خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہ واحد ہے ، واحد کو پسند کرتا ہے، واحد ہے ،شریک کونا پسند کرتا ہے، تیرے ہرامر کی تدبیر وہی کرتا ہے ۔ جو کچھ تجھے کہا جائے ، قبول کر ، مخلوق تو عاجز ہے جو تمہیں کوئی نفع یا نقصان نہیں دے سکتی ، بلکہ اللہ تعالی ہی تیرے نفع یا نقصان کوان کے ہاتھوں پر جاری فرمادیتا ہے، اللہ کا فعل تجھ میں اور ان میں تصرف کرتا ہے، تیرے نفع ونقصان کی جو چیز یں ہیں، اللہ تعالی کا قلم اس کے علم کے مطابق تیرا نصیب لکھ چکا ہے، توحید والے صالحین باقی خلقت پر اللہ کی حجت ہیں ، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنے ظاہر اور باطن کے ساتھ دنیا سے الگ تھلگ ہیں، بعض وہ ہیں جو باطنی طور پر دنیا سے قطع تعلق کئے ہوئے ہیں ، اور ظاہر میں دولت والے ہیں ، ان کے باطن پر دنیا کاذرہ سا بھی اثر نہیں دیکھتا ،
دلوں کی صفائی والے ہی اس پر قدرت رکھتے ہیں اور ایسوں ہی کو خلقت کی سلطنت عطا کر دی جاتی ہے، یہی فرد بہادر و بے باک ہے، بہادر وہی ہے جس نے ماسوا اللہ سے اپنا دل پاک کیا اور اللہ کے دروازے پر تو حید وشرع کی تلوار لے کر کھڑا ہو گیا ، مخلوقات میں سے کسی کو اپنے دل کی طرف آنے کی اجازت نہیں دیتا، مقلب القلوب ہی اس کے قلب میں جلوہ فرما ہے، شرع اس کے ظاہر کو مہذب کرتی ہے، توحید و معرفت اس کے باطن کو تہذیب سکھاتے ہیں، اور علم الہی ظاہر و باطن پر اسرار کا اظہار کرتا ہے ۔
اے بندے! اس بات میں کوئی فائدہ نہیں کہ اس نے یہ کہا اور ہم نے یہ کہا توکسی چیز کو حرام کہتا ہے جبکہ تو اسے خود کرتا ہے،کسی چیز کو حلال کہتا ہے جبکہ تو اسے خود نہیں کرتا ،
تو سر سے پاؤں تک ہوس ہی ہوس ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَيْلٌ لِلْجَاهِلِ مَرَّةً وَوَيْلٌ لِلْعَالِمِ ‌سَبْعَ ‌مَرَّاتٍوجاہل کے لئے ایک دوز رخ اور عالم کے لئے سات دوزخ ہیں۔ جاہل کے لئے ایک دوزخ ہے کیونکہ وہ علم نہیں رکھتا، اور عالم کے لئے سات دوزخ اس لئے ہیں کہ وہ علم رکھتا ہے۔ لیکن عمل نہیں کرتا ، اس سے علم کی برکت اٹھ جاتی ہے اور اس کے خلاف حجت باقی رہتی ہے، علم پڑھ، پھر اس پرعمل کر، خلقت سے جدا ہوکرمحبت الہی میں مشغول ہو، جب تیری خلوت اور محبت صحیح ہو جائے گی تو تمہیں اپنے قریب اور نزدیک کر کے اپنی ذات میں فنا کر دے گا ، فنافی اللہ کے بعد اگر چاہے تو تمہیں مشہور کر کے خلقت پر ظاہر کرے، اور تیرے نصیب کا لکھا پورا کرنے کے لئے تجھے مخلوق میں واپس کر دے، تیرے بارے میں اپنے علم سابق اور تقدیر سابق کی ہوا کو حکم دے گا ، وہ ہوا تیری خلوت کی دیواروں پر چلے گی اور انہیں گرادے گی، اور یوں خلقت پر تیرا حال کھول دے گی۔ ایسی حالت میں تم خلقت کے دوران اللہ کے ساتھ ہو گے ، اپنے ساتھ نہیں ، اپنے نصیب کونفس اور حرص اور خواہش کے بغیر حاصل کرو گے، وہ تجھے قسمت کا لکھا پورا کرنے کے لئے واپس کر دیتا ہے تا کہ اس کا عملی قانون تم میں باطل نہ ہو جائے تو اپنا نصیب حاصل کرے گا کیونکہ تمہارا دل اللہ کی ذات کے ساتھ ہے ، سنو، پڑھو اور اس پرعمل کرو۔ اے اللہ اور اس کے پیاروں سے بے خبرو! – اللہ اور اس کے ولیوں پر انگلی اٹھانے والو! ـ حق تو وہی حق تعالی ہے اور تم مخلوق باطل ہو، حق دلوں اور باطنوں اور اسرار میں ہے، جبکہ باطل نفسوں اور خواہشوں اور حرصوں اور عادتوں اور دنیا اور ماسوا اللہ میں ہے، قلب کے لئے فلاح ونجات نہیں جب تک کہ وہ قدیم وازلی ، دائم وابدی اللہ کے قرب سے متصل نہ ہو ۔ اے منافق اتو جھگڑانہ کرے جو اس سے بہتر ہیں تو تو روٹی اور سالن اور شیرینی اور کپڑوں اور تیرے گھوڑے اور اپنی حکومت کا بندہ ہے،سچا دل خلقت سے گزرکر خالق کی طرف سفر کرتا ہے ۔ راستے میں بہت سی چیزیں دیکھتا ہے، اور انہیں سلام کرتا ہوا ( ر کے بغیر )اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلا جا تا ہے ۔ باعمل علماء اپنے علم کی وجہ سے اگلے علماء کے نائب ہیں اور انبیاء کرام کے وارث ہیں ۔ اور جو بقیۃ السلف ہیں وہ ان کے پیش رو ہیں، خلقت کو شریعت کے شہر میں عمل کرنے کا حکم دیتے ہیں ، اور انہیں اس کی ویرانی سے روکتے ہیں ، وہ اور انبیاء کرام قیامت کے دن ایک جگہ اکٹھے ہوں گے، انبیاء کرام ان علماء واللہ تعالی سے انکی پوری پوری مزدوری دلائیں گے ، جو عالم اپنے علم مکمل نہیں کرتا ،اللہ نے اس کی مثال گدھے سے دی ہے، جیسا کہ ارشاد باری ہے: كَمَثَلِ ‌الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا – گدھے کی مثل جو کتابیں اٹھاتا ہے۔ کیا گدھا ان علمی کتابوں کو اٹھا کر فائدہ حاصل کر سکتا ہے؟ – سوائے اس بات کے کہ مشقت اور غم اٹھائے – بے عمل علماء کا یہی حال ہے، ان کے ہاتھ کیا آ تا ہے؟ ۔ جسے زیادہ علم ہو اسے چاہیے کہ اللہ سے زیادہ خوف کرے اور زیادہ اطاعت کرے ۔
اے علم کا دعوی کرنے والے! خوف الہی سے تیرا رونا کہاں ہے تیرا ڈ راور دہشت کہاں ہے؟گناہوں کا اقرار کہاں ہے۔عبادت میں رات دن ایک کرنا کہاں ہے، اپنے نفس کو ادب سکھانا کہاں ہے، اللہ کے لئے حب اور بغض کہاں ہے؟ تیری ہمت تو قمیص اور دستار ، کھانا اور نکاح ، گھر اور دکانیں ،خلقت میں اٹھنا بیٹھنا اور ان سے محبت ہے، اپنی ہمت کو ان سب چیزوں سے الگ کر دے، اگر یہ سب کچھ تیرے نصیب میں ہے تو اپنے وقت پر مل کر رہے گا، تیرادل انتظار کی تکلیف سے آرام پائے گا ، اور حرص کی گرانی سے راحت اٹھائے گا ، اور اللہ کی معیت میں قائم رہے گا، جس سے تجھے فراغت مل چکی ، اس چیز میں مشقت اٹھانے کا کیا فائدہ؟
تیری خلوت فاسد ہے، تیرا اخلاص وتو حیدیہ نہیں:
اے بیٹا! تیری خلوت فاسد ہے صحیح نہیں ، پلید ہے پاک نہیں ، تیرے دل نے تیرے ساتھ کیا کیا جبکہ اس کا نہ اخلاص درست ہے نہ تو حید صحیح ہے ۔ اے ایسے سونے والو! جن سے غفلت نہ کی جائے ،اے ایسے اعراض کرنے والو! جن سے اعراض نہ کیا جائے ۔اے ایسے بھول جانے والو! جو نہ بھلائے جاؤ گے۔ -اے وہ چھوڑ نے والو! جو نہ چھوڑے جاؤ گے، اللہ اور رسول ﷺ اور اگلوں پچھلوں سے جاہلو! – تم تو کٹی ہوئی پرانی لکڑی کی طرح ہو جس کا کچھ فائدہ نہیں ، سو چواور سنبھلو!! ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب !ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔آمین!‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 93،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 63دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
چودھویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چودھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الرابع عشر فی النھی عن النفاق ‘‘ ہے۔
منعقدہ 2 ذیقعده 545 بروز جمعہ بوقت صبح ، بمقام :مدرسہ قادریہ
علماء و اولیاء وصلحاء کی توہین کرنے والا منافق ہے:
اے منافق ! اللہ تیرے وجود سے زمیں کو پاک کرے، کیا تیرے لئے تیر انفاق کافی نہیں ، تو علماء واولیاء وصلحاء کی غیبت کر کے ان کا گوشت کھاتا ہے، تو اور تیرے بھائی جو تجھ جیسے منافق ہیں، کی زبانوں اور گوشت کو کیڑے کھائیں گے۔ تمہارے ٹکڑے اور ریزے کر ڈالیں گے۔ زمین تمہیں بھینچ کر پیس ڈالے گی اور چور چور کر دے گی ، ( اس لئے نجات کی صورت نہیں ، )
جوشخص اللہ اور اس کے نیک بندوں کے ساتھ اچھا گمان نہیں رکھتا ، اور ان کی تواضع نہیں کرتا ، اس کے لئے فلاح ونجات نہیں، حالانکہ وہ حقیقت میں ) رئیس اور امیر ہیں، پھرتم ان کی تواضع کیوں نہیں کرتے ، ان کی نسبت تم کیا چیز ہواللہ نے سارے عالم کا انتظام حل وعقدان کے حوالے کر رکھا ہے، ا نہیں کی برکت سے آسمان سے بارش اترتی ہے ،اورز مین سبز ہ ا گاتی ہے،
تمام مخلوق ان کی رعایا ہے ان میں سے ہر ایک پہاڑ کی طرح ثابت قدم ہے، آفتوں اور مصیبتوں کی ہوائیں انہیں اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتیں ، وہ رضائے الہی اور مقام توحید سے ذرہ بھی حرکت نہیں کرتے ، راضی برضارہتے ہیں۔
اپنے اور دوسرے کے لئے اللہ کی رضا کے طالب رہتے ہیں تم اللہ کے حضور توبہ کرو اور اس سے عذر کر دے ۔ اس کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرو، اس کے سامنے عاجزی انکساری کرو، تمہارے بالمقابل کیا شے ہے، اگر تم اسے پہچان لیتے تو آج تمہاری یہ حالت نہ ہوتی ، اللہ کی بارگاہ میں باادب رہوجیسا کہ تم سے پہلے لوگ با دب رہتے تھے۔ ان سے موازنہ میں تم ہیجڑے اور عورتیں ہو، تم تو اتنے بہادر ہو کہ تم پر تمہارانفس اور عادتیں اور خواہشیں حکم چلاتی ہیں، دین کی بہادری یہ ہے کہ اللہ کے حقوق کامل طور پر ادا کئے جائیں تم حکمت اور اہل علم کے کہنے کی تو ہین نہ کرو، ان کا کلام تو دوا ہے ۔ ان کا کہا تو وحی الہی کا خلاصہ ہے ۔ بظاہرتمہارے بیچ میں کوئی نبی موجود نہیں کہ اس کی اتباع کرسکو، جب تم رسول اللہ ﷺ کے تابعداروں کی پیروی کروگے تو گویاتم نے نبی کرم ﷺ کی ہی تابعداری کی ، جب تم نے انہیں دیکھ لیا، گویا تم نے رسول اللہ ﷺکی زیارت کی۔ تم پرہیز گار عالموں کی صحبت اختیار کرو، کیونکہ اس میں تمہارے لئے برکت ہے ۔ ایسے عالموں کی صحبت سے بچو جوعلم رکھتے ہیں مگر اپنے علم پر عمل نہیں کرتے ، ان کی صحبت میں بیٹھنا خسارے کی بات ہے، جو شخص تم سے پر ہیز گاری اور علم میں بڑا ہے، اس کی صحبت برکت کا باعث ہے ۔ ایسے شخص کی صحبت سے بچو جو تم سے عمر میں بڑا ہے مگر پر ہیز گار اور عالم نہیں ہے۔ اسے شخص کی صحبت تیرے لئے شرمندگی کا باعث ہے ۔
تو جو بھی عمل کر اللہ کے لئے کر، اس کے غیر کے لئے نہیں، جو کچھ چھوڑ نا ہے، اللہ ہی کے لئے چھوڑ اس کے غیر کےلئے نہ ترک کر، غیر اللہ کے لئے عمل کرنا کفر ہے، غیراللہ کے لئے ترک کرنا ریا کاری ہے،جو شخص اسے نہ پہچانے اور اس کے غیر کے لئے عمل کرے ، وہ حرص میں گرفتار ہے، عنقریب موت آ کر تیری حرص کی دھجیاں اڑادے گی ۔ تیرے لئے افسوس ہے تو دل کو خدا سے جوڑ ، اور غیر سے ناطہ توڑ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وصلوا الذي بينكم ‌وبين ‌ربكم ‌تسعدوا”تمہارے اور رب کے بیچ میں جو تعلق ہے، اسے جوڑ و سعادت پاؤ گے ‘‘ تمہارے اور رب کے درمیان جوتعلق ہے ، صالحین کے دلوں کے ساتھ اس کی حفاظت کرو۔ صابرفقراء قیامت کے دن رحمٰن کے ہمنشیں ہوں گے:
اے بیٹا! اگر تم غنی اورفقیر کے آنے پر الگ الگ سلوک کروتو تم فلاح نہیں پا سکتے ، دونوں سے ایک ساسلوک کر ،صابر فقراء کی تعظیم کرو ، ان سے برکت حاصل کرو ، ان سے ملاقات کو باعث برکت جانو ، ان کے پاس بیٹھنے کو سعادت سمجھورسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: الفقراء الصبر جلساء الرحمن يوم القيمة صابرفقراء قیامت کے دن رحمن کے ہم نشین ہوں گے ۔دنیا میں اپنے دلوں سے اور آخرت میں اپنے بدنوں سے اللہ کے ہم نشیں ہوں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل دنیا سے بے رغبت ہیں اور دنیا کی زیب وزینت سے منہ موڑے ہوئے ہیں، امارت پر اپنے فقر کوترجیح دی اور اس پر صبر کئے ر ہے ۔ ان کی یہ حالت جب کامل ہوگئی تو آ خرت نے انہیں اپنی طرف بلاوا بھیجا، اور انہیں اپنا آپ پیش کیا ، آخرت کی پیش کش قبول کرتے ہوئے اس سے جا ملے ۔ ملنے پر کھلا کہ یہ بھی غیر اللہ ہے ۔ وہ اس سے الگ ہو گئے ، اپنے دلوں کارخ ان سے پھیر لیا اور اللہ سے شرم کے مارے آخرت سے بھاگ پڑے ۔ قدیم کو چھوڑ کر غیر اللہ کے پاس کیسے ٹھہرتے ، اور حادث اشیاء کے پاس کیسے رکتے اور ان سے کیسے مانوس ہوتے ، اپنے سب اعمال اور نیکیاں اور سب طرح کی عبادتیں آخرت کے حوالے کر دیں ،اور اپنے مولی کی طلب میں سچائی کے بازوؤں کے ساتھ اڑ گئے، پنجرہ آخرت کے پاس چھوڑ آئے ، اور وجود کے قفس سے نکل کر اپنے بنانے والے کی طرف پرواز کر آئے ، اور رفیق اعلی کے طالب ہوئے ، اول و آخر ، اور ظاہر و باطن کو تلاش کرتے ہیں اور اس کے قرب کے برج میں جا پہنچتے ہیں۔ یوں ان لوگوں میں مل جاتے ہیں کہ جن کے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:
: وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ ‌الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ اور بے شک وہ ہمارے نزدیک منتخب ومعززین سے ہیں ۔‘‘ ان کے دل اور ان کی ہمتیں ہمارے پاس ہیں، ان کے باطن اور ان کی سمجھیں ہمارے پاس ہیں؟ ان کی دنیا اور آخرت ہمارے پاس ہیں ۔
اہل اللہ کو جب یہ مقام ومرتبہ مل جاتا ہے تو ان کے لئے نہ دنیا کچھ معنی رکھتی ہے نہ ہی آخرت کی کوئی اہمیت رہتی ہے، زمین و آسمان اور ان دونوں کے بیچ میں جو کچھ ہے، ان کے دلوں اور باطنوں کی نسبت لپیٹ دیا جا تا ہے ۔ وہ غیر کی ذات سے فنا ہو کر اللہ کی ذات میں موجود ہو جاتے ہیں، یوں انہیں فنا سے بقا کا مرتبہ مل جا تا ہے ، اگر دنیا میں ان کا حصہ باقی ہو تو انہیں آدمیت اور بشریت کے لباس میں واپس کیا جا تا ہے، تا کہ دنیا کے لئے ان کی جوقسمت لکھی جا چکی ہے، اسے پورا کر سکیں اور علم اور قضا وقد رالہی میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو، اس وقت وہ اللہ تعالی اور اس کے علم اور قضا وقدر کے ساتھ حسن ادب سے پیش آتے ہیں، اور جو کچھ انہیں دیا جا تا ہے اسے زہد وترک کی راہ پر چل کر حاصل کرتے ہیں ، اس میں نفس اور خواہش اور ارادے کا کوئی دخل نہیں رکھتے ، سارے حالات میں ظاہری حکم ان کے ہاں محفوظ رہتا ہے ، دنیا میں خلقت کے ساتھ کسی قسم کا بخل نہیں کرتے، اگر ان کے بس میں ہو تو ساری خلقت کو اللہ کا مقرب کر دیں ان کے دلوں میں مخلوقات اورنئی پیدا ہونے والی میں سے کسی شے کی ذرے سے زیادہ اہمیت نہیں ہوتی ۔ جب تک دنیا کا ساتھ رہے گا ، آخرت کا ملنا نصیب نہ ہوگا،اور جب تک آخرت کا ساتھ رہے گا مولی کاملنا نصیب نہ ہوگا ۔ عقل سے کام لے، ہوشیار ہو جا اور عمل کرنے والا ہو جا، تو ان میں سے ہے جو اللہ کے ہاں اپنے علم کے باعث گمراہ ہو گئے ۔ اپنے مال سے فقیروں کو خیرات کرنا ، یہ بھی اللہ سے ملا دینے والا عمل ہے، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ صدقہ دینا اللہ سے معاملہ کرنا ہے، جو ہر طرح سےغنی بھی ہے اور کریم بھی ہے ۔ کیا جوغنی وکریم سے معاملہ کرے گا، گھا ٹا اٹھا سکتا ہے، یقینا نہیں! تو اللہ کی راہ میں ایک ذرہ خرچ کرے گا، وہ اس کا ایک پہاڑ کر دے گا ۔ تو اس کی راہ میں ایک قطرہ خرچ کرے گا، وہ اس کے بدلے سمندر کر دے گا ، وہ دنیا و آخرت میں اپنی عطا سے تجھے سرفراز کرے گا اور تیرا جر وثواب پورا پورا د یا جائے گا۔
د نیاوآخرت کی بجائے اس سے اسی کو مانگیں:
اے لوگو جب تم اللہ سے لین دین رکھو گے تو تمہاری کھیتیاں پھلیں پھولیں گی نہریں بہہ نکلیں گی ، تمہارے درختوں پر پتے اور شاخیں نکلیں گی ، اورپھلی خوب آنے سے درخت لد جائیں گے ۔ نیک کام کرنے کے لئے شوق دلاؤ ، بدی سے بچنے کی ترغیب دو، یوں اللہ کے دین کی مددکرو، دین کے دشمنوں سے دشمنی کرو، سچا آدمی (صدیق) جو نیکی کے کاموں میں اللہ کے ساتھ سچائی کا معاملہ رکھتا ہے، اس کی صداقت ،خلوت اور جلوت، خوشی اور غمی سختی اورنرمی میں ہمیشہ یادرہتی ہے۔ اپنی حاجتیں خالق سے طلب کرو مخلوق سے نہ مانگو، ( بفرض محال ) اگر مخلوق ہی سے مانگنا پڑ جائے تو اللہ کے پاس اپنے دلوں سے حاضر ہو جاؤ، وہ تمہیں کسی خاص سمت اور جہت سے طلب کرنے کے لئے تمہارے دل میں ڈال دے گا،۔ اور اگر تمہیں دیا جائے یا روک دیا جائے تو (یہ دونوں صورتیں ) اللہ کی طرف سے ہوں گی ،نہ کہ مخلوق کی جانب سے ، اللہ کے ولیوں نے اپنے دل سے رزق کی فکر کو نکال ڈالا ہے، انہیں معلوم ہے کہ مقدر میں جو رزق ہے ، وہ وقت مقررہ پر ضرور ملے گا ۔ انہوں نے طلب کو چھوڑ دیا ہے اور مالک کے در پر ڈیرہ لگالیا ہے، اللہ کے فضل سے وہ اس کے علم اور قرب کی وجہ سے ہر چیز سے لا پرواہ ہو گئے ہیں ، – یہ مقام و مرتبہ پا کر وہ خلقت کے لئے قبلہ اور بادشاہ کے دربار میں ان کے داخلے کے لئے خطیب بن جاتے ہیں ، اپنے دلوں کے ہاتھوں سے تھام کر انہیں اللہ تک لے جاتے ہیں ، پھر ان کی قبولیت کے لئے اور اللہ کی رضا کی خلعت دلوانے کے لئے محنت و مشقت برداشت کرتے ہیں۔ اللہ کے عارف کامل علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے وہ بندے جن کی بندگی خاص اللہ کے لئے ثابت ہو چکی ہے، وہ اللہ سے نہ دنیا کی طلب کر تے ہیں اور نہ آخرت کی ، وہ اس سے اس کو چاہتے ہیں ، اس کے غیر کونہیں ، دعا یہ ہے: اللهم اهد جميع الخلق إلى بابك هذا ابدا سوالى والأمر إليك ”اے اللہ ! ساری مخلوق کو اپنے دروازے کی طرف ہدایت کر ، میرا تو ہمیشہ تجھ سے یہی سوال ہے، آگے تیرا اختیارہے،یہ دعا سب کے لئے ہے،اللہ اس پر مجھے ثواب عطافرمائے ،اللہ تعالی اپنی مخلوق سے جو چاہتا ہے، کرتا ہے،جب دل کا حال درست ہو جا تا ہے تو خلقت کے لئے رحمت وشفقت سے بھر آ تا ہے ۔ “
صدیقین کون ہیں؟
اللہ کے ایک ولی نے فرمایا کہ نیکی کاعمل بکثرت کرنے والا اور گناہوں سے بچنے والا صدیقوں کے سوا اور کوئی شخص نہیں ہے، صغیرہ اور کبیرہ سب گناہوں کو چھوڑنے والا صدیق ہے، تمام خواہشیں چھوڑ دیتا ہے،مشکوک چیزوں سے نہایت احتیاط سے پر ہیز کرتا ہے، اور عام خلقت کے لئے جو کچھ مباح ہے اسے ترک کر دیتا ہے، اور خالص حلال کا طالب رہتا ہے، صدیق بڑے دنوں اور لمبی راتوں میں اللہ کی عبادت میں لگا رہتا ہے، خلق کے منافع سے لاعلم ہوتا ہے، ضرورت کے وقت اس کے لئے اللہ کی طرف سے خرق عادت کا حکم ہوتا ہے، اور ایسی جگہ سے رزق دیا جا تا ہے کہ جہاں کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اسے لینے کا حکم ہوتا ہے، اسے تمام چیز یں خالص اور صفاملتی ہیں، کیونکہ- وہ ایک عرصہ تک محروم رکھا گیا۔ اس کی حسرتیں سینے پرتوڑی گئیں، اس نے اپنی اغراض کے عدم حصول پر صبر کیا،ہر حالت میں کیا گیا سوال اس کے منہ پر مارا گیا ، دعا کرتا تھا ، کچھ قبولیت نہ ہوئی ، سوال کرتا اور اس کا سوال پورا نہ کیا جا تا ،شکوہ و شکایت کرتا لیکن گلہ بڑھتا چلا جاتا ، خوشی کو طلب کرتا اور نہ پاتا۔ بچنا چاہتالیکن مصیبت سے نکلنے کی راہ نہ پاتا ،خداپرست ہو کر خالص عمل کرتا لیکن جس کیلئے عمل کرتا اس کا قرب نہ پاتا گویا وہ ایمان والا اورخداپرست نہیں، باوجوہ ان سب باتوں اور نظر انداز کئے جانے کے وہ ہمیشہ مدارات اور صبر کا دامن تھا مے رہا۔ اس پر یہ کھل چکا تھاکہ اس کا صبر اس کے دل کی دوا ہے اور اس کے باطن کی صفائی اور قرب الہی کا سبب ہے، اور یہ کہ اس آزمائش کے بعد اسے خیر حاصل ہوگی ، اس کا یہ خیال بھی تھا کہ یہ آزمائش اس لئے ہے تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ کون ایمان والا ہے اور کون منافق ، کون خداپرست (موحد ) ہے اور کون بت پرست(مشرک)کون مخلص ہے اورکون ریا کار،کون بہادر ہے اور کون بزدل،کون ثابت قدم ہے اور کون ڈگمگانے والا ، کون صبر کرنے والا ہے اور کون گھبرانے والا ، کون حق والا ہے اور کون باطل،کون سچا ہے، اور کون جھوٹا ،کون دوست ہے اور کون دشمن،کون فرماں بردار ہے اورکون نا فرماں تا کہ ہر ایک کی الگ الگ پہچان ہوجائے ۔
اپنادل اللہ کے لئے خالی اور خالص رکھ
ایک ولی اللہ نے فرمایا کہ دنیا میں اس طرح رہو کہ جیسے کوئی اپنے زخم کا علاج کرتا ہے، بلاٹل جانے کی امید پر دوا کی تلخی کو برداشت کرتا ہے اور صبر کرتا ہے، تم پر ساری مصیبتیں اور تکلیفیں اس لئے ہیں کہ مخلوق کو اللہ کا شریک ٹھہرائے اور اس سے نفع و نقصان اور عطا اور منع کے بارے میں ان پر نظر رکھتے ہو، مصیبتوں سے نجات اور ساری دوا اس میں ہے کہ تیرے دل سے خلقت نکل جائے ، قضاوقدر کے نازل ہونے پرتو ثابت قدمی سے جمار ہے، خلقت پر برتری اور ریاست کا طالب نہ ر ہے۔ اپنا دل اللہ کے لئے خالی اور خالص رکھ، اپنا باطن اس کے لئے صاف رکھ، تیری ہمت اس کی طرف بلند ہوتی رہے۔
جب یہ بات تیرے لئے ثابت ہو جائے تو تمہارادل بلند ہوگا ، اورنبیوں، پیغمبرون شہیدوں ، صالحین اور مقرب فرشتوں کی صفوں میں شامل ہو جائے گا ، اس حالت کی برقراری و بقا جس قدر ہوگی ،اتنی ہی عظمت و بزرگی ملے گی ، بلندی ملے گی۔ ترقی ملے گی ، حکومت ملے گی ،امارت ملے گی ۔ اس وقت : – تیری طرف وہ چیز آئے گی کہ آئے گی ، والی ہو گئے جس چیز کے ہوگے، دیا جائے گا ، جو دیا جائے گا ، جو شخص اس کلام کے سنے، اور اس پر ایمان لانے اور اس کے اہل کا احترام کرنے سے محروم رہا تو ایسا شخص بےنصیب ہے۔
اسے میری طرف سے غفلت برت کر ) مجھے چھوڑ نے والو! اور اپنی معیشتوں میں مشغول ہونے والو! ـ
( سن لو! ) ( ذریعہ )معاش میرے پاس ہے، نفع میرے پاس ہے، آخرت کا سامان میرے پاس ہے، کبھی میں آواز دینے ولا ہوں، کبھی رہنمائی کرنے والا ہوں ، کبھی سودا طے کرانے والا ہوں ، کبھی اسباب اور مال ومتاع کا مالک ہوں ۔ میں ہر ایک کو اس کا حق ادا کرتا ہوں، جب مجھے آخرت کی کوئی چیز ملے تو میں اکیلے نہیں کھا تا، کیونکہ جو کریم ہوتا ہے وہ تنہا کھانے والانہیں ہوتا ، جس پر اللہ کا کرم آشکارا ہو گیا ، وہ بخیل نہیں ہوتا ، ۔ جسے اللہ کی پہچان ہوگئی ،ما سوا اس کے لئے ذلیل ہے، بخل تو نفس سے ہوتا ہے ۔ مخلوق کے نفس کی نسبت عارف کانفس مردہ ہے۔ اس کا نفس تو اللہ کے وعدے پر اطمینان والا اور تسکین والا ہے، اور اس کے عذاب سے خوف رکھنے والا ۔
التجا ہے کہ: اللهم ارزقنا ما رزقت القوم والقا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی! جو کچھ تو نے اپنے پیاروں کوعنایت فرمایا ہے ، ہمیں بھی عنایت فرما، اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا کر اور آخرت کی بھلائی عطا کرے ۔ اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ، آمین! “
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 100،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 67دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
پندرھویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پندرہویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الخامس عشر فی ایثار المومن علی نفسہ ‘‘ ہے۔
منعقدہ 9 ذیعقد 545 بروز اتوار بمقام خانقاہ شریف
ایمان والا سامان آخرت کرتا ہے، کافرسارا فائدہ لیتا اور مزے اڑاتا ہے:
ایمان والا حسب ضرورت لیتا ہے ، کافر سارا فائدہ لیتا اور مزے اڑاتا ہے، ایمان والا تھوڑے سے گزراوقات کرتا ہے، اور بہت سا مال آخرت کے لئے آگے بھیجتارہتا ہے، جتنا سامان مسافر اپنی ضرورت کے مطابق اٹھا سکے، اس قد روہ اپنے نفس کے لئے رکھ لیتا ہے ۔ اس کا سارا مال، اور پوری ہمت اور دل آ خرت میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس کا دل دنیا سے کٹ کر اس طرف لگا ہوا ہے۔ وہ اپنی سب عبادتیں آخرت میں بھیجتا ہے، دنیا اور دنیا والوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا، اگراس کے پاس اچھا کھانا ہوتو وہ اس نیت سے فقیروں کو کھلا دیتا ہے کہ اسے آخرت میں اس سے بہتر کھلایا جائے
مؤمن عارف عالم کا دلی مقصود قرب الہی کا دروازہ ہے، اور یہ چاہتا ہے کہ اس کا دل آ خرت سے پہلے دنیا ہی میں اللہ اسے واصل ہو جائے ، ایمان والے کے دل کے قدموں اور باطن کی سیر کی انتہا قرب الہی ہے، میں تجھے قیام اور قعود، اور رکوع اورسجود اور بے خوابی اور محنت ومشقت میں دیکھتا ہوں ، لیکن تیرے دل کا یہ حال ہے
تو اپنی جگہ سے عروج وترقی کرتا ہے، نہ اپنے وجود کے گھر سے نکلتا ہے نہ اپنی عادت سے باز آ تا ہے
تو مولی کی طلب میں سچائی دکھا کہ تیری سچائی (صدق ) تجھے بہت ہی مشقت سے بے پروا کر دے گی ، اپنے وجود کے انڈے کو صدق کی چونچ سے کھٹک دے ۔ جن دیواروں سے تجھے خلقت دکھائی دیتی ہے، اور جن کے بیچ میں تو قید ہے، توحید اور اخلاص کی کدالوں سے ان دیواروں کو گرا دے، طلب کے جس پنجرے سے تو چیزوں کا طالب ہوتا ہے، اپنےزہد کے ہاتھ سے اسے توڑ ڈال، اپنے دل کے ساتھ اڑ جا اور قرب الہی کے دریا کنارے اتر جا، اس وقت سابقہ تقدیرالہی کا ملاح عنایت الہی کی کشتی لے کر آئے گا اورتجھے اس پر سوار کر کے اللہ تک پہنچا دے گا، یہ دنیا دریا ہے اور بندے کاایمان اس کے لئے کشتی ہے، اسی لئے حضرت لقمان حکیم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نصیحت ارشادفرمائی :
”بیٹا! دنیا دریا ہے اور ایمان کشتی عبادات ملاح، اور کنارا آخرت ہے ۔‘‘
اے گناہوں پر اصرار کرنے والو! عنقریب تم پر وہ وقت آنے والا ہے کہ نہ آ نکھیں تمہاری ہوں گی ،نہ کان تمہارے ہوں گے ، تم اپاہج اور محتاج ہو گے، خلقت کے دل تم پرسخت ہو جائیں گے، تمہارا سارا مال اسباب نقصانوں اورتاوانوں اور چوریوں میں چلا جائے گا، عقل سے کام لو، اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ، اس کے حضور میں توبہ کرو۔ مال پر بھروسہ نہ کرو، نہ ا سے اس کا شریک ٹھہراؤ نہ اس کے ساتھ ٹھہرو، مال کو دلوں سے نکال دو، اسے اپنے گھروں اور جیبوں کے اندر اپنے غلاموں اور وکیلوں کے پاس رکھوادو اورموت کے انتظار میں رہو، حرص کو کم کر دو اورامیدوں کو گھٹا دو حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایمان والا اللہ کی معرفت رکھنے والا اللہ سے دنیا و آخرت نہیں مانگتا،۔وہ اپنے مولی سے مولی ہی کو طلب کرتا ہے۔
اللہ کی طرف اپنے دل سے رجوع کرو:
اے بیٹا! تو اپنے دل سے اللہ کی طرف رجوع کر توبہ کرنے والا وہی ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔ارشاد باری تعالی ہے:
وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ’’اپنے رب کی طرف رجوع ہو جاؤ ۔‘‘
یعنی اپنی ہر چیز کو اس کے حوالے کر دو ، اپنے نفس اس کے سپرد کر دو، نفس کو اس کی قضا اور قدر، اس کے امرونہی اور اس کے تصرفات کے سامنے ڈال دو، اپنے دلوں کو اس کے حضور میں بے زبان ، ہاتھ پاؤں اور آنکھوں کے بغیر کسی بھی چون و چراکے بغیر کسی جھگڑے اور مخالفت کے بغیر ڈال دو، اس کی موافقت اور تصدیق کرتے رہو اور یوں کہو: امر الہی سچا ہے، ۔ تقدیرسچی ہے، قضاسچی ہے ۔‘‘
جب تم ایسے ہو جاؤ گے تو تمہارے دل اس کی طرف رجوع کر کے اس کا مشاہدہ کرنے لگیں گے ، پھر کسی چیز سے مانوس نہ ہوں گے بلکہ عرش الہی سے لے کر فرش کی تہہ تک کی تمام چیزوں سے وحشت کھا ئیں گے ۔ ساری خلقت سے الگ ہوکر اورنئی پیدا ہونے والی سب چیزوں سے تعلق توڑ کر اللہ کی طرف دوڑ یں گے ۔
پیرومرشد کا ادب وہی کر سکتا ہے جو ان کی صحبت میں رہا ہو، اور اللہ کے ساتھ ان کے جواحوال تھے، ان میں سے بعض سے آگاہ ہو، اللہ والے تعریف اور برائی کی پرواہ نہیں کرتے ، وہ تعریف کو گرمی اور رات کی طرح سمجھتے ہیں ، اور برائی کو سردی اور دن کی طرح خیال کرتے ہیں، اور انہیں اللہ ہی کی طرف سے سمجھتے ہیں ، اس لئے کہ ان دونوں کو لانے کے لئے اللہ کے سوا کوئی قدرت نہیں رکھتا ، جب ان پر یہ بات ثابت ہو گئی تو وہ تعریف کرنے والوں کے آگے نہیں پڑتے ، اور برائی کرنے والوں کے پیچھے نہیں بھاگتے ۔ سب سے ایک سے رہتے ہیں، کسی سے مشغول نہیں ہوتے ۔ ان کے دلوں سے خلقت کا اچھا اور برا جاننا نکل گیا ہے وہ کسی کی دوستی اور دشمنی کی پرواہ نہیں کرتے ، بلکہ ہر ایک سے رحمت سے پیش آتے ہیں۔
صدق کے بغیر علم کا کچھ نفع نہیں:
صدق کے بغیر علم تجھے کیا نفع دے گا، علم دے کر اللہ نے تجھے راہ سے ہٹادیا ، تیرا علم سیکھنا اور نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا سب خلقت کے لئے ہے، تا کہ وہ تمہاری دعوت کر یں ، اور تمہارے لئے اپنا مال خرچ کر یں اپنے گھروں اور مجلسوں میں تمہاری تعریف کر یں یہ بات مان لو کہ تمہیں ان سے یہ سب حاصل ہو جائے گا لیکن جب تمہیں موت اور عذاب اور قبر کی تنگی اور خوف تمہارے اور ان کی بیچ میں حائل ہو جائیں گے، اور وہ تمہاری کسی طرح سے کوئی مدد نہ کر سکیں گے ، اور جو کچھ تو نے ان کے مالوں سے کمایا، وہ تیرے نہیں اوروں کے کام آئے گا ۔ البتہ اس کا حساب و عذاب تمہارے ذمہ ہوگا۔ اے بد بخت! اے محروم! تو ان میں سے ہے جو دنیا میں کام کرنے والے ہیں ، اور تکلیف اٹھانے والے ہیں اور قیامت کے دن دوزخ میں تکلیف اٹھانے والا ہوگا ۔ عبادت ایک صنعت ہے، اولیاء وابدال جو کہ مخلص اور اللہ کے مقرب ہیں ، وہی اس کے اہل ہیں ، وہ دل سے باعمل عالم ہیں ، زمین میں اللہ کے نائب اور نبیوں اور رسولوں کے وارث ہیں تم نہیں ہو، اے حرص کے بندو! – اے زبان درازی اور باطن کی جہالت سے ظاہری فقہ میں مشغول رہنے والو! – سمجھ سے کام لو علم حاصل کرو، اور اس پر عمل بھی کرو ۔
زبانی ایمان کافی نہیں، دل کی گواہی لازم ہے۔
اے بیٹا! تو کچھ بھی نہیں جب تک تیرا اسلام بھی نہ ہو تو اسلام کی کسی چیز پر نہیں ، کلمہ شہادت جو کہ اسلام کی بنیاد ہے، وہ بھی تیرے لئے کافی نہیں ، زبان سے لا الہ الا اللہ تو کہتا ہے، لیکن عمل سے اس کی نفی کرتا ہے ) یعنی تو جھوٹ بولتا ہے ۔۔ تیرے دل میں معبودوں کی ایک جماعت ہے: وقت کے حاکم اور محلہ کے سرکردہ سے ڈرنا تیرامعبود ہے۔ اپنی آنکھ اور کان اور ہاتھ کی گرفت پر اعتماد کرنا تیرامعبود ہے۔ نفع ونقصان اور منع وعطا کے لئے طاقت کی طرف متوجہ ہونا تیرامعبود ہے۔ بہت سے لوگ ان چیزوں پر توکل کئے بیٹھے ہیں ۔ جبکہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ پر بھروسہ ہے ۔ ان کا اللہ کویاد کرنا زبانی کلامی ہے، دل سے نہیں، اس معاملہ میں جب انہیں پرکھا جائے تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور جھگڑ نےلگتے ہیں اور کہتے ہیں: ہمیں ایسا کیوں کہتے ہو، کیا ہم مسلمان نہیں !‘‘ کل قیامت کے دن سب سامنے آ جائے گا، رسوائی اور خسارہ ظاہر ہو جائیں گے ۔ تجھ پر افسوس ہے کہ لا اللہ کہتے ہو، ( یعنی کوئی معبود نہیں) ، یہ کلی نفی ہے، الا اللہ کہتے ہو (یعنی اللہ ہی معبود ہے، کوئی اور نہیں )، یہ کلی اثبات ہے۔ گویا خدا کے لئے نہ کہ اس کے غیر کے لئے اور جب تیرے دل نے اللہ کے سواکسی اور پر بھروسہ کیا تو تو کلی اثبات میں جھوٹا ہو گیا ۔ اور جس پر تو نے بھروسہ کیا ، وہی تیرا معبود ٹھہرا، ظاہر کا کچھ اعتبارنہیں ، دل ہی سب کچھ ہے ۔
وہی مومن ( ایمان والا ) ، وہی موحد ( توحید والا )، وہی خالص ، وہی متقی و پرہیز گار، وہی زاہد ، وہی (مؤقن ) ( یقین رکھنے والا ) وہی عارف ، وہی عامل ،وہی امیر، وہی بادشاہ ، باقی سب اعضاء اس کے تابعدار اور شکر ہیں، جب تم لا الہ الا اللہ کہو، تو پہلے دل سے کہو، پھر زبان سے ، اللہ ہی پر توکل کرو اور اس کے غیر کا سہارا چھوڑ دو۔ ظاہری طور پر شرعی حکم کی تعمیل میں رہو اور باطنی طور پر اللہ کے ساتھ لگے رہو، بھلائی اور برائی کوظاہر پر چھوڑ دو ، اور باطن کی بھلائی اور برائی کے پیدا کرنے والے کے ساتھ جوڑ دو، جس نے اسے پہچان لیا اس کا فرماں بردار ہو گیا ، اس کے سامنے زبان بولنا بھول گئی ۔ اللہ اور اس کے نیک بندوں کے سامنے عاجزی وانکساری کرنے والا بن گیا ، اس کا فکر اور غم اوراگر یہ زاری دو گنا ہو گئے ، خوف اور دہشت بڑھ گئے ۔ بدعملی پر شرمندگی ہونے لگی حیا آنے لگی ، اگلے گناہوں اور خطاؤں پر شرم آنے لگی ، جو کچھ معرفت اور علم اور قرب الہی پایا تھا، اس کے زوال کا خوف اور ڈر ہو گیا ۔ کیونکہ اللہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے، اور لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ۔ یعنی جو کچھ وہ کرے اس کی کوئی پوچھ نہیں ، اور ان سے پوچھ ہوگی‘‘ عارف دو نگاہوں کے درمیان تردد میں رہتا ہے، جب و ہ عمل کے لئے اپنی اگلی کوتاہی اور بے حیائی اور نادانی اور غرور کی طرف دیکھتا ہے ۔ شرم کے مارے مر جا تا ہے ۔ اس کی پکڑ سے ڈرا جا تا ہے اور آئندہ کی طرف دیکھتا ہے کہ آیا وہ مقبول ہوتا ہے یا مردود، جو کچھ عطا فرمایا گیا ہے وہ چھین لیا جائے گا ، یا بحال رہے گا ، قیامت کے دن ایمان والوں کی صحبت ملتی ہے یا کافروں کی ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: –
أَنَا ‌أَعْرَفُكُمْ ‌بِاَللَّهِ ‌وَأَشَدُّكُمْ ‌لَهُ خَشْيَةً»”میں تم سب سے زیادہ اللہ کو پہچاننے والا ہوں، اور تم سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ۔ ہل عرفان میں سے گنے چنے ہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں بجائے خوف کے امن نصیب ہوتا ہے۔ جو کچھ ان کے مقدر میں طے ہو چکا ہے، وہ انہیں سنا یا جا تا ہے، انہیں اپنے انجام اور ٹھکانے کا پتہ ہوتا ہے، لوح محفوظ پر جو کچھ ان کے لئے لکھا ہے، ان کا باطن اسے پڑھ لیتا ہے ۔ باطن سے دل کو خبر ہو جاتی ہے، لیکن اس آگاہی کے ساتھ اسے چھپانے کی ہدایت بھی کر دیتا ہے تا کانفس کو اس امر کا بالکل علم نہ ہو، اس امر کا آغاز اسلام لانا، احکام پرعمل پیرا ہونا اور منع کئے ہوئے سے باز رہنا اور آفتوں پر صبر کرنے سے ہے، اوراس امر کی انتہا یہ ہے کہ ماسوا اللہ کو چھوڑ دیتا ، مٹی اور سونا تعریف اور برائی برابر ہوں ، دینا اور نہ دینا، ایک ہوں، جنت اور دوزخ نعمت اور مصیبت برابر ہوں ، امیری درفقیری خلقت کا وجود اور عدم ایک ہو جائیں ۔ جب یہ حالت کامل ہو جائے تب اللہ اس کا ہو جا تا ہے، اللہ کی طرف سے اسے خلقت کی سرداری اور ولایت کا فرمان آ جا تا ہے۔ پھر جوبھی اسے دیکھتا ہے، اللہ کی ہیبت اور اللہ کی طرف سے اسے ملنے والی نورانیت کی تمنا کرتا ہے۔ ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ، اے ہمارے رب! ہمیں دنیا کی بھلائی عطا کرے ، اور آخرت کی بھلائی عطا کر اور دوزخ کے عذاب سے بچا، آمین!‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 108،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 71دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
سولھویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے سولہویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السادس عشر فی العمل بالقرآن ‘‘ ہے۔
منعقدہ11/ ذیعقدہ 545 بروزمنگل بوقت عشاء، بمقام : مدرسہ قادر یہ
دنیا کی لذت اس کی اہانت کرنے میں ہے:
آپ نے درس دینے سے پہلے کچھ گفتگوفرمائی ، پھر ارشاد فر مایا کہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: دنیا کی اہانت کرو، اللہ کی قسم ! دنیا کی لذت اس کی اہانت کرنے میں ہے ۔‘‘
قرآن وسنت پرعمل اللہ ورسول کی پہچان کا ذریعہ ہے:
اے بیٹا! تیرا قرآن مجید پرعمل کرنا تجھے اس کے اتارنے والے کی پہچان کرائے گا، تیراسنت پرعمل کرنا تجھے رسول ﷺکی پہچان کرائے گا۔ رسول اللہ ﷺ اپنی ہمت اور قلب مبارک سے اللہ کے ولیوں کے دلوں کو گھیرے رہتے ہیں ۔ آپ ﷺ ہی ان کے دلوں کو معطر اور خوشبودار بنانے والے ہیں ، آپ ﷺ ہی ان کے باطنوں کو صفائی اور آپ ہی ان کو زینت بخشنے والے ہیں ، آپ ﷺ ان کے لئے قرب کا دروازہ کھلوانے والے ہیں ، آپ ﷺ ہی ان کا بناؤ سنگھار کرنے والے ہیں ، آپ ﷺ ہی باطنوں اور دلوں اور اللہ تعالی کے درمیان سفیر اور پیام بر ہیں، جب تو حضور ﷺ کی طرف ایک قدم بڑھے گا ، تیری فرحت بڑھ جائے گی ، جسے یہ حال نصیب ہواس پرلازم ہے کہ آپ ﷺ کا شکرگزار ہو اور آپ ﷺ کی تابعداری کرنا اس کے لئے ضروری ہے، اس کےسوا خوش ہونا خوش فہمی ہے ، ہوس ہے، دنیا میں جاہل خوش جبکہ عالم دنیا میں غم زدہ رہتا ہے، جاہل تقدیر سے جھگڑ تا ہے۔
مناظر ہ کرتا ہے ، جبکہ عالم تقدیر کی موافقت کرتا ہے، اور راضی برضار ہتا ہے۔
اے مسکین! تقدیرالہی سے جھگڑا اورفساد نہ کر ورنہ ہلاک ہو جائے گا، مقصود یہی ہے کہ تو افعال الہی پر راضی رہے،اور اپنے دل سے خلقت کو نکال دے، اور دل سے خلقت کے خالق سے مل جا، خالق سے دل اور باطن اور باطن الباطن سے ملاقات کر ، اللہ تعالی ، اس کے رسولوں اور اس کے نیک بندوں کی ہمیشہ تابع داری کرتے رہو، اگر تو یہ خدمت گزاری ہمیشہ کرسکتا ہے تو کرتا رہ ، اس میں تیرے لئے دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے ۔ اگر تو ساری دنیا کا مالک ہو جائے اور تیرا دل ان کے دلوں جیسا نہ ہوتو تو گویا ایک ذرے کا بھی مالک نہیں جو اللہ کے لئے اپنے دل کی اصلاح کرے، دنیا و آخرت اس کے ساتھ ہوئے ، وہ اللہ کے حکم سے عوام اور خواص پر حکومت کرتا ہے۔
اولیاءاللہ کے مقابل دنیا دار کی کیا حیثیت ہے:
تجھ پر افسوس تو اپنی قدرکو پہچان ، اولیاء اللہ کے مقابل تیری کیا حیثیت ہے، تیرا سارا مقصودتو کھانا پینا ، نکاح کرنا اوردنیا کو جمع کرنا اور پھر اس پرحرص کرتا ہے، تو دنیا کے کاموں میں بڑاسر گرم ہے جبکہ آخرت کے کاموں میں نا کارہ ہے، اپنے گوشت کو موٹا تازہ کر کے کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض کا نوالہ بنا رہا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا لَهُ ‌مَلَكٌ ‌يُنَادِي ‌كُلَّ ‌يَومٍ: لِدُوا لِلْمَوتِ وَابْنُوا لِلْخَرَابِ
” اللہ تعالی کا ایک فرشتہ ہے جو ہر روز صبح و شام آواز دیتا ہے:”اے اولاد آدم ! تم مرنے کے لئے پیدا ہوتے ہو ۔ ویرانی کے لئے عمارت بناتے ہو، اور دشمنوں کے لئے مال جمع کرتے ہو۔ ایمان والے کے ہر کام میں نیک نیتی ہوتی ہے، وہ دنیا میں کوئی کام حصول دنیا کے لیے نہیں کرتا ،۔دنیا میں آخرت کے لئے عمارت بنا تا ہے ۔ وہ مسجد یں ،پل ،مدر سے اور سرائیں بنا تا ہے، مسلمانوں کے رستوں کو درست کرتا ہے، ان کے علاوہ اگر وہ کچھ بنا تا ہے تو بیوی بچوں، بیواؤں اور محتاجوں اور ضرورتوں کے لئے ہے، یہ سب وہ اس لئے کرتا ہے کہ اس کے بدلے میں اس کے لئے آخرت میں محل تیار ہوسکیں ، وہ یہ سب اپنی خواہش اور حرص اور نفس کے لئے نہیں کرتا۔ اولاد آدم کی حالت جب سدھر جائے تو اپنی تمام حالتوں میں اللہ کے ساتھ رہتا ہے، فنا فی اللہ اور بقا باللہ کا مقام حاصل کرتا ہے۔ اس کا دل نبیوں اور رسولوں سے مل جا تا ہے ۔ جو کچھ انبیاء کرام لے کر آئے تھے، وہ ان کو اپنی زبان سے اپنے عمل سے اور ایمان ویقین کے ساتھ قبول کرتا ہے، اس لئے وہ دنیا وآخرت میں ان سے ملا ہوارہتا ہے۔ اللہ کی یاد میں رہنے والا ہمیشہ زندہ ہے، وہ ایک مقام کی زندگی سے دوسرے مقام کی زندگی حاصل کرتا ہے ۔ اس کے لئے موت ایک لمحے کی ہے ۔ ذکر الہی جب دل میں جگہ بنا لیتا ہے تو بندہ ہمیشہ اللہ کی یاد میں لگا رہتا ہے، اگر چہ زبان سے ذکر نہ کرے، جو بندہ ہمیشہ ذکر الہی میں رہتا ہے تو اللہ کی موافقت اور اس کے کاموں سے راضی رہتا ہے – اگرگرمی کے موسم میں موافقت نہ کرے تو گرمی ستائے گی ،اگر سردی کے موسم میں موافقت نہ کرے تو سردی ستم ڈھائے گی ، دونوں موسموں میں موافقت اختیار کرنا ان کی تکلیف اورسختی کو دور کرتی ہے ، اسی طرح تمام بلاؤں مصیبتوں اور آفتوں میں موافقت الہی پریشانی اورتنگی ، تکلیف اور تنگ دلی اور بے چینی کو ان کے نزول کے وقت دور کر دیتی ہے۔
اللہ والے ہر حال میں مغفرت ونجات کی امید رکھتے ہیں:
اولیاءاللہ کے معاملات کیسے عجیب اور ان کے احوال کیا ہی اچھے ہیں، اللہ کی طرف سے انہیں جو کچھ بھی پہنچتا ہے، وہ انہیں پسند ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے انہیں معرفت کی شراب پلا دی ہے، انہیں اپنے لطف و کرم کی گود میں سلاتا ہے، اپنے انس سے انہیں مانوس بنا تا ہے ۔ اللہ کے قرب میں رہنا انہیں محبوب ہے، ماسوا اللہ سے دور رہنا انہیں مرغوب ہے ۔ اس کے حضور میں مردے کی طرح پڑے رہتے ہیں، اللہ کی ہیبت ان پر حاوی ہو چکی ہے، وہ جب چاہتا ہے انہیں اٹھا کر کھڑا کر دیتا ہے، اور زندہ رہوشیار بنادیتا ہے ۔ ذات الہی کے سامنے وہ ایسے ہیں جیسے اصحاب کہف اپنے غار میں تھے ۔جن سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:
وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ”اور ہم ان کی دائیں اور بائیں کروٹیں بدلتے ہیں ۔ مخلوق میں وہ سب سے زیادہ عقل رکھتے ہیں، وہ اپنے رب سے ہر حال میں مغفرت اور نجات کی امید رکھتے ہیں ،اور یہی ان کی زندگی کا مقصود ہے۔
جو کچھ بھی تیرے پاس ہے سب مستعار ہے:
تجھ پر افسوس ہے کہ تیرے عمل تو دوزخیوں جیسے ہیں اور جنت کی امید لگائے بیٹھے ہو، جنت لا لچ کرنے کی جگہ نہیں ہے اور تو اس کے لئے لا لچ کر رہا ہے، جو چیز تجھے چند دن کے لئے عاریتا ملی ہے، اس پرغرور نہ کر، وہ چیز تجھ سے عنقریب لے لی جائے گی تمہیں زندگی مستعار عنایت فرمائی تا کہ تو اس میں اللہ کی اطاعت کرے لیکن تم اسے اپنا سمجھ کر اس میں جو چاہتے ہوعمل کرتے ہو،جس طرح زندگی تیرے لئے مستعار ہے، اسی طرح عافیت تیرے لئے مستعار ہے، فنا اور امن اور عزت تیرے لئے مستعار ہیں، اور اللہ کی نعمتوں میں سے جو کچھ تیرے پاس ہے وہ سب مستعار ہے، تم ادھارلی ہوئی ان چیزوں میں حد سے نہ بڑھو کیونکہ تم سے ان سب کے بارے میں استفسار کیا جائے گا ، تمہیں جو بھی نعمتیں میسر ہیں، سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ ان کے ذریعے سے اللہ کی اطاعت پر مدد چاہو جن چیزوں کی طرف تمہارا دل کھنچتا ہے، اولیاء اللہ کے نزدیک اللہ کے قرب سے دور کر نے والی ہیں ۔ وہ دنیا و آخرت میں ذات الہی کے ساتھ سلامتی کے سوا اور کچھ نہیں جانتے ۔
بعض اولیاء اللہ نے فرمایا:
وافق الحق عز وجل في الخلق ولا توافق الخلق في الخلق “خلقت کے معاملے میں اللہ کی موافقت کرو، اورحق تعالی کے معاملے میں خلقت کی موافقت نہ کرو۔ جوٹو ٹا سوٹوٹ گیا، جو جڑ گیا سو جڑ گیا، اللہ کی موافقت کرنا اس کے نیک بندوں سے سیکھو جو اس کے ہر کام میں موافقت کرنے والے ہیں ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 114،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 74دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
سترھویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے سترھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السابع عشر فی عدم الاہتمام فی الرزق ‘‘ ہے۔
منعقده 14/ ذیعقد 5450 بروز جمعہ صبح کے وقت بمقام مدرسہ قادریہ ،
وہ تجھے خود تلاش کرتا ہے۔
تو اپنے رزق کی فکرمت کر، تیرے رزق کو تلاش کرنے سے بڑھ کر رزق کو تیری تلاش ہے، آج کے دن کا رزق مل جائے تو آنے والے کل کے رزق کے لئے پریشان مت ہو، جس طرح تو نے گزرے ہوئے کل کو چھوڑ دیا ، کہ وہ دن گزر گیا تجھے کیا خبر کہ آنے والے کل کا دن آئے کہ نہ آئے ، اس لئے تو آج کے دن میں مشغول رہے اگر تم اللہ کو پہچان جاتے تو رزق کی طلب میں اس کی طرف سے غافل نہ ہوتے بلکہ اس کے ساتھ مشغول رہتے ۔ اس کی ہیبت تجھے رزق کی تلاش سے روک دیتی ۔ جسے اللہ کی پہچان (معرفت ) ہو جاتی ہے، اس کی زبان بند ہو جاتی ہے ، اللہ کے سامنے اس کی پہچان رکھنے والے (عارف) کی زبان ہمیشہ گنگ رہتی ہے، حق تعالی خلقت کی اصلاح کے لئے واپس لوٹا دیتا ہے۔پھر اس کی زبان سے بولنے کی پابندی اٹھالیتا ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام جب بکریاں چرایا کرتے تھے تو ان کی زبان میں لکنت اور عجلت ، رکاوٹ اور تو تلا پن تھا۔ اللہ تعالی نے جب خلقت کی اصلاح کے لئے انہیں لوٹا یا تو ان کے قلب پر الہام فرمایا ۔ آپ نے بارگاہ الہی میں عرض کی : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي” میری زبان سے گرہ کھول دے تا کہ وہ میری بات سمجھیں ۔‘‘ گویاوہ بارگاہ الہی میں یہ عرض کر رہے تھے کہ جب تک میں جنگل میں بکریاں چرارہا تھا، مجھے اس بات کی حاجت نہ تھی ، اب چونکہ مجھے مخلوق کے ساتھ مشغول رہنے اور ان سے بات چیت کی ضرورت ہے، اس لئے میری زبان سے لکنت دور کر دے، چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کی زبان سے گرہ اٹھادی گئی، پھر جتنی دیر میں کوئی شخص جتنے کلمات بولتا، حضرت موسی علیہ السلام اتنی دیر میں نوے فصیح کلمات بول لیتے تھے جو کہ اچھی طرح سمجھ میں آ سکیں۔ بچپن میں آپ نے فرعون اور حضرت آسیہ کے سامنےقبل از وقت کلام کرنا چاہا تواللہ تعالی نے ان کے منہ میں دہکتا انگارہ رکھوادیا تا کہ آپ خاموش رہیں۔
بندے کے دل کی آبادی اسلام سے ہے:
اے اللہ کے بندے میں دیکھتا ہوں کہ تجھے اللہ اور سول اللہ ﷺاور اللہ کے محبوب بندوں اولیاء اور ابدال جو کہ نبیوں کے جانشین ہیں، اور خلقت میں ان کے خلیفہ میں کی بہت ہی کم معرفت ہے۔ تو معنی سے خالی ہے حقیقت کو کچھ نہیں سمجھتا، تو بغیر پرندے کے پنجرہ ہے، تو خالی اور ویران مکان ہے، تو ایسا درخت ہے جس کے سوکھنے سے پتے جھڑ گئے ہوں۔ بندے کے دل کی آبادی اسلام سے ہے، اس کی حقیقت کی تحقیق یہ ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا جائے ۔( چنانچہ ) تو اپنے آپ کومکمل طور پر اس کے حوالے کر دے، وہ تیرے نفس اور تیرے غیر کوتیرے حوالے کر دے گا۔ تو دلی طور پر اپنی ذات اور خلقت سے نکل جا، اپنے آپ اور اپنے غیر سے بر ہنہ وجدا ہو کر خالق کے سامنے کھڑا ہو، پھر اللہ کو جب منظور ہوگا تجھے لباس پہنا کر خلقت کی طرف لوٹا دے گا، پس تو اپنی ذات میں اور خلقت کے اندرسول اللہ ﷺ اور آپ کو بھیجنے والے رب تعالی کی خوشنودی اور رضا کے لئے اس کے حکم کی تعمیل کرے گا ، اس کے بعد ہر حکم کا منتظر رہے گا اور ہر علم کی موافقت کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے گا، ہروہ شخص جو اللہ کی ذات کے سوا خالی ہو کر اپنے قلب اور باطن کے قدموں کے بل اس کے حضور میں کھڑا ہوا – زبان حال سے وہی کہے گا جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے کہا تھا: وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ ‌لِتَرْضَى – الہی میں نے تیری طرف آنے میں اس لیئے جلدی کی کہ تو راضی ہو جائے ۔
میں نے تیری خوشنودی کے لئے ساری مخلوق اور دنیا وآخرت کو چھوڑ دیا، تمام اسباب اور ارباب کو چھوڑ دیا ۔ تیری طرف جلدی سے نہایت عاجزی سے بڑھا تا کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے اور اس سے پہلے جو مخلوق کے ساتھ ٹھہرا رہا۔( مخلوق کے ساتھ رہنے کے گناہ )کو بخش دے۔ اے جاہل ! تجھے ان باتوں سے کیا غرض: توتو اپنے نفس اور دنیا اور خواہشوں اورمخلوق کا بندہ ہے
تو خلقت کو اللہ کا شریک بنانے والا بندہ ہے، کیونکہ نفع ونقصان میں تیری نگاہ انہی کی طرف اٹھتی ہے، تو جنت کا بندہ ہے اور اس میں داخل ہونے امید رکھتا ہے، تو جہنم کا بندہ ہے، اس میں داخل ہونے سے ڈرتا ہے، تو اس خدا سے جو کہ دلوں اور نگاہوں کو پلٹ دینے والا ہے، اور ہر چیز کو ایک حرف کن کہہ کر پیدا کرنے والا ہے، تو اس خدا سے کہاں بھاگ رہا ہے ۔
اطاعت کے قبول ہونے کی دعا کرنا:
اے بیٹا! تو اپنی اطاعت پر ناز اور غرور نہ کر ، اور اطاعت کے باعث اللہ سے منہ نہ موڑ ، بلکہ اللہ سے اپنی اطاعت کے قبول ہونے کی دعا کر ، اور اس بات سے ڈر اور خوف کر کہ کہیں تجھے وہ معصیت کی طرف منتقل نہ کر دے ۔ وہ کون ہے جو تجھے اس سے بے خوف کررہا ہے، تیری اطاعت سے کہہ دیا جائے ، معصیت بن جا ، تیری صفائی سے کہہ دیا جائے تو مکذ رہو جا۔ عارف الہی کسی چیز پر نہیں ٹھہرتا، اور نہ کسی چیز سے دھوکہ کھا تا ہے ۔ وہ اس وقت تک امن میں نہیں ہوتا جب تک کہ : – اپنے دین کی سلامتی کے ساتھ دنیا سے نکل جائے ،اللہ اور اس کے درمیان جو معاملات ہیں اللہ کی حفاظت میں رہتے ہوئے دنیا سے نکل جائے ۔
جوعمل بھی کرد، دل اور اخلاص سے کرو:
اے لوگو! جوعمل بھی کرو، دل اور اخلاص سے کرو ۔ ظاہری اخلاص یہ ہے کہ ماسوا سے قطع تعلق کر لیا جائے ، اللہ کی معرفت اس کا اصل مقصود ہے، میں تم میں سے اکثر کو اقوال وافعال اور خلوت و جلوت میں جھوٹ بولنے والا دیکھ رہا ہوں، نہ تم ثابت قدم ہو اور نہ تمہارے دعوی کا کوئی گواہ ہے، تمہارے اقول ہیں، افعال نہیں ، اگر افعال ہیں تو اخلاص ہے نہ تو حید، پرکھنے کا جومعیار ( کسوٹی ) میرے ہاتھ میں ہے۔ اگر تو اس سے دوری کرے اور اگرتجھے یہی پسند ہے تو اس سے تجھے کیا فائدہ حاصل ہو گا ؟ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ قبول کر لے تو یہ چیز کھوٹی ہے، بیکار ہے، تیری چاندی کے ٹکڑے عنقریب پگھلاتے اور آگ دھکاتے وقت رسوا اور ظاہر ہو جائیں گے، کہا جائے گا: ” دیکھو یہ چاندی سفید ہے اوریہ قلعی سیاہ ہے،یہ ملمع اور ملاوٹ کر دہ ہے ۔ قیامت کے دن ہر ایک رخ پھیرنے والا خراب حال میں نکالا جائے گا۔ اسی طرح تمہارے منافقانہ عملوں کے بارے میں حکم ہوگا، جوعمل غیر اللہ کے لئے کیا ہے۔ باطل ہے، تم محبت اور دوستی کے ساتھ عمل کرو اور صحبت اختیار کرو، اوراسی اللہ کو طلب کرو جس کی مثل کوئی شے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری ہے: لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اس جیسا کوئی نہیں اور وہی سنتادیکھتا ہے۔ پہلےنفی کرو پھر اثبات کرو، جو چیزیں اس کی شان کے لائق نہیں ، ان کی نفی کرو، جواس کی شان کے لائق ہیں ، ان کا اثبات کرو، یعنی جو چیز اس نے اپنے لئے پسند فرمائی اورجنہیں نبی اکرم ﷺ نے اس کے لئے پسند فر مایا ۔ جب تم ایسا کرو گے تو اللہ کوکسی کے مشابہ جاننایابے کا رمعطل سمجھنا تمہارے دل سے دور ہوگا۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول کریم ﷺ اور اس کے نیک بندوں کی صحبت میں نہایت تعظیم اور تکریم اور عزت کے ساتھ بیٹھو، اگر تم فلاح ونجات چاہتے ہو تو تم میں سے جب بھی کوئی آئے تو حسن ادب کے ساتھ آئے ، ورنہ نہ آیا کرے۔ تم ہمیشہ فضولیات میں رہتے ہو، ۔ تو جس گھڑی میرے پاس آؤ ، سب فضول کام چھوڑ آیا کرو، بعض اوقات میری محفل میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو قابل احترام اور حسن ادب کے لائق ہوتے ہیں ، اور یہ سب تمہاری عقل وفہم سے باہر ہے، باورچی اپنے پکائے ہوئے کو جانتا ہے، نانبائی اپنی روٹی کو پہچانتا ہے،صانع کواپنی صنعت کی پہچان ہے، اور دعوت دینے والا اپنے مہمانوں اور حاضر ہونے والوں کو خوب پہچانتا ہے۔ دنیا نے تمہارے دلوں کو اندھا کر دیا ہے، اس لئے تمہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا، اس سے بچو،وہ تمہیں تمہارے نفس پر رفتہ رفتہ قدرت دے گی ، اور تمہیں اپنے اندر داخل کر لیتی ہے، آخر کارتمہیں ذبح کر ڈالے گی ۔ پہلے تمہیں اپنی شراب اور بھنگ پلائے گی ، پھر تمہارے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیتی ہے، اور تمہاری آنکھوں میں گرم سلائی پھیرتی ہے۔ جب اس شراب اور بھنگ کا نشہ اترے گا اور افاقہ ہوگا، پھرتمہیں پتہ چلے گا کہ دنیا نے تمہارے ساتھ کیا ہاتھ کیا ہے، یہ دنیا کی محبت اور اس کے پیچھے دوڑ نے والے اور اس کے جمع کرنے کی حرص کا نتیجہ ہے، یہ دنیا کا چلن ہے، اس سے بچو۔
دنیا سے محبت رکھنے والے کے لئے ہرگز فلاح نہیں:
اے بیٹا! دنیا سے محبت رکھنے والے کے لئے کچھ بھی فلاح نہیں ، تو آخرت اور ماسوا اللہ سے محبت کرتا ہے، جبکہ دعوی اللہ کی محبت کا کرتا ہے، اس میں تیرے لئے کوئی صحت اور نجات نہیں ، حاصل کلام یہ ہے کہ عارف باللہ کا محبت کرنے والا نہ اس کو نہ اس کو کا ورنہ ماسوا اللہ کو چاہتا ہے، جب اس کی محبت کامل اور ثابت ہو جاتی ہے تو اس کے نصیب میں لکھےدنیا کے عیش میسر آتے ہیں، جو خوشگوار اور کافی ہوتے ہیں ، جب آخرت میں پہنچے گا تو جو کچھ پس پشت ڈال رکھا تھا ، انہیں اللہ کے دروازے پر پہلے ہی سے موجود پائے گا، کیونکہ اس نے یہ سب کچھ اللہ ہی کی رضا کے لئے چھوڑ دیا تھا، اللہ تعالی اپنے دوستوں کو ان کے نصیب کی سب چیزیں عنایت فرماتا ہے، حالانکہ وہ ان سب چیزوں سے کنارہ کش ہو تے ہیں ۔ دل کے حظ ( مزہ ) باطنی ہیں اور نفس کے ظاہری ، نفس کو اس کے حظوں سے روکنے کے بعد ہی قلب کے حظ حاصل ہوتے ہیں ، جب نفس کو اس کے حظوظ سے روک دیا جا تا ہے ، تب قلب کے حظوظ کے دروازے کھول دیئے جاتے ۔ ہیں ، اللہ تعالی کی طرف سے جب دل بھی اپنے حظات سے بے پرواہ ہو جائے تو نفس پر رحمت الہی کا نزول ہوتا ہے۔ اس بندےسے کہا جا تا ہے کہ اپنے نفس کوقتل نہ کر ، اس وقت نفس کو اس کے حصے کے حظات ) حاصل ہو جاتے ہیں ، اور وہ مطمئن ہو کر انہیں لے لیتا ہے ۔ اب یہ نفس مطمئنہ ہے تو ان لوگوں سے قطع تعلق کر لے جو تجھے دنیا کی رغبت دلاتے ہیں، تو ان لوگوں کی صحبت اختیار کر جوتجھے دنیا سے نفرت دلائیں ، ہر جنس اپنے ہم جنس کو چاہتی ہے ،ایک دوسرے کے پاس آ تا ہے، محبت والا محبت والوں کے پاس جاتا ہے تا کہ اس کا محبوب ان کے پاس مل جائے ، اللہ کو چاہنے والے اسی کے لئے محبت رکھتے ہیں، اس لئے اللہ بھی ان سے پیار کرتا ہے اور ان کی مددفرماتا ہے ۔ انہیں ایک دوسرے سے قوت عنایت کرتا ہے، ۔ خلقت کو دعوت اپنی دینے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ، خلقت کو ایمان اور توحید اور اعمال میں اخلاص پیدا کرنے کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ پکڑ کر اللہ کے رستے پر کھڑا کر دیتے ہیں ، جس نے خدمت کی وہ مخدوم بنا،جس نے احسان کیا اس کے ساتھ احسان کیا جائے گا ، جو کسی کو دے، اسے بھی دیا جائے گا۔
دوز خیوں کے سے کام کر نے سے دوزخ ہی ملے گا ، جیسا کرو گے قیامت کے دن ویساہی بدلہ ملے گا ، جیسے تم ہو گے ویسے تم پر حاکم مقرر کئے جائیں گے ، تمہارے عمل ہی تمہارے حاکم ہیں ، دوزخیوں کے سے عمل کر کے جنت کی امید رکھتے ہو ۔ جنتیوں کے سے عمل کئے بغیر جنت کی امید کیسی! – جنت والے تو وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اہل دل ہیں، جنہوں نے دنیا میں رہ کر ظاہری اعضاء کے علاوہ اپنے دلوں سے عمل کئے تھے، دل کی موافقت کے بغیر عمل کیا چیز ہے۔ ریا کار ظاہری اعضاء سے عمل کرتا ہے، جبکہ مخلص اپنے دل اور ظاہری اعضاء سے عمل کرتا ہے ، دل کا عمل پہلے ہوتا ہے، دوسرے اعضاء کا بعد میں – ایمان والا زندہ اور منافق مردہ ہے، ایمان والا صرف اللہ کے لئے عمل کرتا ہے جبکہ منافق خلقت کے لئے عمل کرتا ہے، اور اپنے عمل پر خلقت سے تعریف اور عطا چاہتا ہے، مومن کا عمل ظاہر و باطن ، جلوت وخلوت ، راحت میں تکلیف میں، ہر جگہ ہر حال میں ایک سا ہوتا ہے ۔ منافق کا عمل صرف جلوت میں (لوگوں کے سامنے ) اور راحت میں ہے، اس پر مصیبت آ جائے تو نہ تو اس کا عمل رہتا ہے نہ اللہ کی صحبت و معیت ، نہ اللہ پر ایمان رہتا ہے نہ اس کے رسولوں پر اور نہ اس کی کتابوں پر، نہ ا سے قیامت کا دن یا در ہتا ہے، نہ ہی حساب کتاب ، اس کا اسلام صرف اس لئے ہوتا ہے کہ دنیا میں اس کی جان ومال سلامت رہیں نہ اس لئے کہ آخرت میں اس آگ سے محفوظ رہے جو عذاب الہی ہے ، اس کی نماز اور روزہ اورعلم پڑھنا لوگوں کے دکھاوے کے لئے ہے، وگرنہ خلوت میں وہی مشغل ہے وہی کفر ہے ( جو اس کا معمول ہے)۔ التجا یہی ہے۔ اللهم إنا نعوذ بك من هذه الحالة نسئلك اخلاصا في الدنيا واخلاصا غدا . آمين الہی! ہم اس حالت میں تیری پناہ مانگتے ہیں، اورتجھ سے دنیا وآخرت میں اخلاص کے طلب گار ہیں ۔ خالص اللہ ہی کے لئے عمل کر ، اس کی نعمتوں کے لئے نہیں۔
اے بیٹا! اپنے اعمال میں اخلاص کو لازمی سمجھو ۔ خالق اور مخلوق سے اپنے عمل کا بدلہ ما نگنے سے اپنی نظریں ہٹا لے تو خاص اللہ ہی کے لئے عمل کر ، اس کی نعمتوں کے لئے نہیں، تو ان لوگوں میں سے ہو جا جو اس کی ذات کو چاہتے ہیں ۔ اس کی رضا مانگ تا کہ تجھے تیرا مقصودمل جائے ، جب اس کی رضامل گئی تو دنیا میں بھی جنت مل جائے گی اور آخرت میں بھی ،دنیا میں اس کا قرب اور آخرت میں اس کی زیارت اور جس جزا کا وعدہ کیا گیا ہے تو وہ ایک بیع اور ضمانت ہے۔
نفس ومال اور جنت اور اللہ کے سوا جو کچھ ہے، سب اسی کا ہے:
اے بیٹا! اپنی جان اور مال ، اس کے حکم اور تقدیرسے اور قضا کے ہاتھ میں سونپ دے – آج سوداخریدار کے حوالے کر دے، وہ کل تجھے اس کی قیمت چکا دے گا۔ اللہ کے بندوں نے اپنی جانیں ، مال اور سوداسب اس کے حوالے کر دیا اور کہا: و نفس و مال اور جنت اور تیرے سوا جو کچھ ہے ، سب تیرا ہے، ہم تیری ذات کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔ گھر سے پہلے ہمسایہ اور راستہ چلنے سے پہلے رفیق تلاش کرو اے جنت کے طالب گاراس کی خریداری اور آ بادی آج کے دن ہے کل نہیں ، جنت کی نہروں کی کھدائی کا آغاز آج ہی کے دن ہے کل نہیں۔
قیامت کے دن ایمان کے مطابق ثابت قدمی ہوگی :
اے لوگو! قیامت کے دن دل اور آنکھیں پھٹ جائیں گے، اس دن قدم لڑکھڑائیں گے ، اس دن ہر مسلمان اپنے ایمان اور تقوی کے بل بوتے کھڑا ہوگا ۔ قیامت کے دن ثابت قدمی ہر کسی کے ایمان کے مطابق ہوگی ، اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہو گا کہ کیوں ظلم کئے ۔ اور فسادی اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا کہ کیوں فساد کیا اور اپنی اصلاح نہ کی ، اپنے مالک سے نافرماں ہو کر کیوں بھاگ نکلا،
اے بیٹا عمل پر غرور نہ کر ،اعمال کا دار مدار خاتمہ پر ہے، تم پر لازم ہے کہ اللہ سے خاتمہ بالخیر کا سوال کیا کر اور یہ کہ وہ تجھے اپنی طرف محبوب ترین اعمال کے ساتھ اٹھائے ، اور ایمان پر موت نصیب کرے تو اس بات سے بچتا رہ کہ تو بہ کر کے تو بہ نہ تو ڑ دے اور پھر گناہ کی طرف لوٹ جائے ، کسی کے کہے سننے میں آ کر تو بہ نہ تو ڑ نا، اپنے نفس اور حرص اور عادت کی موافقت کر کے اللہ کی مخالفت نہ کرنا ، اللہ کی نافرمانی تو آج بھی تجھے دنیا میں ذلیل کرے گی اور قیامت کے دن بھی رسوا کرے گی ، اور کوئی تیری مد دنہ کرے گا ۔ اللهم انصرنا بطاعتك ولا تخذلنا بمعصیتک ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے اللہ! اپنی اطاعت پر ہماری مدد کر، اور نافرمانی پر رسوا نہ کر اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کرے، اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور دوزخ کے عذاب سے بچا۔آمین ۔‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 118،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 77دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
اٹھارویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اٹھارویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثامن عشر فی جھاد النفس والھوی والشیطان ‘‘ ہے۔
منعقده 12/ ذیعقدہ545 بروز اتوار بوقت صبح بمقام خانقاہ شریف
ظاہری جہاداور باطنی جہاد:
حضرت شیخ قدس سره العزیزنے کچھ کلام کے بعد ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دو جہادوں کی خبردی ہے ایک ظاہری جہاد ہے، اور ایک باطنی جہاد باطنی جہاد یہ ہے کہ نفس اور خواہش اور شیطان اور طبیعت سے لڑو، گناہوں اور نافرمانیوں سے توبہ کرو، حرام خواہش کو چھوڑ کر توبہ پر ثابت قدم رہو –
ظاہری جہاد یہ ہے کہ کافروں سے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکموں سے روکنے والے ہیں جنگ کرو، ان کی تلواروں اور تیروں اور نیزوں کا مقابلہ کرو، یہاں تک کہ قتل ہو جاؤ یاقتل کرڈالو
باطنی جہاد، ظاہری جہاد سے بہت سخت اور مشکل ہے کیونکہ وہ ایک لازم شے ہے اور بار بار آنے والی ہے ، اور باطنی جہادہ ظاہری جہاد سے کیونکر سخت نہ ہو، اس لئے کہ اس میں نفس کو لبھانے والی چیزوں حرام چیزوں کو چھوڑنا ہے، اور تمام شرعی احکام کو بجا لانا اور تمام ممنوعات سے باز رہنا ہے۔ چنانچہ جوشخص دونوں جہادوں میں احکام الہی پرعمل پیرا ہوا ،اسے دنیا اور آخرت دونوں کی جزائیں حاصل ہوئیں ، شہید کے بدن پر لگنے والے زخم ایسے ہیں کہ کسی کے ہاتھ میں فصد کھولی جائے ، ان زخموں سے شہید کو ذرا بھی تکلیف نہیں ہوتی ، اور جوشخص نفس سے جہاد ( مجاہدہ نفس ) کرنے والا ہے ، اور گناہوں سے توبہ کرنے والا ہے ، اس کے لئے موت ایسی ہے جیسے کسی پیاسے کو ٹھنڈا پانی مل جائے ۔
اللہ کے محبوب بندے کے لئے ہرلحظہ ایک خاص امر و نہی ہے:
اے لوگو! اللہ تعالی تمہیں کسی چیز کی تکلیف نہیں دیتا مگر تمہیں اس سے بہتر بدلہ عطا فرماتا ہے ۔ اللہ کے محبوب بندے کے لئے ہر لحظہ ایک خاص امر ونہی ہے، جو دوسری مخلوق اور منافقوں کے علاوہ نفس پرقلبی اعتبار سے لازم ہے، اہل نفاق جو اپنی نادانی کے باعث اللہ اور رسول ﷺ کے دشمن ہیں وہ (اللہ ورسول کی اس دشمنی کی وجہ ہے ) دوزخ میں ضرور داخل ہوں گے ، اور یہ لوگ دوزخ میں کیوں نہ داخل ہوں گے حالانکہ دنیا میں اللہ کی مخالفت کرتے رہے اور اپنے نفسوں اور خواہشوں اور حرصوں اور عادتوں اور شیطانوں کی موافقت میں لگے رہے، اور آخرت پر دنیا کو اختیار کرتے رہے۔ یہ دوزخ میں کیسے نہ داخل ہوں گے، انہوں نے قرآن کوسنا اور اس پر ایمان نہ لائے ، نہ اس کے حکموں پرعمل کیا اور نہ ان چیزوں سے ر کے جن سے روکا گیا تھا۔
اللہ والوں کو تمنا ہے کہ ربانی تابعداری سے کسی وقت بھی خالی نہ رہیں:
اے لوگو! قرآن مجید پرایمان لاؤ اور اس پر عمل کرو ،اپنے اعمال اخلاص کے ساتھ بجا لاؤ، اعمال میں ریا کاری اور نفاق کو دخل نہ دواعمال پرخلقت سے تعریف اور اس سے بدلہ نہ مانگو،مخلوق میں ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں (یعنی خاص افراد ہیں جو قرآن مجید پر ایمان لائے ، اور اس پر خاص اللہ کے لئے عمل پیرا ہوئے ۔ اس لئے اخلاص والے تھوڑے ہیں اور نفاق والے بہت ، اللہ کی تابعداری میں تم کتنے کامل ہو، اور اللہ کے دشمن اوراپنے دشمن شیطان مردود کی تابعداری میں کتنے زیادہ مستعد ہو، اللہ والوں کی تو یہی تمنا ہے کہ اللہ کی تابعداری میں کسی وقت بھی خالی نہ رہیں، انہیں پتہ ہے کہ تکلیفوں اور قضاؤں اور بلاؤں کو برداشت کرنے ( ان پر صبر ، کرنے سے دنیا و آخرت میں بھلائی بکثرت حاصل ہوتی ہے، وہ اللہ تعالی کے تصرفات اور تبدیلیوں میں ہمیشہ اس کی موافقت کرتے رہتے ہیں۔ ۔ کبھی صبر میں اورکبھی شکر میں، کبھی قرب میں اور کبھی دوری میں کبھی مہر میں میں کبھی رنج میں اور کبھی راحت میں، کبھی غنا میں اور کبھی فقر میں، کبھی صحت میں اور کبھی مرض میں،
ان سب کی تمنائیں یہی ہیں کہ اپنے دلوں کی حفاظت اللہ تعالی کے ساتھ رکھیں، اہل دل کی آرزو یہی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ رہ کر اپنی اور خلقت کی سلامتی کی تمنا کرتے ہیں ، اور خلقت کی اصلاح وفلاح کے لئے سوالی رہتے ہیں۔
اللہ کی اطاعت میں سب طرح کی سلامتی ہے:
اے بیٹا تو صحیح و درست بن فصیح ہو جائے گا، تو حکم میں صحیح بن، ہر حکم مانتارہ علم میں صحیح ہو جائے گا ، باطن میں صحیح ہو، ظاہر میں فصیح ہو جائے گا ۔ اللہ کی اطاعت میں سب طرح کی سلامتی ہے اطاعت یہی ہے کہ اس کے تمام حکموں کی تعمیل کرو، اس کے منع کردہ سے باز رہو، اورقضا الہی پر صبر کرو، جو شخص اللہ کے حکموں پر عمل کرتا ہے ، اللہ اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے ۔ اور جو اس کی اطاعت کرتا ہے ، ساری مخلوق اس کی مطیع ہو جاتی ہے وہ سب کو اس کا تابع فرمان بنا دیتا ہے۔
جو کچھ اپنے لئے چاہتے ہو، دوسرے کے لئے بھی وہی چاہو
اے لوگو! میری نصیحت قبول کرو، کیونکہ میں تمہاری بھلائی چاہنے والا ہوں ۔ میں اپنے آپ سے اور تم سب سے اپنی تمام حالتوں میں جدا ہوں ، جن کاموں میں تم مشغول ہو، میں اس سے الگ ہوں، میرے اور تمہارے درمیان اللہ جو کچھ کرتا ہے، اس کے لئے میں سیر کرتا رہتا ہوں ، تم مجھ پر تہمت نہ لگاؤ کیونکہ جو کچھ جو اپنے لئے چاہتا ہوں، وہی کچھ تمہارے لئے چاہتا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:۔ لا يكمل المؤمن إيمانه حتى يريد لأخيه المسلم ما يريده لنفسه مومن کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ، جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیئے وہی چیز نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔“ یہ فرمان ہے ہمارے امیر اور سردار اور بزرگ اور ہمارے سفیر اور شفاعت کرنے والے، جو آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ۔ قیامت تک ہونے والے نبیوں اور رسولوں اور صدیقوں کے پیشوا ہیں ، ۔ جو شخص جو چیز اپنے نفس کے لئے پسند کرتا ہے اگریہی چیز اپنے مسلمان بھائی کے لئے نہ چاہے، تو اس سے اس کے ایمان کے کمال کی نفی ہوتی ہے، جب تم اپنے نفس کے لئے اچھے کھانے اور عمده لباس اور بہتر مکان اور اچھے مواقع اور بہت سا مال چا ہو۔ اور اپنے مسلمان بھلائی کے لئے اس سے برعکس چاہو تو تم اپنے کمال ایمان کے دعوی میں جھوٹے ہو۔ اے کم سمجھ والے تیرا ہمسایہ فقیر ہے، تیرے گھر والے فقیر ہیں ، اور تیری ملکیت میں جو مال ہے وہ اس قدر ہے کہ اس پر زکوۃ فرض ہے، اس مال پرتجھے ہر روز نفع حاصل ہوتا ہے، یہ نفع درنفع کا معاملہ ہے، تیرے پاس اتنامال ہے جو تیری حاجت سے زیادہ ہے۔ ایسے حال میں ضرورت مندوں کو نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ تو ان کی تنگی پر رضامند ہے، کیونکہ نفس اور حرص اور شیطان تیرے پیچھے لگے ہیں، اس لئے نیکی کا کام تجھ پرآسان نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ حرص کی قوت ہے،خواہشوں کی کثرت ہے۔دنیا کی محبت ہے اور ایمان کی قلت ہے۔
تو (غیر محسوس طور پر) اپنے نفس ، اپنے مال اور خلقت کے باعث شرک میں مبتلا ہے، تجھے اس کی ذرا بھی خبر نہیں کہ تجھے دنیا کی کتنی رغبت ہے اور دنیا کی حرص کتنی بڑھ گئی ہے ، جوموت کو اور اللہ سے ملنے کو بھول گیا ، وہ حلال اور حرام میں کچھ فرق نہیں کرتا تو ان کافروں کی طرح ہو گیا جنہوں نے کہا
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا ‌الدَّهْرُ
اور کہنے لگے: زندگی تو یہی دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں ہمیں تو صرف زمانے کی گردش مارتی ہے ۔
گویا تو بھی انہیں لوگوں میں سے ایک ہے مگر تو نے اسلام کا زیور پہن لیا ہے کلمہ پڑھ کر اپنا خون بچالیا ہے،نماز روزے میں مسلمانوں کی طرح عادت سے ہو عبادت سے نہیں ، لوگوں پر اپنی پرہیزگاری ظاہر کرتے ہو، حالانکہ تیرادل نا فرمان ہے، ایسا کرنے سے تجھے کیا فائدہ حاصل ہوگا ۔
سارا دن بھوکا پیاسا رہ کر شام کوحرام سے افطار کرنا بے فائدہ ہے:
اے لوگو! سارا دن بھوکا پیاسارہ کر شام کوحرام مال سے روزہ افطار کرنا بے فائدہ ہے، دن میں روزہ رکھتے ہو اور رات کو نا فرمانی میں گزار دیتے ہو اے حرام کھانے والو ! دن میں اپنے نفسوں کو پانی پینے سے باز رکھتے ہو اور شام کو مسلمانوں کے خون سے روزہ افطار کرتے ہو، تم میں سے بعض ایسے ہیں کہ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو بدکاری کرتے ہیں
رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
لا تخذل أمتى ما عظموا شهر رمضان”میری امت جب تک ماہ رمضان کی تعظیم کرتی رہے گی ، رسوانہ ہوگی ۔
رمضان المبارک کی تعظیم یہ ہے کہ اس میں پر ہیز گارر ہو ۔ اور یہ کہ شرعی حدود کی حفاظت کرتے ہوئے روزے رکھو ، اور روز و صرف اللہ ہی کے لئے ہو۔
اے بیٹا! روزے رکھو، اور افطار کے وقت اپنی افطاری سے کچھ فقیروں کو بھی دو ، اور یوں ان کی غم خواری کرو، اکیلے نہ کھاؤ، کیونکہ جس نے اکیلے کھایا اوروں کو نہ کھلایا اسے محتاجی اور تنگ دستی کا خوف ہے ۔
اسلام کی سب شرائط بجا لا و یا مسلمان کہلا نا چھوڑ دو :
اے لوگو! تم خودتو پیٹ بھر کر کھاتے ہو، اور تمہارے پڑوسی بھوکے رہتے ہیں ۔ اور تم دعوی کرتے ہو کہ ہم ایماندار ہیں ، تمہارا ایمان صیح حالت میں نہیں ہے، ۔ ( کیسی عجیب بات ہے کہ) تمہارے پاس کھانا کثرت سے ہو اور تمہارےگھر والوں سے بیچ رہے ، ایسے میں دروازے پر کھڑ اسائل محروم لوٹ جائے ، جلد ہی تجھے اپنا پتہ چل جائے گا، جلدہی تو اس سائل جیسا ہو جائے گا ، اور ویسا ہی محروم لو ٹایا جائے گا جیسے کہ تو نے قدرت ہونے کے باوجود اسے محروم لوٹایا تھا۔ تجھ پر افسوس ہے کہ تو کیوں نہ کھڑاہوا، اور جو کچھ تیرے سامنے موجود تھا اس میں سے لے کر فقیر کو کیوں نہ دیا تو دواچھی باتیں جمع کر لیتا ،تواضع سے کھڑا ہوتا ، اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں دیتا ۔
ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ : سائل کو اپنے ہاتھ سے عنایت فرماتے ، اونٹنی کو اپنے ہاتھ سے چارہ کھلاتے ، بکری کا دودھ اپنے ہاتھ سے دوہتے،اپنے کرتے کی سلائی اپنے ہاتھ سے کیا کرتے۔ تم رسول الله ﷺ کی پیروی کا کس طرح دعوی کرتے ہو، حالانکہ عملی طور پر رسول اللہﷺکے اقوال اور افعال کے مخالف چلتے ہو، تمہارا دعوی تو لمبا چوڑا ہے جس کا کوئی گواہ نہیں، ایک مثل مشہور ہے:
یا تو تم خالص یہودی ہو جاؤ یا توریت پر فریفتہ ہونا چھوڑ دو ۔‘‘
اسی طرح میں تم سے بھی کہتا ہوں: یا تو اسلام کی سب شرائط بجالا و یا مسلمان کہلانا چھوڑ دو۔“
اسلام کی سب شرائط کا بجالا ناتم پر لازم ہے، پھر اسلام کی حقیقت کو ثابت کرو، اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ شریعت کے سامنے سرجھکا دویعنی اللہ کے سامنے تسلیم ورضا اختیار کرو۔آج دنیا میں مخلوق سے غم خواری کرو گے تو کل قیامت کے دن اللہ اپنی رحمت سے تمہاری غم خواری کرے گا ، تم زمین والوں پر رحم کروتا کہ آ سمان والا تم پر رحمت فرمائے ۔
کچھ مقام پانا ہے تو نفس کا ساتھ چھوڑ دے:
اس کے بعد سرکار غوث الاعظم قدس سره العزیز نے کچھ بات کی ، پھر فرمایا: جب تک اپنے نفس کے ساتھ قائم رہے گا، تب تک اس مقام تک پہنچے گا، جب تک نفس کی خواہش کے مطابق اسے لذتیں پہنچائے گا تو اس کی قید میں رہے گا ، نفس کو اس کا پورا حق دے، اس کے حصہ ( کی لذت) سے باز رکھ، نفس کو اس کا حصہ دینے میں نفس کی بقا ہے، اورنفس کو اس کا حصہ (لذت پہنچانے سے اس کی بربادی ہے نفس کا ضروری حق یہ ہے کہ اسے کھانا کھلایا جائے ، پانی پلایا جائے ،لباس پہنا یا جائے ، اور رہنے کے لئے ٹھکانہ دیا جائے ، جبکہ نفس کا حصہ لذتیں اور اس کی خواہشیں ہیں ( اس سے نفس کو باز رکھ ) ۔ نفس کا حق شریعت کے ہاتھ سےلے،اور اس کا حصہ جوعلم خداوندی میں سابق ہو چکا ہے، قضا وقدر کے سپرد کر دے۔ نفس کو مباح چیزیں کھلاؤ اور حرام سے بچاؤ ، نفس کو شرع کے دروازے پر بٹھاؤ اور اس کے لئے شریعت کی پابندی کرنا ضروری قرار دے دو۔ اس صورت میں تم نے فلاح ونجات حاصل کر لی ۔ کیا تو نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ ‌فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
رسول ( ﷺ ) جو کچھ عنایت کریں لے لو، ، اور جس چیز سے روکیں ، رک جاؤ۔‘‘ تھوڑے پر صبر کر کے اس پر اپنے نفس کو ٹھہراؤ، بعد میں اگر تقدیر اور علم الہی کے ہاتھوں تیرے پاس بہت زیادہ آ جائے تو اس میں تو محفوظ ہوگا ، اگرتھوڑے پر صبر کرلو گے تو نفس بر بادنہ ہو گا، اور جو اس کے نصیب کا ہے وہ کہیں نہ جائے گا۔ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ارشادفرمایا:
ایمان والے کے لئے اتنا کافی ہے جتنا بکری کے بچے کے لئے یعنی مٹھی بھر خشک گھاس اور ایک گھونٹ پانی ۔‘‘ مؤمن قوت لا یموت کھا تا ہے اور زادراہ کی مانند لیتا ہے ، جبکہ منافق خوب مزے اڑاتا ہے ، مومن اس وجہ سے تھوڑا کھانالیتا ہے کہ وہ ابھی رستے میں ہے، ابھی منزل پر نہیں پہنچا، اسے پتہ ہے کہ منزل پر پہنچنے پر اس کی تمام ضرورتیں پوری ہو جائیں گی ، جبکہ منافق کے لئے نہ کوئی منزل ہے نہ مقصد، تمہاری طرف سے دنوں اور مہینوں میں کس قدر کوتاہی ۔ اپنی زندگی بلا مقصد اور بے فائدہ گزار کر ضائع کر رہے ہو، یہ میرے دیکھنے کی بات ہے کہ دنیا( کے معاملے) میں تم ( کوئی کمی) کوتاہی نہیں کرتے ،جبکہ اپنے دینوں میں کوتاہی کر کے نقصان کر رہے ہو، اس کے برعکس کرو گے تو اچھےر ہو گے۔ دنیا کسی کے ساتھ نہیں رہی، (اپنی عادت کے مطابق) تمہارے ساتھ بھی نہیں رہے گی۔
اپنی آخرت بر بادکر کے کسی کی دنیا آباد نہ کرو
اے لوگو! کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے زندہ رہنے کا کوئی پروانہ آ گیا ہے؟ کس قدر ناقص سمجھ کے مالک ہو جو شخص
– اپنی آخرت بربادکر کے کسی کی دنیا آباد کرتا ہے۔وہ دوسروں کے لئے دنیا جمع کر کے اپنادین خراب کرتا ہے؟ اپنے اور خدا کے درمیان دوری ڈالتا ہے، اپنے جیسی مخلوق کی خاطر اللہ کی ناراضی مول لیتا ہے۔
اگر وہ جان لے اور یہ یقین کر کے کہ عنقریب وہ مرنے والا ہے، اسے اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے اوراللہ تعالی سب طرح کے اعمال کا حساب لینے والا ہے، تو وہ ضرور اپنے بہت سے اعمال میں سیدھی راہ پر آ جا تا۔
حضرت لقمان حکیم کی اپنے بیٹے کو نصیحت :
حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی کہ بیٹا! جب تم بیمار پڑتے ہو تو نہیں جانتے کہ بیماری کیسے آئی ، ، اسی طرح مر جاؤ گے تو خبر نہ ہوگی کہ موت کیسے آ گئی، میں تمہیں ڈراتا ہوں اور منع کرتا ہوں ، نہ تم خدا کا خوف کرتے ہو اور نہ ا پنی بری حرکتوں سے باز آ تے ہو ، اے بھلائی سے غائب رہنے والو!د نیا میں شغل کرنے والو! دنیا عنقریب تم پرحملہ کر کے تمہارا گلا گھونٹ دے گی ، اور جو کچھ دنیا کے ہاتھ سے جمع کیا ہے، وہ تمہیں کچھ بھی فائدہ نہ دے گا ، دنیا کی جن لذتوں سے تم نے مزے اڑائے ،وہ بھی کام نہ دیں گی ، بلکہ یہ سارے کا سارا تمہارے لئے وبال جان بن جائے گا۔
تحمل اور قطع شرکوا پنی عادت بنالئے:
بیٹاتحمل اور قطع شرکواپنی عادت بنا لے، کلموں سے ملتے جلتے دوسرے کلے ہیں، جب کوئی تجھ سے ایک کلمہ کہے۔ پھر تو اس کا جواب دے تو اس کی طرف سے اس سے ملتے جلتے دوسرے کلمے آ جائیں گے، اس طرح سے بات بڑھ جائے گی اور دونوں میں لڑائی کا فساد برپا ہو جائے گا۔
مخلوق میں ایسے لوگ گنے چنے ہیں جو خلقت کو خالق کے دروازے کی طرف دعوت دینے کی اہلیت رکھتے ہیں ، اگر ان کی باتیں قبول نہ کی جائیں تو وہ خلقت کے خلاف اللہ کی دلیل ہیں ۔ خاصان خدا ایمان والوں کے لئے نعمت ہیں ، اور منافق جو اللہ کے دین کے دشمن ہیں، ( خاصان خدا ) ان کے لئے عذاب ہیں ۔ التجا ہے:
اللهم طيبنا بالتوحيد و بخرنا بالفناء عن الخلق وما سواك في الجملة ”اے اللہ! ہمیں توحید کی خوشبو عنایت فرما، اورمخلوق و ماسوا اللہ سے فنا کر کے معطر فرما۔ اے تو حید والو! اے شرک والو! مخلوق میں سے کوئی شے تمہارے ہاتھ میں نہیں ، ساری مخلوق عاجز ہے ۔ بادشاہ ہو یا رعایا ، شہنشاہ ہو یا امیر وفقیر، سب کے سب اللہ کی تقدیر کے قیدی ہیں، ان کے دل اس کی دسترس میں ہیں ۔ جدھر چاہتا ہے ادھر کو پھیر دیتا ہے، لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ’’ اس کی مثال کوئی شے نہیں ، اور وہ سب کی سننے والا اور سب کو سیکھنے والا ہے ۔‘‘ تم اپنے نفسوں کو موٹا نہ کرو، کیونکہ وہ تمہیں کھالیں گے ، ( یا ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی شکاری کتے کو پالے اور اس کی پرورش کر کے موٹا کرے، اور اس کے ساتھ اکیلا ہی رہے ۔ پھر یقیناوہ کتا اسےکھالے گا تم اپنے نفسوں کی باتیں ڈھیلی نہ چھوڑو، اور نہ اس کی چھریاں تیز ہونے دو ۔ وہ تمہیں ہلاک ہونے کے لئے جنگلوں میں ڈال دیں گے اور تمہیں دھوکا د یں گے۔ انکی جڑیں کاٹ ڈالو، اور نفسوں کو اپنی خواہش میں نہ چھوڑو۔ اللهم اعنا على نفوسنا ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی! ہمارے نفسوں کی سرکشیوں پر ہماری مدد فرما اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما، اور آخرت کی بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ ‘‘۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 135،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 86دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
انیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے انیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس التاسع عشر فی مخافۃ اللہ ‘‘ ہے۔
منعقده 18 / ذیعقدہ 545 بروز منگل بوقت شام، بمقام مدرسہ قادر یہ
اس کی ذات کے طالب بن کر اس کی اطاعت کرو:
اللہ تعالی اگر جنت و دوزخ کو پیدا نہ کرتا تو بھی اس کی ذات اس لائق ہے کہ اس کا خوف کیا جائے اور اس سے امید رکھی جائے ، اس کی ذات کے طالب بن کر اس کی اطاعت کرو ۔ اس کے عذاب اور ثواب سے کیا غرض ، اطاعت یہی ہے کہ
احکام الہی عمل پر کیا جائے اور اس کے منع کردہ کاموں سے منع رہا جائے ، اس کی قضاؤں پر صبر کیا جائے ۔اس کے حضور تو بہ کرو، اس کے سامنے گر یہ وزاری کرو، آنکھوں اور دل کے آنسوؤں سے اس کے سامنے عاجزی کرو، رونا عبادت ہے، کیونکہ وہ کمال درجہ کی عاجزی وانکساری ہے، جب تیری نیت نیک ہوگی ، اور توبہ کر کے نیک اعمال ہمیشہ کرے گا تو اللہ تجھے اس کا نفع عطا فرمائے گا ، وہ تو مظلوموں کا بدلہ لینے والا ہے، اپنے تابعداروں کے لئے اس کی رحمت و راحت وہاں ظاہر ہو گی ،د نیا وآخرت میں اس کی محبت کو لازم سمجهو ، جن ضروری چیزوں کی تجھے حاجت ہے، ان سب سے بڑھ کر اس کی محبت جانو ، اس کی محبت ہی تجھے نفع دے گی ، مخلوق میں سے ہر ایک تجھے (اپنے فائدے کے لئے) اپنے لئے چاہتا ہے، جبکہ رب تعالی تجھے تیرے لئے ہی چاہتا ہے اور دوست رکھتا ہے ۔
نفس اللہ کی منشاء کے خلاف کرتے ہیں:
اے لوگو! تمہارے نفس خدائی کا دعوی کرتے ہیں اور تم اس سے بے خبر ہو،( اپنے تئیں ) وہ اللہ تعالی پر حکم چلاتے ہیں ، اور جس کام کو کرنا اللہ کی منشاء ہے نفس اس کے خلاف کرتے ہیں ۔ اللہ کے دشمن شیطان مردود سے دوستی رکھتے ہیں۔ اللہ سے دوستی نہیں رکھتے ، جب قضائے الہی نازل ہوتی ہے تو نہ اس کی موافقت کرتے ہیں ، نہ اس پر صبر کرتے ہیں ۔ بلکہ جھگڑا اور نزاع کرتے ہیں ۔ نفسوں کو اسلام کی خبر نہیں بلکہ اسلام کے نام پر قناعت کئے ہوئے ہیں، نام کا اسلام نفسوں کو کچھ فائدہ نہ دیگا اورنہ اس پر کچھ نفع ملے گا۔
اللہ سے خوف کر ، اس سے نڈرنہ ہو
بیٹا! اللہ سے خوف کر ، اس سے نڈر نہ ہو، حتی کہ تو اس سے ملاقات کرے اور تیرا دل اور بدن اس کے سامنے ثابت قدم رہیں، اور امان کا پروانہ تیرے ہاتھ میں ہو، امان کا پر وانہ مل جانے پر تم بے خوف ہو سکتے ہو، امان کا پروانہ ملنے پر بکثرت بھلائی ملے گی ۔ امان مل جانے پر بھلائیاں برقرارر ہیں گی۔ کیونکہ وہ نعمت دے کر واپس نہیں لیا کرتا ۔ اللہ تعالی جب کسی کو بزرگی عطا کرتا ہے تو اسے اپنا قرب عطا کر کے اپنے نزدیک کر لیتا ہے، جب اس پر خوف طاری ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس پر ایسی چیز القاءفر ما تا ہے جو خوف کو دور کر کے قلب اور باطن کو اطمینان اور سکون بخش دیتا ہے، سکون اور اطمینان کی سی حالت بندے اور خدا کے درمیان ہمیشہ رہتی ہے۔ تجھ پر افسوس ہے، جاہل ! تو حق سے منہ موڑ کر اسے اپنے دل کے پس پشت ڈال دیتا ہے اور مخلوق کا بندہ بن جاتا ہے، اللہ والے اللہ کے قرب میں رہے، انہیں اپنی پہچان کروادی ،انہوں نے اسے پہچان لیا، ان میں سے جو کوئی اللہ کو پہچان لیتا ہے، (عارف الہی ہو جائے )تو اپنے نفس ، خواہش، طبیعت اور شیطان کی جنگ سے فارغ ہو جا تا ہے، اور ان دشمنوں اور اپنی دنیا سے چھوٹ جاتا ہے،اللہ تعالیٰ ان پر اپنے قرب کے دروازے کھول دیتا ہے جب وہ کسی کام کرنے کی آرزوکرتا ہے تو اسے حکم ہوتا ہے کہ واپس جا کرمخلوق کی خدمت کرو ، مخلوق کو ہماری راہ دکھاؤ ہمارے چاہنے والوں اور ارادت مندوں کی خدمت کرو، تم اللہ والوں کے کام سے بے خبر ہو، اپنے نفسوں کے لئے جو کہ تمہارے دشمن ہیں روشنی کو اندھیرے سے ملاتے ہو، اپنی بیویوں کو راضی کر کے خدا کو ناراض کرتے ہو، تم میں بہت سے ایسے ہیں جو اللہ کی خوشی پر اپنی بیویوں اور اولاد کی خوشی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ میں تمہاری یہ سب حرکتیں اور سکون اور ساری فکر محض بیوی بچوں کے لئے دیکھتا ہوں اور اللہ تعالی کی کوئی فکر وخبر نہیں ۔ تجھ پر افسوس! تجھے مردوں میں نہ شمار کرنا چاہئے ، مرد کامل اپنی مردانگی میں اللہ کی رضا کے سوا کوئی کام نہیں کرتا، تیرے دل کی دونوں آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں اور باطن کی صفائی بھی مکدرہے، تو اپنے رب سے حجاب میں ہے اور تجھے کچھ نہیں ، اس لئے بعض اولیاء اللہ نے فرمایا: ان حجاب والوں پر افسوس ہے جونہیں جانتے کہ ہم حجاب میں ہیں، ‘‘
ہر بلا خدا کی دوری اور غیر خدا کو اختیار کرنے سے آتی ہے:
تجھ پر افسوس! تیرے برتن میں ٹوٹا ہوا کا نچ ہے، اور تو اسے کھا رہا ہے، حرص اور بھوک کے غلبے ،خواہش اور کثرت لالچ سے تمہیں اس کا علم نہیں ہے ۔ کچھ ہی دیر میں تیرے معدے کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے تجھے مار ڈالے گا ، ہر بلا خدا کی دوری اور غیر خدا کو اختیار کر نے سے آتی ہے۔ اگر تو خلقت کی پرکھ کرتا تو اس سے نفرت کرتا اور خالق سے محبت کرتا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
اخْتَبِرْ ‌تَقْلِهْ يعنى تبغض –
آزمالے اور اسے دشمن سمجھ یعنی تمہاری دوستی اور دشمنی اور نفرت بغیر آزمائش کے ہے، عقل پرکھ کرتی ہے تمہارے پاس عقل نہیں ، دل پر کھتا ہے تمہارے پاس دل ہی نہیں دل ہی فکر کرتا ہے، دل ہی ذکر کرتا ہے نصیحت پکڑتا اور عبرت حاصل کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ ‌شَهِيدٌ” بے شک اس میں دل والوں کے لئے نصیحت ہے ۔ یا وہ جواسے کان لگا کر دل کی حضوری سے سنے۔ عقل ہی منقلب ہوکر قلب بن جاتی ہے ۔ اورقلب منقلب ہو کر باطن بن جاتا ہے اور باطن منقلب ہوکر فنا ہو جاتا ہے، اورفنامنقلب ہوکر وجود بن جاتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام و دیگر انبیا کرام علیہم السلام میں بھی شہوتیں اوررغبتیں تھیں لیکن وہ اپنے نفسوں کی مخالفت کرتے رہتے تھے اور اپنے رب کی رضا کے طالب رہتے تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے جنت میں ایک ہی خواہش کی اور لغزش کھائی، پھر ایسی تو بہ کی کہ اس خواہش کا نام تک نہ لیا، باوجود یکہ حضرت آدم علیہ السلام کی خواہش نیک تھی ۔ کیونکہ آپ نے اس امر کی خواہش کی تھی کہ اللہ تعالی کی ہمسائیگی سے جدا نہ ہو، انبیاء کرام علیہم السلام ہمیشہ اپنے نفسوں اور شہوتوں اور حرصوں کی مخالفت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے حقیقی مجاہدے اور نفسوں کو مشقت میں ڈال کر فرشتوں سے ملے ۔ نبی اور رسول اور اولیاء اللہ ہمیشہ صبر کرتے رہے، تمہیں بھی صبر کر کے ان کی موافقت کرنی چاہئے۔ بیٹا! دشمن کی ضرب پر صبر کرو تم بھی جلد ہی اسے ضرب لگا کر مارڈالو گے، اور اس کا سامان لے لو گے، پھر اس کے صلے میں بادشاہ سے خلعت اور جا گیر پاؤ گے۔
ہر ایک کے ساتھ تمہاری نیت نیک ہونی چاہئے
بیٹا کوشش کرو کہ تم سے کسی کو ایذانہ پہنچے ۔ ہر ایک کے ساتھ تمہاری نیت نیک ہونی چاہئے ، شرع کے حکم سے جسے ایذادو گے تو یہ ایذا پہنچانا تمہارے لئے عبادت ہے، عقل والوں ،شریفوں اور صدیقوں پرتو صور پھونکا جا چکا ۔ اوران کے نفسوں پر قیامت قائم ہو گئی ۔ اپنی ہمتوں کے ساتھ انہوں نے دنیا سے منہ موڑ لیا، اپنی تصدیق کے ساتھ پل صراط سے بھی گزرگئے ، اپنے دلوں کے ساتھ سیر کر کے جنت کے دروازے پر کھڑے ہو گئے ، اور راستے میں کھڑے ہو کر یہ کہہ رہے ہیں ہم اکیلے نہ تو کھائیں گے نہ ہی پئیں گے۔ کیونکہ کریم اکیلے نہیں کھایا کرتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ الٹے پاؤں دنیا کی طرف لوٹ آئے ۔ تا کہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں اور انہیں وہاں کی خبریں سناتے ہیں، ان کے سب کام آسان کر دیتے ہیں ، ۔ جس شخص کا ایمان قوی ہو اور جس کا ایمان مضبوط ہوتو اللہ تعالی نے قیامت کے دن کی جتنی خبر یں دی ہیں، وہ اپنے دل سے دیکھ لیتا ہے ، جنت دوزخ اور جو کچھ ان میں ہے، سب کو دیکھ لیتا ہے، وہ صور اور جو فرشتہ اس پر تعین ہے، دیکھتا ہے ۔ وہ سب چیزوں کو ان کی حقیقت سے پہچانتا ہے ۔ وہ دنیا اور اس کے زوال کو دیکھتا ہے، دنیا والوں کی دولتوں کے انقلاب کو دیکھتا ہے، مخلوق کو دیکھتا ہے کہ گویا قبروں میں پڑی ہے، جب قبروں پر گزرتا ہے تو اس کے اہل کے عذاب اور نعمتوں کومحسوس کرتا ہے، وہ قیامت اور جو کچھ اس میں قیام وموافقت سے ہونے والا ہے، سب کو دیکھتا ہے، وہ اللہ کی رحمت اور اس کا عذاب دیکھتا ہے، وہ فرشتوں کو کھڑے ہو ہے اور نبیوں اور رسولوں اور ابدال اور اولیاء کو اپنے اپنے مرتبہ پر دیکھتا ہے، وہ جنت والوں کو جنت میں ملاقات کرتے ہوئے اور دوزخ والوں کو دز وخ میں عداوت کرتے ہوئے دیکھتا ہے ، جس کی نظر صحیح ہو جاتی ہے وہ اپنے سر کی آنکھوں سے مخلوق کو، اور دل کی آنکھوں سے مخلوق کی طرف صادر ہونے والے اللہ کے فعل کو دیکھتا ہے، وہ اللہ کے حرکت دینے اور اس کی مخلوق سے سکون دینے کو دیکھتا ہے، یہ اولیاء اللہ کی نظر عزت ہے، بعض اولیاء کرام میں ایسے بھی ہیں کہ جب وہ کسی شخص کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو :
اس کے ظاہر وسر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، اس کے باطن کو اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، اور اپنے مالک اللہ تعالی کو باطن کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ جو خدمت کرتا ہے وہی مخدوم بنتا ہے ( اس کی خدمت کی جاتی ہے )۔ تقدیر الہی کی موافقت کرتا ہے خواہ تقدیر اسے جنگل میں ڈالے یا دریا میں ، خواہ ہموارز مین پر ڈالے یا پہاڑ پر -اسے میٹھا کھلائے یا کڑوا۔
یہ عزت و ذلت امیری وفقیری عافیت و بیماری ہر عالم میں اس کی موافقت کرتا ہے ۔ وہ ہرامر میں تقدیر کے ساتھ چلتا ہے، یہاں تک کہ تقد یر جب یہ جان لے کہ بندہ اب تھک گیا تو اتر کراسے اپنی جگہ سوار کر لیتی ہے، اور اس کی هم رکاب ہو کر اس کی خدمت اور تواضع کرتی ہے، اس لئے کہ یہ شخص اللہ تعالی سے قریب ہے۔ اس کی تعظیم اللہ کے لئے ہے، اس شخص پر یہ سب برکتیں اس وجہ سے ہیں کہ اس نے اپنے نفس اور خواہشوں، حرص اور عادات اور شیطان مردود اور برے ہم نشینوں کی مسلسل و متواتر مخالفت کی ہے۔
التجا ہے: اللهم ارزقنا موافقة قدرك في حين ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
الہی! ہمیں سب احوال میں اپنی تقدیر کی موافقت نصیب فرما ۔۔ ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرماہمیں آخرت کی بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 135،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 86دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
بیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے بیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس العشرون فی القول بلا عمل ‘‘ ہے۔
منعقده 21 ذیعقد ہ545 و بروز جمعہ، بوقت صبح ، بمقام مدرسہ قادریہ
نفاق بڑھ جائے تو اخلاص کم ہو جا تا ہے:
اے شہر کے رہنے والو! تم میں نفاق بہت بڑھ گیا ہے، اور اخلاص کم ہو گیا ہے، باتیں بہت ہیں عمل کوئی نہیں ۔ عمل کے بغیر قول کسی کام کا نہیں، بلکہ وہ تم پر دلیل ہے قرب خداوندی کا رستہ نہیں عمل کے بغیر قول ایسا ہے کہ
جیسے دروازے کے بغیر کوئی گھر ہو۔ یا ایسا خزانہ جس سے کچھ خرچ نہ کیا جائے ، وہ صرف دعوی ہی دعوئی ہے جس کا کوئی گواہ نہیں،صورت تو ہے مگر روح کے بغیر ، ایسابت ہے جس کے نہ ہاتھ ہیں نہ پاؤں ، نہ ہی پکڑنے کی قوت وطاقت ہے، تمہارے بڑے اعمال ایسے ہیں کہ جیسے روح کے بغیر جسم، روح کیا ہے اخلاص و توحید ، اور قرآن وسنت رسول اللہ ﷺ پر ثابت قدم رہنا۔ غفلت نہ کرو، اپنی حالت کو بدل لو، بھلائی پاؤ گے، احکام الہی پر عمل کر و، منع کئے گئے سے باز رہو،تقدیرالہی کی موافقت کرو، مخلوق میں سے گفتی کے افراد ایسے ہوتے ہیں جن کے دلوں کو انس اور مشاہدہ اور قرب الہی کی شراب پلائی جاتی ہے، جس سے مست ہو کر وہ تقدیر کے غموں اور بلاؤں کی تکالیف محسوس نہیں کرتے ، تنگی اور مصیبتوں کے سب دن گزر جاتے ہیں ، انہیں اس کا پتہ بھی نہیں چلتا ، وہ اللہ کی حمد اور شکر گزاری کرتے رہتے ہیں، مصائب و آلام کے نزول کے وقت وہ اپنے آپ ہی میں نہ تھے کہ رب تعالی پر اعتراض کرتے ، جیسے تم پر آفتیں آتی ہیں ویسے ہی اللہ والوں پر آتی ہیں ،اور بعض ان میں سے وہ ہیں جوصبر کرتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو آفات سے اور ان پر صبر سے غائب ہو جاتے ہیں ، انہیں کچھ خبر نہیں ہوتی ۔ تکلیف کا ماننا ایمان کی کمزوری ہے، اور یہ ایمان کے بچپن کا زمانہ ہوتا ہے، جب تکلیف پر صبر آ نے لگتا ہے تو یہ ایمان اٹھتی جوانی کی مثل ہوتا ہے ، تقد یرالہی پر موافقت کرنا ایمان کی بلوغت کی نشانی ہے، راضی برضاء الہی ہو جانا اس کے قرب کے وقت ہوتا ہے، وہ اپنے علم سے اللہ کی طرف دیکھتا ہے، جب قلب اور باطن کا وجود اللہ کے پاس ہو تب غیبت وفنا ہوتے ہیں، یہ حالت مشاہدے اور آپس میں بات چیت کی ہے، ایسے شخص کا باطن اور وجود فنا ہو جا تا ہے، اور خلقت کے نزدیک محو ہو جا تا ہے، وہ اللہ کی حضوری میں ہوتا ہے، وہاں محو ہو کر پوری طرح سے پگھل جاتا ہے، اسے بقامل جاتی ہے، پھر اللہ جب چاہتا ہے اسے زندہ کرتا ہے، اور جب چاہتا ہے اسے خلقت کی طرف واپس کر دیتا ہے ۔ اس کے بکھرے ہوئے اور متفرق اجزاء کو جمع کرتا ہے، جیسے قیامت کے دن مخلوق کے ریزہ ریزہ اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اجسام کو جمع کرے گا ۔ ان کی ہڈیاں اور گوشت اور بال اکٹھے کرے گا پھر اسرافیل علیہ السلام کو ان میں ارواح بھو نکنے کا حکم کرے گا ، یہ بات تو عام مخلوق کے لئے ہے لیکن اپنے پیاروں کو بلا واسطہ لوٹا تا ہے ، ایک نظر میں انہیں فنا کرتا ہے اور ایک نظر میں لوٹا تا ہے ۔
اللہ کی محبت آسان نہیں جو ہر ایک اس کا دعوی کرنے لگے:
محبت کی شرط یہ ہے کہ تمہارا ارادہ محبوب کے ارادے کے ساتھ ہو،دنیا و آخرت میں مخلوق اور کوئی چیز تجھے اس محبوب سے نہ روک سکے، اللہ کی محبت آسان بات نہیں جوهر ایک اس کا دعوی کرنے لگے، کتنے لوگ ہیں جو محبت کا دعوی کرتے ہیں ، جبکہ محبت ان سے کوسوں دور ہوتی ہے، اور کتنے لوگ ہیں جو محبت کا دعوی نہیں کرتے ،حالانکہ محبت انہیں حاصل ہے۔ مسلمانوں میں سے تم کسی کو حقیر و ذلیل نہ سمجھو کیونکہ ان میں اسرار الہی بیج کی طرح بکھیر دیئے گئے ہیں ۔اے مسلمانو! اپنے نفسوں میں تواضع اختیار کرو، اور اللہ کے بندوں پر غرور و تکبر نہ کرو، اپنی غفلتوں سے ہوشیار ہو جاؤ تم غفلت میں ایسے پڑے ہو گویا کہ تمہارا حساب کتاب ہو چکا ہے اور تم پل صراط سے گزر چکے ہو اور جنت میں اپنے مکان دیکھ لئے ہیں ۔ کیسی خودفریبی ہے، کچھ خیال کرو، تم میں سے ہر ایک کثیر گناہوں کے باعث اللہ کا نا فرمان ہے ۔ اس کے باوجود اسے ( انجام کی کوئی فکر نہیں ، نہ وہ ان سے تو بہ کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی نافرمانیاں بھلا دی گئیں، جبکہ وہ تاریخوں اور وقت کے ساتھ تمہارے اعمال نامے میں درج ہیں۔ چھوٹے بڑے، کم یا زیادہ سب گناہوں کا حساب و عذاب ہوگا ،۔ اے غافلو، ہوشیار ہو جاؤ! اے سونے والو، بیدار ہو جاؤ ! – اللہ کی رحمت حاصل کرو۔اے بندو! جس کسی نے گناہ اور لغزشیں بکثرت کی اوران پر اصرار کرتا رہا نہ توبہ کی ا ورنہ شرمندہ ہوا ۔ اگر اس نے اپنے کئے کا تدارک نہ کیا تو قاصد اس کے پاس آ گیا۔اے آخرت کے بغیر دنیا کو طلب کرنے والے ۔ اے خالق کے بغیر مخلوق کو طلب کرنے والے۔ تو محتاجی کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور امیری کے سوا کسی کی آرزو نہیں کرتا۔
رزق کا معاملہ منشاءالہی پر موقوف ہے:
تجھ پر افسوس ہے! رزق قسمت کا ہے جو زیادہ یا کم نہیں ہوتا ، نہ ہی آگے یا پیچھے ہوتا ہے، تم اللہ کی ضمانت میں شکایت کرتے ہو، جو چیز نصیب میں نہیں اس کی طلب پر حرص کرتا ہے، تیری حرص نے تجھے اہل علم کے پاس حاضر ہونے اور نیکی کی محافل میں جانے سے روک رکھا ہے، تجھے اس بات کا خوف ہے کہ تیرا نفع کم اور مال تھوڑ ا ہو جائے گا۔ تجھ پر افسوس ہے! جب تو اپنی ماں کے پیٹ میں بچہ تھا توتجھے کون کھلا تا تھا، آج تجھے اپنے آپ اور خلقت پر، اپنی اشرفیوں اور روپوں پر اپنے لینے اور دینے پر شہر کے حاکم پر،جس جس پر تجھے اعتماد اور بھروسہ ہے، وہی تمہارا خدا ہے۔ اور جس جس سےتجھے ڈر خوف ہے۔ جس سےتجھے کوئی آرزویا کچھ امید ہے۔
جس سے تم نفع یا نقصان دیکھو اوریہ نہ سمجھو کہ اس کے ہاتھوں سے اللہ ہی کرا تا ہے، وہی تمہارا رب ہے، تجھے جلد ہی اپنے متعلق پتہ چل جائے گا ۔ اللہ تعالی تم سے سننے اور سیکھنے اور پکڑنے کی قوت وہمت چھین لے گا، تمہارا مال اور جس پر اللہ کے سوا بھروسہ تھا ، جاتے رہیں گے، ۔۔۔ خلقت اور تمہارے بیچ میں قطع تعلق کر دے گا اور تمہاری طرف سے طاقت کے دل سخت کر دے گا، تمہاری طرف سے ان کے ہاتھ روک دے گا ، تمہارا کاروبار ٹھپ کر کے ۔ رزق کے دروازے بند کر دے گا، ایک دروازے سے دوسرے دروازے کی طرف مارے مارے پھرو گے۔ تجھے ایک لقمہ تو کیا ایک ذرہ بھی نہ ملے گا ۔ جب اسے پکارو گے ، تجھے قبول نہ کرے گا، یہ ساری مصیبت: تمہارے شرک اور غیر اللہ پر بھروسہ کرنے ، ماسوا اللہ سے نعمت طلب کرنے ،نعمت سے گناہوں پر مدد چاہئے کی وجہ سے ہے، ایسے لوگوں کے ساتھ میں نے خودایسا برتا ؤ ہوتے دیکھا ہے، غالبا یہ لوگ نافرمانوں میں سے تھے ، اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو تو بہ کر کے اپنی بداعمالی کا تدارک کر لیتے ہیں ۔ اللہ بھی ان کی توبہ قبول کر کے نظر رحمت فرماتا ہے، اور ان سے لطف و کرم کا معاملہ کرتا ہے ، اے خلق خدا! توبہ کرو، اے عالمو !اے فقیہو ، اے زاہدو! اےعابدو! تم میں سے ہر ایک شخص تو بہ کا محتاج ہے، تمہارے جینے اور مرنے کی سب خبریں میرے پاس ہیں ، اگر تمہارے ابتدائی افعال شک و شبه والے ہوں اور مجھ سے چھپے ہوں تو تمہاری موت کے وقت وہ سب مجھ پرکھل جاتے ہیں ۔ اگر تمہاراکسی کا اصل مال مجھ سے پوشیدہ ہو جائے تو میں اس کے نکاس کو دیکھتا ہوں ، اگر اس کا خرچ بیوی بچوں اور اللہ کے فقیروں اورمخلوق کی اصلاح وفلاح پر ہو، تو میں جان لیتا ہوں کہ اس مال کی اصل حلال ہے۔ اگر خاصان خدا صد یقوں پر خرچ ہوا ہوتو جان لیتا ہوں کہ اسکے حصول کے اصل اللہ پر توکل ہے، اور یقینا یہ مال حلال ہے، میں تمہارے ساتھ بازاروں میں نہیں رہتا لیکن اللہ تعالی تمہارے مالوں کو اس طریقے سے اور دوسرے طریقوں سے بھی مجھ پر ظاہر کر دیتا ہے۔
دل میں غیر کا خوف رسوائی کا باعث ہے:
بیٹا! اس بات سے بچو کہ اللہ تعالی تمہارے دل میں اپنے غیر کو نہ دیکھے تا کہ تمہاری رسوائی نہ ہو، اس بات سے بھی بچو کہ وہ تمہارے دل میں اپنے غیر کا خوف، غیر سے امید اور غیر کی محبت نہ دیکھے، اپنے دلوں کو غیر اللہ سے پاک کرو، نفع یا نقصان غیر کی بجائے اس سے دیکھو، اس لئے کرتم اللہ کے گھر میں ہو اور اس کی مہمانی میں ہو۔
صحیح محبت وہی ہے جو اللہ کی محبت میں تغیر نہ لائے
بیٹا! تم خوبصورت چہرے دیکھتے ہو ، اورتم انہیں چاہنے لگتے ہو، یہ محبت ناقص ہے، اس پر پکڑ ہوسکتی ہے صحیح محبت وہی ہے کہ جو اللہ کی محبت میں تغیر نہ لائے ، اللہ کی محبت وہ ہے جو تم اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہو – یہی محبت صدیقوں اور روحانیوں کی ہے ، ان کی محبت ایمان سے نہیں بلکہ یقین اور آنکھ سے ہے ۔ ان کے دل کی آنکھوں سے حجاب اٹھ گئے ہیں، جو کچھ غیب میں ہے، وہ دیکھتے ہیں ، وہ ایسی چیز دیکھتے ہیں کہ جس کی شرح وہ خود بیان نہیں کر سکتے ۔
التجا ہے اللهم ارزقنا محبتك مع العفو والعافية الہی! ہمیں عفو و عافیت کے ساتھ اپنی محبت عطا فرما۔ تمہاری قسمتیں دنیا میں مقررہ اوقات تک اللہ تعالی کے پاس امانت ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ مالک کی اجازت مل جانے کے بعد تمہارے حوالے ہونے سے روکے ،مخلوق اور ان کی عقل کی خرابی پر دنیا ہنستی ہے اور مذاق اڑاتی ہے، ایسے شخص پر ہنستی ہے: جوایسی چیز کا خواہاں ہے جو اس کے نصیب میں نہیں ، اور جو مالک کی اجازت کے بغیر قسمت کا لکھا مانگتا ہے
دنیا خود بخود تمہاری تابع کیوں کر ہوسکتی ہے:
اے لوگو! اگر تم دنیا کے دروازے سے منہ پھیر لو، اور اللہ کے دروازے کی طرف رخ پھیر لو تو دنیا خود بخود تمہاری تابع فرماں ہو جائے گی ۔ اللہ سے عقل کی طلب کرودنیا جب اولیاء اللہ کی طرف آتی ہے تو وہ اس سے کہتے ہیں:’’ چلی جادوسروں کو دھوکہ دے، ہم نے تجھے پہچان لیا اور دیکھ لیا ہے۔ ہما را تجر بہ نہ کر ہمیں تیری آزمائش خوب معلوم ہے، ہم پر پرکھنے کی مشقت نہ ڈال، تیرے سکے کھوٹے ہیں ، تیری ز ینت خالی بت پر ہے جولکڑی سے بنا ہے، جس میں روح نہیں ، – تیرا ظاہر ہے باطن نہیں صورت ہے سیرت نہیں ، دیکھنے اور پرکھنے کی چیز اصل میں آخرت ہے ۔
اولیاء اللہ پر دنیا کے عیب جب ظاہر ہوتے ہیں تو وہ اس سے کنارہ کر لیتے ہیں، اور جب مخلوق کے عیب ظاہر ہوتے ہیں تو وہ ان سے غائب ہو جاتے ہیں، ان سے بھاگتے ہیں اور نفرت کرتے ہیں ۔ جنگلوں اور بیابانوں اور ویرانوں اور غاروں میں جنوں اور فرشتوں کے ساتھ جوزمین پر چلنے والے ہیں ، ان سے انس حاصل کرتے ہیں ۔ فرشتے اور جنات ان کے کبھی وحشی جانوروں کی صورت میں، جس صورت پر چا میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ فرشتوں اور جنات پاس ان کے پاس غیر صورتوں میں آتے ہیں،: کبھی و ہ زاہدوں اور راہبوں کی صورت میں داڑھی سمیت ظاہر ہوتے ہیں ، کبھی مردوں کی صورت میں، کبھی وحشی جانوروں کی صورت میں، جس صورت پر چاہیں ظاہر ہوتے ہیں فرشتوں اور جنات کیلئے صورتیں بدلنا ایسے ہے جیسے تم میں سے کسی کے گھر میں مختلف طرح کے کپڑے لٹکے ہوئے ہوں، جسے چاہا پہن لیا ۔ مرید صادق جو اللہ تعالی کی ارادت میں سچا ہوتا ہے، اپنی ابتدائی حالت میں مخلوق کے دیکھنے سے تنگ آ تا ہے، اور ان کی بات نہیں سننا چاہتا، دنیا کا ایک زرہ دیکھنے سے بھی تنگی محسوس کرتا ہے ، خلقت میں سے کچھ دیکھنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا ، ۔ شروع شروع میں اس کا دل حیران اور عقل غائب اور آنکھیں چڑھی رہتی ہیں، رحمت الہی کا ہاتھ اس کے دل – کے سر پر آ جانے تک حالت یہی رہتی ہے ۔ اس وقت اس پر ایک نشہ سا چھا جا تا ہے، پھر وہ ہمیشہ مست رہتا ہے، قرب الہی کی مہک اس کے دماغ میں پہنچتی ہے تب اسے افاقہ ہوتا ہے، اب وہ تو حید اور اخلاص اور معرفت الہی میں اپنے علم اور محبت کے ساتھ قرار پکڑ لیتا ہے ، اسے خلقت کی وسعت اور ثابت قدمی حاصل ہوتی ہے، اسے اللہ کی طرف سے قوت حاصل ہوتی ہے ، کسی مشقت کے بغیر مخلوق کا بوجھ اٹھا لیتا ہے ۔ ان کے قریب ہو جا تا ہے، انہیں چاہتا ہے، اس کا پورا شغل ان کی اصلاح وفلاح ہوتا ہے۔ اس کے باوجود) وہ اللہ کی طرف سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہوتا، زاہد مبتدی آغاز میں خلق سے بھاگتا ہے ، جبکہ زاہد جو اپنے زہد میں کامل ہوان باتوں کی کچھ پرواہ نہیں کرتا ، نہ ہی مخلوق سے گریز کرتا ہے، بلکہ ان کا طالب بنتا ہے ۔ کیونکہ وہ عارف باللہ ہو چکا ہوتا ہے، جسے اللہ کی پہچان ہو جاتی ہے وہ کسی شے سے نہیں ۔ بھا گتا، ۔ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ زاہد مبتدی بدکاروں اور نافرمانوں سے بھاگتا ہے، جبکہ انتہائی مقام والا زاہد انہیں طلب کرتا ہے، وہ انہیں کیوں نہ طلب کرے اس کے پاس ان کی پوری دوا ہے، اس لئے زاہدوں میں سے ایک بزرگ نے ارشادفرمایا: لا يضحك في وجه الفاسق إلا العارف
’’ فاسق کے چہرے پر عارف کے سوا کوئی نہیں ہنستا‘‘ جو اللہ کی معرفت میں کامل ہو جا تا ہے اللہ کی خبر دینے لگتا ہے، لوگوں کور استہ دکھانے لگتا ہے۔ وہ ایک جال ہے جو دنیا کے سمندر سے خلقت کو شکار کرتا ہے، اسے دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا ۔ اسے ایسی قوت عطا ہوتی ہے کہ ابلیس کولشکر سمیت شکست فاش دے دیتا ہے اور مخلوق کو اس سے بچالیتا ہے ۔ اے زاہد بن کر جہالت کے ساتھ خلوت میں بیٹھنے والے، آگے آ ، اور جو کچھ میں کہتا ہوں ، اسے سن !، اے روئے زمین کے زاہدو! آ گے آ ؤ اور اپنے خلوت خانے ویران کر دو، اور مجھ سے قریب ہو جاؤ ، تم اپنی خلوت میں کسی اصل کے بغیر بیٹھے ہو، تمہیں کچھ نہیں ملا، آگے آؤ اور حکمت و دانائی کے ثمرات پاؤ ، اللہ تم پر رحم کرے تمہارا آنا میرے کسی نفع کے لئے نہیں ، بلکہ تمہارے ہی لئے ہے۔
حاجت روائی کے لئے محنت کرو، صنعت سیکھو
اے بیٹا! تو ضرورت مند ہے، اپنی حاجت روائی کے لئے محنت کر و صنعت سیکھو، ہزار بار بناؤ اور ہزار بارتوڑ و تا کہ تو ایسی عمارت بنائے جو پھر نہ ٹوٹے، جب تو بنائے اور توڑنے میں فنا ہو جائے تو اللہ تعالی تیرے لئے ایسی عمارت بنائے گا جو کبھی نہ ٹوٹے گی۔
اللہ کے طالبوں کی جان ومال سے خدمت کرو:
اے لوگو تمہیں کب سمجھ آئے گی ،اسے کب پاؤ گے جس کی طرف میں سیر کرتا ہوں ، اللہ کے طالبوں اور مریدوں کی تلاش کرو، جب وہ مل جائیں تو اپنی جانوں اور مالوں سے ان کی خدمت کرو، اللہ کے سچے مریدوں اور عاشقوں کے لئے خاص خوشبوئیں ہیں، اور خاص علامت ان کے چمکتے روشن چہرے ہیں ، تمہارے اندراور تمہارے دیکھنے میں نقص ہے ، اور سمجھ میں نقص ہے، اس میں بڑی آفتیں ہیں، تمہارے نزدیک: صدیق و زندیق، حلال و حرام زہروتریاق مخلص و منافق، تابع فرمان و نافرمان – طالب مولی اور طالب مخلوق مشرک ومتوحد،میں کوئی فرق نہیں ، علم رکھتے ہوئے عمل کرنے والے مشائخ کرام کی خدمت کروتا کر تمہیں سب چیزوں کی حقیقت کا عرفان کرا دیں اللہ کی معرفت کے حصول کی کوشش کرو، جب اسے پہچانو گے تو غیر کو بھی پہچان لو گے، پہلے معرفت حاصل کرو، پھر محبت کرو اگر دل کی آنکھوں سے نظر نہیں آ تا ہے تو دل کی آنکھوں سے دیکھو، نعمتیں جب اس کی طرف سے سمجھوگے تو ضرور اس سے محبت پیدا ہوگی ، نبی اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا : أَحِبُّوا ‌اللهَ ‌لِمَا ‌يَغْذُوكُمْ ‌مِنْ ‌نِعَمِهِ، وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللهِ اللہ سے محبت کرو کیونکہ تمہیں نعمتیں عطا فرماتا ہے، اور مجھے چاہو کیونکہ اللہ تعالی مجھے چاہتا ہے۔
مانگے ،بن مانگے ملنے والی سب نعمتوں کا شکر ادا کرو
اے لوگو! اللہ تعالی نے تمہیں اپنی نعمتیں عطا فرمائیں جب تم ماں کے پیٹ میں تھے، اور اس سے نکلنے کے بعد غذا عطا فرمائی ، پھر اس نے عافیت اور سب طرح کی قوت اور اطاعت عنایت فرمائی ، اپنی اطاعت تمہارے نصیب میں کی ، تمہیں مسلمان بنایا اور اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کا پیروکار بنایا ، چنانچہ اس کا شکر ادا کرو اور محبت کرو ، جب تم نعمتوں کو اللہ تعالی کی طرف سے خیال کرو گے تو تمہارے دلوں سے مخلوق کی محبت جاتی رہے گی ، اللہ کا عارف اللہ کا محب اللہ کو اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھنے والا وہی شخص ہے جو نیکی اور بدی سب اسی کی طرف سے جانتا ہے، مخلوق میں سے جو اس سے بھلائی و برائی کرتا ہے، وہ اس کی طرف نہیں دیکھتا ۔مخلوق میں سے اگر کوئی اس سے بھلائی کرتا ہے تو اسے اللہ کی تسخیر سمجھے، اگر مخلوق میں سے کوئی اس سے برائی کرے تو اسے اللہ کی مسلط کردہ جانے ، اس کی نظر ہمیشہ خلق سے نکل کر خالق پر پڑے ۔ اس کے باوجود وہ شرع کا پابند ہے ۔ کسی بھی حالت میں شرعی حکم ۔ کو ساقط نہ ہونے دے۔ عارف الہی کا دل ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف ہمیشہ منتقل ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ مخلوق سے بے رغبتی ، پھر انہیں چھوڑ دینا اور ان سے رخ پھیر لینا طاقت پکڑ جاتا ہے ، اللہ کی رغبت ہو جاتی ہے، اللہ کی ذات پر تو کل قوی ہو جا تا ہے ۔ خلقت سے لین دین کی عادت جاتی رہتی ہے ، جو کام خلقت سے حاصل ہوتا ہے، اسے اللہ کے ہاتھ سے جانتا ہے اس کی عقل جو مخلوق اور خالق میں مشترک ہے،مضبوط اور موکد ہو جاتی ہے، اور دوسری عقل بڑھادی جاتی ہے ۔ وہ خاص عقل اللہ کی طرف سے ہے (یعنی جز وی عقل سے کلی عقل بن جاتی ہے )۔
ڈر کہیں مخلوق کی محتاجی میں نہ موت آ جائے :
اے خلقت کے محتاج! اے خلقت کے مشرک! ڈر کہیں مخلوق کی محتاجی میں نہ موت آ جائے ایسی حالت میں اللہ تیری روح کے لئے اپنا دروازہ نہ کھولے گا اور نہ اس کی طرف نظر رحمت ڈالے گا، کیونکہ جوغیر پر بھروسہ کرنے والاہو، اللہ ایسے مشرک سے سخت نالاں ہے، تجھے چاہیے کہ تو پہلے نفس سے الگ ہو جاء پھر خلق سے الگ ہو جاء پھر دنیا سے الگ ہوجا، – پھر آخرت سے جدا ہو جابالآ خر ماسوا اللہ سے الگ ہو جا۔
پھراگر چا ہو کہ مالک کے ساتھ خلوت ہو تو اپنے وجود اور اپنی تدا بیر اور اپنی بکواس کو دور کرو تجھ پر افسوس! تو اپنے خلوت خانہ میں بیٹھا ہے اور تیرا دل لوگوں کے گھروں میں ہے، ان کے آنے اور ان کے ہدیوں کا منتظر رہتا ہے تیری عمر بیکار گئی صورت سے بھی بے صورت رہ اپنے نفس کو کسی چیز کا اہل نہ سمجھ یہاں تک کہ اللہ اسے اہل نہ بنادے۔ جب تک اللہ کی طرف سے اہلیت نہ آئے تم اور خلقت از خوداہلیت حاصل نہیں کر سکتے ۔ اللہ اگرتم سے کسی امر کا ارادہ کرے تو اس کے لئے تمہارے لئے سامان کر دیتا ہے۔ اگر تمہارا باطن صحیح نہ ہو اور قلب ماسوا اللہ سے خالی نہ ہو تو صرف خلوت تمہیں نفع نہیں دے سکتی۔
التجا ہے اللهم انفعني بما أقول والفعهم بما أقول ويستمعون – ” الہی جو کچھ میں کہتا ہوں اس سے مجھے نفع عطا فرما، اور انہیں بھی میری نصیحت سے نفع عطا فرما، اور وہ میری نصیحت ہوش سے سن کر قبول کر یں ۔
اکیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اکیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الحادی والعشرون فی عدم الالتفات الی الخلق ‘‘ ہے۔
منعقده 25/ ذیعقدہ 545 بروزمنگل بوقت شام بمقام مدرسہ قادر یہ
دنیا آخرت سے حجاب ہے، اور آخرت اللہ سےحجاب ہے
دنیا آخرت سے حجاب ہے ، اور آخرت ، دنیا و آخرت کے رب سےحجاب ہے، ہر ایک مخلوق اپنے خالق سے حجاب ہے۔ جس چیز پر ٹھہر جاؤ وہی حجاب ہے، چنانچہ تو خلقت اور دنیا اور ماسوی اللہ کی طرف توجہ نہ کر ، یہاں تک کہ اپنے باطن کے قدموں اور ماسوی اللہ کو چھوڑ چھاڑ کر سب سے بر ہنہ وا لگ ہو کر اللہ کے دروازے پر حاضر نہ ہو جاؤ ۔ اس حال میں کہ ذات الہی میں حیران، اس سے فریاد کر، اس سے مدد کے طالب ہو کر سابقہ تقدیر وعلم الہی کی طرف متوجہ ہو جاؤ ، پس جب تیرے دل اور باطن کا وہاں پہنچ جانا ثابت متحقق ہو جائے گا ، اور یہ دونوں بارگاہ الہی میں داخل ہو کر مقرب بن جائیں ، اور نزدیک ہو جائیں تو وہ تجھے زندگی بخشے گا اور خلقت کے دلوں پر حاکم بنا دے گا اور تجھے ان پر امیر مقرر کر دے گا ، اور تمہیں مخلوقات کے دلوں کے امراض دور کرنے کے لئے طبیب بنا دے گا۔ اس وقت تو مخلوق اور دنیا کی طرف توجہ کرو، تمہاری تو جہ خلقت کے حق میں نعمت خداوندی ہوگی ، تیرا ان کے ہاتھوں سے دنیا کو لے لینا، اور فقیروں کولوٹا دینا، اور اس میں سے اپنا حصہ لینا تمہارے حق میں اطاعت و عبادت اور سلامتی کا باعث ہے۔ جو دنیا کو اس طرح سے حاصل کرے گا ، دنیا اسے کوئی نقصان نہ دے گی ، بلکہ وہ دنیا میں سلامتی کے ساتھ رہے گا اور جو کچھ اس کے نصیب میں ہے وہ دنیا کی خرابیوں سے پاک و صاف رہے گا۔
اولیاءاللہ کے چہرے پر ولایت کی علامت اہل نظر ہی پہچانتے ہیں
اولیاء اللہ کے چہروں پر ایک خاص علامت ہوتی ہے جنہیں اہل نظر ہی پہچانتے ہیں۔ کیونکہ ولایت کا اظہار اشارت سے ہوتا ہے زبان سے نہیں جو شخص نجات کا طالب ہے اسے چاہئے کہ اپنی جان اور مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے، اور اپنے دل سے خلقت اور دنیا کو ایسے نکال دے جیسے بال گندھے ہوئے آٹے اور دودھ سے نکل جاتا ہے۔ اس طرح آخرت اور ما سوا اللہ سے نکل جائے ۔ اب اللہ کے حضور میں حاضر ہو کر ہر ایک حق دار کو اس کا حق ادا کرے، اور دنیا وآخرت سے اپنا نصیب بھی حاصل کرے ۔اس حال میں کہ تو دروازے پر ہے اور دنیا اور آخرت تیرے سامنے ہاتھ باندھے خادم بنے کھڑے ہیں۔ تو دنیا سے اپنا نصیب یوں نہ کھا کہ وہ بیٹھی ہوئی ہو اور تو کھڑا ہو، بلکہ تو اسے بادشاہ کے دروازے پر اس طرح سے کھا کہ تو ۔ بیٹھا ہوا ہواوردنیا تیرے سامنے سر پر خوانچہ اٹھائے کھڑی ہو۔ تم مخدوم بن کر بیٹھے ہو، اور وہ تمہارے سامنے ذلیل ہو۔ دنیا اس کی خدمت کرتی ہے جو اللہ کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے، اور جو دنیا کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے، دنیا اسے ذلیل کرتی ہے۔ تو دنیا سے غنا اور خدادادعزت کے ساتھ حصہ وصول کر ۔
دنیا و آخرت میں اہل اللہ کی اللہ سے رضا مندی
اللہ کے خاص بندے اللہ تعالی سے دنیا میں مفلس رہ کر راضی ہیں ، اور آخرت میں اس کے قرب میں رضامند ہوں گے۔ وہ اللہ کے سوا کسی کے طالب نہیں ،انہوں نے جان لیاکہ دنیا تقسیم کی جا چکی انہوں نے دنیا کی طلب کو چھوڑ دیا، انہوں نے جان لیا کہ آخرت کے درجات اور جنت کی نعمتیں بھی تقسیم ہو چکیں ۔ انہوں نے اس کی طلب اور اس کے لئے عمل کو بھی چھوڑ دیا۔ وہ اللہ کی ذات کے سوا کسی اور چیز کو نہیں چاہتے وہ جنت میں داخل ہونگے تو اپنی آنکھیں نہ کھولیں گے جب تک کہ جنت میں اللہ کی ذات کا نور نہ دیکھ لیں گے۔ تو تنہائی اور جدائی سے دوستی رکھ ، جس کا دل خلقت اور اسباب سے خالی نہ ہو ، وہ نبیوں اور صدیقوں اور صالحین کی راہ پر چلنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ وہ قلیل دنیا پر قناعت کرے اور کثیر کوقدرت کے حوالے نہ کر دے تو زیادہ دنیا کی طلب نہ کر ورنہ وہ تجھے بربادکردےگی۔ اللہ تعالی اگر خود بخودتمہارے اختیار کے بغیر بہت سا عنایت کر دے تو تم اس میں سب طرح سے محفوظ رہو گے ۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: لوگوں کو اپنےعلم اور کلام سے نصیحت کیا کر “ اے واعظ ! تو اپنے باطن کی صفائی اور دل کے تقوی کے ساتھ لوگوں کو نصیحت کر ، ظاہرکوا چھا بنا کر برے باطن کے ساتھ نصیحت نہ کر اللہ تعالی نے ایمان والوں کے دلوں میں ان کے پیدا کرنے سے پہلے ایمان لکھ رکھا ہے، یہی سابقہ تقدیر ہے، مگرسابقہ کے ساتھ ٹھہر جانا اور اس پر بھروسہ کر لینا جائز نہیں ہے بلکہ کوشش اور ہمت اور طاقت صرف کرنی چاہئے ۔ ایمان اور یقین کے حصول کے لئے محنت کر ، اس میں اللہ تعالی کی خوشبوؤں کی طرف توجہ کر اور اس کی رحمت کی چوکھٹ پر پڑارہ ۔ ہاں ہمارے دلوں کو ایمان کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہئے ، عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی بغیر کسی محنت اور مشقت کے عطا کر دے، کیا تمہیں حیا نہیں آتی کہ اللہ تعالی تو اپنی ذات کے لئے ایسی صفات بیان کرتا ہے جن سے وہ راضی ہے، تم ان کی لا حاصل تاویلیں گھڑتے ہو اور نا جائز ردکرتے ہو، جتنی وسعت تم سے پہلے صحابہ و تابعین کے علم میں تھی ،تمہارے علم میں ایسی گنجائش نہیں، وہ ہر صفت کو ہرحکم کو بلاحیل وحجت مانتے اور اس پر بلا تاویل وتر دید ایمان لاتے تھے تم بھی ان کی طرح چلو ، انہی کی طرح کرو)۔
ہمارا پروردگارعرش پر ہے جیسے کہ اس نے فرمایا بغیرتشبیہ(کسی کی مثل ہونا) اور بٖغیرجسم اور بغیر تعطلیل (معطل و بیکار ہونا)کے
اللهم ارزقنا ووقفنا وجنبنا الإبتداع ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی! تو ہمیں رزق دے اور توفیق دے اور ہمیں نئی نئی باتیں نکالنے سے بجا اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما اور آخرت کی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 151،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 94دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
بائیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے بائیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثانی والعشرون فی خروج حب الدنیا من القلب ‘‘ ہے۔
منعقدہ آخری ذیعقد ہ545 ھ بوقت صبح بمقام خانقاہ شریف
دنیا کی محبت دل سے کیسے نکالی جائے:
کسی سائل نے حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: میں اپنے دل سے دنیا کی محبت کیسے نکالوں؟‘‘ آپ نے ارشادفرمایا: تودیکھ کہ دنیا اپنے گردشوں میں اپنے چاہنے والوں اور ان کے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، ان کے ساتھ کیسی چالیں چلتی ہے ، ان کے ساتھ کیسے کھیلتی ہے، انہیں اپنے پیچھے کیسے دوڑاتی ہے، پھر انہیں ایک درجہ سے دوسرے درجہ کی طرف ترقی دیتی ہے، یہاں تک کہ انہیں دوسروں سے بلند کر دیتی ہے ،اورمخلوق کی گردنوں کا انہیں مالک بنادیتی اوران پرخزانے اور عجائبات ظاہر کرتی ہے اور پھر جب وہ اپنی بلندی اپنے اختیارات اورا پنی خوش عیشی ، دنیا کو اپنا خدمت گزار دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ایسی حالت میں وہ اچانک انہیں پکڑتی ہے اور قید کر لیتی ہے اور دھوکہ دیتی ہے، اور اس بلندی سے انہیں سر کے بل دے مارتی ہے، ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جان سے مار ڈالتی ہے اور خود کھڑی ہنستی ہے ۔ ابلیس لعین بھی اس کے پہلو سے کھڑا خوب ہنسی اڑاتا ہے۔ دنیا کا چلن یہی ہے ۔ دنیا کا یہ برتاؤ حضرت آدم علیہ السلام سے چلا آ رہا ہے جو روز قیامت تک جاری رہے گا ۔ بہت سے بادشاہوں اور امیروں سے اس کا سلوک ایساہی ہےدنیا اسی طرح سے بلند کراتی اور گراتی ہے ۔ آگے بڑھاتی ہے، پھر پیچھے ڈالتی ہے۔غنی کرتی ہے، پھر تنگ دست کرتی ہے،
قریب ہوتی ہے، پھر ذبح کر ڈالتی ہے ۔
ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس سے سلامت رہیں اور اس پر غالب آ جائیں ۔ اس پر غالب آ کر اس کی شرارت سے محفوظ ر ہیں ، یہ شاذ و نادر ہیں ۔ دنیا کے مکر وفریب سے وہی بچتا ہے جو اسے پہچان لے اور اس سے اور اس کے حیلوں سے خوف کھائے ۔
اے سائل اگر تو دنیا کے عیبوں کو دل کی آنکھ سے دیکھے گا تو دنیا کودل سے نکال دینے پر قادر ہوجائے گا، اگر تو دنیا کوسر کی آنکھوں سے دیکھے گا تو اس کے عیبوں سے چشم پوشی کر کے اس کی زینت میں مشغول ہو جائے گا تب دنیا سے کنارہ کشی کرنے اور اسے دل سے نکالنے پر قادر نہ ہوسکو گے ، اور وہ تجھے ویسے ہی قتل کر ڈالے گی جیسے اس نے اوروں کو قتل کر دیا ،
تو اپنے نفس سے یہاں تک جہادکرکہ مطمئن ہو جائے ، جب اطمینان ہوگا تو تم دنیا کے عیب پہچان کر اسے ترک کردوگے نفس کا اطمینان یہ ہے کہ وہ دل کا کہامانے ، اور باطن کے بھی موافق ہوکر دونوں کی اطاعت کرے،جس چیز کا امر کریں اسے بجالائے جس چیز سے روکیں، اس سے رک رہے۔
ان کی عطاپر قناعت کرے، اور منع پر صبر کرے۔ جب نفس مطمئن ہو جائے گا تو وہ قلب سے مل کر تسکین حاصل کرے گا، اس کے سر پر پرہیزگاری کا تاج اور قرب الہی کی خلعت دیکھے گا۔
تم ایمان اور دل کی تصدیق کو لازم پکڑو اور اولیاء اللہ کومت جھٹلاؤ ، اور ان سے کسی طرح کا جھگڑا کرنے اور لڑ نے سے باز رہو، کیونکہ وہ دنیا اور آخرت کے بادشاہ ہیں ۔ قرب الہی کے مالک ہیں ۔ ماسوی اللہ ان کی دسترس میں ہے۔ اللہ تعالی نے ان کے دلوں کوغنی کر دیا ہے، اور اپنے قرب اورانس اور اپنے انوار اور کرامت سے انہیں مالا مال کر دیا ہے۔ وہ دنیا کی قطعا پرواہ نہیں کرتے کہ وہ مردار کس کے قبضے میں ہے، اور اسے کون کھارہا ہے، وہ دنیا کی ابتداءکو نہیں دیکھتے بلکہ وہ اس کے انجام اور فنا کی طرف دیکھتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ ذات الہی ان کے باطن کی آنکھوں کے سامنے رہتی ہے، وہ ہر وقت اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں ۔ وہ ہلاکت کے خوف اور بادشاہی کی امید لئے عبادت نہیں کرتے ، اللہ تعالی نے انہیں اپنے لئے اور اپنی صحبت کی ہمیشگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ ‌وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ هو ‌فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ’’اور پیدا کرتا ہے کہ جس کو تم نہیں جانتے، اپنے ارادے کو پورا کرتا ہے۔
منافق کے خصائل:
رسول اکرم ﷺ نے منافق کے یہ خصائل بیان فرمائے ہیں، جوان خصائل اور علامتوں سے پاک ہے، وہ منافقت سے محفوظ ہے:
منافق جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے زبان سے پھر جائے،امانت رکھی جائے تو خیانت کرے یہ خصائل ایک کسوٹی ہیں جو ایمان والے اورمنافق میں واضح فرق کرتے ہیں ۔ یہ کسوٹی اور آئینہ لے کر اس میں دل کا چہرہ دیکھو، کیا تم ایمان والے ہو یا منافق توحید والے یابت پرست دنیا سب کی سب فتنہ اورمشغلہ ہے مگر اتنی جوآ خرت کے لئے نیک نیتی سے کی جائے ۔ دنیا میں تصرف کرنے کے لئے جب نیت نیک ہو جاتی ہے تو دنیا سراسرآخرت بن جاتی ہے ہر وہ نعمت جوشکر الہی سے خالی ہو وہ دنیا ہے اور سراسر عذاب ہے، اللہ کی نعمتوں کو شکر سے قید کرلو ( ایسا کرنے سے بہت زیادہ ملے گی۔ )۔اللہ کا شکر ہر ایک نعمت کے ساتھ ہے۔ ادائے شکر دوطرح سے ہے اول یہ کہ نعمتوں کے ساتھ عبادت پر مدد حاصل کی جائے ،اور ان کے ذریعے حاجت مندوں سے غم خواری کرنا، ان کی مدد کرنا ۔
دوسرے یہ کہ نعمت کے ذریعے نعمت دینے والے کو پہچان کر اس کے نازل فرمانے والے یعنی اللہ تعالی کا شکر ادا کیا جائے
بعض اولیاء اللہ سے روایت ہے کہ جو چیز اللہ تعالی سے روکے وہی تمہارے لئے منحوس ہے، اگر اللہ کی یاد اور اس کا ذکر بھی کسی چیز میں مشغول کرے، وہ بھی بری ہے۔
نماز ، روزہ ، حج اور نیکی کے سب کام اگر اللہ کے لئے نہ ہوں تو وہ بھی تیرے لئے منحوس ہیں جونعمت تمہارے اور اللہ کے درمیان حجاب ہو جائے ، وہ نعمت تیرے لئے منحوس ہے۔ نعمت حاصل کر کے گناہوں سے مقابلہ کرتے ہو، اپنی مشکلات میں اس کے غیر سے رجوع کرتے ہو۔ تیری حرکات و سکنات ، ظاہر اور باطن ، رات اور دن میں جھوٹ اور نفاق نے جڑ پکڑ لی ہے۔تم پر شیطان کا وار ہو گیا ہے ۔ اس نے جھوٹ اور برے اعمال کو تمہارے لئے پرکشش بنا دیا ہے ۔ تجھے جھوٹ کی عادت ہوگئی ہے ۔ یہاں تک کہ تو نمازوں میں بھی جھوٹ کہتا ہے، کیونکہ تو زبان سے اللہ اکبر کہتا ہے (یعنی اللہ سب سے بڑا ہے ) تو جھوٹ بولتا ہے کیونکہ تیرے دل میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے۔ جس چیز پر تو بھروسہ کرے، وہی تیرا معبود ہے۔ جس سے ڈرے اور امیدرکھے، وہی تیرا معبود ہے، تمہارا دل زبان کے موافق اور قول فعل کے مطابق نہیں ہے، تو اپنے دل سے اللہ اکبر ہزار بار کہہ اور زبان سے ایک بار ) تجھے شرم نہیں آتی کہ لا الہ الا اللہ کہتے ہو کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا حالانکہ اللہ کے سوا تمہارے ہزار معبود ہیں تو جن بے ہودہ خیالوں میں ہے، سب سے اللہ کی طرف توبہ کر و ہ شخص جو علم تو رکھتا ہے مگرعمل نہیں کرتا محض علم کے نام پر قناعت کئے ہوئے ہے ، اسے کیا فائدہ ہوگا! – جب تو کہتا ہے: ”میں علم رکھتا ہوں،تو جھوٹ کہتا ہے، تو اپنے نفس کے لئے اس بات پر کیسے راضی ہو گیا کہ دوسروں کوتعلیم کر تے ہو اور خودعمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا: لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ’’جو کرتے نہیں وہ کہتے کیوں ہو ۔‘‘ تجھ پر افسوس ہے کہ: – اوروں کوسچ بولنے کا حکم دیتا ہے اور خود جھوٹ بولتا ہے، دوسروں کو توحید کا حکم دیتا ہے اور خود بتوں کو پوجتا ہے ، اوروں کو اخلاص کی تلقین کرتا ہے اور خودر یا کارمنافق ہے،انہیں گناہ ترک کرنے کی تاکید کرتا ہے اور خود نافرمانی کرتا ہے، تیری آنکھوں میں شرم وحیا نہیں رہی ، اگر ایمان ہوتا تو کچھ تو شرم و حیا کرتے ، ۔ رسول اکرم ﷺ نے ۔ ارشادفر مایا:
الْحَيَاءَ ‌مِنَ الْإِيمَانِحیا ایمان سے ہے۔
تم میں نہ امانت ہے، نہ یقین نہ ایمان علم میں خیانت کی تو امانت جاتی رہی ،اللہ کے ہاں بددیانت لکھا گیاوایسی حالت میں تیرے لئے میرے پاس کوئی ایسی دوا نہیں کہ تو توبہ کرے اور توبہ پر ثابت قدم رہے، جس کا اللہ اور اس کی تقدیر کے ساتھ ایمان صحیح ہے، اس نے اپنے سب کام اس کے حوالے کر دیئے ہیں، ان میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا، خلقت اور اسباب کی قید میں پڑ کر مشرک نہ ہو – یہ حالت جب ثابت اور تحقق ہوگی تو پھر تمام احوال میں سب طرح کی آفات سے سلامت رہو گے، ایمان سے آگے یقین کا مرتبہ ہے، پھر ولایت کا منصب ہے ، پھر ابدالیت ، پھر غوثیت اور بعض اوقات مقام قطبیت حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات جن وانس ، فرشتوں اور ارواح پر فخر کرتا ہے، اسے آگے بڑھاتا ہے اور اپنا قرب عطا کرتا ہے ، اور اپنی مخلوق کا والی بنا دیتا ہے مخلوق کا مالک و حاکم وقادر بنادیتا ہے ، اپنا محبوب بنالیتا ہے مخلوق کا محبوب بنا دیتا ہے۔ یہ مرتبہ اس کی ابتداء اور بنیاد ہے ۔ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا اور ان کی تصدیق اس امر کی بنیاد ہے۔ پہلے اسلام پھر ایمان، پھراللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت پرعمل ، پھر کمال ایمان کے وقت قلبی توحید کے ساتھ عمل میں اخلاص ہو، ایمان والا اپنی ذات سے اور اپنے عمل سے اور کل ماسوی اللہ سے فنا ہو جا تا ہے۔ وہ عمل تو کرتا ہے مگر عملوں سے بھی الگ رہتا ہے۔ ہر وقت اپنے نفس سے جہاد کرتا رہتا ہے ، سب خلقت کو اللہ سے ایک طرف ڈالے رہتا ہے۔ یہاں تک اللہ تعالی اسے اپنے رستے کی ہدایت کر دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ ‌سُبُلَنَاجولوگ ہماری طلب میں کوشش کرتے ہیں ، انہیں ہم اپنے کئی رستے بتا دیتے ہیں ۔ تم سب چیزوں میں بے رغبت ہو جاؤ تو تم اس کی تدبیر پر راضی ہو گئے وہ ان چیزوں کو اپنے دست قدرت میں پلٹا دیتا ہے، جب اس کی موافقت کرو گے تو انہیں اپنی قدرت کی طرف منتقل کر دے گا ، اس شخص کے لئے خوش نصیبی ہے جو تقدیر کے موافق بناء اور مقدر کے فعل کا منتظر رہا اور تقدیر پرعمل پیرا رہا اور تقدیر کے ساتھ چلا اور تقدیری نعمتوں کی ناشکری نہ کی اور ہرامر پر شکر گزاری ہی کرتا رہا۔ مقدر کی نعمت کا نشان اللہ کی رحمت اور اس کا قرب ہے، اور اس کے باعث خلقت سے بے پرواہ ہو جانا ہے، بندے کا دل جب اپنے رب سے واصل ہو جائے تو اللہ اسے مخلوق سے بے نیاز کر دیتا ہے، اسے اپنا قرب عطا کر دیتا ہے، اسے صاحب قدرت اور صاحب ملک بنادیتا ہے، اس کے لئے ارشاد ہوتا ہے؛ إِنَّكَ الْيَوْمَ ‌لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ تو آج کے دن ہمارے پاس رئیس امانت دار ہے ۔ اسے اپنے ملک اپنے خدام اور اپنے ملک کے انتظام واسباب میں اپنا نائب (خلیفہ بنادیتا ہے اور اسے اپنے خزانوں پرامین بنادیتا ہے، اسی طرح جب صحیح ہو جائے ، اور اس کی شرافت و پاکیزگی ماسوی اللہ سے ظاہر ہو جائے تو اسے اپنے بندوں کے دلوں پر اور اپنی دنیا وآخرت کی سلطنت پر پورا پورا اختیار دے دیتا ہے ۔ یوں وہ اپنے مریدوں اور ارادت مندوں کا کعبہ بن جاتا ہے، سب اسی کی طرف جوق در جوق کھنچے چلے آتے ہیں ۔ رستہ یہیں تک ہے یعنی علم کا بڑھنا اوراوراس پر ظاہری عمل کرنا اللہ کی عبادت میں سستی اور بے ہودگی کی عادت نہ ڈال ، ورنہ عذاب میں مبتلا ہو جائے گا ۔۔۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: ‌إِذا ‌قَصَّرَ ‌العَبْدُ فِي العَمَلِ ابْتَلاهُ الله تَعَالى بالْهَمِّ بند وجب عمل میں کوتاہی کرتا ہے اللہ تعالی اسے مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔‘‘ جو چیز قسمت میں نہیں ،اسے اس کا رنج پہنچتا ہے
بیوی بچوں کا رنج، عزیزوں کا رنج ، پڑوسی کے تکلیف دینے کا رنج، کاروبار میں خسارے کارنج ، اولاد کی نافرمانی کا رنج ، اہلیہ کے ساتھ با ہم نفرت ہو جانے کارنج، جدھر جا تا ہے ، نقصان اٹھا تا ہے ۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس نے اللہ کی عبادت میں کوتاہی کی ، اور اس سے منہ پھیر کر دنیا اور خلقت میں مشغول ہوا، ارشاد باری تعالی ہے:
مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ ‌شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ “اگر تم شکر گزار اور ایماندار بنوتو اللہ نے تمہیں عذاب دے کر کیا لینا ہے ۔‘‘ اور کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی بداعمالی پر قضاو قدر سے حجت حاصل کرے اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہئے کیونکہ ہر طرح کا تصرف اور حکم کا اختیار اللہ ہی کے لئے ہے۔
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ وہ جو کچھ کرے کوئی پوچھنے والا نہیں ، دوسرے پوچھے جائیں گے ۔‘‘
تعلق باللہ کو ہرتعلق پرفوقیت دو :
تجھ پرافسوس ہے کہ تو اللہ سے منہ پھیر کر کب تک اپنے نفس اور اہل وعیال میں مشغول رہے گا ۔بعض اہل اللہ نے فرمایا
جب تیرا بچہ چھوہارے کی گٹھلیاں بنانا سیکھ جائے تو اس سے توجہ ہٹالے اور اپنے نفس کو رب کے ساتھ مشغول کرو‘‘ اس کلام سے آپ کی مراد یہ ہے کہ جب بچہ یہ جان لے کہ گٹھلی بھی کسی کام آ سکتی ہے اور اس کی کوئی قیمت ہے، تم جان لو کہ اس نے اپنے نفس کی تمام ضرورتوں اور معاش کو حاصل کرنا جان لیا ہے۔ اور یہ کہ اپنی ذات کے لئے خود مشقت اٹھا سکے۔ اس پر مشقت اٹھانے میں اپنا وقت ضائع نہ کرو، اسے اب تیری حاجت نہیں رہی تو اپنی اولاد کو ہنر اور کسب سکھا ،اور خود اللہ کی عبادت کے لئے فارغ ہوجاؤ ، کیونکہ بیوی اور بچے تجھ سے اللہ کے عذاب کو نہ ٹال سکیں گے ۔ اپنے نفس ، اپنی اولاد اور اہل کے لئے قناعت کو لازم پکڑ لے، اس کے بعد صرف ضروریات کو حاصل کرو، تم اور وہ سب اللہ کی عبادت کے لئےفارغ ہو جاؤ، اگر مقدر میں تمہارے رزق کی فراخی ہے تو وہ بھی اپنے وقت (مقررہ) پر ہوکر رہے گی ، تو اسے اللہ کی طرف سےسمجھے گا اور خلقت کے شرک سے بچ جاؤ گے، اگر تمہارے مقدر میں کشائش نہیں تو تم اپنے زہد اور قناعت کےباعث سب چیزوں سےغنی ہو چکے ہو۔ ایمان والاقناعت کرنے والا جب کسی دنیاوی چیز کا محتاج ہوتا ہے تو وہ اپنی عاجزی و گریه زاری، ذلت اور توبہ اور سوال کے قدموں کے ساتھ اللہ تعالی کے پاس حاضر ہوتا ہے، اللہ تعالی اگر اس کی ضرورت کو پورا کر دے تو اس عطا پر شکر ادا کرتا ہے، اگر ضرورت پوری نہ ہوتو منع کر دینے میں موافقت کر کے اس کے ارادہ پر کوئی اعتراض اور جھگڑا نہیں کرتا، بلکہ صبر کرتا ہے۔ وہ اپنے دین اور ریا کاری اور منافقت اور فریب کاری سے غنا کا طالب نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اے منافق تو ہے، ریا اورنفاق اور نافرمانی ، یہ فقر اور ذلت ، دربارالہی سے ہٹادیئے جانے کے اسباب ہیں۔ ریاکارمنافق دنیا کو دین کے بدلے حاصل کرتا ہے، اور اہل ہونے کے بغیر صالحین کا سارنگ ڈھنگ اختیار کرتا ہے،انہی کی طرح کلام کرتا ہے، انہی کی طرح لباس پہنتا ہے، مگر ان کے جیسے عمل نہیں کرتا ان سے اپنی نسبت کا دعوی کرتا ہے، حالانکہ ان کے نسب سے نہیں ہے۔ تمہارالا اله إلا الله (کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا) کا دعوی ہے، تیرا اللہ پر توکل اور بھروسہ اور اپنے دل کا غیر خدا سے پھیر لینایہ گواہ ہیں ۔ اے جھوٹو سچ بولو ۔ اپنے مالک سے بھاگنے والو!، رجوع کرو، اپنے دلوں سے اللہ کے دروازے کا ارادہ کرو، اس سے لے کر اور اس سے معذرت کرو۔ صرف ایمان کی حالت میں شرعی اجازت سے دنیا حاصل کر و، ولایت کی حالت میں امرالہی کے ہاتھ سے کتاب وسنت کی گواہی حاصل کر و ابدالیت وقطبیت کے حال میں اللہ کے فعل سے حاصل کرو، اپنا سب کچھ اس کے سپرد کردو۔
بدنصیبی نصیبی ہے۔
بیٹا تمہیں اپنے نفس پر کوئی حیا نہیں، اپنے نفس پر آنسو بہاؤ کہ تم ثواب اور خیر کی توفیق سے محروم کر دیئے گئے ، اس بات پر کوئی شرم نہیں کرتے کہ آ ج مخلص ہوا درکل کو مشرک – رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مَنْ اسْتَوَى يَوْمَاهُ ‌فَهُوَ ‌مَغْبُونٌ وَمَنْ كَانَ ‌أَمْسُهُ ‌خَيْرًا مِنْ يَوْمِهِ فَهُوَ مَلْعُونٌ جس کا آج اور گز راکل ایک سے ہیں، وہ نقصان میں ہے۔ اور جس کا گز راکل آج کے دن سے بہتر تھا ، وہ محروم ہے۔ (یعنی ہر موجودہ دن کاعمل گزرے کل کی نسبت بہتر ہو، وگر نہ خسارہ ہی خسارہ ہے )
اپنی سی کوشش تو کر اللہ مد دکر نے والا ہے:
اے بیٹا! تو کیا کچھ نہیں کر سکتا، اور کچھ کئے بغیر چارہ نہیں ، تو اپنی سی کوشش تو کر اللہ مدد کرنے والا ہے، وہی تکمیل کو پہنچائے گا، تو جس دریا میں ہے اس میں ہاتھ پاؤں چلا تارہ ،موجیں اٹھا کر الٹ پلٹ کر کنارے پر لے آئیں گی ۔ تیرا کام دعا مانگنا ہے، قبول کرنا اللہ کا کام ہے ۔قبولیت اس کی طرف سے ہے ، کوشش کرنا تمہارا کام ہے، اور توفیق دینا اللہ کا کام ہے، نافرمانی ترک کرنا تیرا کام ہے، مہربانی کرنا اللہ کا کام ہے، تو اپنی طلب کو صادق رکھ، تم اس کے قرب کے دروازے پر جگہ پاؤ گے ، اس کی رحمت کا ہاتھ تیری طرف بڑھے گا، اس کا لطف و کرم اور محبت تیرے مشتاق ہوں گئے اولیاء اللہ کے مطلوب کا مقصود یہی ہے۔
اے نفسوں اور عادتوں اور خواہشوں اور شیطانوں کے بندو! میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں، میرے پاس حق درحق ، خلاصہ در خلاصہ ،صفائی در صفائی کے سوا کچھ نہیں ۔ ہاں ! ماسوی اللہ سے تو ڑتا ہوں اور اللہ سے جوڑتا ہوں ، ملاتا ہوں، مجھے تمہاری حرص وہوس منظور نہیں ۔
اے منافقوا ۔ اے جھوٹے دعوے دارو! میں تمہارے چہروں پر حیا نہیں پاتا، میں تم سے کیسے شرم وحیا کروں ، حالانکہ تم اللہ تعالی سے حیا نہیں کرتے ، اس سے بے حیائیاں کرتے ہو، اس کی نظر میں اور جوفر شتے تم پر موکل ان کی نظر میں ذلیل و خوار ہوتے ہو، میرے پاس سچائی ہے جس سے میں ہر وقت اس کافر اور منافق کا سرکاتا ہوں جو نہ توبہ کرتا ہے اور نہ اپنے کئے پر ندامت اور پشیمانی کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے ۔
بعض اولیاء اللہ نے ارشاد فر مایا کہ سچائی زمین پر اللہ کی تلوار ہے، جس چیز پر پڑے اسے کاٹ ڈالتی ہے، میری بات مانو ، میں تمہارا خیر خواہ ہوں ، میں تمہیں تمہارے ہی لئے چاہتا ہوں ۔ میں تمہارے ساتھ مردہ ہوں اور اللہ کے ساتھ زندہ ہوں ، جس نے میری صحبت اختیار کی اور اسے سچا مانا ، اس نے نفع پایا اور نجات پائی اور جس نے مجھے جھٹلایا اور میری صحبت کو جھٹلایا وہ دنیا وآخرت میں محروم ہوا اور عذاب سے دو چار ہوگا ۔ اللہ تعالی کے ساتھ جھگڑا کرنا چھوڑ دینا، اس پر اعتراض نہ کرنے سے باز رہنا، اور اس کی تدبیر پر راضی رہنا معرفت الہی کے اسباب میں سے ہے۔اس لئے حضرت مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بعض مریدوں سے ارشادفرمایا: اگرتم اللہ تعالی کی معرفت چاہتے ہو تو اس کی تدبیر اور تقدیر پر راضی ہو جاؤ، اور اپنے نفس اور خواہش اور اپنے ارادے کوتد بیراور تقدیر میں شریک نہ بناؤ۔‘‘
اے تندرست جسموں والو! اے عمل سے فارغ رہنے والو اور بے فکر ہو جانے والو! اللہ کے ہاں تمہارا کیا کیا نقصان ہو رہا ہے تمہیں کوئی چیز اللہ سے بچائے گی ، اگر تمہاری دلوں کو اس کی خبر ہو جائے تو تم ندامت سے حسرت میں گھرجاؤ، چنانچہ بیدار ہو جاؤ ، ہوشیار ہو جاؤ۔
وہ جو اپنا انجام بھلائے بیٹھے ہیں۔
اے لوگو! تم عنقریب مرنے والے ہو، اس سے پہلےکہ تم پر رویا جائے تم اپنے نفسوں پر رولو، تمہارے گناہ کثیر ہیں اور انجام کیا ہوگا ، تمہارے دل دنیا کی محبت میں گرفتار ہیں اور اس کی حرص میں بیمار ہیں ، اس لئے زہد اختیار کرو، ترک دنیا اوراللہ کی طرف توجہ سے ان کا علاج کرو دین کی سلامتی اصل سرمایہ ہے اور نیک عمل اس کا منافع ہیں، جو چیز سرکش بنائے اس کی طلب چھوڑ دو، اور جو کچھ تمہیں کفایت کرے اس پر قناعت کرو، عقلمند کسی چیز پرخوشی کا اظہارنہیں کرتا، کیونکہ حلال کا حساب اور حرام کا عذاب ہے۔ وہ لوگ کثیر ہیں جو حساب اور کتاب کو بھلائے بیٹھے ہیں۔
دل والوں کی صحبت سے دل ملتا ہے:
اے اللہ کے بندے! جب تجھے دنیا کی کوئی چیز ملے اور اس سے تمہارا دل گھٹن محسوس کرنے لگے تو اسے چھوڑ دے ۔ لیکن تیرے پاس تو دل ہی نہیں ، تو مجسم حرص اور نفس اور خواہش ہے، دل والوں کے پاس بیٹھو تا کہ تمہیں بھی دل مل جائے ، تمہارے لئے پیر کامل کی ضرورت ہے جو کہ دانا ہو، احکام الہی پر چلنے والا ہو، تجھے راستہ بتائے ، تجھے تہذیب اور علم سکھائے ،اور سب طرح سے خیر خواہ ہو، تم نے نا چیز کے بدلے سب کچھ خریدلیا ، اور سب کچھ دے کر نا چیز کو خریدلیا، آخرت کے بدلے دنیا کوخریدا اور دنیا کے بدلے آخرت کو بیچا ، تو ہوس در ہوس ہے ، عدم در عدم ہے، جہل در جہل ہے، چوپایوں کی طرح کھا تا ہے، نہ تحقیق کرتا ہے نہ تفتیش کرتا ہے، حلال ہے کہ حرام ! جستجو نہ حساب کا خدشہ، نہ نیت نہ سوال، حکم کا انتظار نہ فعل کا کھٹکا! –
ایمان والا شرع سے پر کھ کر کے امر یا نہیں ہوتا ہے۔ولی کامل کو کھانے یا نہ کھانے کادل کی طرف سے امر یا نہی ہوتا ہے، ابدال کو کسی چیز کا فکر نہیں ہوتا بلکہ چیزیں خود اس میں اپنا اثر کرتی ہیں ، وہ عالم غیب میں اللہ تعالی کے ساتھ ہوتے ہیں ، اوراسی میں فنا رہتے ہیں۔ انہیں ماسوی اللہ سے کچھ غرض نہیں ہوتی ۔ ولی حکم کے پابند ہوتے ہیں جبکہ ابدال کے اختیار سلب ہیں۔ یہ سب کچھ شرعی حدود کی حفاظت کے ساتھ ہے۔جوشخص اپنی ذات سے اور خلقت سے فنا ہو جا تا ہے، وہی شرعی حدود کی حفاظت کرتا ہے، اس کے بعد قدرت کے سمندر میں آواز کرتا ہے، اس کی موجیں کبھی ابھارتی ہیں اور کبھی ڈبوتی ہیں، اور کبھی کنارے پر لا ڈالتی ہیں ، اور پھر بھی گہرے پانیوں میں لے جاتی ہیں۔ پھر اس کا حال اصحاب کہف کی طرح ہو جا تا ہے جن کے بارے میں ارشاد باری ہے وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ ‌الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ”اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ پلٹا دیتے ہیں۔
ان کے لئے عقل ہے، نہ تدبیر، نہ حس و ادراک اور وہ لطف اور قرب کے گھر میں ظاہری اور باطنی طور پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ۔ یہی حال اس مقرب الہی کا ہے کہ ماسوی اللہ سے اس کے دل کی آنکھیں بند ہیں ، وہ اس کے لئےدیکھتا ہے، اور اس میں دیکھتا ہے، اور اس سے سنتا ہے۔
دعا اللهم أفينا غم سواك وأوجدنا بك ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ”اے اللہ! ہمیں اپنے ما سوئی سے فنا کر، اور اپنے ساتھ وجود عنایت فرما اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما، اور آخرت کی بھلائی عطافرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔آمین!
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 155،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 95دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
تیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے تئیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثالث والعشرون فی جلاء صدا القلوب ‘‘ ہے۔
منعقد ہ12 ذی الحجہ 545 ھ بروز صبح جمعۃ المبارک بمقام مدرسہ قادر یہ
دلوں کا زنگ کیسے دور ہوسکتا ہے؟
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا کہ ان دلوں پر زنگ آ جا تا ہے، ان کی چمک قرآن مجید کی تلاوت اور موت کو یاد کرنا اور ذکر الہی کی مجالس میں حاضر ہونا ہے، دل زنگ آلود ہو جا تا ہے ۔ اگر رسول اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق اس کا تدارک کر لیا تو بہتر ورنہ زنگ آلودگی کے بعد سیاہی آ جاتی ہے ، نوربانی سے دور ہو کر دنیا سے محبت اور دنیا کا مال بغیر کسی پر ہیز کے جمع کرتا ہے، اس بد پر ہیزی سے دل سیاہ ہو جا تا ہے ۔ کیونکہ جس کے دل میں دنیا کی محبت جگہ کر لے، اسکا تقوی جاتا رہتا ہے، وہ حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر مال جمع کر لیتا ہے۔اللہ تعالی کے سامنے اس کی آنکھوں کی شرم جاتی رہتی ہے۔ اے لوگو! رسول اللہ ﷺ کے فرمان پرعمل کرو، اور جو دوا آپ نے تجویز فرمائی ہے، اس سے دلوں کے زنگار دور کر کے دلوں کو چمکالو ، اگر کسی کو کوئی مرض لاحق ہو جائے اور اس کے تدارک کے لئے طبیب نے جو دوا تجویز کی ہو، جب تک اس دوا کو استعمال نہ کرے گا ، اس کی زندگی خوش گوار نہ ہوگی ۔ اپنی خلوت اورمحفل میں اللہ کی طرف نگاہ رکھو، اسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو گویا کہ تم اس کو دیکھتے ہو، اگر تم نہیں دیکھ سکتے تو یہ سمجھو کہ وہ تمہیں دیکھتا ہے، جو شخص اللہ کو دل سے یاد کرتا ہے درحقیقت وہی ذاکر ہے، جو دل سے یاد نہ کرے وہ ذاکر نہیں ہے، زبان دل کے تابع اور اس کی خدمت گزار ہے، ہمیشہ وعظ سنتے رہا کرو کیونکہ جب دل وعظ سے غائب ہو جا تا ہے تو اندھا ہو جا تا ہے، تو بہ کی حقیقت یہ ہے کہ سب حالتوں میں امرالہی کی تعظیم کرے۔
ساری بھلائی دوکلموں میں چھپی ہے:
بعض اہل اللہ نے ارشادفرمایا:
ساری بھلائی دوکلموں میں ہے اللہ کے حکم کی تعظیم مخلوق الہی پرشفقت،
باری تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو وحی کے ذریعے ارشادفرمایا: ارْحَمْ خَلْقِي أَرْحَمْكَ، يَا مُوسَى أَنَا رَحِيمٌ أُحِبُّ الرُّحَمَاءَ، يَا ‌طُوبَى ‌لِلرُّحَمَاءِ تو دوسروں پر رحم کرتا کہ میں تجھ پر رحم کروں کیونکہ میں رحیم ہوں، جو شخص رحم کرے اس پر رحم کرتا ہوں اور اپنی جنت میں داخل کرتا ہوں۔ رحم کرنے والوں کے لئے بڑی خوش خبری ہے ۔‘‘
تمہاری عمرتو ان باتوں میں ضائع ہوئی: . انہوں نے یہ کھایا اور ہم نے یہ کھایا ، – انہوں نے یہ پیا اور ہم نے یہ پیا ، – انہوں نے یہ پہنا اور ہم نے یہ پہنا، انہوں نے یہ جمع کیا ہے ہم نے یہ جمع کیا ۔ جوشخص فلاح اور نجات کا طالب ہے اسے چاہئے کہ اپنے نفس کو خواہشوں اور حرام اور شک شبہے والی چیزوں سے رو کے اور صبر کرے ۔ امرالہی کے ادا کرنے پر اور نہی سے رکنے پر صبر کر کے تقدیر الہی کی موافقت کرے۔ اولیاء اللہ نے اللہ تعالی کے ساتھ صبر کیا، اس سے دور رہ کر نہیں، اس کے لئے اور اسی کے بارے میں صبر کیا تا کہ اسی کے ساتھ رہیں ۔ انہوں نے اس کو طلب کیا تا کہ اس کا قرب حاصل ہو، وہ اپنے نفسوں اور حرصوں اور خواہشوں اور عادتوں کے گھروں سے نکل گئے اور شریعت کو ساتھ لے کر اپنے رب کی طرف سفر پر نکل گئے ۔ دوران سفرآفتیں ، دہشتیں ، مصیبتیں غم ، بھوک، پیاس، برہنگی، ذلت اور حقارت ستانے آئیں ، انہوں نے کسی کی کوئی پروا نہیں کی ، اپنے سفر کو ثابت قدمی سے جاری رکھے رہے، وہ جس ارادے سے چلے تھے ،اس میں تبدیلی نہ آئی ، ان کے قدم آگے بڑھتے چلے گئے ۔ ان کی رفتار میں سستی نہ آئی ، وہ اسی طرح محوسفر ر ہے، یہاں تک کہ ان کے دل اور جسم ( قلب و قالب ) کو بقائے دوام مل گئی ۔
اللہ سے ملاقات کا شوق ہے تو
اے لوگو! اللہ سے ملنے کے لئے عمل کرو اور ملاقات سے پہلے اس سے شرم وحیا کرد، ایمان والا پہلے اللہ سے ، پھرخلقت سے حیا کرتا ہے، مگر جو بات دین کے متعلق ہو اور شرعی حدودکو تو ڑے، اس میں حیا کرنا جائز نہیں، بلکہ دین الہی کی تعمیل میں کوئی شرم نہ کرے اس کی حدود کو قائم کرے اور اس کے امر بجالائے ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَا ‌تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ
اللہ کے دین کی تعمیل میں ان پر رحم نہ آ جائے “۔ جس کی رسول اکرم ﷺ کے ساتھ تابع داری صحیح ہو جائے ، آپ اسے اپنی زرہ اورخود پہناتے ہیں، اور اپنی تلوار اس کے گلے میں ڈالتے ہیں۔ اپنے خصائل اور اخلاق کے ساتھ اسے سجاتے ہیں ، اور اپنی خلعت اسے پہناتے ہیں، رسول اللہ ﷺ اس شخص سے بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں ، اور خوش کیوں نہ ہوں کہ وہ شخص آپ کی امت سے ہے، اس پر آپ ﷺ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں، اسے اپنی امت میں اپنا نائب اور رہنما اور اسے اللہ تعالی کے دروازے کی طرف بلانے والا بنا دیتے ہیں؟ اصل رہنمائی کرنے والے اور دعوت دینے والے حضور ﷺ تھے ، اللہ تعالی نے جب اپنے پاس بلا لیا تو اپنی امت میں ایسے شخص کھڑے کر دیئے جو آپ کے سچے جانشین اور خلیفہ نہیں ، لاکھوں میں سے ایسے گنے چنے ہی ہوتے ہیں ، ایسے لوگ مخلوق کی رہنمائی کرتے ہیں ،ان کا کام خلقت کی خیر خواہی ہے، ان سے تکلیف پہنچنے پرصبر کرتے ہیں ، منافقوں اور بدکاروں کے منہ پرمسکراتے ہیں ، ان کے لئے طرح طرح کے حیلے کرتے ہیں ، تا کہ انہیں ان کی بداعمالی سےچھڑا کر اللہ کے دروازے پر لے جائیں ، اس لئے بعض اولیاء اللہ نے فرمایا:’’بد کار کے منہ پر عارف باللہ ہی ہنستا ہے۔
اس کے منہ پر ہنس کر وہ اس پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسے جانتا ہی نہیں ، حالانکہ عارف اس کے دین کے گھر کی بر بادی اس کے دل کے چہرے کی سیاہی اور اس کے دھوکے کی کثرت اور اس کے میلے پن کو خوب جانتا ہے ۔ فاسق ومنافق دونوں کو یہی گمان رہتا ہے کہ ان کی حالت اس سے پوشیدہ ہے، اور وہ اس کی پہچان میں نہیں آئے ، ایسا قطعا نہیں ۔ کہ ان کی کوئی عزت ہی نہیں ، کہ ان کا حال چھپار ہے، وہ عارف سے چھپے نہیں رہتے ، وہ انہیں ایک لمحہ میں ، نظر ، کلام اور حرکت سے پہچان لیتا ہے، وہ ان دونوں کے ظاہر و باطن کو پہچان لیتا ہے ، اس امر میں کوئی شک نہیں ۔ تم پر افسوس ہے کہ تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم صدیقوں اور باعمل عارفوں سے پیچھے رہ سکتے ہیں، تم کب تک اپنی عمر یں فضول باتوں میں ضائع کرتے رہو گئے ۔ ایسے لوگوں کی تلاش کرو جو تمہیں آخرت کا راستہ بتادیں۔ اے گمرا ہو۔ اللہ تعالی سب سے بڑا ہے، اے مردہ دلو! – اسباب کو اللہ کا شریک سمجھنے والو! ـ
اپنی قوت و طاقت او را پنے معاش اور راس المال اور اپنے شہر کے بادشاہوں کے پوجنے والو! اورجن طرفوں کو وہ جاتے ہیں، یہ سب لوگ اللہ سے دور اور حجاب میں ہیں، جوشخص نفع و نقصان کو اللہ کے غیر سے جانے وہ اللہ کا بندہ نہیں بلکہ اللہ کے غیر کا ہے ۔ ایسا شخص دنیا میں غصے اور حجاب کی آگ میں ہے، اور قیامت کے دن دوزخ کی آگ ہوگا – پرہیز گاروں ، تو حید والوں ، اخلاص والوں اور توبہ کرنے والوں کے سوا کوئی شخص محفوظ نہ ہوگا ، پہلے دل سے توبہ کرو، پھر زبان سے توبہ ( کا مطلب ) حکومت کا بدلنا ہے، نفس اور حرص اور خواہش اور شیطان اوربرے ہم نشینوں کی حکومت بدل جاتی ہے۔ اور انہیں تمہارا غلام بنا دیتی ہے۔ جب تو بہ کرو گے تو تمہارا دل تمہاراسننا اور دیکھنا اور زبان اور سب اعضاء پلٹ جائیں گے، تمہارا کھانا پینا حرام اور شبہے کے گدلے پن سے پاک ہوگا، بیچنے اور خریدنے میں اور اپنے کاروبار میں پرهیزگار بنو گے تو اپنا مقصود اصلی اللہ تعالی کو بنالینا ، اور بری عادتیں اپنا گھر چھوڑ دیں گی۔ عبادت گناہوں کو دور کرے گی ، اور اطاعت اس کا مکان حاصل کر لے گی ، پھر شریعت کی درستی اور شہادت کے ساتھ حقیقتا ثابت و مضبوط ہو جا تا ہے۔ کیونکہ جس حقیقت پر شریعت شہادت نہ دے، وہ بے دینی ہے، جب یہ امر تمہارے لئے ثابت ہو جائے تو برے اخلاق اور خلقت کو دیکھنے سے فنا ہو جاؤ گے ، اس وقت تمہارا ظاہر محفوظ ہو جائے گا اور تیرا باطن اللہ کے ساتھ مشغول ہو گا، جب تیری یہ حالت کمال کو پہنچ جائے تو پھر دنیا چاہے اپنے سارے ساز و سامان کے ساتھ تیرے پاس آئے ، اور اپنا سب کچھ دے ڈالے، اور اگلی پچھلی سب مخلوق بھی تیری تابع ہو جائے تو کچھ نقصان نہ پہنچاسکیں گے، نہ تجھے اللہ کے دروازے سے پھیر سکیں گے، کیونکہ تم اللہ کے ساتھ قائم ہو، – اس کی طرف متوجہ ہو اس میں مشغول ہو۔ – اس کا جلال اور جمال دیکھتے ہو۔
جلال کو دیکھ کر خوف الہی کی لپیٹ میں آ جاؤ گے، جمال کو دیکھ کر حواس بحال ہو جائیں گے، جلال کو دیکھ کر حواس اڑ جاتے ہیں اور جمال کو دیکھ کر امید بندھ جاتی ہے، جلال کو دیکھ کر مٹ جاؤ گے اور جمال کو دیکھ کر ثابت ہو جاؤ گے ۔ بشارت ہو اس شخص کو جو اس کھانے کا مزه چکھے۔
التجا یہی ہے۔ اللهـم أطـمـنا من طعام قربك واسقنا من شراب أنسك آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی! ہمیں اپنی قربت کا کھانا کھلا ، اور اپنے انس کا شربت پلا اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما، اور آخرت کی بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ آمین!
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 167،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 10دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
جوبیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چوبیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الرابع والعشرون فی عدم مشارکۃ اللہ فی تدبیرہ ‘‘ ہے۔
منعقد ہ 14 ذی الحج 545 اتوار کی صبح بمقام خانقاہ شریف
تدبیر علم الہی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی صائب ہے:
اللہ تعالی کی تدبیر اور علم میں اپنے نفسوں اور خواہشوں اور عادتوں کو شریک نہ بناؤ ، اپنے اور پرائے کے معاملے میں اللہ سے ڈروبعض اولیاء اللہ نے فرمایا:
خلقت میں اللہ تعالی کی موافقت کرو، اور اللہ سے خلقت کی موافقت نہ کرو ،ٹوٹے کوتوڑو، جڑے کو جوڑو ۔ اللہ سے موافقت اس کے نیک بندوں اور موافقت والوں سے سیکھوعلم عمل کے لئے بنایا گیا ہے۔ صرف یاد کرنےاور مخلوق کو سنانے کے لئے نہیں ہے، ۔علم پڑھ اور عمل کر ، پھر دوسرے کو بتا، جب علم پڑھا اور عمل کیا تو علم تمہاری طرف سے خود کلام کرے گا ، اگر تم خاموش رہے توعمل کی زبان علم کی زبان سے زیادہ کام کرے گی ، اس لئے بعض اہل اللہ نے فرمایا:
جس کی آنکھ کا اشارہ تمہیں نفع نہ دے ، اس کے وعظ سے بھی نفع نہ ہوگا۔‘‘ جو شخص اپنے علم پر عمل کرتا ہے تو وہ اس علم سے خود بھی نفع حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی نفع پہنچا تا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی میرے پاس حاضر ہونے والوں کے حالات میں سے جس قد رضروری چاہتا ہے ، مجھ سے کہلوا دیتا ہے، ورنہ میرے اور تمہارے درمیان عداوت ہے کیونکہ میری آبرو اور مال سب کچھ تمہارے لئے ہے۔ میرے پاس اور کچھ نہیں ، اگر میرے پاس اور کچھ ہوتا تو اس سے بھی تم کو نہ روکتا، میرے اور تمہارے درمیان صرف خیر خواہی اور نصیحت ہے، میں اپنے لئے نہیں ۔ بلکہ اللہ کے لئے تمہیں نصیحت کرتا ہوں ، تقدیر کے ساتھ موافقت کرو ورنہ بُھرکس نکال دے گی ، اس کے اختیار کے ساتھ ساتھ چلو ورنہ وہ تجھے کاٹ ڈالے گی ، کوئی بے جا حرکت نہ کرو، اس کے سامنے بیٹھے رہو، یہاں تک کہ تم پر رحم کر کے اپنی سواری پر پیچھے بٹھالے۔
اولیاء اللہ کے معاملہ کی ابتداء کسب سے ہوتی ہے، وہ دنیا کی بقدر ضرورت شریعت کے ہاتھ سے لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ان کے جسم کسب سے تھک جاتے ہیں تو تو کل آ کر ان کے دلوں پر مہر لگا کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیتا ہے وہ فکر دنیا سے بے نیاز ہو جاتے ہیں ۔ ان کا دنیاوی نصیب ان کے پاس خوشگواری سے کثیر مقدار میں بغیر کسی محنت ومشقت کے خود چلا آتا ہے، مقربین الہی میں سے ہر ایک آخرت میں بغیر ارادہ وخواہش کے جنت کی نعمتیں حاصل کرے گا، بلکہ وہ اس میں بھی اللہ تعالی کی موافقت کرے گا جیسے کہ دنیا میں اپنے نصیب پر موافقت کرتا تھا، اللہ تعالی ان کے نصیب دنیا اور آخرت میں پورے عنایت فرماتا ہے، کیونکہ وہ اپنے بندوں پر ظلم روا نہیں رکھتا ہے۔
اللہ کے ساتھ جینا چاہتے ہو تو اپنے آپ سے مر جاؤ
اے بیٹا! تجھے تیری سوچ کے اندازے پر عطا کیا جائے گا ،تو جتنی فکر کرے گا ، اس قدر پائے گا، اپنے دل کے ساتھ ما سوا اللہ سے دور رہو، یہاں تک کہ حق تعالی سے قریب ہو جائے تو اپنی ذات اورمخلوق کی طرف سے مرجا، تیرے اور حق تعالی کے درمیان جو پردے ہیں، اٹھادئیے جائیں گے۔
اگر تو کہے: میں کیسے مروں؟ اس کا جواب یہ ہے: اپنے نفس اور خواہش اور حرص اور عادت کی تابعداری سے مر جا ، خلقت کو چھوڑ اور اسباب سے نا امید ہو جا، شرک چھوڑ دے اور اللہ کے سوا کسی سے سوال مت کر، اپنے سب اعمال اللہ کے لئے کر نعمتوں کی طلب نہ رکھ، اس کی تدبیر اور قضا اور افعال پر راضی ہو جا، جب تو ایسا کرے گا تو اپنے آپ سے مر جائے گا اور اللہ کے ساتھ زندہ ہو جائے گا، تمہارا دل اس ذات کا مقام ہوگا ، وہ اسے جدھر چاہے پھیردے، اس کے
کعبہ قرب کے پردوں کو تھامے اس کا ذکر کر رہا ہوگا اور ماسوی اللہ کی کچھ خبر نہ ہوگی، دنیا اور آخرت میں جنت کی کنجی کلمہ لا إله إلا الله محمد رسول اللہ ہے، اپنے سے اور غیر سے اور کل ماسوی اللہ سے شرعی حدود کی حفاظت کر کے فنا ہو جاؤ۔
اولیاءاللہ کی جنت وردوزخ؛
اولیاء اللہ کی جنت اللہ کا قرب ہے اور دوزخ اللہ سے دوری ہے ، نہیں کرتے امیداسی جنت کی ، اور نہیں ڈرتے مگر اسی دوزخ سے ، ان کے نزدیک آگ کی جلن ہے کیا چیز کہ اس سے ڈریں، وہ ہر وقت قرب الہی کے طالب رہتے ہیں، ان کے پاس کھوٹ ہی کیا ہے جو دوز رخ سے ڈریں آگ تو ایمان والے سے پناہ مانگتی ہے اور اس سے بھاگتی ہے، پھر دہ محبین مقربین اورمخلصین سے کیوں نہ بھاگے گی ، ایمان والے کا دنیا اور آخرت میں کیا ہی اچھا حال ہے ۔ اسے علم ہو جائے کہ اللہ اس سے راضی ہے، پھر وہ دنیا میں کسی حال پر ہوا سے کچھ پرواہ نہیں، وہ جہاں بھی اتر تا ہے اپنا نصیب پالیتا ہے،اور اس پر خوش رہتا ہے، جدھر دیکھتا ہے، اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، اس کے پاس تاریکی نہیں رہتی، اس کے سب اشارے اللہ کی طرف ہیں ، اسی پر بھروسہ اورتوکل ہے۔
ایمان والے کوستا نا ،بستانے والے کی محتاجی کا سبب ہے:
ایمان والے کو ستانے سے بچو، کیونکہ اس کاستانا ستانے والے کے جسم میں زہر قاتل اور اس کی محتاجی اور سزا اور عذاب کا سبب ہے او جاہل ! تو اللہ اور خاصان خدا سے نادان ہے، ان کی غیبت اور بدگوئی کا مزہ نہ چکھ ، وہ زہر قاتل ہے، بچا اپنے آپ کو، اور پھر بچا اپنے آپ کو ان کی بد دعا سے ، ڈر، گر یز کر ، ورنہ تو ہلاک ہو جائے گا اور ان کا کچھ نہیں بگڑے گا، کیونکہ ان کے رب کو ان کے لئے بڑی غیرت ہے، اے منافق ! نفاق کا شک تیرے دل میں جو نک کی طرح لگا ہے۔ تیرے ظاہر و باطن کا مالک بن گیا ہے۔ سب حالتوں میں توحید اور اخلاص کا استعمال کر ، تجھے شفا ہوکر شک جا تا رہے گا، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اکثر شرعی حدود کوتوڑتے ہو اور اپنے تقوی کے ذروں کو تار تار کرتے ہو، اپنے توحید کے کپڑوں کو ناپاک کرتے ہواورنورایمان کو بجھاتے ہو، اپنے سب فعلوں اور حالوں میں اللہ کے دشمن بنے ہوئے ہو، تم میں سے جب کوئی فلاح پائے اور نیک عمل بھی کرے تو وہ غرور اور خلقت کے دکھلاوے کے ساتھ اور خلقت سے ستائش کی تمنا لئے ہوتا ہے تم میں سے جو کوئی اللہ کی عبادت کا ارادہ کرے، اسے چاہئے کہ خلقت سے گوشہ نشین ہو جائے ، کیونکہ عملوں کی طرف دیکھنا عملوں کو ضائع کرنا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عليكم بالعزلة ف بالعزلة فإنها عبادة واتها ذاب الصالحين من قبلكم –
” تم تنہائی کولازم پکڑو، کیونکہ وہ عبادت ہے اور تم سے پہلے نیکوکاروں کی عادت ہے۔‘‘ لوگوں تم ایمان کو لازم پکڑو پھر یقین ،پھر فنا اور اس کے بعد اللہ تعالی کے ساتھ وجود کو نہ کہ اپنے اور اپنے غیر کے ساتھ یہ سب شرعی حدود کی حفاظت اور رسول اللہ ﷺ کی رضا کے ساتھ ، اور کلام الہی کی رضا تلاوت کئے گئے ، سنے گئے، پڑھے گئے کے ساتھ ، جوشخص اس کے سوا کچھ کہے، اس کی کوئی عزت نہیں ہے ۔ یہ وہی ہے جو صحیفوں اور تختیوں میں ہے، اللہ تعالی کا کلام ایک طرف اللہ کے ہاتھ میں اور دوسری طرف ہمارے ہاتھوں میں ہے، تمہیں لازم ہے کہ اللہ کے ساتھ رہو اور اس کی طرف سب سے الگ ہو کر لگو۔ اور اس کے ساتھ علاقہ رکھو، کیونکہ دنیا اور آخرت کی مشقت میں وہی تمہارے لئے کافی ہے۔ زندگی اور موت میں وہی حفاظت کرنے والا ہے، تمام حالتوں میں مصائب کو وہی دور کرنے والا ہے۔ تو اس سیاہی کو سفیدی سے لازم پکڑ یعنی لکھے ہوئے پر عمل کر اس کی خدمت کرتا کہ وہ تیری خدمت کرائے ، اور وہ تیرے دل کے ہاتھ کو پکڑ کر اللہ کے رو برو کھڑا کر دے، اس پرعمل تیرے دل کے دونوں بازوؤں پر پر لگائے گا ،ان کے ساتھ تو اپنے رب کی طرف پرواز کرے گا،۔
اسلام ہے ،اللہ کا امراللہ کے سپرد کر دینا:
اے صوف پوش! – پہلے تو اپنے باطن کوصوف پہنا، پھر قلب کو پھر نفس کو، پھر اپنے بدن کو، زہد کی ابتداء اسی طرح سے ہوتی ہے ، ظاہر سے باطن کی طرف نہیں ۔ جب باطن صفا ہو جائے تو دل اور نفس اور دیگر ظاہری اعضاء اور کھانے پینے اور پہننے کی طرف صفائی پہنچ جائے گی حتی کہ تمام احوال میں ظاہر ہو جاتی ہے، پہلے مکان کے اندرونی حصے کی تعمیر ہوتی ہے، وہ مکمل ہو جائے تو دروازے کی عمارت تعمیر ہوتی ہے، ظاہر باطن کے بغیر کچھ نہیں ، خلقت بغیر خالق کے، دروازہ بغیر مکان اندرونی کے کچھ نہیں ، اور ویرانے پر تالا لگانا کچھ نہیں ۔
اے دنیا کو آخرت کے بغیر ، اور خلقت کو خالق کے بغیر طلب کرنے والے! تو جن مشغلوں میں لگا ہے، قیامت کے دن بجائے فائدہ کے نقصان اٹھاؤ گے، یہ جو مال اسباب تیرے پاس ہے وہاں اس کا خریدنے والا کوئی نہیں ، – تیرامال ریا اور نفاق اور گناہ ایسی چیز یں ہیں، بازار آ خرت میں جن کی ذرا بھی کھپت نہیں ۔ پہلے اپنا اسلام صحیح کرو، پھر نصیب طلب کر لفظ اسلام ، استسلام سے نکلا ہے ،استسلام یہ ہے کہ تو اللہ کا امراللہ کے سپرد کر دے، اپنا نفس اس کوسونپ دے اور اسی پر بھروسہ کر اپنی قوت اور طاقت کو بھلا دے، اور تیرے پاس جو کچھ دنیا کا مال ہے اللہ کی اطاعت میں صرف کر دے، اطاعت وعبادت کے عمل کر کے اس کے سپرد کر کے بھول جاؤ ، تیراعمل ایسے اخروٹ کی طرح ہے جس میں مغز نہ ہو، جس عمل میں اخلاص نہ ہو وہ بغیر مغز کے چھلکا ہے، یا لکڑی ہے جسے کھینچ کر لایا گیا ہو، روح کے بغیر جسم اور صورت معنی کے بغیر ہے یہی منافقوں کاعمل ہے۔
مخلوق کے ساتھ رہنا اور ہے، خالق کے ساتھ رہنا اور ہے:
اے بیٹا! ساری خلقت ایک آلہ ہے اور اللہ تعالی صانع ہے یعنی بنانے والا ، اور وہی تصرف کرنے والا ہے، جس نے اسے سمجھا اور اس پر اعتقاد رکھا، وہ آلہ کی قید سے رہائی پا گیا، اور ان میں تصرف کرنے والے کو دیکھ لیا ، خلقت کے ساتھ رہنا نفرت اور تکلیف اور مشقت ہے، جبکہ اللہ تعالی کے قرب میں رہنا خوشی اور راحت اور نعمت ہے، تم پہلے لوگوں کے راستے سے الگ جا پڑے تمہارے اور ان کے درمیان کوئی نسبت نہ رہی ، تم نے اپنی رائے پر قناعت کر لی ہےاور اپنے لئے استاد عارف ادب سکھانے والا نہ پکڑا۔اے رستے سے بھٹک جانے والے! اے وہ شخص جسے شیطانوں، انسانوں اور جنوں نے اپنا کھیل بنارکھا ہے!اے نفس اور حرص اور خواہش کے بندے! تجھ پر افسوس ہے تو حق سے گونگا بن گیا ہے، تو اللہ سے مدد مانگ ، ندامت اور عذر کے قدموں سے اس کی طرف رجوع کرتا کہ دشمنوں سے تیری جان چھٹرائے ، اور ہلاکت کے دریا کی موج سے نجات دے، تو جس امر میں پھنس گیا ہے اس کے انجام کی فکر کر اسے چھوڑ دینا تیرے لئے آسان ہے، تم غفلت کے درخت کے سائے میں بیٹھ رہے ہو، اس کے سائے سے نکل آؤ، تم نے سورج کی روشنی دیکھ لی ہے، اور اس کی روشنی میں راستہ پہچان لیا ہے، غفلت کا درخت جہالت کے پانی سے پرورش پاتا ہے،جبکہ بیداری اور معرفت کا درخت فکر کے پانی سے سینچا جا تا ہے۔ توبہ کا درخت آب ندامت سے پروان چڑھتا ہے، محبت کا درخت موافقت کے پانی سے پرورش کیا جا تا ہے۔
جس نے نافرمانی کی ،اس نے اللہ کو بھلا دیا:
اے بیٹا! بچپنے کی عمر میں تم کچھ عذر بھی کر لیتے تھے، اب جوان ہو جبکہ عمر چالیس برس ہو گئی یا کچھ اس سے بھی بڑھ گئی ،جو کم سن بچے کھیلتے ہیں تو وہی کھیل کھیلے جارہا ہے، جاہلوں سے میل ملاپ سے بچ، بچوں اور عورتوں کے ساتھ خلوت چھوڑ عمر رسیدہ پر ہیز گاروں کی صحبت اختیار کرو، جاہل نو جوانوں کی صحبت سے بھاگو،لوگوں سے ایک طرف ہو کر کھڑا ہو جا، جب ان میں سے کوئی تمہارے پاس آئے تو اس کا طبیب بن جاء خلقت کے ساتھ ایسے رہو جیسے کوئی مہربان باپ اپنی اولادپر۔ اللہ تعالی کی عبادت کثرت سے کرو، کیونکہ اس کی عبادت ہی اس کا ذکر ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا
مَنْ أَطَاعَ اللَّهَ فَقَدَ ذَكَرَ اللَّهَ وَإِنْ ‌قَلَّتْ ‌صَلَاتُهُ، وَصِيَامُهُ، وَتِلَاوَتُهُ الْقُرْآنَ، وَمَنْ عَصَى اللَّهَ فَقَدْ نَسِيَ اللَّهَ، وَإِنْ كَثُرَتْ صَلَاتُهُ، وَصِيَامُهُ، وَتِلَاوَتُهُ الْقُرْآنَ جس شخص نے اللہ تعالی کی اطاعت کی ، پس تحقیق اس کا ذکر کیا، اگر چہ اس کی نماز اور روزہ اور تلاوت قرآن کم ہو ، اور جس شخص نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی ، پس تحقیق اسے بھلا دیا،اگرچہ اس کی نماز اور روزہ اور تلاوت قرآن بکثرت ہو۔
ایمان والا اپنے رب کا تابعدار ہے اور اس کی موافقت کرنے والا ہے، اس کے ساتھ صبر کرنے والا ہے، وہ اپنی لذتوں اور کلام اور کھانے پینے اور پہننے اور جملہ تصرفات الہی میں ٹھہرارہتا ہے، اور منافق اپنے سب احوال میں ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرتا۔
جو خوبی تجھ میں نہیں اسے اپنے نفس کے لئے ثابت نہ کر :
اے بیٹا! تو اپنے معاملے میں غوروفکر کر جو خوبی تجھ میں نہیں اسے اپنے نفس کے لئے ثابت نہ کرتم نہ صادق ہونہ صدیق،نہ محب ہونہ موافق، نہ راضی بہ رضانہ عارف -تم نے معرفت الہی کا دعوی کر رکھا ہے لیکن یہ تو بتا اس کی معرفت کی علامت کیا ہے، تو اپنے قلب میں علم اور نورالہی سے کیا چیز دیکھتا ہے ۔ اولیاء اللہ اور انبیاء کرام کے جانشین ابدالوں کی کیا علامت ہے، تمہارا گمان ہے کہ جو کچھ دعوی کرو گے اسے تسلیم کر لیا جائے گا،۔ عارف کی صفات میں سے یہ ہے کہ آفتوں پر صبر کرے ، اللہ تعالی کی قضاؤں اور قدروں سے اپنے تمام احوال نفس، اپنے اہل وعیال اورساری خلقت میں راضی برضار ہے۔
اللہ اور اس کے غیر کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتی
اے بیٹا! اللہ کی محبت اور اس کے غیر کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتی۔ارشاد باری تعالی ہے: مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ ‌قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ اللہ نے کسی سینے میں دو دل نہیں بنائے ،د نیا اور آخرت جمع نہیں ہوسکتیں، اور نہ ہی خالق مخلوق ایک دل میں جمع ہو سکتے ہیں ، فنا ہونے والی چیز یں چھوڑ دے تا کہ غیر فانی تمہیں مل جائے ، جنت کے حصول کے لئے اپنی جان اور مال خرچ کرو، ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ ‌اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ اللہ تعالی نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں۔ پھر اپنے دل سے ماسوی اللہ کی رغبت دور کر دے تا کہ قرب الہی حاصل ہو اور دنیا و آخرت میں اس کی صحبت میں رہو۔ اے اللہ کے محب! اس کی تقدیر کے ساتھ چلو ، جدھر کو بھی چلائے ، اور دل کو جو قرب الہی کا مکان ہے، ماسوی اللہ سے پاک صاف کرو، اس کے قرب کے دروازے پر تو حید اور اخلاص اور سچائی کی تلوار لے کر بیٹھو، اسے اللہ کی ذات کے سواکسی کے سامنے نہ کھول ، اور دل کے کسی گوشہ میں غیر کے ساتھ مشغول نہ ہو۔ اے تماش بینو! میرے پاس تماشہ نہیں ۔ اے مجسم چھلکو! میرے پاس مغز کے سوا کچھ نہیں ، میرے پاس اخلاص ہے نفاق نہیں ، سچ ہے جھوٹ نہیں ، اللہ تعالی تمہارے دلوں سے تقوی اور اخلاص چاہتا ہے تمہارے ظاہری اعمال نہیں دیکھتا۔
ارشاد باری تعالی ہے: لَنْ يَنَالَ اللَّهَ ‌لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ اللہ کوان کے گوشت اور نہ خون پہنچتے ہیں لیکن خدا کو تم سے تقوی پہنچتا ہے۔ اے اولاد آدم! دنیا و آخرت میں سب کچھ تمہارے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ تمہاراشکر اور تقوی ، اور اس کی طرف اشارے اور خدمات کہاں ہیں؟ روح کے بغیر عمل کرتے ہوئے تم تھکتے نہیں ہو اعمال کے لئے روحیں بھی ہیں ، اور روح کیا ہے اخلاص۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 173،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 104دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
پچیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پچیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الخامس والعشرون فی الزہد فی الدنیا ‘‘ ہے۔
منعقدہ 19ذی الحج 545بمقام مدرسہ قادریہ
زاہدوں جیسا لباس پہننے سے زہد حاصل نہیں ہوتا:
حضرت عیسی علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب کوئی خوشبو آپ کے ناک میں پہنچتی تھی تو آپ اپنی ناک بند کر لیتے اور فرماتے: یہ بھی دنیا ہی سے ہے ۔ اپنے اقوال وافعال میں زہد کا دعوی کرنے والو! یہ تم پر تہمت ہے، زاہدوں جیسا لباس تو پہن لیا جبکہ تمہارے باطن دنیا کی رغبت اور حسرت سے پر ہیں۔ اگر تم یہ کپڑے اتارڈ الواور تمہارے دلوں میں جو رغبت ہے،اسے ظاہر کرو تو تمہارے لئے اچھا ہو، اور ایسا کرنا تمہیں نفاق سے دور لے جا تا ۔ جو شخص اپنے زہد میں سچا ہے، اس کا نصیب اسے ملتا ہے، اسے حاصل کر کے اپنے ظاہر کو اس سے آراستہ کرتا ہے، اس حال میں اس کا دل دنیاوی زہد اور اس کے سوا دوسری چیزوں سے بے رغبتی سے بھرا ہوا ہوتا ہے، اس لئے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ حضرت عیسی علیہ السلام اور تمام دوسرے انبیاء کرام سے زیادہ زاہد تھےسوائے اس کےکہ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: إِنَّمَا ‌حُبِّبَ ‌إِلَيَّ مِنْ ‌دُنْيَاكُمُ النِّسَاءُ، وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ تین چیز یں تمہاری دنیا سے میری محبوب بنائی گئیں: خوشبو عورتیں، میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں کی گئی۔“ یہ چیز یں باوجود آپ ﷺ کی بے رغبتی کے ( ان چیزوں میں اور دوسری چیزوں میں آپ کی محبوب بنائی گئیں۔ کیونکہ یہ آپ کے نصیب میں پہلے ہی علم الہی میں مقرر ہو چکا تھا، آپ ﷺ ان کو اتباع امر کے لئے حاصل کرتے تھے۔ اور امر کا بجالا نا اطاعت و عبادت ہے، جو شخص اس صفت پر اپنا نصیب حاصل کرے، عبادت ہی میں ہے، اگر چہ ساری دنیا سے نفع حاصل کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔
اے جہالت کے قدموں پر زاہد بننے والو! سنو اور تصدیق کرو، جھٹلاؤ نہیں ،اس زہد کو یکھوتا کہ اپنی جہالت کی بنا پر تقدیر کا رد نہ کرنے لگو ۔جوشخص علم سے جاہل ہے اور اپنی رائے کے ساتھ بے پرواہ ہو رہا ہے، اور اپنے نفس اور حرص اور شیطان کے کلام کوقبول کرتا ہے، وہ ابلیس کا بندہ اور اس کا تابعدار ہے۔اس لئے ابلیس کو اپنا پیر بنا رکھا ہے، اے جاہلو! اے منافقوا –
کس چیز نے تمہارے دل سیاہ کر دیئے ہیں ، اور کس چیز نے تمہاری ہوا گندی کر دی اور تمہاری زبان درازی اور لہجے کی سختی کتنی بڑھ گئی ہے، جن فضول باتوں میں تم مبتلا ہو، ان سب سے تو بہ کرو، اللہ اور اس کے خاص بندوں میں طعن نہ کرو، جو اللہ کو دوست رکھتے ہیں اور اللہ ان کو دوست رکھتا ہے، اور ان پر دنیا میں جو نصیب لکھ دیا گیا ہے، اسے حاصل کرنے پر ۔ ان پر اعتراض نہ کرو، کیونکہ وہ امر سے حاصل کرتے ہیں اپنے خواہش سے نہیں ، اولیاء اللہ کے پاس محبت الہی اور اس کا شوق ہے، ماسوی اللہ سے بے رغبتی ہے، اور ظاہر باطن سب سے منہ پھیر کر بے قرار ہیں ۔ لیکن نصیب لکھنے والے نے ازل سے ان کا نصیب لکھ دیا ہے جن کا کھانا ان کے لئے ضروری ہو گیا ہے۔ ان کے لئے دنیا میں قیام ، دنیا کی رہائش اور دنیاوی چیزوں کا استعمال اورجھٹلانے والوں کو دیکھنا بہت ہی سخت مصیبت ہے۔ ظاہری نیت کو چھوڑ کر باطن میں مشغول ہو:
اے بیٹا! جب تک تو اپنے نفس اور خواہشوں کے گھیرے میں ہے ،خلقت سے کلام کرنا چھوڑ دے، بولنے سے مرجا کیونکہ اللہ تعالی تم سے جب کسی امر کا ارادہ کرے گا تو تمہیں اس کے لئے تیار کر دے گا، جب چاہے گا تجھے زندگی بخش دے گا اور تجھے ثابت قدم کر دے گا اور تجھے کلام کرنے کے لائق بنا دے گا ، اس صورت میں وہی ظاہر کرنے والا ہے تو نہیں ، تو اپنی جان اور کلام اور سب احوال اس کی قدر کے سپرد کر دے اور اس کے عمل میں مشغول ہو، تو عمل بغیر کلام، اخلاص بغیر ریاء -توحید بغیر شرک گمنامی بغیر ذکر خلوت اخیر جلوت، باطن بغیر ظاہر ہو جا۔ ظاہری نیت کو چھوڑ کر باطن میں مشغول ہو تو اللہ تعالی کو مخاطب کرتا ہے، اورإِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (ہم تیری، ہی عبادت کرتے ہیں اور تیری ہی مدد چاہتے ہیں ۔ میں تو اس کی طرف اشارہ کرتا ہے، یہ حاضر کے لئے خطاب ہے ۔ گویا تو کہتا ہے:
اے میرے نزدیک! اے مجھے جاننے والے!،اے مجھ سے قریب! اے میرے اوپر گواہ!، اپنی نمازوں اور دیگر حالات میں اسے اس نیت اور اس صفت سے مخاطب کرو۔ اس لئے رسول اکرم ﷺ نےارشاد فرمایا: أَنْ ‌تَعْبُدَ ‌اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ’’اللہ کی عبادت کرو گویا کرتم اسے دیکھتے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھتے ، وہ توتجھے دیکھتا ہے۔
رب کی پہچان کے لئے رزق حلال ضروری ہے:
بیٹا ! رزق حلال سے اپنے دل کی صفائی کرو،تو بے شک اپنے رب کو پہچان لو گے۔ اپنے لقمے ،اپنے کپڑے اور اپنے دل کو صاف کر دتو صفائی والے ہو جاؤ گے، تصوف لفظ صفا سے نکلا ہے، نہ کہ صوف کے پہننے والے سے ، سچا صوفی جو اپنے دعوی تصوف میں صادق ہوتا ہے، وہ اپنے دل کو ماسوا اللہ سے صاف کر لیتا ہے، یہ بات لباس بدلنے سے ، اور چہرے زرد کرنے سے اور میل کچیل جمع کرنے اور نیک لوگوں کی حکایتیں بیان کرنے سے ، اورتسبیح و تہلیل میں انگلیاں ہلانے سے حاصل نہیں ہوتی ہے ۔ اس کا حصول طلب صادق اور دنیا سے بے رغبتی اور خلقت کو دل سے نکال دینے اور اسے ماسوی اللہ سے خالی کر کے ہوتا ہے ۔
ایک اہل اللہ سے روایت ہے، انہوں نے ارشادفرمایا: بعض راتوں میں میں نے سوال کیا: ”اے اللہ ! جو چیز میرے لئے نفع بخش ہے، اور مجھے نقصان نہ دے، اس سے محروم نہ کر ‘‘۔ اس کو بار بار دہرا تارہا، پھر میں سو گیا اور خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا مجھے کہتا ہے: جوبھی عمل تیرے لئے نفع بخش ہے اسے کئے جا، اور جو نقصان دہ ہے، اسے نہ کر ‘‘ اپنی نسبتوں کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صحیح کرو، جس کی تابعداری صحیح ہوئی اس کی نسبت صحیح ہوئی اورتمہارا یہ کہنا کہ میں آپ کی امت سے ہوں ، تابعداری کے بغیر کچھ نفع نہ دے گا۔ جب تم رسول الله ﷺکے اقوال وافعال میں تابعداری کرو گے تو دار آخرت میں آپ ﷺ کی صحبت میں رہوگے۔ کیا تم نے اللہ تعالی کا یہ ارشاد نہیں سنا
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ ‌فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا اور رسول اللہ جو چیز تمہیں عنایت فرمائیں، لے لو، اور جس چیز سے منع کر میں رک جاؤ۔“جس چیز کے کرنے کا حکم ہے اسے بجالاؤ، اور جس چیز سے منع کیا ہے منع ہو جاؤ ، اس صورت میں اپنے دلوں کے ساتھ دنیا میں قریب ہو جاؤ گے، اور آخرت میں اپنے نفسوں اور جسموں کے ساتھ قریب ہوگے۔ اے زاہدو! اپنے نفسوں اور خواہشوں سے زہد کر کے اپنی رائے پر ضد کئے بیٹھے ہو، اسے مستقل سمجھتے ہو، تابعداری کرو اور ان مشائخ و عارفان الہی کی صحبت اختیار کرو جو عالمان باعمل ہیں، اور نصیحت کے لئے خلقت کی طرف توجہ رکھتے ہیں، وہ اپنے دلوں سے دنیا کی طمع کو زائل کر چکے ہیں ، اور اپنے دلوں کو تم سے پھیر کر اللہ کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ و ہ خود بھی اللہ ہی پر توجہ کرنے والے ہیں، اور غیر سے نفرت رکھتے ہیں۔
خوف اور امید کی کشمکش اور سلامتی :
بیٹا! اپنی ہستی کے مٹ جانے سے پیشتر اپنے دل کے ساتھ رب کی طرف رجوع کر، تو تو صالحین کے حالات میں اور ان کے تذکره اور ان کی تمنا پر قناعت کر بیٹھا ہے، اور تیری مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص پانی کومٹھی میں لے کر اپنا ہاتھ کھولے تو کچھ بھی نہ پائے ، ایسانہ بن۔ تجھ پرافسوس ہے کہ تو سمجھتا نہیں ) آرزوتو حماقت کا جنگل ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: إياك والتمنى فإنه وادى الحمق ’’اپنے آپ کو آ رزو سے بچاؤ کیونکہ وہ حماقت کا جنگل ہے ۔‘‘ شریروں کے کام کرتے ہو اور بھلائی والوں کے درجات کی آرزو رکھتے ہو، جس کی امید خوف پر غالب آئی وہ بے ین بنا اور جس کا خوف امید پر غالب آ یا ، وہ مایوس ہوا، سلامتی ،خوف اور امید کے درمیان ہے ۔ رسول کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
لو وزن حرف المؤمن ورجاله لاعتدلا ”اگر ایمان والے کا خوف اور امید تو لے جائیں تو دونوں برابر اتر یں گئے ۔“ ایک ولی اللہ نے ارشادفرمایا کہ میں نے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کو وصال کے بعد خواب میں دیکھا۔ میں نےعر ض کیا کہ اللہ تعالی نے آپ کے ساتھ کیا برتا ؤ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک قدم پل صراط پر رکھا، دوسرا جنت میں۔ اللہ کا آپ پر سلام ہو، آپ فقیہ اور زاہداور پرہیز گار تھے، آپ نے علم پڑھا اور اس پر عمل کیا، علم کا حق عمل سے پورا کیا ، اور عمل کا حق اخلاص سے ادا کیا ۔ اور اللہ نے ان کا حق اپنی رضا کی صورت میں ادا کیا، جوان کا مقصود تھا ،ر سول اکرم ﷺ کی تابع داری کے باعث آپ کی خوشنودی نصیب ہوئی۔ اسی لئے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ ﷺ کی متابعت کی ، ان پر اور تمام صالحین پر اور ہم سب پر بھی اللہ کی رحمت نازل ہو ۔ جوشخص رسول اللہ ﷺ کی اتباع نہ کرے اور شریعت کو ایک ہاتھ میں اور قرآن مجید کو دوسرے ہاتھ میں نہ پکڑے، اور ان کے طریقے سے اللہ کی طرف نہ پہنچے تو خود بھی گمراہ اور ہلاک ہو گا ، اور دوسروں کو بھی گمراہ اور ہلاک کرے (خود بہکا ہے اور دوسرے کو بہکاتا ہے )۔ قرآن وحدیث دونوں حق تعالی کی طرف راستے ہیں ۔ قرآن مجید اللہ کا پتہ دیتا ہے اور سنت رسول اللہﷺکی طرف راستہ دکھاتی ہے۔
دعا یہی ہے اللهم باعد بيننا وبين نفوسنا ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی ہم میں اور ہمارے نفسوں میں دوری ڈال دے اور ہم کو دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔ آمین!
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 182،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 108دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
چھبیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پچیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الخامس والعشرون فی الزہد فی الدنیا ‘‘ ہے۔
منعقدہ 19ذی الحج 545بمقام مدرسہ قادریہ
زاہدوں جیسا لباس پہننے سے زہد حاصل نہیں ہوتا:
حضرت عیسی علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب کوئی خوشبو آپ کے ناک میں پہنچتی تھی تو آپ اپنی ناک بند کر لیتے اور فرماتے: یہ بھی دنیا ہی سے ہے ۔ اپنے اقوال وافعال میں زہد کا دعوی کرنے والو! یہ تم پر تہمت ہے، زاہدوں جیسا لباس تو پہن لیا جبکہ تمہارے باطن دنیا کی رغبت اور حسرت سے پر ہیں۔ اگر تم یہ کپڑے اتارڈ الواور تمہارے دلوں میں جو رغبت ہے،اسے ظاہر کرو تو تمہارے لئے اچھا ہو، اور ایسا کرنا تمہیں نفاق سے دور لے جا تا ۔ جو شخص اپنے زہد میں سچا ہے، اس کا نصیب اسے ملتا ہے، اسے حاصل کر کے اپنے ظاہر کو اس سے آراستہ کرتا ہے، اس حال میں اس کا دل دنیاوی زہد اور اس کے سوا دوسری چیزوں سے بے رغبتی سے بھرا ہوا ہوتا ہے، اس لئے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ حضرت عیسی علیہ السلام اور تمام دوسرے انبیاء کرام سے زیادہ زاہد تھےسوائے اس کےکہ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: إِنَّمَا ‌حُبِّبَ ‌إِلَيَّ مِنْ ‌دُنْيَاكُمُ النِّسَاءُ، وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ تین چیز یں تمہاری دنیا سے میری محبوب بنائی گئیں: خوشبو عورتیں، میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں کی گئی۔“ یہ چیز یں باوجود آپ ﷺ کی بے رغبتی کے ( ان چیزوں میں اور دوسری چیزوں میں آپ کی محبوب بنائی گئیں۔ کیونکہ یہ آپ کے نصیب میں پہلے ہی علم الہی میں مقرر ہو چکا تھا، آپ ﷺ ان کو اتباع امر کے لئے حاصل کرتے تھے۔ اور امر کا بجالا نا اطاعت و عبادت ہے، جو شخص اس صفت پر اپنا نصیب حاصل کرے، عبادت ہی میں ہے، اگر چہ ساری دنیا سے نفع حاصل کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔
اے جہالت کے قدموں پر زاہد بننے والو! سنو اور تصدیق کرو، جھٹلاؤ نہیں ،اس زہد کو یکھوتا کہ اپنی جہالت کی بنا پر تقدیر کا رد نہ کرنے لگو ۔جوشخص علم سے جاہل ہے اور اپنی رائے کے ساتھ بے پرواہ ہو رہا ہے، اور اپنے نفس اور حرص اور شیطان کے کلام کوقبول کرتا ہے، وہ ابلیس کا بندہ اور اس کا تابعدار ہے۔اس لئے ابلیس کو اپنا پیر بنا رکھا ہے، اے جاہلو! اے منافقوا –
کس چیز نے تمہارے دل سیاہ کر دیئے ہیں ، اور کس چیز نے تمہاری ہوا گندی کر دی اور تمہاری زبان درازی اور لہجے کی سختی کتنی بڑھ گئی ہے، جن فضول باتوں میں تم مبتلا ہو، ان سب سے تو بہ کرو، اللہ اور اس کے خاص بندوں میں طعن نہ کرو، جو اللہ کو دوست رکھتے ہیں اور اللہ ان کو دوست رکھتا ہے، اور ان پر دنیا میں جو نصیب لکھ دیا گیا ہے، اسے حاصل کرنے پر ۔ ان پر اعتراض نہ کرو، کیونکہ وہ امر سے حاصل کرتے ہیں اپنے خواہش سے نہیں ، اولیاء اللہ کے پاس محبت الہی اور اس کا شوق ہے، ماسوی اللہ سے بے رغبتی ہے، اور ظاہر باطن سب سے منہ پھیر کر بے قرار ہیں ۔ لیکن نصیب لکھنے والے نے ازل سے ان کا نصیب لکھ دیا ہے جن کا کھانا ان کے لئے ضروری ہو گیا ہے۔ ان کے لئے دنیا میں قیام ، دنیا کی رہائش اور دنیاوی چیزوں کا استعمال اورجھٹلانے والوں کو دیکھنا بہت ہی سخت مصیبت ہے۔ ظاہری نیت کو چھوڑ کر باطن میں مشغول ہو:
اے بیٹا! جب تک تو اپنے نفس اور خواہشوں کے گھیرے میں ہے ،خلقت سے کلام کرنا چھوڑ دے، بولنے سے مرجا کیونکہ اللہ تعالی تم سے جب کسی امر کا ارادہ کرے گا تو تمہیں اس کے لئے تیار کر دے گا، جب چاہے گا تجھے زندگی بخش دے گا اور تجھے ثابت قدم کر دے گا اور تجھے کلام کرنے کے لائق بنا دے گا ، اس صورت میں وہی ظاہر کرنے والا ہے تو نہیں ، تو اپنی جان اور کلام اور سب احوال اس کی قدر کے سپرد کر دے اور اس کے عمل میں مشغول ہو، تو عمل بغیر کلام، اخلاص بغیر ریاء -توحید بغیر شرک گمنامی بغیر ذکر خلوت اخیر جلوت، باطن بغیر ظاہر ہو جا۔ ظاہری نیت کو چھوڑ کر باطن میں مشغول ہو تو اللہ تعالی کو مخاطب کرتا ہے، اورإِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (ہم تیری، ہی عبادت کرتے ہیں اور تیری ہی مدد چاہتے ہیں ۔ میں تو اس کی طرف اشارہ کرتا ہے، یہ حاضر کے لئے خطاب ہے ۔ گویا تو کہتا ہے:
اے میرے نزدیک! اے مجھے جاننے والے!،اے مجھ سے قریب! اے میرے اوپر گواہ!، اپنی نمازوں اور دیگر حالات میں اسے اس نیت اور اس صفت سے مخاطب کرو۔ اس لئے رسول اکرم ﷺ نےارشاد فرمایا: أَنْ ‌تَعْبُدَ ‌اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ’’اللہ کی عبادت کرو گویا کرتم اسے دیکھتے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھتے ، وہ توتجھے دیکھتا ہے۔
رب کی پہچان کے لئے رزق حلال ضروری ہے:
بیٹا ! رزق حلال سے اپنے دل کی صفائی کرو،تو بے شک اپنے رب کو پہچان لو گے۔ اپنے لقمے ،اپنے کپڑے اور اپنے دل کو صاف کر دتو صفائی والے ہو جاؤ گے، تصوف لفظ صفا سے نکلا ہے، نہ کہ صوف کے پہننے والے سے ، سچا صوفی جو اپنے دعوی تصوف میں صادق ہوتا ہے، وہ اپنے دل کو ماسوا اللہ سے صاف کر لیتا ہے، یہ بات لباس بدلنے سے ، اور چہرے زرد کرنے سے اور میل کچیل جمع کرنے اور نیک لوگوں کی حکایتیں بیان کرنے سے ، اورتسبیح و تہلیل میں انگلیاں ہلانے سے حاصل نہیں ہوتی ہے ۔ اس کا حصول طلب صادق اور دنیا سے بے رغبتی اور خلقت کو دل سے نکال دینے اور اسے ماسوی اللہ سے خالی کر کے ہوتا ہے ۔
ایک اہل اللہ سے روایت ہے، انہوں نے ارشادفرمایا: بعض راتوں میں میں نے سوال کیا: ”اے اللہ ! جو چیز میرے لئے نفع بخش ہے، اور مجھے نقصان نہ دے، اس سے محروم نہ کر ‘‘۔ اس کو بار بار دہرا تارہا، پھر میں سو گیا اور خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا مجھے کہتا ہے: جوبھی عمل تیرے لئے نفع بخش ہے اسے کئے جا، اور جو نقصان دہ ہے، اسے نہ کر ‘‘ اپنی نسبتوں کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صحیح کرو، جس کی تابعداری صحیح ہوئی اس کی نسبت صحیح ہوئی اورتمہارا یہ کہنا کہ میں آپ کی امت سے ہوں ، تابعداری کے بغیر کچھ نفع نہ دے گا۔ جب تم رسول الله ﷺکے اقوال وافعال میں تابعداری کرو گے تو دار آخرت میں آپ ﷺ کی صحبت میں رہوگے۔ کیا تم نے اللہ تعالی کا یہ ارشاد نہیں سنا
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ ‌فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا اور رسول اللہ جو چیز تمہیں عنایت فرمائیں، لے لو، اور جس چیز سے منع کر میں رک جاؤ۔“جس چیز کے کرنے کا حکم ہے اسے بجالاؤ، اور جس چیز سے منع کیا ہے منع ہو جاؤ ، اس صورت میں اپنے دلوں کے ساتھ دنیا میں قریب ہو جاؤ گے، اور آخرت میں اپنے نفسوں اور جسموں کے ساتھ قریب ہوگے۔ اے زاہدو! اپنے نفسوں اور خواہشوں سے زہد کر کے اپنی رائے پر ضد کئے بیٹھے ہو، اسے مستقل سمجھتے ہو، تابعداری کرو اور ان مشائخ و عارفان الہی کی صحبت اختیار کرو جو عالمان باعمل ہیں، اور نصیحت کے لئے خلقت کی طرف توجہ رکھتے ہیں، وہ اپنے دلوں سے دنیا کی طمع کو زائل کر چکے ہیں ، اور اپنے دلوں کو تم سے پھیر کر اللہ کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ و ہ خود بھی اللہ ہی پر توجہ کرنے والے ہیں، اور غیر سے نفرت رکھتے ہیں۔
خوف اور امید کی کشمکش اور سلامتی :
بیٹا! اپنی ہستی کے مٹ جانے سے پیشتر اپنے دل کے ساتھ رب کی طرف رجوع کر، تو تو صالحین کے حالات میں اور ان کے تذکره اور ان کی تمنا پر قناعت کر بیٹھا ہے، اور تیری مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص پانی کومٹھی میں لے کر اپنا ہاتھ کھولے تو کچھ بھی نہ پائے ، ایسانہ بن۔ تجھ پرافسوس ہے کہ تو سمجھتا نہیں ) آرزوتو حماقت کا جنگل ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: إياك والتمنى فإنه وادى الحمق ’’اپنے آپ کو آ رزو سے بچاؤ کیونکہ وہ حماقت کا جنگل ہے ۔‘‘ شریروں کے کام کرتے ہو اور بھلائی والوں کے درجات کی آرزو رکھتے ہو، جس کی امید خوف پر غالب آئی وہ بے ین بنا اور جس کا خوف امید پر غالب آ یا ، وہ مایوس ہوا، سلامتی ،خوف اور امید کے درمیان ہے ۔ رسول کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
لو وزن حرف المؤمن ورجاله لاعتدلا ”اگر ایمان والے کا خوف اور امید تو لے جائیں تو دونوں برابر اتر یں گئے ۔“ ایک ولی اللہ نے ارشادفرمایا کہ میں نے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کو وصال کے بعد خواب میں دیکھا۔ میں نےعر ض کیا کہ اللہ تعالی نے آپ کے ساتھ کیا برتا ؤ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک قدم پل صراط پر رکھا، دوسرا جنت میں۔ اللہ کا آپ پر سلام ہو، آپ فقیہ اور زاہداور پرہیز گار تھے، آپ نے علم پڑھا اور اس پر عمل کیا، علم کا حق عمل سے پورا کیا ، اور عمل کا حق اخلاص سے ادا کیا ۔ اور اللہ نے ان کا حق اپنی رضا کی صورت میں ادا کیا، جوان کا مقصود تھا ،ر سول اکرم ﷺ کی تابع داری کے باعث آپ کی خوشنودی نصیب ہوئی۔ اسی لئے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ ﷺ کی متابعت کی ، ان پر اور تمام صالحین پر اور ہم سب پر بھی اللہ کی رحمت نازل ہو ۔ جوشخص رسول اللہ ﷺ کی اتباع نہ کرے اور شریعت کو ایک ہاتھ میں اور قرآن مجید کو دوسرے ہاتھ میں نہ پکڑے، اور ان کے طریقے سے اللہ کی طرف نہ پہنچے تو خود بھی گمراہ اور ہلاک ہو گا ، اور دوسروں کو بھی گمراہ اور ہلاک کرے (خود بہکا ہے اور دوسرے کو بہکاتا ہے )۔ قرآن وحدیث دونوں حق تعالی کی طرف راستے ہیں ۔ قرآن مجید اللہ کا پتہ دیتا ہے اور سنت رسول اللہﷺکی طرف راستہ دکھاتی ہے۔
دعا یہی ہے اللهم باعد بيننا وبين نفوسنا ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی ہم میں اور ہمارے نفسوں میں دوری ڈال دے اور ہم کو دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔ آمین!
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 182،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 108دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
ستائیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ستائیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السابع والعشرون فی النھی عن الکذب ‘‘ ہے۔
منعقدہ 7 جمادی الآخر 545 بروز جمعہ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ
ڈرنا ہے تو اللہ سے ڈر،اس کے غیر سے نہیں:
عقل سے کام لے ، جھوٹ نہ بول تو کہتا ہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، حالانکہ تو اس کے غیر سے ڈرتا ہے ۔جن اور انسان اور فرشتے سے نہ ڈر، بولنے والے اور چپ رہنے والے حیوانوں سے نہ ڈر، جو عذاب دینے والا ہے اس سے ڈر یعنی صرف اللہ سے ڈرو عقل والا اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والےکی ملامت سے نہیں ڈرتا، غیراللہ کا کلام سننے سے بہرا ہے، اس کے نزدیک تو تمام مخلوق بیما رو عاجز اور محتاج ہے، – یہ اورا ن جیسے وہ عالم ہیں کہ جن کے علم سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، جوشریعت اور حقیقت اسلام کا علم رکھتے ہیں ، وہی دین کے طبیب او راس کی شکستگی اور خرابی کو دور کرنے والے ہیں، اے شکستہ دین والے! تو ان علماء کے پاس جا تا کہ تیری شکستگی کو جوڑدیں جس نے بیماری اتاری ہے، وہی دوا نازل کرتا ہے، لوگوں کی نسبت اللہ تعالی ہی مصلحت کو خوب جاننے والا ہے تو اللہ تعالی کے اس فعل میں تہمت نہ دے، دوسرے کی نسبت اپنے نفس پر ملامت اور تہمت لگا ، یہی بہتر ہے، تو اپنے نفس سے کہدے – اللہ کی اطاعت پر عطا ہے نافرمان کے لئے عصا وسزا ہے۔ اللہ تعالی جب کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے مال وعزت واپس لے لیتا ہے، اگر وہ صبر کرے تواس کا مرتبہ بلند کر کے خوش کر دیتا ہے، اپنے کرم سے مالا مال کر دیتا ہے اور اپنی ذات میں فنا کر دیتا ہے۔ دعا یہی ہے۔
اللهم إنا نسئلك القرب منك بلا بلاء الطف بنا في قضائك وقدرك اكفنا شر الأشرار وكيـدا الـفـجـار اخـفـظــا كيف شئت و كما شئت نسئلك العفو والعافية في الدين والدنيا نسئلك التوفيق للأعمال الصالحة والأخلاص في الأعمال امين ”اے اللہ! ہم تجھ سے تیری قربت کا سوال بغیر آزمائش کے چاہتے ہیں، اپنی قضاد قدر میں ہم پر مہربانی فرما، شریروں کی شرارت اور بدکاروں کے مکر سے بچا، اور جس طرح سے اور جیسے چاہے ہماری حفاظت فرما، ہم تجھ سے دین ودنیا اور آخرت کی معافی وعافیت چاہتے ہیں ۔ نیک اعمال کی توفیق اور ان میں اخلاص عنایت فرما۔ آمین!۔
ریا کار کو اخلاص والا ہی پہچان سکتا ہے:
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا، اور دائیں بائیں دیکھنے لگا ۔ آپ نے فرمایا: تجھے کیا ہوا، کہا: اس کا ارادہ ہے نماز کے لئے پاک جگہ ڈھونڈتا ہوں‘‘ ۔ آپ نے فرمایا: ’اپنا دل صاف کرو اور جہاں چاہو نماز پڑھوریا کارکوا خلاص والے کے سوا اور کوئی نہیں پہچان سکتا، کیونکہ وہ پہلے اس میں گرفتار تھا ، اب نجات پائی ہے۔ ریا ءاولیاء اللہ کی راہ میں ایک گھاٹی ہے جس پر سے انہیں ضرور گزرنا پڑتا ہے، خودپسندی اور منافقت شیطانی تیر ہیں جنہیں وہ دلوں کی طرف برسا تا رہتا ہے، مشائخ کی بات قبول کرو اور ان سے راستہ چلنا سیکھو، جو اللہ کی طرف پہنچانے والا ہے، کیونکہ وہ ایسے راستے سے گزر چکے ہیں ۔ ان سے نفسوں اور خواہشوں اور عادات کی آفات دریافت کرو، کیونکہ وہ ان کی آفات کوجھیل چکے ہیں اور ان کی مشکلات اورسختیوں کو پہچان گئے ہیں، ایک مدت تک اس حال میں رہ کر آہستہ آہستہ انہیں مغلوب کر کے ان پر غالب اور قابض ہوئے ، شیطان کے وسوسے سے دھو کہ نہ کھا ، اس کے پھونک مارنے کے جھانسے میں نہ آ ، اور نفس کے تیروں سے شکست نہ کھا،نفس تجھ پر شیطان کے تیر چلاتا ہے نفس کے راستے ہی شیطان تجھ پر غالب آتا ہے ۔ شیطان جن ، تجھ پر شیطان انسان کے ذریعے قابو پا تا ہے، تیرانس اور وہ برے ہم نشیں ہیں، ان دشمنوں پر اللہ سے فریاد کر اور اسی سے مدد مانگ ، کیونکہ وہ تیری فریاد سنے گا۔ جب تو اسے پائے، اور جو کچھ اس کے پاس ہے، اسے دیکھ لے اور اس سے لطف اٹھائے جب اللہ کی طرف سے اہل وعیال اورمخلوق کی طرف متوجہ ہو، اور انہیں اللہ کی طرف بلا ، اور اس طرح سے پکار: وَأْتُونِي ‌بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ اہل وعیال سمیت میرے پاس چلے آؤ ۔“ حضرت یوسف علیہ السلام کی دسترس میں جب ملک و سلطنت آئے تو اپنے بھائیوں سے فرمایا کہ اپنے اہل سمیت میرے پاس چلے آؤ۔ محروم وہی ہے کہ جو اللہ سے محروم رہا، اور دنیا وآخرت میں اس سے قرب جا تارہا ،اپنی بعض کتابوں میں اللہ تعالی نےفرمایا
يا ابن آدم إن فتك فاتت كل شيء اے ابن آدم ! اگر میں نہ ملا تو تجھے کچھ بھی نہ ملا۔“
اللہ تجھے کیسے ملے، حالانکہ تو اس سے اور اس کے نیک بندوں سے اعراض کرنے والا ہے۔ انہیں اپنے قول وفعل سے تکلیف دینے والا ہے ، تو ان سے ظاہر و باطن سے اعراض کرنے والا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: أذية المؤمن أعظم عند الله من نقض الكعبة والبيت المعمور خمس عشرة مرة کسی مومن کوستانا اللہ کے نزدیک کعبہ اور بیت المعمور کے شہید کر دینے سے پندرہ گنا زیادہ گناہ ہے۔ اے اللہ کے فقیروں کو ہمیشہ ستانے والے اس حدیث کو سمجھ ، یہی لوگ اللہ پر ایمان لانے والے، نیکوکار اللہ کی معرفت رکھنے والے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنے والے ہیں ۔ تجھ پر افسوس ہے، تو عنقریب مر جائے گا، تجھے گھسیٹ کر گھر سے نکال دیا جائے گا، اور جس مال پر تو اکڑتا پھرتا ہے ،لوٹ لیا جائے گا ، نہ تجھے نفع دے گا اور نہ تجھ سے کوئی مصیبت دور کر سکے گا۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 194،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 115دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
اٹھائیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ستائیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السابع والعشرون فی النھی عن الکذب ‘‘ ہے۔
منعقدہ 7 جمادی الآخر 545 بروز جمعہ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ
ڈرنا ہے تو اللہ سے ڈر،اس کے غیر سے نہیں:
عقل سے کام لے ، جھوٹ نہ بول تو کہتا ہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، حالانکہ تو اس کے غیر سے ڈرتا ہے ۔جن اور انسان اور فرشتے سے نہ ڈر، بولنے والے اور چپ رہنے والے حیوانوں سے نہ ڈر، جو عذاب دینے والا ہے اس سے ڈر یعنی صرف اللہ سے ڈرو عقل والا اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والےکی ملامت سے نہیں ڈرتا، غیراللہ کا کلام سننے سے بہرا ہے، اس کے نزدیک تو تمام مخلوق بیما رو عاجز اور محتاج ہے، – یہ اورا ن جیسے وہ عالم ہیں کہ جن کے علم سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، جوشریعت اور حقیقت اسلام کا علم رکھتے ہیں ، وہی دین کے طبیب او راس کی شکستگی اور خرابی کو دور کرنے والے ہیں، اے شکستہ دین والے! تو ان علماء کے پاس جا تا کہ تیری شکستگی کو جوڑدیں جس نے بیماری اتاری ہے، وہی دوا نازل کرتا ہے، لوگوں کی نسبت اللہ تعالی ہی مصلحت کو خوب جاننے والا ہے تو اللہ تعالی کے اس فعل میں تہمت نہ دے، دوسرے کی نسبت اپنے نفس پر ملامت اور تہمت لگا ، یہی بہتر ہے، تو اپنے نفس سے کہدے – اللہ کی اطاعت پر عطا ہے نافرمان کے لئے عصا وسزا ہے۔ اللہ تعالی جب کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے مال وعزت واپس لے لیتا ہے، اگر وہ صبر کرے تواس کا مرتبہ بلند کر کے خوش کر دیتا ہے، اپنے کرم سے مالا مال کر دیتا ہے اور اپنی ذات میں فنا کر دیتا ہے۔ دعا یہی ہے۔
اللهم إنا نسئلك القرب منك بلا بلاء الطف بنا في قضائك وقدرك اكفنا شر الأشرار وكيـدا الـفـجـار اخـفـظــا كيف شئت و كما شئت نسئلك العفو والعافية في الدين والدنيا نسئلك التوفيق للأعمال الصالحة والأخلاص في الأعمال امين ”اے اللہ! ہم تجھ سے تیری قربت کا سوال بغیر آزمائش کے چاہتے ہیں، اپنی قضاد قدر میں ہم پر مہربانی فرما، شریروں کی شرارت اور بدکاروں کے مکر سے بچا، اور جس طرح سے اور جیسے چاہے ہماری حفاظت فرما، ہم تجھ سے دین ودنیا اور آخرت کی معافی وعافیت چاہتے ہیں ۔ نیک اعمال کی توفیق اور ان میں اخلاص عنایت فرما۔ آمین!۔
ریا کار کو اخلاص والا ہی پہچان سکتا ہے:
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا، اور دائیں بائیں دیکھنے لگا ۔ آپ نے فرمایا: تجھے کیا ہوا، کہا: اس کا ارادہ ہے نماز کے لئے پاک جگہ ڈھونڈتا ہوں‘‘ ۔ آپ نے فرمایا: ’اپنا دل صاف کرو اور جہاں چاہو نماز پڑھوریا کارکوا خلاص والے کے سوا اور کوئی نہیں پہچان سکتا، کیونکہ وہ پہلے اس میں گرفتار تھا ، اب نجات پائی ہے۔ ریا ءاولیاء اللہ کی راہ میں ایک گھاٹی ہے جس پر سے انہیں ضرور گزرنا پڑتا ہے، خودپسندی اور منافقت شیطانی تیر ہیں جنہیں وہ دلوں کی طرف برسا تا رہتا ہے، مشائخ کی بات قبول کرو اور ان سے راستہ چلنا سیکھو، جو اللہ کی طرف پہنچانے والا ہے، کیونکہ وہ ایسے راستے سے گزر چکے ہیں ۔ ان سے نفسوں اور خواہشوں اور عادات کی آفات دریافت کرو، کیونکہ وہ ان کی آفات کوجھیل چکے ہیں اور ان کی مشکلات اورسختیوں کو پہچان گئے ہیں، ایک مدت تک اس حال میں رہ کر آہستہ آہستہ انہیں مغلوب کر کے ان پر غالب اور قابض ہوئے ، شیطان کے وسوسے سے دھو کہ نہ کھا ، اس کے پھونک مارنے کے جھانسے میں نہ آ ، اور نفس کے تیروں سے شکست نہ کھا،نفس تجھ پر شیطان کے تیر چلاتا ہے نفس کے راستے ہی شیطان تجھ پر غالب آتا ہے ۔ شیطان جن ، تجھ پر شیطان انسان کے ذریعے قابو پا تا ہے، تیرانس اور وہ برے ہم نشیں ہیں، ان دشمنوں پر اللہ سے فریاد کر اور اسی سے مدد مانگ ، کیونکہ وہ تیری فریاد سنے گا۔ جب تو اسے پائے، اور جو کچھ اس کے پاس ہے، اسے دیکھ لے اور اس سے لطف اٹھائے جب اللہ کی طرف سے اہل وعیال اورمخلوق کی طرف متوجہ ہو، اور انہیں اللہ کی طرف بلا ، اور اس طرح سے پکار: وَأْتُونِي ‌بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ اہل وعیال سمیت میرے پاس چلے آؤ ۔“ حضرت یوسف علیہ السلام کی دسترس میں جب ملک و سلطنت آئے تو اپنے بھائیوں سے فرمایا کہ اپنے اہل سمیت میرے پاس چلے آؤ۔ محروم وہی ہے کہ جو اللہ سے محروم رہا، اور دنیا وآخرت میں اس سے قرب جا تارہا ،اپنی بعض کتابوں میں اللہ تعالی نےفرمایا
يا ابن آدم إن فتك فاتت كل شيء اے ابن آدم ! اگر میں نہ ملا تو تجھے کچھ بھی نہ ملا۔“
اللہ تجھے کیسے ملے، حالانکہ تو اس سے اور اس کے نیک بندوں سے اعراض کرنے والا ہے۔ انہیں اپنے قول وفعل سے تکلیف دینے والا ہے ، تو ان سے ظاہر و باطن سے اعراض کرنے والا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: أذية المؤمن أعظم عند الله من نقض الكعبة والبيت المعمور خمس عشرة مرة کسی مومن کوستانا اللہ کے نزدیک کعبہ اور بیت المعمور کے شہید کر دینے سے پندرہ گنا زیادہ گناہ ہے۔ اے اللہ کے فقیروں کو ہمیشہ ستانے والے اس حدیث کو سمجھ ، یہی لوگ اللہ پر ایمان لانے والے، نیکوکار اللہ کی معرفت رکھنے والے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنے والے ہیں ۔ تجھ پر افسوس ہے، تو عنقریب مر جائے گا، تجھے گھسیٹ کر گھر سے نکال دیا جائے گا، اور جس مال پر تو اکڑتا پھرتا ہے ،لوٹ لیا جائے گا ، نہ تجھے نفع دے گا اور نہ تجھ سے کوئی مصیبت دور کر سکے گا۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 194،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 115دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
انتیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے انتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس التاسع والعشرون فی عدم التواضع لغنی لاجل غناء ‘‘ ہے۔
منعقدہ 11/ جمادی الآخر 545 مقام مدرسہ قادریہ
دنیادار کی تعظیم دین کے ضیاع کا باعث ہے:
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَضَعْضَعَ لِغَنِيٍّ ‌ذَهَبَ ‌ثُلُثَا ‌دِينِهِو جو شخص کسی مال دار کے مال کی خواہش لئے اس کی تعظیم کے لئے اپنے جگہ سے اٹھا، اس کا دو تہائی دین جاتا رہا۔‘‘ منافقو سنو! یہ حال ایسے شخص کا ہے جو مال والوں کے سامنے جھکے، اور ان کی امارت کی وجہ سے اپنی جگہ سے اٹھے ،اور جو ان کے لئے نماز ، روزہ اور حج کرے، اور ان کی چوکھٹ کو بوسہ دے ، اس کا کیا حال ہوگا ۔ شرک کرنے والو! اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی تمہیں کیا خبر ہے، ایمان لاؤ اورتوبہ کرو، اور اس پر ثابت قدم رہوتا کہ تمہارا ایمان درست ہو جائے اور یقین میں استقامت ہو اور تمہاری تو حیدنشو ونما پا کر اپنی شاخیں عرش تک پھیلا دے
ایمان کی ترقی مخلوق اور کسب کمائی سے بے پرواہ کر دے گی :
اے بیٹا ! جب تیرا ایمان ترقی کر لے اور اس کا درخت بلند ہو تو اللہ تعالی تجھے اپنے آپ سے اور خلقت سے اور تیرے کسب کمائی سے بے پرواہ کر دے گا ۔ تیرے نفس اور قلب اور باطن کو سیر کر دے گا اور اپنے دروازے پر لا کھڑا کر دے گا۔ اس کے ذکر اور قرب اور انس سے تیری تنگدستی تو نگری سے بدل جائے گی ۔ جولوگ دنیا کو حاصل کرنے اور اس میں مشغول رہنے والے ہیں ، تو ان سے بے پرواہ ہو جائے گا۔ تو کسی دنیا دار کی پرواہ نہ کرے گا، دنیا دارکو تیرا دیکھنا باعث زحمت و تکلیف اور تاریکی ہوگا ،
اسے علم کا دعوی کرنے والے دنیا کو دنیا داروں سے طلب کرنے والے اور ان کے سامنے ذلالت اٹھانے والے اللہ سے علم پانے کے باوجود بہک گیا ، علم کی برکت اور اس کا مغز جا تارہا صرف چھلکا رہ گیا۔ اے عبادت الہی کا دعوی کر نے والے! تیرادل خلقت کی عبادت کرتا ہے، انہی سے خوف اور امید رکھتا ہے ۔بظاہر اللہ کی عبادت کرتا ہے، باطن میں خلقت کا بندہ ہے تیری طلب اور خواہش اور دنیا داروں کے روپے پیسے اور مال اسباب میں ہے،ان سے تعریف اور صفت وثنا کی امید رکھتا ہے، ان کی برائی اور بے رخی سے ڈرتا ہے ، ان کے دینے کا خوف رکھتا ہے، ان کے در پر بار بار جاتا ہے،ان کی خوشامد کرتا ہے نرم اور میٹھی باتیں کر کے ان سے عطا کی امید کرتا ہے ۔
تیری زبان تیری دل کی رفیق نہیں:
تجھ پر افسوس ! تو مشرک ہے، منافق ، ریا کار، بے دین مرتد ہے، تجھ پر افسوس ہے کہ اپنا کھوٹا مال کس پر پیش کر رہا ہے، جو آنکھوں کی خیانت اور سینے کے رازوں سے واقف ہے ۔ تجھ پر افسوس ! نماز میں کھڑا ہو کراللہ اکبر کہتا ہے مگرجھوٹ کہتا ہے ( تیری زبان تیرے دل کی رفیق نہیں ، تیرے دل میں مخلوق اللہ سے بڑی ہے، اللہ کے حضور میں تو بہ کراس کے سوا کسی کے لئے کوئی نیک عمل نہ کر ، نہ دنیا کے لئے نہ آخرت کے لئے ،تو ان میں سے ہو جا جو کہ صرف اللہ تعالی کے طالب ہیں ۔ربانی پرورش کا حق ادا کر ، کوئی عمل حمد وثنا اور منع وعطاکے لئے نہ کر ۔ ہرعمل کی غرض وغایت ذات الہی ہو، تجھ پر افسوس! تیرا رزق کم یا زیادہ نہیں ہوسکتا، جو بھلائی اور برائی تیرے مقدر میں لکھی جا چکی ہے، وہ تو آ کے رہے گی ۔ جس چیز سے فراغت ہے اس میں مشغول نہ ہو، اس کی عبادت میں لگارہ، اپنی حرص کو کم کر دے اور امید کو گھٹادے اور موت کو ہر وقت سامنے رکھے، یقینا نجات پائے گا ، سب احوال میں شریعت کی موافقت کر۔
شرع کی موافقت چھوڑ کر خواہشوں کے پیچھے لگ گئے ۔
اے لوگو! شرع کی موافقت سے تم محروم ہو گئے ، اپنے ظاہر و باطن کے ہاتھوں سے تم نے اسے چھوڑ دیا ، اپنے نفسوں اور خواہشوں کے پیچھے لگ رہے ہو، اللہ کی بردباری اور شفقت سے تم کس گمان میں پڑ گئے ، وہ گاہے بگاہے دن بدن تمہیں ڈھیل دیتا رہتا ہے، آخرت میں سب طرف سے مار پڑے گی ، پکڑ ہوگی اور پوچھ گچھ ہوگی، پھر موت آئے گی، قبر میں اتار دیا جائے گا قبر کی تنگی اور اس کا عذاب گھیر لیں گے، یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا، پھر دوبارہ کھڑا کر کے بڑی کچہری میں پیش کیا جائے گا۔ اس وقت ہر ایک گھڑی اور ہر ایک پل میں جو جو کچھ کیا ، ذرے ذرے کا حساب ہوگا ، چھوٹی بڑی ہر بات کا سوال ہو گا ، تو بے روح کے بت اور قوت وحقیقت کے بغیر سوکھا ہوا چمڑا ہے، تو سوائے جہنم کی آگ کے کسی قابل نہیں ۔ تیری عبادت میں اخلاص نہیں ، جب عبادت روح کے بغیر ہے تو تیری عبادت اور تو جہنم کی آگ کے سواکسی کام کے نہیں ، اخلاص کے بغیر عمل بے فائدہ ہے ۔ پھر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔تجھے ان میں سے کسی چیز سے کچھ فائدہ نہ ہوگا، تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں ارشاد الہی ہے:
انت من العاملة الناصية عاملة في الدنيا ناصبة في النار يوم القيامة یعنی کہ عمل کرنے والے مشقت اٹھانے والے وہ دنیا میں عمل کر نے والے ہیں اور قیامت کے دن مشقت اٹھانے والے ، ہاں اگر مرنے سے پہلے توبہ اور معذرت کر لے تو بہتر ہے ، اخلاص کے ساتھ تو بہ کر کے نئے سرے سے اسلام لا کر اللہ کی طرف رجوع کر ، مرنے سے پہلے ایسا کر لے ورنہ تو بہ کا دروازہ بند ہو جائے گا ، پھر اس میں داخل نہ ہو سکو گے، اس کے فضل کا دروازہ بند ہونے سے پہلے اپنے دل کے قدموں سے چل کر رجوع کر ، تجھے تیرے نفس اور قوت اور طاقت اور تیرے مال کے سپرد نہ کر دے اور پھرتجھے کسی حالت میں برکت نہ ملے۔ تجھ پر افسوس! اللہ تعالی سے شرم نہیں کرتا، تونے دینار کواپنارب اور درهم کو اپنی فکر بنالیا ہے ، اوراللہ کو بالکل ہی بھلا دیا۔ عنقریب تجھے پتہ چل جائے گا اور اپنا انجام دیکھ لے گا۔ تجھ پر افسوس! اپنی دکان اور مال کو اپنے اہل وعیال کا حصہ بنا، ان کے لئے شرع کے مطابق کمائی کر اور دل سے اللہ پر توکل کر اپنا اور اپنے کنبے کا رزق مال اور دکان کی بجائے اللہ سے طلب کر ، تمہارا اور ان کا رزق اللہ تعالی تمہارے ہاتھ پر جاری فرما دے گا۔ اور تمہارے دل کو اس کا فضل اور قرب اورانس ملے گا۔ تمہارا کنبہ تم سے ، اورتم اللہ کی رحمت سے تو نگر ہو جاؤ گے، وہ انہیں جس چیز کے ساتھ اور جس طرح سے چاہے تو نگر کر دے گا ،۔ اور تیرے دل سے ارشاد ہوگا: یہ دل کی بے نیازی تیرے لئے ، اور ظاہری مال تیرے کنبے کے لئے ہے۔
مگر تجھے یہ بات کیسے نصیب ہو، ساری عمرتو شرک میں گزری، حجاب میں اور راندہ درگاہ رہے، دنیا اور اس کے جمع کرنےسے تیرا جی نہیں بھرا۔ اپنے دل کے دروازے کو بند کر دے تا کہ کوئی بھی دنیادی چیز اس میں داخل ہونے سے مایوس ہوجائے ، اس میں صرف اور صرف اللہ کی یاد کا گزر ہو، اپنے برے اعمال سے توبہ در توبہ کرو، اور پشیمان وشرمندہ ہو اپنی اکڑ اور بے ادبی پر شرمسار ہے۔۔۔ اور جو کچھ ہاتھ سے ہوا، اسے یاد کر کے رویا کر ، بخیلی چھوڑ دے اور اپنے کچھ مال سے فقیروں کی غم خواری کرتارہ ،تو عنقریب اپنے مال سے جدا ہو جائے گا، ایمان والا اور یقین والا اس عمل سے کوتاہی وبخیلی نہیں کرتا، جس کا اجر دنیا وآخرت میں ملنا ہے، جو کہ اس نعمت کا بدل ہے ۔
بخیل و فاسق سخی ، شیطان کے محبوب ومبغوض :
حضرت عیسی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے ابلیس لعین سے پوچھا کہ مخلوق میں تیرا سب سے زیادہ محبوب شخص کون ہے؟‘‘ اس نے کہا: ”ایمان والا جو بخیل ہو – آپ نے پوچھا: ” تیرے نزدیک سب سے برا کون ہے؟‘‘ اس نے کہا:’’ فاسق سخی آپ نے دریافت فرمایا: کہ ایسا کیوں؟ اس نے جواب دیا: ’’ایمان والے بخیل سے مجھے امید ہے کہ اس کا بخل ایک نہ ایک دن اسے گناہ میں مبتلا کر دے گا ۔ اور سخی فاسق کے بارے میں خوف ہے کہ اس کی سخاوت سے اس کے گناہ نہ مٹ جائیں ‘‘ تو دنیا میں دنیا کے لئے مشغول نہ ہو، کسب کو مشروع اس لئے کیا گیا تا کہ اس کے ذریعے اللہ تعالی کی عبادت پر مدد حاصل کی جائے ، تم جب کماتے ہو تو اس سے گناہ پر مددحاصل کر تے ہو نماز اور نیکی کے کام چھوڑ دیتے ہو نہ زکوۃ نکالتے ہو، لہذا تم گناہ میں لگے رہے نہ کہ عبادت میں تمہاری کمائی رہزنی کی مثل ہوگی عنقریب موت آئے گی تو ایمان والا اس سے خوش ہوگا، کافر اور منافق اس سے غم میں ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: إذا مات المؤمن يتمنى أنه ما كان في الدنيا ولا ساعة لما يرى من كرامة الله عز وجل له ه ایمان والا مرنے کے بعد اللہ تعالی کی جوعنایتیں دیکھتا ہے، پھر یہی تمنا کرتا ہے کہ دنیا میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہ ٹھہرتا کہاں ہے اللہ سے حیا کرنے والا، سب احوال میں اس کی طرف دھیان کرنے والا کہاں ہے حرام چیزوں سے بچنے والا ، کہاں ہیں تو بہ کر کے اس پر قائم رہنے والا ، کہاں ہے خلوت وجلوت میں محروموں سے پارسائی کرنے والا ۔ کہاں ہے اپنے دل اور بدن کی نگاہ نیچی رکھنے والا!1
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ذی شان ہے
إن العينين لتزنيان وزناهما النظر إلى المحرمات آنکھیں بھی ضرورز نا کرتی ہیں، ان کا زنا حرام ( اجنبی عورتوں کی طرف دیکھنا ہے۔“ اے مخاطب! تیری آنکھیں ( اجنبی ) غیر محرم عورتوں اور نوخیز لڑکوں کو دیکھ کر کس قدرز نا کرتی ہیں۔ تو نے یہ ارشاد باری تعالی نہیں سنا:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ ‌يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ و اے محبوب! ایمان والوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظر میں جھکائے رکھیں۔‘‘
دنیا کی تلخی آخرت کی نعمتوں کے لئے پی جاؤ:
اے فقر والے دنیا کی تنگی پرصبرکر ، یہ چند روزہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے ارشادفرمایا: دنیا کی تلخی کوآ خرت کی نعمتوں کے لئے شوق میں گھونٹ گھونٹ کر کے پی جاؤ‘‘ تم نہیں جانتے کہ اولیاء اللہ کے نزدیک تمہارا کیا نام ہے: نیک بخت یا بد بخت ، یہ تو اللہ کے علم ہے اور سابقہ تقدیر میں لکھ دیا گیا لیکن تو نڈرنہ بن ، اوراللہ کے علم اور سابقے پر بھروسہ نہ کر ، کیونکہ اس طرح تو شرعی حد سے نکل جائے۔ گا، تجھے جو حکم ملا ہے، اس پرعمل کرنے کی ہرممکن کوشش کر سابق علم سے تجھے کیا غرض، یہ توغیبی بات ہے جسے نہ تو جانتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا جانتا ہے ۔
اللہ والوں نے بستر باندھ دیا اور دنیا سے الگ ہو گئے ،مولی کے حضور میں حاضر ہو کر دوسرے خداموں کے ساتھ خدمت میں لگے ہیں، وہ دنیا سے جو بھی لیتے ہیں زادراہ کی مثل لیتے ہیں ، مزے اڑانے کے لئے نہیں، صرف ضرورت کے ابدان عبادت الہی پر قائم کر لیں، اور شیطان کے مکر وفریب سے اپنی شرمگاہوں کو بچاسکیں ۔ ایسا کرنے میں بھی حکم الہی کی تعمیل ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی اتباع ہے، ان کی ساری کارگزاری اللہ کے حکم اور سنت رسول اکرم ﷺ کی پابندی ہے، اس کے باوجود ان سب مراحل میں نور ہمت سے بلند حوصلہ اور زہد میں قوی ہیں
دعا یہی ہے
اللهم اجعلنا منهم واعد علينا من بركاتهم آمین!الہی! ہمیں انہی میں سے کر ، اور ان کی برکتوں سے ہمیں بھی عطافرما‘‘
دنیا کی رغبت حائل ہے:
بیٹا! تیرے دل میں جب تک دنیا کی رغبت ہے، تو صالحین کے احوال کو نہیں پہنچ سکتا ، ۔ جب تک مخلوق کے آگے ہاتھ پھیلاتا رہے گا، ان کے ساتھ شرک کرتا رہے گا اور دکھ اٹھاتا رہے گا ، تیرے دل کی آنکھیں نہ کھلیں گی جب تک تو دنیا اور مخلوق سے بے رغبت نہ ہو جائے ، تیرا کچھ کہنا کچھ وزن نہیں رکھتا۔ کوشش کر کہ تجھے وہ دکھائی دینے لگے جو غیر کو دکھائی نہیں دیتا، خلاف عادت کے ظاہر ہونے سے تو صاحب کرامت ہو جائے۔اپنے حساب میں آنے والے کو چھوڑ دے، اور وہ کچھ پالے جو تیرے حساب میں نہیں ۔ اللہ پر بھروسہ کرو ،خلوت اور جلوت میں اس سے ڈرو، تو ایسی جگہ سے رزق دے گا کہ جس کا تمہیں بھی گمان بھی نہ تھا۔ شروع میں دنیا کو چھوڑ نے اور خواہشیں ترک کرنے سے دل کو تکلیف تو ہوگی ، آخر میں اس کے حصول سے تکلیف اٹھانا ہو اس سے گی۔ پہلی حالت پرہیز گاروں کے لئے ہے، اور دوسری حالت ابدال کے لئے جو کہ طاعت الہی تک پہنچنے والے ہیں۔
اے ریا کار! اے منافق! اے مشرک!، ان سے مزاحمت نہ کر کہ کس چیز کو چھوڑا جاتا ہے، وہ تو گنتی کے لوگ ہیں۔ تو ان کے احوال نہ پوچھ تیرے ہاتھ کیا آئے گا ۔ انہوں نے اپنی عادتوں کے خلاف کیا اور تو نے اپنی عادتیں ویسے ہی رکھیں ۔ اس لئے ان سے کرامتیں ظاہر ہوئیں اور تجھ سے ہیں ۔
تو سوتار ہاوہ قیام کرتے رہے۔ تو کھانے میں رہا، وہ روزے میں رہے، تو چین سے رہا، وہ ڈرتے رہے، تیرے ڈرنے کے وقت وہ امن سے رہے۔ تیرے بخل کے وقت انہوں نے خرچ کیا۔ ان کے سارے کام اللہ کے لئے ، تیرا ہرعمل غیر کے لئے ، انہوں نے اللہ کو چاہا اور تو نے غیر کو -انہوں نے سب کچھ اللہ کے سپرد کیا ، اورتونے اس سے لڑائی جھگڑا کیا۔ وہ اس کی رضا میں راضی رہے اورغنی ہوئے ، انہوں نے مخلوق سے گلہ شکوہ کرنے والی زبانیں کاٹ ڈالیں ،تو نے ایسا نہ کیا، انہوں نے زمانے کی سختی وتلخی پر صبر کیا ،صبر ورضا سے وہی شیر ینی بن گئی۔ – تقدیر کی چھریاں ان کے گوشت کاٹتی رہیں، وہ لا پرواہ رہے،نہ غم ناک ہوئے۔
ان کی نظر تو صرف رنج دینے والے کو دیکھتی ہے ، وہ اس کے ساتھ مد ہوش ہیں مخلوق ان سے چین میں ہے ،ان کے ہاتھوں کوئی دکھی نہیں ، ارشاد ہے کہ ابرار وہی ہیں جو کہ ذراسی چیونٹی کو بھی دکھ نہیں دیتے ، ابرار اطاعت کے ساتھ اللہ سے واصل ہیں ، خلقت سے نیک برتاؤ اور اہل خانہ سے بہتر سلوک کرتے ہیں دنیا وآخرت میں نعمتوں میں ہیں، دنیا میں قرب الہی کی نعمت ، اور آخرت میں جنت کی نعمت اور دیدار الہی اور اس کے کلام کی ساعت اور خلعت الہی کا پہننا ہے، تیرا، ان کا کیا جوڑ ، گناہوں سے توبہ کر اللہ سے بے حیائی اور ڈھٹائی چھوڑ دے۔ تجھ پر افسوس !شرم وحیا تو اللہ سے ہوتی ہے مخلوق سے نہیں، اللہ کی ذات تو ہر شے سے پہلے ہے، اور مخلوق حادث ہےجس سے تو شرماتا ہے، اور اللہ جو قدیم ہے اس سے بے شرمی کرتا ہے ۔ اللہ کریم ہے،اس کا غیر بخیل ہے، وہی غنی ہے،اس کا غیرمحتاج اور تنگ دست ،اس کی عادت عطا ہے، اور غیر کی عادت بخل و مناهی ، اپنی سب حاجتیں اس کے پاس لے جا،وہ غیر سے اچھا ہے ، اس کی کاری گری سے اس پر دلیل پکڑ ، شرعی حدود کا پاس کر، اس کا تقوی لازم پکڑ تقوی پر مداومت سے اس تک رسائی ہے ۔ مصنوع کو چھوڑ کر صانع میں مشغول ہو، اس کی راہ تلاش کر ، اس کی طلب کر ،دنیا و آخرت کو چھوڑ دے، ان میں سے تجھے جو ملتا ہے مل کر ہی رہے گا ،کہیں جانے کانہیں ماسوی اللہ کو چھوڑ دینا تیرے دل کی کدورتیں صاف کر دے گا ۔ تیرادل اگر اس کی طرف رہنمائی نہ کرے تو تو چوپایوں کی طرح بے عقل ہے، تو دنیا سے اٹھ کھڑا ہو اور عقل والوں کے پاس آ ، جن کی عقلیں اللہ کی طرف ان کی رہنما ہوئیں، ان سے عقل سیکھ، اس سے اپنے نفس ۔ اور رب کی معرفت حاصل کر ۔
دین رہے یا جائے ، کچھ پروا نہیں کیسی بے حسی ہے:
تجھ پر افسوس! تیری عمر کا ضیاع ہورہا ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں ، آخرت سے اعراض اور دنیا کی طرف توجہ کب تک رہے گی ، تجھ پر افسوس ! تیرا رزق کوئی اور نہ کھائے گا، جنت یا دوزخ میں جہاں بھی تیرا ٹھکانہ ہے کوئی اور نہ وہاں ٹھہرے گا، تجھے غفلت نے گھیر لیا ہے اور خواہش نے اسیر کر لیا ہے ، تیرا سارا فکر کھانے پینے نکاح کرنے سونے اور دوسری غرضیں پوری کرنے میں ہے ۔ تیرا مقصد کا فروں اور منافقون سے ملتا جلتا ہے ، حلال یا حرام سے پیٹ بھر لینے پر دل میں کچھ خیال نہیں کہ دین رہایا گیا۔
اے مسکین! اپنی جان پر آنسو بہا، تیرا بچہ مرجائے تو تجھ پر قیامت آ جاتی ہے لیکن دین مر جائے تو تیری آنکھ نم نہیں ہوتی ، تجھے کوئی پرواہ نہیں ہوتی ( کیسی بے حسی ہے، وہ فرشتے جو تجھ پر مقرر ہیں ، تیرے دین کا نقصان دیکھ کر روتے ہیں ۔ تجھے اس سرمائے کے ضیاع پر کوئی رنج نہیں، گویا تجھے کچھ سمجھ نہیں ،اگر ذرا بھی سمجھ ہوتی تو دین کے چلے جانے پر ضرور روتا۔ تیرے پاس سرمایہ ہے مگر تجارت کا سلیقہ نہیں ۔ یہی عقل اور حیا سرمایہ ہے۔
وہ علم جس پر عمل نہ کیا جائے ۔ وہ عقل جس سے فائدہ نہ لیا جائے ، وہ زندگی جس سے کچھ مفاد نہ ہو،اس گھر کی طرح ہے جو اجاڑ ہو، جس میں رہا نہ جا سکے ۔ اس خزانے کی مثل ہے جس کا پتہ نہ ہو ، اس کھانے کی مانند ہے جو کھایا نہ جائے، جب تو اپنے اس حال کو نہیں جانتا جس میں تجھے ہونا چاہئے مگر میں جانتا پہچانتا ہوں، مجھ سے توپوچھ ہی میرے پاس – ایک شرع کا آئینہ ہے جو کہ علم ظاہری رکھتا ہے۔ ایک معرفت الہی کا آئینہ ہے جو کہ علم باطنی رکھتا ہے۔ تو غفلت کی نیند سے بیدار ہو جا، بیداری کے پانی سے اپنا چہرہ دھو ڈال ، پھردیکھ کہ تو کون ہے، آیا
تو مسلمان ہے یا کافر، مومن ہے یا منافق ، موحد ہے یا مشرک، ریا کار ہے، یا اخلاص والا ، اللہ کے موافق ہے یا مخالف، اللہ کو تیری کچھ پرواہ نہیں اس کا نفع یا نقصان تیری ہی طرف لوٹنے والا ہے ۔ وہ پاک ذات ہے، کریم وعلیم ہے، فضل فرمانے والا ہے، ہر چیز اس کے لطف وکرم کی محتاج ہے، اگر وہ ہم پر لطف نہ فرمائے تو ہم سب ہلاک ہو جائیں ۔ اگر وہ ہمارے قول وفعل کا پورا مقابلہ کرے تو ہم سب اپنے کئے کی بناپر ہلاک کر دیئے جائیں ۔
بھول اور دکھاوے کی عبادت کا اللہ پر احسان جتا تا ہے۔
بیٹا! تو بھول اور دکھاوے اور منافقت کی عبادت کا اللہ پر احسان جتا تا ہے، اور نیک بندوں سے الجھتا ہے، باوجوداپنی کوتاہیوں کے عزت وکرامت چاہتا ہے،تجھے ان کے ذکر سے کیا فائدہ، اور ان کی معرفت کے دعوے کے ذکر سے کیا مطلب ، شرم کر! اے بھاگنے والے نافرمان غلام ! توحید والوں ، اخلاص والوں کے حلقے سے نکلنے والے! تجھ پر افسوس ! اتنارو کہ تیرے ساتھ رویا جائے ، دوسرے تجھے روئیں ۔ ماتمی لباس پہن کر اپنی مصیبت میں بیٹھ تا کہ دوسرے تیرےساتھ بیٹھیں، تیراد کھ بانٹیں، تو محروم ہے، تجھے کچھ خبرنہیں ۔ بعض صالحین نے ارشادفرمایا: ويل تلمحجوبين الذين لا يعلمون أنهم محجوبونهایسے حجاب والوں پر افسوس ہے جو اپنے حجاب کے بارے میں نہیں جانتے ‘‘
تجھ پر افسوس ہے کس چیز نے تیرا جی برا کیا، تو کیا سمجھتا ہے، تو کس سے گلہ شکوہ کرتا ہے، اور کس کے پاس فریاد کرتاہے اور کس کے ساتھ سوتا ہے، کسی مصیبت میں پڑ کر کس پر بھروسہ کرتا ہے، تو مجھ سے کہہ، میں تیرا جھوٹ اور منافقت سب جانتا ہوں تو اور ساری خلقت میرے نزدیک مچھر کی طرح ( حقیر ) ہے، تم میں سے جوسچا ہے میں اس کا ادنی خدمت گزار ہوں ۔ اگر وہ چا ہے تو مجھے لے جا کر بازار میں بیچ ڈالے یا مکاتب بنا لے۔ پس جو جی میں آئے کر گزرے۔ میرے پاس جو کپڑے ہیں اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے لینا چاہے تو لے لے، یا مجھے محنت مزدوری کرنے کا حکم دے۔ پس وہ کر گزرے، تجھ میں نہ تو سچائی ہے اور نہ تو حید اور نہ ایمان ۔ میں تجھے کس کام میں لاؤں؟ شگاف بند کرنے کے لئے تجھے دیوار میں لگاؤں ، تو تو بیکارلکڑی کی طرح ہے جوصرف آگ جلانے کے کام آ سکتی ہے۔
اللہ تعالی بندے سے اپنی نعمت کا اظہار چاہتا ہے:
اے لوگو!دنیا ختم ہونے کو ہے، عمریں فنا ہورہی ہیں ، یوم آخرت قریب ہے، تمہیں اس کا بالکل کوئی غم فکرنہیں ۔ تمہاری ساری فکر اور مقصد فقط دنیا کمانا اور دنیا جمع کرنا ہے، تم اللہ کی نعمتوں کے دشمن ہو۔ اگر اس کی طرف سے کوئی برائی آئے تو اس کا اظہار کر تے ہو، اور جب اس کی طرف سے تمہیں کوئی بھلائی اور اچھائی آئے تو اسے چھپاتے ہو، جب تم اللہ کی نعمت کو چھپاؤ گے اور ان کا شکرنہ ادا کرو گے رسول اکرم ﷺ نے ارشادفر مایا: إنَّ اللهَ ‌إذَا ‌أَنْعَمَ عَلَى عَبْدِهِ نِعْمَةً أَحَبَّ ‌أَنْ ‌يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَيْهِ
اللہ تعالی اپنے بندے کو جب نعمت عطا کرتا ہے تو اس سے اپنی نعمت کا اظہار چاہتا ہے۔ اولیاء اللہ نے (اپنی زندگی کا ایک ہی مقصد بنالیا ہے کہ اپنے دل کو سب چیزوں سے خالی کر کے اس میں ایک ہی چیز کو آباد کر لیا ہے ۔ انہوں نے اپنی عبادتوں کو دکھلا وے منافقت اور شدت سے خالص کر لیا ہے۔ اپنے بندگی صرف اللہ کے لئے ثابت کر دی ہے، تم ریا اور منافقت کے بندے ہو، خلقت اور خواہشوں اور لذات نفسانی اور تعریف کے بندے ہو تم میں سے ایسا کوئی نہیں جس کی عبادت خالص اللہ کے لئے ہو، الا ما شاء اللہ گنتی کے چند بندے ہیں ۔تم میں سے کوئی دنیا کی عبادت کرتا ہے اور اس کا دوام چاہتا ہے، اور اس کے زوال سے خوف زدہ ہے،
کوئی مخلوق کی عبادت کرتا ہے اور اس سے خوف زدہ ہے،اور اس سے امید لگائے ہوئے ہے۔ کوئی جنت کی عبادت کرتا ہے اور جنت کی نعمتوں کی امیدواری کرتا ہے، اور اس کے خالق سے کچھ مطلب نہیں رکھتا۔کوئی دوزخ کی عبادت کرتا ہے ،اور اس سے خوف زدہ ہے،اور اس کے خالق کا (ذرا بھی خوف نہیں رکھتا، خلقت کیا چیز ہے؟ ۔ بہشت کیا چیز ہے؟ – دوزخ کیا چیز ہے؟ -، اور ماسوا اللہ کیا چیز ہے؟ – ارشاد باری تعالی ہے
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ اور انہیں تو یہی حکم ہے کہ یکسو ہو کر خالص اللہ کا دین سمجھ کر اسی کی بندگی کر یں ۔“ جنہیں اس کی معرفت حاصل ہے، اور علم رکھتے ہیں ، اور عمل کرتے ہیں ، وہ اس کی عبادت کرتے ہیں ، اس کے غیر کی نہیں ، انہوں نے ربوبیت اور عبودیت کا پورا حق ادا کیا ۔ انہوں نے اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی محبت میں اسی کی عبادت کی ، اس کو اپنی مراد سمجھا غیر کو نہیں، اور ماسوا اللہ کو بالکل ترک کر دیا۔ اے دنیا کے بندو! تمہاری شکلیں تو ہیں، روحیں نہیں ۔ تم ظاہر پرست ہو اور اولیاء اللہ باطن والے ہیں۔ تم الفاظ ہو اور اولیاء اللہ معنی ہیں
تم ( کھلی کتاب کی طرح ظاہر ہو، اولیاء اللہ صاحب راز ہیں ۔ اولیاءالله انبیاء کرام علیہم السلام کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے افواج میں انبیاء کرام علیہم السلام کا بچا ہوا کھانا پینا انہیں اولیاء اللہ کے لئے ہے، ان کے علموں پر عمل کرتے ہیں ، اولیاء کرام انبیاء کرام کی خلافت کے لئے اہل ہیں اور یہی اولیاء انبیاء کرام کے نیچے وارث ہیں ، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: الْعُلَمَاءَ ‌وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ
” (باعمل ) عالم (ہی) نبیوں کے وارث ہیں “ ان علماء نے جب انبیاء کرام علیہم السلام کے علموں پرعمل کیا ، میدان کے خلیفہ اور وارث اور نائب ہو گئے۔تجھ پر افسوس ہے کہ یہ مقام صرف علم پڑھ لینے سے حاصل نہیں ہوتا ، جس طرح دعوے کا گواہوں کے بغیر کچھ فائدہ نہیں ، اس طرح علم کے بغیر عمل کچھ فائدہ نہیں، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ‘ ‌يَهْتِفُ ‌الْعِلْمُ بِالْعَمَلِ. فَإِنْ أَجَابَهُ وَإِلَّا ارْتَحَلَ
علم عمل کو بلاتا ہے۔ عمل اگر اسے جواب دے تو علم ٹھہر جا تا ہے ورنہ علم جاتا رہتا ہے، اور اس کی برکت جاتی رہتی ہے۔ وگرنہ خالی خولی پڑھنا پڑھانا باقی رہ جاتا ہے ۔ (یعنی) مغز (علم) چلا جا تا ہے اور چھلکا پڑارہ جا تا ہے۔ اے علم پڑھ کر عمل نہ کرنے والو! تم میں سے کوئی فصاحت و بلاغت سے عبارت آرائی کرتے ہوئے شعر کہتا ہے،جبکہ علم کے مطابق وہ عمل واخلاص سے خالی ہاتھ ہوتا ہے ۔ اگر دل مہذب ہو جائے تو باقی سب اعضاء بھی مہذب ہو جائیں کیونکہ دل اعضاء کا بادشاہ ہے، بادشاہ مہذب ہوتو رعایا بھی مہذب ہو جاتی ہے، علم چھلکا ہے اورعمل مغز – چھلکے کی حفاظت مغز کی حفاظت کے لئے ہے، مغز کی حفاظت اس لئے کہ روغن نکالا جائے ۔ اگرچھلکے میں مغز نہ ہو تو اس کا ہونا نہ ہونا ایک سا ہے اگر مغز میں روغن نہ ہو تو بھی بیکار ہے، علم تو جا تا رہا، کیونکہ جب اس پر عمل ہی نہ ر ہا تو علم نے تو جانا ہی ہے۔ ایسے علم کا سیکھنا سکھانا جس پرعمل نہ کیا جائے، کیا فائدہ دے گا۔اے علم والے! اگر تو دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو علم پر عمل کرو۔ لوگوں کو سکھاؤ ، اے مال دارو! اگرتم دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتے ہو تو اپنے مال میں سے کچھ فقیروں کو دے کر ان کی دل جوئی کر ، رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: الْخَلْقُ كُلُّهُمْ ‌عِيَالُ ‌اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَحَبُّهُمْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفَعُهُمْ ‌لِعِيَالِهِ’’انسان اللہ کا کنبہ ہیں ،اور انسانوں میں سے اللہ کوو ہی شخص پیارا ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ نفع پہنچائے ۔‘‘ اللہ کی ذات پاک ہے جس نے ایک دوسرے کا محتاج کر رکھا ہے، اس میں اس کی بہت سی حکمتیں ہیں ۔ اے مال والے! تو مجھ سے بھا گتا ہے کہ کہیں کچھ دینا نہ پڑے، میں تجھ سے تیرے ہی لئے لیتا ہوں، عنقریب اللہ تعالی مجھے بہت سامال عطا فرمائے گا، جو مجھے تم سے بے پرواہ کر کے تجھے میرا محتاج کر دے گا۔ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کسی فقیر میں جب بے صبری دیکھتے تو یوں دعا فرماتے : اللهم وسع علينا في الدنيا وزهدنا فيها ولا تزويها وترغبنا فيها فنهلك بطلبها ا للهم الطف بنا في أقضيتك واقدارك ’’الہی! ہم پر دنیا میں فراخی عطا فرما اور ہمیں اس میں بے رغبتی عنایت فرما، اسے ہم پر تنگ نہ کر کہ ہم اس میں رغبت کریں ، اور اس کی طلب میں ہلاک ہو جا ئیں ۔ الہی! اپنی قضاوقدر میں ہم پر لطف و کرم فرما
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 207،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 120دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
تیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے تیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثلاثون الاعتراف بنعم اللہ عز وجل ‘‘ ہے۔
منعقده 16/ جمادی الآ خر 545 ھ بوقت صبح ، بمقام خانقاہ شریف
اللہ تعالی کی نعمتوں کا اعتراف باعث بشارت ہے:
اس شخص کے لئے بشارت ہے جس نے اللہ تعالی کی نعمتوں کا اعتراف کیا، اور ان سب کو اس سے منسوب کیا۔ اور اپنے نفس کو اور تمام اسباب ،اپنی طاقت اور قوت کو بیکار سمجھا۔ عقل والا وہی ہے جو اللہ پر اپنے عمل کا حساب نہ رکھے اور کسی بھی حالت میں اس سے اس کا عوض نہ چاہئے ۔
تجھ پر افسوس علم کے بغیر اللہ کی عبادت کرتا ہے، اور علم کے بغیر زاہد بنا پھرتا ہے، اور علم کے بغیر دنیا حاصل کرتا ہے ۔ یہ حجاب در حجاب اور عذاب در عذاب ہے ۔ تو بھلائی اور برائی میں کوئی فرق نہیں کرتا اور نہ نفع ونقصان میں کوئی فرق سمجھتا ہے۔ دوست اور دشمن کو نہیں پہچانتا، یہ سارا بگاڑ اس وجہ سے ہے کہ تو اللہ کے حکم سے بے خبر ہے، اور تو نے باعلم وباعمل مشائخ کرام کی خدمت کرنا چھوڑ دی ہے۔ وہی تجھے اللہ کی راہ دکھا سکتے ہیں، تیری رہنمائی کر سکتے ہیں ، جو بھی اللہ تک پہنچا ہے علم ہی کے ذریعہ پہنچا ہے ۔دنیا میں زاہد دل اور جسم کو اس سے موڑ کر واصل باللہ ہوتا ہے، بتکلف زہد کرنے والا دنیا کو اپنے ہاتھ سے نکالتا ہے ۔ اور جو زاہد اپنے زہد میں پختہ ہو ، وہ دنیا کو دل سے نکالتا ہے ۔ انہوں نے دنیا سے دلی طور پر بے رغبتی کی ،یہ ز ہدان کی طبیعت میں داخل ہو گیا ۔ ان کے ظاہر و باطن باہم مل جل گئے ، ان کی طبیعتوں کا جوش ٹھنڈا ہو گیا، ان کی خواہشیں ٹوٹ گئیں، ان کے نفس مطمئن ہو گئے ، اوران کے شر کی حالت بھی بدل گئی۔
انبیاء و اولیاء کی پیروی سے ہی زہد ملتا ہے۔
یہ زید کوئی صنعت نہیں کہ جسے خود بناسکو، اور وہ کوئی معمول شے نہیں کہ جسے ہاتھ میں لے لے اور پھینک دے بلکہ یہ ایک دشوار گزار راہ ہے جس کے کئی مرحلے ہیں ۔ پہلے جب دنیا کا چہرہ دیکھوتو اس طرح دیکھو جیسے تم سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور اولیاء وابدال نے دیکھا ہے کہ جن سے کوئی زمانہ خالی نہیں ہے۔ دنیا کا اصلی چہرہ دیکھنا اس طرح نصیب ہوگا کہ اگلے بزرگوں کے اقوال وافعال میں پیروی کرو تب تو بھی وہ کچھ دیکھ سکے گا جو کچھ انہوں نے دیکھا ہے۔
جب اولیاء اللہ کے قول فعل خلوت و جلوت علم وعمل اور صورت و معنی میں قدم بقدم چلے گا، ان جیسے روزے رکھے گا، ان کی سی نماز پڑھے گا، ان کی طرح لین دین کرے گا ، ان کی طرح ترک کرنا ترک کرے گا اوران سے محبت رکھے گاتو اللہ تعالی تمہیں ایک نورعنایت فرمائے گا جس سے اپنے نفس اور اپنے غیر کو بخوبی دیکھنے لگے گا، وہ نورتمہیں تمہارے اور خلقت کے عیب بتا دے گا، پھر تم اپنے نفس اور خلقت سب سے بے پرواہ ہو جاؤ گے ، جب یہ حالت تمہارے لئے درست ہو جائے گی تو قرب الہی کے انوار تمہارے قلب پر وارد ہوں گے۔ تم سچے ایمان والے، یقین والے، عارف وعالم ہو جاؤ گے، ہر چیز کوان کی صورتوں اور باطنوں پر دیکھو گے تم دنیا کو ویسے ہی دیکھو گے جیسے کہ تم سے پہلے زاہدوں اور اس سے اعراض کرنے والوں نے دیکھی ہے ۔دنیا ایک بدشکل بوڑھی چڑیل کی شکل میں دکھائی دے گی۔ اللہ والوں کے نزدیک دنیا اسی شکل وصورت پر ہے۔جبکہ دنیا کے بادشاہوں کے نزدیک بنی سجی دلہن کی طرح بہترین صورت میں ہے۔ اولیاء اللہ کے نزدیک دنیا حقیر وذلیل ہے، وہ دنیا کے کپڑے پھاڑ ڈالتے ہیں، اس کے چہرے کو نوچ ڈالتے ہیں۔ زور اور طاقت کے ساتھ دنیا سے اپنے نصیب کا لکھا حاصل کرتے ہیں ، اور خود آخرت کے کاموں میں مگن رہتے ہیں
حکم الہی کے بغیر نفس کا کوئی امر قبول نہ کر :
اے اللہ کے بندے! دنیا میں جب تیرے لئے زہد درست ہو جائے تو اپنے اختیار اورمخلوق میں زہد کر ، ان سے کسی قسم کا خوف اور امید نہ رکھ ۔ جس چیز کا نفس کوئی امر کرے حکم الہی آنے تک اسے قبول نہ کر، حکم الہی کا اکثر نزول تمہارے دل پر بذریعہ الہام یا خواب کے ہوگا، جب تمہارے دل کو تمام خلقت سے اعراض اور نفرت ہوگی ۔ دل کے سوا تمہارے دیگر اعضاء ساکن ہو جائیں تو ان کا کچھ اعتبار نہیں۔ کہ یہ امر تجھے نقصان نہ دے گا ، اصل اعتبار تو دل کے سکون پکڑنے کا ہے، یہ مقام بڑا کٹھن ہے۔ تجھے قرارنہیں آ سکتا جب تک کہ تمہارا نفس اور حرص اور خواہش اور ماسوا اللہ نہ مر جائے ۔ اب اس کے قرب میں زندہ رہو گے ۔ پہلے مرنا ہے پھر جی اٹھنا، پھر جب وہ چا ہے تجھے اپنے لئے زندہ کر دے اور طاقت کی طرف واپس لوٹا دے ۔ تا کہ تو ان کی علامتوں میں نظر کرے اور انہیں اللہ کے دروازے کی طرف لوٹالا ئے ۔ اس وقت تجھے دنیا اور آخرت کی طرف رغبت حاصل ہو گی تا کہ دونوں سے اپنی قسمت کا لکھا حاصل کر سکو۔ اور خلقت کی تکالیف برداشت کرنے کا کے لئےتمہیں قوت عنایت ہو گی ۔ اس قوت سے انہیں گمراہی سے بچاؤ گے، اور ان میں اللہ کاحکم جاری کرو گے، اگرتم خلقت میں واپس نہ آ نا پاو گے تو اس کا قرب تمہارے لئے کافی ہے اور غیر اللہ سے بے نیاز کرنے والا ہے ۔ جب تجھے خالق مل گیا تو مخلوق پرتکیہ نہ کرو گے پھرخالق ہی تیرے لئے کافی ہے، جو کہ تمام اشیاء کا بنانے والا ہے ؟
ہر شے کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے وہ ہر ایک چیز سے پہلے موجود ہے ہر ایک چیز کے بعدر ہنے والا ہے،
تیرے گناہ بارش کے قطروں سے ہی زیادہ ہیں، چنانچہ تجھے ہرلمحہ اپنے گناہوں پر تو بہ کرتے رہنا چا ہئے ۔ تجھ پر افسوس ہے کہ تو گھمنڈی ، لالچی ،سراپا حرص مجسم خواہش اور بے معنی عبارت ہے ۔ تو پرانی اور خستہ حال قبروں کی طرف دیکھ اور ایمان کی زبان سے قبروں والوں سے باتیں کر ، کیونکہ وہ تجھے اپنے احوال سے مطلع کریں گے۔
اولیاءاللہ کی ارادت کا محض دعوئی بے فائدہ ہے:
اے بیٹا! تو اللہ تعالی اور اولیاء اللہ کی ارادت کا دعوے دار ہے ( محض دعوی بے فائدہ ہے ، ان جیسا بن ) میں تجھے چھوڑ دوں اور معیار پر نہ پرکھوں ، اورتجھے شرم نہ دلاؤں ۔ کیونکہ حکم الہی سے میں تم پر محتسب ہوں، وہ منافق جو اپنے اقوال وافعال میں جھوٹے ہیں ، ان کی گردنیں اڑادوں گا، میں متعدد بار بہت سے مشائخ پرمحتسب رہ چکا ہوں ۔ یہاں تک کہ میرے لئے حساب لینا درست ہو گیا ہے ۔
اے زمین والو! جنہوں نے نمک کے بغیر اپنے اعمال کا آٹا گوندھا ہے، آؤاس کے لئے نمک لے لو، اے نمک کے خریدنے والے، بڑھو! – اے منافقوا تمہارا آٹا بغیر نمک کے اور بغیر خمیر کے ہے، وہ علم کے خمیر اور اخلاص کے نمک کا محتاج ہے، ۔علم واخلاص سے عمل کی اصلاح کرلو۔
اے منافق ! تو نفاق سے گوندھا گیا ہے، یہی نفاق عنقریب تجھ پر آگ بن کر ٹوٹ پڑے گا۔ اپنے دل کو نفاق سے خالص کر ، تو یقینا اس سے خلاصی پالے گا ، جب دل مخلص ہو گیا تو دیگر اعضاء بھی مخلص ہو جائیں گے اور خلاصی پالیں گے، ۔ دل دوسرے تمام اعضاء کا چرواہا ہے، جب یہ سیدھا ہوا تو وہ بھی سیدھے ہو جائیں گے، جب قلب اور دیگر اعضاء راہ راست پر آ گئے تو ایمان والے کا ہر معاملہ کامل ہو جائے گا، اور وہ اپنے گھر والوں اور ہمسایوں اور بستی والوں پر چرواہا ہوگا، جتنی قوت ایمان سے وہ اپنے مولی کے قریب ہوگا اتناہی اس کا حال بلند ہوگا۔
اللہ کے ساتھ اپنے معاملات درست رکھو :
اے لوگو! اللہ کے ساتھ اپنے معاملات کو درست رکھو، اس سے ڈرتے رہو اور اس کے حکم پرعمل کرو، کیونکہ اس نے اپنے حکم سے تمہیں عمل کے لئے پابند کر دیا ہے، نہ کہ اس علم میں مشغول ہونے کا پابند کیا ہے جو تمہاری نسبت پہلے ازل میں ہو چکا ہے۔تم اس حکم پرعمل کرو اور اس کا حق پورا ادا کرو، کیونکہ جب تم اس کے حکم پر عمل کرو گے تو وہ تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں اس کے پاس پہنچادے گا جس کے لئے تو نے عمل کیا ہے، اس سے تجھے ایساعلم ملے گا جو اس سے پہلےتجھے حاصل نہ تھا، لہذاتم علم کے ذریعے اس کے ساتھ ہو گے اور اس کے حکم سے خلقت کے ساتھ بھی ، تم نے پہلے علم پر عمل ہی نہیں کیا تو دوسرے کی طلب کرنے لگے، جب تیرے قدم پہلے (علم ظاہر میں ) میں قرار پکڑ لیں تو دوسرے ( یعنی علم باطن ) کی طلب کرو۔
وہی ایمان والا ہے جوضروری علم سیکھے اور خلقت سے الگ ہو جائے:
اسے بیٹا تجھے نہیں معلوم کہ استاد سے کیسے ملا جاتا ہے، تو اس سے کیسے ملے گا ۔ پیچھے لوٹ جا اور عقل مندی کر ، پہلے علم حاصل کر، پھرعمل کر اور مخلص بن ، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا
‌تَفَقَّهْ، ‌ثُمَّ ‌اعْتَزِلْ’’فقہ حاصل کر، پھر کنارا کر “
ایمان والا وہی ہے جو ضروری علم سیکھے اور خلقت سے الگ ہو جائے ، اور اللہ کی عبادت میں گوشہ نشیں ہو جائے ۔ اس مقام پر وہ خلقت کو پہچان کر اس سے نفرت کرے، اور اللہ کو پہچان کر اس سے محبت رکھے، اس کا طالب بن کراس کا خدمت گذار بن جائے ۔خلقت پیچھے پڑے تو اس سے بھاگے، ،ان کے غیر کو طلب کرے،ان میں بے رغبتی کرے،جبکہ غیر میں رغبت کرے بھی جان لے کہ خلقت کے ہاتھوں میں بھلائی ہے نہ برائی نفع ہے نہ ضرر، اگر ان کے ہاتھوں سے کچھ بھی واقعہ ہو جائے تو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے نہ کہ ان کی طرف سے ، خلقت سے دور رہنانزدیک رہنے سے بہتر ہے۔شاخ کو چھوڑ کر جڑ (خدا) کی طرف رجوع کرے۔ جان لے کہ شاخیں بیشمار ہیں اور اصل ایک ۔ چنانچہ اسی ایک کو مضبوطی سے تھام لے،فکر کے آئینے میں دیکھے اور جان لے کہ بہت سے دروازوں پر پھرنے سے ایک ہی دروازے پر ٹھہرنا بہتر ہے ۔ چنانچہ ایک ہی در پرٹھہر جائے اور اسی درکا ہور ہے۔ ایمان والا ، یقین رکھنے والا ،اخلاص ولا ہی عقل مند ہے کہ اسے سب عقلوں کی عقل عطا کی گئی ہے ۔ اس لئے وہ لوگوں سے بھاگ کر ان سے الگ تھلک ہو گیا۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 222،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 127دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
اکتیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اکتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الحادی والثلاثون فی الغضب المحمود والمذموم ‘‘ ہے۔
منعقده 18/ جمادی الآخر 545 بوقت عشاء بمقام مدرسہ قادریہ
رضائے الہی کے لئے غصہ لائق تحسین ہے:
رضائے الہی کے لئے جو غصہ کیا جائے وہ لائق تحسین ہے ،اور جوغیر کے لئے ہو برا ہے، ایمان والا -اللہ کے لئے غصہ کرتا ہے،اپنے نفس کے لئے نہیں،اپنے دین کی امداد کے لئے بھڑکتا ہے،اپنے نفس کے لئے نہیں،اللہ کی حدوں میں سے کسی حد کوٹوٹتے دیکھ کر غصہ کرتا ہے ۔ جیسے چیتے کا شکار کوئی لے جائے تو وہ غضب میں آ جاتا ہے۔ چنانچہ ایمان والے کے ساتھ اللہ بھی غصے میں آ جاتا ہے، اس کی رضا سے اللہ بھی راضی ہے، جوشخص ظاہری طور پر اللہ کے لئے غصہ کرے اور باطن میں اپنے نفس کے لئے ،ایساشخص منافق ہے یا منافق کی طرح ہے۔ جو شے اللہ کے لئے ہوتی ہے، وہ کمال پر پہنچتی ہے، اور بڑھتی چلی جاتی ہے، اور جو شے غیر اللہ کے لئے ہوتی ہے وہ بدل جاتی ہے اور فنا ہو جاتی ہے۔
جب کوئی کام کرو تو اپنے نفس اور حرص اور شیطان کو اس سے دور کرو اسے نہ کرومگر اللہ کے لئے اور اس کے حکم کی تعمیل کے لئے ، اللہ کی طرف سے یقینی حکم کے بغیر کوئی کام نہ کیا کر، وہ یقینی حکم شریعت کے واسطے سے ہوگا یا اللہ کی طرف سے ، تیرے دل پر الہام ہو جائے یہ الہام بھی شریعت کے مطابق ہونا چاہئے ، تو اپنے نفس اور ساری خلقت اور دنیا میں زہد اختیار کر، اس ذات میں زہد کر جوتجھے انس دے اور خلقت سے راحت پائے ۔ اولیاءاللہ کو نہ اس کے بغیر انس ہے اور نہ اس کی محبت کے بغیر راحت و آرام ، ، اس سے قبل کہ تمہارے نفس اور حرص اور وجود کی کدورتوں سے صفائی ہو، تو اولیاءالله کے ساتھ ہو جا، ان کی تائید سے تیری بھی تائید ہوگی ۔ ان کی بصارت سے بصارت پائے گا ، جیسے ان پر فخر کیا جا تا ہے، ویسے تجھ پربھی فخر کیا جائے گا۔ بادشاہ حقیقی اپنی دوسری رعایا سے ممتاز بنا کر تیرے ساتھ فخر کرے گا۔ تو اپنے قلب کو ماسوی اللہ سے پاک کر ، کیونکہ تم ماسوی کو اپنے دل سے دیکھ لو گے۔ پہلے تو اس کا مشاہدہ کرے گا ، پھر اس کے افعال دیکھے گا جو اس کی مخلوق میں جاری ہیں، جیسے دنیاوی بادشاہوں کے پاس ظاہری نجاست کے ساتھ جانا نا مناسب ہے، اس طرح جو بادشاہوں کا بادشاہ حق تعالی ہے، اس کے سامنے باطنی نجاست کے ساتھ جانا معیوب ہے، تو خسارے والی نجاست سے بھرا ہوا مٹکا ہے، وہ تجھے لے کر کیا کرے گا جو کچھ تیرے اندر ہے، اسے پلٹ دے اور پاکیزگی حاصل کر پھر بادشاہوں کے ہاں حاضر ہو، تیرے دل میں گناہ ہیں اور مخلوق سے خوف اور امید رکھتا ہے اور دنیا اور اس کی چیزوں سے محبت رکھتا ہے، یہ سب کچھ دلوں کی نجاستیں ہیں ، جب تک تیرانفس مر نہ جائے اور اس کی لاش تیری سچائی کے دروازے سے نہ اٹھائی جائے ، اس وقت خلقت پر تمہاری تو جہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے، لیکن تمہارے نزدیک جب تک ان کا وجود ہے، اور تم انہیں دیکھتے ہو تو ان کی طرف اپنا ہاتھ نہ بڑھاؤ ، یہاں تک کہ اسے بوسہ نہ دے لیں، اس وقت تک خاموشی اختیار کر جبکہ تجھے اپنا ہوش نہ رہے۔ تب تجھے خلقت کی کچھ خبر نہ ہوگی، ان سے ہاتھوں کو بوسہ دینے سے اور ان کے عطا کرنے اور منع کرنے سے ، اوران کی اچھائی برائی کرنے سے روگردانی ہوگی، جب توبہ صحیح ہو جائے تو ایمان بھی صحیح ہو جا تاہے، اوربڑھتا ہے۔
اہل سنت کے نزدیک ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے، طاعت سے بڑھتا ہے اور نافرمانی سے گھٹتا ہے، یہ بات عام لوگوں کے حق میں ہے اور خواص کے دلوں سے خلقت نکل جانے سے ان کا ایمان بڑھتا ہے ، اور دل میں خلقت کے داخل ہونے سے ایمان گھٹتا ہے، اللہ کے ہاں سکون کرنے سے ان کا ایمان بڑھتا ہے، غیر اللہ کے ہاں سکون کرنے سے ان کا ایمان گھٹتا ہے، خواص ( اللہ والے): اپنے رب پر توکل کرتے ہیں، اسی پر اعتماد کرتے ہیں ، اس سے سہارا لیتے ہیں، اس سے ڈرتے ہیں، اس سے امید رکھتے ہیں، اس کی تو حید بیان کرتے ہیں،اسی پر اعتمادر کھتے ہیں ، شرک نہیں کرتے ،ثابت قدم رہتے ہیں توحیدان کے دلوں میں ہے اپنے ظاہر سے خلقت کی مدارت کرتے ہیں ۔ کوئی نادانی سے پیش آئے تو وہ نادانی نہیں کرتے۔ ان کے حق میں ارشاد باری تعالی ہے: وَإِذَا ‌خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
اور جب جاہل لوگ ان کو مخاطب کر تے ہیں تو وہ سلام کر کے الگ ہو جاتے ہیں ۔ جاہلوں کی جہالت ، اوران کے نفسوں اور حرصوں اور خواہشوں کے جوش کی حالت میں تم پر خاموشی اور (تحمل و بردباری لازم ہے، لیکن جب وہ معصیت الہی کریں تو خاموش نہ رہو،ایسے موقع پر خاموش رہنا حرام ہے۔ اس صورت میں بات کرنی عبادت ہے، اگر تجھے اچھے کام کرنے کا حکم دینے اور برے کام کرنے سے روکنے پر قدرت ہے تو اس سے کوتاہی نہ کر ۔ کیونکہ یہ بھلائی کا دروازہ ہے جو تیرے سامنے کھولا گیا ہے، اس میں داخل ہونے کے لئے جلدی کر ۔
ایمان والاحضرت عیسی علیہ السلام کی طرح گزر بسر کرتا ہے:
حضرت عیسی علیہ السلام جنگل کی گھاس پات کھاتے اور جوہڑوں کا پانی پیتے اور غاروں اور ویرانوں میں پناہ لیا کرتےتھے، جب سوتے تو پتھر یا بازو کا تکیہ بنالیا کرتے۔ ایمان والا حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح گزر بسر کرتا ہے ۔
اسی حالت میں اللہ تعالی سے ملنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگر اس کے لئے دنیا سے کچھ نصیب ہے تو وہ خود بخوداس کے پاس آ جا تا ہے ۔ بظاہر اسے پہنتا ہے، اور اسے اپنے نفس کو سونپ دیتا ہے، جبکہ اس کا دل پہلے ہی قدم پر اللہ تعالی کے ساتھ قائم رہتا ہے، اس میں کسی طرح کی کوئی تبد یلی نہیں ہوتی۔ کیونکہ زہد جب دل میں جگہ بنالیتا ہے تو دنیا یا دنیا کی چیزوں کے آنے سے اس کا کچھ نہیں بدلتا۔ ایمان والا اگر دنیا اور اہل دنیا اور اس کی شہوتوں اور لذتوں کی رغبت رکھتا تو – ان سے ایک پل بھی صبر نہ کرتا ، رات دن انہی میں مشغول رہتا ، نہ عبادت کرتا نہ ریاضت، نہ اللہ کا ذکر کرتا نہ اس کی تابعداری ، اللہ تعالی نے اس کے نفس کے عیب اسے دکھا دیئے۔ اس نے ان سے توبہ کی ، اور گئے دنوں میں اس سے جو نافرمانیاں سرزد ہوئیں، اس پر شرمندہ ہوا ۔ اللہ نے اسے دنیا کے عیب کتاب الله سنت رسول اللہ ﷺ اور مشائخ کے ذریعے بتلا دیئے۔ چنانچہ دنیا و مافیہا سے بے رغبتی حاصل ہوئی۔ جب ایک عیب نظر آیا تو دوسرے بہت سے عیب نظر آ گئے ، یہ معلوم ہو گیا کہ دنیا فنا ہونے والی ہے ۔ اس کی عمر تھوڑی ہے، دنیا کی نعمتیں زوال والی ہیں ، اس کی رونق بدلنے والی ،اس کے اخلاق برے ہیں، دنیا کا ہاتھ ذبح کرنے والا ہے۔ اس کا کلام زہر قاتل ہے ۔ وہ مزہ لے کر چھوڑ دینے والی ہے۔ دنیا کا کوئی ٹھکانہ ، اس کا عہد اور اصل نہیں ۔ اس میں رہنا ایسا ہے جیسے پانی پر گھر بنانا ۔ ایمان والا دنیا کو اپنے دل کا قرار اور گھر نہیں بناتا۔ پھر ایمان والا درجے میں ترقی کرتا ہے اور اس کی طاقت قوی ہوتی ہے۔ حق تعالی کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ دنیا کی طرح آخرت کو بھی اپنے دل کا قرارنہیں بنا تا۔ بلکہ دنیا اور آخرت میں قرب الہی کو اپنے دل کا قرار بنا تا ہے۔اپنے دل اور باطن کے لئے مقام قرب میں عمارت بنا تا ہے ۔ اب اسے دنیا کی عمارت نقصان نہیں دیتی خواہ وہ ہزار گھر بھی بنائے ، کیونکہ وہ اسے اپنے لئے نہیں بنا تا ، اوروں کے لئے بناتا ہے۔اس میں امر الہی کی تعمیل کرتا ہے، اس کی قضا وقدر کی موافقت کرتا ہے۔ اس کا عمارت بنانا خلقت کی خدمت کے لئے ہے تا کہ انہیں راحت وآرام پہنچائے ، کھانا پکانے اور روٹی لگانے میں رات دن ایک کر دیتا ہے ۔ دوسروں کو کھلا تا ہے ۔خوداس میں سے ایک ذرہ بھی نہیں کھا تا ۔ اس کے لئے خاص طعام ہے، جس میں کوئی غیر شر یک نہیں ہوتا۔ اپنے کھانے کے وقت کھا تا ہے ۔ غیر کے کھانے کے وقت روزے سے ہوتا ہے۔زاہد کھانے اور پینے سے روزہ دار ہوتا ہے۔ غیر معروف عارف سے اپنے محبوب کے سوا سب سے روزے دار رہتا ہے، وہ تو بخار میں مبتلا ایسا مریض ہے جو کہ طبیب کے ہاتھ کے سوا کسی دوسرے کے ہاتھ سے نہیں کھا تا محبوب سے دوری اس کی بیماری ہے، قرب الہی اس کی دوا ہے ۔ زاہد کا روزہ دن میں ہوتا ہے جبکہ عارف کا روز و رات دن کا ہے۔ اس کے روزے کا افطار وصال الہی کے بغیر نہیں ہوتا ۔ عارف ساری زندگی روزے سے ہوتا ہے اور ہمیشہ بخار میں مبتلا ۔ وہ اپنے دل کے ساتھ ہمیشہ کے لئے روزہ دار ہے اور باطن کے ساتھ دائمی بخار والا ہے، اسے معلوم ہے کہ اللہ سے ملنے اور اس کے قرب میں اس کی شفا ہے ۔
خلقت کو دل سے نکالنے میں نجات ہے:
اسے بیٹا! اگر تجھے اپنی نجات اور بہتری کی طلب ہے تو خلقت کو اپنے دل سے نکال دے، اس سے نہ کوئی خوف کر نہ نہ اس سے انس پکڑ ، اور نہ اس میں سکون و قرار جان، سب سے دوری اختیار کر اور بھاگ جا، ان سے کہ وہ مردار ہیں ۔ جب یہ ن حالت تیرے لئے صحیح ہو جائ تو ذکر الہی وقت تمہارے لئے اطمینان صحیح ہوگا ، اور غیر اللہ کی یاد کے وقت تم بے قرار ہو جاؤ گے ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 238،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 130دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
بتیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے بتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثانی والثلاثون فی اداء الاوامر واجتناب النواھی ‘‘ ہے۔
منعقدہ 21/ جمادی الآ خر 545 بوقت صبح جمعتہ المبارک
امر بالمعروف و نہی عن المنکر :
حکم الہی کی تعمیل کر جس چیز سے روکا ہے، اس سے منع رہ- ان آفتوں پر صبر کر ، اور نوافل کے ذریعے قرب الہی حاصل کر، تیرا نام بیدار اور کارگزار رکھا جائے گا۔ اللہ تعالی سے توفیق طلب کرنے کے لئے عمل کر ، عمل کے دروازے میں حاضری میں کوشش کر کے تکلف برتنا چھوڑ دے۔ حضوری عمل کا دروازہ ہے ، وہی تیرے لئے استعمال کرنے والا ہے، اس سے سوال کر اور اس کے سامنے عاجزی کرتا کہ وہ تیرے لئے فرماں برداری کے اسباب فراہم کر دے، کیونکہ جب اس نے تجھ سے کوئی کام لینا ہوگا تو تیرے لئے تیار کر دے گا۔ تیری حیثیت کے لائق جلدی کا امر کر دیا ہے، اپنی طرف سے توفیق کو تیرے لئے متوجہ کر دیا ہے۔ امر ظاہر ہے اور توفیق باطن ہے۔- گناہوں سے منع کرنا ، بازرہنا ظاہر ہے، اوران سے پر ہیز کرنا باطن ۔ اس کی توفیق سے تعمیل احکام کیجا تی ہے، اس کی نگہبانی و حفاظت سے گناہوں کو چھوڑا جا تا ہے ۔ اللہ کی قوت و مدد سے صبر کرتا ہے ۔ میرے پاس عقل اور ثابت قدمی نیت اور پختہ ارادے سے آؤ، مجھ پر تہمت لگانے کو ترک کر کے اور میرے بارے میں نیک گمان کر کے حاضر ہو، اس وقت میں جو کچھ کہوں گا تمہیں فائدہ دے گا ، اور تم اس کا مفہوم بھی سمجھ سکو گے۔
اسے مجھ پر تہمت لگانے والے! جس حال پر میں ہوں ، قیامت کے دن تجھ پر سب ظاہر ہو جائے گا۔ میں جس حال میں ہوں ، مجھ سے مزاحمت یا جھگڑا نہ کر ، تیرے دل کوصدمہ ہوگا اور وہ مغلوب ہوگا ۔دنیا کے بوجھ میرے سر پر ہیں ، اور آخرت کے میرے دل پر ، اور حق تعالی کے بوجھ (اس کی معرفت اور قرب ) میرے باطن پر ہیں ، ہے کوئی جو میرا مددگار بنے جرات اور بہادری کر کے مجھ سے آگے بڑھے اور اپنے سرکو خطرے میں ڈالے۔ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں کہ اس کی ذات کے سوا مجھے کسی کی احتیاج نہیں تم عقل سے کام لو اور اولیاء اللہ کا ادب واحترام کرو، کہ وہ قوموں میں سے گنے چنے ہیں اور بزرگی والے ہیں ، شہروں اور لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے والے ہیں، انہی کے دم سے زمین کی نگہبانی ہے ، ورنہ تمہاری منافقت اور شرک اور ریا کاری کے باوجودکون ہے جو حفاظت کرے ۔اے منافقو! اللہ اور رسول ﷺ کے دشمنو! – اے دوزخ کا ایندھن بننے والو!!
اللهم تب على وعليهم ، اللهم ايقظنى وايقظهم وارحمني وارحمهم فرغ قلوبنا وجوار حنا لك وإن كان ولا بد فا الجوارح للعيال في أمور الدنيا والنفس للأخرى والقلب والسر لك . آمین
الہی! مجھ پر اور ان پر تو جہ ڈال! – مجھے اور ان سب کو بیدار کر ، مجھ پر اوران پر رحم فرما! – ہمارے دلوں اور اعضاء کو اپنے لئے خالی کر۔ اگر مصروفیت کے سوا چارہ نہ ہو تو اعضاء کو اہل خانہ کے لئے دنیا کے کاموں میں ، نفس کو آخرت کے لئے اور قلب و باطن کو اپنے لئے وقف کر دے۔آمین!‘‘
عمل کے دروازے پر ثابت قدمی سے کھڑارہ:
بیٹا! تجھ سے کچھ نہیں ہونے کا ، حالانکہ کچھ کئے بغیر چارہ نہیں تجھ سے اکیلے کچھ نہ ہو پائے گا، تیرا حاضر ہونا ضروری ہے۔ عمل کے دروازے پر ثابت قدمی سے کھڑارہ ۔ تا کہ مالک تجھے تعمیر کے کام میں لگالے۔ تیری اور توفیق کی مثال اس طرح سے ہے کہ تو مزدور ہے اور توفیق کام لینے والی ، اور کام کا مالک اللہ کی ذات ہے۔ تجھے تابعداری جلدی اور تیزی سے کرنے کا حکم دیا۔ اس کی طرف سے یہی توفیق ہے۔ تجھ پر افسوس ہے کہ خلقت کے خوف سے اور اس سے امید لگا کے تو نےاپنے نفس کو قید کررکھا ہے اپنے پاؤں سے یہ زنجیریں کاٹ دے۔ تا کہ اللہ کی خدمت میں کمر بستہ ہو جائے ۔ اور اللہ کے سامنے مطمئن ہو جائے تو دنیا اور اس کی خواہشوں اور عورتوں اور دنیاوی چیزوں سے بے رغبت کر اگر سابقہ علم الہی میں ان چیزوں میں سے تجھے کچھ ملنا ہے، تو وہ تیرے امر اور طلب کے بغیر تجھے مل جائے گا۔ اللہ کے ہاں تجھے زاہد کا نام دیا جائے گا۔ اگر تجھے نگاہ عنایت سے دیکھے گا توتیرے نصیب کا لکھا جانے کا نہیں۔ جب تک تو اپنے ہاتھوں کی چیز یں اور اپنی قوت و طاقت پر بھروسہ کرے گا ، اس وقت تیرے پاس غیب سے کچھ نہ ملے گا ۔
اللهم إنا نعوذ بك من الاتكال على الأسباب والوقوف مع الهوس والهوية والعادات تعوذبك من الشر في سائر الأحوال ، ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ” الہی ہم اسباب اورحرص اور خواہشوں اور عادتوں پر بھروسہ کرنے سے پناہ مانگتے ہیں، اور سب حالتوں کی سب برائی سے تیری پناہ کے طالب ہیں اے ہمارے رب! ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما اور آخرت کی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے بچا۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 233،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 132دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
تینتیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے تینتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثالث والثلاثون فی رؤیۃ اللہ یوم القیمۃ ‘‘ ہے۔
منعقده 23/ جمادی الآ خر 545 بروز صبح اتوار بمقام خانقاہ شریف
اللہ کے محبوب کود یکھناءاللہ کود یکھنا ہے:
جس نے اللہ کے محب کو دیکھا تو اس نے یقینا اللہ کو دیکھ لیا۔ جس نے اپنے دل سے اللہ کودیکھا، وہ اپنے باطن سے اس کے حضور میں داخل ہوا۔ ہمارا پاک پروردگار موجود ہے، جسے دیکھا جاسکتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفر مایا: سترون ربكم كما ترون الشمس والقمر
عنقریب تم اپنے رب کو دیکھو گے جیسے چاند اور سورج کو دیکھتے ہو۔“ بھیڑ اسے دیکھنے میں حائل نہیں ہوسکتی، وہ آج دل کی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے، اور قیامت کے دن سر کی آنکھوں لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سب کی سننے والا اور سب کو دیکھنے والا ہے ۔
اس کے چاہنے والے اس سے راضی ہیں ، اس کے غیر سے نہیں ۔ ماسوی اللہ کو چھوڑ کر صرف اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ فقر کی تلخی ان کے لئے شیرینی ہے۔ دنیا میں ان کے پاس فقر اور رضائے الہی ہے فقران کے لئے نعمت خداوندی ہے، ان کی ثروت ان کے فقر میں ہے ۔ ان کی بیماریوں میں نعمت اور لذت ہے ، ان کی دہشت میں انس ہے، ان کا قرب سب سے ۔ دوری میں ہے، اور انکی مصیبت میں راحت ہے ۔ اے مصیبتوں پر صبر کرنے والو! اے اللہ کی رضا پر راضی رہنے والو! اپنے نفسوں اور خواہشوں سے فنا ہونے والو! تمہارے لئے بشارت ہے۔
اللہ علم رکھتا ہے اور تم علم نہیں رکھتے ۔
اے لوگو تقدیر الہی کے ساتھ موافقت کرو اپنے اور دوسروں سے متعلق اس کے افعال میں راضی رہو، تم میں جو سب سے زیادہ عقل والا ہے، اس پر اپنے علم و عقل کوظاہر نہ کرو۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَاللَّهُ ‌يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اللہ کو علم ہے اور تم کوعلم نہیں۔ اللہ کے سامنے اپنی عقل اور علم سے مفلس بن کر افلاس کے قدموں پر کھڑے ہو جاؤ ، تہی دست بن جاؤ تاکہ تمہیں اس کا علم حاصل ہو ۔ حیرت گم ہو جاؤ خود پسندی چھوڑ دو، اس میں حیان ہو جاؤ تا کہ تمہیں اس کا علم ہو جائے۔ پہلا مقام حیرت کا ہے اور دوسرا مقام علم کا۔ پھر تیسرا مقام معلومات الہی تک رسائی ہے ۔ – اول ارادہ ہے، پھر مراد کا حصول ہے۔
سنو اور اس پر عمل کرو۔ میں تمہاری رسیاں بٹ رہا ہوں ۔ تمہاری ڈھیلی رسیوں میں بل دیتا ہوں ، جورسیاں ٹوٹ گئی ہیں انہیں جوڑ تا ہوں ۔ مجھے اپنی نہیں تمہاری فکر ہے، مجھے اپناغم نہیں تمہاراغم ہے، میں ایک پرندے کی طرح ہوں، جہاں کہیں گروں گا ، دانہ اٹھالوں گا ۔اے پھینک دیئے گئے پتھر واے بیکا رو، اے نفس کے اسیرو، اور خواہش کے غلامو! مجھے صرف تمہاری ہی فکر ہے۔ اللهم ارحمني و ارحمهم الہی مجھ پر اور ان پر رحم فرما۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 236،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 133دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
چونتیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چونتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الرابع والثلاثون فی النھی عن الکبر ‘‘ ہے۔
منعقدہ 02/رجب المرجب 545 بروز صبح منگل بمقام خانقاہ شریف
اولیاءاللہ کا شغل سخاوت اور خلق خدا کوآ رام پہنچانا ہے:
اولیاء اللہ کا شغل سخاوت کرنا اورخلق خدا کو آرام پہنچانا ہے، وہ لٹانے والے اور بخشش کرنے والے ہیں ۔ اللہ کے فضل اور رحمت سے جو کچھ انہیں ملتا ہے، اسے سمیٹ لیتے ہیں ۔ فقیروں اور مسکینوں پر جو کہ تنگ دست ہیں بخشش کرتے ہیں ، جو قرضدار قرض ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ، ان کے قرض ادا کرتے ہیں ۔ وہی بادشاہ ہیں ۔ دنیا کے بادشاہوں کی طرح نہیں ، کیونکہ شاہان دنیا صرف لوٹتے ہیں بخشش نہیں کرتے ۔
اولیاء اللہ کے پاس جو موجود ہوتا ہے، اسے خلقت پر خرچ کر ڈالتے ہیں ، اور جو موجود نہ ہو اس کے منتظر رہتے ہیں (یعنی کب ہاتھ آئے اور کب اللہ کی راہ میں خیرات کریں وہ صرف اللہ کے دست قدرت سے لیتے ہیں مخلوق کے ہاتھوں سے نہیں، ان کے اعضاء کی کمائی خلق خدا کے لئے ہوتی ہے، اور ان کے دلوں کی کمائی ان کی اپنی ذات کے لئے وہ صرف اللہ ہی کے لئے خرچ کرتے ہیں ، خواہشوں اور نفسانی اغراض کے لئے نہیں، نہ ہی ان کی غرض اپنی تعریف و توصیف ہوتی ہے۔
تو اللہ کی ذات پر اورخلقت پر تکبر کرنا چھوڑ دے، کیونکہ تکبر ان ظالموں کی صفات سے ہے جنہیں اللہ تعالی منہ کے بل دوزخ کی آگ میں جھونک دے گا۔
جب تو نے اس کی حکم عدولی کر کے اسے غصہ دلایا تو نے تکبر کیا -جب موذن نے نماز کے لئے پکارا اور تو اذان پر نماز کے لئے کھڑا نہ ہوا تو تو نے اللہ پرتکبر کیا۔ مخلوق میں سے جب کسی پر ظلم کیا تو بھی اللہ پر تکبر کیا تو اس کے حضور رجوع کر اور اخلاص سے توبہ کر اس سے پہلے کہ وہ تجھے اپنی کسی کمزور اور عاجز مخلوق کے ذریعے ہلاک کردے جیسا کہ نمرود جیسے بادشاہ اس نے ہلاک کر دیئے جب انہوں نے اللہ پرتکبر کیا تھا، تو اخلاص کے ساتھ توبہ کر۔ انہوں نے تکبر کیا تو اللہ تعالی نے: -انہیں عزت دینے کے بعد ذلیل کر دیا ۔ امارت کے بعد تنگ دست کر دیا ۔ نعمت دینے کے بعد انہیں عذاب میں مبتلا کر دیا۔ زندگی کے بعد انہیں موت سے ہمکنار کر دیا۔ خوف خداوالوں میں سے ہو جا، ظاہری و باطنی شرک کو چھوڑ دے۔ ظاہری شرک بت پرستی ہے، اور باطنی شرک خلقت پر بھروسہ کرنا اور انہیں نفع دینے والا اور نقصان دینے والا خیال کرنا ہے۔ دنیا میں گنے چنے لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کے ہاتھوں میں دنیا ہے اور اس سے پیار نہیں کرتے ، وہ دنیا کے مالک ہیں ،دنیا ان کی مالک نہیں۔ دنیا انہیں چاہتی ہے، وہ اسے نہیں چاہتے ،
دنیا انکے پیچھے دوڑتی ہے ، وہ دنیا کے پیچھے نہیں دوڑتے ، دنیا سے خدمت لیتے ہیں ، اس کی خدمت نہیں کرتے ، وہ اس سے جدا ہوتے ہیں ، وہ ان سے جدا نہیں ہوتی ، وہ دنیا میں تصرف کرتے ہیں، دنیا ان میں تصرف نہیں کرتی ۔ انہوں نے اپنا قلب اللہ کے لئے درست کر لیا ہے، دنیا کے بس میں نہیں کہ ان کے قلب کو فاسد کر دے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: نعم المال الصالح للرجل الصالح وقال لا خير في الدنيا إلا لمن قال هكذا وهكذا وأشار بانه يقرفها بيديه
’’صالح شخص کے لئے صالح مال کیا ہی اچھا ہے۔ مزید فرمایا: دنیا میں کوئی بھلائی نہیں ہے مگر اس شخص کے لئے جس نے دنیا کو ایسا کہا اور ایسا کہا۔ آپ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ اس کی تقسیم نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایسے اور ایسے ہو۔ تم خلقت کی بھلائی کے لئے دنیا کو اپنے ہاتھوں میں رکھو مگر اپنے دل سے نکال رکھو، ایسی حالت میں تمہیں کچھ نقصان نہ دے گی ، نہ ہی اس کی نعمتیں اور خوش نمائی فریب دے سکیں گی۔عنقریب تم دنیا سے چلے جاؤگے تمہارے بعد وہ بھی نہ رہیں گے۔
اپنی رائے پر تکیہ کر کے گمراہی نہ سمیٹ:
اے بیٹا! اپنی رائے پر تکیہ کر کے مجھ سے بے پرواہ نہ ہو۔ کیونکہ تو گمراہ ہو جائے گا، جس نے اپنی رائے پر بھروسہ کیا وہ گمراہ ہوا اور ذلیل ہوا اور اس نے ٹھوکر کھائی ، جب تو اپنی رائے پر تکیہ کر کے بے پرواہی کرے گا تو تو ہدایت و حمایت الہی سے محروم ہو جائے گا۔ کیونکہ تو نے ہدایت کو طلب ہی نہ کیا اور نہ اس کے سبب میں داخل ہوئے تم کہتے ہو کہ میں عالموں کے علم سے بے پرواہ ہوں حالانکہ تم خود علم کے مدعی ہو، تو بتا عمل کہاں ہے، اس دعوے کی پہچان اور صداقت کیا ہے مصیبت پر صبر کرنے سے اور اخلاص سے عمل کرنے سے تیرے علم کے دعوے کی پہچان ہوگی ۔ اس سے تیری حالت میں کبھی تبدیلی نہ آئے اور گھبرا کر واویلا نہ کرے ، نہ اس مصیبت پر خلقت سے شکایت کرے۔ تو اندھا ہو کر بینائی کا دعوی کیسے کرتا ہے، تو کم عقل اور ناسمجھ ہو کر عقل و سمجھ کا دعوی کرتا ہے۔ اپنے جھوٹے دعوے سے اللہ کے پاس رجوع کر، تو بہ کر، اس کے سوا سب کو چھوڑ دے ، سب سے منہ پھیر اور سب کے خالق کی طلب کر ، تجھے کیا پڑی کوئی ٹوٹے کوئی جڑے مالک ہو یا کنگال ہو تو خاص طور پر اپنے نفس کی حفاظت کرحتی کہ وہ مطمئن ہو جائے اور اپنے رب کی معرفت حاصل کرے۔اس مقام پرتو غیر کی طرف دھیان کر۔ اپنی مراد کے رستے کو لازم پکڑ ، دنیا و آخرت میں اللہ کی صحبت طلب کرے ۔ پرہیزگاری اور ماسوی اللہ سےتنہائی ویکسوئی اختیار کر، ہمہ وقت محورہ ،اپنے نفس کو امرونہی کے سوا کسی چیز میں ثابت نہ کر ۔ کیونکہ وہی تجھے ان میں ثابت رکھنے والا ہے۔
اسے مردو! اے عورتو! تم میں سے جس کسی کے پاس ایک ذرہ اخلاص، ایک ذرہ تقوی اور ایک ذرہ صبر وشکر ہوگا ٹھیک وہی نجات پائے گا۔ میں ان خصلتوں میں تمہیں مفلس ومحتاج دیکھ رہا ہوں ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 238،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 134دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
پینتیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پینتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الخامس والثلاثون فی مخافۃ اللہ عزو جل ‘‘ ہے۔
منعقده 5 رجب المرجب 545 بروز جمعہ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ
پاک کلام اس کی طرف چڑھتا ہے ، نیک عمل کو وہ بلند کرتا ہے:
اے غرور کرنے والو! تم پر افسوس ہے تمہاری عبادتیں زمین میں داخل نہیں ہوتیں بلکہ آسمان کی طرف چڑھتی ہیں ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
إِلَيْهِ ‌يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ.. پاک کلام اس کی طرف چڑھتا ہے اور نیک عمل کو وہ بلند کرتا ہے ۔‘‘ ہمارا پاک پروردگار ( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے عرش پر استوی کئے ہوئے اور ملک پر حاوی ہے اس کاعلم سب چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اللہ تعالی نے اس مضمون کی سات آیتیں قرآن مجید میں بیان کی ہیں ۔ تیری جہالت اور تکبر کے باعث میں انہیں محو کرنے کی طاقت اور قدرت نہیں رکھتا، میں انہیں نہیں مٹا سکتا۔ تو مجھے اپنی تلوار سے ڈراتا ہے، میں ڈرنے والا نہیں ہوں، تو مجھے اپنے مال کی رغبت دلاتا ہے، میں رغبت کرنے والانہیں ہوں ، میں تو صرف اللہ سے ڈرتا ہوں ، اس کے غیر سے خوف نہیں کھا تا ۔اس سے امید رکھتا ہوں ،اس کے غیر سے نہیں ۔ اس کی عبادت کرتا ہوں ، اس کے غیر کی نہیں ۔ اس کے لئے عمل کرتا ہوں اس کے غیر کے لئے ہیں۔ میرا رزق اس کے پاس اس کے دست قدرت میں ہے، سب کچھ اس کا ہے، بندہ اور جو کچھ بندے کی دسترس میں ہے ، سب اس مالک کا مال ہے۔
آپ کے ہاتھ پر توبہ کرنے والے، ایمان لانے والے:
سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا (زیرنظر خطبہ منعقده 5/ رجب 545 و تک ) : میرے ہاتھ پر پانچ سو آدمی ایمان لائے ،اور بیس ہزار سے زیادہ نے میرے ہاتھ پرتو بہ کی ، پھر فر مایا: یہ سب کچھ ہمارےنبی مکرم حضرت محمد مصطفی احمدمجتبی ﷺ کی برکات کے سبب سے ہے۔ اللہ غیب کا جاننے والا ہے، وہ جس رسول کو منتخب فرماتا ہے، اس کے سوا اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ وہی غیب کا جاننے والا ہے سوائے اپنے پسندیدہ رسول کے کسی کو اپنے غیب پر اطلاع نہیں دیتا‘‘ اس کے پاس غیب ہے، اس سے قریب ہوتا کہ اس کو اور جو کچھ اس کے پاس ہے، دیکھے اور اپنے اہل اور مال اور شہر ۔ اور عورت اور اولا دکو چھوڑ دے، ان میں سے اپنے قلب سے نکل جا، اور سب سے الگ ہو جا، اور رب تعالی کے دروازے پر پہنچ جا، اس کے دروازے پر پہنچے تو اس کے غلاموں اور سلطنت اور ملک میں مشغول نہ ہو، اگر وہ تیرے سامنے طباق رکھیں تو نہ کھا، اگر وہ تجھے کسی حجرہ میں ٹھہرائیں تو نہ ٹھہر ، اگر وہ تیرا نکاح کرائیں تو نکاح نہ کر سفر کے دوران پہنے ہوئے کپڑوں سمیت ، اور مشقت اور غبار سفر اور الجھے بالوں کے ساتھ جب تک تو اللہ تعالی سے ملاقات نہ کرے تب تک تو ان میں سے کسی شے کوقبول نہ کر پھراللہ تعالی ہی تیری حالت بدلے گا وہی کھلانے والا ، پلانے والا ، وحشت میں غم خوار اور کشادگی کرنے والا ، مصیبت سے آرام دینے والا ، خوف میں امن دینے والا ، ہو جائے گا، اس کی قربت میں تجھے غنا، اور اس کے دیدار میں تجھے کھانا پینا اور لباس ملے گا۔خلقت سے محبت کا مفہوم کیا ہے: ان سے خوف کھانا ، ان سے امید رکھنا ، ان پر بھروسہ کرنا ، ان کی طرف جھکناء خلقت سے محبت کا یہی مفہوم ہے ، جس سے منع کیا گیا ہے۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 241،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 136دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
چھتیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چھتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السادس والثلاثون فی اخلاص العمل للہ ‘‘ ہے۔
منعقده 2/ر جب 545 بروزمنگل بوقت عشاء بمقام مدرسہ قادریہ
دنیا کے بازار میں وہی بیچو اور خرید و جس کا آخرت میں نفع ہو:
دنیا بازار ہے،ایک پل کے بعد اس میں کوئی نہ رہے گا ، رات کو سب بازار والے چلتے بنیں گے۔ کوشش کرو کہ اس بازار میں وہی چیز بیچواورخر یدو جس کا آخرت کے بازار میں نفع ہو کیونکہ پر کھنے والی اللہ کی ذات ہے جو بصیر ہے، آ خرت کے بازار میں اللہ کی توحید اورعمل میں اخلاص کا سکہ چلتا ہے، اور وہی تمہارے پاس کم یاب ہے ۔
جلد بازی سے کچھ ہاتھ نہیں آ تا:
اے اللہ کے بندے !عقل کر جلد بازی نہ کر، جلد بازی سے تیرے ہاتھ کچھ نہ لگے گا ، جلد بازی سے مغرب کا وقت صبح سویرے نہیں آ جا تا ۔ تو صبر کیوں نہیں کرتا کسی کام میں مت جا۔ یہاں تک کہ مغرب کا وقت ہو جائے اور تو وقت پر نماز ادا کرے، اور جو تیرے من میں ہے وہ پالے ۔ عقل کر اللہ اور اس کی مخلوق کے ساتھ ادب واحترام سے رہ ۔خلقت پر ظلم کرکے ایسی چیز نہ مانگ جو تیرے لئے ان کے پاس نہیں ہے۔ وکیل کی بات اس وقت تک نہیں مانی جاتی جب تک کہ اسے وکالت کی اجازت نہ ملے۔ اس کے بعد عطا و بخشش دیکھ لو گے ۔ اجازت نامے سے پہلے ایک ذرہ بھی نہیں ملتا۔ نہ ذرہ نہ کوئی تھیلی نہ در یا نہ قطرہ کچھ بھی اس کے اذن بنا نہیں ملتا، جب تک کہ وہ خلقت کے دلوں میں الہام نہ کر دے، تو عقل کر ، یہی عقل کی بات ہے، اللہ کے حضور میں ثابت قدم رہ ۔ رزق تو اللہ نے نصیب میں لکھ دیا ہے، اور اس کے دست قدرت میں تجھ پر افسوس ہے کہ قیامت کے دن اللہ سے کس منہ سے ملے گا ، حالانکہ تو دنیا میں اس سے جھگڑ تا ہے تو اس سے منہ موڑ کر خلقت کی طرف دھیان کرتا ہے اور اس کے ساتھ شرک کرتا ہے، اپنی ضرورتیں خلقت کے سامنے پیش کرتا ہے۔اپنے کاموں میں خلقت پر بھروسہ کرتا ہے۔ بہت سے سوالیوں کے لئے خلقت کی محتاجی عذاب خداوندی ہے ۔ گناہوں کی وجہ سے
وہ اپنا دامن پھیلاتے ہیں ۔ان میں سے ایسے بہت کم ہیں کہ جن کے حق میں سوال کرنا باعث نفرت نہ ہو۔ عذاب کی حالت میں سوال کرو گے تو محروم رہو گے تم پر عطائیں روک دی جائیں گی۔ اے بیٹا میرے نزدیک بہتر یہی ہے کہ اپنے ضعف کی حالت میں کسی سے کچھ نہ چاہو۔ نہ ہی تیرے پاس کچھ ہو، تو کسی کو پہچانے نہ تجھے کوئی پہچانے ، تو کسی کو دیکھے ، نہ تجھے کوئی دیکھے۔
تجھ میں کچھ ہمت ہے کچھ دے کسی سے نہ لے، خود خدمت کر اور کسی سے خدمت نہ لے، اولیاء اللہ نے اللہ کے ساتھہ اور اللہ ہی کے لئے عمل کیا ہے ۔ اللہ تعالی نے دنیا و آخرت میں انہیں اپنے عجائبات قدرت دکھائے اپنی مہربانی اور اپنی محبت کا اظہار کیا۔
اسلام، ایمان اور ایقان آپس میں جڑے ہیں:
بیٹا ۔ اسلام نہیں تو ایمان نہیں ۔ ایمان نہیں تو ایقان نہیں ۔ ایقان نہیں تو اللہ کی معرفت اور اس کا علم بھی نہیں ، یہ در جات مرحلہ وار حاصل ہوتے ہیں۔ جب اسلام صیح ہوگا تو اللہ تعالی کے لئے تیری فرماں برداری قابل قبول ہو گی ۔ یہ استسلام ہے ۔ اپنے سب احوال میں حدود شرعی کی حفاظت کر اور انہیں اپنے اوپر لازم کر کے سب اللہ کے سپردکر دو، اپنا اور دوسروں کا معاملہ اس کے سپر دکر دو، خالق اور مخلوق کے ساتھ حسن ادب رکھو۔
نہ خود ظلم کر واور نہ ظالم کی مددکرو:
اپنے نفس اور غیر پرظلم نہ کرو، کیونکہ ظلم کے باعث دنیا و آخرت میں کئی اندھیرے جمع ہو جاتے ہیں، ظلم دل کو تار یک کر ڈالتا ہے، چہرے اور اعمال نامہ کوسیاہ کر دیتا ہے، چنانچہ نہ خود ظلم کرواور نہ ظالم کی مد دکرو ۔
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفر مایا: بـنـادى مناد يوم القيمة ابن الظلمة اين أعوان الظلمة ابن من يرى لهم قلما اين لاق لهم دواة اجمعوهم واجعلوهم في تابوت من نار و
قیامت کے دن آواز دینے والا آواز دے گا۔ کہاں ہیں ظالم ، اور کہاں ہیں اس کی مدد کرنے والے، کہاں ہیں وہ جنہوں نے ان کے لئے قلم تیار کیا تھا۔ کہاں ہیں وہ جنہوں نے انکی دوات میں صوف ڈالا تھا، ان سب کو اکٹھا کرو، اور آگ کے صندوق میں بند کر دو ۔‘‘ تو خلقت سے بھاگ کر کنارہ کشی کر لے، اور اس بات کی کوشش کر کہ تو نہ مظلوم ہواور نہ ظالم بن ۔اگر ہو سکے تو مظلوم بن ظالم نہیں ( اگر کوئی ظلم کر ے تو صبر سے کام لے ) ، کمزور و مقہور بنو ، قاہروز ورآ ورنہیں ، مظلوم کے لئے اللہ کی مدد ہے جبکہ خلقت میں سے کوئی اس کی مدد کرنے والا نہ ہو، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
إذا ظلم من لم يجد ناصرا غير الحق عز وجل فإنه يقول لا نصرنك ولو بعد حين جب کسی پر ظلم ہو اور کوئی اس کی مدد کرنے والا نہ ہو، اللہ تعالی فرماتا ہے: اے میری مظلوم بندے! میں تیری ضرورمد دکروں گا۔ اگر چہ کچھ دیر بعد ہو۔ صبر نصرت اور رفعت اور عزت کا باعث ہے ۔ التجا نہیں ہے: اللهم إنا نسئلك الصبر معك ونسئلك التقوى والكفاية والفراغ من الكل والاشتغال بك ” الہی! ہم تیرے ساتھ صبر کا سوال کرتے ہیں ۔ اور تجھ سے تقوی اور کفایت اور سب سے فراغت اور تیرے ساتھ مشغول ہونا ، اور تیرے اور ہمارے درمیان جو حجاب حائل ہیں ،ان کے اٹھا لینے کا سوال کرتے ہیں ۔‘‘ اللہ کے بندو! تمہارے اور اللہ کے درمیان جو واسطے ہیں، انہیں اٹھالو، کیونکہ واسطوں پر ٹھہرے رہنا حرص ہے ۔ ملک اور سلطنت اور غنا اور عزت اللہ ہی کے لئے ہے۔ اے منافق !تو کب تک دکھاوے اور منافقت سے کام لے گا، جس کے لئے تو منافقت کرتا ہے، اس سے تجھے کیا حاصل ہوگا؟ تجھ پر افسوس ہے تو اللہ سے شرم کیوں نہیں کرتا۔ عنقریب اس سے ملنے پر ایمان کیوں نہیں رکھتا ۔ ظاہری طور پر تو اس کے لئے عمل کرتا ہے اور باطن میں اس کے غیر کے لئے ۔ تو اسے فریب دینا چاہتا ہے اور اس کے حلم کی وجہ سے اس سے بخشش بھی چاہتا ہے، تو ایسی حرکت سے باز آ اور اپنی اس حرکت کی تلافی کر اللہ کے لئے اپنی نیت ٹھیک کر ۔ کوشش کر کہ اللہ کے لئے کی گئی نیک نیت کے بغیر تو ایک بھی نوالہ نہ کھائے اور نہ ایک قدم چلے اور نہ کسی طرح کا کوئی کام کرے، جب تو اس طرح سے کرنے لگے گا تو پھر جو بھی عمل کرے گا اللہ ہی کے لئے ہوگا، اس کے غیر کے لئے نہیں، تجھ سے ہر تکلیف دور ہو جائے گی ، اور یہ نیک نیت بندے کے لئے عادت بن جائے گی، جب اللہ تعالی کے لئے اس کی عبودیت صحیح ہو جائے گی تو پھر کسی معاملے میں بھی تکلف کی ضرورت نہ رہے گی کیونکہ اس کا اللہ سے تعلق ہو گیا ہے، جس کا اللہ سے تعلق ہو جا تا ہے ۔ اللہ اس کی کارسازی فرماتا ہے، اور اس بندے کو غنی کر دیتا ہے اور خلقت سے حجاب میں رکھتا ہے اسے خلقت کی حاجت نہیں رہتی ، سختی اور مشقت اسی وقت تک ہے جب تک کہ تو سفر کے لئے ارادے اور قصد میں ہے ۔ راہ طریقت پر چلتے چلتے تو اس تک جب پہنچ جائے گا، تیرے سفر کی مسافت طے ہوجائے گی تو قرب الہی کی منزل پر پہنچ چکا۔ تیرا تکلف اس وقت دور ہو جائے گا۔ اس کا انس تیرے دل میں گھر کر لے گا اور دن بدن بڑھنے لگے گا۔ پہلے کم ہوگا ، پھر رفتہ رفتہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اور تیرے دل کی ہرسمت میں پھیل جائے گا۔ اللہ کا انس جب پوری طرح سے بڑا ہوگا تو قرب الہی سے بھر جائے گا اور اس میں غیر کے لئے نہ کوئی گنجائش رہتی ہے ۔نہ دا خلے کا راستہ ۔ اگر تو اس مقام کو پانا چاہتا ہے تو احکام الہی پرعمل پیرا رہ اور جن کاموں کے کرنے سے منع کیا ہے ان سے باز رہ ۔ اچھائی، برائی ،امیری غریبی عزت و ذلت، دنیا و آخرت کے کم یا زیاده سب کام اس کے سپرد کر دو، عمل کرو اور ایک ذرہ برابر صلے کی تمنا نہ کرو۔تو عمل کئے جا، تیرا مقصود فقط اللہ کی رضا اور اس کا قرب ہودنیا و آخرت میں اس کی رضا اور قرب ہی جزا ہے صلہ ہے۔ دنیا میں قرب دل کے لئے ہے اور آخرت میں بدن کے لئے ہے ۔عمل کر اور ذرہ ودیناروں کی رغبت نہ کرو۔ اپنے عمل کی طرف نظر رکھ، بلکہ تمہارے اعضاء تو عمل میں مصروف ہوں اور دل عمل کرانے والے میں مشغول ہو، جب یہ مقام حاصل ہو جائے تو تمہارے دل کے لئے آنکھیں ہوں گی جن سے تو دیکھے گا۔ معنی بصورت اپنالیں گے۔غائب حاضر بن جائے گا۔ خبر ،مشاہدہ بن جائے گی ۔ بندہ جب اللہ کے لئے خود کواہل ثابت کر لیتا ہےتو اللہ اس کے ہر حال میں اس کے ساتھ ہوتا ہے۔
– اللہ اس میں تغیر کرتا اور اسے بدلتا ہے، ایک حال سے دوسرے حال پر لاتا ہے، وہ سرتا پا باطن ہو جا تا ہے، وہ مجسم ایمان اور یقین اور معرفت اور قرب اور مشاہدہ بن جا تا ہے ، وہ دن بغیر رات کے روشنی بغیر تاریکی کے، صفائی بغیر میلے پن کے ۔دل بغیر نفس کے ،باطن بغیر دل کے، فنا بغیر وجود کے ،غائب بغیر حضور کے ہو جا تا ہے۔ وہ خلقت اور اپنے نفس سے غائب ہو جا تا ہے ۔
اس سب کی بنیاد اللہ تعالی کے ساتھ انس ہے،۔ جب تک کہ اللہ اور تیرے بیچ میں ایسا کامل انس نہ ہو جائے ، کلام نہ کر ، خلقت سے ایک قدم آگے چل ، تو ان سے ہونے والا نفع و نقصان دیکھ چکا، ان کو پرکھ چکا، اس سے ایک قدم دور ہو کر دیکھ اور اس کی موافقت نہ کر ۔ اسے بھی تو نے جانچ لیاء اللہ کی رضا کے لئے نفس سے دشمنی کر ، نفس اور خلقت دو آگ کے سمندر ہیں ، دونوں ہلاک کر دینے والے جنگل ہیں ۔ تو پختہ ارادہ کر کے ہلاک کر دینے والے اس جنگل سے نکل جا۔ اور سلطنت الہی میں داخل ہو جا نفس اور خلقت میں مبتلا رہنا بیماری ہے اور انہیں ترک کر کے اللہ سے ملنا دوا ہے ۔ اللہ نے بیماری بھی اتاری ہے اور اس کی دوا بھی ۔ سب بیماریاں اللہ کے پاس ہیں ، اور اس کے دست قدرت میں دوا ہے، اللہ کے سوا کوئی اس کا مالک نہیں ۔اگر وحدت پر صبر کرو گے تو وحدت کا انس حاصل ہوگا۔
فقر پر صبر کرو گے تو غنا پاؤ گے۔پہلے دنیا کو ترک کر ، پھر آخرت کو طلب کر ، پھر آخرت کو ترک کر ، اور قرب مولی کو طلب کر پہلے طاقت کو چھوڑ ، پھر خالق کی طرف رجوع کر۔ تجھ پر افسوس ہے ۔ تو کیوں نہیں سوچتا کہ خلقت اور خالق ، دنیا و آخرت ، دونوں ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے ۔ رات اور دن سیاہی اور سفیدی ، دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ۔
یہ دونوں جمع ہو ہی نہیں سکتے ، نہ ہی ان کے جمع ہونے کا تصور ہوسکتا ہے ، نہ ہی یہ صحیح ہوسکتا ہے نہ ہی اس سے کچھ حاصل ہو سکتا ہے، یا تو خلقت کو اختیار کر یا خالق کو،دنیا کو اپنا لے یا آخرت کو، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ خلقت تیرے ظاہر میں ہو اور خالق تیرے باطن میں،د نیا تیرے ہاتھ میں ہو اور آخرت تیرے دل میں، دونوں تیرے دل میں یکجا ہو جائیں، ایسا ہونا ناممکن ہے، تو اپنے نفس کے لئے دونوں میں سے جسے چاہے پسند کر لے۔ اگر دنیا کی طلب ہے تو آخرت کو دل سے نکال دے، اگر آخرت کی طلب ہے تو دنیا کو دل سے نکال سے، اگر اللہ کی ذات تیری مطلوب ہے تو دنیا وآخرت اور ماسوا اللہ کو دل سے نکال دے۔ کیونکہ تیرے دل میں ماسوا اللہ کا ایک ذرہ بھی ہوا تو تو قرب الہی کو نہیں دیکھ پائے گا، نہ اس کے ساتھ انس ثابت ہو گا، نہ اس کی طرف سے کوئی سکون مل سکے گا ۔جب تک تیرے دل میں ایک ذرہ برابر بھی دنیا ہوگی تو آخرت کو نہ دیکھ پائے گا ، جب تک تیرے دل میں ایک ذرہ برابر بھی آخرت ہوگی تو قرب الہی کو نہ پائے گا۔ عقل سے کام لے تو سچائی کے قدموں کے بغیر اللہ کے دروازے تک نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ جانچنے والا بڑادانا اورخبر رکھنےوالا ہے۔
تجھ پر افسوس ہے، خلقت سے چھپتا پھرتا ہے، خالق سے کیسے چھپ سکے گا۔ خلقت سے چھپنا تجھے کیا فائدہ دے گا، تو عنقریب خلقت کے نزدیک رسوا ہو جائے گا، تیرے ذرائع معاش تیری جیب اور تیرے گھر سے نکال لئے جائیں گے،اے کانچ کے ٹکڑے کو اپنے کھانے کے برتن میں چھوڑ دینے والے! جب کھائے گا تو تجھے پتہ لگ جائے گا، اے زہر کے کھانے والے! اس کا اثر جلد ہی تیرے جسم میں ظاہر ہونے لگے گا،۔ حرام کا کھانا تیرے دین کے بدن کے لئے زہر ہے، نعمتوں پر شکر نہ کرنا تیرے دین کے لئے زہر ہے، شکر کرنا چھوڑ دینے پر اللہ تعالی جلد ہی تجھے محتاج کر دے گا، تو خلقت کے سامنے ہاتھ پھیلانے ، اور اس کے دل سے تیرے لئے نرمی اٹھا لینے کی صورت میں سزا دے گا۔ اے اپنے علم پرعمل نہ کرنے والے،عنقریب تیراعلم تجھے بھول جائے گا، تیرے دل سے اس کی برکت اٹھ جائے گی، اے جاہلو ۔ اگر تم اللہ کو پہچان لیتے تو اس کی جزا وسزا کو جان لیتے ، تم اللہ اور اس کی خلقت سے بڑے ادب سے حسن سلوک کرو اور بے مقصد کے کام میں بات کرنا کم کر دو۔
چہ معنی دارد؟
ایک ولی اللہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک نوجوان کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اس سے کہا: اگر تو محنت مزدوری کرتا تو تیرے لئے کتنا اچھا تھا!۔ اسے نصیحت کرنے پر مجھےیہ سزادی گئی کہ میں چھ ماہ تک شب بیداری سے محروم رہا۔
اپنی حالت کو بدلوتو تبدیلی آئے:
اے بیٹا بیکار کی باتیں چھوڑ کر کام کی باتوں میں لگ جا، اپنے دل سے نفس کو نکال دے تا کہ تجھے بھلائی ملے ۔ کیونکہ نفس ہی میلا ہے جو اوروں کومیلا کرنے والا ہے، اسے نکال دینے سے ہی صفائی آ سکے گی۔ اپنی حالت کو بدلو گے تو تبدیلی آئے گی ۔ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا ‌يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى ‌يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ
اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو خود نہ بدلے۔“ اے بندے سن ! اے لوگو سنو! اے شرع کے مکلفو سنو! اے عقل والو! اے بالغوا – اللہ کا کلام اور اس کی خبر یں سنو! ۔ کیونکہ وہ کلام کرنے والوں میں سب سے سچا ہے ۔ اپنے نفسوں سے اللہ کی ناپسندیدہ چیزیں دور کرو، تا کہ جو کچھ اس سے چاہتے ہو وہ تمہیں عطا کرے، راستہ کھلا اور وسیع ہے تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اس پر کیوں نہیں چلتے۔
اے لولے لنگڑو! اےا پا ہجو! اٹھ کھڑے ہو جاؤ ، اللہ کا دامن رحمت تھام لو، اچھے عمل کرو ، غفلت نہ کرو ۔ دین متین کی رسی کے دونوں سرے جب تک تمہارے ہاتھ میں ہیں ، اللہ سے ایسی مدد چا ہو کہ تمہارے نفسوں کی اصلاح ہو جائے ، تم ان پر سوار ہو جاؤ ور نہ وہ تم پر سوار ہو جائیں گے نفس دنیا میں برائی کا حکم کر نے والا ہے اور آخرت میں ملامت کرنے والا ہے ، جو چیز تمہیں اللہ سے روکے، اس سے یوں بھاگو جیسے حملہ کرنے والے درندے سے بھاگتے ہو،اللہ سے معاملہ طے کر لے، اس سے جو معاملہ کرتا ہے، فائدے میں رہتا ہے۔ جو اس سے محبت رکھتا ہے، اللہ اس سے محبت رکھتا ہے۔ جو اللہ کا ارادہ کرتا ہے، اللہ اس کا ارادہ کرتا ہے۔ جواس کے قریب ہو، وہ اس کے قریب ہو جا تا ہے جسے اس کی معرفت نصیب ہوئی ،اسے اپنے نفس کی معرفت نصیب ہوئی۔ میری سنو اور اسے قبول کرو ۔ کیونکہ روئے زمین پر میرے سوا اور کوئی نہیں جو میری طرح سے بات کرتا ہوں ۔ میری دوسری حالت یہ ہے کہ خلقت کو خلقت کے لئے چاہتا ہوں اپنے لئے نہیں، اگر آخرت کی تمنا کرتا ہوں تو اپنے لئے نہیں انہی کے لئے ، جس جس کلمے سے میں بات کرتا ہوں ، اس سے صرف اللہ ہی کی رضا چاہتا ہوں، دنیا اور آخرت اور جو کچھ ان دونوں میں ہے، میرے سامنے کیا وقعت رکھتے ہیں، وہ میری سچائی کو خوب جانتا ہے کیونکہ وہ ہر غیب کا جاننے والاہے۔ میرے پاس چلے آؤ ۔ میں کسوٹی پرکھنے والا ہوں۔ میں بھٹی اور ٹکسال (سکہ ڈھالنے والی مشین ) کا مالک ہوں۔
غیر خدا میں خدا کو دیکھنا خودفریبی ہے:
اے منافق اتو کیا بے ہودہ باتیں کر رہا ہے ۔ تیری الٹی سیدھی ہانکنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ تو کب تک میں میں کے چکر میں پڑا رہے گا، تو ہے کون؟ تجھ پر افسوس ہے، تیری نظر تو غیر خدا پر ہے اور کہتا ہے کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں، تو غیر خدا سے انس رکھتا ہے اور کہتاہے کہ میں اللہ تعالی سے انس کرتا ہوں ، تو اپنے نفس کو راضی برضا بتلاتا ہے حالانکہ وہ فسادکر نے والا ہے، تو اپنے نفس کو صبر کرنے والا کہتا ہے جبکہ ایک مچھر تجھے بے چین کر کے ، ناشکرا بنادیتا ہے۔ مصیبتوں اور تکلیفوں کی کثرت تیرا گوشت جب تک مردہ نہ کر دے کہ آفتوں کی قینچیاں اسے کاٹ ہی نہ سکیں ، تو اس وقت تک بات نہ کر ، اس مقام پر تو سراپا خلوت ہو جائے گا۔ دنیا اور آخرت تیرے دل کو خالی کر دیں گے ، اور دنیا و آخرت اور جو کچھ ان میں ہے، ان سب کے لئے تو معدوم ہو جائے گا ، احکام کی فرماں برداری اور نافرمانی سے بچے رہنے کے لئے ” تیرا وجود ہوگا۔ کیونکہ اللہ تمہیں وجود دے گا اور اس کا فعل تمہیں حرکت وسکون عطا کرے گا، تو اس کے ساتھ اپنی ذات سے غائب رہے گا۔ جب تک تیرے لئے کوئی مقام صحیح ثابت نہیں ہوگا اللہ تعالی بندے کی ظاہری صورت کو نہیں چاہتا ، بلکہ اس کے باطن کو چاہتا ہے کہ اس کی توحید اخلاص کے ساتھ کرے، دنیا وآخرت کی محبت اپنے دل سے نکال دے، اور سب چیزوں کو دل سے دور کر دے ۔ جب یہ مقام پورا ہو جائے گا تو اللہ اسے اپنا محبوب بنا لے گا، اسے اپنا قرب عطا کرے گا اور اسےاوروں سے بلند کر دے گا۔ يـا واجـد وجـدنا لك خلصنا من الخلق واستخلصنا لك صحح دعا وينا ببينة فضلك ورحمتك طيب قلوبنا ويسر أمورنا إجعل الشتابك ووحشنا ممن سواك إجعل همومنا همّا واحدا وهوالهم بك و القرب منك دنيانا وأخراتاه ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( خدائے ) واحد! ہمیں اپنی توحید سکھا، اور ہمیں اپنی خلقت سے نجات دے، اور اپنے لئے خالص بنا لے، ہمارے دعوے کو اپنے فضل اور رحمت کے گواہوں کے ساتھ صحیح کر، ہمارے دلوں کو پاک کر دے اور مشکلوں کو آسان کر ، اپناانس ہما را نصیب کر ،غیر سے وحشت عطا فرما، ہماری سب فکروں کو ایک ہی فکر بنادے کہ ہماری دنیا اور آخرت ، تیرافکر اور تیرا قرب ہو۔ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائیاں عطا کرے ۔ اور آخرت میں بھلائیاں عطا کرے ۔ اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ ۔‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 243،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 137دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
سینتیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے سینتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السابع والثلاثون فی عیادۃ المرضی ‘‘ ہے۔
منعقده 5ر جب 545 ھ بوقت صبح جمعہ، بمقام مدرسہ قادریہ
بیماروں کی عیادت اور جنازے میں شرکت کرنا آخرت کی یاد دلاتے ہیں:
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفر مایا:
عُودُوا ‌الْمَرْضَى، وَاتَّبِعُوا الْجَنَائِزَ يُذَكِّرْكُمُ الْآخِرَةَو بہاروں کی عیادت کیا کر داور جنازوں میں شرکت کیا کرو کیونکہ تمہیں آخرت کی یا دولا ئیں گے ۔‘‘ اس فرمان مبارک سے رسول اللہ ﷺ کا یہ مقصود ہے کہ آخرت کو یاد کیا کرو، کیونکہ تم آخرت کی یاد سے بھاگتے ہو اور دنیا سے محبت کرتے ہو۔ جلد ہی تم سے پوچھے بنادنیا اور تمہارے بیچ میں حجاب آ جائے گا، ۔ جو چیزیں تمہاری خوشی کا باعث ہیں وہ تمہارے ہاتھوں سے لے لی جائیں گی ۔ اور جو چیز یں تمہیں ناپسند ہیں اور تمہارے لئے کراہت کا باعث ہیں، وہ تمہارے پاس آ جائیں گی ۔خوشی کے بدلے تمہیں رنج اور دکھ ملے گا۔ اے غفلت کے مارے! اے نادان ! ہوش کر ، تو دنیا کے لئے نہیں بنا بلکہ آخرت کے لئے بنایا گیا ہے ۔ اے غافل ضروریات کی تو بات الگ،تو نے شہوتوں اور لذتوں، اور دینار پر دینار جمع کرنے کو اپنا مقصد بنا لیا ہے ۔ اور اپنے اعضاء کو کھیل کود میں مشغول کر لیا ہے، اگر کوئی یاد دلانے والا تجھے آخرت اور موت کی یاد دلائے تو اپنے سر کو ادھر ادھر ہلاتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے میری عیش مجھ پر تنگ کر دی ہے۔ سفید بالوں کی شکل میں تیرے پاس موت سے ڈرانے والا آ گیا، جبکہ تو سفید بال کٹوادیتا ہے یا انہیں سیاہ کر کے ان کی مت بدل دیتا ہے، (سوچ) جب موت آ جائے گی تو تو کیا کر سکے گا ۔ جب موت کا فرشتہ اپنے ساتھیوں سمیت آدھمکے گا تو اسے کیا دے کر لوٹا سکے گا، جب تیرارزق ختم ہو جائے گا، اور جینے کی مدت پوری ہو جائے گی تو کیا حیلہ بہانہ کرے گا ۔
تو اس حرص سے الگ ہو جا، دنیا کی بنیاعمل پر ہے۔ اس میں جب عمل کرے گا تو (اجر میں تجھے آخرت ملے گی اگر کچھ عمل نہ کیا تو اجر کچھ نہ ملے گا۔ دنیا عمل کا گھر ہے،آفتوں پر صبر کر نامشقت کا گھر ہے، آخرت، راحت و آرام کا گھر ہے۔ سچا ایمان والا دنیا میں اپنے نفس کو مشقت میں ڈال کر ضرور آرام پاتا ہے، لیکن ہوس کا مارا آرام کے لئے جلد بازی کرتا ہے جبکہ توبہ کے لئے ٹال مٹول کرتا ہے، اسی طرح دنوں، مہینوں اور برسوں میں تاخیر کرتا چلا جاتا ہے، حالانکہ تیری زندگی کی مدت ختم ہوئی چاہتی ہے ۔ عنقریب تجھے ندامت ہوگی اورپچھتائے گا کہ میں نے نصیحت کیوں نہ مانی اور ہوش کیوں نہ کی، اسے جانا اور توجہ کیوں نہ کی ، تجھے سچی راہ بتائی گئی لیکن تو نے اسےسچ نہ جانا۔ تجھ پر افسوس! تیری زندگی کا شہتیر ٹوٹ چکا، اوراے غرور والے! تیری زندگی کی دیواریں ایک دوسری پرگری پڑتی ہیں، جس گھر میں تو ہے، ویران ہو چلا ہے، اس گھر سے دوسرے گھر میں چل، آخرت کا گھر طلب کر ، اپنا مال اسباب اس کی طرف لے چل، یہ مال اسباب تیرے نیک اعمال ہیں، دنیا میں نیک اعمال کر ، آخرت کی طرف جانے سے پہلے اپنے نیک اعمال بھیج دے تا کہ وہاں پہنچنے پر تجھے مل جائیں ۔
اے دنیا پراکڑ نے والے بے مقصد کاموں میں مشغول ہونے والے! اے بیوی (جیسی نعمت )چھوڑنے والے اور خادمہ سے لطف اٹھانے والے۔تجھ پر افسوس ہے آخرت کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ اس کو نہیں پسند نہیں کرتی ، اس خادمہ ( دنیا کو اپنے دل سے نکال دے، جبکہ تو نے دیکھ لیا کہ آخرت کیسے ملتی ہے، تیری طرف کیسے آتی ہے اور کیسے تیرے دل پر غلبہ کرتی ہے، جب تیری یہ حالت ہو جائے تو قرب الہی تجھے بلائے گا ۔ اس وقت آخرت کو چھوڑ دینا اور مولی کوطلب کر نا ۔ اس موقع پر دل کو صحت اور باطن کی صفائی کامل ہو جائے گی۔
دل کی تندرستی ہو تو اللہ اور اس کے فرشتے گواہی دیتے ہیں:
اے بیٹا! جب تیرا دل تندرست ہو جائے گا تو اللہ اور اس کے فرشتے اور علم والے گواہی دیں گے، تیرے لئے ایک دعوی کرنے والا کھڑا کر دیا جائے گا، جو تیرے لئے مفید شہادت دے گا۔ اپنے نفس کی صحت پر شہادت دینے کی تجھے کوئی ضرورت نہ ہوگی ، جب تجھے اس میں کمال حاصل ہوگا تو پہاڑ کی طرح اٹل ہو جاؤ گے، جسے حوادث کی ہوائیں نہ ہلاسکیں گی ، نہ ہی نیزے (بھالے ) اسے توڑ سکیں گے، نہ ہی خلقت کا دیکھنا اور ان سے میل جول کچھ اثر کرے گا۔ نہ تیرے دل میں کوئی وسوسہ آ سکے گا نہ کوئی تیرے باطن کے اجلے پن کومیلا کر سکے گا۔
خلقت کی رضا مندی چاہنے والا اللہ کا نافرمان ہے :
اے لوگو! جو اپنے کسی عمل سے خلقت کی رضا مندی چاہے ، اور اس کی قبولیت کا خواہاں ہو ، اس سے الگ رہو وہ نا فرمان غلام ہے جو مالک سے بھا گا ہوا ہے، وہ اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا اور اس کا ناشکر گزار ہے، اس کی نعمت کی آڑ میں اس کی درگاہ سے دھتکارا ہوا اورلعین ہے، ۔۔ خلقت تجھ سے ، تیرا دل ، تیرادین اور بھلائی چھین لے گی اور تجھ سے رب کو بھلا کر تجھے مشرک بنا دے گی ۔
خلقت تجھے اپنے لئے چاہتی ہے، تیرے لئے نہیں، اللہ تعالی تجھے تیرے لئے چاہتا ہے اپنے لئے نہیں، جو تجھے تیرے لئے چاہتا ہے اس کو طلب کر ، اور اسی میں مشغول رہ ۔ کیوں کہ اس کے ساتھ مشغول ہونا اس سے بہتر ہے جو تجھے اپنے لئے چاہتا ہے ۔ قرب الہی کے علاوہ تجھے اگر کچھ درکار ہے، تو اسے اللہ سے ہی طلب کر ، خلقت سے نہ مانگ ۔ کیونکہ خلقت میں اللہ کے نزدیک وہی نا پسندیدہ ہے جو دنیا کو خلقت سے مانگے ۔ اس کی ساتھ فریاداسی کی طرف کر، کیونکہ وہ غنی ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے ۔حکم الہی کے بغیر مخلوق اپنے لئے اور نہ دوسرے کے لئے کسی نفع یا نقصان کی مالک نہیں ، تو اللہ کی طلب کر اور اسی سے لولگا ، وہ تجھے چاہنے لگے گا، آغاز میں تو چاہنے والا ہو گا اور وہ چاہا جانے والا ( یعنی مطلوب ) انتہا میں وہ چاہنے والا ہوگا اور تو چاہا جانے والا ۔
بچپن میں بچہ اپنی ماں کا طالب ہوتا ہے، اور جب بڑا ہو جائے تو اس کی ماں اس کی طالب ہوتی ہے ۔ اللہ پر تیرے ارادے کی سچائی جب ظاہر ہو جائے گی تو وہ تجھے چاہنے لگے گا، اور جب اپنے ساتھ تیری محبت کو سچا جان لے گا تو وہ تجھے اپنا محبوب بنالے گا، تیرے دل کی رہنمائی کرے گا اورتجھے اپنے قریب کر لے گا۔ تجھے فلاح کیسے حاصل ہو جبکہ تو نے اپنے دل کی آنکھوں پر اپنے نفس اور حرص اور خواہش اور شیطان کے ہاتھ رکھ چھوڑے ہیں، دل کی آنکھوں سے ان ہاتھوں کو ہٹا دے، پھر ان چیزوں کی اصلیت تم پر روشن ہو جائے گی ، اپنے نفس سے مجاہدہ کر اور اس کی مخالفت کر کے اسے الگ کر،تا کہ شیطان اور حرص اور خواہش کے ہاتھ کو اپنے دل سے ہٹا سکے ۔ تجھے اللہ تک رسائی ہو جائے گی ، ان ہاتھوں کو ہٹادے اللہ تعالی اور تیرے درمیان کے حجاب اٹھ جائیں گے، چنانچہ تو اس سے ماسوی اللہ کودیکھنے لگے گا ، اپنے نفس کو بھی دیکھ لے گا، اپنے عیب دیکھ کر ان سے بچے گا، ۔غیر کے عیب دیکھ کر ان سے بھاگے گا۔ جب تجھے یہ کمال حاصل ہو جائے گا، اللہ تجھے اپنا مقرب بنا لے گا ، وہ کچھ عنایت کرے گا جو نہ کبھی تیری آنکھو ں نےدیکھا اور نہ ہی کانوں نے سنا، نہ کسی انسان کے دل پر اس کا خیال گزرا ہو، ۔ تیرے دل اور باطن کی شنوائی اور بینائی تیز ہوگی ، قلب اور باطن صحیح ہو جائیں گے، اللہ تعالی انہیں اپنی کرامت خلعت عنایت فرمائے گا ، اپنی ولایت سے مالک و حاکم بنادے گا ،ساری خلقت پر تیرا حال ظاہر کر دے گا۔ تجھے اپنے قرب کا نگہبان اور محافظ بنادے گا ،فرشتے تیرے خادم ہوں گے۔ نبیوں اور رسولوں کی روحوں کی زیارت کا شرف حاصل کرے گا – خلقت میں سے کوئی بھی چیز تم پر چھپی نہ رہے گی۔
دنیاطلبی چھوڑ دے، یہ تیرا پیٹ نہ بھرے گی :
بیٹا! اس مقام کی طلب اور تمنا کر اس کو اپنا محورفکر بنا اور دنیا کی طلب چھوڑ دے یہ تیرا پیٹ نہ بھرے گی ، اللہ سے مشغول رہ ، وہی تیرا پیٹ بھرے گا۔ جب تجھے یہ مقام مل جائے تو دنیا و آخرت میں غنا اور بے نیازی حاصل ہوگی ۔ تیرا پیٹ بھرے اے غافل!جو پیار کرتا ہے اس سے پیار کر ،جو طالب ہے ، اس کو طلب کر ، جومشتاق ہے، اس کا اشتیاق کر جو تیرا ارادہ رکھتا ہے، تو اس کا ارادہ رکھ کیا تو نے یہ ارشاد باری نہیں سنا: ‌يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ
’’اللہ کوان سے محبت ہے، انہیں اللہ سے محبت ہے۔ اور تو کیا حدیث قدسی میں اس کا یہ فرمان نہیں سنا۔ ‌إلى ‌لقائكُم بالأشواقِ اور میں تم سے ملنے کا بہت شوق رکھتا ہوں ۔“
اللہ نے تمہیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ تو کھیل کود میں مت لگ ۔اس نے مجھے اپنے لئے بنایا ہے اس کے غیر سے پیار نہ کر ۔ اگر غیر سے پیار کروتو صرف شفقت اور رحمت اور مہربانی جائز ہے، نفسوں کی محبت جائز ہے لیکن غیر کو نہ دلوں سے پیار جائز ہے نہ باطن سے جائز ہے ۔ -حضرت آدم علیہ السلام کا دل جب جنت کی محبت میں مشغول ہوا، اور اس میں رہنا پسند کیا تواللہ تعالی نےآدم علیہ السلام کو جنت سے جدا کر دیا ، اور انہیں پھل کھانے کی سزا میں نکال باہر کیا ۔
ان کا دل حضرت حوا علیہا السلام کی طرف مائل ہوا، ان سے بھی جدا کر دیئے گئے ۔اوران میں تین سو سال کے سفر کی دوری ڈال دی ، حضرت آدم علیہ السلام کو سراندیپ میں اور حضرت حواعلیہا السلام کو جدہ میں ۔ – حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت یوسف علیہ السلام سے پیار محبت کی تو اللہ تعالی نے ان دونوں میں جدائی ڈال دی ۔ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف مائل ہوئے تو ان پر کیا کیا جھوٹ اور بہتان لگے اور جو قصہ پیش آیا وہ سب پر ظاہر ہے ۔ چند دن تک جدائی پڑی رہی۔ چنانچہ اے مخاطب! اللہ تعالی ہی میں مشغول ہو، غیر اللہ سے تعلق ختم کر دے، اللہ کے سوا کسی غیر سے الفت اور محبت نہ رکھ۔ خلقت کو اپنے دل سے باہر نکال کر اس سے الگ کر دے، دل کو فقط اللہ کے لئے خالی رکھ۔ اے جھوٹے! اے کاہل!، کسی کی بات پر کم ہی سننے والے! اگر تو میری بات مان لے اور میرے کہنے پر عمل کرے تو تیرایہ عمل تیری جان کے فائدے کے لئے ہوگا، اور اگر تو میری بات پرعمل نہ کرے تو اس میں تیرے ہی نفس کا نقصان اور وبال ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : لَهَا مَا ‌كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ نفس ہی کے لئےبھلا جوکچھ وہ عمل کرے۔ اور نفس ہی کے لئےبرا جوکچھ وہ عمل کرے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا “اگر تم نے اچھے عمل کئے تو اپنے ہی نفسوں کے لئے ،اور اگر برے عمل کے تو اپنے ہی لئے کئے ۔‘‘ کل قیامت کے دن نفس ہی جنت میں اعمال کا ثواب پائیں گے، اور دوزخ میں اعمال کا عذاب پائیں گے ۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: اطعموا طعامكم الاتقياء وأعطوا خرقكم المؤمنين ’’اپنا کھانا پرہیز گاروں کو کھلا ؤ اپنا کپڑا ایمان والوں کو پہناؤ۔ اپنا کھانا جب تو پرہیز گاروں کو کھلائے گا ، اور اس کے دنیاوی کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائے گا ، تو یوں اس کے عمل میں شریک ہو جائے گا ، اور اس کے اجر میں کوئی کمی نہ آئے گی کیونکہ تم نے اس کے مقصد کے لئے اس کی مدد کی ، اس کے بوجھ کو اس سے اٹھالیا ، اس کے رب کی طرف اس کے قدم تیز رفتار کر ادیئے۔
اورجب تو اپنا کھانا کسی منافق ، ریاکار اور نافرمان کو کھلائے گا ، اور اس کے دنیاوی کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائے گا ، اور یوں اس کے کاموں میں شریک ہو جائے گا، اور اس کے عذاب میں کوئی کمی نہ آئے گی ، کیونکہ تم نے اللہ کی نافرمانی کرنے میں اس کی مدد کی ، اس کے رب کی طرف اس کے قدم سست رفتار کرادئیے ، اس کی برائی تیری طرف لوٹے گی ۔ اے جاہل علم سیکھ! جو عبادت علم کے بغیر ہواس میں بھلائی نہیں ہے اور نہ علم کے بغیر یقین میں خیر و خوبی ہے ۔ علم سیکھ اور عمل کر ، اس طرح تو دنیا و آخرت میں فلاح پائے گا، علم سیکھ کر اس پر عمل کرنے پر اگر تجھے صبر نہ آئے تو فلاح کیسے پا سکے گا، جب تو اپنے آپ کو مکمل طور پر علم کے سپردکر دے گا ، وہ بھی تجھے اپنا کچھ حصہ دے گا۔
علم سیکھنے کا ایک انداز یہ بھی ہے۔
کسی نے ایک عالم سے استفسار کیا کہ آپ کو جوعلم ہے، وہ کیسے حاصل ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ کوے کے سویرے اٹھنے گدھے کے صبر، خنزیر کی حرص اور کتے کی خوشامد سے حاصل کیا، اس طرح کہ میں: سویرے ہی اٹھ کر علماء کے دروازے پر پہنچا جس طرح کہ کواسویرے ہی اڑ جا تا ہے۔ ان کے ڈالے ہوئے بوجھوں پر ویسے ہی صبر کرتا جس طرح کہ گدھا بوجھ اٹھانے پر صبر کرتا ہے، علم سیکھنے پر ایسی حرص کرتا جیسے کہ کھانے کی چیز پر خنزیر حرص کرتا ہے۔ اساتذہ کی اس طرح سے خوشامد کرتا جیسے کہ کتا اپنے مالک کے دروازے پر کھانے کے لئے چاپلوسی کرتا ہے۔ اے علم سیکھنے والے اگر توعلم سیکھنا چاہتا ہے اور فلاح پانا چاہتا ہے تو اس عالم کی بات پر توجہ دے اور اس پرعمل کر علم زندگی ہے اور جہالت موت جو عالم اپنے علم پر عامل ہو اورعمل میں مخلص ہواورعلم سکھانے پر صبر کرنے والا ہے تو ایسے عالم کے لئے موت نہیں ۔ کیونکہ جب وہ مرتا ہے تو اپنے رب سے جا ملتا ہے، اللہ کے ہاں اسے ہمیشہ کی زندگی مل جاتی ہے
دعا یہی ہے: اللهم ارزقنا والإخلاص فيه الہی ہمیں علم اور اس میں اخلاص عنایت فرما
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 253،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 141دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
اڑتیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اڑتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثامن والثلاثون فی فضل لا الہ الا اللہ ‘‘ ہے۔
منعقدہ 7ر جب 545 بروز اتوار بوقت صبح بمقام خانقاہ شریف
افضل الذکر کی کثرت شیطان کو بلا کر دیتی ہے:
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفر مایا: أضعفوا شياطينكم يقول لا إله إلا الله محمد رسول الله فإن الشيطان يضعف بها كما يضعف -أخذكم بعيره بكثرة ركوبه وشيل أحماله عليه و ( أفضل الذكر لا إله إلا الله محمد رسول اللہ سے شیطانوں کو دبلا کرو، کیونکہ شیطان اس سے دبلا ہو جا تا ہے۔ جیسے کوئی اپنے شریر اونٹ کو بکثرت سوار ہونے اور بکثرت بوجھ لادنے سےد بلا کرتا ہے ۔“ اے لوگو! تم محض لا اله الا اللہ ہی کہنے سے اپنے شیطان کود بلا نہ کرو بلکہ یہ الفاظ اخلاص کے ساتھ ادا کر کے شیطان کو د بلا کرو، توحید الہی انسان اور جن کے شیطانوں کو جلا ڈالتی ہے، کیونکہ توحید شیطانوں کے لئے آگ اور توحید والوں کے لئے نور ہے تو کس زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہے جبکہ تو اپنے دل میں بے شمار معبودر کھے ہوئے ہے ذات الہی کے علاوہ تو جس پر بھروسہ یا اعتماد کرتا ہے، وہی بت ترا معبود ہے، زبان سے توحید کا اقرار تجھے دل کے شرک کی ساتھ کچھ فائدہ نہ دے گا دل میں نجاست ہو تو جسم کی پاکی بے کار ہے ۔توحید والا اپنے شیطان کود بلا کرتا ہے، جبکہ مشرک کو اس کا شیطان دبلا کرتا ہے ۔ سب باتوں اور سب کاموں کی جان اور مغز اخلاص ہے، کیونکہ اخلاص سے خالی دل ایسے ہی ہے جیسے کوئی پوست مغز کے بغیر ہو، چھلکا تو صرف جلانے ہی کے کام آتا ہے ۔ اے مخاطب ! میری بات سنو، اور اس پر عمل کرو، ایسا کرنے سے تمہاری طبعی آگ سرد ہوگی ، اور تمہارے نفس کی شان کو توڑ ڈالے گا ۔ ایسی جگہ نہ جا جہاں تیرے تن کی آگ بھڑک اٹھے، اور تمہارے دین اور ایمان کا گھر برباد ہو جائے ، طمع ، اور حرص اور شیطان بھڑک اٹھے تو تمہارے دین اور یقین اور ایمان کو برباد کر دیں گے، ان منافقوں، بناوٹ کرنے والوں ، اورملمع سازوں کی باتوں پر کان مت دھرو کیونکہ طبیعت ملمع کی ہوئی ،حرص والی اور بناوٹی باتوں کی طرف کھینچتی ہے، جس طرح کہ نمک کے بغیرخمیرے آٹے کی روٹی پیٹ میں تکلیف کرتی ہے اور خانہ جسم کو تباہ کر دیتی ہے۔
علم کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا ، کامل مردان خدا کی زبانوں سے حاصل ہوتا ہے، یہ کامل مردکون ہیں ، مردان خدا ہیں! – پر ہیز گار، دنیا سے رغبت نہ کرنے والے، نبیوں کے وارث ، عارف ، عامل اورمخلص، تقوی کے سواسب کچھ حرص اور بے کار ہے۔ دنیا اور آخرت میں ولایت پر ہیز گاروں کے لئے ہے۔ دنیا اور آخرت میں بنیاد اور عمارت انہی کے لئے ہے ۔ ۔ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے پر ہیز گاروں ،توحید والوں اور صابروں کوہی پیار کرتا ہے۔ اگرتیرادل صحیح ہوتا تو ان مردان حق کو پہچان لیتا اور ان سے پیار کرتا، ان کی صحبت میں بیٹھتادل اگر اللہ کی معرفت سے روشن اور منور ہو، توہی طبیعت درست ہو سکتی ہے۔ دلی سکون اس وقت تک میسر نہ ہو گا تاوقتیکہ اللہ کی معرفت صحیح نہ ہو جائے ، اور اس کی طرف سے صحت اور بھلائی نہ آ جائے ، حرام چیزوں سے آنکھیں بند کر اور نفس کو شہوتوں سے روکے رکھے۔ نفس کو حلال لقمے کی عادت ڈال، مراقبہ الہی سے اپنے باطن کی حفاظت کر ، اور سنت نبوی ﷺ سے ظاہر کی حفاظت کرے ۔ اس حالت میں تیری خاطر صحیح ثواب والی ہوگی ، اور اللہ کی معرفت بھی صیح طرح سے حاصل ہوگی ، ۔ میں تو عقلوں اور دلوں کی تربیت کرتا ہوں نفسوں طبیعتوں اور عادتوں سے مجھے کچھ غرض نہیں ، نہ ہی ان کی کوئی خوبی والی بات ہے ۔
ایمان کا ایک حصہ مہر میں اور دوسرا شکر میں ہے:
اسے بیٹا علم سیکھ اور مخلص بن! تا کہ نفاق کی قید اور جال سے رہائی ملے تو علم کو خلقت اور دنیا کے لئے نہ حاصل کر، بلکہ اللہ کے لئے حاصل کر ۔ اللہ کے لئے علم سیکھنے کی علامت یہ ہے کہ امر ونہی کے وقت تجھے اللہ کا ڈراوراسی کا خوف ہو، اللہ کی طرف متوجہ رہ اور اس کے لئے اپنے نفس کو ذلیل کر بغیرکسی لالچ اور طمع کے خلقت کی تواضع کر اللہ ہی کے لئے دوستی کر اس کے لئے دشمنی کرغیر اللہ کے لئے جو دوستی ہو وہی دشمنی ہے۔ غیر اللہ کے لئے استقامت زوال کا موجب ہے۔ غیر اللہ کے لئے دینا محرومی کا باعث ہے،رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
الْإِيمَانُ نِصْفَانِ ‌نِصْفٌ ‌شُكْرٌ، وَنِصْفٌ صَبْرٌایمان کے دو حصے ہیں: ایک حصہ صبر اور ایک حصہ شکر ہے ۔“ مصیبت میں صبر اورنعمت پر شکر نہیں تو ایمان والا نہیں ، اسلام کی حقیقت یہی ہے کہ سب کچھ اللہ کے حوالے کر کے اگراس کی رضا پر راضی رہے۔ اللهم أحيي قلوبنا بالتوكل عليك بالطاعة لك بالذكر لك بالموافقة لك بالتوحيده ” الہی! ہمارے دلوں کو اپنے توکل اور اپنی اطاعت اور اپنے ذکر اور اپنی موافقت اور اپنی توحید کے ساتھ زندہ کر اللہ کے ایسے خاص بندے کہ جن کے دلوں میں ایسی زندگی ہے ، اگر روئے زمین پر نہ پھیلے ہوئے ہوتے تو تم سب کا ہلاک ہو جانایقینی تھا۔ کیونکہ ان کی دعا کی بدولت اللہ تعالی زمین والوں سے عذاب ٹال دیتا ہے ۔ ظاہری طور پر نبوت اٹھ گئی ہے مگر اس کے معنی قیامت تک باقی رہیں گے ورنہ زمین کس طرح سے اور کیونکر ہاتی رہتی ۔ زمین پر چالیس ابدال ( ہر وقت موجود رہتے ہیں ، ان میں سے بعض وہ ہیں جن میں نبوت کے معنی میں سے معنی موجود ہیں ، ان کے دل نبیوں کے دلوں جیسے ہیں ۔ انہیں میں سے اللہ اور اس کے رسولوں کے خلیفے زمین پر ہیں۔ اللہ تعالی نے علماء کو نیابت میں استادوں کا قائم مقام بنادیا ہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ ‌وَرَثَةُ ‌الْأَنْبِيَا (باعمل ) علماء ( ہی ) نبیوں کے وارث ہیں۔‘‘
وہ حفاظت اور عمل اور قول و فعل میں نبیوں کے سچے وارث ہیں ۔ فعل کے بغیر قول کے کچھ معنی نہیں ، اور گواہوں کے بغیر دعوی سننے کے لائق نہیں ۔
اے بیٹا! قرآن وسنت دونوں تیرے گواہ ہیں ، ان دونوں پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنا اپنی زندگی کا مقصد بنالے۔ میں تمہارے عالموں کو جاہل اور زاہدوں کو دنیا کی طلب کرنے والے، دنیا میں رغبت کرنے والے خلقت پر بھروسہ کرنےوالے اور اللہ کوبھول جانے والے دیکھ رہا ہوں ۔ اللہ کے سوا اوروں پر بھروسہ کر نالعنت کا باعث ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: لعنتی ہے لعنتی ہے جو اپنے جیسی مخلوق پر بھروسہ کرے۔ من تعزز بمخلوق فقد ذل و – ملعون ملعون من كانت ثقته بتخله
جومخلوق سے عزت چاہے، دو ذلیل ہے ۔‘‘
مصائب پر بے صبری سے نہ دین رہے نہ ایمان:
تجھ پر افسوس ہے جب تو خلقت سے نکلے گا تو خالق کے ساتھ رہے گا ،اپنے نفع اور نقصان کو جان لے گا ، اپنے اور بیگانے کے فائدے کی تمیز ہوگی ، اللہ کے دروازے پر ہمیشہ ثابت قدمی کے ساتھ رہو، اپنے دل سے اسباب کو دور کر دے، دنیا و آخرت کی بھلائی دیکھ لے گا ۔ جب تک خلقت یا آخرت اور ماسوی اللہ اور ریاکاری کو دل سے نکال نہ دے، اور ان میں سے کسی کا ایک ذرہ بھی دل میں نہ ر ہے ، تب تک یہ مقام نہیں پاسکتا، جب تو مصائب پر صبر نہ کرے گا ، نہ تیرادین رہے گا۔ نہ ایمان، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
‌الصَّبْرَ ‌مِنَ ‌الإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِصبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ‘‘
صبر کے معنی ہیں کہ تو کسی سے گلہ شکوہ نہ کرے۔ کسی سبب سے واسطہ نہ رکھے ،کسی مصیبت کے آنے کو نا پسند نہ کرے،ان کے زوال کو پسند نہ کرے
فقر اور فاقے کی حالت میں جب بندہ اللہ کے لئے تواضع کرے، اپنی مراد پر اس کے ساتھ صبر کرے، کسی مباح معاش سے عاروانکار نہ کرے، عبادت اور کسب میں رات دن ایک کر دے ایسےشخص کو اللہ تعالی نظر رحمت سے دیکھتا ہے، اس کے اہل خانہ کواس طرح سے غنی کر دیتا ہے کہ جس کا اسےکبھی خیال بھی نہ آیا ہو، ارشاد باری تعالی ہے : ، وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (٢) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا ‌يَحْتَسِبُ” جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس کے لئے کشائش کر دیتا ہے اور ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ جس کا بندے کو گمان بھی نہیں ہوتا ۔ تیری مثال پچھنے لگانے والے کی ہے جو دوسرے کی بیماری کو خارج کرتا ہے اور جو بیماری اس کے اندر ہے اسے نہیں نکالتا، میں تجھے دیکھ رہا ہوں کہ تو ظاہری علم میں ترقی کر رہا ہے جبکہ باطن میں صرف جاہل ہے۔ توریت میں لکھا ہے کہ
من ازداد علما فليزدد وجعان جوعلم میں ترقی کرے، اس کا درد بھی بڑھنا چاہئے ۔یہ درد کیا ہے! – اللہ تعالی سے خوف اور اللہ اوراس کے بندوں کے لئے عاجزی کرنا، اگر تجھے علم نہیں تو علم سیکھے۔ جب تجھے علم نہیں تو عمل کیسے ہوگا ، جب اخلاص اور ادب اور مشائخ کے ساتھ حسن ظن نہیں، تو تجھے کچھ کیونکر حاصل ہوسکتا ہے، تو نے دنیا اور اس کے مال کو اپنا مقصد بنا رکھا ہے۔ جلد ہی تیرے اور دنیا کے بیچ میں حجاب آ جائے گا ، اولیاء اللہ سے تجھے کیا نسبت!
وہ اپنے باطن اور ظاہر میں صرف اللہ کا مراقبہ کرتے ہیں، دلوں کو مہذب بناتے ہیں جیسے ظاہری اعضاء کو تہذیب سکھاتے ہیں۔ ان کی یہ حالت جب کامل ہو جائے تو انہیں سب خواہشوں سے کفایت کرتی ہے پھر ان کے دل میں صرف ایک ہی خواہش رہ جاتی ہے اور وہ ہے صرف اللہ کی طلب اور اس کی قربت ومحبت!
مسکینوں کو راضی کرنے میں اللہ کی رضا پنہاں ہے:
حکایت ہے کہ بنی اسرائیل پر ایک بار کوئی آفت آئی ۔ تمام قوم اپنے اس وقت کے نبی کے پاس آئی اور کہنے گی ہمیں کوئی ایسی بات بتائیں جس پر ہمارے عمل کرنے سے اللہ کی ذات ہم سے راضی ہو جائے ، اور ہم پر آئی ہوئی آفت ٹل جائے ۔“ اللہ کے اس نبی نے اللہ تعالی سے اس بارے میں دریافت کیا۔ اللہ تعالی نے اپنے اس نبی پروحی بھیجی: بنی اسرائیل سے کہہ دیں کہ اگر میری رضا چاہتے ہو تو مسکینوں کو راضی کرو ۔ اگر انہیں راضی کرلو گے تو میں تم سے راضی ہو جاؤں گا ، ۔ اگر انہیں ناراض کیا تو میں بھی ناراض ہو جاؤں گا ۔‘‘ اے غافلوسنو! تم ہمیشہ مسکینوں کو ناراض کرتے ہو، اور اللہ کو راضی بھی کرنا چاہتے ہو، ایسی حالت میں وہ تم سے راضی نہ ہوگا، بلکہ اس کی ناراضی میں کروٹیں لیتے رہو گے، نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو میری سخت کلامی پر ثابت قدم رہو، ثابت قدم رہنا ہی ثمر بار ہے، یہ مشائخ کے کلام اور ان کی سختی اور تندی سے بھی نہ بھا گتا تھا بلکہ اندھا اور گونگا بن جایا کرتا، ان کی سختیوں پر خاموش رہتا تھا، تو ان کی باتوں پر بھی صبر نہ کرتا اور یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح کی نجات مل جائے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہونے والا ، نہ ہی اس میں کوئی عزت ہے۔ جب تک اپنے نفع و نقصان کے معاملے میں تقدیر الہی کی موافقت نہ کرے گا۔ جب تک اپنے حصے اور نصیب کی تہمتوں سے خلاصی نہ پائے گا۔ جب تک مشائخ کی صحبت اختیار کر کے ان کی اتباع اور موافقت نہ کرے گا۔ تجھے فلاح نہ ملے گی ، جیسا کرنے کے لئے تمہیں کہا ہے، اس پر عمل کر کے ہی دنیا و آخرت کی فلاح مل سکے گی ۔ جو کچھ میں تم سے کہ رہا ہوں ، اسے سمجھو اور اس پرعمل کر و عمل کے بغیر کسی بات کا سمجھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اخلاص کے بغیر عمل لالچ کے سوا کچھ نہیں ملمع کے سارے حرف خالی ہیں ، ان میں کوئی نقظہ نہیں عام لوگوں کو تیرے کھوٹ کی پہچان نہیں ، سنار ہی تیرے کھوٹ سے لوگوں کو آگاہ کرے گا تا کہ تیرے شر سے بچے رہیں ۔ اگر تو اللہ کے ساتھ صبر کرتا تو اس کے عجیب عجیب لطف کے نظارے کرتا ۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جب گرفتاری اور غلام اور اسیری اور ذلت پر صبر کیا ، اور اپنے رب کے فعل کے موافق رہے تو آپ کی شرافت اور نجابت صحیح ثابت ہوئی تو آپ بادشاہ بن گئے ۔ ذلت سے عزت کی طرف اور موت سے زندگی کی طرف لوٹائے گئے ، اسی طرح اگر تم شریعت کی تابعداری کرو، – اللہ کے ساتھ صبر کرو،اس سے ڈرو، اس سے امید رکھو، اپنے نفس اور خواہش اور شیطان کی مخالفت کرو، تو جس حالت میں ہو، اس سے دوسری حالت میں بدلے جاؤ جس چیز کو نا پسند کرتے ہو، اس کی جگہ پسند کی چیز عطا کی جائے گی ، کوشش کر اور مشقت اٹھا، تجھ سے کچھ نہیں ہوتا ، جبکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے ، کوشش کرنے سے بھلائی ۔ حاصل ہو جائے گی ، جسے طلب ہوتی ہےوہ کوشش کرے تو مطلوب کو پا سکتا ہے حلال کا لقمہ کھانے کی کوشش کر یہ دل کو روشن کرتا ہے، دل کی تاریکیاں دور کرتا ہے، جوعقل: – اللہ کی نعمتوں کی پہچان کرائے، ان کے شکر کی توفیق دلائے ، اس کی نعمتوں کا اقرار کرائے ، نعمتوں کی قدر پر مدد کرے، وہ عقل فائدہ کرنے والی ہے۔
اللہ نے سب چیزیں بانٹ دی ہیں:
بیٹا! جس نے یقین کی آنکھ سے پہچان لیا کہ اللہ تعالی نے سب چیز یں بانٹ دی ہیں اور ان سے فارغ ہو چکا ہے، تو وہ حیا کرتے ہوئے اس سے کچھ نہیں مانگتا ۔ اپنے مطالبے کو چھوڑ کر اس کے ذکر میں لگ جاتا ہے، نہ اپنے نصیب کے لئے سوال کرتا ہے نہ ہی دوسروں کے نصیب کے لئے سوال کرتا ہے۔ وہ گمنامی میں سکون پاتا ہے ، حسن ادب کو اپنا کر اعتراض اٹھانا چھوڑ دیتا ہے، کم یا زیادہ کے بارے میں خلقت سے گلہ نہیں کرتا ۔ خلقت سے گدا گری دل کے ساتھ ایسے ہے جیسے زبان سے ہو ۔ دراصل میرے نزدیک ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ تجھ پرافسوس! اللہ کے غیر سے سوال کرتے ہوئے ذرا شرم نہیں کرتا ، حالانکہ اوروں کی نسبت وہ تجھ سے زیادہ قریب ہے ، خلقت سے اس شے کا طالب ہے جس کی تجھے کوئی حاجت نہیں ۔ تیرے پاس بڑاخزانہ ہے ، پھر بھی ایک دانے اور ایک ذرے پر فقیروں سے الجھتا ہے، مرنے پر تیری رسوائی ہوگی تیرے پیچھے عیب کھل جائیں گے ، ہر طرف سے پھٹکار پڑے گی۔ اگرتجھے عقل ہوتی تو ایمان کا ایک ذرہ حاصل کر لیتا، اور اس کے ذریعے اللہ سے مل جاتا ۔ نیک لوگوں کی صحبت میں رہتا اور ان کے اقوال اور افعال سے ادب سیکھتا۔ حتی کہ تیرا ایمان قوی اور یقین کامل ہو جا تا ،اللہ تعالی تجھے اپنا مخلص بنالیتا۔ ادب اور امر و نہی پر تیرا جوعمل دل سے ہوتا ، اس کا والی وکارساز بن جا تا ۔ اے ریا کاری کے بت کو پوجنے والے! تو دنیا و آخرت میں قرب الہی کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا، اے خلقت کو اللہ کا شریک سمجھنے والے! دلی طور پر اس کو چاہنے والے ! ، تو خلقت سے منہ پھیر لے کیونکہ ان سے نہ کوئی فائدہ ہے نہ نقصان ، نہ کوئی عطا ہے نہ کوئی محرومی ! دل میں رچے ہوئے شرک کے ساتھ اللہ کی توحید کا کوئی ذکر ، اس سے تیرے ہاتھ کچھ نہ آئے گا، ایسا دعوی کرناکسی کام کا نہیں۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 260،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 145دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
انتالیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے انتالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس التاسع والثلاثون فی حب الاولیاء والصالحین‘‘ ہے۔
منعقدہ 12 رجب 545 بروز جمعہ بوقت صبح ، بمقام خانقاہ شریف
دنیا وآخرت کی بادشاہی کے لئے خود کو اللہ کے سپرد کر دے:
اگر تو دنیاو آخرت کا مالک بننا چاہتا ہے تو اپنا سب کچھ اللہ کے سپردکر دے ۔ اس طرح تو امیر بھی ہو جائے گا اوراپنےنفس اور غیر پر حاکم بھی ہو جائے گا، میں تجھے نصیحت کر رہا ہوں، میری نصیحت کو مان لے۔ میں سچ کہہ رہا ہوں، میری بات کی تصدیق کر۔ جب تو جھوٹ بولے اور دوسروں کو جھٹلائے تو تجھے جھٹلایا جائے گا، – جب تو سچ بولے اور دوسروں کو سچا جانے توتو سچا ٹھہرے گا ، اور تجھ سے سچ کہا جائے گا۔ تو جیسا کرے گا ویسا ہی بھرے گا۔
اپنے دین کے مرض کی دوا مجھ سے لو اور استعمال کر و صحت و تندرستی ہو جائے گی ۔ اگلے لوگ اولیاء اللہ اور صالحین کی جستجو میں مشرق تا مغرب سفر میں رہتے ، یہی لوگ دلوں اور دین کے طبیب ہیں ، ان میں سے جب کوئی مل جاتا تو اس سے اپنے دینوں کی دواطلب کرتے تھے۔ آج تمہارا حال یہ ہے کہ فقہاء، علماء اور اولیاء اللہ سے جو ادب اور علم سکھانے والے ہیں۔ ان سے دور بھاگتے ہو، ۔ ایسی حالت میں تمہارے ہاتھ دوانہ لگے گئی ، میر اعلم اور میری طب تمہیں کیا فائدہ دیں گے، میں تو ہر روز تیرے لئے ایک بنیاد بنا تا ہوں ، اور تو اسے گرا دیتا ہے ، مسلسل تیرے مرض کی دوا تجویز کرتا ہوں مگر تو اسے استعمال میں نہیں لاتا، تجھے منع کرتا ہوں کہ یہ لقمہ نہ کھا، اس میں زہر ہے، وہ نوالہ لے اس میں شفا ہے، لیکن تو میری مخالفت کر کے وہی لقمہ کھاتا ہے جسے کھانے سے منع کرتا ہوں جلد ہی تیرے دین وایمان کی عمارت میں اس کا زہر یلا اثر کرتا ظاہر ہوگا ۔ میں تجھےسمجھاتار ہوں گا، تیری تلوار کی مجھے کچھ پرواہ ہیں ، نہ ہی تیرے سونے کے ہدیہ کی حاجت ہے۔ جسے اللہ کا ساتھ میسر ہو ، وہ کسی سے کسی بھی حالت میں بالکل نہیں گھبراتا ، نہ جنوں سے نہ انسانوں سے ، نہ زمین کے کیڑوں مکوڑوں سے، نہ ہی درندوں اور زہریلے جانوروں سے، مخلوقات میں سے کسی چیز سے مشائخ کرام جو عالمان با عمل ہیں، کو حقیر مت جانو تم اللہ تعالی اور اس کے رسولوں اور اس کے نیک بندوں سےواقفیت نہیں رکھتے جو ۔
اللہ کی معیت میں رہنے والے ہیں ، اس کے افعال سے راضی رہنے والے ہیں ،ہر طرح کی سلامتی اس کی رضا میں راضی رہنے، اپنی آرزوکوکوتاہ کرنے اور دنیا سے بے رغبت رہنے میں ہے، جب تم اپنے نفس میں ایمان کی کمزوری پاؤ تواپنی امیدیں کوتاہ کر دو اور موت کی یاد میں رہو ۔
اللہ کے قریب کیسے ہوا جائے ، اس کا محبوب کیسے بنا جائے :
رسول اکرم ﷺ نے حدیث قدسی بیان فرماتے ہوئے ارشادفرمایا: ارشاد باری تعالی ہے: مـا تـقـرب الـمتـقـربـون إلى بأفضل من أداء ما فترضت عليهم ولا يزال عبدي يتقرب إلى بـالـنـوافـل حتى أحبه فإذا أحبته كنت له سمعا وبصرا ويدا وموء يدا فبي يسمع وبي يبصروبي يبطش يبصر جميع افعاله “میرا قرب حاصل کرنے والوں نے فرضوں کو اچھی طرح سے ادا کر کے میری قربت حاصل کی ، میرا ( خالص ) ، بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں ، جب اسے محبوب بنالیتا ہوں تو اس کے کان ، آنکھ اور ہاتھ اور مددگار ہو جاتا ہوں ۔ چنانچہ وہ میرے ساتھ سنتا ہے، میرے ساتھ دیکھتا ہے اور میرے ساتھ پکڑتا ہے، وہ اپنے سب کاموں کو اللہ ہی سے دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ اللہ ہی کی مدد سے اپنی سب طاقت اور قوت اور نفس اور غیر کے دیکھنے سے نکل جاتا ہے ۔ اس کی تمام حرکتیں اور طاقت اور قوت نہ اپنے نفس سے ہوتی ہیں اور نہ ہی خلقت سے، بلکہ اللہ کے ساتھ ہوتی ہیں، وہ اپنے نفس اور دنیا اور آخرت سے مکمل طور پر الگ ہو جاتا ہے ۔ وہ جسم طاعت بن جا تا ہے ۔اور طاعت سے اس سے قریب ہو جا تا ہے ۔ اس کی طاعت اس کے لئے محبت الہی کا سبب بن جاتی ہے ۔ طاعت کے سبب سے اللہ اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے، اور قرب عطا کرتا ہے، جبکہ معصیت کی وجہ سے اس پر غضب کرتا ہے اور اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔ طاعت کے سبب سے اس بندے کوانس حاصل ہوتا ہے، جبکہ معصیت کی وجہ سے وحشت ہوتی ہے ۔ کیونکہ جو نا فرمان اور بدکار ہوتا ہے وہ وحشت میں پڑ جاتا ہے، بھلائی شریعت کی پاسداری سے حاصل ہوتی ہے، جبکہ شریعت کی مخالفت سے برائی حاصل ہوتی ہے، جس کے سب احوال میں شرع کی رفاقت نہ ہوتو وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ایک ہے ۔ عمل کر اور کوشش کر محض عمل پر تکیہ نہ کر، کیونکہ عمل کو چھوڑ دینے والا لالچی ہے۔ عمل پر تکیہ کرنے والا خود پسند اور گھمنڈی ہے۔ ایک قوم دنیا اور آخرت کے درمیان کھڑی ہے۔ ایک قوم جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑی ہے۔ ایک قوم خلقت اور خالق کے درمیان کھڑی ہے۔ اگر تو زاہد ہے تو دنیا وآخرت کے درمیان کھٹرا ہے ۔ اگر تو خائف ( خوف خدا رکھنے والا ہے تو جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا ہے۔ اگر تو عارف ہے تو خلقت اور خالق کے درمیان کھڑا ہے۔ کبھی خلقت کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی خالق کی طرف، آخرت میں جو کچھ ہے، اس کا احوال اور حساب لوگوں کو بتلاتا ہے، سنی سنائی بات نہیں کرتا بلکہ آنکھوں دیکھنے کی خبر دیتا ہے، مشاہدے کے سامنے خبر کوئی چیز نہیں۔ محبوبان الہی ، اس سے ملنے کے منتظر رہتے ہیں ، ہر حال میں اس کی تمنا کرتے ہیں موت سے نہیں ڈرتے ، کیونکہ وہ تو و محبوب سے ملانے والی ہے۔ دنیا سےجدا ہو جا ، اس سے پہلے کہ جدا کیا جائے ، رخصت ہو جا، اس سے پہلے کہ رخصت کیا جائے ۔ چھوڑ دے، اس سے پہلے کہ تجھے چھوڑ دیا جائے ۔ تیرے گھر والے اور ساری خلقت تجھے کچھ نفع نہ دیں گے، مباح شے لینے کے لئے بھی اگر نفس خواہش کرے، اس سے بھی تو بہ کر ۔
تقوی دین کا لباس ہے
اے لوگو! تم ہر حال میں تقوی اختیار کرو، تقوی دین کا لباس ہے تم مجھ سے اپنے دین کا لباس مانگو، میری فرماں برداری کرو کیونکہ میں اللہ کے رسول ﷺ کے راستے پر ہوں ، کھانے پینے ، نکاح اور دیگر سب احوال میں آپ ﷺ کا فرماں بردار ہوں ، میں ہمیشہ ایسا ہی رہوں گا ، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے جس مقصد کے لئے مجھے پیدا کیا ہے، وہ پورا نہ ہو جائے ، سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ مجھے تیری تعریف اور برائی ، تیرے کچھ دینے اور نہ دینے ، تیری بھلائی اور برائی ، تیری آنے اور نہ آنے کی کوئی پرواہ نہیں ، تو تو جاہل ہے اور جاہل کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی ، جب تو جہالت میں اللہ کی عبادت کرے گا تو تیری عبادت قبول نہ کی جائے گی ، کیونکہ اس میں جہالت ملی ہوئی ہے ، اور جہالت سے ہر حال میں خرابی ہوتی ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: من عبد الله عز وجل على جهل كان ما يفسد أكثر مما يصلح جو شخص اللہ کی عبادت جہالت سے کرے گا تو جہالت کی وجہ سے اصلاح کی نسبت فسادزیادہ کرے گا۔ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پرعمل کئے بغیر نجات نہیں ہے ۔
جس کا کوئی پیر نہیں ، اس کا پیر شیطان ہے:
اللہ کے کسی ولی نے ارشاد فر مایا: من لم يكن له شيخ فابليس شيخه “جس کا کوئی پیرنہیں ، اس کا پیرشیطان ہے ۔“
جو مشائخ کرام کتاب و سنت ﷺ کے عالم اور اس پر عمل پیرا ہیں ، ان کی پیروی کرو، ان سے حسن ظن رکھو اور ان سے علم سیکھو، ان کے سامنے حسن ادب اور حسن معاشرت سے پیش آؤ گے تو فلاح پالو گے، اگر کتاب وسنت ﷺ اور مشائخ عارفین کی پیروی نہ کرو گے تو فلاح نہ پاسکو گے ۔ کیا تو نے نہیں سنا۔ من استغنی برایه صلہ جس نے اپنی رائے پر بھروسہ کیا ، وہ بہک گیا ۔‘‘ جو تجھ سے زیادہ جانے والا ہے اس کی صحبت میں اپنے نفس کو تہذیب سکھا۔ اس کی اصلاح کر کے دوسروں کی اصلاح کر ، رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: – اِبْدَأ ‌بِنَفْسِك ، ثُمَّ بِمَنْ ‌تَعُولپہلے اپنے نفس کی اصلاح کر ، پھر اپنے اہل خانہ کی لَا ‌صَدَقَةَ ‌وَذُو ‌رَحِمٍ ‌مُحْتَاجٌ” قرابت دارمحتاج ہوں تو غیر کو صدقہ دینے کا کچھ اجرنہیں ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 268،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 149دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
چالیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الاربعون فی التفقہ فی الدین‘‘ ہے۔
منعقد ہ 14رجب 545 و بروزصبح اتوار بمقام خانقاہ شریف
اللہ تعالی جب کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے:
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: إذا أراد الله بعبده خيرا فقهه في الدين وبصرة بعيوب نفسه اللہ تعالی کسی بندے سے جب بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتا ہے، اور اس کو نفس کے عیوب دکھادیتا ہے۔“ اللہ تعالی کو غیر اللہ پر دین کو اپنی خواہشوں پردین کی مجلس کی معرفت کا باعث ہے۔ جس نے رب کو پہچان لیا اس نے سب چیزوں کو پہچان لیا۔ اس سے اللہ کے لئے بندگی درست ہو جاتی ہے، اور غیر اللہ کی بندگی سے آزادی مل جاتی ہے۔تجھے فلاح ملے گی نہ نجات، جب تک کہ توآخرت کو اپنی دنیا پر – خالق ومخلوق پر ترجیح نہ دے گا ۔دین اور آخرت پر اپنی خواہشوں کو اور خلقت کو خالق پر مقدم سجھنا تیری ہلاکت کا باعث ہے، اسی پرعمل کر ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی تیرے ہرامر میں کفایت کرنے والا ہے مگر تو اس سے حجاب میں ہے ۔
تیری دعا قبول نہیں حکم الہی کی تعمیل کی جائے تو قبولیت ہوتی ہے۔ جب تو حکم الہی کے مطابق چلے گا تو وہ تیرے سوال کے وقت تیری التجا قول کرے گا ۔ کھیتی کرنے کے بعد ہی کھیت وجود میں آتا ہے چناکھیتی کرتا کہ تو کھیت کاٹ سکے ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا
الدُّنْيَا ‌مَزْرَعَةُ ‌الْآخِرَةِ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ۔ تو کھیتی کر ، اس کھیتی کے لئے دل کی زمین ہے اور ایمان کا صحیح ہے ۔اسے پانی دینا، نگہبانی کرنا اوراسے اعمال صالحہ کے ذریعے سیراب کرنا ۔ دل کی زمین میں نرمی و شفقت و رحمت ہوگی تو بیج اگے گا ،اور اگر دل کی زمین سخت اور کھاری ہے تو ایسی زمین میں کچھ نہیں اگتا۔ اور اگر تو کھیت کو پہاڑ کی چوٹی پر بونا چاہے گا تو وہاں کھیتی نہیں ہوگی ۔ ایسا کرنا بربادی کے بہت قریب ہے، اپنی رائے سے کام نہ لے،ایسی کھیتی کرنے کے لئے اس کے جاننے والوں سے سیکھ، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
استعينوا على كل صنعة بصالح أهلها ہر صنعت میں اس کے نیک ماہروں سے مددلیا کرو۔
تو دنیا کی کاشت کاری میں لگا ہے آخرت کی کاشت کاری میں نہیں ۔ کیا تجھے نہیں پتہ کہ دنیا کے چاہنے والا فلاح نہیں پاتا۔ اور آخرت کے چاہنے والا اللہ تعالی کی نہیں دیکھ سکتا۔ -اگرآ خرت کو چاہتے ہو تو دنیا کو ترک کر دے۔
اگر ذات الہی کو چاہتے ہو تو دنیا کی لذتیں تمہارے لئے یہ حالت جب درست ہو جائے تو دنیا وآخرت ،لذات اور خلقت ، رغبت ونفرت کے تابع ہو جائیں گےکیونکہ اصل تو تمہارے پاس ہے اور سب شاخیں اس اصل کے تابع ہیں ۔
عقل کر، نہ تجھے ایمان ہے، نہ عقل ہے نہ تمیز ہے، تو خلقت کے ساتھ قائم ہے اور انہیں اللہ کا شریک بنائے بیٹھا ہے۔ اگر تو بہ نہ کرے گا تو برباد ہوجائے گا تو بہ نہ کرنے پر خاصان خدا کی راہ چھوڑ دے، ان کے دروازے سے ہٹ جا، دل کی بجائے اپنے شانے ہلا ہلا کر ان کی مزاحمت نہ کر ۔اپنے جھوٹے دعوؤں اور خواہشوں اور نفاق کے ساتھ انکی مخالفت نہ کر، اولیاء اللہ میں دل اور باطن کے ذریعہ شامل ہوسکتا ہے، اس کے لئے تو کل کے کندھوں کے ساتھ مصیبتوں پر صبر کر ۔اپنے نصیب پر راضی ہونا ہوگا۔
پریشانیوں میں ثابت قدمی اختیا کر
بیٹا اللہ کے سامنے اپنے محبت کے قدموں پر کھڑارہ، تجھے کیسی ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے، تیز بارشیں ہوائیں اپنی جگہ سے ہلا نہ کیں ، اور نہ صدموں کے نیزے تجھے زخم لگاسکیں ، ظاہری اور باطنی طور پر ثابت قدم رہ ،ایسی جگہ کہ جہاں نہ خلقت ، نہ دنیا و آخرت ہو، نہ حقوق ہوں نہ لذات ہوں ، نہ چون و چرانہ ماسوی اللہ ایسی جگہ کہ جہاں نہ خلقت کی دیکھ بھال سے مکدرہو، نہ اہل وعیال کے لئے فکر معاش ہو۔ کسی کی بیٹی سے دل میں کچھ خیال آئے۔ نہ کسی کے برائی کرنے سے اور نہ کسی کی جہالت سے دل میں رنج ہو۔ کسی کے آنے ،نہ آنے سے کوئی تبدیلی محسوس ہو۔ اللہ کے ساتھ تیرا ساتھ اس طرح سے ہو کہ جو انسان یا فرشتہ یا کسی جن کی سمجھ سے باہر ہو، اور نہ ساری خلقت کی عقل میں ایک ولی اللہ نے کیا خوب کہا ہے۔
إن كنت تصدق وإلا فلا تتبعناه“اگر تو اپنی طلب میں سچا ہے تو بہتر ورنہ ہمارے ساتھ نہ ہو۔“ جو کچھ میں نے تجھ سے کہا ہے ان سب کی بنیاد صبر اور اخلاص ہیں ، تو چاہتا ہے کہ میں تجھ سے نفاق برتوں اور نرمی سے بات کروں تو اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے اورغر ورکرتاہے اور یہ گمان کرتاہے کہ تو بھی کوئی شے ہے نہیں اس کی کوئی وقعت نہیں۔
میں آگ ہوں، اور آگ پر سمندل (آگ کا کیڑاجو آگ میں رہتا ہے، وہیں انڈ ے بچے دیتا) ہی ٹھہر سکتا ہے،اوراس میں اٹھتا بیٹھتا ہے تو کوشش کر کہ تو مصیبتوں مشقتوں اورسختیوں کی آگ میں سمندل بن جا ، اور قضا و قدر کے ہتھوڑوں پر صبر کرے تا کہ تو میری صحبت اور میری سخت باتیں سننے پر ثابت قدم رہ سکے۔ اور ظاہری اور باطنی ، علانیہ اور چھپے طور پر عمل کرے:
پہلے اپنی خلوت میں، پھر اپنی جلوت میں، پھر اپنے وجود میں اگر اس طرح سے تیرا یہ حال صحیح ہو جائے تو دنیا و آخرت میں اللہ کی مشیت سے اور تقدیر الہی سے تجھے فلاح مل جائے۔ خلقت میں سے جو چیز اللہ کے لئے ہو اور اس میں اللہ کا کوئی حق ہو، میں اس کے لئے کوئی رعایت یا لحاظ نہیں کر سکتا۔ اللہ کے حکم کے بغیرمخلوق میں سے کسی کی طرف متوجہ نہیں کرتا۔ بلکہ خلقت سے اللہ کا حق حاصل کرنے کے لئے اللہ سے طاقت حاصل کرتا ہوں ۔
اور کسی طرح کی کمزوری نہیں پاتا ۔ میں اپنے نفس کے ساتھ قوی ہوں اور خلقت کے حوالے سے نفس کے موافق ہوں ایک ولی اللہ نے فرمایا:
وافق الله عز وجل في الخلق ولا توافق الخلق في الله انكسر من الكسر والخبر من الجبر خلقت کے حوالے سے اللہ عز وجل کے موافق کرو، اور اللہ تعالی کے حوالے سے خلقت کے موافق نہ کر ، جو ٹوٹا ہے ،ٹوٹار ہے، جو جڑا ہے وہ جڑار ہے۔ میں تیری کیسے پرواہ کروں حالانکہ تو اللہ کا نافرمان ہے۔ اس کے اوامر نواہی کی اہانت کرنے والا ، اس کی قدر و قضا میں اس سے جھگڑ نے والا ، رات اور دن اس کی مخالفت کرنے والا ، ہے، بے شک تو اس کے غضب میں اور اس کی لعنت میں ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے: إذا أطـعـت رضيـتُ وإذا رضيت بـاركـت وليـس لبركتى نهاية وإذا عصبت غضبت وإذا غضبت لعنت وتبلغ لعنتي إلى الولد السابع ” جب تو اطاعت کرے تو میں راضی ہوتا ہوں ، اور میں راضی ہوتا ہوں تو برکت دیتا ہوں ، ، اور میری برکت بے انتہا ہے ۔ جب تو نا فرمانی کرے تو مجھے غصہ آ جا تا ہے اور جب مجھے غصہ آ جاتا ہے تو اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہوں اور میری لعنت ساتویں پشت تک پہنچتی ہے۔ یہ دور دین کو انجیر کے بھاؤ میں بیچنے والوں کا ہے، آرزوں کو دراز کرنے اور حرص کو قوی کرنے کا ہے، کوشش کر تو ایسے لوگوں میں سے نہ ہو جائے جن کے بارے میں ارشاد باری ہے:
وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ ‌هَبَاءً مَنْثُورًا’’اور ہم نے انہیں ان کے عملوں کی طرف توجہ دلائی ، ان کے عملوں کواڑے ہوئے غبار کی طرح کردیا۔‘‘ ہروہ عمل جس سے اللہ کی ذات کے سوا کوئی دوسرا مراد ہو تو وہ اڑے ہوئے غبار کی طرح ہے۔
اللہ سے واصل ہونے کے لئے خلقت سے الگ ہو جا:
تجھ پر افسوس ہے،اگر :
تیرا کام عام لوگوں سے چھپارہ سکتا ہے خواص سے نہیں چھپ سکتا، تیرا کھوٹ دیہاتی سے چھپارہ سکتا ہے، سنار سے نہیں چھپ سکتا ، تیراحال جال سے چھپارہ سکتا ہے، عالم سے نہیں چھپ سکتا ، تو عمل کر اور عمل میں اخلاص کر ، اللہ کے ساتھ مشغول ہو جا، بے فائدہ چیزوں میں مشغول نہ ہو۔ تیرے نفس کے علاوہ دوسروں سے کچھ فائدہ نہیں ، سب بیکارو بے مقصد ہیں ، تو اس کے ساتھ مشغول نہ ہو، ۔ خاص طور سے اپنے نفس کی اصلاح کر ، تا کہ تو اس پر غالب آ سکے اسے ذلیل واسیر کر کے اپنی سواری بنالے تا کہ تو اس پر سوار دنیا کے میدانوں سے گزرکر آخرت کی طرف پہنچ جائے ۔ خلقت سے الگ ہوتا کہ اللہ سے واصل ہو جائے ، ۔ جب تو اس مقام پر پہنچ کر قوت حاصل کر لے گا، تب اوروں کو اپنے پیچھے سوار کر کے اس دنیا سے نکال لے جائے گا اور مولی کے حضور میں پیش کر دے گا ۔ اور اسے حکمت کے لئے کھلائے گا۔
تو سچی بات کرنا لازم کرلے ، تاویل نہ کر ، اس لئے کہ تاویل کرنے والا فریبی ہوتا ہے، نہ خلقت سے خوف کر ، نہ اس سے کچھ امید رکھے ۔ کیونکہ یہ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے، اپنی ہمت کو بلند کرے گا تو تجھے بلندی عطا ہوگی ، اللہ تعالی تیری ہمت اور تیری سچائی اور اخلاص کے مطابق عطا فرمائے گا ، کوشش کر کے آگے بڑھے اور طلب کر ، کیونکہ کوئی شے تیرے ہاتھ نہیں آتی مگر جو کچھ ملتا ہے وہ تو مل کے رہے گا ، نیک اعمال کے لئے تکلیف اٹھانی پڑے تو تکلیف اٹھا جیسے کہ رزق حاصل کرنے کے لئے تکلیف اٹھاتا ہے، عام لوگوں سے شیطان یوں کھیلتا ہے جیسے کوئی گھڑ سوار اپنے گیند سے کھیلتا ہے۔ جدھر چاہتا ہے لوگوں کو گھما تا پھرتا ہے، جیسے تم اپنے چو پائے کو جدھر جی چاہے گھماتے پھرتے ہو، ان کے دلوں کی گردنیں دبا کر اس سے جس طرح کی چاہے خدمت لیتا ہے، خلوتوں سے انہیں نکال لاتا ہے، محرابوں سے باہر کرتا ہے،اور اپنی خدمت میں ٹھہر لیتا ہے۔اس سارے کام میں نفس شیطان کی مدد کرتا ہے اور اس کے لئے اسباب مہیا کرتا ہے۔
باطن کو ہر حال میں اللہ کی فرماں برداری اور موافقت میں رکھ :
اے بیٹا! اپنےنفس کو بھوک اور شہوتوں اور لذتوں اور فضولیات سے روکنے کے چا بک سے مار۔ اور دل کو خوف اور مراقبہ کے چا بک سے تعبیر کر ۔ اپنے نفس اور قلب اور باطن کو استغفار کی عادت ڈال، کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا گناہ ہے۔ انہیں ہر حال میں اللہ کی فرماں برداری اور موافقت میں رکھ۔
اے کم سمجھ والے! تقدیر کاردکرنا یا اسے بدلنا اور مٹادینا تیرے بس میں نہیں ، لہذا اس کیخلاف ارادہ نہ کر ، جب تقد یرکا لکھا ہوکر رہتا ہے تو تو ارادہ چھوڑ دے، کسی چیز کے لئے اگر ارادہ ہوتا ہے، اور وہ پورا نہیں ہوتا تو اس کے لئے اپنے نفس اور قلب کو کیوں مصیبت میں ڈالتا ہے۔ اپنا سب کچھ اپنے رب کے سپرد کر دے، تو بہ کے ہاتھ سے اس کی رحمت کا دامن تھام لے۔اگر اس پر ثابت قدم رہے گا تو دنیا تیرے دل اور سر کی آنکھ سے دور ہو جائے گی۔ اس کی خواہشوں اور لذتوں کا چھوڑ نا تیرے لئے آسان ہو جائے گا۔ اس کے ڈسنے اور ڈنگ مارنے کا شکوہ نہ کرے گا، اور تیرانفس مصیبتوں تکلیفوں میں حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا زوجہ فرعون کی طرح صبر کرنے والا ہو جائے گا۔ فرعون کو جب اپنی زوجہ آسیہ سلام اللہ علیہا کے ایمان لے آنے کا پختہ یقین ہو گیا تو اس نے انہیں سزا دینے کا حکم سنایا۔ ان کے ہاتھوں پیروں میں لوہے کی میخیں ٹھونک دیں اور کوڑوں سے مارنے لگا ۔ حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا۔ آپ نے جنت کے دروازے کھلے ہوئے پائے ، اور دیکھا کہ فرشتے ایک عالی شان محل تیار کر رہے ہیں ۔ اس اثناء میں ملک الموت آپ کی روح قبض کرنے کے لئے آ پہنچے۔ ان سے کہا: یہ محل آپ ہی کے لئے ہے یہ سن کر آپ ہنس دیں ۔ اور ان سے تکلیف کا احساس جا تا رہا۔ بارگاہ الہی میں التجا کی: رَبِّ ابْنِ لِي ‌عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ میرے رب! اپنے پاس جنت میں میرے لئے گھر بنوادے۔“ صبر کرنے سے تم بھی ایسے ہو جاؤ گے، کیونکہ تم اپنے قلب ویقین کی نظر سے اللہ کا فضل دیکھو گے۔د نیا کی آفتوں مصیبتوں پر صبر کرو گے، اپنی طاقت اور ہمت سے باہر نہیں جاؤ گے -تمہارالین دین اور تمہارا چلناپھرناسب اللہ کی طاقت وقوت سے ہوگا ، اس کے رو بروفنا ہو جاؤ گے،اپنے سب معاملے اس کے سپردکر دو گے، اپنے اور خلقت کے بارے میں اس کے موافق ہو گے، اس کے حکم کے ساتھ حکم چلاؤ گےنہ اس کے اختیار کے ساتھ اپنا اختیار جتاؤ گے جس نے یہ حال پہچان لیا وہ بھی غیر کی طلب نہ کرے گا ، نہ اس کے سوا کچھ تمنا رہے گی ، عقل والا اس حال کی تمنا کیسے نہ کرے، اس لئے کہ اللہ کی صحبت اس کے بغیر میسر نہیں آتی۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 272،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 151دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
اکتالیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اکتالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الحادی والاربعون فی المحبۃ فی اللہ ‘‘ ہے۔
تاریخ و مقام منعقدہ نامعلوم
جو کچھ بھی محبوب کی طرف سے آئے وہ سب شیر یں ہے :
جان لو کہ سب چیز یں اللہ کے حرکت دینے سے حرکت میں آتی ہیں ، اور اس کے سکون دینے سے سکون میں آتی ہیں۔ جب یہ بات یقینی ہو جاتی ہے تو خلقت کے ساتھ شرک کرنے سے جو بوجھ محسوس ہوتا ہے، اس سے (آزاد ہوکر ) بندہ آرام پا تا ہے اور خلقت اس سے آرام پاتی ہے۔ کیونکہ نہ وہ ان پر عیب لگا تا ہے ، نہ ہی اپنی ذات کے حوالے سے ان سے کچھ تقاضا کرتا ہے۔ خلقت سے تمہارا شرعی تقاضا ہوتا ہے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے۔ تم شریعت کی رو سے ان سے تقاضا کرو گے اور روئے علم الہی انہیں معذور سمجھو گے ۔ اس لئے کہ حکم شریعت اور علم الہی کو ایک جگہ اکٹھا کرلو، خلقت میں فعل الہی کو دیکھناایسا عقیدہ ہے جسے حکم شریعت نہیں توڑتا، کیونکہ اللہ ہی تقدیر مقرر کرنے والا ہے اور اللہ ہی تقاضا کرنے والا ہے۔ لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ جو کچھ وہ کرے اس سے سوال نہیں ، اور دوسروں کے لئے پر سوال کیا جائے گا۔‘‘ ہر ایک مسلمان ، یقین والے، تو حید والے اللہ سے راضی ، قضا وقدر میں اور اپنے اور غیر میں اس کی صنعت کاری کی موافقت کرنے والے کا یہی اعتقاد ہے ۔ اللہ کو تیرے نفس اور صبر کی کوئی پرواہ نہیں لیکن وہ دیکھتا ہے کہ تو کیا کرتا ہے، اور اپنے دعوے میں سچا ہے یا جھوٹا ہے۔سچامحب اپنے لئےکسی چیز کا مالک نہیں ہوتا ، وہ اپنا سب کچھ اپنے محبوب کے حوالے کر دیتا ہے۔اپنانفس اور مال اور عاقبت اس کے سپردکر دیتا ہے۔ اپنے اور غیر کے بارے میں اسی کو اختیار دے دیتا ہے ،اپنے محبوب کے تصرفات میں تہمت نہیں دھرتا ہے، نہ اس سے جلدی چاہتا ہے، نہ ا سے بخیل جانتا ہے، جو کچھ محبوب کی طرف سے آئے ، اس کے لئے سب شیر یں ہے ۔ سب ہمتیں سمٹ کر محبوب کی سمت مرکوز ہو جاتی اے محبت الہی کا دعوی کرنے والے! تیرے لئے محبت کامل نہ ہوگی جب تک کہ ہرطرف سے کٹ کر صرف محبوب کے لئے نہ ہور ہے، ایسے میں تیرا محبوب عرش تا فرش کی خلقت کو تیرے دل سے نکال دے گا، ۔ تجھے دنیا وآخرت کی محبت نہ رہے گی ،اپنے آپ سے وحشت اور محبوب سے انسیت! لیلی کے عاشق مجنوں کی طرح ہو جائے گا۔
لیلی کی محبت میں مجنوں کی وارفتگی :
مجنوں کے دل میں لیلی کی محبت نے جب گھر کر لیا تو خلقت سے جدا ہو کر تنہائی اختیار کی۔وحشی جانوروں میں جاٹھہرا۔ آبادی کو چھوڑ کر ویرانے میں جا بسا ۔ خلقت کی مدح و مذمت سے بے پرواہ ، اس کے لئے خلقت کا بولنا ، نہ بولنا، رضا و ناراضی ایک برابر ہو گیا۔ ایک دن کسی نے پوچھا: تو کون ہے؟ کہا:لیلی پھر پوچھا کہاں سے آیا کہا۔لیلی۔ پھر پوچھا: ” کہاں جائے گا ؟‘‘ – کہا: لیلی!‘‘وہ لیلی کے ماسوا سے اندھا ہو گیا ۔ اس کے غیر کے کلام سے بہرہ ہوگیا۔ ملامت کرنے والے کی ملامت نے لیلی سے نہ پھیرا ،نصیحت کرنے والے کی نصیحت نے لیلی سے نہ موڑا، کسی دل والے نے کیا خوب کہا ہے:
فإذا ‌تساعدت النفوس على الهوى … فالخلقُ يضرب في حديد بارد
“نفسوں پر جب محبت چھا جاتی ہے تو خلقت کی نصیحت ٹھنڈ ے لوہے پر ضربوں کی طرح لگتی ہے ۔‘‘ یہ دل جب اللہ کو پہچان لیتا ہے اور اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے تو اس کے قریب ہو جا تا ہے، خلقت اور اس کے پاس ٹھہر نے سے وحشت محسوس کرتا ہے، اسے آبادی سے کوئی لگاؤ نہیں رہتا، حیرت میں گم ویرانے کی طرف نکل جا تاہے، حکم شرع کے سوا کوئی اور اسے نہیں روک سکتا۔ امرونہی اسے اسیر رکھتے ہیں۔ تقدیری امر کے آنے تک شرع اسے پابند کہتی ہے۔
الـلـهـم لا تـدعـنـا مـن يـد رحمتك فـتـغـرق فـي بـحـر الـدنيـا وبـحـر الـوجـود يـا مـانـح الكرم والآراء والسابقة آدر كنا “اے اللہ! ہمیں اپنی رحمت کے ہاتھ سے جدا نہ کر ، ورنہ ہم دنیا اور وجود کے دریا میں غرق ہو جائیں گے ۔ اے کرم کر نے والے ۔ عقل اور نصیب بخشنے والے ہماری مدد فرما‘‘
بیماری سے گناہ جھڑتے ہیں:
اے بیٹا! جو میرے کہےپر عمل نہ کریگا میرے کہے کو نہ سمجھے گا ، عمل کرے گا تب ہی سمجھ سکے گا، جب تک وہ مجھ سے اچھا گمان نہ کرے گا اور وہ میرے کہے پر ایمان نہ رکھے گا، اور اس پر عمل نہ کرے گا تو میری بات کو کیسے سمجھے گا۔ میرے سامنے بھوکا کھڑا ہے اور مجھ سے کھانا نہیں کھاتا، پھر تیرا پیٹ کیسے بھرے گا! – حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:” مـن مـرض ليلة واحدة وهو راض عن الله عز وجل صابر على ما نزل به خرج من ذنوبه كيوم ولدته الله جو ایک رات بیمار پڑا کہ وہ اللہ عزوجل سے راضی اور جس بیماری سے دو چار ہوا اس پر صبر کیا تو گناہوں سے پاک ہو جا تا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب پیدائش کے وقت اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا تھا۔“ تجھ سے کچھ ہونہیں پا تا حالانکہ کچھ نہ کچھ ضرور چاہئے ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام سے فرمایا کرتے تھے ۔ -تھوڑی دیر ٹھہرے رہو ایمان تازہ کر یں (یعنی ٹھہر جاؤ ایک گھڑی ذائقہ چکھیں۔) ٹھہر جاؤ، ایک گھڑی کے لئے باب قرب میں داخل ہو جاؤ۔
ایسا فرمانا خیر خواہی کے لئے تھا۔ پوشیدہ باتوں پر مطلع ہونے کی طرف اشارہ فرماتے تھے۔ یقین کی آنکھ سے دیکھنے کی طرف توجہ دلاتے تھے۔ ہر مسلمان ایمان دار نہیں، اور ہر ایمان دار یقین والانہیں ہوتا۔ اس لئے صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا۔ ’’معاذ ہمیں کہتے ہیں ، آ ؤ ایک گھڑی ٹھہرو، ایمان لائیں ، کیا ہم ایمان والے نہیں ہے ۔ ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:
’’معاذ کواس کے حال پر چھوڑ دو ۔‘‘
اے نفس اور حرص اور عادت اور شیطان اور دنیا کے بندے اللہ اور اس کے نیک بندوں کے ہاں تیری کچھ قدر نہیں۔ جوشخص آخرت کے لئے عبادت کرتا ہے، میں اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا، جبکہ وہ شخص دنیا کے لئے عبادت کرتا ہے۔ تجھ پر افسوس ہے عمل کے بغیر زبانی بکواس سے کیا پائے گا۔ تو جھوٹ بولتا ہے اور خود کو سچا کہتا ہے ۔ تو شرک کرتا ہے اور خود کو خدا پرست بتا تا ہے۔ تو باطل پر ہے اور اس کی صحت کا عقیدہ رکھتا ہے۔ – تیرے پاس کھوٹ ہے اور تیرا عقیدہ ہے کہ وہ جو ہر ہے، میں تجھے جھوٹ سے روکوں اور سچ کوحکم دوں، کھرے کھوٹے کی پہچان کے لئے میرے ہاتھ میں تین کسوٹیاں ہیں: قرآن مجید، سنت نبوی ﷺ ، -میرا قلب، آخری کسوٹی میں سب شکلیں ( کھوٹے )ظاہر ہو جاتے ہیں، اس مقام پر قلب اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ کتاب وسنت پرحقیقی طور پرعمل پیرا نہ ہو، علم کے ساتھ عمل، علم کا تاج ہے، علم پرعمل کر نا علم کا نور ہے،صفائی کی صفائی ہے مغز کا مغز ہے، جو ہر کا جوہر ہے۔ علم پرعمل، دل کو صحیح اور پاک کر دیتا ہے ۔ جب دل صحیح ہو جا تا ہے، سب اعضاءصحیح ہو جاتے ہیں، جب دل پاک ہو جا تا ہے ، سب اعضاء پاک ہو جاتے ہیں، جب دل پر خلعت پہنایا جا تا ہے، بدن کو خلعت پہنایا جا تا ہے ۔ جب گوشت کا یہ ٹکڑ ا صحت مند ہو، سارا بدن صحت مند ہو جا تا ہے ، دل کی صحت و تندرستی سے باطن صحت مند ہو جا تا ہے ۔ باطن وہ شے ہے کہ جواللہ اور بندے کے بیچ میں ہے۔ باطن ایک پرندہ ہے اور دل اس پنجرہ، دل ایک پرندہ ہے اور بدن اس کے پنجرہ، بدن ایک پرندہ ہے اور دل اس کا پنجرہ،قبر خلقت کا ایک ایسا پنجرہ ہے جس میں بالآ خرسب کو داخل ہوتا ہے۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 278،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 154دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
بیالیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے بیالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثانی والاربعون فی التقوی‘‘ ہے۔
منعقده 19/ رجب 545 ھ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ
تقوی اور ذات الہی پر توکل اور بھروسہ
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: مـن أحـب أن يكون أكرم الناس فليتق الله ومن أحب أن يكون أقوى الناس فليتوكل على الله ومن أحب أن يكون أغني الناس فليكن واثقا بما في يد الله أوثق على ما يده من أحب الكرامة دنيا واخرة فليتق الله عزوجل إن أكرمكم عند الله أتقاكم جوشخص یہ چاہے کہ سب لوگوں میں زیادہ عزت والا ہوا سے چاہئے کہ تقوی اختیار کرے، اور جو یہ چاہے کہ وہ سب سے زیادہ غنی ہو جاۓ ، اسے چاہئے کہ وہ اپنی دسترس کی چیزوں کی بجاۓ ان چیزوں پر بھروسہ کرے جو دست قدرت کے قبضے میں ہیں ، جو دنیا و آخرت میں عزت و بزرگی چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ تقوی اختیار کرے‘‘ کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے:
إن أكرمكم عند الله أتقاكم” تم میں سے اللہ کے ہاں وہی عزت والا ہے جوتقوی شعار ہے ۔‘‘ تقوی میں عزت و اکرام ہے، نا فرمانی میں ذلت و رسوائی ہے، جو شخص اللہ کے دین میں قوت چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اللہ پر توکل رکھے کیونہ توکل دل کو درست رکھتا ہے؟ اسے قوی اور مہذب بنا تا ہے۔
( راہ سلوک) میں عجائبات قدرت دکھا تا ہے۔ تو اپنے درہم و دینار اور اسباب پر بھروسہ نہ کر کیونکہ یہ تجھے کمز ور اور عاجز کر دیں گے ، اللہ پر ہی توکل کر کیونکہ وہ تجھے قوی کر دے گا اور تیری مدد کرے گا، اور تیرے ساتھ مہربانی فرمائے گا ، اور ایسی جگہ سے فتح دے گا، جہاں کا تجھے بھی گمان بھی نہیں ہوا۔ اور تیرے دل کو اتنی طاقت دے گا، اتنی کہ تجھے نہ دنیا کےآنے کی پرواہ ہو گی نہ اس کے جانے کی نہ خلقت کی توجہ کرنے کی اور نہ اس کی بے رخی کی کچھ پرواہ ہوگی ، اب تو سب سے زیادہ قوی ہوگا ۔
جب تو اپنے مال واسباب، اہل دمرتبہ پر بھروسہ کرنے لگے گا تو اللہ کی ناراضی اور ان چیزوں کے زوال کا باعث بن جائے گا، کیونکہ غیرت الہی کو یہ بات گوارا نہیں کہ تیرے دل میں اپنے غیر کو دیکھے، جو شخص دنیا و آخرت میں غنی بنناچاہتا ہے، اسے چاہئے۔ – اللہ سے ڈرے کسی کی پرواہ نہ کرے – اس کے دروازے پر ٹھہرے کسی کے دروازے پر جانے سے گریز کرے، – نگاہوں کو غیر کی طرف نظر کرنے سے روکے، ان نگاہوں سے میری مراد دل کی آنکھیں ہیں بدن کی آنکھیں نہیں ۔ جو کچھ تیری دسترس میں ہے اس پر بھروسہ نہ کر کیونکہ وہ زوال پذیر ہیں ، اللہ کے بھروسہ کو نہ چھوڑ ، اسے بھی زوال نہیں، تیری جہالت اللہ کے بجائے دوسروں پر بھروسہ کے لئے ترغیب دے رہی ہے ۔ اللہ پر تیرا بھروسہ کامل تو نگری ہے اور غیر پر بھروسہ کرنا سراسر تنگ دستی ہے ۔ اے تقوی کو ترک کرنے والے تو دنیا وآخرت کی عزت و اکرام سے محروم ہو گیا،اے خلقت واسباب پر تکیہ کرنے والے! تو دنیا وآخرت میں اللہ کی قوت اور بھروسے سے محروم ہو گیا ۔اے اپنی دسترس کی چیزوں پر بھروسہ کرنے والے تو دنیاو آخرت میں اللہ کے ساتھ تو نگری سے محروم ہو گیا۔
بھلائی کی بنیا دصبر پر ہے:
اے بیٹا! اگر تو پرہیزگار، توکل کرنے والا اور اللہ پر بھروسہ کرنے والا بننا چاہتا ہے تو صبر کو اختیار کر ، کیونکہ صبر ہر بھلائی کی بنیاد ہے، جب صبر کے لئے تیری نیت صحیح ہو گی تو اللہ کی ذات کے لئے صبر کرے گا۔ اس صبر کا بدلہ یہ ہے کہ دنیا وآخر کے لئے تیرے دل میں اللہ کی محبت اور قرب داخل ہو جائیں گے ۔صبر اللہ سے اس کی قضا وقدر میں موافقت کرنے کا نام ہے، جو کچھ کہ اس کے علم میں پہلے سے ہے، اور خلقت میں سے کوئی بھی اسے مٹانہیں سکتا۔ یہ بات ایمان والے ، یقین وا لوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے مقدر پر مجبور نہیں بلکہ اختیاری طور پر خود صبر کیا صبر پہلے پہل اضطراری ہے، پھر اختیاری ہے۔
صبر کے بغیر تو ایمان کا دعوی کیسے کرتا ہے۔ اللہ کی رضا کے بغیر تو معرفت کا کیسے دعوی ہے۔ یہ شے فقط دعوی سے حاصل نہیں ہوتی ۔ تیری بات اس وقت تک قابل اعتبار نہیں جب تک کہ اللہ کا دروازہ نہ دیکھ لے – اس کی دہلیز پر سر نہ ر کھدے، تقدیر کے قدموں کے روند نے پر صابر نہ بن جائے ۔ فائدہ نقصان تیرے بدن کی کھال کی بجائے تیرے دل کا وجود نہ روند ڈالیں، اور تو اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے گویا کہ تو بے خودومتوالا ہے، گویا کہ تو روح کے بغیر بدن ہے۔ یہ عالم ایسے سکون کا محتاج ہے کہ جس میں حرکت نہ ہو ۔ – ایسی گم نامی کا محتاج ہے جس کا ذکر نہ ہو۔- قلب و باطن اور معنی اور باطن در باطن کی حیثیت سے یوں غائب ہونے کا محتاج ہے جس میں خلقت کے ساتھ مطلق حضور موجودگی نہ ہو۔میں تم سے بہت کچھ کہنا سنتا ہوں مگرتم اس پر عمل نہیں کرتے ،
جو دوا میں تجویز کرتا ہوں اسے استعمال نہیں کرتے ،بڑی وضاحت کے ساتھ باتیں کرتا ہوں لیکن تم انہیں نہیں سمجھتے، میں تمہیں بہت کچھ دینا چاہتا ہوں مگر تم نہیں لیتے۔ میں تمہیں بہت نصیحت کرتا ہوں لیکن ذرا کان نہیں دھرتے ۔کس چیز نے تمہارے دلوں کو سخت کر دیا ہے اور اپنے رب سے کس چیز نے جاہل بنا دیا ہے، اگر تم اپنے رب پہچان رکھتے ، اور اس سے ملاقات پر تمہارا ایمان ہوتا ،اورتم موت اور اس کے بعد کے حالات جو یقینا رونما ہوں گے، کو یاد کرتے تو تم قطعا ایسے نہ ہوتے ۔ کیا تم نے اپنے ماں باپ اور اور عزیز اقارب کی موت کا حال نہ دیکھا، کیا تم نے اپنے حکمرانوں کا مرنا نہ دیکھا ، پھر بھی تم نے ان سے کوئی سبق نہ سیکھا، اپنے نفسوں کو دنیا کے طلب کرنے اور دنیا میں ہمیشہ ٹھہرنے کی محبت سے کیوں نہ ٹو کا اپنے دلوں کی حالت کو کیوں نہ بدل اور انہیں بدل کے خلقت کو اپنے دلوں سے کیوں نہ باہر نکال کیا ارشاد باری تعالی ہے: –
إِنَّ اللَّهَ لَا ‌يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى ‌يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ
اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔“ تم کہتے ہوعمل نہیں کرتے ، اور اگر کبھی کرتے بھی ہو تو اخلاص نہیں ہوتا ، عقل کرو، اللہ کے حضور بے ادب نہ بنو، ادب ے رہو، مدد چا ہوتو ہوشیار رہو، پر کھ کر اور استقامت سے کام لو، اور غور کرو جس حالت میں تم مشغول ہو یہ حالت آخرت میں فائدہ نہ دے گی ، تم اپنے نفسوں پر بخل کرتے ہو۔ اگر سخاوت کر دتو وہ کچھ پاؤ جو انہیں آخرت میں فائدہ مند ہو۔ تم مٹ جانے والی چیزوں میں مشغول ہو ، اور رہ جانے والی چیز یں چھوڑ بیٹھے ہو، مال جمع کرنے اور بیوی بچوں میں مشغول نہ رہو عنقریب تمہارے اور ان کے بیچ حجاب آ جائے گا، دنیا کی طلب اور خلقت میں عزت کے لئے مشغول نہ رہوں اللہ کے سامنے یہ چیزیں کچھ کام نہ آ ئیں گی۔
تیرادل شرک سے ناپاک ہے۔ اللہ کے بارے میں شک کرنے والا ، اس پر تہمت لگانے والا ، اور اپنی سب حالتوں میں اس پر اعتراض کرنے والا ہے، لہذا اللہ نے تیرا یہ حال دیکھا توتجھے اپنا دشمن جانا، اور اپنے خاص بندوں کے دل میں تیرے لئے نفرت ڈال دی۔
اللہ کے لئے غیرت کا ایک نظارہ:
ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ اپنے گھر سے نکلتے تھے تو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے تھے، ان کا بیٹا ان کا ہاتھ تھام کر لے جاتا، ان سے اس سے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے: میں یہ اس لئے کرتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کفر کرنے والے کو نہ دیکھوں ۔“ اتفاق سے ایک دن آنکھوں سے پٹی ہٹائے گھر سے نکلے ۔اچانک ایک کافر پر نظر پڑگئی، وہیں بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ سبحان اللہ! – اللہ کے لئے ان کی کیسی غیرت تھی ، تو کس دل سے غیر کی عبادت کرتا ہے، اور اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے کیسے(مزے لے لے کر اس کی نعمتیں کھا تا ہے اور اس کی ناشکری کرتا ہے، یہ سب کرتے ہوئےتجھے احساس تک نہیں ہوتا، تمہارا کافروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے، اس لئے نہ تمہارے دلوں میں ایمان ہے نہ اللہ کے لئے غیرت ۔ توبہ واستغفار کر اوراللہ سے حیا اور غیرت کر اس کے سامنے بے شرمی نہ کر دلیری کا پہناوا تاردے۔
مباحات کا خواہش اور شہوت سے حاصل کر نا غافل کرتا ہے:
دنیا کی حرام اور شبہ والی چیزوں سے بچو، اس کے ساتھ مباح چیزیں جو خواہش و شہوت کے ساتھ ملیں ، ان سے بھی پرہیز کرو، کیونکہ مباحات کا خواہش اور شہوت کے ساتھ حاصل کرنا اللہ سے غافل کرتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
الدُّنْيَا ‌سِجْنُ ‌الْمُؤْمِنِ– دنیا ایمان والے کے لئے قید خانہ ہے۔“ قیدی، قید خانے میں کیسے خوش رہ سکتا ہے، اس کے لئے کوئی خوشی نہیں، بظاہر اس کے چہرے پر خوشی ہے لیکن دل میں رنج وغم ہے۔ ظاہری طور پر خوش ہے جبکہ باطن اور خلوت میں اور معنی کے اعتبار سے مصیبتیں اسے کاٹ کھائے جا رہی ہیں۔ کپڑوں کے نیچے زخموں پر پٹیاں بندھی ہیں، اور وہ اپنے زخموں کومسکراہٹ کے کرتے میں چھپائے ہوئے ہے کہیں کوئی اس کے حال کو نہ جان لے ۔
اس لئے اللہ تعالی اپنے فرشتوں پر ایسے شخص پر فخر کرتا ہے، اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کئے جاتے ہیں، ان میں سے ہر بندہ اللہ کے دین کی دولت اور اپنے باطن میں نہایت دلیر ہے، وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے ہیں، اورتقدیر کی تلخیوں کوگھونٹ گھونٹ کر کے پیتے ہیں، یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنا محبوب بنالیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:۔ وَاللَّهُ يُحِبُّ ‌الصَّابِرِينَ اللہ صابروں کو چاہتا ہے۔
وہ محبت کی پرکھ کرنے کے لئے آزماتا ہے، جتنی زیادہ اس کی فرماں برداری کرے گا اور حتی الوسع نا فرمانی سے بچے گا ،اتنی ہی محبت اور زیادہ ہوگی ، اور جتنا اس کی بلاؤں پر صبر کرے گا ، اس قد رقرب اور بڑھے گا۔ ایک بزرگ ارشادفرماتے ہیں۔ ’’اللہ اپنے محبوب کو عذاب دینے سے انکاری ہے لیکن اسے بلا میں مبتلا کر کے صبر کی توفیق سے دیتا ہے۔“
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: وكأنك بالدنيا ‌لم ‌تكن، وبالآخرة لم تزلجیسے کہ د نیا تھی ہی نہیں ، جیسے کہ آخرت سدا سے ہے۔‘‘
دنیا کی طلب چھوڑ کر ذات الہی کے طالب بنو :
اے دنیا کی طلب کرنے والو! اےدنیا سے پیار کر نے والو ، میری طرف آؤ تا کہ تمہیں دنیا کے عیب دکھلاؤں اور حق کا راستہ دکھاؤں ، اور ان لوگوں سے ملاؤں جوذات الہی کے طالب ہیں ، تم مجسم ہوس بنے ہوئے ہو۔ میری بات سنو اور اس پر عمل کرو، اور اخلاص سے عمل کرو، میرے کہنے پرعمل کرو گے، اور اس پر عمل کرتے ہوئے جب دنیا سے چلے جاؤ گے۔ تو اعلی علیین کی طرف بلند مراتب کے ساتھ اٹھائے جاؤ گے، جب وہاں نظر دوڑاؤ گے تو میرے کہے گئے کی اصلیت اور حقیقت سامنے آ جائے گی۔ تب میرے لئے دعائے خیر کرو گے ، اور جن باتوں کی طرف میں اشارہ کرتا ہوں ، ان کی اصلیت و حقیقت معلوم ہو جائے گی ۔
اے لوگو! اپنے دلوں میں مجھ پر تہمت نہ دھرو، میں کھیلنے کودنے والا اور دنیا کا طالب نہیں ، میں تو جو کچھ بھی کہتا ہوں ۔ سچ ہی کہتا ہوں ، اور سچ ہی کی طرف اشارہ کرتا ہوں ، میں زندگی بھر صالحین کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے ان کی خدمت کرتا رہا، آج مجھے اس خدمت کا صلہ مل رہا ہے، میں اپنے وعظ ونصیحت کی اجرت نہیں مانگتا، میرے کہے ہوئے کیا قیمت یہی ہے کہ اس پر عمل کرو ۔ میرا کہا ہوا خلوت اور اخلاص کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے شایان شان ہے، حیلوں اور اسباب کے جاتے رہنے سے نفاق بھی جا تارہتا ہے نفسوں کی بجائے ایمان وایقان کی تربیت کی جاتی ہے وہی پھلتے پھولتے ہیں خواہشوں کے لئے جو کچھ بھی خرچ کیا جا تا ہے وہ ایمان دار کے لئے ہے،منافق کے لئے نہیں۔
جاہل کی زبان دل کے آگے ، عاقل و عالم کی زبان دل کے پیچھے
اے لوگو! بے ہودہ آرزوؤں اور حرص کو چھوڑ دو، اللہ کی یاد میں لگ جاؤ فائدہ دینے والوں سے بات کرو، نقصان دینے والوں سے چپ رہو، جب بات کرنا چاہو تو پہلے اس میں سوچ بچار کر لو، پھر نیک نیتی کے ساتھ بات کیا کرو، اس لئے کہا گیا ہے: ’’جاہل کی زبان اس کے دل کے آگے ہے ، عاقل وعالم کی زبان اس کے دل کے پیچھے “ تو چپ سادھ لے – اللہ تعالی جب:تجھے بلوانا چاہے گا تو بلوالے گا۔تجھ سے کچھ کام لینا چاہے گا تو اس کے لئے تجھے تیار کر دے گا۔ اس کی معیت اور صحت کے لئے گونگا ہونا شرط ہے، جب گونگائی کامل ہو جائے گی ،اللہ چاہے تو گویائی مل جائے گی ، اور اگر وہ چاہے تو آخرت تک گونگاہی رکھے ۔ رسول اکرم ﷺ کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے: مَنْ ‌عَرَفَ ‌اللَّه كَلَّ ‌لِسَانُهُو اللہ کو پہچان لینے والے کو بولنے سے روک دیا جا تا ہے ۔‘‘
ہر چیز میں اللہ پر اعتراض کرنے سے اس کے ظاہر و باطن کی زبان بند ہو جاتی ہے جھگڑے بغیر وہ ہر کام میں موافق ہو جاتا ہے۔ ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہتا ہے، اس کے دل کی آنکھیں غیر کی طرف دیکھنے سے اندھی ہو جاتی ہیں ۔ اس کا باطن پاش پاش ہو جا تا ہے ، اس کے معاملات درست نہیں رہتے ، اس کا مال بکھر جاتا ہے، اپنے وجود اور دنیا و آخرت سے نکل جا تا ہے، اس کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ پھر اگر اللہ چاہے تو اسے زندہ کر دیتا ہے، غیر موجود ہونے کے بعد دوبارہ موجود کر دیتا ہے۔ فنا کے ہاتھ سے اسے فنا کرتا ہے، پھر بقا کے ہاتھوں دوبارہ زندہ کر دیتا ہے ، تا کہ طالب بقاالہی ہو جائے ۔ پھراسے خلقت کی طرف لوٹا دیتا ہے تا کہ اسے خلقت کی محتاجی سے نکال دے اورفقر سے غنا کی طرف لائے ، غنا دراصل اللہ کی ذات سے متصل ہونے کا نام ہے ۔ اور اللہ کی ذات سے دوری اور اس کے غیر سے غنا طلب کرنا فقر ومحتاجی ہے، غنی وتو نگر وہی ہے جو اللہ کے قرب میں ظفر یاب ہو، اور فقیر ومحتاج وہ ہے جو قرب الہی کے دروازے سے دور جا پڑا، جو بندہ اس غنا کا طالب ہو تو دنیا وآخرت اور جو کچھ ان میں ہے اور ماسوی اللہ سب کو ترک کر دے – سب چیزوں کو اپنے دل سے آہستہ آہستہ نکال ڈالے، اور جو کچھ تھوڑا بہت تمہارے پاس ہے، اس کے چکر میں نہ پڑو، یہ جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے اللہ نے اسے تمہارے لئے سفر خرچ بنا دیا ہے تا کہ اسے اس کی راہ میں چلنے کے لئے توشہ سفر بناؤ۔ اس نے اپنی نعمتیں تمہیں اس لئے عطا کی ہیں کہ انہیں اس کی طرف نسبت دو، اورتمہیں علم اس لئے عطا فرمایا ہے کہ اس پرعمل کر داور اس کے نور سے ہدایت پاؤ۔ اللهم اهد قلوبنا إليك ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الہی! ہمارے دلوں کو اپنی طرف ہدایت دے اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرماء اور آخرت کی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 283،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 156دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
تینتالیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے تینتالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثالث والاربعون فی النفس الامارۃ‘‘ ہے۔
منعقده 26 رجب 545 ھ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ
فلاح ونجات اللہ کی موافقت اور نفس کی مخالفت میں ہے :
اے بیٹا! تیرافلاح ونجات کا ارادہ ہے تو اللہ کی موافقت کر اورنفس کی مخالفت کر، طاعت الہی میں نفس کی موافقت کر اور معصیت الہی میں نفس کی مخالفت کر ، خلقت کی پہچان کرنے میں نفس تیرے لئے حجاب ہے، اور اللہ کی معرفت میں خلقت تیرے لئے حجاب ہے۔
جب تک خلقت کے ساتھ رہے گا ، خالق کو نہ پہچان سکے گا ، جب تک دنیا کے ساتھ رہے گا ، آخرت کو نہ پہچان سکے گا، جب تک آخرت کے ساتھ رہے گا ، رب آخرت کو نہ پہچان سکے گا۔ جیسے دنیا وآخرت یکجانہیں ہو سکتے ، ویسے ہی مالک ومملوک یکجا نہیں ہو سکتے ۔ اسی طرح سے خالق وخلقت کا یکجا ہونا غیر ممکن ہے، نفس بدی کی راہ چلانے والا ہے، یہ اس کی فطرت ہے، اس کی اصلاح میں کچھ وقت لگے گا، قلب کے موافق ہو جانے تک اس کی اصلاح میں لگارہ، ہر حال میں اس سے مجاہدہ کر، اسے اس ارشاد الہی سے حجت و دلیل نہ بنا فَأَلْهَمَهَا ‌فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا اللہ نے ہرنفس کو نیکی وبدی الہام کر دی ہے ۔ یہ ندا اللہ کی طرف سے آئے گی جبکہ نفس کدورتوں سے پاک ہو، نفس کا شر زائل ہو جائے ، قلب ، ذکر اور طاعت الہی سے پھل پھول جائے ،جب تک نفس کے لئے یہ بات حاصل نہ ہو تو اس کی کدورت اور شرارت کی وجہ سے قرب الہی کی امید نہ رکھ نفس جب تک نجاستوں سے پاک نہ ہوگا اسے بادشاہ حقیقی کا قرب کیسے حاصل ہوسکتا ہے، تو نفس کی امید کم کرتا کہ تیری مرضی کے مطابق تیری اطاعت کرے۔اسے رسول اکرم ﷺ کی نصیحت سنایا کر ، آپ ﷺ نے ارشادفرمایا إِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْمَسَاءِ، وَإِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي يَا عَبْدَ اللهِ ‌مَا ‌اسْمُكَ ‌غَدًا” جب تو صبح کرے تو اپنے نفس سے شام کی بات نہ کر، اور جب شام کرے تو اپنے نفس سے صبح کی بات نہ کر۔ کیونکہ تجھے نہیں معلوم کہ کل تیرا کیا نام ہوگا ، ( زندہ یا مردہ) –
تو اپنے نفس پر غیر سے زیادہ مہربان ہے حالانکہ تو نے ہی اسے بگاڑا ہے،غیر کس لئے اس پر مہربانی کرے گا اور اس کا خیال رکھے گا تیری آرز وار حرص کی قوت نے تجھے نفس کے ضیاع کے لئے مائل کر دیا ہے، تو -آرزو کے کم کرنے، حرص کے کم کرنے موت کو یاد کرنے ، مراقبہ الہی کا ذکر کرنے ، صدیقوں کی انفاس و کلمات سے علاج کرنے ، کدورت سے پاک ذکر کرنے کے لئے کوشاں ہو۔
نفس سے کہو کہ تیری نیک کمائی تیرے فائدے کے لئے اور تیری بد کمائی تیرے نقصان کے لئے ہے، ذرا سوچ سمجھ کر عمل کر کوئی بھی تیرے ساتھ عمل نہ کرے گا ، اور نہ اپنے عمل میں سے تجھے کچھ دے گا، عمل و مجاہدہ لازی ہیں ، وہی دوست ہے جو تجھے بازرکھے ، وہی دشمن ہے جو راہ سے ہٹائے ۔
میں تجھے خلقت کے پاس دیکھتا ہوں خالق کے پاس نہیں ، تو نفس اور خلقت کے حقوق ادا کر رہا ہے جبکہ خالق کے حقوق نظر انداز کئے ہوئے ہے، نعمتیں اللہ نے دی ہیں اور شکر غیراللہ کا ادا کر رہا ہے ۔ تیرے پاس جو نعمتیں ہیں وہ کس کی عطا کردہ ہیں ،۔ کیا غیراللہ نے دی ہیں ۔ جو اس کا شکر ادا کرتا ہے۔اور اس کی عبادت کرتا ہے، جب تجھے علم ہے کہ تیرے پاس کی نعمتیں اللہ نے عنایت کی ہیں تو اللہ کا شکر کہاں ہے! –
جب تجھے علم ہے کہ اس نے پیدا کیا ہے تو اس کی فرماں برداری کرنے اور نا فرمانی سے بچنے میں تیری عبادت کہاں، اس کی بلا پرصبر کہاں ہے تو اپنے نفس سے اتنا جہاد کرتا کہ وہ راہ راست پر آ جائے ۔ ارشاد باری تعالی ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ ‌سُبُلَنَا” جولوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ، ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیتے ہیں ۔ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ ‌وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
نیز فرمایا: ”اے ایمان والو! اگرتم اللہ کی مددکرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ تو اپنے نفس کو کھلا نہ چھوڑ ، نہ اس کی فرماں برداری کر، تجھے نجات مل جائے گی ۔ اس کے سامنےہنسی نہ کر، اس کی ہزاروں باتوں میں سے ایک کا جواب دے تا کہ اسے کچھ تہذیب آ جائے ، نفس جب تجھ سے خواہشوں اور لذتوں کی تمنا کرے تو اسے ٹالدے، کچھ دیر کرو اور اس سے کہو کہ ان کے پانے کا مقام جنت ہے ۔ نفس کو رکاوٹ کی تلخی پر صبر کرنے کی عادت ڈال یہاں تک کہ عطائے الہی نصیب ہو ۔ جب اسے صبر کی عادت ہو جائے اور وہ صبر کرنے لگے تو اللہ اس کے ساتھ ہوگا، کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ– اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔ نفس کی کوئی بات نہ مان ، وہ تو نافرمانی پرا کسائے گا، نفس سے دوستی ترک کر دے اور اس کے خلاف چل، اس کے خلاف چلیں تو یہ درست رہتا ہے۔
اے معرفت الہی کا دعوی کرنے والے تو اپنے دعوے میں جھوٹا ہے کیونکہ تو اپنے نفس پر قائم ہے _نفس اور حق دونوں جمع نہیں ہوتے ، دنیا اور آخرت دونوں جمع نہیں ہوتے ، جو بندہ اپنے نفس کے ساتھ ٹھہر ااس کا اللہ کے ساتھ ٹھہر نا باقی نہ رہےگا ، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: مَنْ أَحَبَّ دُنْيَاهُ أَضَرَّ بِآخِرَتِهِ وَمَنْ ‌أَحَبَّ ‌آخِرَتَهُ أَضَرَّ بِدُنْيَاهُ”جس نے دنیا سے محبت کی اس نے آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے آخرت سے محبت کی اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا۔
صبر سے کام لے، جب صبر کامل ہو گا تو رضائے الہی کامل ہوگی ، جب تجھے فنا نصیب ہوگی تو ، تجھے سب کچھ علم ہو جائے گا۔ – ہر بات میں شکر گزار ہوگا۔ – دوری قرب سے بدل جائے گی، شرک، تو حید ہو جائے گا۔ تو خلقت کی طرف سے نہ فائدہ پائے گانہ نقصان ، مخالف چیزیں دکھائی نہ دیں گی۔سب دروازے اورسمتیں ایک ہو جائیں گی صرف ایک ہی جہت رہ جائے گی ۔یہ ایسی حالت ہے کہ بہت سی خلقت اسے سمجھ ہی نہیں سکتی، بلکہ یہ حالت خاص لوگوں میں لاکھوں میں سے کسی ایک کو حاصل ہوتی ہے۔
کوشش کر روح کے بدن سے نکلنے سے پہلے ہی تیرانفس مرجائے:
اے بیٹا! کوشش کر کہ تو اللہ کے سامنے یہیں مر مٹے ۔ اور یہ کوشش کر کہ روح کے بدن سے نکلنے سے پہلے ہی تیرانفس مر جائے ۔ نفس کی موت صبر کرنے اور اس کی مخالفت کرنے میں ہے، جلد ہی اس کی عاقبت نیک ہوگی۔ تیر اصبرفنا ہو جائے گا مگر اس کی جزا باقی رہنے والی ہے ۔ ( تجربے کی بات ہے میں نے صبر کیا اور صبر کی عاقبت نیک پائی ہے۔ میں مر گیا۔ پھر اس نے مجھے زندہ کیا، اس نے مجھے پھر مارا اور میں غائب ہو گیا ، غائب ہونے کے بعد پھر مجھے وجود عطا کیا ، میں اس کی معیت میں فوت ہوا اور اس کی معیت میں مالک بنا ، میں نے اختیار اور ارادہ چھوڑ دینے میں نفس سے جہاد کیا۔ حتی کہ مجھے اللہ کی معیت حاصل ہوگئی اب تقدیر الہی میرا ہاتھ تھامتی ہے، اس کا احسان میرا مددگار ہے، اس کا فعل مجھے لئے لئے پھرتا ہے، غیرت الہی میری حفاظت کرتی ہے، اور اس کی مشیت میری اطاعت کرتی ہے، سابق علم الہی مجھے آگے بڑھا تا ہے اور میرا رب مجھے بلند کئے جارہا ہے۔ تجھ پر افسوس ! تو مجھ سے بھا گتا ہے، جبکہ میں تجھ پر کوتوال ہوں ۔ میں تیرے نفس کا محافظ ہوں ، تیرا ٹھکانہ میرے پاس ہے، میرے پاس ٹھہر جاورنہ ہلاک ہو جائے گا ۔اے جاہل ، بیوقوف! پہلے میرے پاس آ ، پھر بیت اللہ شریف کا حج کرنا، میں کعبہ کا دروازہ ہوں، میرے پاس آ تا کہ میں تجھے حج کا طریقہ بتاؤں کہ حج کیسے کرتے ہیں اور میں تجھے بتاؤں کہ رب کعبہ سے کیسے بات کرنی ہے۔ جب مطلع صاف ہوگا ،غبار بیٹھ جائے گا تم پرحقیقت کھل جائے گی۔
اے سیاست دانو! میری حفاظت میں آ جاؤ، اللہ نے مجھے کامل قوت عطا فرمائی ہے ، اولیاءاللہ تمہیں وہی حکم دیتے ہیں جیسا کہ اللہ کے حکم سے میں تمہیں حکم دیتا ہوں اور اس سے روکتے ہیں جس چیز سے انہیں اللہ نے روکا ہے، تمہاری خیر خواہی ان کے سپرد کی گئی ہے، وہ نصیحت کرنے میں اپنی امانت ادا کرتے ہیں ، تم دار حکمت ( دنیا ) میں عمل کرد، تا کہ دار قدرت (آخرت) تک پہنچ سکو، نیا دارحکمت ہے اور آخرت دار قدرت، حکمت کو آلات و اسباب اور اوزاروں کی ضرورت ہے جبکہ قدرت اس کی محتاج نہیں فضل الہی نے ایسا اس لئے کیا ہے کہ دار قدرت، دار حکمت سے الگ ہو جائے ، آخرت میں اشیاء کسی سبب کے بغیر وجود پائیں گی ، وہاں تمہارے اعضاء بول رہے ہوں گے۔ اللہ کی جو نافرمانیاں تم نے کی ہیں تمہارے اعضاءان کی گواہی دیں گئے تمام رات کھل جائیں گے ، اور تمام چھپی باتیں ظاہر ہو جائیں گی ۔ تم چاہو خواہ نہ چاہو تمہاری مرضی نہ چلے گی، خلقت میں سے کوئی بھی ٹھنڈے دل کے بغیر داخل نہ ہوگا اس پر حجت قائم ہوگئی جس پر کوئی عذر نہ کر سکے گا اور ٹھنڈے دل سے داخل ہو جائے گا ، اپنے نامہ اعمال کوفکر کی زبانوں سے پڑھو، پھر نافرمانیوں پر توبہ کرو اور فرماں برداریوں پر شکر ادا کرو، نافرمانیوں کے کھاتے اکٹھے کر کے دیکھو، ان کی سطروں پر تو بہ کاقلم پھیر دواور یہ سطریں کاٹ دو۔
میں تمہیں تمہارے لئے چاہتا ہوں نہ کہ اپنے لئے: ۔
اے بیٹا! تو میرے ہاتھ پر تائب ہوا اور میری صحبت میں بھی رہا۔ میں نے جو بات تجھ سے کہی ،تو اسے نہ مانے تو میں کیا کہوں تجھے اس سے کیا فائدہ ہوگا، حقیقت کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے تو نے ظاہر پرستی کی طرف رغبت کی۔جو شخص میری صحبت کا طالب ہو، وہ میری بات مانے اور اس پر عمل کرے، جیسے میں کروں ویسے ہی وہ کرے، درنہ میری صحبت میں نہ آئے ،ایسے میں اسے فائدے کی جگہ نقصان ہوگا۔ میں ایک مہذب دسترخوان ہوں، پھر بھی کوئی مجھ سے کھانا نہیں چاہتا ، میں کھلا ہوا دروازہ ہوں لیکن اس میں داخل کوئی نہیں ہوتا، :
میں تمہارے ساتھ کیا عمل کروں ، کتنی بار کہوں ، تم سنتے ہی نہیں ، میں تمہیں تمہارے لئے چاہتا ہوں نہ کہ اپنےلئے ، میں نہ تم سے ڈرتا ہوں اور نہ ہی کوئی امید رکھتا ہوں ، نہ ویرانے اور آبادی میں کوئی فرق کرتا ہوں۔ اسی طرح زندہ اور مردہ ،امیر وفقیر، بادشاہ اور رعایا سب ایک جیسے ہیں، حکم تو تمہارے غیر کے ہاتھ میں ہے۔
میں نے جب اپنے دل سے دنیا کی محبت نکال دی تو مجھے یہ مقام حاصل ہو گیا، جب تیرا دل دنیا کی محبت سے معمور ہے تو تیرے لئے تو حید کیسے صحیح ہو سکتی ہے، کیا تم نے رسول اکرم ﷺ کا یہ مبارک ارشاد نہیں سنا: حُبُّ ‌الدُّنْيَا ‌رَأْسُ ‌كُلِّ ‌خَطِيئَةٍ’’دنیا کی محبت ہر خطا کی جڑ ہے ۔‘‘ تو جب تک ابتدائی حالت میں عبادت گزار ہے، طالب اور سالک ہے، دنیا تیرے حق میں خطا کی جڑ رہے گی ،جب تیرے قلب کی سیر کی انتہا ہو جائے گی تو وہ قرب الہی سے واصل ہو جائے گا۔ تیرا دنیا کے لئے لکھا نصیب تیرے لئے محبوب بنا دیا جائے گا ، اور غیر کے نصیب کیلئے تیرے دل میں نفرت پیدا کر دی جائے گی ۔ تیرا نصیب اس لئےتیرے لئے محبوب بنایا جائے گا تا کہ تو اپنے بارے میں اللہ کے ازلی علم کو ثابت کرنے کیلئے اپنا نصیب اچھی طرح سے حاصل کر لے، اس پر قناعت کرے اور تیری غیر کی طرف توجہ نہ ہو، اور تیرادل اللہ کے حضور میں قائم ہو جائے ، دنیاوی نصیب میں اسی طرح تصرف کرے جس طرح کہ جنت والے جنت میں تصرف کریں گے ، اللہ کی طرف سے جو بھی حکم جاری ہوگا، تجھے پسند ہوگا ، کیونکہ تو اس کے ارادے سے ارادہ کرے گا ، -اس کے اختیار سے اختیار کرے گا۔ اس کی تقدیر کے ساتھ چلے گا۔ ماسوی اللہ سے تیرا دل ہٹ جائے گا، دنیا وآخرت تجھ سے دور ہو جائیں گے ۔ تیرا یہ اپنے نصیب کو حاصل کرنا اور اسے محبوب رکھنا اپنی طرف سے نہیں بلکہ حکم الہی کے تحت ہوگا۔
دکھاوے کے لئے عمل کرنے والا منافق اپنے عمل پر مغرور رہتا ہے، دن کو ہمیشہ روزے سے رہتا ہے، رات کو شب بیداری کرتا ہے، روکھی سوکھی کھا تا ہے اور موٹا لباس پہنتا ہے۔ ظاہری اور باطنی اعتبار سے تاریکی میں ہے، اپنے رب کی طرف ایک قدم بھی دل سے نہیں بڑھتا۔ وہ توفقط عمل کرنے والوں غم اٹھانے والوں العاملة الناصبہ میں سے ہے۔ اس کی اندرونی حالت صدیقین ، صالحین ، واصلان حق اور اولیاء اللہ سے ڈھکی چھپی نہیں۔خلقت میں سے خواص تو آج بھی اسے جانتے اور پہچانتے ہیں، قیامت کے دن عوام بھی اس کا اصل چہرہ دیکھ لیں گے، خواص جب بھی اسے دیکھتے ہیں ، دل ہی دل میں اس کے لئے غصہ کرتے ہیں لیکن وہ اللہ کی پردہ پوشی سے اس کی عیب پوشی کرتے ہیں ۔ اور اسے دنیا والوں پر ظاہر نہیں کرتے۔
تو اپنے نفاق کے ساتھ اولیاء اللہ میں شامل نہ ہو، جب تک تو اپنی زنارکونہ توڑ ڈالے اور نئے سرے سے اسلام نہ لائے ، توبہ کو دل کے ساتھ ثابت نہ کرے، اور اپنی عادت اور حرص اور اپنے وجود اور نفع پانے اور دفع ضرر کے گھر سے نہ نکل آئے ۔ واعظ بن کے اولیاء اللہ کے حالات نہ سنا یہ کسی کام کا نہیں جب تک کہ تو اپنے آپ سے باہر نہ نکلے ۔اپنے نفس اور حرص اور عادت کو دروازے پر نہ چھوڑے، اور دل کو دہلیز پر اور باطن کو بادشاہ کے حضور میں مقام مخلوق میں نہ چھوڑے، تیرا کلام نامسموع ہے ، زبان نہ ہلا ۔ بنیادکو پختہ کرلے، بنیاد جب مضبوط ہو جائے تو جلدی سے عمارت بنا، یہ بنیاد کیا ہے، دین اور دل کی سمجھ علم اور فقہ، زور بیان اور زبان کی فقہ نہیں ، زبان کی سمجھ خلقت اور بادشاہوں کے قریب کرتی ہے، جبکہ دل کی سمجھ قرب الہی کی مجلس کا صدر بناتی ہے اور تیرے قدم اللہ کے قریب کرتی ہے دل کی سمجھ کو اختیار کر ۔
علم کی طلب تو رکھتا ہے مگر اس پر عمل کی تڑپ نہیں رکھتا
تجھ پرافسوس تو اپنے وقت کوعلم کی طلب میں ضائع کرتا ہے، اس پرعمل نہیں کرتا۔ تو جہالت کے قدم پر حرص میں ہے ۔ اللہ کے دشمنوں کی خدمت کرتا ہے اور انہیں اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے، اللہ کو تیری اور تیرے شرک کی کوئی پرواہ نہیں، اسے اپنے ساتھ کوئی شریک قبول نہیں ۔ کیا تجھے نہیں پتہ کہ تو اس کا بندہ کہلائے گا جس کے ہاتھ میں تیری باگ ہوگی ، اگرتواپنی بھلائی چاہتا ہے:
اپنے دل کی ڈوراللہ کے ہاتھ میں دے دے ،اس کی ذات پر حقیقی بھروسہ کر،اپنے ظاہر و باطن سے اس کی خدمت کر، اس پر تہمت نہ ر کھ، کیونکہ وہ ہر تہمت سے بری ہے، وہ تیری مصلحت تجھ سے زیادہ جانتا ہے : – وہ جانتا ہے اور تو نہیں جانتا ہے، تجھ پرلازم ہے کہ اس کے سامنے گم نام، آنکھیں بند کئے سر کو جھکائے ، گونگا بنا خاموش رہے، یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے تجھے بولنے کا حکم آ جائے ، اب تو اپنے ارادے سے نہیں ، اس کے ارادے سے بول، ایسے میں تیرا بولنا دلوں کے ۔ مرض کی دوا، باطن کے لئے شفا اور عقلوں کے لئے روشنی ہوگا ۔
اللهم نور قلوبنا و دلها عليك وصف أسرارنا و قربها منك واتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار ”اے اللہ! ہمارے دلوں کو منور کر، انہیں اپنا راستہ بتا، اور ہمارے باطن کو صفا کر اپنی تائید سے دلوں کو قوی کرے ۔ اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا کرے ، اور آخرت کی بھلائی عطا کرے اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھے۔“
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 291،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 160دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
چوالیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چوالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الرابع والاربعون الدنیا سجن المؤمن‘‘ ہے۔
منعقدہ23 رجب 545 بروز شام منگل بمقام مدرسہ قادر یہ
مومنین کاملین کے ذکراذکار
مؤمن دنیا میں غریب ہے اور زاہد آخرت میں غریب ، عارف زاہد (طالب مولی ) ماسوا اللہ میں غریب ، دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ ہے چاہے کیسی ہی رزق میں فراخی اور مکان میں وسعت ہو، اہل وعیال کی کثرت ہو، اس کے اہل وعیال اس کے مال اور مرتبہ میں ہر طرح کے مزے اڑاتے پھرتے ،خوشیاں مناتے ہیں اور اس کے اردگر دہنستے کھیلتے ہیں ، لیکن وہ باطنی طور پر قید خانے میں ہے۔ اس کے چہرے پر خوشی اور دل میں غم رہتا ہے، ، اس نے دنیا کی حقیقت کو پہچان کر اپنے دل سے طلاق دے دی ۔
پہلے اس نے دنیا کو ایک طلاق رجعی دی، کیونکہ اسے خوف تھا کہ کہیں اغیار ارادے کو نہ بدل دیں ۔ ابھی وہ اس حال میں تھا کہ آخرت نے اس پر اپنا دروازہ کھول دیا، اس کے چہرے کی چمک دمک اور حسن کی بجلی اس پر ظاہر ہوئی۔اس وقت اس نے دنیا کو دوسری طلاق دے دی ، اس کے بعد آخرت اس کے گلے سے جھول گئی ، چنانچہ اس نے دنیا کو تیسری طلاق دے دی۔ اور آخرت کےساتھ رہنے سہنے لگا۔
ابھی وہ اس کیفیت میں تھا کہ اس پر قرب الہی کا نور چمکا، اس نے آخرت کو بھی طلاق دے دی۔ اور قرب الہی کے مزے لوٹنے لگا۔
دنیا نے سوال کیا: ’’ تم نے مجھے کیوں طلاق دی‘‘ – جواب دیا: ’’ مجھے تجھ سے اچھی مل گئی۔ پھر آخرت نے پوچھا: تو نے مجھے کیوں چھوڑا‘‘ کہا:’’ تو خدا کی بنائی ہوئی ہے صورت والی ہے، تیرا وجود ہے تو اسی سے مگر تو غیر خدا حادث ہے،لہذا تجھے کیسے نہ چھوڑتا‘‘ ۔
اب اس کے لئے اللہ کی معرفت ثابت ہوگئی ، وہ ماسوا اللہ سے آزاد ہو گیا، اور دنیا وآخرت میں غریب ہو گیا، اور ہر ایک سے ظاہر ہو کر ہر چیز سے محو وفنا ہو گیا، فنا کے اس عالم میں دنیا آ کر اس کے خدمت میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ بڑی توجہ سے اس کی خدمت کرتی ہے اور تعمیل ارشاد کے لئے حاضر رہتی ہے، جو زینت اپنے چاہنے والوں کو دکھاتی تھی ، اس سے خالی ہو کر آتی ہے، ایسا اس لئے کیا گیا تا کہ اس کی توجہ اس کی طرف نہ ہونے پائے ۔شہنشاہ بیگم جب کسی بندے سے پیار کرتی ہے تو اپنے تحفے نذرانے بوڑھی عورتوں اور سیاہ فام حبشی لونڈیوں کے ذریعے بھیجتی رہتی ہے تا کہ اس پر غیرت اور – حفاظت رہے ۔تو پوری طرح سے اپنے رب کی طرف تو بہ کر آنے والے کل کوگزرے کل کے ہاں اس کے پہلو میں چھوڑ دے، کیاخبر آ نے والاکل اس حال میں آئے کہ تو مر چکا ہو۔ اے مالدار! – تواللہ کو چھوڑ کر مال میں مشغول نہ ہو، کیا خبر کل تو فقیر ہو جائے ، تو کسی کے ساتھ نہ رہ بلکہ سب کے پیدا کرنے والے کے ساتھ رہ، وہ ایسا ہے کہ اس کی طرح کا کوئی نہیں ، اس کے غیر سے راحت چاہے گا ، راحت نہ ملے گی۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: لَا ‌رَاحَةَ لِلْمُؤْمِنِ دُونَ ‌لِقَاءِ رَبِّهِ و اللہ کی ملاقات کے سوامومن کے لئے راحت نہیں ہے ۔
جب وہ خلقت اور تیرے درمیان خرابی اور ویرانی ڈال دے، اور اپنے اور تیرے درمیان میں تعلقات قائم کر لے، تو سمجھ لے اس نے تجھے پسند کر لیا۔ تواس کی پسندیدگی کو برا مت سمجھ، جو بندہ اللہ کے ساتھ صبر کرتا ہے وہ الطاف الہی کے عجائبات کا نظارہ کرتا ہے ۔ اور جوفقر پر صبر کرے اسے امیری مل جاتی ہے۔ نبوت اکثر بکریاں چرانے والوں کو ملی ہے، اور ولایت غلاموں اور غریبوں کوملی ہے، ۔ بندہ جس قدر اللہ کے سامنے جھکتا ہے، اللہ اس قدر اسے عزت دیتا ہے ۔ اور جس قدر اس کے سامنے عاجزی کرتا ہے، اللہ اس قدرا سے بلندی دیتا ہے۔
اللہ ہی عزت دینے والا اور ذلت دینے والا ہے۔ اللہ ہی پست کرنے والا اور بلند کرنے والا ہے۔ اللہ کی توفیق دینے والا اور ہر مشکل آسان کرنے والا ہے۔ اگر اللہ کافضل شامل حال نہ ہوتا تو ہم ہرگز نہ اسے پہچان سکتے ۔
ہر کوئی اپنے پیارے کی طرف جھکتا ہے:
اسے اپنے اعمال پر اترانے والو! تم کتنے جاہل ہو، اگر اس کی توفیق نہ ہوتی بیتم نماز پڑھ سکتے تھے اور نہ روزہ رکھ سکتے تھے اور نہ ہی صبر کر سکتے ، تمہیں تو شکر منانا چاہئے نہ کہ اترانا چاہئے ، اکثر بندے اپنی عبادتوں اور گملوں پر ( غرور کی وجہ سے ) خلقت سے اپنی تعریف و مدح سرائی چاہتے ہیں، اور دنیا اور دنیا والوں کی توجہ کے طالب ہیں ، ، وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اپنے نفسوں اور خواہشوں کے تابع ہیں- نیانسوں کو پیاری ہے اور آخرت دلوں کی پیاری ہے، جبکہ للہ تعالی باطنوں کا ہے، کلیہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے پیارے کی طرف جھکتا ہے ۔ حکم کی مضبوطی کے بعد دلوں میں حکم ڈالا گیا ہے، کیونکہ یکم اس امر سے پہلے تھا۔ شرعی علوم پر گرفت مضبوط ہوئے بغیر باطنی علم حاصل نہیں ہوسکتا۔ شری علوم پر گرفت مضبوط ہوئے بغیر باطنی علم کا دعوی کرنے والا جھوٹا ہے۔ کیونکہ شریعت مطہرہ جس حقیقت کی شہادت نہ دے، وہ بے دینی اور الحادہے، تو کتاب اللہ اور سنت رسول اکرم ﷺ کے دونوں بازوؤں سے اللہ کی طرف پرواز کر ۔۔۔ اس کے حضور میں یوں حاضر ہو کہ تیرا ہاتھ رسول اکرم ﷺ کے ہاتھ میں ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسل کو اپنا مددگار اور ہر استاد بنا لے، اور آپ ﷺ کے دست مبارک کو اختیار دے کہ مجھے زینت دے کر آ راستہ کر کے اللہ کے سامنے پیش فرمائیں۔
رسول اکرم ﷺ ہی ارواح کے حاکم ہیں اور مریدوں کے مربی دسر پرست ہیں محبوبوں کے سردار اور صائین کے بادشاہ ہیں ۔ اور خلقت کے درمیان احوال و مقامات کو تقسیم فرمانے والے ہیں ۔اس لئے اللہ تعالی نے انہیں سب کا امیر بنایا ہے، اور یہ سب امور آ نحضرت ﷺ کے حوالے کر دیئے ہیں ، ۔ بادشاہ کے دربار سے جس لشکر کو ضلعت دیئے جاتے ہیں تو اس کی تقسیم امیرالشکر کے ہاتھ سے ہوتی ہے، توحید عبادت ہے اور شرک نفس کی عادت ! — تو عبادت کو اپنے اوپر لازم کر لے اور عادت کو ترک کر دے تو جب خلاف عادت کرے گا تو اللہ کی طرف سے بھی خلاف عادت برتاؤ ہوگا۔ ( یعنی خرق عادت یعنی کرامت کا ظہور ہوگا۔) تو اپنی حالت کو بدل دے تا کہ اللہ بھی تیرے لئے تبد یلی کر دے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا ‌يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى ‌يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ
” بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خودنہ بدل لیں ۔“ تو نفس اور خلقت کو اپنے دل سے نکال دے اور ان کے خالق سے لبریز کر لے تا کہ تجھے منصب تکوین پر فائز کرے ۔ یہ ایسی شے نہیں جو دن کے روزوں اور رات کے ذکر ونماز سے حاصل ہوتی ہو، اس کے لئے دلوں کی پا کی اور باطن کی صفائی کی ضرورت ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں:
صیام و قیام اس دستر خوان کا سرکہ اور ترکاری ہے ، اصل کھانا تو ان کے علاوہ ہے۔سچ فرمایا، یہ دونوں اول تو کھانا ہیں ، ان کے بعد دستر خوان پر رنگ برنگ کا کھانا آ تا ہے – صیام و قیام کے بعد کھانا کھانا ، پھر ہاتھوں کا دھونا ، پھر اللہ سے ملاقات کرنا ہے، اس کے بعد خلعت اور جاگیر عطا کرنا ، اور امارت و نیابت اور ملکوں اور قلعوں کا حوالے کرنا ہے، بندے کا دل جب اللہ کے لئے درست ہو جائے اور اس کے قرب میں ٹھہر جائے تو روئے زمین پر اسے سلطنت و بادشاہت عنایت کی جاتی ہے، خلقت کو خالق کی طرف دعوت کا کام سونپا جا تا ہے ۔ خلقت کی ایذارسانیوں پر صبر کرے۔ باطل کو پلٹ کر حق کو ظاہر کرے، اللہ ہی اسے عطافرماتا ہے، اور وہی غنی بنادیتا ہے ۔ کیونکہ جب وہ دیتا ہے تو یقینی طور پرغنی بنا دیتا ہے، اس کا پیٹ حکمتوں سے بھر دیتا ہے ۔ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں اور عارفوں کے دلوں کی زمین سے حکمت کی نہریں جاری فرمادیتا ہے جو اللہ کے علم کی وادی سے عرش عظیم اورلوح محفوظ سے جوش مارتی ہیں ، جواللہ کی پہچان نہیں رکھتے اور اس سے گریزاں ہیں ، ان مردہ دلوں کی طرف پہنچتی ہیں ۔
دلوں کی مردنی یا زندگی ،کھانے کے حرام یا حلال ہونے پر ہے
اے بیٹا! حرام کی روزی تیرے دل کو مردہ کر دے گی اور حلال کی روزی سے زندگی ملے گی ، ایک لقمہ وہ ہے جو دنیا کے ساتھ مشغول کرتا ہے۔ ایک لقمہ وہ ہے جو آخرت کے ساتھ مشغول کرتا ہے، – ایک لقمہ وہ ہے جودنیا و آخرت سے بے رغبت کرتا ہے،ایک لقمہ خالق کے ساتھ مشغول کرتا ہے۔ حرام کی روزی دنیا میں مشغول کرتی ہے اور تیرے لئے گناہوں کو محبوب بنادیتی ہے، مباح روزی آخرت کی طرف لگاتی ہے، اور طاعت وعبادت کو تیرے لئے محبوب بنا دیتا ہے، حلال روزی تیرے دل کو اللہ کے قریب کرتی ہے، ان روز یوں کا علم اللہ کی معرفت سے ہوتا ہے۔ – اللہ کی معرفت دل سے ہوتی ہے کتابوں سے نہیں ، وہ اللہ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے خلقت کی طرف سے نہیں ۔اس کی معرفت اس کی فرماں برداری سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کی ذات کو سچا جاننے اور سچا ماننے سے حاصل ہوتی ہے؟ اللہ کو یکتا سمجھنے اور اس پر بھروسہ کرنے سے حاصل ہوتی ہے،ایک لقمہ ایسا ہے جو تیرے دل کو روشن کر دیتا ہے، ایک نوالہ ایسا ہے جو تیرے دل کو تاریک کر دیتا ہے، ساری خلقت سے الگ ہو جانے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ تو اللہ کو کیسے پہچان سکتا ہے، حالانکہ تجھے کھانے پینے، پہننے اور جماع کرنے کے سوا کسی اور کی پہچان نہیں ہے،اس میں حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرتا، خواہ لذت میں یہ کیسے ہوں، کیا تو نے رسول اکرم ﷺ کا مبارک ارشادنہیں سنا
من لم يبال من اين مطعمة ومشربه لم يبال الله من أي باب من أبواب النار أدخله جو اپنے کھانے پینے میں حلال وحرام کی پروا نہیں کرتا ،اللہ بھی اس کی کچھ پرواہ نہیں کرے گا کہ اسے دوزخ کے وروازوں میں سے کس دروازے سے داخل کرے ۔“ کچھ توقف کرنے کے بعد حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشادفرمایا:کسی چیز کی پرواہ نہ کر ، ہر چیز سے بے پرواہ ہو جا، نہ اللہ سے کوئی چیز رو کے نہ اس کی خلقت پابند کرے، سوائے اس کے کہ تو ان سے ان کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرے، دل جوئی سے ان پر صدقہ کرے، تیراعمل رسول اکرم ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق ہو:
مداراة الناس صدقة لوگوں کی دل جوئی کرنا صدقہ ہے ۔‘‘
– اللہ کی عطا سے ان پر عطا کرے۔اپنے اکرام سے ان کی تعظیم کرے، نری اور مہربانی سے پیش آئے ۔ان کے لئے تیرا پہلو جھکار ہے، تیرے اخلاق کلی طور پر خالق کے اخلاق سے ہوں، تیرا ہرفعل اس کی مشیت کے مطابق ہوگا۔
مشائخ دوطرح کے ہیں:
مشائخ دوطرح کے ہیں:
( (1) ایک مشائخ شریعت (2) ایک مشائخ طریقت ومعرفت
شیخ شریعت (یعنی حکم شیخ ) تجھے خلقت کے دروازے پر لے جائے گا،
شیخ طریقت (یعنی علم کا شیخ ) تجھے قرب الہی کے دروازے پر لے جائے گا، گویا کہ دو دروازے ہیں جن میں لازمی طور پر داخل ہونا ہوگا:
ایک خلقت کا دروازہ ،ایک خالق کا دروازہ، ایک دنیا کا دروازہ ہے، ایک آخرت کا دروازہ ہے، ۔ ایک دوسرے کے تابع ہے۔ پہلے خلقت کا دروازہ ہے، پھرخالق کا دروازہ ہے، جب تک پہلے دروازے سے نہ گزرے گا ،اگلا دروازہ نہ دیکھ سکے گا، اپنے دل کے ساتھ دنیا سے نکل آ تا کہ آخرت میں داخل ہو سکے، شیخ شریعت کی خدمت کرتا کہ وہ تجھے شیخ طریقت کی طرف لے جائے ۔خلقت سے ۔ الگ ہوتا کہ حق تعالی کی معرفت حاصل ہو سکے۔یہ کئی درجے ہیں، ایک کے بعد دوسرا درجہ ہے، دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ، باہم جمع نہیں ہو سکتے ۔ یہ سب چیزیں ضد یں اور مخالف ہیں، تو انہیں جمع کرنے کا شوق نہ کر ، تیرے ہاتھ کچھ نہ لگے گا۔ تو اپنے دل کو جو اللہ کا گھر ہے، اللہ کے غیر سے خالی کر دے، اس میں ماسوا اللہ کو جگہ نہ دے، یہ جس گھر میں تصویر ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔ تیرے دل میں بہت سی تصور میں اور بت ہیں، اللہ تعالی تیرے دل میں کیسے داخل ہو، ، اللہ کے سوا ہر چیز بہت ہے، ان بتوں کو تو ڑ دے اور اس گھر کو پاک وستھرا کر ، اور گھر والے کو گھر میں دیکھ، ایسے عجائبات نظر آئیں گے جو پہلے نظر نہ آئے تھے۔
اللهم وفقنا لما يرضيك عنا واتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النّار الہی! ہمیں اپنی رضا کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 300،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 164دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
پینتالیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پینتالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الخامس والاربعون فی التمسک بالعروۃ الوثقی‘‘ ہے۔
منعقده 26 رجب 545 ھ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ
خلقت پر بھروسہ کرنے والا ملعون ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: ملعون ملعون من كانت ثقته بمخلوق مثله «ملعون ہے ملعون ہے ، جس کا اپنے جیسی مخلوق پر بھروسہ ہے۔ بہت سے لوگ اس لعنت کا شکار ہیں ، بہت سی خلقت میں سے کوئی ایک ہوگا جس کا اللہ پر بھروسہ ہو، اور جس نے اللہ پر بھروسہ کیا اس نے مضبوط رسی کو پکڑ لیا، اور جس نے اپنےجیسی مخلوق پر بھروسہ کیا اس کی مثال ایسی ہے کہ جس نے مٹھی میں پانی بند کیا ہاتھ کھولا تو کچھ نہ پایا۔
تجھ پرافسوس! خلقت ایک دن یا دودن یا تین دن ، ایک مہینہ یا ایک سال ، حد دوسال تک تیری ضرورتیں پوری کرے گی ، بالا خرا کتا کر تجھ سے منہ پھیر لے گی تو ان کی صحبت اختیار کر اور اپنی سب حاجتیں اس پر پیش کر۔ وہ تجھ سے بھی نہ ا کتائے گا، نہ دنیا و آخرت میں تیری حاجت روائی سے گھبرائے گا، توحید کے ماننے والے کے لئے اس کی توحید کی قوت کے باعث نہ ماں باپ باقی رہتے ہیں ، اور نہ دوست نہ دشمن، نہ مال نہ مقام رہتا ہے۔ کسی شے میں نہ سکون ملتا ہے نہ قرار اللہ کے دروازے اور اس کے احسانوں کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
اے درہم ودینار پر بھروسہ کرنے والے ! یہ جلد ہی تیرے ہاتھ سے نکل جائیں گے، ان کا وبال رہ جائے گا، جیسے دوسرے کے ہاتھ میں نہ رہے، ان سے چھین کر تجھے دیئے گئے تا کہ ان کے ذریعے اللہ کی اطاعت پر مددحاصل کرے، مگر تو نے انہیں اپنابت بنالیا۔
اے جاہل اللہ کے لئے علم سیکھ اور اس پرعمل کر ، وہ تجھے ادب سکھادے گا، علم زندگی ہے اور جہل موت ہے، علم مشترک سیکھنے کے بعد صد یق جب فارغ ہوتا ہے تو اسے علم قلوب اور علم باطن جو کہ علم خاص ہے، اس میں داخل کر دیا جا تا ہے۔ جب اس علم خاص میں وہ دسترس حاصل کر لیتا ہے تو اللہ کے دین کا بادشاہ ہو جا تا ہے ۔ بادشاہ گر کی رضا سے حکم دیتا ہے،باز رکھتا ہے،عطا کرتا ہے، روکتا ہے، اللہ کی مشیت سے خلقت کا بادشاہ بن جاتا ہے، اس کے حکم سےحکم دیتاہے، جس چیز سے منع کیا ہے، اس کے کرنے سے منع کرتا ہے، اللہ کے امر کے ساتھ لیتا ہے اور اس کے امر کے ساتھ دیتا ہے، حکم کے مطابق وہ خلقت کے ہمراہ ہوتا ہے، اور علم کے مطابق خالق کے ہمراہ حکم در بارالہی کے دروازے کا پاسبان ہے، اور علم گھر میں داخل اور اس کا اندرون ہے،حکم عام ہے اور علم خاص ہے، عارف اللہ کے دروازے پر کھڑا ہے، اس کے سپردمعرفت کا علم اور ایسے امور سے خبر داری ہے کہ جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اسے عطا کر نے کا حکم ہوتا ہے، تو وہ عطا کرتا ہے ، اسے روک لینے کا حکم ہوتا ہے تو وہ روک لیتا ہے، کھانے کا امر ہوتا ہے تو کھالیتا ہے، بھوکا رہنے کا امر ہوتا ہے تو بھو کار ہتا ہے، کسی پر توجہ دینے کا حکم ملتا ہے، کسی سے اعراض کا ، کسی سے نذر لینے کا حکم ہوتا ہے، کسی پر خرچ کا ، – اس کی مددکر نے والا منصور ہوتا ہے۔
اسے حقیر سمجھنے والا رسوا ہوتا ہے، خلقت میں سے وہ کسی کے محتاج نہیں ، وہ مخلوق کی رسیاں بٹتے رہتے ہیں ، ان کی عمارتیں مضبوط کرتے ہیں ، ان پر شفقت و مہربانی کرتے ہیں ۔ وہ اللہ کی طرف سے دنیا وآخرت کے سردار ہیں، وہ جو کچھ تم سے لیتے ہیں تمہارے ہی لئے لیتے ہیں اپنے لئے نہیں ، خلقت کی خیر خواہی ان کا شیوہ ہے کیونکہ جو چیز اللہ کی طرف سے ہے وہ ہمیشہ قائم رہتی ہے، اور جو غیر اللہ کی طرف سے ہو وہ ہمیشہ نہیں رہتی،۔
علم اور باعمل علماء کی خدمت کر اور اس پر صبر کر، پہلے پہل جب تو علم کا خادم ہوگا، پھرعلم تیرا خادم ہوگا، اورتمہاری اس خدمت پر علم صبر کرے گا جیسے تو نے اس کی خدمت پر صبر کیا ، علم کی خدمت کرنے پر جب تو صبر کرے گا تو تجھے دل کی سمجھ اور نور باطن عطا کیا جائے گا۔
اے لوگو! تم اپنے سارے کام اللہ کے سپرد کر دو، وہ تم سے بہتر جاننے والا ہے، اس کی کشائش کے منتظر رہو، ایک گھڑی سے دوسری گھڑی تک کثیر کشائش ہے۔ اللہ کی خدمت کرو، اس کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرو اور خلقت کے سب دروازے بند کر دو، وہ تمہیں ایسے عجائبات دکھائے گا جوتمہارے خیال وشمار میں نہیں آ سکتے ۔ تجھ پر افسوس ! اللہ تعالی اگر تجھے مخلوق کے ہاتھوں سے نفع پہنچانا چاہے گا تو نفع پہنچا دے گا، اور اگر اس کے ہاتھوں سےنقصان پہنچانا چاہے گا تو نقصان ہوگا ، اس لئے کہ
وہی دلوں کو مسخر کرنے والا اور نرم یا سخت کر نے والا ہے، وہی زندہ کرنے والا اور وہی مارنے والا ہے، وہی عطا کرنے والا اور وہی روکنے والا ہے۔ وہی عزت دینے والا اور وہی ذلت دینے والا ہے۔ وہی بیمار بنانے والا اور وہی عافیت دینے والا ہے، وہی پیٹ بھرنے والا اور وہی بھوکا رکھنے والا ہے۔ وہی کپڑے پہنانے والا اور وہی ہر ہنہ رکھنے والا ہے، وہی احسان کرنے والا اور وہی وحشت میں ڈالنے والا ہے۔ وہی اول ہے وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے وہ باطن ہے،سب کچھ وہی ہے، دوسرا نہیں ۔ ان باتوں پر دل سے اعتقاد رکھ اور مخلوق کے ساتھ ظاہری زندگی اچھائی کے ساتھ بسرکر، کیونکہ پر ہیز گاروں اور صالحین کا شیوہ یہی ہے، سب احوال میں خوف خدا رکھتے ہیں ،خلقت کے ساتھ خاطر مدارات سے پیش آتے ہیں ۔ ان کی سمجھ کے مطابق اپنے دلوں کی بات کرتے ہیں ، ان کا خلق نیک ہے کتاب وسنت کے مطابق حکم دیتے ہیں اگر وہ مان لیں تو ان کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ اگر حکم نہ مانیں تو خلقت اور اولیاء اللہ میں دوستی اور محبت بالکل نہیں رہتی ۔ اللہ کے امرونہی کے معاملے میں خلقت کا لحاظ نہیں کرتے ۔ تو اپنے دل کو مسجد بنالے اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا” بے شک مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔
بندہ جب کسی درجے میں ترقی کرتا ہے تو – اسلام سے ایمان کی طرف ،ایمان سے یقین کی طرف،یقین سے معرفت کی طرف، معرفت سے علم کی طرف، علم سے محبت کی طرف ،محبت سے محبوبیت کی طرف – طالب سے مطلوب کی طرف ترقی کرتا ہے، تو اس وقت ، جب غافل ہوتا ہے تو غفلت پرنہیں چھوڑ دیا جا تا ،- جب بھولتا ہے تو اسے یاد دلا یا جا تا ہے۔اگر سوجائے تو بیدار کر دیا جاتا ہے۔ غافل ہوتا ہے تو ہشیار کر دیا جاتا ہے۔جب پیٹھ پھیرتا ہے تو متوجہ کر دیا جا تا ہے، جب خاموش ہو جائے تو بلوایا جا تا ہے۔
چنانچہ وہ ہمیشہ بیدار اور صاف رہتا ہے۔ کیونکہ اس کے دل کا آئینہ ایساصاف ہو گیا کہ اس کا اندرونی حصہ باہر سے دکھائی دیتا ہے، اور اسے یہ بیداری و ہوشیاری نبی اکرم علیہ الصلوۃ والسلام سے ورثہ میں ملی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا دل جاگتا اور آنکھیں سوتی تھیں۔ کوئی بھی شخص رسول اکرم ﷺ کی بیداری تک تو پہنچ ہی نہیں سکتا۔ نہ کوئی آپ کے خصائص میں جاگتا اور آنکھیں سوتی تھیں ۔ جیسے سامنے دیکھتے تھے ویسے ہی پیچھے سے دیکھتے تھے۔ ہر ایک کی بیداری اس کے حال کے شرکت کی قدرت رکھتا ہے، سوائے اس کے کہ آپ کی امت کے ابدال واولیاء آپ ﷺ کے پس خوردہ کھانے اور پینے کے دستر خوان پر آتے ہیں، اور انہیں آپ ﷺ کے مقامات عالیہ کے سمندروں میں سے ایک قطرہ اور آپ ﷺ کی کرامات کے پہاڑوں میں سے ایک ذرہ عطا کر دیا جا تا ہے، کیونکہ وہ – آپ ﷺ کے وارث ہیں ، – آپ ﷺ کے دین کو مضبوطی سے پکڑنے والے ہیں، آپ ﷺ کے دین کے مددگار ہیں،آپ ﷺ تک پہنچنے کا راستہ بتانے والے ہیں ، آپ ﷺ کے دین اور علم شرع کے پھیلانے والے ہیں، ان پر اور ان کے وارثوں پر قیامت تک اللہ کی رحمت اور سلام نازل ہوتا رہے۔آمین!
سب کو چھوڑ کر اسی ایک کے ہور ہو:
مومن نے دنیا پر نظر ڈالی ،اسے چاہا اور طلب کیا، اس سے اپنے دل کو بھر لیا، دنیانے اس کے دل کا مالک ہونا چاہا مگرمومن نے اسے طلاق دے دی ۔ اس کے بعد آخرت کو طلب کیاحتی کہ اسے بھی پالیا، اس سے اپنے دل کو بھر لیا، اسے گمان ہوا کہیں یہ ا سے پابند نہ کر لے اور ذات الہی سے نہ روک لے، اس نے اسے بھی طلاق دے دی ، اور دنیا کے پہلو میں بٹھا دیا، اور آخرت کا فرض ادا کر دیا ، اورخوداللہ کے دروازے پر جا کھڑا ہوا اور وہاں خیمہ لگالیا اور اس کی چوکھٹ کو تکیہ بنالیا۔ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی پیروی کر ، جنہوں نے پہلے تاروں سے منہ موڑا، پھر چاند اور پھر سورج سے توجہ ہٹائی ،پھر فرمایا: .
لَا أُحِبُّ ‌الْآفِلِينَ میں چھپ جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘ اور یہ کہ
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ میں اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں دین حق کا ماننے والا ہوں ، اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ۔ چوکھٹ الہی پر اس کا تکیہ مدتوں لگا رہا، اور اللہ نے ظاہری طور پر اس کی طلب کوسچ جان لیا تو اس پر اپنے قرب کا دروازہ کھول دیا، اور اس کے دل کو اپنے حضور میں داخل ہونے کی اجازت دے دی، دنیا و آخرت میں اس پر جو کچھ گزری ہے اس کا اور اپنا حال سنا دیتا ہے۔ حالانکہ اللہ بندے سے زیادہ جانتا ہے، جوگزری اسے سب کہہ دیتا ہے، اللہ اسے اپنا قرب اور انس عطا فر ما تا ہے اور اس سے بات کرنے کا شرف بخشتا ہے، اپنی رضا کی خلعت عنایت فرماتا ہے، اور اسے اپنے علم وحکمت سے مالا مال کر دیتا ہے۔ اس کے طلاق یافتہ دنیا وآخرت کو نئے سرے سے عقد کر دیتا ہے ۔ اس کے اور دنیا و آخرت کے درمیان عہد اور شرائط لکھ لی جاتی ہیں۔ جن میں اسے کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچانے کی شرط بھی ہے ۔اور ان دونوں کو اس کا خدمت گزار بنادیا تا کہ اس کے نصیب کا لکھا اسے ادا کرتی رہیں ۔ دونوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دی ، اس کے حق میں حکم بدل گیا، اس کے دل کا مقام اللہ کے قریب ہو جاتا ہے ، سب ماسوی اللہ اس سے الگ ہو گئے، وہ اللہ کا بندہ آزاد ہو گیا ماسوی اللہ سے آ زاد، زمین و آسمان میں کوئی چیز اس کی مالک نہیں، اور وہ سب چیزوں کا مالک ہو گیا ، بادشاہ ہو گیا ۔ اللہ کے سوا کوئی اس کا مالک نہ ر ہا ، قرب الہی کا دروازہ اس کے لئے کھلا ہے۔ اس کے لئے عام اجازت ہے ۔ کوئی دربان اور چوکیدارا سے نہیں روک سکتا۔ اے بیٹا! اللہ والوں کا خدمت گزار بن جا کیونکہ دنیا وآخرت دونوں ان کے خدمت گزار ہیں، وہ جب جو کچھ ان دونوں سے لینا چاہتے ہیں بحکم الہی سے حاصل کر لیتے ہیں، وہ تمہیں دنیا ظاہری طور پر عنایت کرتے ہیں اور آخرت باطنی طورپر
اللهم عرف بيننا وبينهم دنيا واخرة و الہی! ہمارے اور ان کے درمیان دنیاد آ خرت کی پہچان کرادے۔“
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 307،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 167دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
چھیالیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چھیالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السادس والاربعون فی اتباع الرسول علیہ السلام‘‘ ہے۔
منعقده 28 رجب 545 صبح اتوار بمقام خانقاہ شریف
دنیا کا بازار عنقریب بند ہو جائے گا:
دنیا ایک بازار ہے جو عنقریب بند ہو جائے گا، تم خلقت کے فضل پر نگاہ ڈالنے والے دروازے بند کر دو، اور اللہ کے فضل کے دروازے کھول دو، دل کی صفائی اور باطن کا قرب مل جائے تو اپنے خاص کاموں میں کمائی اور اسباب کے دروازے بند کر لو، جو کام عام طور سے تمہارے اہل وعیال اور متعلقین کے لئے ہیں، ان پر یہ دروازے بند نہ کرو ۔ تمہاری کمائی اور نفع اور تحصیل معاش اوروں کے لئے ہو، جبکہ خاص اپنے لئے اس کے فضل کے طبق سے طالب ہو، اور اپنے نفسوں کو دنیا کے ساتھ بٹھا دو اور اپنے قلبوں کو آخرت کے ساتھ ، اور اپنے باطن کو مولی تعالی کے ساتھ بٹھا دو۔۔ اور ۔ کہتے رہو
إنك تعلم مانريد جو ہم چاہتے تو جانتا ہے۔
اولیاءاللہ نبیوں کے نائب ہیں:
ابدال، اولیاء اللہ نبیوں کے نائب ہیں، وہ جو کچھ تمہیں حکم دیں اسے قبول کرو، کیونکہ وہ تمہیں اللہ کے حکم سے حکم کرتے ہیں اوران کے منع کرنے سے منع فرماتے ہیں ، انہیں بلوایا جائے تو بولتے ہیں، دئیے جائیں تو لیتے ہیں، اپنے نفسوں اور عادتوں سے کوئی حرکت نہیں کرتے ہیں ۔ اپنی خواہشوں کو اللہ کے دین میں شریک نہیں کرتے ہیں، اپنے اقول وافعال میں رسول اکرم ﷺ کی اتباع کرتے ہیں ۔انہوں نے یہ ارشاد باری سن لیا ہے وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
جو کچھ رسول دیں اسے لے لو، اور جس چیز سے روکیں ،رک جاؤ۔“ انہوں نے رسول اکرم ﷺ کی فرماں برداری کی یہاں تک کہ انہیں بھیجنے والے کے پاس پہنچا دیا ۔ وہ آنحضرت ﷺ کے قریب ہوئے ، آنحضرت ﷺ نے انہیں اللہ کے قریب کر دیا۔ انہیں دربار الہی سے۔ القاب اورخلعتیں دلوائیں اور خلقت پر حکومت عطا کر وادی ۔
محبت، موافقت سے ہے اور عداوت ،مخالفت سے:۔
اے منافقو! تمہارا گمان ہے کہ دین ایک قصہ کہانی ہے اور دین ایک مہمل اور بے کارامر ہے ،۔ تمہاری اورتمہارے شیطانوں اور تمہارے برے ہم نشینوں کی کوئی عزت نہیں ہے۔
اللهم تب على وعليهم وخلصهم من ذل النفاق و قيد الشرك الہی! میری اوران کی توبہ قبول فرما اور انہیں نفاق کی رسوائی اور شرک کی قید سے رہائی عطا فرما۔ تم اللہ کی عبادت کرو ،حلال کی کمائی سے اس کی عبادت پر مدد حاصل کرو۔ بے شک اللہ فرماں بردار ایمان والے ،حلال کی روزی کھانے والے بندے کو دوست رکھتا ہے -اللہ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو کھائے اور کام کرے ، اور جو کھائے اور کام نہ کر ے ۔ وہ اسے دوست رکھتا ہے جو کما کر کھائے ۔ اور اس سے دشمنی رکھتا ہے جو کہ نفاق سے کھائے اور خلقت پر توکل کرے۔
و ہ توحید والے کو دوست رکھتا ہے اور مشرک کو دشمن۔ و ہ تسلیم ورضا والے کو دوست رکھتا ہے اور جھگڑا کرنے والے سے ناخوش۔ دوستی کی شرط پر موافقت کرتا ہے اور دشمنی کی شرط پر مخالفت ۔ اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کر دو،اورد نیاوآخرت میں اس کی تدبیر کے ساتھ خوش رہو ایک بار میں کسی مصیبت میں گرفتار ہو گیا۔ میں نے اللہ سے اس کے رفع کرنے کی دعا مانگی لیکن اس نے اس کے علاوہ ایک اور مصیبت مجھ پر ڈال دی، اس پر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔اس اثناءکسی کی آواز سنائی دی: ”ہم نے تجھے شروع میں نہ کہہ دیا تھا کہ تیری حالت تسلیم ورضا ) کی ہونی چاہئے ۔ چنانچہ مارے ادب کے میں چپ ہو گیا۔ تجھ پر افسوس ہے تو اللہ کی محبت کا دعوی کرتا ہے مگر دوستی اس کے غیر سے رکھتا ہے ۔ اللہ تعالی سرا پا صفا ہے ، اس کا غیر مجسم کدورت! تیری غیر اللہ سے دوستی جب صفائی کو مکد رکر دے گی، تو تجھ پر کدورت ڈال دی جائے گی ، تیرے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت یعقوب علیہم السلام کے ساتھ ہوا تھا۔ جب وہ دونوں تھوڑی سی فطری پدری محبت کے ساتھ اپنے بیٹوں کی طرف مائل ہوئے تو دونوں کا ان بچوں ہی کے ساتھ امتحان لیا اور ہمارے نبی مکرم حضرت محمد ﷺ اپنے دونوں نواسوں حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہم کی طرف جب مائل ہوئے تو آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا: کیا آپ ان سے پیار کرتے ہیں؟‘‘ فرمایاں: ہاں ! – یہ سن کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: کی تدبیر کے ساتھ خوش رہو ۔ان میں سے ایک کو زہر پلایا جائے گا ، اور دوسرے کو شہید کیا جائے گا۔‘‘
اس وقت آپ ﷺ نے دونوں کی محبت دل سے نکال دی ، اور دل کو اپنے مولی سے لگالیا، دونوں کے ساتھ جو خوشی تھی غم سے بدل گئی، اللہ تعالی اپنے نبیوں ولیوں اور نیک بندوں کے دلوں پر بڑی عزت رکھنے والا ہے، انہیں غیرکی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا۔ اے نفاق سے دنیا کے طالب ! اپنا ہاتھ کھول ، اس میں کچھ بھی نہ پائے گا ، تجھ پر افسوس کہ تو نے محنت اور کمائی کو چھوڑ دیا ، اور دین کے بدلے لوگوں کے مال کھانے لگا۔ محنت مزدوری تمام نبیوں کا ذریعہ معاش تھا۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کا کوئی پیشہ نہ ہو، آخر کار انہوں نے اذن الہی سے خلقت سے کچھ لیا، اے دنیا کی شراب ، اور اس کی شہوتوں اور حرص میں بدمست ! عنقریب تجھے اپنی قبرمیں ہوش آ جائے گا ،اب بھی سمجھ جا۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 314،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 170دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
سینتالیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے سینتالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السابع والاربعون فی بغض الخلق عند الضرر‘‘ ہے۔
منعقده 21 شعبان 545 بروز جمعہ بمقام مدرسہ قادر یہ
منعقدہ یکم شعبان 545 صبح منگل بمقام مدرسہ قادریہ
علم سیکھ پھر اخلاص سے عمل کر :
علم سیکھ، پھرا خلاص سے عمل کر اپنے آپ سے اور خلقت سے خالی ہو جاؤ قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي ‌خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ و کہہ دو کہ اللہ ہی ہے، پھر انہیں ان کی بے ہودہ سوچ میں لگے رہنے دو۔
تم کہو جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
فَإِنَّهُمْ ‌عَدُوٌّ ‌لِي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ رب العالمین کے سوا یہ سب میرے دشمن ہیں ۔‘‘
جب تک نفع و نقصان میں تیری نظر خلقت پر پڑتی رہے تو انہیں چھوڑ دے اور انہیں دشمن سمجھ ۔ جب تیری توحید درست ہو اور شرک کی نجاست تیرے دل سے نکل جائے تو خلقت کی طرف لوٹ آ اوران سے میل جول کر اور اپنے علم سے انہیں نفع پہنچا، انہیں اپنے رب کا دروازہ بتا، خاص لوگوں کی موت صرف مخلوق سے موت ہے، اپنے ارادے اور اختیار سے موت ہے ۔جسکے لئے یہ موت صحیح ہو، اسے اپنے رب کے ساتھ حیات ابدی مل گئی ، اس کی موت ایک لمحہ کا سکتہ، ایک لمحے کی غشی اور ایک لمحے کے لئے غائب ہونا ہے، ذراسی دیر سونا ہے پھر ہمیشہ کی بیداری ہے، اگر تو اپنی موت چاہتا ہے تو معرفت وقرب الہی کی شراب پی کر آستانہ الہی پرسور ہو، تا کہ وہ تجھے اپنی رحمت اور احسان کے ہاتھ سے تھام لے ، وہ تجھے ہمیشہ کی زندگی عطافرمادے ۔ ایک کھانانفس کے لئے ہے، – ایک کھانا دل کے لئے ہے۔ – ایک کھانا باطن کے لئے ہے۔ اس لئے رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: إنی أبيـت عـنـد ربـي فیـطـعمني ويسقينى يعنى يطعم سرى معاني يطعم روحي الروحانية) يغذينى بغذاء یخصنی
”میں اپنے رب کے پاس رہتا ہوں ، وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے (یعنی میرے باطن کو معانی کی غذا اور میری روح کو روحانیت کی غذا کھلاتا ہے۔ مجھے غذا عطافرماتا ہے جو میرے ہی لئے خاص ہے۔“ رسول اکرم ﷺ پہلے قلب اور قالب کے ساتھ تشریف لے گئے ،ترقی ومعراج حاصل کی ۔ بعد میں قالب کو روک لیا، ایسی حالت میں آپ لوگوں میں بھی موجو در ہے، قلب و باطن سے عروج و معراج فرماتے رہتے تھے، یہی حال آپ ﷺ کے ان حقیقی وارثوں کا ہے جنہوں نے علم وعمل اور اخلاص کو جمع کیا اور خلقت کو تعلیم وتلقین دیتے رہے۔
علم کاعمل کے بغیر ، اورعمل کا اخلاص کے بغیر کچھ اعتبارنہیں:
اے لوگو! اولیاء اللہ کا پس خوردہ کھاؤ ، ان کے برتنوں میں جو باقی ہے، پیو، اے علم کے دعوے دار و،علم کاعمل کے بغیر اور عمل کا اخلاص کے بغیر کچھ اعتبار نہیں، عمل کے بغیر علم اور اخلاص کے بغیر عمل ، روح کے بغیر بدن کی طرح ہے ۔ تیرے اخلاص کی یہ علامت ہے کہ تو خلقت کی تعریف اور مذمت و برائی کی طرف توجہ نہ کرے، ان کے مال واسباب کو حرص ولالچ کی نظر سے نہ دیکھے، بلکہ ربوبیت کا حق ادا کرے، تیراعمل: نعمت کے لئے نہیں نعمت دینے والے کے لئے ہو۔ – ملک کے لئے نہیں، مالک کے لئے ہو، باطل کے لئے نہیں حق کے لئے ہو۔
خلقت کے پاس جو کچھ ہے یہ محض چھلکا ہے، اور خالق کے پاس ہو کچھ ہے وہ سراپا مغز ہے، جب اللہ کے بارے میں تیری سچائی ، اس کے لئے تیرا اخلاص اور اس کے سامنے تیری حضوری صحیح ہو جائے گی ،جب وہ تجھے اس مغز کے روغن سے کھانا کھلائے گا اور وہ تجھے مغز در مغز ، باطن در باطن اور حقیقت در حقیقت سے مطلع کرے گا ، اس وقت تو ہراک شےسے برہنہ ہو جائے گا۔یہ برہنگی دل کے لئے ہے، بدن کے لئے نہیں، یہ قلب کے لئے ہے، قالب کے لئے نہیں، اعراض باطن کا ہوتا ہے ظاہر کا نہیں، باطنوں پر نظر ہے، ہدنوں پرنہیں ، دیکھنا ذات الہی کا ہے،خلقت کا نہیں ،
دارو مدار اس پر ہے کہ تو خلقت کے ساتھ نہیں خالق کے ساتھ ہو تمہاری نظر میں دنیا اور آخرت کی نفی ہو جائے ، نہ دنیار ہے نہ آ خرت ، سوائے اللہ کی ذات کے ۔ اللہ کی مخلوق میں سے اس کے مخصوص محب ہیں جوکلمہ حق کی بلندی کے لئے کافروں کی تلواروں سے شہید ہوتے ہیں، بدنی تکلیفیں اٹھا کر کتنی خوشی محسوس کرتے ہیں ،لذتیں پاتے ہیں، اور جومحبت کی تلوار سے شہید ہوتے ہیں ان کا حال کیا ہوگا۔ گناہوں کی وجہ سے بدنوں اور جسموں پر بر بادی مسلط کر دی جاتی ہے، کیا تو نے ویران گھروں کو نہیں دیکھا جنہیں ان کے رہنے والوں کے گناہ خراب و برباد کر گئے ، کیونکہ گناہ شہروں کو ویران اور بندوں کو ہلاک کر دیتے ہیں، ۔ تیرا بھی ایسا ہی حال ہے ، تیرابدن ایک شہر ہے، تیرے گناہ نا فرمانی کرنے سے اس میں خرابی آ جائے گی ،
جب تو گناہ کرے تو تیرا جسم خراب ہوگا ، پھر تیرے دین کا جسم بر باد ہوگا ،تو اندھا، بہرا اورا پاہچ ہوگا ،
تجھے محتاجی آئے گی ، جو تیرے مال کے گھر کو ویران و برباد کر دے گی وہ تجھے تیرے دوستوں اور دشمنوں کی طرف لے جائے گی اور در بدر پھرائے گی ۔
اے منافق : افسوس ہے تجھ پر اللہ کودھوکہ نہ دے ،اس کے ساتھ مکر وفریب نہ کر عمل کر کےیہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ کے لئے ہے جبکہ مخلوق کے لئے ہے، ۔ انہیں دکھانے کے لئے عمل کرتا ہے، ان سے نفاق کر کے خوشامد و چاپلوی کرتا ہے ۔ اور اپنے رب کو فراموش کر دیتا ہے۔ تو عنقریب دنیا سے مفلس ہو کر نکلے گا، اے باطن کے مریض سوچ اور غور کر ! اس مرض کا علاج معالجہ کر، اس کی دوا تجھے اللہ کے نیک بندوں سے ہی مل سکے گی ، ان سے دوا لے کر استعمال کر ، اس سے تجھے دائمی عافیت اور ہمیشہ کی تندرستی حاصل ہو گی ، تیری حقیقت اور قلب اور باطن کا علاج ہو جائے گا۔ اللہ کے ساتھ تیری خلوت ہو جائے گی ، تیرے دل کی دونوں آنکھیں کھل جائیں گی تو اپنے رب کو دیکھ سکے گا ۔ تو اللہ کے ان محبوب بندوں میں سے ہو جائے گا جو اس کے دروازے پر کھڑے ہیں ، اللہ کے سوا غیر کونہیں دیکھتے ہیں ۔ جس دل میں بدعت ہو وہ ذات الہی کا دیدار کیسے کر سکتا ہے۔
شریعت پر چلو ، نئی راہ نہ نکالو :
اے لوگو! شریعت پر چلو نئی راہ نہ نکالو ، موافقت کرو مخالفت نہ کرو فرماں برداری کرو ، نافرمانی نہ کرو ۔
مخلص رہو، مشرک نہ بنو، اللہ کی توحید قائم کرو، اس کا دروازہ نہ چھوڑو، اس سے مانگو، غیر سے سوال نہ کرو، اس سے مد دچا ہو، اس کے غیر سے مددنہ مانگو، اللہ پرتوکل کرو، غیر کا سہارا نہ ڈھونڈ و، تم اے خاص لوگو ! اپنے نفسوں کو اللہ کے سپرد کر دو تمہارے لئے اور تمہارے غیروں کے لئے اس کی جو تد بیر ہے، اس پر راضی ہو جاؤ۔ اس سے سوال کرنے کی بجائے اس کے ذکر میں مشغول ہوجاؤ ۔ کیا تم نے وہ ارشاد باری نہیں سنا
جو اس نے اپنی کسی کتاب میں فرمایا: مَنْ ‌شَغَلَهُ ‌ذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا ‌أُعْطِي ‌السَّائِلِينَ و جس شخص کو میرے ذکر نے سوال کرنے سے روک رکھا ، میں سوال کرنے والوں سے کہیں زیادہ اسے عنایت کروں گا ۔“
اے ذکر الہی میں مشغول ہونے والے، اور اپنے دل کو اس کے لئے منکسر بنا لینے والے کیا تو اس کی عطا سے راضی نہیں ہے کہ وہ تیرا جلیس وہم نشین ہو جائے ، ارشاد باری تعالی ہے: – أَنَا ‌جَلِيسُ ‌مَنْ ذَكَرَنِي’’جو مجھے یاد کرے میں اس کا ہم نشین ہوں ۔‘‘ ‌أَنَا ‌عِنْدَ ‌الْمُنْكَسِرَةِ ‌قُلُوبُهُمْ ‌مِنْ ‌أَجْلِي میں ان کے پاس ہوں جن کے دل میرے لئے شکستہ ہیں ۔
اللہ کے قریب ہونا ہے تو دل کو اس کے ذکر میں لگا: –
اسے بیٹا! اللہ کے قریب ہونا ہے تو دل کواس کے ذکر میں لگا ، تیرادل تجھے اللہ کے قرب کے گھر میں داخل کر دے گا اور اس کا مہمان بنا دے گا، مہمان کی آؤ بھگت کی جاتی ہے، خاص طور سے شاہی مہمان کی ، ملک وسلطنت کے دھندوں میں پڑ کر تو کب تک اس بادشاہ سے غافل رہے گا، جلد ہی اپنی سلطنت وحکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ،عنقریب آخرت میں حاضر ہوگا اور یہ سوچے گا کہ دنیا تو کبھی تھی ہی نہیں ، آخرت ہی سدا سے ہے۔
مجھے خالی ہاتھ دیکھ کر نہ بھاگ، میں تجھ سے اور تمام مشرق ومغرب والوں سے بے پرواہ ہوں، میں تجھ سے تیرے لئے ہی نفع چاہتا ہوں تمہاری رسیاں بٹتا رہتا ہوں، تو بدعت نہ کر اور اللہ کے دین میں کوئی ایسی بات نہ نکال جس کی کوئی اصل نہ ہو، دو عادل گواہوں کتاب اور سنت کی پیروی کرتا رہ ، یہ دونوں تجھے اللہ تک پہنچا دیں گے، اگر تو بدعتی ہو گیا تو تیری عقل اور خواہش تیری گواہی دیں گے اوتجھے ضرور دوزخ میں پہنچائیں گے ۔ اور تجھے ہامان اور فرعون اور ان کے لشکر سے ملا دیں گے، (نعوذ باللہ!)
تو تقدیر الہی کے ساتھ حجت کرتا ہے جو قبول نہ کی جائے گی ، علم وتدریس اور اخلاص کی درس گاہ میں داخل ہو جا، پہلےعلم سکھ، پھرعمل کر ، پھر مخلص بن جا، تجھ سے کچھ نہیں ہوتا ،جبکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے ۔ دنیا طلب کرنے کےبجائے علم وعمل کی طلب میں تمام تر کوشش ہونی چاہئے ، عنقریب تجھ سے کوشش بھی منقطع ہو جائے گی۔ایسے کام میں کوشش کر جس کا تجھے فائدہ ہو، اس اثناء میں ایک شخص وجد میں آ کر آپ کے سامنے کھڑا ہوا، اور عرض کرنے لگا: ’’اس دلہن کا پیش خیمہ کیا تھا جو اس کا ایسا نصیبہ ہو گیا۔‘‘ آپ نے ارشادفرمایا: ’’ شب وصال سے پہلے بادشاہ و ما لک کی ایک نگہ لطف !‘‘ ‘
دنیا سے آگے بڑھ کر رضائے الہی تک پہنچ جا
اےبیٹا! دنیا سے آگے بڑھ کر رضائے الہی تک پہنچ جا تا کہ وہ تجھ سے راضی ہو جائے ، کیونکہ وہ راضی ہو کرتجھے اپنامحبوب بنالے گا، تو اپنے قلب سے رزق کاغم نکال دے۔ رزق بغیر مشقت اور تکلیف اٹھانے کے اللہ کی طرف سے تیرے پاس آ جائے گا، دل سے ہر طرح کے غم نکال دے ، سب غموں کا ایک غم بنالے، وہ ہے اللہ کاغم! جب تو ایسا کرے گاوہ تیرے سب غموں کو کفایت کرے گا، تیراغم وہ ہے جو تجھے غم میں ڈالے، اگر تیراغم دنیا کے لئے ہے تو دنیا کا ساتھی ہے، – اگر تیراغم آخرت کے لئے ہے تو آخرت کا ساتھی ہے، ۔ اگر تیراغم مخلوق کے لئے ہے تو انہی کے ساتھ ہے، – اگر تیراغم حق تعالی کے لئے ہے تو دنیاوآخرت میں اس کے ساتھ ہے۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 317،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 171دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
اڑتالیسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اڑتالیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثامن والاربعون فی العمل الصالح‘‘ ہے۔
منعقده 8 شعبان 45 5 بروز منگل بوقت عشاء بمقام مدرسہ قادریہ
اللہ کے غضب سے بچو، یہ خسارے کا سودا ہے
رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: ۔
من تزين للناس بما يحبون وبارز الله بما يكره لقي الله عزوجل وهو عليه غضبان – “جس شخص نے اپنا بناؤ سنگھار ایسی چیز سے کیا جسے لوگ پسند کرتے ہیں ، اور اللہ سے ایسی چیز سے مقابلہ کیا جسے دو نا پسند کرتا ہے، اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہوگا۔“
اے منافقو ! کلام نبوت سن لو، دنیا کے بدلے میں آخرت کا سودا کرنے والو ، مخلوق کے بدلے خالق کو بیچنے والو، اور باقی کے بدلے فانی کومول لینے والو! تمہاری یہ تجارت بڑے خسارے کی ہے، تمہارا اصل مال بھی جاتارہا۔ تم پر افسوس ! تم اللہ کے غصے اور غضب کا نشانہ بنے ہوئے ہو، کیونکہ جو ایسی چیز سے اپنی زینت بتا تا ہے ،اللہ تعالی اس پر غصہ فرماتا ہے، تو مکاری چھوڑ دے، اپنے ظاہر کو شرعی آداب سے مزین کر ، اور خلقت کو باطن سے نکال کر باطن کو سنوار ، خلقت کے دروازے بند کر دے اور اسے اپنے دل سے فنا کر ڈال، یوں سمجھ کہ خلقت پیدا ہی نہیں ہوئی ۔ ان کے ہاتھوں سے نفع اور نقصان نہ دیکھ، تو نے قلب کی زینت چھوڑ دی اور قالب کی زینت میں لگ گیا۔ دل کی زینت توحید اور اخلاص اور اللہ پر بھروسہ کرنے اور اس کے ذکر کرنے اور اس کے غیر کو بھلا دینے میں ہے، حضرت عیسی علیہ السلام نے ارشاد فرمایاالعمل الصالح هو الذي لا تحب أن تحمد عليه – نیک عمل وہی ہے جس پر تعریف کی امید نہ کی جائے کہ لوگ تیری تعریف کریں۔ اے آخرت کے لحاظ سے بیوقوفو، دیوانو! – اور دنیا کے لحاظ سے عاقلو! یہ عتقل ایسی ہے جو تمہیں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ تو ایمان کو حاصل کرنے میں کوشش کر تجھے ایمان حاصل ہو جائے گا توبہ کر اور عذر کر اور شرمسار ہو، اپنی آنکھوں سے رخساروں پر آنسو بہا اللہ کے خوف سے رونا گناہوں اور غضب الہی کی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ جب دل سے توبہ کرو تو سچی توبہ کا نور چہرے پر چمکنے لگے گا، تیرا چہرہ روشن ہو جائے گا۔
جب تک قدرت ہے راز چھپانے کی کوشش کرتارہ:
ارشادفرمایا۔
اے بیٹا! اپنے راز کی حفاظت کر ، جب تک تجھے قدرت ہے تو حفاظت کی کوشش کرتا رہ، جب تو مغلوب ہو جائے اور راز ظاہر ہوہی جائے ، تب تو معذور ہے۔ کیونکہ محبت پر دے اور ستر کی دیواروں کو گرادیتی ہے، اور حیا اور وجود اور خلقت کی نظر کرنے کی دیواروں کو خراب اور ویران کر دیا کرتی ہے۔
خود ساختہ وجدوالے کو باہر نکال دینے کا حکم ہے، اور جو بے اختیار وجد میں آ جائے ، اس کے قدموں کی خاک کا سرمہ بنایا جاتا ہے کیونکہ بناوٹ نفسانی امر ہے اور غلبہ بے اختیاری امر ہے، وہ مخلوق کے دکھانے کا ہے اور وہ رب والا ہے ۔ کوشش کر تو نہ ہووہی ہو، کوشش کر کے نقصان کے ازالے اور نفع کے حصول کے لئے تو کوئی حرکت نہ کرے، جب تو ایسا کرے گا تو اللہ تعالی تیرے لئے ایک خادم مقرر کر دے گا ، اور تیری حفاظت کرتا رہے گا، اور تجھ سے ہر طرح کی تکلیف دور کرتا رہے گا، تو اللہ کے ساتھ ایسا ہو جا جیسے نہلانے والے کے ہاتھ میں مردہ ہے، جیسے چاہتا ہے پلٹ دیتا ہے۔ جیسے کہ اصحاب کہف حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ تھے تو اللہ کے ساتھ بلا وجود اور بے اختیار اور بنا تدبیر کے ٹھہرارہ، اس کے سامنے اس کی قضاؤں اور قدروں کے مصائب در پیش آتے وقت اس کی تقدیر پر ایمان کے ساتھ ثابت قدم رہ۔ ایمان، تقدیر کے ساتھ قائم رہتا ہے، جبکہ نفاق تقدیر سے بھاگتا ہے،منافق پر جب چند دن اور راتیں گزرتی ہیں اس کا بدن دبلا ہو جاتا ہے۔ حرص اور عادت اورنفس موٹا ہو جا تا ہے۔
اس کے باطن اور دل کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں ، اس کے گھر کا دروازه آباداور اس کا اندرونی حصہ ویران، اللہ کا ذکر زباں سے کرتا ہے دل سے نہیں ، اس کا غصہ نفس کے لئے ہے اللہ کے لئے نہیں،جبکہ مومن کا معاملہ اس کے برعکس ہے:
اللہ کا ذکر زبان و دل دونوں سے کرتا ہے ، اس کی زبان اکثر ساکت اور دل ذاکر ہوتا ہے۔ اس کا غصہ اللہ ورسول کے لئے ہے، اپنے نفس اور حرص اور عادت اور دنیا کے لئے نہیں۔نہ کسی پرحسد کرتا ہے نہ کوئی اس پر حسد کرتا ہے۔ نہ خوشحالوں سے ان کی خوشحالی پر جھگڑا کرتا ہے ۔
کسی خوشحال سے جھگڑا کرنا خجالت اور رسوائی کا باعث ہو سکتا ہے
اے بیٹا! تو خودکو اس بات سے بچا اور پھر بچا کر تو کسی خوشحال سے جھگڑا کرے ۔ کیونکہ وہ تو سلامت رہے گا اور بلند مرتبہ ہو جائے گا ،تو مارے حسد کے خجل اور ذلیل ہوتا ہے۔ دشمنی و جھگڑے سے ہلاک ہو جائے گا ، ۔ جھگڑا کر کے تو اس کے نصیب کو کیسے بدل سکتا ہے۔ حالانکہ جونعمتیں اسے میسر ہیں ، اللہ کے علم میں سابق ہو چکی ہیں ۔ جب تو اللہ کے ساتھ اس کے سابق علم میں اپنے اور غیر کے بارے میں جھگڑا کرے گا تو اللہ کی نظر سے گر جائے گا ، تیراعمل تجھے کچھ فائدہ نہ دے گا ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ “عمل کر نے والامحض مشقت اٹھانے والا ہے ۔‘‘ تو ان کی بارگاہ میں تو بہ کر لے معصوم بندہ عقل اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے گناہوں سے بچارہتا ہے، تجھ پر اللہ کی طرف سے جو مصیبت آئی ہے، اس کی وجہ سے وہ اللہ کی طرف آنے کے ارادے سے باز نہیں رہتا، تو اس مصیبت کا اپنے سے دور ہونے کا انتظار کر اور اللہ سے نا امید نہ ہو۔ کیونکہ ایک گھڑی سے دوسری گھڑی تک کشائش ہے۔
كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ – وہ ہر ایک دن نئی شان میں ہے ۔“ وہ ایک قوم کی حالت دوسری قوم کی طرف پلٹا دیتا ہے۔اس کے ساتھ صبر کر اور اس کی تقدیر پر راضی رہ۔ کیونکہ لَا تَدْرِي ‌لَعَلَّ ‌اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
تو نہیں جانتا کہ شائد اللہ تعالی اس کے بعد کوئی اور راہ نکال دے، جب تو بلا پر صبر کرے گا تو تیری بلا ہلکی کردی جائے گی اور تیرے لئے کوئی ایسی راہ نکال دے گا جسے وہ بھی پسند کرے گا اورتو بھی راضی ہوگا، اور جب تو جزع فزع کرے گا اور تقدیر پر اعتراض کرے گا تو وہ تجھ پر بلا اور بھی بھاری کر دے گا ، اور تیرے اعتراض کی وجہ سے اس کا غصہ اور عذاب بھی بڑھ جائے گا۔ اے لوگو! تم پر بلا اس لئے نازل ہوتی ہے کہ اللہ پر اعتراض کرتے ہو اور اس سے جھگڑا کرتے ہو، اپنے نفسوں اور خواہشوں اور اپنی غرضوں کے ساتھ قائم ہو، دنیا کی محبت میں اس کے جمع کرنے کی حرص میں جمے ہوئے ہو۔
اگر دنیا کے بغیر چارہ نہ ہوتو …
اے مسلمانو!اگر دنیا کے بغیر چارہ نہ ہو تو تمہارے نفس کودنیا کے دروازے پر رہنا چاہیئے، اور تمہارے دل کو آخرت کے دروازے پر، اور تمہارے باطن کو اللہ کے دروازے پر رہنا چاہئے ، یہاں تک کہ
نفس دل بن جائے اور جومزادل نے لیا ہے نفس بھی حاصل کرے۔اور دل کا باطن بن جائے ، اور جو مزا باطن نے لیا ہے ، دل بھی حاصل کرے۔اور باطن ذات الہی میں فنا ہو جائے ، نہ مزالے اور نہ مزاد یا جائے ۔ ایسے میں وہ کیمیا بن جائے گا، اور ایک درہم جب ہزار مثقال تانبے میں ڈالا جائے گا تو وہ تانبے کو سونا بنادے گا۔( انسان کمال کی ) یہ غایت کلی ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔
خوش خبری ہے اس کے لئے جس نے میرے قول کو سمجھا اور اس پر ایمان لایا –
خوش خبری ہے اس کے لئے جو اس پر اخلاص سے عمل کرے ۔ خوش خبری ہے کہ جس نے عمل کو اپنے ہاتھ میں لیا اور جس کے لئے عمل کیا ہے اس کے قریب کر دے۔
مر کے تو مجھے دیکھے گا ، میں تجھ سے تکلیف دور کروں گا:
اے بیٹا! جب تو مر جائے گا تو مجھے دیکھے گا اور پہچانے گا ،اپنے دائیں بائیں دیکھے گا کہ میں نے تیرا بوجھ اٹھایا ہوا ہے، اور تجھ سے تکلیف کو دور کر رہا ہوں اور تیرے حق میں سوال کرتا ہوں ، تو کب تک خلقت کو اللہ کا شریک ٹھہراتا رہے گا اور اس پر بھروسہ کرتارہے گا، تجھ پر واجب ہے کہ تو جان لے کہ ان میں سے کوئی نفع دے سکتا ہے نہ نقصان ۔ نہ کوئی فقیر، نہ کوئی غنی، نہ کوئی معزز، نہ کوئی ذلیل، تو اللہ ہی کو لازم پکڑ ، نہ خلقت پر بھروسہ کر ، نہ اپنی کمائی اور قوت اور طاقت پر بھروسہ کرے ۔ اللہ کے فضل پر بھروسہ کر ، اس پر توکل کر جس نےتجھے کسب پر قدرت عنایت کی ہے، اور خاص اس نے تجھے رزق دیا ہے، جب تو ایسا کرے گا تو وہ تجھے اپنے ساتھ سیر کرائے گا، تجھے اپنے عجائبات قدرت وعجائبات علم از لی دکھائے گا، تیرے قلب کو اپنی طرف ملا لے گا اس ملاقات کے بعد وہ تجھے گزرے زمانے کی یا دلائے گا ، جس طرح کہ وہ جنت میں اہل جنت کو دنیا یاد دلائے گا۔ جب تو سبب کے حال کو توڑ دے گا تو سبب پیدا کرنے والے کی طرف پہنچ جائے گا، جب تو اپنی عادت کے خلاف کرے گا تو تجھ سے خلاف عادت ظاہر ہوگا ۔
جو خدمت کرتا ہے وہ مخدوم بنالیا جا تا ہے، جوا کرام کرتا ہے، اس کا اکرام کیا جاتا ہے، جو قریب ہوتا ہے اسے قرب دیا جاتا ہےجو فرمانبرداری کرتا ہے وہ مطاع بنا دیا جاتا ہے جو تواضع کرتا بلند کیا جاتا ہے- جواحسان کرتا ہے، اس پر احسان کیا جا تا ہے، جوحسن ادب اختیار کرتا ہے ، اس کوقرب نصیب ہوتا ہے، حسن ادب تجھے قریب کر دے گا جبکہ بے ادبی و گستاخی دور کر دے گی ۔ حسن ادب اللہ کی اطاعت ہے، اور گستاخی ،اللہ کی بے ادبی ونافرمانی ہے ۔
اپنے نفس کے محاسبہ میں تاخیر نہ کرو:۔
اے لوگو! اللہ کے سامنے اپنے نفسوں کو پیش کرو اور ان کے محاسبہ میں تاخیر نہ کرو، اس میں اپنے نفسوں کے لئےآخرت سے پہلے دنیا ہی میں جلدی کرو ، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: ۔ إن الله عز وجل يستحي أن يحاسب المتورعين من عباده في الدنيا ’’جن نیک بندوں نے دنیا میں پر ہیز گاری اختیار کی، ان کا حساب کرتے ہوئے شرم فرمائے گا ۔‘‘۔یعنی حساب نہ لے گا تو پرہیزگاری اختیار کر ورنہ کل تیری گردن میں رسوائی کی رسی ہوگی تو دنیا میں اپنے تصرفات میں پر ہیز گاری کر ، در نہ دنیا وآخرت میں تیری خواہشیں حسرتوں سے بدل جائیں گی ۔د نیا آگ کا گھر اور درہم غم فکر کا گھر ہے، جبکہ تو نے انہیں حرام طریقہ سے حاصل کیا ہو، اور حرام طریقہ سے خرچ کیا ہو ۔ جو کچھ میں تجھے کہہ رہاہوں، قیامت کے دن تجھ پر ظاہر ہو جائے گا۔ آج تو اندھا اور بہرہ ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: حُبُّكَ الشَّيْءَ ‌يُعْمِي ‌وَيُصِمُّ کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے ۔“
تو اپنے دل کو دنیا کی محبت سے خالی کر کے برہنہ ہو جا، اسے بھوکا پیاسا رکھ، تا کہ اللہ تعالی اسے پہنائے، کھلائے اور پلائے اپنا ظاہر و باطن اللہ کے سپرد کر دے،تد بیر کو چھوڑ دے۔ وہی ہو تو نہ ر ہے ، ہمیشہ خدمت گزاررہ ، کیونکہ دنیاعمل کا گھر ہے اور آخرت اجرت وعطا اور بخشش کا گھر ہے، ۔ اکثر صالحین کا یہی طرز عمل ہے، یہاں عمل کر وہاں بدلہ پائیں ، انہیں صالحین میں سے کچھ وہ بھی ہیں جنھیں دنیا میں کام کرنے سے وہ نکال دیتا ہے، ان پر رحم اور احسان فرماتا ہے اور آخرت سے پہلے ہی دنیا میں بھی انہیں راحت بخشتا ہے۔ ان کے فرائض ادا کر لینے کو کافی سمجھتا ہے اور انہیں نوافل سے راحت دیتا ہے، کیونکہ فرائض تو کسی بھی حال میں کسی بھی مقام پر ساقط نہیں ہوتے ۔ ایسا رتبہ ہزاروں بندگان خدا میں سے کسی ایک کا ہی ہوتا ہے اور وہ بہت ہی کامیاب ہیں۔
دنیا سے منہ پھیر لے، دنیا میں ہی راحت پائے گا:
اے بیٹا! زہد کر اور دنیا سے منہ پھیر لے، دنیا میں ہی راحت پائے گا ، اور دنیا سے جو کچھ تیرے نصیب میں ہوگا وہ تجھے تک ضرور پہنچ کر رہے گا، تیرا نصیب تیرے پاس پہنچے بغیر نہ رہے گا ، حالانکہ تو معزز ومکرم سوال کیا گیا ہوگا ۔ ایسے میں خود نصیب تجھ سے قبول کے لئے عرض کرے گا، تو اپنے نفس اور خواہش نفس کے ساتھ نہ کھا، کیونکہ یہ ایک حجاب ہے جو تیرے دل کو اللہ سے روکتا ہے مؤمن اپنے نفس کو اپنے نفس کے لئے نہ کھلاتا اور نہ پہنا تا ہے اور نہ کوئی فائدہ پہنچا تا ہے بلکہ کھاتا ہے کہ اللہ کی اطاعت پرقوت حاصل ہو ، اس لئے کھا تا ہے کہ اس کے ظاہری قدم اللہ کے سامنے جھکے ر ہیں ،اسے خواہش نفسانی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا ۔ ولی اللہ اللہ کے حکم سے کھا تا ہے ، اور ابدال جو قطب کا وزیر ہوتا ہے، اللہ کے فعل سے کھاتا ہے، اور قطب کا کھانا اور تمام تصر فات رسول اکرم ﷺ کے کھانے اور تصرفات کی مانند ہوتے ہیں، ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ قطب تو رسول اللہ ﷺ کا غلام اور نائب اور آپ کی امت میں خلیفہ ہے ۔ وہ تو رسول اکرم ﷺ کا خلیفہ ہے،قلب باطنی خلیفہ ہے، اور مسلمانوں کا امام جوان کا بادشاہ ہے وہ ظاہری خلیفہ ہے۔ اور اس کی خصوصیت یہ ہے جس کی اطاعت ومتابعت ترک کرنا حلال نہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کا بادشاہ عادل ہوتو وہ قطب زمانہ ہوتا ہے، یہ مت سوچ لینا کہ ولایت یا قطبیت کوئی آسان کام ہے ۔ تم پر فرشتے مقرر ہیں جو تمہارے ظاہری افعال کا شکار اور نگہداشت کرتے ہیں۔ جبکہ باطنی افعال کی نگہداشت اللہ تعالی خود فرماتا ہے، تم میں سے ہر ایک قیامت کے دن حاضر کیا جائے گا ہر ایک کے ساتھ وہ فرشتے ہوں گے جو دنیا میں اس کی نیکیاں اور بدیاں لکھ رہے تھے۔ ان کے پاس ننانوے رجسٹر ہوں گے، ہر ایک رجسٹر حد نظر تک دراز ہوگا۔ اس میں نیکی اور بدی اور جو کچھ اس سے دنیا میں صادر ہوا، سب کچھ لکھا ہوگا، ہر ایک کو ان سب کو پڑھنے کے لئے کہا جائے گا ،خواہ اس نے دنیا میں اچھی طرح لکھنا پڑھنانہ سیکھا ہوگا اور وہ اسے پڑھے گا ۔ چونکہ دنیا حکمت کا گھر ہے اور آخرت، قدرت کا گھر ہے۔ دنیا اسباب وذرائع کی محتاج ہے، آخرت کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر کوئی دفتر کے لکھے سے انکاری ہوگا تو اس کے اعضاء بول کر اس لکھنے کی تصدیق کریں گے، ہر ایک عضو نے جو کچھ دنیا میں کیا، اس پر الگ الگ بات کرے گا، تم ایک بڑے امر کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور تمہیں اس کی خبر ہیں، ارشاد باری تعالی ہے :
‌أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ “تمہارایہ خیال ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 323،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 174دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
انچاسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے انچاسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس التاسع والاربعون فی فی اعطاء السائل والکرم‘‘ ہے۔
منعقده 21 شعبان 545 بروز جمعہ بمقام مدرسہ قادر یہ
خلقت کے مقابل اللہ کی موافقت کرو
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک سائل آیا۔ اس نے کھانے کی چیز کا سوال کیا۔ آپ کے ہاں دس انڈوں کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی ۔ آپ نے خادمہ سے فرمایا کہ سب انڈے سائل کو دے دے، اس نے اسے نوانڈے دے دیئے اور ایک چھپالیا۔ غروب آفتاب کا وقت ہوا تو کسی نے آپ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا ‘یہ ٹوکری لے جاؤ ،۔ آپ خوددروازے پر گئے اس سے ٹوکری لے کر دیکھا اس میں انڈے تھے، گنے تو وہ انڈے نوے نکلے، آپ نے خادمہ سے پوچھا: ’’ تو نے سائل کو کتنے انڈے دیئے تھے؟‘‘
اس نے بتایا کہ میں نے سائل کو نو انڈے دیئے تھے ، ایک آپ کے روزہ افطار کرنے کے لئے رکھ لیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
“تو نے ہمیں دس انڈوں کا نقصان دیا۔“ اولیاءاللہ کا اپنے رب کے ساتھ ایساہی معاملہ ہوتا ہے ۔ جو کچھ بھی قرآن وحدیث میں آیا ہے اس پر ایمان رکھتے تھے اور اس کی تصدیق کرتے تھے ۔ وہ قرآن کے بندے تھے، اپنی حرکات و سکنات اور اپنے لین دین میں شریعت کی ذرہ برابر بھی مخالفت نہیں کرتے تھے، ان کا معاملہ اپنے رب کے ساتھ تھا ، اور اپنے معاملہ میں نفع حاصل کیا، اور اس پر ٹھہر گئے ، اپنے رب کا دروازہ کھلا دیکھ کر اس میں داخل ہو گئے جبکہ غیر کا دروازہ بند دیکھ کر اسے چھوڑ دیا ۔ غیر اللہ کے مقابلہ میں اللہ کی موافقت کی ، اللہ کے مقابلہ میں غیر اللہ کی موافقت نہ کی ، جس سے اللہ نے نفرت کی ، انہوں نے اس سے نفرت کی ، اور جس سے اللہ نے محبت کی ، انہوں نے اس سے محبت کی اس لئے بعض اولیاء اللہ نے فرمایا کہ خلقت میں اللہ کی موافقت کرو اللہ کوخلقت کے موافق نہ بناؤ جسے تو ڑا ہے۔ ٹو ٹا رہنے دے، جسے جوڑا ہے جڑا رہنے دے۔ اولیاء اللہ ہمیشہ اللہ تعالی کے طرفدار ر ہے ہیں۔اپنے اور غیر کے مقابلے میں اس کی مد دکرتے رہیں، اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ہیں ، شریعت اور اللہ کی حدیں قائم کرنے میں کسی سے خوف نہیں کھاتے ہیں۔
اگر مصیبتیں اور آفتیں نہ ہوتیں تو سبھی عابد وزاہدہ بن جاتے :
اے بیٹا! جو ہوس تیرے اندر ہے اور جو ہوں تیرے اوپر مسلط ہے اسے چھوڑ دے اور اولیاء اللہ کی ان کے افعال واقوال میں ان کی تابع داری کر ، جن مقامات پر وہ پہنچے ہوئے ہیں، جھوٹے دعوے کر کے وہاں پہنچنے کی تمنا نہ کر, جیسے انہوں نے بلا پر صبر کیا ہے تو بھی صبر کر ۔ اگر مصیبتیں اور آفتیں نہ ہوتیں تو سبھی لوگ عابد وزاہد بن جاتے لیکن ان پر جب مصیبت آتی ہے تو اس پر صبر نہیں کرتے ، بلائیں دروازہ الہی اور ان کے درمیان حجاب ہو جاتی ہیں اور وہ محروم رہتے ہیں، جو بندہ اللہ کے لئے صبر نہ کرے اس کے لئے عطا نہیں ہے، جب رضا وصبر نہ ہوں گے تو یہ اس کی عبودیت سے تیرے نکل جانے کا سبب بن جائے گا۔ اللہ تعالی نے اپنی کسی کتاب میں ارشادفرمایا:
مَنْ لَمْ يَرْضَ بِقَضَائِي ولم يصبر على بلائي فليلتمس ربا سوائي۔ جو میری قضا پر راضی نہیں اور میری بلا پرصبر نہ کرے، اسے چاہئے کہ میرے سوا کوئی اور معبود بنالے ۔‘‘ غیر کو چھوڑ کر اس کے ساتھ قناعت وصبر کر تمہارے نصیب میں جو کچھ ہے نفع یا نقصان ہو ، وہ ہوکر رہے گا۔ اسلام میں پختہ عقیدہ اختیار کرو تا کہ تم ایمان تک پہنچ جاؤ، پھر ایمان کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ وتا کہ یقین تک پہنچو، اب تم وہ چیز یں دیکھ سکو گے جو اس سے پہلے نہ دیکھی تھیں ان سب چیزوں کی جیسی صورتیں ہیں یقیں تمہیں ویسی ہی دکھائے گا۔خبر مشاہدہ ہو جائے گی ،اور قلب کو اللہ کے حضور میں لے جا کر کھڑا کر دے گا ۔ دل جب اللہ کے دروازے پرٹھہرے گا تو اس کی طرف کرامت والا ہاتھ بڑھ کر کرم فرمائے گا۔ جواسے کریم وصاحب ایثار بنا دیا جائے گا۔ مخلوق پر سخاوت کرے گا ، ان پر کسی چیز کے بخل کو روانہ رکھے گا، وہ صحیح قلب جواللہ کے قابل ہو جاتا ہے، کرم والا ہو جا تا ہے، اسی طرح جو باطن کدورت سے صفا ہو جائے ، کرم والا ہو جاتا ہے ۔ دونوں قلب و باطن ایسے صاحب کرم وکریم کیوں نہ ہوں، اس لئے کہ ان پر سب کریموں سے کریم نے کرم کیا ہے۔
جو نعمت گناہ میں صرف ہو وہ زوال کا باعث ہے:
اے لوگو! تم کرم وایثار سخاوت و عطا میں اللہ کی اطاعت کرو، معصیت میں نہیں ۔ جو نعمت گناہ میں صرف ہو وہ زوال کا باعث ہے۔ تم اللہ کی فرماں برداری کرتے رہو، اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے تو حلال کمائی میں لگے رہو، تمہارے سب غم فکر اس کے سبب جمع ہو جائیں ، نہ کہ اس کے غیر کی معیت میں ، اب تمہارا رزق اللہ کے فضل وکرم کے طباق سے ہوگا ، ایسی جگہ سے کہ تمہیں اس کا علم ہوگا اور نہ کبھی خیال گزرا ہوگا ، خلقت کے لئے اللہ سے صرف نفس کا حجاب ہے، جب نفس درمیان سے ہٹ گیا تو حجاب بھی نہ رہا۔
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں میں اپنے رب کو دیکھا۔ میں نے عرض کیا کہ الہی! تیرے حضور میں پہنچنے کا راستہ کیسے لئے فرمایا:دع نفسك وتعال نفس کو چھوڑ کر چلے آ ؤ تو میں نفس سے اس طرح نکلا جیسے سانپ اپنی کینچلی سے نکلتا ہے۔ کیونکہ اللہ کی نظر نفس پر ہے غیر پرنہیں، اس لئے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کونفس کے ترک کرنے کا امرفر مایا ،دنیا اور ما سواللہ سب کچھ نفس کے تابع ہے۔ دنیا نفس کے لئے ہے اوراس کی محبوبہ ہے، اور آخرت بھی اسی کی ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے: ‘
وفيها ما تشتهيه الأنفس وتلذ الأعين . جنت میں ہر وہ شے موجود ہوگی جس کی نفس خواہش کرتے ہیں ، اور آنکھیں لذت پاتی ہیں ۔‘‘
حجاب در حجاب کا معاملہ ہے تیرے ساتھ:
کچھ توقف کرنے کے بعد آپ نے کلام فرمایا : اولیاء اللہ دن بھر مخلوق اور عیال کی مصلحتوں میں ہیں ، اور رات کو اپنے رب کی خدمت اور اس کے ساتھ خلوت میں ۔ اس طرح سے بادشاہ دن بھر غلاموں اور خداموں کے ساتھ لوگوں کی حاجت روائی میں رہتے ہیں ، جب رات آتی ہے تو اپنے وزیروں اور خاص لوگوں کی محفل لگاتے ہیں ۔ اللہ ہم پر رحم کرے، جو کچھ میں کہتا ہوں اسے دل کے کانوں سے سنو، اسے یاد کر کے اس پر عمل کرو، میں جو کچھ بھی کہتا ہوں حق ہی کہتا ہوں اور حق کی طرف سے کہتا ہوں، مجھے اللہ کے راستے کی کیفیت معلوم ہے تا کہ تم اس پر چل سکو ، میں صرف اس بات پر اکتفا کر نے والا نہیں کہ میری بات سن کر احسنت ( تم نے اچھا بیان کیا )کہہ دو، بلکہ اپنے دلوں کی زبان اپنے عملوں میں اخلاص پیدا کرو، یہاں تک کہ جب میں تمہاری یہ حالت دیکھوں تو کہوں: احسنتم (تم نے اچھا کیا) –
تو کب تک نفس اور دنیا اور آخرت اور مخلوق اور ماسوی اللہ سب کے ساتھ رہے گا۔ مخلوق تیرے نفس کا حجاب ہے، نفس تیرے دل کا حجاب ہے، دل تیرے باطن کا حجاب ہے، جب تک مخلوق کے ساتھ ہے اپنے نفس کو نہ دیکھ سکے گا، اگرمخلوق کو چھوڑ دے تو اپنے نفس کو دیکھنے لگے گا۔ وہ تجھے تیرے رب کا اور تیرا دشمن لگے گا اور تو ہمیشہ نفس سے لڑتار ہے گا، یہاں تک کہ نفس پروردگار کے ساتھ قرار پکڑ لے گا اور اس کے وعدے پر مطمئن ہو جائے گا ، اس کے عذاب سے ڈرے، اس کے امر کی تعمیل کرے، اس کی نہی سے منع رہے، اورتقدیرالہی سے موافقت کرنے لگے ۔ اس وقت تیرے قلب اور باطن کے حجاب دور ہوں گے، وہ دیکھیں گے جو پہلے نہ دیکھا تھا ، دونوں قلب و باطن اللہ کو پہچان لیں گے ، اس کومحبوب رکھیں گے، اس کے غیر کے ساتھ نہ ٹھہریں گے عارف باللہ کسی کے ساتھ نہیں ٹھہرتا، وہ تو ہرشے کے خالق کے ساتھ ہی ٹھہر تا ہے۔ اسے نیند آتی ہے نہ اونگھ۔ نہ کوئی چیز اسے اللہ سے روک سکتی ہے، اور محبوب کے لئے تو کوئی وجود ہی نہیں ، وہ تقدیرو علم الہی کی وادی میں گھومتا رہتا ہے۔ بحرعلم کی موجیں اسے اوپر نیچے کرتی رہتی ہیں۔ کبھی عالم بالا کی طرف بلند کرتی ہیں کبھی سطح زمین پراتارتی ہیں ۔ حالانکہ وہ غائب اور حیران ہے، بے سمجھ گونگا بہرا رہتا ہے۔ نہ غیراللہ کی سنتا ہے نہ غیر اللہ پر نظر ڈالتا ہے، وہ اللہ کے حضور بے جان ہے، اللہ جب چاہتا ہے اسے حیات بخشتا ہے، اور جب چاہتا ہے اسے وجود عطا کرتا ہے، اولیاء اللہ ہمیشہ قرب کے خیموں میں رہتے ہیں، جب حکم کی نوبت آئے تو حکم کےصحن میں ہو جاتے ہیں، اگر نکلنے کی نوبت آئے تو دروازے پر آ جاتے ہیں ۔ خلقت کے حالات معلوم کرتے ہیں ،خلقت اور خالق کے درمیان وسیلہ بن جاتے ہیں۔ میدان کے ظاہری حالات میں بعض احوال پوشیدہ رکھنا ہوتےہیں۔
دنیا وآخرت کی بھلائی چاہتے ہو تو اللہ کے ساتھ صبر کرو
اے لوگو! یہ کیا بات ہے تم سراپا ہوس بنے ہوئے ہو، اپنا وقت بے فائدہ ضائع کر رہے ہو، دنیا وآخرت کی بھلائی چاہتے ہو تو اللہ کے ساتھ صبر کرو۔ اگر اسلام کی حقیقت چاہتے ہوتو سرتسلیم جھکا دے، اس کی رضا پر راضی ہو جا، اگرقرب الہی چاہتا ہے تو اپنے آپ کو اس کے فعل اور تقدیر میں بلا چون و چرا پیش کر دے، اس طرح سے تجھے اللہ کا قرب حاصل ہو جائے گا۔ کسی چیز کو نہ چاہو کیونکہ تمہارا چاہنا صحیح نہیں ہے۔ ارشاد باری ہے
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ۔ تم نہیں چاہتے مگر اللہ چاہتا ہے۔ جب تیرا چاہنا پورا نہ ہو تو نہ چاہو، اللہ کے کاموں میں جھگڑا نہ کرو جب تیرا سامان اور مال و عافیت اور اولا دکولے لے، تیری ہتک عزت کرے، اس کے قضاء وقدر اور ارادے اور تبدیلی کے سامنے مسکراتا رہ، اگر قرب الہی اور صفائی کی طلب ہے تو اس حال پر قائم ہو جا۔ اگر دنیا میں اپنا دل اس تک پہنچانا چاہتے ہوتو اپناغم چھپاؤ بظاہرخوش رہوو لوگوں سے ہنستے مسکراتے اچھے اخلاص سے ملوجلو، کیونکہ مخلوق کے خالق کا خلق بہت اچھا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا:
المؤمنُ بِشْرُه في وَجْهه ‌وحُزْنه ‌في ‌قلبه– مومن کا چہرہ مسکراتا ہوا ہوتا ہے جبکہ دل غم سے معمور “ کسی سے شکایت نہ کر، کیونکہ اگر اللہ کی شکایت کرے گا تو اس کی نظر سے گر جائے گا، اس کے باوجود تیری شکایت بدستور رہے گی، دور نہ ہوگی ، اپنے عملوں میں سے کسی عمل پر غرور نہ کر، کیونکہ خود پسندی عمل کو فاسد اور خود پسند کو برباد کر دیتی ہے ۔ جس کی توفیق الہی پر نظر ہوتی ہے، اس کا اپنے کسی عمل پر اترانا جا تا رہتا ہے۔ تو اپنا تمام مقصود اس کو بنا، اس حالت میں یقینا وہ اپنی رحمت تیری طرف متوجہ کر دے گا ، اور اپنے تک پہنچنے کے لئے تیرے لئے اسباب مہیا کر دے گا، اور جب تو اپنے اقوال وافعال میں جھوٹا ہوگا تو اللہ کو اپنا مقصود کل بنانے کی قدرت کہاں رکھے گا، خلقت سے تعریف کا طالب ، ان کی برائی سے خوفزدہ ، طالب الہی نہیں بن سکتا۔ اللہ کا راستہ اول تا آخرسچائی ہی سچائی ہے ۔ اولیاء اللہ کے لئے تو بلا کذب وبلا ظہور کے سراپا سچائی ہے ۔ ان کا اکثر اعمال ان کے اقوال سے بڑھ کرہوتے ہیں۔ مخلوق میں وہ اللہ کے نائب اور خلیفہ ہوتے ہیں ، اور اللہ کی زمین میں سردار اور کوتوال اور حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں ۔ وہ اس کے منفر دومنتخب بندے ہوتے ہیں۔
اے منافق! تیرا ان سے کیا جوڑ نسبت، ان کی تجھ میں کیا نشانی ہے تو ان میں نفاق سے داخل نہ ہو، ان کی صف سے دور ہی رہ، مقام ولایت محض ظاہری سج دھج اور صرف آرز و قیل وقال سے حاصل نہیں ہوسکتی، خود کو اس کا اہل ثابت کر۔ اللهم اجعلنا من الصادقين واتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار ”اے اللہ! ہمیں اپنے سچے بندوں میں سے کر دے اور ہم کو دنیا کی بھلائی عطا فرما، اور آخرت کی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ ۔‘‘
قول عمل کے بغیر اورمل ،اخلاص کے بغیر مقبول نہیں:
حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اولیاءاللہ کا نام لینے پر انکے حالات جان لینے سے ، ان کا سالباس پہن لینے سے، اور ان کی طرح باتیں کر لینا کافی نہیں ، ان کی مخالفت میں ایسا کرنا تجھے کچھ فائدہ نہ دے گا ، تو تو- بنا صفائی کے سراپا کدورت ،خلقت بنا خالق کے ،دنیا بغیر آخرت کے ،باطل بغیر حقیقت کے ظاہر، بغیر باطن کے-قول بغیر عمل کے،عمل بغیر اخلاص کے- اخلاص بغیر موافقت سنت کے ہے ۔ جس قول پرعمل نہ ہو ، اور جس عمل میں اخلاص نہ ہو،اللہ قبول نہیں فرماتا، اور جو کوئی بھی چیز جو اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق نہ ہو مقبول نہیں ہے۔ تیری یہ بناوٹ بغیر ثبوت کے دعوی ہے ، لہذا تیرا کچھ بھی قابل قبول نہیں ہے، اگر جھوٹ کے ساتھ تجھے خلقت میں قبولیت حاصل ہو جائے تو اللہ کے ہاں ہرگز قبول نہیں ،و ہ تو دلوں کے اندر کی باتیں جاننے والا ہے، تو اپنے کھوٹے سکے نہ پیش کر کیونکہ پڑتال کرنے والا صاحب عقل وصاحب علم ہے، وہ تیری صورت کی طرف نہیں بلکہ تیرے قلب کی طرف نظر کرتا ہے، وہ تیرے کپڑوں اور کھانوں اور ہڈیوں کی اندرونی حالت پر نظر رکھتا ہے، وہ تیری جلوت کو نہیں ، خلوت کو دیکھتا ہے، کیا اس بات سے تجھے شرم نہیں آتی کہ جو خلقت کے دیکھنے کی چیز ہے وہ زینت سے معمور ہے، اور جو خالق کے دیکھنے کی چیز ہے وہ نجس سے بھر پور ہے۔ اگر تو فلاح چاہتا ہے تو اپنے سب گناہوں سے توبہ کر ، اور توبہ بھی اخلاص سے کر ، خلقت کو اللہ کا شریک بنانے سے تو بہ کر کوئی بھی عمل اللہ کے سوا کسی اور کے لئے نہ کر ، میں تجھے سراپا خطا دیکھتا ہوں کیونکہ تو نفس اور خواہش اور دنیا اور شہوتوں اور لذتوں کے ساتھ ہے ۔ ایک مچھر تجھے غصے میں ڈال دیتا ہے اور ایک نوالہ تجھے غضب ناک کر دیتا ہے تونفس کی خوشی سے خوش اور نفس کی ناراضی سے ناراض ہوتا ہے،تو نفس کا بندہ ہے، تیری باگ اس کے ہاتھ میں ہے، تجھے ان خاصان خدا سے کیا نسبت، جن کی بندگی خدا کے لئے ہے، اور اس کی رضا میں راضی رہتے ہیں، ان پر آفتیں نازل ہوتی ہیں ، وہ مضبوط پہاڑوں کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں، مصیبتیں ان کی طرف اور ان پر اترتی رہتی ہیں، اور وہ صبر وموافقت کی نگاہ سے انہیں دیکھتے رہتے ہیں۔انہوں نے جسموں کو بلاؤں کے لئے چھوڑ دیا اور خود دلوں کے ساتھ اللہ کی طرف پرواز کر گئے۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے رہنے والوں کے بغیر خیمے اور پرندوں کے بغیر پنجرے خالی ہیں ، ان کی روحیں اللہ کے پاس ہیں اور جسم اللہ کے سامنے ہیں ۔
اے اپنے رب سے منہ موڑ نے والو! — اے خدا سے وحشت کرنے والو! – میرے پاس آؤ، میں اس کے اور تمہارے بیچ میں اصلاح کر دوں ، اس سے تمہارے لئے سوال کروں تمہیں اس سے امن دلاؤں ۔ اس کے سامنے انکساری کروں تا کہ تم پر اس کے جوحق ہیں، وہ بخش دے۔
اللهم ردنا إليك وأوقضنا على بابك اجعلنالك وفيك ومعك إرضبنا بخدمتك إجعل أخذنا وعطاء نالك طهـر بـواطـنـتـا عن غيرك لا ترنا حيث نهيتنا لا تفقدنا حيث أمرتنا لا تجعل ظـواهـرنـا في معاصيك و بواطننا في الشرك بك خذنا من نفوسنا إليك إجعل كلنا لك اغبياء يك عـن غيـرك تـهـنـا مـن العقلة عنك أردنا بطاعتك و مناجاتك لذذ قلوبنا واشرارتا بقربك أجل بيننا و بين معاصيك كما أخلت بين السماء والأرض وقربنا إلى طاعتك كما قربت بين سواد العين و بيـاضـهـا أحـل بيـنـنـا وبيـن مـا تكرهه كما أخلت بين يوسف و زليخا في تعصيتك
”اے اللہ! ہمیں اپنی طرف واپس بلا ، اور ہمیں اپنے دروازے پر کھڑا کر، تو ہمیں اپنا بنا لے اور اپنی خدمت میں لے لے، اور اپنی معیت میں رکھ اور اپنی خدمت گزاری میں رکھ اور ہم سے راضی رہ – ہمارا لین دین اپنے لئے کر ، ہمارے باطن غیر سے پاک کر، جہاں کے لئے منع کیا ہے وہاں ہمیں نہ د یکھ، اور جہاں رہنے کا تو نے حکم کیا ہے وہاں سے ہمیں غائب نہ دیکھ ہمارے ظاہرکو گناہوں سے اور باطن کو شرک سے آلودہ نہ کر، ہمارے نفسوں سے ہمیں الگ کر کے اپنی طرف بلا، ہمیں غیر سے علیحدہ کر کے اپنے ساتھ غنی کر ،غفلت سے بیدار کر، تیری طاعت و مناجات کا ارادہ کریں اپنے قرب سے ہمارے دلوں اور باطنوں کولذت عنایت کر ہم میں اور ہمارے گناہوں میں دوری کر جیسے تو نے آسمان وزمین کے درمیان دوری کی ہے ، ہمیں اپنی طاعت کے قریب کر جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی کو قریب کیا ہے، اپنے ناپسندیدہ کاموں اور ہمارے بیچ میں حائل ہو جا جیسے کہ تو نے حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کو گناہ سے بچانے کے لئے ایک کو دوسرے سے دورکر دیا۔“
اس دعا کے بعد حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا: اے لوگو! اپنے نفسوں اور خواہشوں اور عادتوں کو دائمی روزے، دائمی نماز اور دائمی صبر سے گلا ڈالو، بندہ جب اپنے نفس ،خواہش اور عادت کو صحیح طرح سے گلا ڈالے تو وہ اور اس کا مولی مزاحمت کے بغیر باقی رہ جاتے ہیں ۔ دل اور باطن اور مولی باقی رہ گئے اورتنگی کے بغیر وسعت اور بے چارگی کے بغیر عافیت ہی باقی رہ جاتی ہے، عقل سے کام لواور علم سیکھو، اور اخلاص کے ساتھ عمل کرو۔ علم سیکھو اور اس پر عمل بھی کرواے بیٹا پہلے خلقت سے سیکھ پھر خالق سے ، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
من عمل بما يعلم أورثه الله علم ما لم يعلم لا بد من التعلم جواپنے علم پرعمل کرے اللہ اسے ایسا علم بتا تا ہے جسے وہ نہیں جانتا۔‘‘ حکم شرعی یہ ہے کہ پہلے خلقت سے علم سیکھے یہ لازم ہے، اس کے بعد خالق سے علم سیکھے جوعلم لدنی ہے، وہ علم دلوں سے خاص ہے، وہ راز کہ باطنوں سے خاص ہے ، استاد کے بغیر تو کسی علم کے سیکھ لینے پر کیسے قادر ہوسکتا ہے۔ تو حکمت کے گھر میں ہے، علم طلب کر علم کا طلب کرنا فرض ہے نے ارشادفرمایا:
أطلبوا العلم ولو كان بالصين – علم کو طلب کر واگر چہ وہ ملک چین میں ہو ۔‘‘
کامل مشائخ کی صحبت سے دنیا نہیں آخرت مقصود ہوتی ہے:
اے بیٹا! اس شخص کی صحبت اختیار کر جو تیرے نفس کے جہاد پر مددکرے،ایسے شخص سے نہ مل جو تیرے مقابلے میں نفس کی مدد کرے، ۔ اگر تم جاہل اور منافق نفس و عادت والے پیر کی صحبت میں رہو گے تو تیرے مقابل تیرے نفس کا مدد کرنے والا ہوگا ، کامل مشائخ کی صحبت سے دنیا نہیں آخرت مقصود ہوتی ہے ، اگر کوئی شیخ خواہش و عادت کا پیرو ہوگا تو اس کی مصاحبت دنیا کے لئے ہوگی ، ۔ اگر کوئی شیخ صاحب قلب ہو گا تو اس کی مصاحبت آخرت کے لئے ہوگی ، اگر کوئی شیخ صاحب باطن ہوگا تو اس کی مصاحبت مولی کے لئے ہوگی۔ اے مشیخت وصدارت کا جھوٹا دعوی کرنے والے! ۔ مرشدان کامل سے جواپنے احوال میں مخلص ہیں، سے مزاحمت کرنے والے جب تک تو دنیا اور نفس اور حرص کی کی طلب میں رہے گا توایک بچے کی طرح ہے یہ صرف عادت ہے ایسا نفس بہت ہی کمیاب ہے جو دنیا سے منہ موڑ لے، اور کسی بے چینی کے بغیر اختیار رکھتے ہوئے چھوڑ دے، کیا کوئی نفس مطمئن ہو کر قلب کی طرح ہوسکتا ہے، ایسا ہونا تو بہت ہی شاذ و نادر ہے۔ نفس کے حق میں یہ مقام تب صحیح ہے کہ جب دنیا و آخرت اور ماسوی اللہ سے اندھا ہو جائے ۔ بندہ اللہ کے جس قدر قریب ہوگا، اسی قد راندیشہ اور خطرہ اور خوف محسوس کرے گا، اس لئے لوگ بادشاہ کی نسبت وزیر سے زیادہ خوفزدہ رہتے ہیں، کیونکہ بادشاہ کی نسبت وزیران سے زیادہ نزدیک ہے، اخلاص کے بغیر مؤمن خدا تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ اس مقام پر پہنچ کر وہ بڑے خطرے میں گھر جا تا ہے۔اولیاء کرام بڑے خطرے میں پڑے رہتے ہیں ، انہیں خوف سے اس وقت تک سکون نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالی سے ملاقات نہ کر لیں ۔ جس نے اللہ کو پہچان لیا اس کا خوف اور زیادہ ہوگیا ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا
أَنَا ‌أُعْرَفُكُمْ ‌بِاَللَّهِ وَأَشَدُّكُمْ لَهُ خَشْيَةً” میں تم سے زیادہ اللہ کو پہچاننے والا ہوں اور سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہوں ۔‘‘
اللہ اپنے دوستوں کو پرکھتارہتا ہے تا کہ انہیں صفائی عنایت کرے، وہ ہمیشہ تغیر وتبدل سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ ڈرتے ہیں اگر چہ امن کی حالت میں ہوں ، کانپتے ہیں اگر چہ انہیں سکون عطا فر مایا گیا ہو۔ اپنے نفسوں پر ایک ذرے اور رائی کے ایک دانے ، اور ذراسی غفلت اور غیر کی طرف تھوڑی سی توجہ پر بھی جھگڑتے رہتے ہیں ، جب جس قدر انہیں سکون ملتا ہے، اس قدر پرواز کرتے ہیں۔ جس قدر انہیں تونگری عطا ہوتی ہے ،اتنے ہی محتاج ہوتے ہیں ۔جس قدر انہیں امن بخشتا ہے، اتنے ہی خوف سے دوچار ہوتے ہیں جس قدران پر اللہ کی عطا ہوتی ہے، اس قدر رکتے ہیں، ۔جس قدروہ انہیں ہنساتا ہے،اس قد روہ روتے ہیں ، جس قدر انہیں خوش کرتا ہے ،اس قدرغمگین ہوتے ہیں ، دوسروں کی حالت پلٹ جانے سے اور انجام کارخراب ہونے سے ڈرتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ اللہ کے کسی کام بارے میں سوال نہ کیا جائے ، ارشاد باری تعالی ہے: لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ. “جو کچھ وہ کرتا ہے نہ پوچھا جائے گا، ان سے پوچھا جائے گا جو وہ کرتے ہیں۔
تواے غافل! گناہ و مخالفت کر کے حق سے مقابلہ کرتا ہے اور پھر بے خوف ہے، عنقریب تیرا اس خوف سے – تیری وسعت تنگی سے،- تیری عافیت بیماری سے، تیری عزت ذلت سے تیری بلندی پستی سے تیری تو نگری محتاجی سے بدل جائے گی ، یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لے کہ بروز قیامت اللہ کے عذاب سے تیرا امن، دنیا میں تیرے خوف کے اندازے پر ہوگا، اور آخرت میں خوف ، دنیا میں امن کے اندازے پر ہوگا، لیکن تم تو دنیا کے دریا میں ڈبکیاں لگا رہے ہو، غفلت کے کنوئیں میں بے حس وحرکت پڑے ہو، ۔ یہی وجہ ہے کہ تمہارا جینا بالکل چوپایوں کے جینے کی طرح ہے، کھانے پینے ، نکاح اور سونے کے علاوہ تمہیں کچھ نہیں معلوم ، اولیاء اللہ پر تمہارے سب احوال کھلے ہیں ، دنیا اور اس کے جمع کرنے اور رزق طلب کرنے کی ہوس نے تجھے اللہ کے راستے اور اس کے دروازے سے روک رکھا ہے۔ اے حرص کے ہاتھوں رسوا ہونے والے! سب دنیا والے اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ جو چیز تیرے نصیب میں نہیں ہے ۔ تیرے لئے حاصل کرسکیں گے۔
چنانچہ جو نصیب میں ہے، اور جو نصیب میں نہیں ہے اسے طلب کرنا چھوڑ دے، ایک سمجھ دار کے لئے یہ بات کیسے بہتر ہو سکتی ہے کہ وہ اپناوقت ایسی چیز کے لئے ضائع کرے کہ جس سے اللہ فارغ ہو چکا ہے تو اپنے دل سے خلقت کو بالکل نکال دے نفع و نقصان ، لین دین، تعریف و برائی ،عزت و ذلت ،اقبال واد بار میں خلقت کی طرف نہ دیکھ، اعتقاد رکھ کہ نفع و نقصان اللہ کی طرف سے ہے، اور نیکی وبدی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، جو خلقت کے ذریعے عمل میں لاتا ہے، جب تجھے اس کا یقین محکم ہو جائے تو تو مخلوق اور خالق کے بیچ میں سفیر ہو جائے گا ، اورمخلوق کے ہاتھ پکڑ کر اللہ کے دروازے پر لائے گا۔ انہیں خیال کر کہ تیری طرف سے وہ معدوم اور لاپتہ ہیں۔ اللہ کی نافرمانی کرنے والے جنہیں جہالت کی آنکھ سے دیکھے گا۔ ان کا علاج وغیرہ کرے گا اور ان کے تکلیف پہنچانے پرصبر سے کام لے گا۔ اپنے پروردگار کی فرماں برداری کرنے والے اہل علم ہی عقل والے ہیں، اور اللہ کے نافرمان ، جاہل ودیوانے ہیں ، ۔ گناہ گار نے اپنے پروردگار کی پہچان نہ کی ، اس لئے اس کا نافرمان ہوا ، اگر وہ اللہ سے جاہل نہ ہوتا تو ہرگز اس کی نافرمانی نہ کرتا ، اگر وہ اپنے نفس کو پہچانتا اور جانتا کہ وہ برائی کی طرف لے جانے والا ہے، تو کبھی اس کی موافقت نہ کرتا۔ میں نے تجھے شیطان اور اس کے چیلوں سے کس قدر ڈ رایا ہے، کہ تو اس کی صحبت اختیار نہ کر ، اس کی بات نہ مان – شیطان کے چیلوں میں نفس اور دنیا اورخواہشیں اور عادتیں اور برے ہم نشیں شامل ہیں ۔ تو ان سب سے بچ کے رہو کیونکہ یہ سب تیرے دشمن ہیں ، اللہ کے سوا تیرا چاہنے والا کوئی نہیں ۔ کیونکہ وہ تجھے صرف تیرے لئے چاہتا ہے۔ جبکہ غیر تجھے اپنے لئے چاہتا ہے ۔ جب تو اپنے نفس کو خلوت میں گم کر دے اور طالبوں کے ساتھ طلب کرے تو تیری خلوت و تنہائی اللہ سے مانوس ہوگی ، جب تو
اپنے نفس کو دنیا کے ساتھ ، – دل کو آخرت کے ساتھ ، اور باطن کو مولی تعالی کے ساتھ چھوڑ دے گا، اس وقت تیری خلوت اللہ کے ساتھ مانوس ہوگی ، لیکن جب تک نفس اور غیر کا وجود تیرے نزدیک رہے گا تو خلوت نہ پا سکے گا، تیراخلوت اختیار کرنا بے کار ہوگا ۔ اللہ کی معیت میں خلوت جب ہوسکتی ہے جب اس کے غیر سے مکمل طور پر قطع تعلق ہو، تو اسے جب ہی پاسکتا ہے جب اس کے غیر سے بغض رکھنے لگے ، کب صفا ہوگا کہ صفا اور اہل صفا کو دیکھے ، کب صدق کرے گا کہ صدق اور اہل صدق کو دیکھے ، کب مخلص ہوگا کہ اللہ کا دروازہ دیکھے اور اہل اللہ کے ہمراہ رہے جب اپنے حال کو ثابت کرے گا تو مردان خدا دکھائی دیں گے، جب تو بادشاہ کے دروازے پر پہنچے گا تو اس کے خدمت گزار اور وہاں کے رہنے والے دیکھے گا ، تو نے شاہی دروازہ ابھی دیکھا نہیں ، پھر تجھے اس کے نوکر چاکر کیسے دکھائی دیتے۔ تیری بات کا کوئی اعتبار نہیں جب تک کہ تو اس کے دروازے کو نہ دیکھ لے گا تجھے اس کے غلام کیسے دکھائی دیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ کا دیدار نہ کرے ۔ اب سچ تجھے اٹھائے گا اور آگے بڑھائے گا اور بیدار کرے گا ۔ جبکہ جھوٹ تجھے واپس بھی کر دے گا اور غافل بھی، سچوں کے ساتھ ہو جا تا کہ جو معاملہ ان کے ساتھ ہوا ہے تیرے ساتھ بھی ہو، تو اپنے اقوال اور افعال میں سچ کو اپنا، اور سب احوال میں صبر سے کام لے، صدق کیا ہے۔ اللہ کو ایک جاننا، اخلاص اختیار کرنا ،اللہ پر توکل کرنا۔ توکل کی حقیقت یہ ہے کہ اسباب، احباب اور ارباب سے ناطہ توڑ لینا، اور قلب و باطن کی حیثیت سے اپنی طاقت اور قوت سے الگ اور دور ہو جانا ، اگر اس سے ملنا چاہتے ہو تو غیر سے ملنا چھوڑ دے، اپنے آپ اور غیر سے منہ موڑ لے، ہر حادث شے سے اعراض کرتا کہ اس کے خالق تک پہنچ سکے۔ جب تک تو اپنے اور ان کے ساتھ ہے، تیرے لئے فلاح نہیں، قرب الہی کے لئے بھیڑ بھاڑ قابل برداشت نہیں، وہ یکجائی چاہتا ہے،تم میں سے لاکھوں کروڑوں میں سے قیامت تک کوئی ایک آدھ ہی میری بات کو سمجھنے والا ہوگا اور اس پرعمل کر یگا۔ تم لوگ تو محض برکت کے لئے حاضر ہوتے ہو۔
میں تو دنیاو آخرت میں تمہارے لئے بھلائی کا امیدوار ہوں، دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے، جب اپنے قید خانے کو بھولتاہے تو اسے وسعت محسوس ہوتی ہے۔ مومن قید خانے میں ہیں اور عارف مستی و مد ہوشی میں قید خانے سے غائب ہیں ، اللہ تعالی نے انہیں
– اپنے شوق کی شراب،اپنی طلب کی شراب، اپنے انس کی شراب مخلوق سے غفلت کی شراب ، اور اپنے ساتھ بیداری کی شراب پلائی ہے ۔ اللہ نے یہ شرابیں جب انہیں پلا دیں، وہ خلقت سے الگ ہو گئے ، اور اللہ کی معیت میں مدہوش ہو گئے ، قید خانے اور قیدیوں سے غائب ہیں ۔ان کی جنت اور جہنم ان کے لئے دنیا میں ہی بنادی گئی، اللہ سے جھگڑا اور اس کی مخالفت ان کے لئے دوزخ ہے ، اس کی رضا میں راضی رہنا ان کی جنت ہے ۔
– اللہ سے غفلت ان کے لئے دوزخ ہے، بیداری ان کی جنت ہے ۔ عوام کے حق میں قیامت حساب و کتاب کا نام ہے، خواص کے حق میں قیامت مشاہدہ وعتاب کا نام ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو۔ حالانکہ انہوں نے دنیا میں ہی اپنے نفسوں پر قیامت کو قائم کرلیا ہے۔ پٹنے سے پہلے ہی رو چکے ہیں، پہلے سے رولینا پٹائی والے دن فائدہ دے گا۔
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے خواب میں پوچھا:
’’اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔‘‘
آپ نے فرمایا: اپنے رو برو کھڑا کر کے مجھے فرمایا: اے سفیان! کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میں بخشنے والا مہربان ہوں۔ تو پھر بھی میرے خوف سے بکثرت روتارہا۔ کیا تجھے مجھ سے شرم نہ آئی۔‘‘
تو اپنی عادت اور حرص اور شیطان کو چھوڑ دے اور ان کی طرف مائل نہ ہو، جب یہ ثابت ہو جائے تو اپنے اور برے دوستوں کے درمیان عدادت قائم کر اور جب تک وہ تجھ سے موافقت نہ کر یں تو ان سے دوستی نہ کر ۔
تو بہ دولت کا کایا پلٹ ہے، جس بندے نے توبہ کی اور توبہ سے پہلی حالت کو نہ بدلا تو وہ شخص اپنی توبہ میں جھوٹا ہے ۔ جب تو بدلے گا تو تجھ پر تبدیلی کی جائے گی ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ”بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔“
دنیا میں کسی پرظلم نہ کر کیونکہ آخرت میں پوچھ گچھ کی جائے گی ، دنیا میں عدل کرتا کہ تجھے جنت کے راستہ سے دور نہ کردے، ظالموں نے جب عدل کو چھوڑ دیا تو اہل عدل کے طریق سے عدل کیا گیا اور انہیں جنت کے راستہ سے دور کر دیا گیا جو کہ عدل والوں کا گھر ہے، تو ہر چیز کو اس کی جگہ پر چھوڑ دے تا کہ تجھے اللہ کے قریب جگہ ملے۔ یہ آخر زمانہ ہے۔ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے خود کو بدل لیا ہے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کی طرف سے نہ کچھ ایسا بدل دیا جائے ، لازم ہے کہ چیزوں میں تبدیلی آئے لیکن بعض کے حال چھپا کے رکھے جاتے ہیں، اے اللہ کی مخلوق ، میں تمہاری بہتری اور نفع کا طالب ہوں ۔ میری تمنا ہے کہ۔ دوزخ کے دروازے بند ہو جائیں یا بالکل مٹ جائے ، اور یہ کہ اللہ کی خلقت میں سے کوئی نہ اس میں جائے ، جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں ، اور یہ کہ خلقت میں سے کسی کو بھی نہ روکا جائے ، میری یہ آ رزواس لئے ہے کہ اللہ کی اپنی خلقت پر جورحمت وشفقت ہے، مجھے اس کے بارے میں پتہ چل گیا ہے ۔ میرا وعظ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے دلوں کی اصلاح اور تہذیب ہو جائے ۔ وعظ و تقریر میں الٹ پھیر کرنا میرے پیش نظر نہیں۔ میری سخت کلامی سے نہ بھاگو، میری پرورش اور تربیت کرنے والے ایسے لوگ تھے جو اللہ کے دین کے معاملے میں بہت سخت تھے، میرا کلام بھی سخت ہے اور میرا طعام بھی بے مزہ ہے ، جوکوئی میرے سے اور میرے جیسوں سے بھاگے گا فلاح نہ پائے گا۔ اگر دین کے حوالے سے گستاخی کرے گا میں تجھے نہ چھوڑ دوں گا اورنہ ہی کہوں گا کہ یوں کر مجھے اس کی پروا نہیں کہ تو میرے پاس آئے یا نہ آئے ۔ میں اللہ سے قوت کا طالب ہوں تم سے نہیں تمہارے حساب اور شمار سے مجھے کچھ غرض نہیں ، میں جس حال میں ہوں اسے منہ کی زبان سے نہیں بیان کیا جاسکتا، صرف دل کی زبان سے بیان ہوسکتا ہے۔ میرا دھیان دائیں بائیں اور پیچھے کو نہیں ہوتا صرف سامنے ہوتا ہے ۔ میں بغیر کمر کے سینہ ہوں۔ میں نبیوں رسولوں اور سلف صالحین کا پیروکار ہوں ، میری ساری دوڑ قرب الہی کے دروازے کی طرف انہی کے دم سے ہے، اپنے گناہوں اور بے ادبی سے توبہ کرو، میں اس توبہ سے تمہارے دلوں کی زمین میں بیج بو رہا ہوں، یہ ایک عمارت کی بنیاد بنانے والی بات ہے، میں شیطان کی عمارت گرا کر رحمان کی عمارت بنارہا ہوں ، اور تمہیں تمہارے مولی اور رب کے ساتھ ملا رہا ہوں ۔ میں چھلکے کی بجائے مغز کے ساتھ قائم ہوں بظاہر یہ ایک چھلکا ہے مگر میں اس کی پرورش میں مشقت نہیں اٹھانا چاہتا، میں تو تمہارے مغز کی پرورش کرتا ہوں ، اور تمہارے چھلکے دور کرتا ہوں ۔ میں تمہاری پرورش کرتا رہوں گا تا کہ تمہاری وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
جو کچھ رسول عطافرمائیں لے لو، جس سے منع منع رہو:
اے لوگو! دنیا کے لئے میری صحبت میں نہ بیٹھو بلکہ صرف آخرت کے لئے ۔ جب میرے ساتھ تمہاری محبت آخرت کے لئے صحیح ہو جائے گی توضمنی اور عارضی طور پر دنیا بھی مل جائے گی ، تم زہد اختیار کرتے ہوئے اسے حسب ضرورت بے رغبتی کے ساتھ لو گے، اس کے لئے میں تمہارا ضامن ہوں کہ تم سے دنیا کا حساب نہیں لیا جائے گا ، تم آخرت کود نیا پر باطن کو ظاہر پر حق کو باطل پر ، باقی کوفانی پرمقدم رکھو، پہلے ترک کرو پھر حاصل کرو ، عادت اور خواہش اور نفس کے ہاتھوں سے لینا چھوڑ دو بلکہ دل اور باطن کے ہاتھ سے لو، خلقت کے ہاتھ سے لینا چھوڑ دو، اور خالق کے ہاتھ سے لینے کی عادت ڈالو، رسول اللہ ﷺ کی اطاعت وفرماں برداری کرو، اور جو کچھ امرونہی فرمائیں اسے قبول کرو، ارشاد باری تعالی ہے: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا جو کچھ رسول دیں ، اسے لےلو ،اور جس چیز سے منع کر یں ، اس سے باز رہو۔“
اللہ ورسول ﷺ کے امر کے وقت درندے بن جاؤ اور ان کی نہی کے وقت بیمار ولاچار ہو جاؤ قضاوقدر کے آنے پر مردہ بن جاؤ ، سر جھکا دو، اور اس کے ساتھ ہی لوگوں سے حسن اخلاق سے پیش آؤ، اللہ سے اپنے لئے وہ چیز نہ مانگو جو اس کے علم کے خلاف ہو، اور اپنے اور دوسروں کے لئے اس کے احکام قضاوقدر کی موافقت کرو۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
لَمَّا ‌خَلَقَ ‌اللهُ ‌الْقَلَمَ قَالَ لَهُ: اكْتُبْ، فَجَرَى بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ
جب اللہ تعالی نے قلم کو پیدا فرمایا تو ارشادفرمایا اے قلم لکھ۔ قلم نے عرض کیا: ’مولی کیا لکھوں؟ ۔ فرمایا: ‘خلقت کے بارے میں قیامت تک میرے جوحکم ہیں ،سب لکھ دے۔‘‘
اے دلوں کے مردو ! نفسوں کے ساتھ زندہ رہنے والو! تمہارے دل مر گئے ، ان کی مصیبت میں رہنے کی بجائے تم لوگوں کی مصیبت کی طرف متوجہ ہو، دلوں کی موت کیا ہے: اللہ اور اس کے ذکر سے غافل ہو جانا! جو بندہ اپنے دل کو زندہ کرنا چاہتا ہے، وہ دل کو ذکر الہی میں لگا دے، اور اس کے انس کے لئے شوکت و حکومت اور خلقت میں تصرفات کرنے میں توجہ کے لئے متوجہ کر دے۔ اے بیٹا! اللہ کا ذکر پہلے دل سے کر پھر جسم سے کر، پھر دل سے ہزار بار اور زباں سے ایک بارکر، اس کا ذکر : -آفتوں کے آنے کے وقت صبر کے ساتھ، دنیا کے آنے کے وقت ترک کے ساتھ ، آخرت کے آنے کے وقت قبول کے ساتھ ،حق کے آنے کے وقت توحید کے ساتھ ، غیر کے آنے کے وقت اعراض کے ساتھ کر، اگر تو اپنے نفس کی لگام کو ڈھیلی کرے گا تو وہ تجھے لالچ دلائے گا اور مجھے گرا دے گا۔ چنانچہ اسے تقوی کی لگام سے قابو کر، اور فضول کی قیل و قال کو چھوڑ دے ۔
موت کا ذکر تیرے دل کو صفا کرے گا ، اور دنیا کو تیرامبغوض بنا دے گا – تیرے دل سے حجاب اٹھا دے گا ، چنانچہ تو خلقت کوفانی ،مردہ ، ہلاک شدہ اور عاجز پائے گا کہ ان میں نہ تو کوئی فائدہ ہے نہ کوئی خسارہ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 330،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 178دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
پچاسویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پچاسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الخمسون فی وجوب التفرغ من ھموم الدنیا‘‘ ہے۔
منعقده 18 شعبان 545 جمعہ کی صبح ، بمقام مدرسہ قادریہ
اگر تو دنیا کو پہچان لیتا تو اس کی ہرگز طلب نہ کرتا:
اپنی اور دوسروں کی درستی واصلاح میں کوشش کر ، اپنے سے قال اور قیل اور دنیا کی ہوس کو چھوڑ دے، جہاں تک ہو سکے دنیا کی فکروں سے آزاد ہو، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: تَفَرَّغُوا ‌مِنْ ‌هُمُومِ ‌الدُّنْيَا ‌مَا ‌اسْتَطَعْتُمْ” جہاں تک ہو سکے دنیا کے غموں سے فارغ ہو جاؤ۔“ اے دنیا سے نا آشنا! اگرتو دنیا کو پہچان لیتا تو ہرگز تو اس کا طالب نہ بنتا، اگر وہ تیرے پاس آئے گی تو تجھے مصیبت میں ڈالے گی ، اگر وہ تجھ سے پیٹھ پھیرلے گی تو تجھے حسرت میں ڈالے گی۔ اگر تو اللہ کو پہچان لیتا تو اس کے ساتھ غیر کوبھی پہچان لیتا لیکن تو تو اللہ اور اس کے رسولوں اور نبیوں اور اس کے ولیوں سےہی جاہل ہے۔ تجھ پر افسوس! اس دنیا میں جو پہلے لوگوں پر گزری ہے، تو ان سے عبرت کیوں نہیں حاصل کرتا ،دنیا سے خلاصی طلب کر، اس کا لباس اتار کر دور بھاگ جا،نفس کا لباس اتار اور اللہ کے دروازے کی طرف دوڑ جا، اگر تو اپنے نفس سے الگ ہو گیا تو سب ماسوی اللہ سے الگ ہو گیا ۔ ماسوی اللہ اگر نفس کے تابع ہے تو اپنے نفس سے دور ہو، اور اپنے رب کا دیدار کر، سب کچھ اس کے سپرد کر کے سلامتی والا ہو جا، اس کی راہ میں مجاہدہ کر کے ہدایت پا، اس کا شکر ادا کر اور زیادہ نعمت حاصل کر خود کواورخلوق کو اس کے حوالے کر دے، اور اپنے اور غیر کے بارے میں اللہ پر اعتراض نہ کر اللہ کے ولی نہ اللہ کے ارادے کے ساتھ اپنا ارادہ رکھتے ہیں ، ور اس کے اختیار کے ساتھ ا پنا اختیار رکھتے ہیں۔ نہ اپنے نصیب کی طلب میں حرص کرتے ہیں، نہ لوگوں کے رزق کی طرف نظر کرتے ہیں، دنیا و آخرت میں اگر اولیاء اللہ کی صحبت چاہتا ہے تو ان کے اقوال وافعال اور ارادوں میں موافقت کر۔ میں دیکھ رہا ہوں تو سب کام الٹ کر رہا ہے، رات دن اللہ کے مخالف چلنے اور اس سے جھگڑا کرنے کو معمول بنالیا ہے۔ تو اللہ سے کہتا ہے کہ ایسا کر اور ایسا نہ کر گویا کہ وہ بندہ ہے اور تو معبود ۔ اس کی ذات پاک ہے ، وہ بڑا حلیم ہے ۔ اگر اس کا حلم نہ ہوتا تو جس حالت میں اب تو ہے۔ اپنا حال اس کے برعکس دیکھتااگر تو اپنی بھلائی چاہتا ہے تو اس کی سامنے اپنے ظاہر و باطن میں سکون کر ۔ ظاہری سکون حرکتوں سے اور باطنی سکون خطروں سے پتہ چلتا ہے ۔ سوال کرنا میرے نزدیک گستاخی ہے اور میں اسے رخصت شمار کرتا ہوں، تو حکم پرعمل کر اور منع کئے ہوئے سے باز رہ اور تقدیر کے موافق چل ۔ اس کے سامنے بات کرنے سے اپنے ظاہر و باطن کو پرسکون رکھ۔ یوں دنیا و آخرت کی بھلائی پائے گا ، مخلوق سے کسی قسم کا سوال مت کر کیوں کہ وہ خود عاجز ومحتاج ہیں۔ اپنے اور دوسروں کے لئے کسی نفع یا نقصان کے مالک نہیں ۔ تو اللہ کے ساتھ صبر کر اسے جلدی میں نہ ڈال، نہ اسے بخیل بتا، نہ اس پر کوئی تہمت دھر ،وہ تم پرتم سے زیادہ مہربان ہے، اور تجھ پر تجھ سے زیادہ شفیق ہے، اس لئے بعض اولیا اللہ نے فرمایا:
مجھ پر میری طرف سے کیا چیز ہے، جو کچھ ہے اللہ ہی طرف سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کی موافقت کرو وہ تمہیں تم سے زیادہ جانتا ہے یہ ضروری نہیں کہ جس کام میں تمہاری مصلحت ہو اسی کی تمہیں خبر ہو۔ارشاد باری تعالی ہے:
وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ممکن ہے تمہیں کوئی چیز نا پسند ہو جبکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہو، اورممکن ہے کوئی شے تمہیں پسند ہو اور وہ تمہارے لئے بدتر ہو، اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔
وَيَخْلُقُ ‌مَا ‌لَا ‌تَعْلَمُونَ – اللہ وہ چیزیں پیدا کرتا ہے جوتم نہیں جانتے ۔
وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا اور تمہیں تو بہت تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے۔
جوشخص اللہ کے راستہ پر چلنا چاہے تو راستہ پر چلنے سے پہلے اپنے نفس کو مہذ ب کرے، یہی بے ادب ہے جو بدی کا حکم دینے والا ہے۔ وہ اللہ کے پاس کیا عمل کرے گا ،اپنی اس سیر میں اسے کیسے ساتھ لے سکتا ہے، نفس سے جہاد کر کے اسے مطمئن کر ، پھر اسے اللہ کے دروازے کی طرف لے جاتم نفس کی موافقت تب کر نا جب وہ ریاضت کرلے تعلیم اور حسن ادب سے آراستہ ہو جائے ۔ اور اللہ کے وعدہ وعید سے مطمئن ہو جائے ، اس کے بغیر اس کی موافقت نہ کر نفس تو اندھا، گونگااور بہرہ ہے جس کے حواس قائم نہیں ، اپنے رب کا مخالف اور جاہل اور اس کا دشمن ہے ۔ اس کی آنکھیں دائمی مجاہدوں اور مسلسل ریاضتوں سے کھلیں گی ، اس کی زبان بولے گی اور اس کے کان سنیں گے، اور اس کا جنون جا تا رہے گا۔ اپنے رب سے اس کی عداوت و جہالت جاتی رہیں گی۔ پس ساعت بساعت، روز بروز اور سال بہ سال رسیوں اور اولیاء اللہ کی صحبت میں دائم قائم رہنے کا محتاج ہے ۔ یہ بات ایک ساعت ایک دن اور ایک ماہ کے مجاہدے سے حاصل نہ ہوگی نفس کو بھوک کے چا بک سے پیٹ ، اس کا حصہ روک دے اور اس کا حق پورا کر ۔ اس پر حملہ کر
اس کی تلوارلکڑی کی ہے لوہے کی نہیں ، اس کی باتیں ہی ہیں، کام کچھ بھی نہیں ، صرف جھوٹ ہے، سچ بالکل نہیں ، اس کا وعدہ ہے، وفا نہیں ، اسے دوستی کا کچھ پتہ نہیں، – چکر ہے، دولت نہیں ۔
اہلیں جو نفس کا سردار ہے، ایمان والوں سچوں کے ہاں جو اس کے مخالف اور دشمن ہیں ، اسے کوئی طاقت وقوت حاصل نہیں تو پھرنفس کی ہستی کیا ہے۔ یہ نہ سوچ کہ ابلیس اپنی قوت سے جنت میں داخل ہوا اور حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے زور سے جنت سے نکلوادیا۔ اصل میں اللہ نے اسے اس پر قوت دی، اور اسے سبب بنادیا ، وہ اصل نہ تھا۔
اے تھوڑی عقل والے کسی مصیبت میں ڈال کر اگر اللہ تجھے آزمائے تو اس کے دروازے سے نہ بھاگ ، وہ تیری مصلحت کوتجھ سے زیادہ جانتا ہے، وہ کسی فائدے اور حکمت کے لئے آزماتا ہے، جب کسی مصیبت سے تجھے آزمائے تو ثابت قدم رہ اپنے گناہوں کو یاد کر اور کثرت سے تو بہ واستغفار کر اور اس سے صبر اور ثابت قدمی کا سوال کر ، اس کے سامنے کھڑارہ اس کے دامن رحمت سے لپٹارہ، اور اسی سے اس بلا سے نجات کا سوال کر ، اس کی مصلحت کے اظہار کے لئے اس سےعرض کر اگر تو نجات چاہتا ہے تو ایسےشیخ کی صحبت اختیار کر جوعلم الہی کا حکم جاننے والا ہوتا کہ تجھے علم بھی سکھائے اور ادب بھی، اور ان کا راستہ بتائے، مرید کے لئے رہبر اور ہادی کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایسے جنگل میں ہے جس میں بکثرت بچھو اور بڑے بڑے سانپ اور مصیبتیں اور پیاس ہے اور ہلاک کرنے والے درندے ہیں ۔ وہ ر ہبراسے ان آفتوں سے بچائے ،
اور اسے پانی اور پھل دار درختوں کی جگہ بتائے ۔ اگر وہ مر ید وحشیوں ، سانپوں، بچھوؤں اور مصیبتوں سے بھرے جنگل سےرہبر کے بغیر گزرے گا تو نقصان اٹھائے گا۔ اے رہ دنیا کے مسافر! قا فلے اور رہبر اور رفیقوں سے دور نہ ہو، ورنہ تیری جان اور مال کا نقصان ہوگا اے رہ آ خرت ‘ کے مسافر ہمیشہ مرشدر ہبر کے ساتھ رہ یہاں تک کہ تجھے منزل تک پہنچادے راہ میں اس کی خدمت کر اور حسن ادب سے پیش آ ۔ اس کی رائے کے خلاف نہ ہو ، وہ تجھے علم سکھا کر اللہ کے قریب کر دے گا، تیری شرافت اور سچائی اور دانائی دیکھ کرتجھے راستے میں اپنا قائم مقام کر دے گا ، راستے میں امیر اور راہ چلنے والوں کا حاکم بنادے گا ، اپنے لشکر کا خلیفہ و جانشین کر دے گا ، تو ہمیشہ اس حال پر رہے گا: وہ مرشد تجھے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں لا کر آپ کے سپرد کر دے گا ، آپ ﷺ کی مبارک آنکھیں تجھ سے ٹھنڈی ہوں گی ، پھر آپ ﷺ تجھے دلوں اور باطنوں اور احوال پر اپنا نائب بنادیں گے، چنانچہ اللہ اوراس کی مخلوق کے درمیان سفیر ہو جاؤ گے اورر سول اللہ ﷺ کے حضور میں آپ کا غلام بن کر رہو گے، کبھی خلقت کی طرف اور کبھی خالق کی طرف آتے جاتے رہو گے ،یہ انفرادیت خلوت نشینی اور صرف تمنا سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ وہ چیز جو سینے میں اپنا مقام بنا چکی ہو، اور عمل اس کی تصدیق کرے، سے حاصل ہوتی ہے،
اولیاءاللہ سب قبیلوں میں سے چنے ہوئے ہوتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں میں سے ایک ہی فرد ہوتا ہے جو اللہ کا کلام دلوں اور باطنوں سے سنتے ہیں ، اور اس سننے کی اپنے سب اعضاء کے اعمال سے تصدیق کرتے ہیں۔
اے جاہلو! اللہ کے سامنے توبہ کرو، صدیقین اور سلف صالحین کے راستہ پر چلو ، اور ان کے سب اقوال وافعال میں ان کی پیروی کرو، منافقوں کے راستے پر نہ چلو جو دنیا کے طالب ہیں اور آخرت سے منہ موڑ نے والے ہیں، اللہ کی راہ کو چھوڑ نے والے ہیں، کہ جس پر پہلے لوگ تھے، یہ منافق دائیں بائیں اور پیچھے ہو گئے اور کاہلوں کی راہ تلاش کی ، اور اللہ کا راستہ جوصحیح راستہ تھا، جس پر پہلے لوگ تھے، اس راستے سے نہ گزرے۔
دنیا میں دنیا کے لئے جینے والے قیامت میں دکھائی نہ دیں گے :
اے بیٹا! یہ لوگ جن سے آج تو دنیا میں دنیا کے لئے ملتا ہے، قیامت کے دن تجھے دکھائی نہ دیں گے، تمہارے درمیان شناسائی نہ رہے گی ، تجھ میں اور تیرے برے دوستوں میں ، جن سے ماسوی اللہ کے لئے شناسائی رہی ، وہ شناسائی کیونکر رہے گی۔ اگر تو نے ضرور خلقت کے ساتھ ہی گزارنی ہے تو پرہیز گاروں، زاہدوں، عارفوں اور عاملوں کے ساتھ زندگی گزار ۔ جو کہ اللہ کے چاہنے والے اور اس کے طالب ومطلوب ہیں، ایسے فرد سے میل ملاقات رکھ جو :
تجھ سے خلقت کو لے اور خالق کو دے،تجھ سے گمراہی کو لے اور سیدھے راستے پر قائم کرے، تیری آنکھوں پر دنیا سے پٹی باندھے اور آخرت میں کھولے، تیرے آگے سے دنیا کا طباق اٹھالے اور اس کے بدلے آخرت کا طباق رکھے۔ تیرے پاؤں کا ننگا پن دور کر دے اور اس کے بدلے جوتا پہنائے ، سانپوں اور بچھوؤں اور درندوں کے درمیان سے اٹھا کرتجھے امن اور راحت اور خوشی کی جگہ پر بٹھادے، ایسے شخص سے میل جول کر جس میں یہ صفات ہوں ، اس کی کڑوی باتوں پر صبر کرے، اس کے امر ونہی کو قبول کر ایسے میں تجھے دنیا میں ہی بھائی مل جائے گی ، آخرت کا انتظار نہ کرنا پڑے گا۔ ایک گھٹری کے صبر کا نام ہی بہادری ہے، ثابت قدم رہ ، تجھ سے تو کچھ ہو نہیں سکتا اورتجھے حاجت بھی ہے، کشکول اور زنبیل خرید کر عمل کے دروازے پر بیٹھ جا، اگر تیرے مقدر میں کوئی کام ہے تو جلد ہی کام پر لگ جائے گا، سب کو اس کا حق ادا کر اور پختہ یقین سے عمل کے دروازے پر بیٹھ جا، فرض محال وہاں سے دوسرے مزدوروں کو لے جائیں اور تجھے نہ لے جائیں تو اپنی جگہ نہ چھوڑ ہمت سے بیٹھارہ حتی کہ تیری ہر ایک سے امید ٹوٹ جائے کہ اب کوئی تجھے کام پر نہ بلائے گا، تب تو اپنے نفس کوتوکل کے سمندر میں ڈال دے، سبب اور سبب والے کو جمع کر ، سکھانے والے کے سامنے حسن ادب سے پیش ہو، تیرے بولنے سے بڑھ کر تیری خاموشی ہو، اس سے تیری تعلیم کا اور معلم کے دل میں تیری قربت کا سبب بن جائے گا ، حسن ادب قریب کر دے گا اور بے ادبی دور کر دے گی حسن ادب سے تیراکیا واسطہ! جبکہ اہل ادب سے تو ملا ہی نہیں ہے تو کیسے کچھ سیکھ سکتا ہے جبکہ تو معلم سے راضی ہی نہیں اور نہ تیرا گمان اس میں نیک ہے۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 350،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 186دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
اکیاون ویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اکیاون ویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الحادی والخمسون فی عدم الرکون الی الدنیا‘‘ ہے۔
منعقده 20 شعبان 545ھ بمقام مدرسہ قادریہ
دنیا ساری حکمت اورعمل ہے، آخرت ساری قدرت ہے:
دنیا ساری حکمت اور عمل ہے، آخرت ساری قدرت ہے، دنیا کی بنا حکمت پر ہے اور آخرت کی بناقدرت پر، حکمت کے گھر میں عمل کو نہ چھوڑ ، قدرت کے گھر میں اس کی قدرت کو عاجز نہ سمجھ حکمت کے گھر میں اس کی حکمت کے ساتھ عمل کر ، اس کی قدرت پر بھروسہ نہ کر، اپنے نفس کے لئے قدرت کو عذر نہ بنا، کیونکہ نفس اسے حجت بنا کر عمل کرنا چھوڑ دے گا۔ تقدیر کاعذ رتر اشنا کاہلوں کی دلیل ہے، تقدیر کا عذرا مرونہی کے غیر میں ہوسکتا ہے ، عبادت وفرائض میں نہیں۔ آپ نے دوران گفتگو کچھ توقف فرمایا ، پھر ارشادفرمایا: ایمان والے کو نہ تو اس دنیا کی طرف سے سکون ہوتا ہے اور نہ دنیا میں موجود چیزوں سے ۔ دنیا سے اپنا نصیب لے لیتا ہے ۔ اور دل سے اللہ کی طرف یکسو ہو جاتا ہے، یہاں پہنچ کرٹھہر جاتا ہے حتی کہ اس کے دل سے دنیا کی سوزش دور ہو جاتی ہے، اور اس کے دل کو دنیا پر داخل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے، اس کے باطن کی سفارت اس کے باطن کو دل کی طرف، اور دل کونفس مطمئنہ اور تابع دار اعضاء کی طرف لے جاتی ہے۔اسے تمام اعضاء پر قابومل جا تا ہے ۔ وہ اس حال میں ہوتا ہے کہ اچا نک اسے اس کے متعلقین سے بے نیاز کر دیا جا تا ہے، اس میں اور اس کے عیال کے درمیان حجاب ڈال دیا جا تا ہے۔اللہ تعالی خلقت کی شرارتوں سے اس کی حفاظت فرماتا ہے ۔ اور سب کو اس کی اطاعت پر لگا دیا جا تا ہے ۔ اور اس کے اور ان کے دلوں میں خود مائل ہو جا تا ہے ۔ یہ بندہ تنہا اپنے رب کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے، گویا کہ اس کے لحاظ سے مخلوق پیداہی نہیں ہوئی ، ، اور گویا کہ اس کے سوا اللہ کی کوئی اور مخلوق ہی نہیں، اس کا رب اس میں فعل کرنے والا اور وہ معمول ہو جا تا ہے ، حق مطلوب اور وہ طالب بن جاتا ہے۔ وہ اصل اوریہ شاخ ہوتا ہے، غیر کو پہچانتا نہیں اور غیر کود یکھتا نہیں ہے،اسے مخلوق سے اوجھل کر دیتا ہے، اور جب چاہتا ہے اسے مخلوق میں اٹھا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ اسے ان کی مصلحتوں اور ہدایت کے لئے وجود عطا کرتا ہے، اور یہ بندہ اللہ کی رضا کے لئے خلقت کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے، اولیاء اللہ دلوں اور باطنوں کے محافظ ونگہبان ہیں ، غیر کو چھوڑ کے اللہ کی معیت میں قائم ہیں۔ ان کا ہر عمل اللہ کے لئے ہوتا ہے غیر کے لئے نہیں، اے منافق ! ان اللہ والوں کی تجھے کیا خبر نہ ایمان کی خبر اور نہ اللہ کے انس کی کچھ خبر، تو سراسر بے خبر ہے، جلد ہی مرے گا اور مرنے کے بعد رسوا ہوگا ، تو نے زبان کی فصاحت پر انحصار کر لیا جبکہ دل کو گونگا بنا لیا۔ یہ تیرے فائدے کی بات نہیں ۔ دل کی فصاحت چاہئیے زبان کی نہیں۔ اپنے نفس پر ہزار بار رو اور غیر پر ایک بار! اے مردہ دل! اے اولیاء اللہ سے باغی ہونے والے! اے اسراف کرنے والے! اے اپنے آپ میں اور ما سوی اللہ میں گم ہو کر اللہ سے دور ہو جانے والے اس طرح سے رویا کر
!: إلهي إني كنت اخرس فانطقتنى فانفع الخلق بنطقي وكمل لهم السّلاح على يدى والا ردني إلى الخرس ’’یا اللہ! میں گونگا تھا تو نے مجھے گویائی عطا کی ،لہذا میری گویائی سے خلقت کو فائد ہ عطا فرما، اور میرے ہاتھ پر ان کی کامل اصلاح کر دے، ورنہ مجھے پھر گونگا بنادے اللہ سے اس کی قدرت کے مطابق سوال کرو:
اے لوگو! میں تمہیں سرخ موت کی طرف بلاتا ہوں ، وہ سرخ موت ہے نفس اور خواہش اور عادت اور شیطان اور دنیا کی مخالفت کرنا، اور مخلوق سے کنارہ کش ہو جانا اور کل ما سوی اللہ کو چھوڑ دینا ۔ ان سب احوال میں جہاد کرو اور مایویں نہ ہونا۔کیونکہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ وہ ہر دن ایک نئی شان میں ہے ۔ اس کی قدرت کے اندازے پر اس سے مانگو، – قدرت کے اعتبار سے مانگو حکمت کے اعتبار سے نہیں ، اس کے علم کی حیثیت پر سوال کرو،اپنے علم کی حیثیت سے نہیں ،اپنے دلوں اور باطنوں کے ساتھ سوال کرو، چرب زبانی سے نہیں، تمہاراسوال تمہارے علم اور قدرت کے اندازے سے بڑھ کر ہو، اس کے سامنے تمام چیزوں سے مفلس ہوکر کھڑے ہو، اس پر نہ عامل و حاکم بنو ،نہ اس پر اپنی اوقات دکھاؤ اور عقل مندی کے جوہر دکھاؤ ، اور نہ ہی اپنی ناقص تدبیروں سے اس کی تدبیر کے خلاف کرو، جاہلوں کی طرف مائل نہ ہو، جو اپنے علم پرعمل نہ کرے، وہ بندہ جاہل ہے خواہ کیسا ہی علم کا حافظ ہو اور اس کا مفہوم جاننے والا ہو، علم سیکھ کر اس پرعمل نہ کرنا تجھے خلقت کی طرف لوٹا تا ہے ۔ اورعلم سیکھ کر اس پرعمل کرنا تجھے خالق کی طرف لے جاتا ہے، دنیا سے بے رغبت کرتا ہے اور باطن سے خبر دار کرتا ہے، ظاہری آرائش سے باز رکھتا ہے اور باطن کی زیبائش کا الہام کرتا ہے، اب تیراولی و کارساز اللہ تعالی ہو جائے گا کیونکہ اب تو اس لائق ہو گیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے: وَهُوَ ‌يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ نیکوں کا والی اللہ ہے ۔ ان کے ظاہر اور باطن کا والی ہے، حکمت کے ہاتھوں سے ان کے ظاہر کی اور علم کے ہاتھوں سے باطن کی تربیت کرتا ہے، وہ نہ تو اللہ کے غیر سے خوف کرتے ہیں اور نہ اس سے کچھ امید رکھتے ہیں ۔ان کا سب لین دین اللہ سے اور اس کے راستہ میں ہوتا ہے، وہ غیر سے وحشت کرتے ہیں جبکہ رب سے مانوس رہتے ہیں اور اس سے سکون پاتے ہیں، یہ آ خری دور ہے، اس میں بہت کچھ بدل گیا ہے، نبوت کا دور دور چلا گیا ،یہ زمانہ نفاق اور فتور کا زمانہ ہے۔
اے منافق اتو مخلوق اور دنیا کا بندہ ہے ، ان کے دکھاوے کے لئے عمل کرتا ہے ، اور اپنی طرف اللہ کی توجہ نظر کو بھلا دیا ہے۔ بظاہر تیرے عمل آخرت کے لئے ہیں جبکہ تیرا ہرعمل اور ارادہ صرف دنیا کے لئے ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا
مَنْ تَزَيَّنَ بِعَمَلِ الْآخِرَةِ، وَهُوَ لَا يُرِيدُهَا، وَلَا يَطْلُبُهَا ‌لُعِنَ ‌فِي ‌السَّمَاوَاتِ وَالْأَرَضِينَجب بندہ اپنے عمل کو آخرت کے لئے آرائش کرتا ہے اور اس کا مقصود اور ارادہ آخرت نہیں ہوتا تو اس کے نام ونسب کے ساتھ آسمانوں پرلعنت کی جاتی ہے۔
اے منافقو! میں تمہیں شریعت وطریقت کے طریقوں سے پہچانتا ہوں لیکن اللہ کی عیب پوشی کے باعث تمہاری پردہ داری کرتا ہوں، تجھ پر افسوس، تجھے کچھ حیا نہیں ، تیرے اعضاء گنا ہوں اور ظاہری نجاستوں سے پاک نہیں ہیں جبکہ تجھے باطن کی طہارت کا دعوی ہے، ابھی تو دل ٹھیک طرح سے پاک نہیں ہوا، باطن کیسے پاک ہو گیا ، خلقت کے ساتھ تیرا ادب کا طریقہ نہیں جبکہ تجھے خالق کے ساتھ ادب کا دعوی کرتا ہے، معلم تجھ سے راضی نہیں ہوا اور نہ تو نے اس کا ادب کیا ، نہ اس کے حکموں کو بجالائے ، اور تو منبر پر بیٹھ کر صدر بن گیا ، وعظ شروع کر دیا تجھے وعظ کہنا جائز نہیں جب تک کہ تو توحید کے پاؤں پر کھڑا ہواور اللہ کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرے، اپنی ہستی کی خودی سے کنارہ کش ہو کر لطف کی گود میں بیٹھ جائے ،اور انس کے بازو تلے چھپ جائے ، اور اخلاص کا دانہ چگنے لگے اور مشاہدہ الہی کا پانی پیئے ، اس حال پر قائم رہے یہاں تک کہ تو شاہی مرغ بن جائے ، اس مقام پر تو مرغوں کا نگران بن جائے گا ، اور ان پر دانے کا ایثار کر کے، اذان دے کر لوگوں کو رات دن ہوشیار کرنے والا ہو جائے گا ، اور انہیں اطاعت الہی کے لئے بیدار کرتا رہے گا۔ اے جاہل! تو دفتر کو اپنے ہاتھ سے پھینک دے اور سر کے بل آ کر میرے پاس ادب سے بیٹھ جا۔علم مردان خدا کی زبانوں سے حاصل ہوتا ہے، دفتروں سے نہیں ، علم حال سے حاصل ہوتا ہے قال سے نہیں ،- ان سے ملتا ہے جو اپنے وجود اور سب خلقت سے فانی اور اللہ سے باقی ہوں۔ ولایت کا دارو مدار تیری فنا پر ہے، تو اپنے آپ سے اورمخلوق سے فنا ہو کر اللہ کے ساتھ وجود حاصل کر ، غیر سے فنا ہوکر اللہ کے ساتھ اس کے لئے زندگی کر ، اللہ کے ان خادموں کی صحبت میں رہ جو اس کا در کبھی نہیں چھوڑتے ،فرمان الہی پر عمل کرنا، نہی سے باز رہنا، اور تقدیر میں اللہ کی موافقت کرنا ان کا مشغلہ ہے، اپنے آپ میں اللہ کے فعل اور ارادے کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں ۔ اپنے اور پرائے کے بارے میں اللہ سے کسی قسم کا جھگڑا نہیں ، نہ انہیں کم یا زیادہ اورگھٹیا، بڑھیا پرکوئی اعتراض ہے ۔ اللہ کی خدمت سے منہ موڑ کے نفس کی خواہشیں ، حرصیں اور غرضیں نہ پوری کر ، اولیاء اللہ خلقت سے کسی ضرورت کے بغیر رکھ رکھاؤ سے طلب کرتے ہیں ۔ انہیں ذاتی طور پر کوئی حاجت نہیں ، بلکہ اللہ انہیں مخلوق پر شفقت کرنے کے لئے الہام فرما دیتا ہے۔ نفس کی پیروی سے نہیں مجبور اطلب کرتے ہیں، کیونکہ ان کا نفس مطمئن ہو گیا ہے۔ دنیا سے متعلق ان کا کوئی ارادہ یا شہوت نہیں۔ تیرا گمان ہے کہ کہ ان کا نفس تیرے نفس جیسا جاہل ہے۔ جس نے تجھے صرف اپنی خدمت اور اپنے ارادے اور اپنی حرص کے لئے وقف کر رکھا ہے، اگرتجھے کچھ عقل ہوتی تو نفس کی خدمت سے منہ پھیر لیتا اور اپنے رب کی خدمت میں لگ جاتا۔ نفس تیرا دشمن ہے، اسے جواب دینے سے خاموش رہنا بہتر ہے، اس کی بات کو دیوار پر مار دے۔ اس کی بات ایسے سن جیسے کسی دیوانے بے عقل کی بات سنی جاتی ہے، نہ اس کی بات کی طرف اور نہ اس کی شہوتوں اور لذتوں اور خواہشوں کی طلب کے لئے توجہ کر نفس کی بات ماننے میں اس کی اور تیری ہلاکت ہے۔ تیری اورتیرے نفس کی بہتری اس کے خلاف کرنے میں ہے۔ اللہ کی فرماں برداری میں نفس کو ہر جگہ سے رزق آتا ہے، اور جب اللہ کی نافرمانی کے لئے متکبر ہو جا تا ہے تو رزق کے اسباب نہیں رہتے ، وہ طرح طرح کی تکلیفوں میں گرفتار ہو جا تا ہے ، جس سے تیری اور اس کی ہلاکت کا سامان ہو جا تا ہے۔اور نفس دنیاوآخرت میں خسارہ اٹھانے والا ہو جا تا ہے ۔ جس کا نفس فرماں بردار اور قناعت کرنے والا ہو جاتا ہے، وہ رضائے الہی سے اپنے نصیب کا رزق پالیتا ہے ۔ یوں کوئی تکلیف اٹھائے بغیر ماسوی اللہ سے فارغ ہو جا تا ہے،دنیا اوراس کی فضولیات اور مشقتوں سے سکون پالیتا ہے،اپنے فرائض کو خوش دلی سے ادا کرتارہتا ہے، اے دولت والو! میری دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرو، ورنہ وہ نعمتیں چھین لی جائیں گی، شکر سے نعمت کے پرتراش دے ورنہ تیرے پاس سے اڑ جائے گی ، جو اپنے رب کے ہاں مرا ہوا ہے ، وہ مردہ ہے ، خواہ دنیاوالوں کے لئے وہ زندہ ہو، اسے زندگی سے کیا لینا دینا جب وہ اسے شہوتوں لذتوں اور نفسانی حرصوں کے حاصل کرنے میں صرف کرے گا، ایسا بندہ ظاہری طور پر زندہ اور باطنی طور پر مردہ ہے، اللهم أحينابك وامتنا عن غيرك الہی ہمیں اپنے ساتھ زندہ رکھ اور غیر کے ساتھ مردہ رکھ۔ اے عمر کے بوڑھے، عادت کے بچے! تو کب تک بچپنے کی عادت سے دنیا کی فضولیات کے لئے بھا گتار ہے گا ۔ تو نے دنیا کی طلب کو زندگی کا مقصد بنالیا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ تیری طلب وہ ہے جو تجھے پریشان کر کے رکھ دے، چنانچہ تو اس کا بندہ ہے جس کے ہاتھ میں ڈور ہے: –
اگر تیری ڈوردنیا کے ہاتھ میں ہے تو تو دنیا کا بندہ ہے، اگر تیری ڈور آخرت کے ہاتھ میں ہے تو تو آ خرت کا بندہ ہے، اگر تیری ڈوراللہ کے ہاتھ میں ہے تو تو اللہ کا بندہ ہے ، اگر تیری ڈورنفس کے ہاتھ میں ہے تو تونفس کا بندہ ہے، اگر تیری ڈور خواہش کے ہاتھ میں ہے تو تو خواہش کا بندہ ہے، اگر تیری ڈور مخلوق کے ہاتھ میں ہے تو تو مخلوق کا بندہ ہے اب خود ہی دیکھ لے کہ تیری ڈورکس کے ہاتھ میں ہے، تم میں سے زیادہ تر دنیا کے طالب ہیں ، اور چند ایک آخرت کی تمنا رکھتے ہیں ، اور دنیا و آخرت کے مالک کے چاہنے والے شاذ و نادر ہیں ، تو بڑے ادب سے انہی کی صحبت اختیار کر نہ ان سے جھگڑا کر ، نہ ان سے منہ موڑ ، ان کے ساتھ گستاخی نہ کر ورنہ برباد ہو جائے گا۔
عقل کرو تم اپنے عملوں سے اللہ کو ناراض کر رہے ہو، اس کے ہاں تمہارے عملوں کی مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت نہیں ، اپنی خلوتوں اور جلوتوں میں اور سب احوال میں اخلاص سے کام لو گے تو کوئی مقام مل جائے گا، صدق اور اخلاص اور خوف خدا ایسے خزانے میں جو بھی فنا نہ ہوں گے۔ اللہ ہی سے امید رکھو، اور سب احوال میں اس کی طرف رجوع کرد، ایمان کو قائم رکھ وہ تجھے اولیاء اللہ سے ملوادے گا ، جب تو ان میں سے کسی سے ملے تو اپنا بازوان کے سامنے جھکا دے، اور اپناحال اس کے حوالے کر دے- اس سے کوئی جھگڑانہ کر ، خاموش رہ ، اور اپنی بے ادبی سے اسے دکھ نہ دے ۔ جس بات کا علم نہ ہو اس میں خاموشی بہتر ہے، اور جسے تو نہیں جانتا اس کو تسلیم کرنا ہی اسلام ہے ۔
اولیاءاللہ نبیوں کے قائم مقام ہیں:
اے کمزور ایمان والے !انہ تیرے پاس دنیا ہے نہ آخرت ہے، اس کی وجہ تیری اللہ کے حضور میں گستاخی اور اولیاء اللہ اور ابدال پر تہمت لگانا ہے، جو کہ نبیوں کے قائم مقام ہیں، انہیں وہ کچھ عطافرمایا جونبیوں اور صدیقوں کو عطا فرمایا، انبیاء کے اعمال اور علوم ان کے حوالے کئے ،انہیں ان کے نفسوں اور خواہشوں سے فنا کیا، اور اپنے ساتھ وجودعنایت فرمایا، انہیں اپنے ہاں جگہ عطا فرمائی ، ان کے دلوں کو ماسوی اللہ سے پاک کیا،د نیا وآخرت اور ساری خلقت ان کی دسترس میں ہے، انہیں اپنی قدرت دکھائی ، اپنا حکم اورعلم سکھایا، انہیں اپنی طاقت وقوت مرحمت فرمائی ، انہیں خدائی قوت حاصل ہے۔ ان کے لئے:لَا ‌حَوْلَ ‌وَلَا ‌قُوَّةَ ‌إِلَّا ‌بِاللَّهِ ‌الْعَلِيِّ ‌الْعَظِيمِ – نہ گناہ سے بچنے اور نیکی کی طاقت مگر اللہ بزرگ و برتر ساتھ ہے ۔‘‘ کہنا درست ہے ۔۔ وہ اس قول پر پورے اترے، چنانچہ انہوں نے اپنی طاقت اور خلافت کی تمام قوتیں فنا کر دیں، اور اللہ کی قوت سے مدد حاصل کی ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یہ دعا فرمایا کرتے: إِلَهِي ‌مَا ‌أُرِيدُ فَإِنْ لَمْ تُعْطِنِي ‌مَا ‌أُرِيدُ ‌فَصَبِّرْنِي عَلَى مَا تُرِيدُ الہی جو میں چاہتا ہوں اگر تو وہ نہ کرے تو مجھے اس پر صبر کرنے والا بنا دے جوتو کرنا چاہتا ہے۔
علم عمل کو بلا تا ہے :
اے بیٹا! جود نیا اللہ سے جھگڑا کر کے ملے ، اس سے کہیں اچھا ہے کہ اللہ کی رضا پر راضی رہا جائے ، اس کی رضا کی شیر ینی صدیقوں کے دلوں میں تمام شہوتوں اور لذتوں سے زیادہ میٹھی ہے ۔ ان کے خیال میں یہ تمام دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، سے زیادہ مٹھاس رکھتی ہے ۔ اس لئے کہ وہ احوال مختلف ہونے کے باوجود زندگی کو خوش باش رکھتی ہے، لوگوں سے علم عمل اور اخلاص کی زبان سے بات کیا کر ، جوعمل علم کے بغیر ہو، اس عمل کی زبان کے ساتھ بات نہ کر ، کیوں کہ یہ تجھے اور تیرے پاس بیٹھنے والوں کو کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفر مایا:
يَهْتِفُ ‌الْعِلْمُ بِالْعَمَلِ علم عمل کو بلاتا ہے ۔
چنانچہ ۔ اگر وہ اس کے بلانے پر آ جائے تو ٹھیک، ورنہ علم چلا جا تا ہے۔ علم کی برکت چلی جاتی ہے، تیرے خلاف حجت باقی رہ جاتی ہے، اپنے علم کے گھمنڈ میں پڑا ہواعالم رہ جاتا ہے،تیرے پاس علم کا درخت رہ جاتا ہے، اس کا پھل چلا جاتا ہے۔
اللہ سے یہ دعا کر کہ وہ تجھے اپنے دربار کی حاضری اور ادب سے نواز دے، اور یہ بھی دعا کر کہ اس عطا کو چھپا کے رکھے، اور اس عنایت میں سے کوئی شے ظاہر کرنے کی آرزو نہ کرے، اللہ اور اپنے درمیان کے اس راز کے اظہار کی خواہش تیری بر بادی کا سبب بن سکتی ہے، اپنے احوال واعمال پر غرور سے خود کو بچا، کیونکہ یہ تجھے سرکشی میں ڈال سکتا ہے اور اللہ کی نظر سے گرا سکتا ہے۔ خلقت کو وعظ سنا کر اپنے مشہور ہونے کی خواہش سے بچ جا، یہ تیرے فائدے کی بات نہیں ۔ نقصان دینے والی ہے، معاملہ صحیح ہونے تک ایک جملہ بھی نہ کہہ تا کہ اللہ کی طرف سے یقینی امر ہو جائے ، تو لوگوں کو اپنے گھر کی دعوت کس لئے دیتا ہے جبکہ تو نے ابھی تک کھانا بھی تیار نہیں کیا ۔ اس کے لئے پہلے بنیاد درکار ہے پھر عمارت بن سکے گی ۔ اپنے دل کی زمین کو اس وقت تک کھودتا رہ حتی کہ اس میں سے حکمت کا چشمہ پھوٹ نکلے، پھر اخلاص اور مجاہدوں اور نیک اعمال سے تعمیر کا آغاز کر یہاں تک کہ تیراکل بلند ہو جائے ، اس کے بعد لوگوں کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے۔
اللهم احي اجساد أعمالنا بروح إخلاصك الہی! ہمارے اعمال کے جسموں کو اپنے اخلاص کی روح سے زندہ رکھ۔‘‘
خلقت سے خلوت تجھے کیا نفع دے گی جبکہ خلقت تیرے دل میں ہے، بالکل نہیں! ۔ تیری اور تیری خلوت نشینی کی کوئی عزت و وقعت نہ ہوگی، خلقت کو دل میں لئے ہوئے خلوت کرے گا تو تجھے انس الہی کے بغیرا کیلے ہی بیٹھنا ہوگا ، تیری خلوت نشینی بیکار ہوگی کیونکہ نفس وشیطان اور خواہش نفسانی تیرے ساتھی ہوں گے ، ایسے میں تمہارا دل اللہ کے ساتھ انس پانے والا ہوگا ۔ چنانچہ تو اگر چہ اہل وعیال دوستوں رشتہ داروں کے درمیان میں ہی کیوں نہ ہو، خلقت سے خالی ہوگا ۔ انس الہی جب تیرے دل میں جگہ بنالے گا تو تیرے وجود کی دیواریں گرا دے گا،تیری بصیرت کی آنکھیں بینا ہو جائیں گی اور تو اللہ کافعل و فضل دیکھنے لگے گا، غیر کو چھوڑ کر اس سے راضی رہے گا، جو بندہ شرع کا پابند ہو کر کسی ایک حال میں ہو، اور تو اس سے اوپر اور نیچے اور فنا اور بقا کی خواہش نہ کرے، اسے اللہ کی رضا ، اس کی موافقت اور عبودیت کی شرط حاصل ہو گئی
جوموت سے نصیحت نہ لے، اس کے لئے اور کوئی راہ نہیں
تجھ پر افسوس ! جھوٹ مت بول، اس کی رضا پر راضی رہنے کا دعوی کرتا ہے جبکہ ایک مچھر اور ایک لقمے اور ایک جملے اور ذرا سی بے عزتی سے پریشان ہو جا تا ہے، جھوٹ نہ بول ، نہ میں تیرا جھوٹ سنوں گا ، نہ اس پرعمل کروں گا اور نہ ہی اس کی تصدیق کروں گا ۔
خلقت میں سے بہت کم لوگ ہیں کہ جن کے دلوں پر الہام کیا جا تا ہے، ان میں وہ کلمات ڈال دیئے جاتے ہیں جو انہی کے لئے خاص ہیں ، انہیں بھلائی کی اطلاع دی جاتی ہے، اور وہ اس پر قائم ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیسے نہ ہو وہ رسول اکرم ﷺ کے ان اقوال وافعال میں اتباع کرتے ہیں جو آپ ﷺ پر ظاہری وحی کی شکل میں نازل ہوئے ، جبکہ ان کے دلوں پر باطنی وحی ہوتی ہے، کیونکہ اولیاء اللہ آپ ﷺ کے وارث اور سب احکام میں آپ کی فرماں برداری کرتے ہیں ۔ اگر تم چاہو کہ یہ فرماں برداری تمہارے لئے صحیح اور درست ہو جائے تو موت کا ذکر کثرت کے ساتھ کرو، کیونکہ موت کا ذکر نفس اور شیطان اور حرص اور دنیا کے چھوڑ دینے میں معاون ہوتا ہے، جوموت سے نصیحت نہ لے، اس کے لئے اور کوئی راہ نہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: كَفَى ‌بِالْمَوْتِ وَاعِظًا نصیحت کے لئے موت کافی ہے نصیب کا لکھامل کر رہے گا خواہ تو رغبت کرے یا نہ کرے اگر تو بے رغبتی کرے تو نصیب کا لکھابا عزت طور پر پہنچے گا ، اگر تو رغبت کرے تو نصیب کا لکھا باعزت طریقے سے نہ پہنچے گا ، منافق کے پاس جب خلقت موجود ہوتی ہے ، تب اللہ سے شرم محسوس کرتا ہے ، اور جب تنہا ہو تو بے حیا ہو جا تا ہے او ر اللہ تعالی سے مطلق شرم نہیں کرتا ۔ تجھ پرافسوس ! اگر تیرا ایمان اور عقیدہ صحیح ہوتا کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے،تجھ سے قریب ہے اور تیری حفاظت کر رہا ہے تو ضرور اس سے شرم وحیا کرتا ، میں تم سے حق کہہ رہا ہوں ، نہ مجھے تم سے کوئی ڈر ہے اور نہ ہی کوئی امید، تم اور کرہ زمین پر سبھی رہنے والے میرے لئے مچھر اور چیونٹی سے بھی زیادہ کمزور ہو۔ جو بھی کوئی نفع و نقصان ہے اسے میں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں تمہاری طرف سے نہیں ، رعایا اور بادشاہ میرے لئے دونوں برابر ہیں ۔تم اگر اپنے نفسوں اور دوسروں پر کوئی اعتراض اٹھاؤ تو وہ شریعت کے دائرے میں ہونا چاہئے ،خواہش نفس اور حرص کے دل سے نہیں ، جس بات میں شریعت خاموش ہو، اس میں تم بھی خاموشی سے شریعت کی موافقت کر جس معاملے میں شریعت کا واضح حکم ہو، اس میں تم بھی موافقت کرو۔
اللہ ہی مددکرنے والا ہے:
اے بیٹا! اپنے نفس اور خواہش کے دباؤ سے کسی پر اعتراض نہ کر، بلکہ جیسا ایمان کہے ویسا کر ، اعتراض کر نیوالا حقیقت میں ایمان ہی ہے اور یقین ہی ان شبہات کو دور کرنے والا ہے ۔ اللہ ہی مدد کرنے والا ہے ، وہی مدد کرے گا اور وہی فخرکرنے والا ہے۔ ارشاد باری ہے: – إِنْ ‌يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ اگر اللہ تمہاری مدد کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہ ہوگا ۔ – إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ ‌يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ا گرتم اللہ کی مدد کرو گے تواللہ تمہاری مددکرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘
جب تو کسی ناپسندیدہ امر پر اللہ سے غیرت کر کے اعتراض کرے گا: اللہ اسے دور کرنے میں مدد کرے گا۔ اس کے کرنے والے پر تجھے نصرت عطا کرے گا ، ان سب کو تیرے لئے ذلیل کر دے گا ۔ اور تو اگرنفس وخواہش اور شیطان اور اپنی عادت کے ورغلانے سے اعتراض کرے گا تو-اللہ تجھے رسوا کرے گا، اس کے اہل پر تیری مد د نہ کرے گا،اسے دور کرنے پر تجھے قدرت نہ ہوگی۔
حقیقت میں ایمان ہی اعتراض کرنے والا ہوسکتا ہے، ہردہ معترض جس کے اعتراض کی بنیاد ایمان پر نہ ہو وہ معترض ہی نہیں ، لفظ لا(نہیں) سے اعتراض کر کے اگر تو چاہتا ہے کہ یہ فقط : اللہ کے لئے ہو مخلوق کے لئے نہیں،دین کے لئے ہو نفس کے لئے نہیں، اللہ کے لئے ہو تیرے فائدے کے لئے نہیں۔
چنانچہ تو حرص کو ترک کر دے، اخلاص سے عمل کر موت تیری تاک میں ہے ، اس کے پل سے لازمی گزرنا ہوگا ۔ جس حرص نےتجھے رسوا کیا ہے، اسے چھوڑ دے، جو تیرے نصیب کا لکھا ہے، تجھے ضرور ملے گا ، اور جو غیر کے نصیب کا ہے وہ ہر گز نہ ملے گا، اللہ کے ساتھ مشغول ہو جا اور دوسروں کے نصیب کی طلب چھوڑ دے۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول مکرم ﷺ سے ارشادفرمایا:
وَلَا ‌تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ’’آپ ادھر اپنی نگاہ نہ ڈالئے کہ ہم نے انہیں ان کی عورتوں سے نفع دیا، دنیا کی زندگی کی زینت محض ان کی آزمائش کے لئے ہے۔“
اللہ کے عارفوں پر سب سے کٹھن مخلوق کے ساتھ بولنا چالنا اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے۔ اس لئے ہزار عارفوں میں سے کوئی ایک ہی کلام کرنے والا ہوتا ہے، کیونکہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی قوت کا محتاج ہے، ان کی قوت کا محتاج کیوں نہ ہو کیونکہ وہ رنگ رنگ کی خلقت میں بیٹھنا چاہتا ہے سمجھ داروں اور ناسمجھوں سے ملتا ہے، منافق اور مومن سے ملتا ہے، وہ بڑی سخت آزمائش میں ہے، جسے نا پسند کرتا ہے اس پر صبر کرتا ہے اس کے باوجود وہ ہر طرح کے مصائب سے اللہ کی حفاظت میں ہوتا ہے ، اس کی مدد کی جاتی ہے، کیونکہ وہ حکم الہی کی تعمیل کے لئے مخلوق کے ساتھ کلام کرتا ہے، وہ یہ کچھ اپنے نفس اور حرص اور اختیار اور ارادے سے نہیں کرتا ،اسے اللہ کی طرف سے کلام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اس لئے وہ اللہ کی حفاظت میں ہوتا ہے، اگر تیرا معرفت الہی حاصلکرنے کا ارادہ ہے تو اپنے دل سے مخلوق کی قدر نکال دے، ان سے ہونے والے فائدے اور نقصان کو نہ دیکھ کیونکہ اس کے بغیر اللہ کی معرفت محال ہے تیرے پر افسوس دنیا کو ہاتھ میں رکھنا جائز ہے، جیب میں رکھنا جائز ہے، کسی سبب سے نیک نیت کے ساتھ اسے جمع رکھنا جائز ہے،د نیا کو دل میں رکھنا جائز نہیں ، اس کا دروازے پر کھڑا ہونا جائز ہے، دروازے کے اندرآ نا جائز نہیں ، اس میں تیری کچھ عزت نہیں ، جب یہ بندہ اپنے وجود اور مخلوق سے فنا ہو جائے تو ایسے لگتا ہے جیسے کہ محو اورگم ہے، آفتوں کے نازل ہونے پر اس کا باطن متغیر نہیں ، امرالہی کی بجا آوری کے لئے موجود ہو جا تا ہے، اور نہی آنے پر اس سے منع رہتا ہے، نہ کسی چیز کی وہ تمنا کرتا ہے اور نہ کسی شے پر حرص کرتا ہے ، اس کے دل پر تکوین وارد ہوتی ہے؟ ہرشے میں تصرف کا اختیار اس کے سپردکر دیا جا تا ہے ،تم میں اور ان میں کیا تعلق ! – اے اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوا ۔ اللہ کے خاص بندوں سے تعلق توڑنے والو! تو ظاہری ظلم اور ظاہری نفاق میں مبتلا ہے، یہ نفاق کب تک چلے گا، اے عالمو! – اے زاہدو! تم کب تک بادشاہوں اور امیروں کے لئے نفاق سے کام لیتے رہو گے ، تا کہ ان سے دنیا کا مال اور اس کی شہوتیں اور لذتیں حاصل کرتے رہو، تم اور اس دور کے اکثر حکمران ظالم ہیں اور اللہ اور اس کے بندوں کے مال میں خیانت کرنے والے ہیں
اللهم اكسر شوكة المنافقين واخذلهم أو تب عليهم واقمع الظلمة وطهر الأرض منهم أو اصلحهم امين! ه الہی! منافقوں کی شوکت ودبد بہ کوتوڑ دے اور انہیں ذلیل ورسوا کر دے، یا انہیں تو بہ کی توفیق دے، ظالموں کو ملیا میٹ کر دے اور زمین کو ان سے پاک کر دے یا ان کی اصلاح کر دے، آمین!‘‘
اے حکمرانو! اے رعایا! اے ظالمو! اے منافقو! – اے مخلصو- یا درکھو، دنیا تھوڑی دیر کے لئے ہے اور آخرت سدا کے لئے ہے، اپنے مجاہدے اور زہد سے اللہ کے سوا سب کو چھوڑ دے، غیر اللہ سے دل کو پاک وصاف کرلے اس بات سے ڈرتارہ کہ تجھے :’ کوئی شکار نہ کرلے،کوئی اسیر نہ کر لے، تجھے تیرے خالق و مالک سے نہ روک لے، جب تیرے نصیب کے لکھنے کا حصہ تیرے پاس آئے تو حکم الہی اور اس کی موافقت میں زہد کے قدموں پر کھڑے ہو کر لے لے، دنیا کی محبت اور اپنے اختیار کے ہاتھوں سے نہ لے، زہد میں استقامت بدن میں اثر لاتی ہے، دل میں غم آ تا ہے اور بدن میں کمزوری آتی ہے، یہ غم اورکمزوری جب ثابت ہو جائے تو اللہ کی طرف سے اسے فرحت اور معرفت الہی عطاہوتی ہے۔ جس سے اس کاغم اور فکر جا تارہتا ہے۔ ایمان والے کا دل ،خلقت واہل وعیال اور مال سے تنگ رہتا ہے، ظاہری طور پر ان سے مشغول ہوتا ہے، مگر اندرونی طور سے اس کا دل بادشاہ کے پیام بر کا منتظر رہتا ہے ، اہل وعیال سے رخصت ہو کر شہر کےدروازے پرپہنچ گیا جبکہ ان کے بیچ میں بیٹھا ہوا ہے۔ ایمان والا خلقت کے بیچ میں رہتے ہوئے ان سے رخصت ہو چکا ہے، اس کا رہنا سہنا خلقت ہی کے ساتھ ہے جبکہ اس کی اصل رگ خالق کے ساتھ ہے۔
توحید جب دل میں گھر کر لیتی ہے تو ظاہری عمل بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں، کیونکہ یہ تیرے ظاہر و باطن ، تیری تو نگری وفقیری، خلقت کے توجہ کرنے اور منہ موڑ نے اور ان کی برائی بھلائی سب کو ایک سا کر دیتی ہے، تو انہیں اپنے دل سے کیونکر نہ نکالے گا حالانکہ تیرادل وسعت کے باوجودان کے لئے تنگ پڑ گیا ہے وہ اللہ اور اس کے ذکر اور اس کے شوق سے بھر پور ہو گیا
ہے۔ اس وقت تو اس آیت مبارکہ کے مفہوم کا پیکر بن گیا ہے۔ ‌هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ” یہاں صرف اللہ سچے کی مملکت ہے۔ اور تو سچامحب، عالم معلم حکیم محکم ،قریب وقریب ومقرب ، ادیب مؤدب، خلقت سے بے نیاز یعنی اللہ کی طرف سے کفایت والاہو جاتا ہے۔
اے جاہل ! جہالت چھوڑ کرعلم سیکھ لے، خود پڑھنے سیکھنے کو چھوڑ بیٹھا اور اب دوسروں کو سکھانے میں لگ گیا ہے۔ تو تکلیف نہ ا ٹھا، یہ تیرے بس کی بات نہیں ، اس سے نہ کچھ تجھے فائدہ ہوگا، کسی اور کا کوئی بھلا ہوگا ، کیونکہ جو بندہ اپنے نفس کو صحیح طرح سے کچھ نہیں سکھا سکتا وہ کسی اور کو کیا سکھائے گا۔
اللہ کی قدرت کو عاجز نہ جانو :
اے لوگو! اللہ کی قدرت کو عا جز نہ جانو ، ورنہ کافروں میں سے ہو جاؤ گے ، جوحکم ہے اس پرعمل کرو، تا کہ یہ عمل تمہیں علم سے ملا دے ۔ جب عمل ثابت ہو جائے گا تو قدرت میں نظر آ جائے گی ، تب تمہارے دلوں اور باطنوں کے ہاتھ میں سارا جہان دے دیا جائے گا ۔ تم جو چاہو گے وہ ہونے لگے گا،دلی طور سے جب اللہ اور تمہارے درمیان کوئی حجاب نہ رہے گا تمہیں موجودات پر قدرت عطا کر دے گا، اپنے راز کے خزانوں سے مطلع کر دے گا ، اپنے فضل کے دستر خوان سے کھانا کھلائے گا۔ اپنے انس کا شربت پلائے گا،اپنے قرب کے دستر خوان پر بٹھائے گا ، یہ سب کتاب وسنت کے علم اور اس پرعمل کا ثمرہ ہے ، تو ان دونوں پر عمل کر ان سے الگ مت ہو،حتی کہ تیرے پاس علم کا مالک اللہ آ جائے ، اور تجھے اپنے پاس لے لے، شریعت سکھانے والا جب اپنی طرف سے تیری مہارت کی تصدیق کر دے گا تو تجھے علم طریقت کی کتاب کی طرف منتقل کر دے اور جب تو اسے بھی اچھی طرح سے سیکھ لے گا ،تب تیرا دل اور باطن قائم کر دیئے جائیں گے، اور رسول اکرم ﷺ ان دونوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے ساتھ ہوں گے ۔ انہیں بادشاہ حقیقی ،علم کے مالک کے روبرو کھڑا کر دیں گے، اور ان سے فرمائیں گے: ها انتما وربكما اب تم دونوں ہو اور تمہارارب ، وہ جانے اور تم ‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 357،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 189دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
باون ویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے باون ویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثانی والخمسون النظر الی الناس بعین الغناء‘‘ ہے۔
منعقدہ 3 رمضان 545 بروز صبح جمعه بمقام مدرسہ قادریہ
اللہ کی طرف دوڑ و، سب کام اسی کی طرف لوٹتے ہیں:
اے لوگو! اللہ کی طرف دوڑ و، خلقت اور دنیا اور ما سوی اللہ سے ناطہ توڑ کے اللہ کی طرف بھا گو! دلوں سے اللہ کی طرف چلو ، کیا تم نے یہ ارشاد باری نہیں سنا:
أَلَا إِلَى اللَّهِ ‌تَصِيرُ الْأُمُورُ سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں ۔ اے بیٹا مخلوق کو بقا کی آنکھ سے نہ دیکھ بلکہ انکی طرف فنا کی آنکھ سے دیکھ کہ سب فانی ہیں ، انہیں نفع ونقصان کی آنکھ سے نہ دیکھ بلکہ انہیں ذلت اور عاجزی کی آنکھ سے دیکھ، اس لئے کہ یہ سب اللہ کے سامنے عاجز وذلیل ہیں ۔ اللہ کو ایک جان اور اسی پر بھروسہ کر اور جس بات سے وہ فارغ ہو چکا ہے اس میں بکواس نہ کر، نیا اور جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے وہ سب سے فارغ ہو چکا ہے، خلقت میں جو انقلابات اور تغیرات ہونا ہیں، ان سے فارغ ہو چکا ہے، مسلمان کا دل ان سب سے فارغ ہے، خاص کر جب وہ تمام اسباب سے بالکل خالی ہو جائے تو وہ اپنے حال میں زیادہ مضبوط ہو جا تا ہے، اگر اس کے پاس اہل وعیال آ جائیں تو اس پر اس کی مدد کی جاتی ہے، اسے ان کے حمل و برداشت کے لئے قوت عطا کی جاتی ہے ۔ اس کا دل ہر حال میں ماسوی اللہ سے فارغ رہتا ہے مخلوق سے ہمیشہ غائب و دور رہتا ہے، وہ اس سے کسی تغیر وتبد یلی کا تمنائی نہیں ہوتا ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جوشے مقدر ہو چکی ہے وہ بدل نہیں سکتی ، جو شے نصیب میں لکھے جانے سے فارغ ہو چکی ہے، اس میں کمی یا زیادتی نہیں ہوسکتی ،چنانچہ وہ نہ تو زیادتی کو طلب کرتا ہے اور نہ کمی کو، نہ اس میں تاخیر چاہتا ہے نہ اس میں جلدی کا طالب ، کیونکہ ہرشے اور ہر کام کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہو چکا ہے ۔ لوگ ہی عقل والے اور ہشیار ہیں، اور زیادتی کی ،جلدی اور تا خیر چاہنے والے پاگل اور دیوانے ہیں ۔ جو اللہ سے راضی ہوگا، وہ اپنے اور غیر کے سب احوال میں اللہ کی موافقت کرے گا ، اللہ اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے، اسے اپنی معرفت عطا کرتا ہے۔ باقی عمراپنے مقصود کی راہ پر اللہ کے ساتھ گزارتا ہے، پہلے اسے توفیق دیتا ہے، پھر اپنا مقرب بنالیتا ہے، اسے غیرت اور پریشانی میں گم دیکھ کر فرماتاہے: انا ربک میں تیرارب ہوں ۔ ۔ جس طرح کہ موسی علیہ السلام سے فرمایا تھا: إِنِّي أَنَا رَبُّكَ ‌فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ بے شک میں تیرارب ہوں، تو اپنی جوتیاں اتار دے۔“ موسی علیہ السلام سے یہ دار شارظاہری طور پر فرمایا تھا، جبکہ اللہ اپنے عارف کے قلب سے باطنی طور پر ارشادفرماتا ہے، جسے وہ اس کی رحمت اور لطف اور نبی مکرم علیہ الصلوۃ والسلام کی وجاہت سے سنتا ہے ۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزے ظاہری طور پر سامنے آتے ہیں ، جبکہ اولیاء کرام کی کرامتیں باطنی طور پر ہوتی ہیں، اولیاءاللہ انبیاء کرام کے وارث ہیں، یہ اللہ کے دین کو قائم کرنے والے ہیں، اللہ کے دین کی جن اور انسان کے شیطانوں سے حفاظت کرتے ہیں ، تو اللہ اور اس کے رسولوں سے جاہل ہے اور اولیاء اللہ سے ناواقف ہے ۔ اے منافق! تجھے کیسے خبر ہو کہ اولیاء اللہ کس حال میں ہیں اور کیا مقام رکھتے ہیں، تو قرآن مجید پڑھتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کہتا ہے، توعمل کرتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ عمل کیسے کیا جائے ، یہ دنیا ہے جس کی آخرت نہیں، (ایسی نالائقی کے باوجود ) اولیاء اللہ پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔ عقل سے کام لے، ادب سیکھ اور توبہ کر کے لب سی لے ۔ تجھے نہ اللہ کا پتہ ہے نہ رسولوں کا ، اور نہ ہی اولیاء اللہ کا پتہ ہے، نہ اس کے علم کا پتہ ہے کہ وہ تیرے اورمخلوق کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ، تو بہ کر اور خاموش رہ ، اور اپنی عزت کے مطابق قبر میں جانے کی فکر کر، جیسا کہے ویسا کر تا کہ تو علم سیکھ لے، اللہ کے ساتھ چل تا کہ وہ تجھے ایسا نور عطا کرے جس کے ذریعہ تو دنیا وآخرت دونوں کو دیکھ سکے، جو میں کہہ رہا ہوں اسے مان لواور اس میں کوشش کرو، اور جو کچھ تقدیر میں پہلے ہو چکا اس کا پچھتاوا اورغم کرنا چھوڑ دو، کیونکہ یہ صرف تمہاری حرص اور کمزوری کے باعث اور کاہلوں کی حجت ہے، ہم پر لازم ہے کہ ہم تقدیر کے بارے میں بحث و تکرارنہ کریں بلکہ ہم ہمت سے کام لیں اور کوشش کر کے عمل کی عادت ڈالیں ، اس چکر میں نہ پڑیں کہ ایسا کیوں کہا، ایسا کیوں کیا اور کس لئے کیا، نکتہ چینی چھوڑ دیں اور اللہ کے کاموں میں دخل نہ دیں، ہمارا کام کوشش کر کے عمل کرنا ہے، اللہ جو چاہے، کرے ۔ ارشاد باری تعالی ہے: لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ -جو چاہے وہ کرے کوئی پوچھنے والا نہیں ، اور انہیں پوچھا جائے گا۔‘‘
جو تیرا یہ معاملہ انتہا کو پہنچے، اور اللہ تیرے دل کو اپنے قریب کر لے اور دنیا میں تیرازہد درست ہو جائے ،تو آخرت میں رغبت کرنے لگے گا، تیرانام قرب الہی کے دروازے پر لکھا ہوا ہوگا: فلان ابن فلان من عتقاء الله عز وجل –
فلاں کا فلاں بیٹا اللہ کے آزاد بندوں میں سے ہے۔“
چنانچہ یہ ایسی شے ہے کہ اس میں نہ کسی طرح کا تغیر ہوگا نہ تبدل، اور نہ اس میں کمی بیشی کی جائے گی ۔اب تو اللہ کا شکر زیادہ کرے گا ، بھلائی کے کام اور اطاعتیں اس کے سامنے بڑھ جائیں گی ، اس کے باوجود اپنے دل سے اس کا خوف نہ چھوڑ ، نہ اس کی قدرت کو عا جز سمجھے ۔ ارشاد باری ہے: يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ اللہ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور ثابت کرتا ہے ، اوراس کے پاس اصل کتاب ہے۔
: لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ جو چاہے وہ کرے ، کوئی پوچھنے والا نہیں ، اور انہیں پوچھا جائے گا ۔‘‘
اس لکھے ہوئے پرتو اکتفا نہ کر ، کیونکہ اس نے لکھا ہے، وہی مٹانے پر قادر ہے، جس نے بنایا ہے وہی تو ڑ نے پر قادر ہے، تو ہمیشہ اطاعت اور خوف اور دہشت اور بچاؤ کے قدم پر کھڑارہ حتی کہ تجھے موت آ جائے ، اور تو دنیا سے بخیر و عافیت آخرت کی طرف چلا جائے ، اب تجھے تغیر و تبدل سے کوئی خوف نہ ہوگا ، امن وامان سے ہوگا ، اے اپنی جہالت اور نفاق اور دنیا کی طلب اور دنیا کی کشمکش کی وجہ سے اللہ سے مزاحمت کرنے والے! تو تو حرام کھا رہا ہے ، پھر تجھے دل کی نورانیت ، باطن کی صفائی اور دانائی کے ساتھ بات کرنے کی کیسے تمنا اور آرزو ہے، اولیاء اللہ کا کلام تو ضرورت کے تحت ہوتا ہے، ان کی نیند ڈوبے ہوئے کی نیند کی طرح ہے، ان کا کھانا پیاروں کے کھانوں کی مانند ہوتا ہے۔ وہ موت کا وقت آنے تک اسی حال پر رہے ہیں، وہ ان فرشتوں کی مثل ہیں جن کے بارے میں ارشاد باری ہے:
لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ وہاللہ سے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے ، وہی کرتے ہیں جس کے لئے حکم ہوتا ہے۔
یہ فرشتوں کی مثل ہو کر فرشتوں سے بڑھ گئے ہیں۔ کیونکہ فر شتے ان کے خادم ہیں دنیا وآخرت میں ان کی خدمت گزاری میں رہیں گے۔
اللہ تمہیں اپنی رحمت کی وجہ سے دوست رکھتا ہے:
اے لوگو! میری بات چیت اگر تمہارے حال کے موافق نہ ہو، اور تمہاری سمجھ میں نہ آ رہا ہو، تو اسے ایمان اور تصدیق سے سنو میری بات چیت دلوں کے لئے عزت اور وقار کا باعث ہے۔ تم اسے دلوں اور باطنوں سے سنو، تمہارے ظاہر و باطن کو راحت ملے گی۔ تمہارے نفسوں اور خواہشوں کی آن مٹ جائے گی ، تمہاری شہوتوں کی آگ بجھ جائے گی ، تمہارے حق میں سب سے بدتر تمہاری شہوتیں ہیں جو تمہارے لئے دنیا کو دوست بناتی ہیں، اور فقر کوتمہارا دشمن ٹھہرا کر تمہیں ہلاکت میں ڈال دیتی ہیں، ایک ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تقوی کی حقیقت یہ ہے کہ تمہارے دل میں جو کچھ ہے اسے جمع کر کے ایک کھلے طباق میں رکھو، اور اسے اٹھا کر سارے بازار میں پھراؤ ، اس میں ایک شے بھی ایسی نہ ہو جس سے تمہیں شرمندگی ہو۔‘‘
اے جاہل ! تو اس پر کفایت نہیں کرتا کہ تو تقومی شعارنہیں ہے، بلکہ جب تجھے کہا جا تا ہے کہ اللہ سے ڈر تو غصے میں آجا تا ہے ۔ اور جب تجھ سے حق سچ بات کہی جائے تو اسے سن کرسستی کرتا ہے، اور جب کوئی تجھ پر اعتراض کرتا ہے تو تو اس پر بگڑ نے لگتا ہے اور اس پر غصہ نکالتا ہے ۔
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جو بندہ اللہ سے ڈرتا ہے وہ اپنے غصے کا بدلہ نہیں لیتا ۔
ارشاد باری تعالی ہے: إنِّي ‌كُنْتُ ‌أُحِبُّكُمْ فَلَمَّا عَصَيْتُمُونِي أَبْغَضْتُكُمْو جومیری فرماں برداری کرتا ہے، اسے دوست رکھتا ہوں ، اور جو نافرمانی کرتا ہے، اس سے نفرت کرتا ہوں ۔‘‘
اللہ تمہیں اپنی رحمت کی وجہ سے دوست رکھتا ہے کسی حاجت یا کسی غرض کی وجہ سے نہیں ، تمہیں تمہارے لئے پیار کرتا ہے، اپنی ذات کے لئے نہیں۔ تمہاری اطاعت کو پسند کرتا ہے، اس لئے کہ اس کا فائدہ تمہارے ہی لئے ہے۔تجھے چاہئے کہ تو اس کی طرف مشغول ومتوجہ ہو جو تجھے تیرے لئے چاہتا ہے، اور اس سے اعراض کر جو تجھے صرف اپنے لئے چاہتا ہے، ایمان دار ہرشے کو بھلا کر صرف اللہ ہی کو یاد کرتا ہے، چنانچہ زندگی کے ساتھ ساتھ اسے قرب الہی بھی حاصل ہو گیا ، اللہ پر اس کا تو کل صحیح ہوگیا، دونوں جہانوں کی مشکلات میں اللہ اس کا ضامن کفیل ہو گیا، مومن کا توکل اور توحید جب صحیح ہو جائیں تو اللہ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جو معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ ان کا تو نام نہیں مگر ان کا حال اور باطن عطا فرماتا ہے، اپنے طعام وشراب سے ویسا ہی کھلاتا پلاتا ہے، جیسا انہیں کھلا یا پلایا تھا ،اپنے آستانے کی دہلیز پر ویسے ہی ٹھہراتا ہے جیسے کہ انہیں ٹھہرایا تھا، یہ نہیں کہ انہیں ہو بہو مقام ابراہیمی عطا فرمادیتا ہے۔ ایسے میں مومن کے لئے ابراہیمی نسبت صورت وحقیقت کے لحاظ سے نہیں بلکہ باطن کے لحاظ سے بھی ہو جاتی ہے، تجھے شرم نہیں آتی کہ تیری حرص نے تجھے ظالموں کا خدمت گار بنارکھا ہے، اور تو ہے کہ حرام کھائے چلا جارہا ہے، آ خر کب تک حرام کھاتا رہے گا ۔ یہ حکمران جن کی خدمت گاری میں تو لگا ہے عنقریب ان کی حکومت ختم ہو جائے گی ، اور وہ اللہ کی ذات جس کی حکومت کوکبھی زوال نہیں ، اس سے کب تک منہ موڑے رہے گا ،ذراعقل کر اور دنیا میں تھوڑے پر گزارا کر تا کہ آخرت میں وافر ملے ، اپنے نصیب کا لکھا زہد کے ہاتھوں سے کھا، تیرا کھانا پینا قدرت الہی کے فعل کے ہاتھوں سے آستانہ الہی کے دروازے پر ہو ۔ یہ کھانا پینا دنیا کے ساتھ نہیں،اس کے ساتھ ہو ،یہ کھانا پینا نہ د نیا کے ہاتھ سے ہو نہ حکمرانوں کی چوکھٹ پر عادت وخواہش وعوام و شیطان کے ہاتھ سےہو، دنیا میں رہ کر جب تو کھائے پئیے گا کہ تیرا دل اللہ کے دروازے پر ہوتو فرشتے اور نبیوں کی روحیں تیرے اردگرد ہونگی،سوچنے کی بات یہ ہے کہ دونوں مقامات اور احوال میں کتنا واضح فرق ہے۔ اولیاء اللہ بڑے عقل والے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ہم دنیا میں اپنے حصے کا رزق نہ ر ستے میں کھائیں گے، نہ اپنے گھروں میں کھائیں گے، ہم تو اس کے دربار میں اس کے سامنے کھائیں گے،زاہد جنت میں کھائیں گے اور عارفان الہی اس کی حضوری میں کھاتے ہیں، اللہ کے محبوب نہ دنیا میں کھاتے ہیں نہ آخرت میں کھائیں گے ۔ ان کا تو کھانا پینا اللہ تعالی سے ان کا قرب اور انس ہے، اور اس کی طرف دیکھتے رہنا ہے ۔ انہوں نے دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ ڈالا ہے، اور آخرت کو دنیا وآخرت کے مالک اللہ تعالی کے قرب کے بدلے بیچ دیا۔ جو لوگ اس کی محبت سچے ہیں انہوں نے دنیا وآخرت کو اللہ کے لئے بیچ دیا ہے، وہ اس کو چاہتے ہیں ، اس کے غیر سے کچھ واسطہ نہیں۔ جب یہ خرید وفروخت ختم ہوگئی تو اس کے کرم نے غلبہ کیا اورد نیاوآخرت بطور انعام لوٹا دیں، اور انہیں ان کے لینے کاحکم دیا ۔ انہوں نے سیر شکمی اور بدہضمی کے باوجود تعمیل ارشاد کے لئے حاجت نہ ہوتے ہوئے قبول کر لیا،تقدیر کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے حسن ادب کےساتھ قبول کیا ، اور کہتے ہیں:
تو ہمارے ارادوں کو خوب جانتا ہے، ہم غیر سے نہیں تیرے سے راضی ہیں ۔ بھوک و پیاس اور برہنگی اور تیری طرف سے جو ذلت ورسوائی پہنچے، اس پر ہم راضی ہیں اور اس پر راضی ہیں تیرے ہی در پر پڑے رہیں۔
وہ جب اس حال پر راضی ہو گئے اوران کے نفسوں کو اطمینان ہو گیا تو اللہ نے ان کی طرف رحمت کی نظر کی، ذلت کے بعد انہیں عزت عطا فرمائی ۔ فقیری کے بعد تو نگری سے نوازاد نیاو آ خرت میں اپنے قرب کا اعزاز بخشا, دنیا میں مؤمن زہد اختیار کرتا ہے، اس کا زہدان کے باطن کامیل کچیل اور خرابی کوختم کر دیتا ہے، پھر آخرت کے آ جانے سے اس کا دل سکون محسوس کرتا ہے، پھر غیرت الہی کا ہاتھ حرکت میں آ تا ہے اور اس کے دل سے آخرت کو دور کر دیتا ہے، اور اسے مطلع کرتا ہے کہ آخرت میں اللہ کے قرب میں حجاب ہے، اس وقت مومن خلقت کو چھوڑ کر شرعی احکام کو بجالاتا ہے، اور اس میں اور عوام میں جو حد ودمشترک ہیں ، ان کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کے دل کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، جن سے وہ اپنے نفس اور خلافت کے عیب دیکھنے لگتا ہے، اپنے رب کے سواکسی کے ہاں نہیں ٹھہرتا غیر کی بات پر کان نہیں دھرتا،غیر اللہ کو کچھ نہیں سمجھتا،- ان کے وعدوں پر اعتبار نہیں کرتا ،غیر اللہ کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا، غیر اللہ کے ساتھ مشغول نہیں ہوتا ،اور اللہ کے ساتھ مشغول ہو جا تا ہے ۔ مسلمان جب یہ کمالات حاصل کر لیتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کانوں نے سنا ، اور کسی بندے کے دل پر ان کا خیال ہی گزرا ہے۔
نفس کی اصلاح سے ہی نفس کا فائدہ ہوسکتا ہے:
اے بیٹا! پہلے اپنے نفس کی طرف متوجہ ہو، اس کی اصلاح کر کے اس کا فائدہ کر ، پھر دوسروں کی سوچ، شمع کی طرح نہ ہو کہ وہ خود کو جلاتی ہے اور غیر کوروشنی دیتی ہے، تو کسی شے میں اپنی خودی اور خواہش اور نفس کے ساتھ داخل نہ ہو ، اللہ کا جب کسی امر کے لئے ارادہ ہوگا تو اس کے لئے تجھے تیار کر دے گا، اگر تیرے ہاتھوں خلقت کو فائدہ پہنچانا مقصود ہوا تو تجھےان کی طرف لوٹا دے گا۔ تجھے ثابت قدمی اور مدارات کی دولت سے نوازے گا،خلقت کی تکلیفیں برداشت کرنے کی قوت عطا کرے گا ، تیرے دل میں خلقت کے لئے وسعت دے دے گا ۔تیرا سینہ کشادہ کر کے اس میں حکمت و دانائی بھر دے گا ، تیرے باطن کی نگہبانی کرے گا اور اس کی راز داری کرے گا ، اس لمحے تو نہیں وہی وہ ہوگا، کیا تو نے یہ ارشاد باری نہیں سنا:
يَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ ‌خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ’’اے داؤوا ہم نے تمہیں زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے ۔‘‘
تو اللہ کے اس فرمان إِنَّا جَعَلْنَاكَ ‌خَلِيفَةً پرغور کر، یوں نہیں فرمایا:انت جعلت نفسک کہ تو نے اپنے نفس کو بنایا اولیاء اللہ کا کوئی اپنا ارادہ ہوتا ہے نہ کوئی اختیار، وہ ہر کام امر فعل وتد بیراور اللہ کے ارادے کے تحت کرتے ہیں ، اے سیدھی راہ سے ہٹ جانے والے تو کسی شے سے حجت نہ پکڑ ، تیرے پاس سیدھے راستے کی کوئی دلیل نہیں ، حلال اور حرام دونوں سامنے ہیں تو اللہ پر کتنا بے حیا بن گیا ہے ، اللہ کے لئے تیرا خوف کس قدر کم ہو گیا ہے، کون سی چیز نےتجھے نڈر بنادیا ہے ، اس کے دیدار کوتو کس قدر ہلکا سمجھ رہا ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:
حف من الله عز وجل كانك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك اللہ سے ڈرگو یا تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر تو اسے نہیں دیکھتا، وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔ بیدارلوگ اللہ کو اپنے دلوں سے دیکھتے ہیں ، جب ان کی پراگندگی یکجا ہوگئی تو پگھل کر ایک ہی چیز بن گئی، اللہ اور اس کے بیچ میں سے حجاب اٹھ گئے ، بدن فنا ہو گئے ، باطن باقی رہ گئے ، جوڑو پیوندٹوٹ گئے ، اور دوست بچھڑ گئے ، اب ان کے لئے اللہ کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ اس کے بغیر نہ ان کے لئے کوئی بات نہ کوئی حرکت ، اور نہ کسی شے سے خوشی ، حتی کہ ان کا یہ معاملہ صحیح ہو گیا تو وہ کامل بن گئے ،ان کے حق میں امر پورا ہو گیا۔ پہلے وہ دنیا کی غلامی اور اس کی بندگی سے نکلے ، پھر سب ما سوی اللہ سے الگ ہو گئے، یہ لوگ ہمیشہ اللہ کے معاملے اور اس کی ذات میں آزمائش میں رہے، تا کہ وہ ان کے اعمال کو دیکھے کہ یہ کیسے عمل کرتے ہیں ، گو یا باطن بادشاہ ہے اور دل اس کا وزیر ، جبکہ نفس وزبان اور دیگر اعضاء ان دونوں کے خدمت گزار:
باطن دریائے الہی سے سیراب ہوتا ہے، دل باطن سے سیراب ہوتا ہے،نفس مطمئنہ ، دل سے سیراب ہوتا ہے، زبان نفس مطمئنہ سے سیراب ہوتی ہے، اعضاء زبان سے سیراب ہوتے ہیں۔ زبان جب سدھر جاتی ہے تو دل سدھر جا تا ہے، اور جب زبان بگڑ جاتی ہے تو دل بھی بگڑ جا تا ہے، تیری زبان کو تقوی کی لگام اور فضول باتوں اور نفاق سے توبہ کی ضرورت ہے ۔ اس پر جب ہمیشگی ہو تو زبان کی فصاحت ، دل کی فصاحت کی طرف لوٹ آئے گی ، دل کو جب یہ کمال حاصل ہو جائے گا وہ منور ہو جائے گا، اور دل سے زبان اور اعضاء روشن ہو جائیں گے۔ اس مقام پر مقرب کی زبان سے بات کیا کرے گا، قرب میں نہ اس کی زبان ہو گی ، نہ اس کی دعا نہ ذکر، دعا وذکر اور کلام تو دوری کے عالم میں ہوتے ہیں، قرب کے عالم میں سکون اور گمنامی اور نظارہ جمال الہی اور اس سے فائدہ اٹھانے میں قناعت ہوا کرتی ہے۔
اللهم اجعلنا ممن يراك في الدنيا بعيني قلبه ولا في الأخرة بعيني رأسه واتنا في الدنيا حسنة و في الأخرة حسنة وقنا عذاب النارالہی! تو ہمیں ان لوگوں میں سے کر دے جو دنیا میں تجھے دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور آخرت میں سرکی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔ اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا کرے، اور آخرت کی بھلائی عطا کرے ۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ ۔ آمین!
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 374،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 196دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
ترپنویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ترپنویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثالث والخمسون فی الاختبار والابتلاء‘‘ ہے۔
منعقدہ 7 رمضان 545 بروز منگل بوقت عشاء بمقام مدرسہ قادر یہ
آزمائش و بلا ولایت کا خاصہ ہے۔
پرکھ پرچول اور آزمائش کے بغیر گذارہ نہیں بالخصوص جو لوگ کوئی دعویٰ کرتے ہیں اگرآ زمائش اور پرکھ پرچول نہ ہوئی ہوتی تو مخلوق میں بہت سے لوگ ولایت کا دعوی کر تے ، اس لئے بعض اولیاء اللہ نے فرمایا: وكل البلاء بالولاية كي لا تدعى -ہر طرح کی بلا محبت میں ہے ، تا کہ ہر کوئی دعوی نہ کر سکے ۔‘‘
ولی کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ مخلوق کے تکلیف پہنچانے پر صبر کرے اور ان سے درگزرکرے، اولیاء اللہ، جو کچھ مخلوق سے دیکھتے ہیں ان سے اندھے بن جاتے ہیں ، جو کچھ ان سے سنتے ہیں، اس سے بہرے بن جاتے ہیں۔ – اپنی آبروؤں کو مخلوق کے لئے ہبہ کر رکھا ہے۔ مثل مشہور ہے: حُبُّكَ ‌الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ کسی شے کی محبت اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے ۔“
اولیاء کرام نے اللہ کو محبوب بنالیا ہے چنانچہ و ہ غیر اللہ سےاندھے اور بہرے ہوگئے ہیں۔ وہ مخلوق سے خوش کلامی اورنرمی اور مدارات سے ملتے ہیں ، اور کبھی اللہ کے لئے غیرت کے باعث غضب الہی کی موافقت میں مخلوق سے غصہ بھی کرتےہیں۔ اولیاء اللہ روحانی طبیب ہیں ، وہ ہر مرض کی دوا جانتے ہیں طبیب ہر مرض کا علاج ایک ہی دوا سے کیا کرتا ہے۔
اولیاء کرام دل اور باطن کے لحاظ سے اللہ کے حضور میں اصحاب کہف کی طرح ہیں ، انہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام کروٹ دلاتے تھے ، اور قدرت ورحمت ولطف کا ہاتھ ان کے پہلو بدلتا ہے۔ان کی دنیا دنیا کے چاہنے والوں کے لئے ہے،ان کی آخرت ، آ خرت چاہنے والوں کے لئے ہے،ان کا پرورگار ان کے لئے ہے، ان کا پروردگار ان سے کسی چیز کا بخل نہیں کرتا ، جو چاہیں وہ عطا کرتا ہے، اگر دنیا طلب کرو اور ان کے پاس ہوتو وہ اسے خرچ کر ڈالتے ہیں ، اور جب ان سے آخرت کا ثواب طلب کرو، وہ اسے بھی صرف کر دیتے ہیں ۔ دنیا چاہنے والوں کودنیا عطا کرتے ہیں، اور جود نیا کو کم چاہنے والے ہیں انہیں آخرت کا ثواب عنایت فرماتے ہیں مخلوق کومخلوق کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور خالق کو اپنے لئے ، چھلکا سب میں بانٹ دیتے ہیں، کیونکہ ماسوی اللہ چھلکا ہے ، اور طلب الہی اور قرب الہی ان کے لئے مغز ہے۔
بعض اولیاء اللہ ارشاد فرماتے ہیں:
لا يضحك في ‌وجه ‌الفاسق إلا العارف’’ فاسق کے منہ پر عارف ہی ہنسا کرتا ہے ۔‘‘
عارف ہی اسے نیکی کا امرکرتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، اس کی تکلیف کو برداشت کرتا ہے، اس امر پر عارفوں کو ہی قدرت حاصل ہے زاہد وعابد ومرید کونہیں ۔ یہ اللہ والے گناہ گاروں پر کیوں نہ رحم کریں ، وہ بیچارے تو رحم کے قابل توبہ ومعذرت کی جگہ پر ہیں ، عارفوں کا اخلاق ، اللہ کے اخلاق سے ہے ، لہذا وہ گناہ گارکو شیطان اور نفس اور خواہش کے ہاتھ سے چھڑانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، کوئی شخص اگر اپنے بچے کوکسی کافر کے ہاتھ میں قید دیکھے تو کیا اسے چھٹرانے کی کوشش نہ کرے گا۔ عارف باللہ کے لئے تمام مخلوق اولاد کی مانند ہوتی ہے، پہلے مخلوق کو شریعت کی زبان سے مخاطب کرتا ہے، احکام سے آگاہ کرتا ہے، پھر علم از لی جاننے کے باعث ان پر رحم کرتا ہے۔ان میں جاری اللہ کے افعال دیکھتا ہے، علم الہی کے دروازے سے نکلنے والے وہ امور دیکھتا ہے جو قضاء قدر کے صادر ہونے پرمبنی ہیں، انہیں ظاہرنہیں کرتا چھپا کے رکھتا ہے شرعی احکام ومناہی کے ساتھ مخلوق سے خطاب کرتا ہے، جو علم باطن ہے مخلوق کو اس سے خطاب نہیں کرتا ۔ اللہ نے رسول بھیجے کتابیں نازل کیں اور ڈرایا دھمکایا تا کہ خلقت پر حجت قائم ہو جائے ۔ ان کے بارے میں جوعلم الہی ہے، اس میں نہ تو دخل دیا جاسکتا ہے، نہ ہی اللہ پر اس سے متعلق کوئی اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے، حکم کے اندر رعب و دبدبہ ہے جبکہ علم کے اندر ثابت قدمی استقامت ہے، تجھے حکم کی بھی ضرورت ہے جو دوسروں اور تیرے درمیان مشترک ہے، اور اپنے لئے تو ایسے علم کا محتاج ہے جو خاص تیرے لئے ہے، تم میں سے جب کوئی علم ظاہری پرعمل کرتا ہے تو رسول اکرم ﷺ علم باطن سے اس کی پرورش فرماتے ہیں، جیسے کوئی پرندہ اپنے بچے کے منہ میں دانہ ڈالتا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ اس بندے نے اپنے عمل سے قول ظاہری یعنی شریعت کی تصدیق کی ،
ابن آدم : – اگر صحیح ہو جائے تو اس کی طرح کا صحیح کوئی نہیں ۔اگر صفا ہو جائے تو اس کی مانند صفا کوئی نہیں ،اگرقریب ومقرب ہو جائے تو اس کی مثل مقرب کوئی نہیں ۔ جاہل اپنے سر کی آنکھ سے دیکھتا ہے، عاقل اپنی عقل کی آنکھ سے دیکھتا ہے، اور عارف ظاہری طور پر علم کے ساتھ اپنے دل کی آنکھ سے دیکھتا ہے، ساری خلقت اس کا لقمہ بن جاتی ہے، سب کے سب اس میں غائب ہو جاتےہیں، اس کے پاس اللہ کی ذات کے سوا کوئی اور شے باقی نہیں رہتی۔ اس کی زبان پر یہ جاری ہو جا تا ہے: هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ ‌وَالْبَاطِنُوہی اول وہی آخر ، وہی ظاہر وہی باطن ہے ۔
اللہ ہی کا ظاہر و باطن اور اول و آخر ہو جا تا ہے ۔ اس کے پاس کوئی شے غیر اللہ نہیں ہوتی ۔د نیا و آخرت میں اب اس کی محبت اللہ کے ساتھ ہو جاتی ہے، وہ سب احوال میں اس کی موافقت میں رہتا ہے۔اللہ کی رضامندی اور اس کے غیر کے غصہ کو پسند کرتا ہے، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔ جیسے کہ بعض اہل اللہ نے فرمایا: مخلوق میں اللہ کی موافقت کر، اللہ کے بارے میں مخلوق کی موافقت نہ کر ۔ جسے ٹوٹنا ہوٹوٹ جائے ، جسے جڑارہنا ہو جڑار ہے تو کسی کی پرواہ نہ کر “ تیرا شیطان اور تیری خواہش، تیری عادت اور تیرے برے ساتھی سب تیرے دشمن ہیں ، ان سے بچ کے رہ تا کہ تجھے ہلاکت میں نہ ڈال دیں تو علم سیکھ تا کہ جان سکے کہ ان سے دشمنی کیسے کرنی ہے اور بچاؤ کیسے کرنا ہے، پھر یہ معلوم کر سکے کہ اللہ کی عبادت کیسے کی جائے ، کیونکہ جاہل کی عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: مَنْ ‌عَبَدَ ‌اللَّه ‌بِجَهْلٍ كَانَ مَا يُفْسِدُ أَكْثَرَ مِمَّا يُصْلِحُ -” جو بندہ جہالت سے عبادت کرتا ہے، وہ اصلاح سے زیادہ فساد کرتا ہے۔ جاہل کی عبادت کی کوئی قدروقیمت نہیں بلکہ وہ سراپا فساد اور پوری طرح سے ظلمت میں ہوتا ہے ۔ بغیرعمل کے علم کا کوئی فائدہ نہیں عمل میں اخلاص نہ ہوتو بے فائدہ ہے، نہ اس کے کرنے والے سے عمل قبول کیا جا تا ہے، تو علم سیکھے اور اس پر عمل نہ کرے تو علم تیرے خلاف حجت ہے، رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا۔ الجاهل يعذب مرة والعالم سبع مرات (وَيْلٌ لِلْجَاهِلِ مَرَّةً وَوَيْلٌ لِلْعَالِمِ ‌سَبْعَ ‌مَرَّاتٍ)’’جاہل کو ایک بار اور عالم کو سات بارعذاب دیا جائے گا۔‘‘ ‘ جاہل سے پوچھا جائے گا کہ کیوں نہ سیکھا، اور عالم سے پوچھا جائے گا کہ علم پرعمل کیوں نہ کیا تو علم پڑھ اورعمل کر اور ‘ اوروں کو بتا، ایسا کرنا تیرے لئے بھلائیاں جمع کر دے گا ، جب تو علم کا ایک کلمہ سنے گا اور اس پر عمل کرے توتجھے دو ہرا ثواب ہوگا۔ ایک سیکھنے کا،اورایک سکھانے کا ، دنیا تاریکی ہے اور علم دنیا میں نور ہے، جسےعلم نہیں وہ اس تاریکی میں مارا مارا پھرتا ہے، اور اصلاح سے زیادہ فساد کرتا ہے۔
اسے علم کا دعوی کر نیوالے تو دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، کو اپنے نفس اور حرص اور شیطان اور اپنے وجود کے ہاتھ سے نہ لیاکر، نہ اپنے ریاء ونفاق سے لے۔ تیراز ہد صرف ظاہری ہے اور تیری رغبت باطنی ، یہ ز ہد بیکار ہے، تجھے اس پر عذاب ہوگا ، تو اللہ سے مکر وفریب کرتا ہے، حالانکہ اسے تیری خلوت و جلوت اور جو کچھ تیرے دل میں ہے، اسے سب معلوم ہے۔ اللہ کے پاس نہ خلوت ہے نہ جلوت ،کوئی پردہ و نہ حجاب ، اب یوں واو یلا کر ہائے شرم! – ہائے افسوس! – ہائے رسوائی! – اللہ میرے رات دن کے سب افعال کو کیسے دیکھتا رہتا ہے ،اسے سب خبر ہے، اور میں اس کے دیکھنے سے ذرا شرم نہیں کرتا ۔‘‘ تو اللہ کے سامنے اپنی بے حیائی سے توبہ کر فرائض ادا کر اور ممنوعات سے باز رہ کر اس کا قرب حاصل کر اور مقرب بن جا، ڈھکے چھپے، ظاہری و باطنی گناہ چھوڑ دے اور کھلی ہوئی بھلائیاں کرتا رہ ، ایسا کرنے سے تو اس کے دروازے تک پہنچ جائے گا، اور اس سے قریب ہو جائے گا۔ وہ تجھے اپنا محبوب بنا لے گا ، اورمخلوق کا محبوب بنائے گا ، اور پھر ماسوی مخلوق کے سب کا محبوب بنا لے گا ۔ پھر اس کا امرمخلوق کی طرف نقل کر دے گا۔ اللہ اور اس کے فرشتے جب تجھے اپنا محبوب بنالیں گے تو کافروں منافقوں کے سوا ساری مخلوق تجھے محبوب رکھے گی ، کافرومنافق اللہ سے محبت میں تیری موافقت نہیں کر سکتے۔ جس شخص کے دل میں ایمان ہے، وہ ایمان والے کو دوست رکھتا ہے، جس کے دل میں نفاق ہے، وہ ایمان والے سے عداوت رکھتا ہے، چنانچہ کافروں، منافقوں اور شیطانوں اور ابلیسوں کی دشمنی کو برا نہ جان، منافق اور کافر انسانوں میں سے شیطان ہیں۔ ایمان دار یقین رکھنے والا عارف اپنے دل اور باطن اور معنی کے لحاظ سے الگ ہے ۔ وہ اپنے نفس سے نقصان کو دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ ہی اپنے نفس کے لئے فائدہ اٹھانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں مسلسل پڑا رہتا ہے۔اس میں کسی طرح کی طاقت وقوت باقی نہیں رہتی ، اس کے لئے جب یہ حال صحیح ہو جائے تو اس کے پاس ہر طرف سے خیر ہی خیر آنے لگتی ہے۔
اسے مخاطب! اللہ والوں سے صرف دعوے اور خلوت نشینی اور آرزو کی وجہ سے مزاحمت نہ کر، ان کی صفت کا حصہ نہ بن صرف دعوے اور آرزو سے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا ، تیرے لئے بات کرنا مناسب نہیں جب تک کہ اسباب سے اندھانہ ہو جائے ، کسی مصرف کا نہیں یہاں تک کہ نحیف نہ ہو جائے، تیرے پاؤں لوگوں کے دروازوں کی طرف دوڑ نے سے رک نہ جائیں ، کچھ حاصل نہیں جب تک کہ تیرا دل اورعقل اور چہرہ مخلوق سے خالق کی طرف نہ لوٹ جائے ، – تیری پشت مخلوق کی طرف ہو جائے ، تیری چہرہ خالق کی طرف ہو جائے ، تیرا ظاہر اور صورت مخلوق کی طرف ہو جائے، تیرا باطن اور مغز اور حقیقت خالق کی طرف ہو جائے ۔ اس حالت کو پہنچ کر تیرادل فرشتوں اور نبیوں کے دل سا بن جائے گا۔ تیرے دل کو ان کے طعام سے کھلایا جائے گا، ان کی شراب سے پلایا جائے گا ۔ اس امر کا تعلق دلوں اور باطنوں اور معنی کے ساتھ ہے صورتوں کے ساتھ نہیں۔ اللهم طيب قلوبنا واخلع على أسرارنا وصف عقولنا فيما بيننا و بينك من وراء عقول الخلق وعقولنا۔الہی ہمارے دلوں کو پاک کر دے اور ہمارے باطنوں کو معرفت کی خلعت عطا کر اور ہماری عقلوں کو اپنے اور ہمارے درمیان جو احوال میں مخلوق کی عقلوں سے بڑھ کر صفائی عطا کر آمین!‘‘ کیسی عجب بات ہے کہ قیامت کے دن میں منافقوں کے حق میں بحث ومناظرہ کروں گا ۔ پھر ایمانداروں کے حق میں کیوں نہ جھگڑا کروں گا۔
اللـهـم اغـننـي عـن الكل أغنني بك عمن سواك عن المعلم و عن الصبيان وعما في بيوتهم واجعل داره دارالسّماط مع التعليم . اللهم إنك تعلم أن هذا الكلام قد غلب على فاعذرني فيه جا مکي قد تمت و حصلت لي منك بقية جا مكية الأطفال والاتباء الطوارق، فاسئلك تسهيل ذلك مع طيبة قلبي و صفاء سری
اے اللہ مجھے ساری مخلوق سے غنی کر دے، مجھے اپنے ساتھ رکھ کر تمام ماسواسے بے نیاز کردے، استاد سے بچوں سے اور جو کچھ ان کے گھروں میں ہے ، سب سے بے پرواہ کر دے ۔ میرا گھر تعلیم کے ساتھ مہمان خانہ بنا دے الہی! تو جانتا ہے کہ یہ بات غلبہ حال میں میرے منہ سے نکل گئی ہے ،اس میں مجھے معذ در جان، میرا پیالہ لبریز ہو گیا ہے، حالانکہ مجھے تیری طرف سے بچوں اور خادموں اور مہمانوں کے پیالوں کا بقیہ ہی حاصل ہو گیا ہے کہ انہیں بھروں ۔ چنانچہ میں تجھ سے دل و باطن کی پاکیزگی وصفائی کے ساتھ اس میں آسانی کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘
اللہ ہی تمہارے ہاتھوں پر جاری کرنے والا ہے:
اے لوگو! تمہارا گمان ہے کہ میں تم سے کچھ لیتا ہوں اورتمہیں دیکھتا ہوں، نہیں ایسی بات نہیں ، یہ کوئی کرامت کی بات نہیں ۔ میں تو اللہ ہی سے لیتا ہوں تم سے نہیں، بلکہ اللہ ہی تمہارے ہاتھوں پر جاری کرنے والا ہے، جب تک میں تمہارے ساتھ تھا، تمہاری کوئی پہچان نہ تھی تم سے جدا ہو کر تمہیں پہچاننے لگا، میں منافقوں کا کھوج لگانے والا اور عارفوں کی پرکھ کرنے والا ہوں ، منافقوں کو ڈنڈے سے نہیں مارتا بلکہ بات ان کے منہ پر مارتا ہوں ۔
میرا دستر خوان تمہارے لئے وسیع ہے، میرا کھانا تمہارے فارغ ہونے کے بعد ہوگا۔ میرے لئے نوالہ تمہارے غیر کی طرف سے تمہارے جانے کے بعد میرے لئے میرے اس دوست کی طرف سے طباق آ تا ہے، جس کے سامنے رہتا ہوں اور اس کا خدمت گزار ہوں، اے دل کی آنکھوں والو! ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میری آستین چڑھی رہتی ہے اور میری کمر بندھی رہتی ہے۔
کسی سائل نے سوال کیا: انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف اللہ کا پیغام لا نے والے حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے ولی کی طرف اس کا پیغام لانے والے کون صاحب ہیں؟‘‘
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشادفرمایا:اولیاءاللہ کی طرف اللہ تعالی بلا واسطہ خودہی پیغام رساں ہے ۔ وہ اپنی رحمت ولطف واحسان والہام اور اپنی خاص توجہات سے جو کہ وہ اولیاء کرام کے دلوں اور باطنوں کی طرف رکھتا ہے، ان پر مہربانیاں فرماتا ہے اسے اپنے دل کی آنکھوں اور باطن کی صفائی اور ہر وقت کی بیداری سے ہمیشہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ اے لوگو!دنیا کی محبت اور اس کی حرص ، اور دنیا کو بڑھانے کی الفت اللہ اور اس کے اولیاء کرام کی معرفت سے روکتی ہے۔
اللهم إن حسن الكرم وحسن الجود من صفاتك ونحن عبيدك فاعطنا ذرة منهما امين الہی !حسن کرم اور سخاوت تیری صفات سے ہیں اور ہم تیرے بندے ہیں ، ہمیں بھی ان میں سے ایک ذرہ عنایت فرما۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 384،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 201دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
چونویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چونویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الرابع والخمسون فی التفکر فی الحشر‘‘ ہے۔
منعقدہ 10رمضان المبارک 454ھ بروز صبح جمعہ بمقام مدرسہ قادریہ
دنیا و آخرت دو قدم ہیں:
اے بیٹا! تو نے انہیں دوقدم میں اٹھایا اور پہنچا، ایک قدم دنیا سے اور ایک قدم آ خرت سے ، ایک قدم اپنے نفس سے، اور ایک قدم مخلوق سے، اس ظاہر کو ترک کر تو باطن تک پہنچ جائے گا ۔ ہر کام کے لئے ابتداء بھی ہے انتہا بھی تو ابتداء کر انتہاء تک اللہ پہنچا دے گا ۔ تیرا کام آغاز کرنا ہے، اللہ کا کام انتہا تک پہنچانا ہے تو تیشہ وٹو کری لے کر عمل کے دروازے پر بیٹھ جا تا کہ تیری تلاش ہوتو کام لینے والے کے قریب ہو، جبکہ تو اپنے بچھونے پر لحاف اوڑ ھے قفل لگا کے بیٹھا ہے، پھر عمل اور عمل کی طرف بلائے جانے کو طلب کر رہا ہے، تو اپنے دل کو نصیحت کے قریب کر اور اسے قیامت کا دن یاد دلا – اور پرانی ،خستہ حال قبروں میں جھانک کر سوچ بچار کر، یہ منظر تصور میں لا کہ اللہ قیامت کے دن ساری خلقت کو کیسے جمع کرے گا ، اور انہیں اپنے سامنے کیسے کھڑا کرے گا، جب اس سوچ پر ہمیشگی کرے گا تو تیرے دل کی سختی جاتی رہے گی ، کدورت سے صفا ہو جائے گا، جو عمارت بنیاد پر اٹھائی جائے پائیدار ومضبوط رہتی ہے، اگر بنیاد پر نہ ہوتو وہ جلد گر جاتی ہے، تیرے حال کی عمارت اگر حکم ظاہر پرتعمیر ہوگی تو خلقت میں سے کوئی اسے توڑنے پر قدرت نہ پائے گا اور اگر اس کی تعمیر ایسے نہ ہوگی تو تیرا حال پائیدارنہ رہے گا اور تو کسی مقام پر نہ پہنچ سکے گا، صدیقوں کے دل تیرے سے ہمیشہ ناراض رہیں گے ، اور یہ چاہیں گے کہ وہ تجھے نہ دیکھیں۔
اے جابل! تجھ پر افسوس ہے، کیا دین کوئی کھیل کود ہے یا کوئی دھوکا! کیا وہ کھیل ہے، ہرگز نہیں! اس میں جھکنے سے تیری گردن کی کوئی عزت نہیں، اے مکار! تو نے بغیر اہلیت کے اپنے نفس کومخلوق سے وعظ کرنے کا اہل سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ تو وعظ کرنے کا اہل نہیں ۔ صالحین میں بھی یہ لیاقت گنے چنے بندوں میں ہوتی ہے، بولنے کے بجائے ان کا طریقہ خاموش رہنا اور اشارے سے بات کرنا ہے ۔ ان میں سے وہ خاص ہے جسے بولنے کا حکم ہوتا ہے، چنانچہ وہ بہ امر مجبوری مخلوق کو وعظ سناتے ہیں ، پھر خبر مشاہدہ بن جاتی ہے، اور تیرے دل اور باطن کی صفائی کی نسبت امر بدل جاتا ہے ۔ اس لئے امیر المومنین حضرت علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشادفرمایا: اگر پردہ اٹھادیا جائے تو میرے یقین میں کچھ اضافہ نہ ہوگا، جب تک رب کو دیکھ نہ لوں ،اس کی عبادت نہیں کرتا، میرے دل نے مجھے میرارب دکھا دیا ہے۔
عالم وعارف ومومن اپنے اپنے حال میں:
اے جاہلو ! علماء سے ملو، ان کی خدمت کرو، ان سے علم سیکھو، علم مردان خدا کی زبانوں سے ہی سیکھا جا تا ہے ۔ علماء کے پاس حسن ادب سے بیٹھو، ان پر اعتراض کرنا ترک کر دو اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو، تا کہ ان کے علوم سے تم فائد ہ پاسکواوران کی برکتیں نازل ہوں اوران کے فائدے پہنچیں۔
اور عارفوں کی صحبت میں چپ چاپ بیٹھو، اور زاہدوں کی صحبت میں رغبت کے ساتھ بیٹھو۔ عارف ہر گھڑی میں پہلی گھڑی کی نسبت اللہ کے زیادہ قریب ہو جا تا ہے ۔ اس کا خشوع وخضوع ہر گھڑی میں اللہ کے ساتھ نیا اور تازہ ہوتا رہتا ہے اور اس کے لئے عاجز ہوتا ہے، غائب سے نہیں ،حاضر سےعجز کرتا ہے، اس کے قرب میں جتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اس کے خشوع میں اضافہ ہوتا جا تا ہے، اس کے مشاہدے میں جتنی ترقی ہوتی جاتی ہے، اتناہی اس کا گونگا پن بڑھتا جاتا ہے ۔ جسے اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے اس کا نفس ، اس کی عادت ، اس کی حرص اور وجود کی زبان گونگی ہو جاتی ہے ، لیکن اس کے اور باطن اور حال اور مقام اور عطا کی زبان بولنے لگتی ہے، اس پر جو اللہ نے انعام کئے ہیں ، اس کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اس لئے ان کی حضوری میں خاموش بیٹھا جائے تا کہ ان سے نفع حاصل ہو، ان کے سینوں میں جوش مارتی ہوئی شراب وحدت کو پیا جا سکے جو بندہ اللہ کے عارفوں کے ساتھ زیادہ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے، اور اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہے، اس لئے ارشاد باری ہوا:
مَنْ ‌عَرَفَ ‌نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ”جس نے اپنے نفس کو پہچانا ،اس نے اپنے رب کو پہچانا ‘‘
نفس ہی بندے اور اس کے رب کے درمیان بڑا حجاب ہے۔ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اللہ اور مخلوق کے لئے تواضع اختیار کی ، اسے پہچان لیا تو اس سے بچنے لگے گا، نفس سے واقفیت ہونے پر اللہ کے شکر میں لگ جاتا ہے، اور یہ جان لیتا ہے کہ اس کی پہچان کر ا دینے میں اس کے لئے دنیا وآخرت میں بھلائی چاہی ہے، چنانچہ – اس کا ظاہراللہ کے شکر میں اور باطن اللہ کی تعریف میں مصروف ہے، اس کا ظاہر پراگندہ اور باطن جمع شدہ ہےو حال چھپانے کے لئے اس کے باطن میں خوشی اور ظاہر میں غم ہے، عارف کا حال مومن کے حال کے برعکس ہے۔ کیونکہ اس کے دل میں غم اور چہرے پر شادمانی ہوتی ہے۔ وہ ایک ادنی غلام کی طرح دروازے پر کھڑا ہے، اسے نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ارادہ کیا گیا ہے، قبول کر لیا جائے گا یا ٹھکرا دیا جائےگا، اس پر دروازہ کھولا جائے گا یا سدا بند ہی رہے گا جس بندے نے اپنے نفس کو پہچان لیا، وہ ہر حال میں مومن کے حال کے برعکس ہے، مؤمن صاحب حال ہوتا ہے، اور حال بدلتا رہتا ہے۔ عارف صاحب مقام ہوتا ہے – اور مقام ثابت رہتا ہے۔ مومن اپنے حال کے بدلنے اور ایمان چلے جانے کے ڈر سے خوفزدہ رہتا ہے، اس کا دل ہمیشہ غمگین رہتا ہے اورغم چھپائے چہرے پر خوشی سجائے پھرتا ہے ۔ بات کرتے وقت اس کے لبوں پر ہنسی کھیل رہی ہوتی ہے جبکہ غم کے مارے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔
عارف کے چہرے پرغم رقصاں ہوتا ہے، کیونکہ وہ عذاب خدا سے ڈرانے والا چہرہ لئے مخلوق سے ملتا ہے ، انہیں ڈرائے رکھتا ہے، اور رسول اکرم ﷺکی نیابت میں انہیں شرعی احکام و شرعی ممنوعات سے آگاہ کرتا ہے۔ اولیاء اللہ نے سن کر عمل کیا ، ان کے عمل نے انہیں اللہ کے قریب کر دیا، جو خاص انہوں نے اللہ ہی کے لئے کیا تھا۔ پھر انہیں وہ مقام حاصل ہوا کہ وہ دل کے کانوں سے اللہ کی باتیں بغیر کسی ذریعے کے سننے لگے۔ ایسے میں مخلوق غائب اور سونے والی تھی ، جبکہ یہ خالق کے حضور بیدار تھے، تیرا دل جب صحیح ہو جائے گا تو تو خلقت سے ہمیشہ غائب اور بے خبر رہ کر خالق سے باخبر ہوگا اور پھر بیدار رہے گا ، محفل میں بھی تو گوشہ نشین ہوگا ، تیرے باطن پر ہر وقت اللہ کا کرم اور فیض نازل ہوگا ، اور تیرا باطن اسے قلب پر ظاہر کرتارہےگا، اور قلب نفس مطمئنہ پر، اور نفس مطمئنہ زبان پر اور زبان اسے مخلوق پر ظاہر کر دے گی ، اس حالت میں سرشار ہو کر کوئی بات کرے وعظ کرے، ورنہ خاموش رہے ۔ اولیاءاللہ کا جنون مشہور ہے، وہ یہ کہ طبعی عادتوں اور نفسانی خواہشوں کے افعال کوترک کر دینا اور لذتوں اور شہوتوں سےاندھا ہو جانا ، یہ نہیں کہ ان کا جنون ایسا ہے کہ جن سے عقلیں جاتی رہتی ہیں ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اگرتم اولیاء اللہ کو دیکھ تو انہیں مجنوں کہہ دو، اور اگر وہ تمہیں دیکھیں تو کہیں کہ یہ لوگ ایک پل کے لئے بھی اللہ پر ایمان نہیں لائے ۔“
تیری خلوت صحیح نہیں ہوئی کیونکہ خلوت تو اسے کہتے ہیں کہ انسان دلی اور باطنی طور پر سب چیزوں سے خالی ہو جائے ، اور تودنیا و آخرت اور ماسوی اللہ ہر ایک چیز سے بالکل فارغ ہو جائے ، اس میں اللہ کے سوا کچھ بھی نہ ر ہے، نبیوں اور رسولوں اور اولیاءاللہ اور صالحین کا یہی راستہ رہا ہے، میرے نزدیک نیک کام کا حکم دینا اور برائی کے کاموں سے روکنا ان ہزار عابدوں سے افضل ہے جو تنہائی میں عبادت کرتے ہیں۔ نفس کی نظر کو جھکالے اور روک لے، تاکہ وہ نظرنفس کی ہلاکت کا باعث نہ بن جائے مگر نفس، قلب اور باطن کا تابع ہو کر خادم بن جائے ، اور نفس ان دونوں کی رائے کے خلاف نہ کرے بلکہ ان دونوں کے ساتھ اتحاد کر لے اوریہ نفس اور ان میں کوئی فرق نہ ر ہے،
جس کا یہ دونوں حکم دیں نفس بھی وہی حکم دے،جس سے منع کر یں نفس بھی اس سے منع کرے، جسے یہ دونوں پسند کریں نفس بھی اسے پسند کرے اس حال میں نفس مطمئنہ بن جائے گا، اور تینوں کی طلب اور مقصود ایک ہی ہو جائے گا ۔ اس مقام پر پہنچ کرنفس اس امر کا حق دار ہے کہ اس کے مجاہدوں میں کمی کر دی جائے ۔ اللہ تعالی تیرے اور مخلوق کے ساتھ جو کچھ بھی معاملہ کرے، اس میں بحث نہ کیا کر ، کیا تو نےیہ ارشاد باری نہیں سنا۔
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ. ’’جودہ کرے نہیں پوچھا جائے گا ،اور ان سب سے پوچھا جائے گا۔‘‘
اگر تیرا برتاؤ حسن ادب سے نہ ہوگا تو اللہ کے لئے تیری تابعداری کب صحیح ہوگی ، حسن ادب کے بغیر برتاؤ تجھے ذلیل کر کے گھر سے نکلوادے گا، اگر حسن ادب سے کام لیتے ہوئے تقدیر کے ساتھ موافقت کرے گا تو تجھے باعزت طور پر بٹھایاجائے گا ۔ اللہ سے محبت کرنے والا اللہ کا مہمان ہے، اور مہمان اپنے کھانے پینے اور لباس پہننے اور اپنے سب احوال میں مہمان داروں پر حکم نہیں چلاتا ، خود مختاری واپنا اختیار نہیں دکھا تا، بلکہ ان سے راضی ہوتے ہوئے موافق وصابر رہتا ہے ۔ چنانچہ ایسے میں اسے کہا جائے گا کہ تو جو کچھ دیکھتا ہے اور پاتا ہے اس سے خوش رہ ، ۔ جسے اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے اس کے دل سے دنیا وآخرت اور ماسولی اللہ سب غائب ہو جاتے ہیں ، تیرے لئے لازم ہے کہ: تیرا بولنا صرف اللہ ہی کے لئے ہو، ورنہ خاموشی اختیار کر ۔ تیرا جینا اللہ کی اطاعت میں ہو، ورنہ مر جانا اچھا ہے۔ اللهم أحينا في طاعتك واحشرنا مع أهل طاعتك امين الہی ہمیں اپنی طاعت میں زندہ رکھ، اپنی طاعت کرنے والوں کے ساتھ ہمارا حشر فرمانا ۔ آمین!‘‘
مؤمن شیخ کامل کی صحبت میں ادب سیکھتا ہے:
ایمان والا اپنے نفس کی اصلاح کے لئے شیخ کامل کی صحبت اختیار کرتا ہے شیخ کامل اسے ادب اور تعلیم سکھاتا ہے۔ بچپن سے لے کر مرنے تک و ہ علم سیکھتا رہتا ہے۔ ابتداء میں قرآن پاک پڑھانے والا، پڑھا تا اور حفظ کراتا ہے، اس کے بعد تعلیم دینے والا رسول اکرم ﷺکی مبارک حدیث اور سنت کی تعلیم دیتا ہے، اس کے ساتھ ہی تو فیق خیر اس کے شامل حال رہتی ہے، اور وہ علم پرعمل کرتا رہتا ہے، اس کاعمل کرنا اللہ کو پسندآ تا ہے اور اسے اس کے قریب کر دیتا ہے، اپنے علم پر جب کوئی عمل کرے گا تو اللہ تعالی اسے علم کا وارث بنادے گا جو اسے معلوم نہیں ، اور وہ خاص علم اس کے قلب کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دے گا ، اور اخلاص اس کے قدموں کو اللہ تعالی کے قریب کر دے گا، اگر تو عمل کرے اور دیکھے کہ تیرادل حق سے قریب نہیں ہے، اور تجھے عبادت و انس کی حلاوت حاصل نہیں ہوتی تو جان لے کہ تو عامل نہیں ہے، بلکہ تیرے عمل میں کوئی خلل ہے جو حجاب بن گیا ہے ، یہ خلل کیا ہے؟ ریاء، نفاق اور خود پسندی، اے عمل کرنے والے اخلاص کو لازم پکڑ لے، ورنہ مشقت نہ اٹھا، خلوت اور جلوت میں اللہ کے لئے مراقبہ ضرور کر ، منافق کا مراقبہ صرف جلوت میں ہے، اور اس کا مراقبہ خلوت اور جلوت دونوں میں ہے۔
نظر کا اچھایابر اہونانیت پر موقوف ہے۔
تجھ پر افسوس ہے جب تو کسی حسین یا حسینہ کو دیکھے تو اسے نفس پر حرص اور خواہش کی آنکھیں بند کر لے اور خیال کر کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے اور یہ آیہ کریمہ پڑھ وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ تو کسی شان میں بھی ہو تیرارب تجھے دیکھتا ہے۔
تو اللہ کے خوف سے ڈر کسی حرام چیز پر نظر ڈالنے سے نظریں جھکالے، اور اس کی نظر کو یادرکھ کہ جس کی نظر اور علم سے تو دور نہیں رہ سکتا ، اگر تو حق تعالی سے مباحثہ اور جھگڑا نہ کرے تو تیری بندگی پوری ہوگئی ، اور تو اس کا سچا بندہ بن گیا، اور ان لوگوں میں شامل ہو گیا جن کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ”میرے بندوں میں تیرا کوئی زور نہیں ۔‘‘
جب اللہ کے لئے تیراشکر کرنا ثابت ہو جائے تب اللہ تعالی مخلوق کے دلوں میں ڈال دے گا کہ اپنی زبانوں سے تیری شکر گزاری اور دوستی کا اظہار کریں ، اب شیطان اور اس کے ساتھیوں کو تیری طرف راستہ نہیں رہے گا ، دعا کا ترک کر دینا ۔ عزیمت (بڑا درجہ ) ہے ، اور اس میں مشغول ہونے کی اجازت ہے، دعا کرنا ڈوبتے کے لئے سہارا ہے ،اور قیدی کے لئے روشنی کی گزرگاہ، یہاں تک کہ رہا ہو کر بادشاہ کے حضور پیش ہو جائے ، عقل کرو تم نہ تو دعا کرنا اچھی طرح سے ترک کرتے ہو اور نہ ہی اچھی طرح سے دعا مانگتے ہو، کوئی بھی چیزایسی نہیں جونیت ، عقل اور علم کی محتاج ہو، جسے پہچاننا ضروری ہے، اس کی پیروی کی بھی محتاج ہے، تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ کے نیک بندوں کے پاس کیا کچھ ہے، اس نہ جاننے کی وجہ سے ان کے متعلق تمہارے خیالات اچھے نہیں، تم ان سے الجھ کر اپنے دین اور احوال کے سروں کو خطرے میں نہ ڈالو، ان کے تصرفات میں ان پر کسی قسم کا اعتراض نہ کرو، جب شرع کو ان پر کوئی اعتراض نہیں، تم بھی نہ ان پر اعتراض کرو ۔ وہ ظاہری اور باطنی طور پر اللہ کے سامنے رہتے ہیں، جب تک کہ اللہ کی طرف سے انہیں از خودسکون اور سلامتی کی ضمانت نہ مل جائے ، ان کے دل بے قرار رہتے ہیں ۔
اے روئے زمین پر رہنے والے اللہ کے سب بندو اور زاہدو! آؤ اور وہ کچھ سیکھو جس کی تمہیں ذرا خبرنہیں، میری درس گاہ میں داخل ہو جاؤ تا کہ میں تمہیں وہ سکھاؤں جس سے تمہارے دلوں کے دامن خالی ہیں ۔ دلوں کی درس گاہ جدا ہے، باطن کی درس گاہ جداء نفسوں کی درس گاہ جدا ہے ،اعضاء کی درس گاہ جدا، ان کے لئے درجے ، مقام اور قدم جد اجد ا ہیں، ابھی تو تیرا پہلا قدم ہی درست نہیں ہوا ہے، تو دوسرے قدم تک کیسے پہنچے گا، تیرا اسلام ہی درست نہیں ہوا ہے، تو ایمان تک کیسے پہنچے گا۔ تیرا ایمان ہی درست نہیں ہوا ہے، تو ایقان تک کیسے پہنچے گا ،تیرا ایقان ہی درست نہیں ہوا ہے، تو معرفت و ولایت تک کیسے پہنچے گا ، تو عقل کر تو کچھ بھی نہیں ہے، تم میں سے ہر کوئی ساز و سامان واسباب کے بغیر خلقت پر حکومت کا طالب ہے، مخلوق پر حکومت دریاست جب ملتی ہے جبکہ ان میں دنیا ونفس ، اور خواہش وحرص اور ارادے میں کوئی رغبت نہ ہو، تو پہلے زاہد بن پھر حکومت ملے گی ۔
ریاست و حکومت آسمان سے اترا کرتی ہے زمین سے نہیں، ولایت حق تعالی کی طرف سے ملا کرتی ہے ،خلقت سے نہیں۔ ہمیشہ تابع رہ متبوع نہ بن – خادم بن کے رہ مخدوم نہ بن ،ذلت اور گمنامی پر راضی رہنا چاہئے ۔ اگر اللہ کے علم میں اس کے خلاف ہے تو اپنے مقررہ وقت پر تجھے مل کر رہے گا، اپنی طاقت اور قوت کو چھوڑ کر تو خود کو اللہ کے حوالے کر دے ۔ اللہ پر کوئی اعتراض نہ کر ، اورمخلوق اور نفس کو اللہ کا شریک نہ ٹھہراءاللہ کے لئے اپنی بندگی کو درست کر، بندگی کیا ہے؟ اس کے حکموں پر عمل کرنا، اس کی ممنوعات سے باز ر اثارت اعمال صالحہ ہیں۔ کرنا، ۔۔۔ اس کی بنیاد توحید اور اس پر استقامت ہے – ابھی تیری بنیادہی مضبوط نہیں تو عمارت کس چیز پر بنائے گا ، تیری نیت ہی ٹھیک نہیں ہوئی تو بات کیسے کرے گا، تیرا سکوت ہی تمام نہیں ہوا تو گفتگو کیسے کرے گا ، مخلوق سے وعظ و بات کرنا نبیوں کی نیابت انجام دینا ہے، کیونکہ یہی حضرات ہیں جو مخلوق پر واعظ وخطیب تھے۔ وہ جب دنیا سے چلے گئے تب حق تعالی نے باعمل علماء کوان کا قائم مقام بنا دیا ، اور ان علماءکو ان کا وارث بنا دیا جوان کا قائم مقام بننے کا آرزومند ہو، اپنے دور میں اسے ساری مخلوق سے زیادہ پا کباز ہونا چاہئے ، اور اللہ کے علم واحکام کا ان میں سے زیادہ جاننے والا ہونا چاہئے
اے اللہ اور اس کے رسولوں اور اس کے ولیوں اور نیک بندوں سے نا واقفو! تمہارے خیال میں وعظ کرنا ،معرفت وولایت کا ہونا آسان کام ہے ، اپنے نفسوں اور اور عادتوں اور اپنی دنیا وآخرت سے بے خبرو! تم پر افسوس ہے، گونگے ہو جاؤ اور تب تک خاموش رہو جبکہ تمہیں بلایا جائے تمہیں اٹھایا جائے ، اور کھڑا کیا جائے ، اور زندہ کیا جائے ، جس کاعلم اس کی خواہش پر غالب آ جائے وہی علم فائدہ دینے والا ہے ۔ اوریہ علم نافع کیوں نہ ہو گا ، کیونکہ اس نے مخلوق کے دروازے بند کر دیئے اور صرف اللہ تعالی کا دروازہ کھولا جو کہ سب سے بڑا دروازہ ہے، جب یہ بند کرنا اورکھلنا کسی کے لئے درست ہو جا تا ہے ، اس سے مکمل طور سے زحمت جاتی رہتی ہے، اور اسے خلوت الہی میسر آ جاتی ہے، اس کے دل کی طرف خلعت آنے لگتے ہیں ، جواہر نچھاور ہونے لگتے ہیں ،اسے کنجیاں دے دی جاتی ہیں ، اس سےچھلکے الگ کر دیئے جاتے ہیں ، اور مغزہی مغز باقی رو جا تا ہے، خواہشوں کا راستہ بند اور کمزور اور مغلوب ہو جا تا ہے،اوراللہ کی طرف راستہ کھل جاتا ہے، اور یہ بڑا راستہ جو کہ اس کا مقصود ومطلوب راستہ ہے، جوگز شتہ نبیوں اور رسولوں اور ولیوں کا راستہ ہے، ظاہر ہو جاتا ہے، یہ بڑا راستہ کیا ہے؟ بغیر کدورت کے صفائی کا راستہ ،بغیر شرک کے توحید کا راستہ بغیر جھگڑے کے مان لینے کا راستہ بغیر جھوٹ کے سچائی کا راستہ ،بغیر سبب کے سبب پیدا کرنے والے کا راستہ یہی وہ بڑا راستہ ہے جس پر دین کا دارو مدار ہے، جس پر ہمیشہ معرفت کے بادشاہ اور شہنشاہ چلے ہیں ، جو کہ مردان خدا ہیں ، اس کے برگزیدہ اور چنے ہوئے بندے ہیں اللہ کے دین کے مددگار اور دین کی خاطر محبت وعداوت رکھتے ہیں۔ تجھ پر افسوس ہے تجھے ان سب کے راستہ پر چلنے کا دعوی ہے، جبکہ تو اپنے نفس اورمخلوق میں سے بعضوں کو اللہ کا شریک ٹھہرائے ہوئے ہے۔
تیرا ایمان ہی نہیں ہے ، حالانکہ تو غیر سے خوفزدہ اور امید وار ہے، تیرا زہدہی نہیں ، جب کہ تو دنیا کسی اور کی چاہتا ہے، تجھے تو حید کا ذائقہ ہی نہیں، حالانکہ اس کے راستے میں غیر کو دیکھتا ہے، عارف تو دنیا و آخرت میں مسافر ہے اور ماسوئی اللہ سے بے رغبتی کرنے والا ہے، اسے غیر اور ماسوئی اللہ میں کسی طرح کی رغبت نہیں ہے۔
اے لوگو! میری باتیں سنو! – اپنے دل سے مجھ پر تہمت لگانا چھوڑ دو ۔ تم مجھ پر کیسے تہمت دھرتے ہو اور میری غیبت کرتے ہو، حالانکہ میں تمہارے لئے شفیق ناصح ہوں تمہارے بوجھ اٹھا تا ہوں ، تمہارےپھٹے ہوئے عمل سیتا ہوں اللہ سے تمہاری خوبیاں قبول کرنے اور تمہاری برائیاں دور کرنے کی سفارش کرتا ہوں ، جس نے مجھے پہچان لیا۔ مجھ سے کبھی جدا نہ ہو حتی کہ موت سے ہمکنار ہو جائے ، اپنی شہوتیں اور لذتیں اور اپنا کھانا پینا اور لباس مجھے ہی بنائے، اور میری وجہ سے غیروں سے بے پرواہ رہے۔
اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کو دنیا کے ساتھ ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں چھوڑتا :
اے بیٹا! تو مجھ سے محبت کیوں نہیں کرتا ، میں تجھے تیرے ہی لئے چاہتا ہوں ، اس میں میرا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ، میں تیرا فائدہ چاہتا ہوں، دنیا جو کہ دھوکہ باز ہے اور تجھے قتل کر نے کے در پے ہے ، اس کے ہاتھ سے چھڑانا چاہتا ہوں ، اس کے پیچھے کب تک دوڑو گے دنیا جلد ہی اپنی طرف متوجہ کر کے مجھے مار ڈالے گی ، اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کو دنیا کے ساتھ ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں چھوڑتا ، وہ دنیا پران کے لئے بھروسہ نہیں کرتا ، اس لئے اپنے دوستوں کو دنیا کے ساتھ اور نہ غیر اللہ کے ساتھ رہنے دیتا ہے، بلکہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور وہ اللہ کے ساتھ ہیں ، اولیاء اللہ کے دل ہمیشہ اللہ کا ذکر کر نے والے اور اس کی طرف متوجہ ر ہنے والے ہیں، لہذا اللہ ان کے ساتھ ، ان کی حفاظت کرنے والا اور ان کا غم خوار ہے ۔ اللهم اجعلنا منهم واحفظنا كما حفظتهم واتنا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقناعذاب النار ”اے اللہ! تو ہمیں انہیں میں سے کر دے، اور جیسی ان کی حفاظت کی ہے، ویسے ہی ہماری حفاظت فرما۔ اور دنیا کی بھلائی عطا فرما اور آخرت کی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائےرکھ۔ آمین!‘‘
اے منافق! اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ظاہر کرتا ہے، وہی انہیں خلقت میں شہرت دیتا ہے، وہی اپنی بندوں میں سے جسے چاہتا ہے مخلوق کے دلوں کو جمع کر دیتا ہے، وہی فرماں بردار کرانے والا ہے، تو اپنے نفاق کے بل بوتے پرمخلوق کے دل جیتنا چاہتا ہے ،جبکہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا ۔
تیرا نصیب وقت مقررہ پر نہایت خوشگوار، کفایت و پاکیزہ ملے گا:
اے بیٹا! اپنی شہوتوں کو اپنے قدموں تلے روند ڈال ، اور اپنا دل پوری طرح سے ان سے موڑ لے ، ان میں کوئی چیز اللہ کے سابقہ علم میں ہے تو اپنے مقررہ وقت پر خود حاصل ہو جائے گی ، کیونکہ تقدیری امر میں زہد صحیح نہیں ہوتا ، اور نہ اللہ کاعلم بدلتا ہے اور نہ متغیر ہوتا ہے، تیرانصیب اپنے مقررہ وقت پر نہایت خوشگوار ، کافی اور پاکیزگی سے ملے گا۔ تو اسے باعزت طور پر لے گا، ذلیل ہو کر نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی تجھے اللہ کے پاس زہد کا ثواب بھی ملے گا ، وہ تجھے عزت کی نگاہ سے دیکھے گا کیونکہ اس کی طلب میں تو نے حرص اور عاجزی نہیں کی ہے ۔ تو جتنا بھی اپنے نصیب سے بھاگے گا وہ تجھےچمٹیں گے اور تیرے پیچھے پیچھے دوڑیں گے ، چنانچہ اس میں زہد کرنا درست نہیں، لیکن ان کے آنے سے پہلے ان سے اعراض کر ناضروری ہے تو مجھ سے زاہد بننا اور لینا دینا سیکھ، پھر گوشہ نشینی اختیارکر، احکام الہی کو سیکھ اور ان پر عمل کر ،پھر سب سے جدا ہوجا مگر علمائے ربانی سے ملاقات رکھ، ان کی صحبت میں بیٹھنا اور ان کی باتیں سننا گوشہ نشینی سے افضل ہے، جب تو ان میں سے کسی کو دیکھے تو اس کا ہور ہے اور اس سے اللہ کے علم اور معرفت میں سمجھ پیدا کر ان کی زبانی احکام سن کرفقیہہ بن علم مردان الہی کی زبانوں سے حاصل ہوتا ہے، یہ مردان خدا کون ہیں ، اللہ کے حکم وعلم کے جاننے والے ہیں، جب تیرا یہ حال صحیح ہو جائے توا کیلے بغیرنفس اور شیطان اور خواہش اور حرص و عادت کے اور مخلوق کی طرف نظر کئے بغیر خلوت اختیار کر ۔ تیری یہ گوشہ نشینی جب صحیح ہو جائے تو فرشتے اور صالحین کی روحیں اور ان کی ہمتیں تیرے گرد جمع ہو جائیں گی ، اگر مخلوق سے تیری تنہائی وعلیحدگی و گوشہ نشینی اس طرح سے ہوتو بہت اچھا ہے ورنہ یہ سب نفاق اور فضولیات میں وقت برباد کرنا ہے، اور تو دنیا وآخرت میں آگ میں رہے گا، دنیا میں آفات کی آگ میں ، اور آخرت میں اس آگ میں جو کہ منافقوں اور کافروں کے لئے جلائی گئی۔
اللهم عفوا وغفرانا وسترا و تجاوزا و توبة لا تهتك أستارنا لا تؤاخذ بذنوبنا يا الله يا کریم أنت قلت وهو الذي يقبل التوبة عن عباده و يعفوا عن السيئات “تـب عـلينا واعف عناوامين ” الہی! میں معافی اور مغفرت اور پردہ پوشی اور تجاوز اور توبہ کا طلب گارہوں، تو ہماری پرده دری نہ فرما نہ ہمارے گناہوں پر مواخذ ہ فرما، اے اللہ! اے کریم! تو نے ارشادفرمایا: اللہ وہ ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے ۔ ہماری توبہ قبول فرما اور ہمیں معاف فرمادے۔ آمین!‘‘
اللہ کی مقد رفرمائی ہوئی چیزوں میں اس کی موافقت کر :
تجھ پر افسوس علم کا دعوی کرتا ہے اور جاہلوں کی طرح خوشی کرتا ہے اور انہی کی مانند غصہ وغضب کرتا ہے، تیری دنیا کے ساتھ خوشی ہے اور مخلوق کی طرف متوجہ ہونا تجھے حکمت و دانائی بھلا دے گا اور تیرے دل کو سخت کر دے گا ، مومن صرف اللہ کے ساتھ خوش اور شادمان ہوتا ہے، اگر تجھے خوشی ہی کرنا ہے تو جب تیرے پاس دنیا آئے اسے اللہ کی اطاعت میں صرف کر کے خوشی کر اس سے اللہ کے خادموں کو فائدہ ہو اور ان کی طاعتوں میں ان کی مدد کرے، رات دن اللہ کے خوف کولازم پکڑ آخر کار تیرے قلب و باطن سے کہہ دیا جائے جیسا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام سے کہا گیا: ‌لَا ‌تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى’’ڈرونہ، میں تمہارے ساتھ ہوں سنتا اور دیکھتا ہوں ۔
تو ان لوگوں میں سے نہیں ہے، کیونکہ تیرے پاس تو محض علم ہے جوعمل کے بغیر ہے، اس لئے تو ان کا وارث نہیں ہے ۔ . وراثت تب درست ہوسکتی ہے جب علم کے ساتھ عمل اور اخلاص بھی ہوں، اپنا مقام پہچان ، اور جو کچھ تیرے نصیب میں نہیں اس کی طرف ہاتھ مت بڑھا۔ اللہ کی مقد رفرمائی ہوئی چیزوں میں اس کی موافقت کر، وہ تیری موافقت کرے گا ، اور تیرے ساتھ مہربانی فرماتے ہوئے تجھ سے بوجھ اٹھالے گا ، اوردنیا وآخرت میں تیرے ساتھ نرمی کرے گا ، مومن کا جب ایمان قوی ہو جائے تو اسے صاحب ایقان کہا جا تا ہے جب اس کا ایقان قوی ہو جائے تو اسے عارف کہا جا تا ہے ، جب اس کی معرفت قوی ہو جائے تو اسے عالم کہا جا تا ہے، جب اس کا علم قوی ہو جائے تو اسے محبت کہا جا تا ہے، جب اس کی محبت قوی ہو جائے تو اسے محبوب کہا جا تا ہے، جب وہ صحیح طرح سے محبوب ہو جائے تو اسے غنی ومتقرب ومستانس کہا جا تا ہے۔
وہ اللہ کے قرب سے انس حاصل کرتا ہے، اللہ تعالی اسے اپنی حکمتوں اور علم اور اپنے اگلے پچھلے لکھے ہوئے اور قضاوقدر کے رازوں سے آگاہ فرما دیتا ہے، یہ آ گا ہی اس کے حوصلے اور اس کے دل کی قوت اور وسعت پر ہوتی ہے جو اللہ اسے عطافرماتا ہے، وہ بندہ اپنے رب کی محبت میں قائم ہو کرقلبی طور پرمخلوق سے خارج ہو جاتا ہے، جب اللہ کا سابق علم آتا ہے تو اس کے ساتھ کھانے پینے ، لباس اور نکاح کا حصہ ہوتا ہے، یہ اس علم سابق کو اس کے بے سبب غائب ہونے کے نہیں پاتا ۔ اللہ اسے لینے کے لئے اپنے مقرب کو نیا وجود عطا کرتا ہے تا کہ علم از لی باطل اور بے کار ثابت نہ ہو جائے ، چنانچہ اسے نئی زندگی کے ساتھ پیدا فرمادیتا ہے۔ تاکہ علم از لی میں جو عمارت تعمیر فرمائی تھی ، کہیں وہ گر نہ جائے ، ۔ چنانچہ اس محبوب کو اس کے نصیب سے ایسے لقمے کھلائے جاتے ہیں جیسے کہ چھوٹے بچے کو چھوٹے چھوٹے لقمے دیئے جاتے ہیں، یا جیسے کہ ماں اپنے دودھ پیتے بچے کومنہ میں شہد چٹایا کرتی ہے، گویا کہ اس کے منہ میں خود ہی نصیب رکھ دیا جا تا ہے اور وہ اسے ایسے کھاتا رہتا ہے جیسے کہ مریض کو زبردستی شربت پلایا جا تا ہے ، اورا نکے ذریعے بغیر کسی اختیار کے اپنی قوت کی حفاظت کرتا ہے، بلکہ سابقہ علم الہی ایسے مؤمن، صاحب ایقان اور عارف باللہ فانی کی پرورش فرماتا ہے جو اپنے لئے نفع اٹھانے اور نقصان دہ چیزوں کے دور کرنے سے فنا ہو چکا ہو، رحمت کا ہاتھ اس کے دائیں اور بائیں پہلو بدلتا رہتا ہے، اور مہربانی کاہاتھ اسے اٹھاتا اوربٹھا تا ہے، جس شخص نے ان کو نہ پہچانا اوراس کی رحمت کا دامن نہ تھا ما اس کی بد نصیبی ہے۔ جس بندے نے اللہ سے معاملہ نہ کیا ، اور اپنے دل سے اس کی طرف متوجہ نہ ہوا ، اور باطن سے اس کے ساتھ رابطہ نہ کیا اور اس کے لطف و احسان سے وابستہ نہ ہوا، اس کی بد نصیبی ہے، اے لوگو! اللہ تعالی صدیقوں کے دلوں کی تربیت کا ان کی نوعمری سے بڑھاپے تک والی کفیل رہتا ہے، جب انہیں کسی مصیبت میں ڈال کر آزماتا ہے، پرکھتا ہے، اور انہیں اس پر صابر پا تا ہے تو ان پر اپنا قرب اور نزد یکی بڑھا دیتا ہے، بلائیں ان پر غلبہ نہیں کرتیں ، نہ ان تک پہنچ پاتی ہیں، مصیبتیں انہیں کیسے لاحق ہوسکتی ہیں جبکہ مصیبتیں تو پا پیادہ ہیں اور اللہ کے ان ولیوں کے دل پرندوں کے بازوؤں پر ہیں، بد نصیبی ہے ان کے لئے جوا نکے دلوں کو دکھ دیتا ہے، اس پر اللہ کی ناراضی ہے ۔ اس پر اللہ کا عذاب ہے ۔ اور بد نصیبی ہے اس کے لئے جو اللہ سے محروم ہو۔
اولیاء اللہ کی خدمت میں عظمت:
اے بیٹا! تو اولیاء اللہ کا خادم وغلام بن اور انہیں ہرممکن طور پر راضی رکھ، ان کی خدمت مستقل کرتارہے گا تو سردار ہو جائے گا ۔ جو بندہ اللہ اور اس کے نیک بندوں کے سامنے عاجزی اختیار کرتا ہے، تو اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اس کا مقام بلند کرتا ہے، جب تو اللہ والوں کی خدمت کرنے میں تکلیف اٹھائے گا، اللہ تجھے انہی کی طرف بلند فرمائے گا ، اور تجھے ان کا سردار بنا دے گا، کیا مرتبہ ہوگا اس کا جو اس کی مخلوق میں سے خاص الخاص کی خدمت کرے گا ،۔ اللهم أجر الخيرات على ايدينا والسنتنا واجعلنا من أهل لطفك و عنايتك الہی! ہمارے ہاتھوں اور زبانوں پر بھلائیاں جاری فرما، اور ہمیں اپنے لطف و عنایت کا اہل بنا۔ آمین!‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 392،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 204دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
پچپنویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پچپنویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الخامس والخمسون فی الرضا بقضاء اللہ‘‘ ہے۔
منعقدہ 17مضان 545 بوقت صبح جمعہ بمقام مدرسه قادریہ
تقدیر الہی پر اس کی رضا کا حصول:
جو بندہ تقدیر الہی پر اللہ کی رضا کا طلب گار ہے تو وہ موت کو بکثرت یاد کرے، کیونکہ موت کا ذکر آفتوں اور مصیبتوں کو آسان کر دیتا ہے ۔ اللہ پر اپنے نفس اور مال اور اولاد کے بارے میں تہمت نہ لگایا کر بلکہ یہ کہا کر ”میرارب مجھ سے بہتر جاننے والا ہے۔اس حال پر ثابت قدمی سے تجھے اللہ کی رضا اور موافقت کی لذت آئے گی ، تمام آفتیں اپنی جڑ اور شاخوں سمیت ٹل جائیں گی ، اور ان کے بدلے میں نعمتیں اور پاکیزہ چیز یں حاصل ہوں گی ، تو جب بھی کسی مصیبت میں اللہ کی رضا کے ساتھ موافقت کرے گا اور اس سے لذت پائے گا تو تیرے لئے ہر سمت سے ہمتیں آئیں گی۔
تھ پر افسوس ہے ،اے غافل ! ۔ تو غیر کی طلب میں اس سے لا پرواہ نہ ہو، تو کب تک اس سے رزق میں کشادگی چاہے ۔ گا ممکن ہے یہ طلب تیرے لئے فتنہ ہو اور اس کی خبر نہ ہو ، تجھے یہ معلوم نہیں کہ کس چیز میں بھلائی ہے، خاموشی اختیار کر اور تقدیر سے موافق ہو ۔ اللہ کے کاموں میں اس کی رضا مندی اور سب احوال میں شکر طلب کر ، رزق کی کشادگی بغیر شکر کے فتنہ ہے، رزق کی تنگی بغیر صبر کے فتنہ ہے، شکر نعمتیں بڑھاتا ہے، اور اللہ کے قریب کرتا ہے، اور صبر تیرے دل کے قدموں کو استقامت دیتا ہے اور اس کی تائید و مد دکرتا ہے، اور کامیابی وفتح مندی دلاتا ہے، دنیا و آخرت میں صبر کا انجام نیک اور حسین ہے، اللہ کی ذات پر اعتراض کرنا حرام ہے، اس سے دل اور چہرہ دونوں سیاہ ہو جاتے ہیں ۔
تجھ پر افسوس! اپنے نفس کو اللہ پر اعتراض کرنے سے روک دے، اس کے بجائے اللہ تعالی سے سوال کرنے میں مشغول کر ، تا کہ تیری مصیبتوں کے وقت ٹل جائیں اور آفتوں کی آگ بجھ جائے ، اے اللہ کی طلب کا دعوی کرنے والے اور اس کی رحمت اور محبت کے خزانوں کا علم رکھنے والے! اس تک پہنچنے سے پہلے تو جب تک راستے میں رہے، اس سے سوال کرتا رہ
جب راستے میں حیران ہو تو یہ عرض کر : يا دليل المتحيرين دلني ”اےحیرانوں کے رہبر ! میری رہنمائی کر ‘‘ جب تو آزمایا جائے اور صبر سے عاجز ہوتو یہی سوال کر : الهی اعنى وصبرني واكشف عنی الہی میری مددفر ماء اور صبر عطا کر، اور میری مصیبت کو دور کر “
اور جب تو گوہر مقصود کو پالے، تیرے دل کو حضوری مل جائے اور قرب عطا ہو جائے تو اس سے نہ کوئی سوال ہو نہ کچھ زبان کہے، خاموشی ہو اور نظارہ ہو ۔ تیری مہمان کی حیثیت ہوگی ، اور مہمان کسی طرح کی فرمائش نہیں کرتا ، بلکہ حسن ادب کوملحو ظ رکھتا ہے، جو کچھ پیش ہو کھالیتا ہے جو کچھ دیا جائے لے لیتا ہے، مگر جب میزبان کہے:” کوئی فرمائش کر‘‘! – تب حکم کی تعمیل میں بے اختیار خواہش کا اظہار کر دیتا ہے ، دوری ہوتو سوال نزدیکی ، ہوتو خاموشی۔ اولیاء اللہ اللہ کے سواکسی کو نہیں پہچانتے ، دوست احباب سے قطع تعلق ہو جا تا ہے ، اسباب کا سلسلہ دلوں سے ٹوٹ جاتا ہے، اگر ان پر چند دنوں یا چند مہینوں کے لئے کھانا روک دیا جائے تو وہ کچھ پرواہ نہیں کر تے ،نہ ان میں کوئی تبدیلی آتی ہے، کیونکہ اللہ ان کو کھلانے والا ہے، جو چاہتا ہے انہیں کھلاتا ہے، جسے اللہ کی محبت کا دعوی ہو اور اس سے اس کے غیر کو طلب کرے، تو وہ اپنی محبت میں جھوٹا ہے، لیکن جب محبوب اللہ سے واصل اور اس کی بارگاہ میں مہمان ومقرب ہو جائے تو اس سے کہا جاتا ہے –
مانگ اور تمنا کر سوال کر ، کیا چاہتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کی عزت افزائی ہے، محب (عاشق) حالت قبض (تنگی ، وخوف ) اور محبوب ( معشوق ) حالت بسط ( کشادگی ، رحمت و وسعت ) میں ہے، محبت نا کامی میں اور محبوب عطا و بخشش میں ہوتا ہے، جب تک بندہ محب ہے توحیرانی و پریشانی میں کوفت اور گزارے کے لئے فکر معاش میں رہتا ہے۔ جب حالت بدل جائے محب سے محبوب بن جائے تو اس کے حق میں ماحول بدل جا تا ہے، ناز و نیاز، خوشحالی ، اطمینان اور رزق میں کشادگی آتی ہے، اور مخلوق مسخر ہو جاتی ہے، یہ سب انعام و اکرام اس کے صبر اور محبت کے عالم میں ثابت قدمی کی برکتیں ہیں ، ۔ بندے کی اللہ کے لئے صحبت اور اللہ کی بندے سے محبت مخلوق سے مخلوق کی محبت کی طرح نہیں ہوتی ۔ اس کی مثل کوئی چیز نہیں، وہ سب کی سنتا اور سب کچھ دیکھتا ہے۔
لَيْسَ ‌كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اس نے مثالیں لوگوں کے سمجھانے کے لئے بیان فرمائی ہیں ، تم اس سے عقل سمجھ طلب کرو، اس کی سنگت میں دل کی خوشی چا ہو، کیونکہ وہ جس کے لئے چاہتا ہے خوش دلی کو وسعت دے دیتا ہے ۔ جس کے لئے چاہتا ہے دلوں کے رزق کو بڑھا دیتا ہے ۔ اولیاء اللہ میں سے ہر ایک کا دل تمام آسمان اور زمین والوں کی وسعت رکھتا ہے ۔ اس کا دل حضرت موسی علیہ السلام کے عصا کی طرح ہو جا تا ہے ۔
خصائص حضرت موسی علیہ السلام :
حضرت موسی علیہ السلام کا عصا ابتدائے حال میں حکمت تھا، پھر سراپا قدرت ہو گیا تھا وموسی علیہ السلام جب اپنے سامان کو نہ اٹھا سکتے تھے ،عصا اٹھالیتا تھا، جب چلنے سے عاجز ہو جاتے تو آپ کی سواری بن جا تا تھا ۔ آپ کے بیٹھنے اور سونے کے وقت آپ کی حفاظت کرتا اور تکلیف دہ چیز یں ہٹا تا رہتا ، ضرورت کے وقت وہ عصا درخت بن جاتا اور آپ کے لئے طرح طرح کے پھل پیش کرتا ، اور جب آپ بیٹھتے تو آپ پر سایہ کرتا – تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو عصا میں قدرت دکھائی ، عصا کے ذریعے موسی علیہ السلام کو اپنی قدرت سے
مانوس کر لیا ، ان سے کلام فرمایا اوران پر احکام جاری کئے اور ارشادفرمایا:
وَمَا تِلْكَ ‌بِيَمِينِكَ يَامُوسَى قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى قَالَ أَلْقِهَا يَامُوسَى فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَى اے موسی ! تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے، عرض کیا : یہ میرا عصا ہے، میں اس پر ٹیک لگا تا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑ تا ہوں ، اور اس میں میری اور بھی حاجتیں ہیں، فرمایا: اسے زمین پر ڈال دو – آپ نے عصا ڈال دیا، عصا ایک بڑا بھاری اژدھا بن گیا ، موسی اس سے ڈر کر بھاگنے لگےو فرمایا اسے پکڑلو، ڈر نہیں ، ہم ابھی اسے پھر عصا بنادیں گے۔
مقصد اس سے یہ تھا کہ آپ کو قدرت پر مطلع کر دیا جائے ، تا کہ آپ کی نظر میں فرعون کی سلطنت ذلیل ہو جائے ،اور آپ کو فرعون اور اس کے لشکر سے لڑنا سکھادے، اللہ نے موسی علیہ السلام کو فرعونیوں سے لڑائی کے لئے مستعد کیا ، آپ کو خلاف عادت (یعنی معجزات ) پر مطلع کیا،(اتنے بڑے بار کے لئے )ابتدائے امر میں آپ کا دل اور سینہ تنگ تھے، پھر اللہ تعالی نے ان کے دل اور سینے میں وسعت دے دی۔ اور انہیں شجاعت و ثابت قدمی عطا فرمائی ، ان کے ہاتھ میں قدرت رکھ دی اور انہیں حکم اور نبوت اور علم عنایت فرمائے: اے جاہل جس کی قدرت ایسی ہو کیا وہ بھلا دینے اور نافرمانی کے قابل ہے، جو تجھے نہ بھلائے تو اسے مت بھلا جو تجھ سے غافل نہیں تو اس سے غافل نہ ہو، موت کو یا درکھ، کیونکہ موت کا فرشتہ روحوں پر تعین کر دیا گیا ہے، تیرامال ومتاع واسباب اور جن نعمتوں میں تو ہے، تجھے کہیں دھوکے میں نہ ڈال دیں عنقریب یہ سب کچھ تجھ سے لے لیا جائے گا۔ ان دنوں کو فضول کاموں میں ضائع کر دینے اور اپنی کوتاہیاں یا دکر کے ندامت اٹھائے گا، اس وقت کی شرمساری کچھ کام نہ آئے گی۔ جلد ہی مرے گا تو میری باتیں اورنصیحتیں یا دآئیں گی اور قبر میں یہ خواہش کرے گا کہ میری مجلس میں آئے اور میری نصیحتیں سنے تو میری باتیں قبول کرنے کی کوشش کر ، اور ان پر عمل کرتا کہ دنیا و آخرت میں میرے ساتھ رہے، میرے ساتھ حسن ظن رکھ تا کہ میری باتیں تجھے فائدہ دیں، لوگوں کے ساتھ اچھا گمان رکھ اور اپنے نفس سے بدگمانی رکھ، ایسا کرنے سے تیرا بھی فائدہ ہوگا اور دوسروں کو بھی تجھ سے فائدہ ہوگا۔ جب تک تو غیر اللہ کے ساتھ رہے گا تو رنج وغم اور شرک و گناہ میں گھرا رہے گا، مخلوق سے دلی طور پر الگ ہو جا اور اللہ تعالی سے مل جا، اور پھر وہ دیکھے گا جونہ آ نکھ نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور کسی انسان کے دل پر بھی خیال بھی نہیں گزرا ۔ جس حال میں تو ہے، یہ نہ صحیح ہے نہ تمام ہے۔ سراسر ریا ءہے، اس لئے کہ اس کی بنیاد مضبوط نہیں کمزور ہے اونچے ٹیلے پر بنائی گئی عمارت گر جائے گی ، اللہ کے حضور تو بہ کر، اور جس حال میں اور جس حال پر ہے اسے بدل دینے کی اللہ سے التجا کر ، اور یہ کہ دل میں دنیا کی طلب اور آخرت سے جو روگردانی ہے، اسے دور کر دے ۔
اللہ کے اختیار پرصبر کر، اس کا اجر بے شمار ہے:
تھ پر افسوس ! اللہ نے تیرے لئے محتاجی پسند کی ہے اور تو اس سے کشائش چاہتا ہے، کیا معلوم نہیں کہ وہ تیرے لئے جو پسند کرتا ہے، تو اسے نا پسند کرتا ہے تو اللہ کی پسند کو برا سمجھتا ہے ، تیرا نفس اور حرص ، اور تیری عادت اور شیطان اور تیرے برے دوست انہیں اللہ کا اختیار نا پسند ہے،نہ ان کی موافقت کر ، نہ ان کے غصے اور اعتراض کی طرف تو جہ کر ۔ قلب و باطن جو کرنے کو کہتے ہیں اور جس سے منع کرتے ہیں، اسے سن ۔ کیونکہ وہ نیکی کے لئے کہتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں تو اپنی محتاجی پرخوش رہ ، اس لئے کہ اس پر خوش رہنا ہی اصل سرمایہ ہے ۔ یہ بھی ایک طرح سے اللہ کی تیرے لئے حفاظت ہے کہ تو تقدیر کے خلاف پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اللہ اگر تقدیر کے خلاف کرنے پر قدرت دے دیتا تو غالب امکان یہی ہے کہ تو گناہوں میں پڑ کر ہلاک ہو جا تا ۔ اگر اس نے تجھے عاجز ومحتاج بنایا ہے تو ظاہر یہی ہے کہ تجھے گناہوں سے بچائے رکھے ۔ اللہ کی رضا پر صبر کرنے سے اس قدر ثواب ملے گا کہ سب زمین والے اسے شمار نہ کرسکیں ،تو جلد باز ہے اور جلد بازکے ہاتھ کچھ نہیں لگتا ۔ جلد بازی شیطان کا کام ہے، اور توقف واطمینان اللہ کی طرف سے ہے، جلدی کرے گا تو شیطان کا ساتھی اور اس کے لشکر میں سے ہوگا ۔ اور جب تو بہ کر کے ادب بجالائے ۔ ثابت قدم رہے اور صبرکرے تو رحمان کا ساتھی اور اس کے لشکر میں سے ہوگا۔ تقوی کی حقیقت یہ ہے ہی کہ اللہ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، وہ کرے ۔ اور جن کاموں سے منع کیا ہے۔ان سے منع رہے، اور اس کی تقدیروں اور افعال اور تمام بلاؤں اور آفتوں پر صبر کرے تم سر سے پاؤں تک مخلوق اور نفس اور حرص ہو، اور مکمل طور پر غیر حاضر اور مجسم ہوس بن گئے ہو، تمہیں اللہ اور اس کے پہچاننے والوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ، ان کے لحاظ سے تم دیوانے اور بے حواس ہو ، وہ تو عقل والے ہیں جب اللہ کے دیوانے کا دیوانہ پن کامل ہو جا تا ہے تو اس کا اس کیفیت سے نکلنے کا وقت قریب آ جا تا ہے، شروع میں حرکت ہوتی ہے اور انتہاء میں سکون ہے، اس کا مرض جاتا رہتا ہے اور حکمت اس کی فرماں بردار ہو جاتی ہے۔
سواد اعظم کی اتباع میں صراط مستقیم پر چلو :
بیٹا! تو آخرت سے تہی دامن ہے اور دنیا سے بھر پور ہے ۔ تیرا یہ حال اور اولیاء اللہ اور صالحین سے تیری دوری ، انکی صحبت سے غیر حاضری اور اپنی سوچ پر بھروسہ کرنا مجھے دکھی کرتا ہے، کیا تجھےنہیں معلوم کہ جو اپنی رائے پر تکیہ کرتا ہے وہ راہ سے بھٹک جاتا ہے۔
ہرعلم والے کو اپناعلم بڑھانے کی ضرورت ہے، ہر علم والا ، دوسرے علم والے سے زیادہ علم رکھتا ہے، ۔
ارشاد باری تعالی ہے: وَمَا ‌أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا اور تمہیں علم دیا گیا مگر بہت تھوڑا‘‘
سواد اعظم کی اتباع کرو اور صراط مستقیم پر چلو ، طریقت کا دامن تھامے رہو، شریعت کی فرماں برداری کرو۔ اس سے ہٹ کر نہ چلو، اللہ تک پہنچ جاؤ گے، فرماں برداری کرونت نئی راہیں نہ چلو، وہی ایک راستہ کافی ہے، نفس اور حرص کے ساتھ نہ چلو بلکہ اپنی طاقت اور قوت اور بہادری کے ساتھ حکم پرعمل کرتے جاؤ ، سرتسلیم جھکاؤ اور چالا کی چھوڑ دو، جلد بازی کی بجائے مستقل مزاجی اور آہستگی اختیار کر یہ بات ایسی نہیں جو جلد بازی سے ہاتھ آ جائے ، اس میں محنتوں اور اللہ کے بندوں کی رفاقت میں صبر کرتے ہوئے مجاہدے اور مشقت کی ضرورت ہے ۔ یہ کہ تواللہ کی معرفت رکھنے والے بادشاہوں کی بارگاہ میں رہے تا کہ: وہ تیری رہنمائی کر یں، معرفت کا سبق بتائیں، تیرا بوجھ اٹھالیں، ان کے ہمرکاب چلو تھک جائے تو تجھے اٹھانے کا حکم دیں یا اپنے پیچھے سوار کر لیں ، اگر تو محب ہے تو اپنے پیچھے بٹھائیں گے۔ اگر تو محبوب ہے تو زین پر بٹھا کر خود تیرے پیچھے بیٹھیں گے۔ جس نے اس کا لطف اٹھایا، اسے وہی جانتا ہے۔اہل اللہ کے پاس بیٹھنا ایک نعمت ہے کیونکہ وہ اس بات کے اہل ہیں کہ ان کے پاس بیٹھا جائے ، اغیار کے پاس بیٹھنا ایک عذاب ہے کیونکہ وہ لوگ جھوٹے اور منافق ہیں ، تیرے لئے ضروری ہے کہ اللہ کے لئے مراقبہ کر اور اپنے نفس سے ان چیزوں کا مطالبہ کر جو کہ اس پر حقوق الہی اور حقوق العباد سے واجب ہیں ، اگر نیاوآخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اپنے بارے میں اللہ کے علم کا انتظار کر اور اپنے نفس سے اس پرعمل کر ، اورنفس سے یہ مطالبہ کر کہ ظلم الہی پرعمل کر کے گناہ سے بچتارہے،آفتیں آنے پر صبر کر اللہ کی قضا اور قدر پر راضی رہتے ہوئے اس نعمتوں کا شکر واجب سمجھ جب تو ایسا کرے گا تو رکاوٹیں دور جائیں گی اور اللہ کی صحبت تیرے لئےصحیح ہو جائے گی ،تجھے سفر میں ہمسفرمل جائے گا اور چشمہ معرفت پالے گا اور یوں تیرے ہاتھ ایک ایسا خزانہ آ جائے گا۔ کہ تو جہاں کہیں بھی جائے گا وہ تیرے پیچھے پیچھے چلے گا، تجھے اس کی کچھ پرواہ نہ ہوگی ، کہ کہاں اترا، کیونکہ تو جہاں گرے گا اٹھالیا جائے گا۔ حکم اور علم اور قدر، جن وانسان اور فرشتے سب تیرے خدمت گزار ہوں گے، ہر چیز کوتیراڈر ہوگا کیونکہ تو اللہ سے ڈر رکھنے والا ہو گیا ۔ اور ہر چیز تیری فرماں بردار ہو جائے گی۔ کیونکہ تو اللہ کا فرماں بردار ہو گیا ، جو اللہ سے ڈرتا ہے اس سے ہر شے ڈرتی ہے ۔ جواللہ سے نہیں ڈرتا، وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے ۔ جواللہ کی خدمت کرتا ہے، ہر چیز اس کی خدمت کرتی ہے۔ اس لئے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے کسی کا ذرہ برابر عمل بھی ضائع نہیں کرتا۔ جیسا تو کرے گا ویسا بدلہ پالے گا، جیسے تم ہوگے، ویسا ہی تم پر حکمران ہوگا،۔ اللهـم عـامـلـنا بكرمك وإحسانك وتجاوزك و لطفك بنا في الدنيا والأخرة واتنا في الدنياحسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النار الہی دنیاو آخرت میں ہم سے اپنے کرم اور احسان اور درگز رکرنے اور لطف کے ساتھ معاملہ فرما اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا کر، اور ہمیں آخرت کی بھلائی عطا کرے ۔ اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔آمین!‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 409،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 211دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
چھپنویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ستاونویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السادس والخمسون فی المراقبۃ فی اللہ‘‘ ہے۔
منعقدہ 19 رمضان 545 بروز صبح اتوار بمقام خانقاہ شریف
ہر زندگی کی غرض و غایت اور انتہا موت ہے۔
اے بیٹا! میں تیرا رہن سہن اللہ والوں کے رہن سہن سے مختلف دیکھتا ہوں جن کا دھیان اللہ کی طرف رہتا ہے اور جو اللہ کا ڈر رکھتے ہیں ۔ تیراملنا جلنا ان سے ہے جو شریر اور فساد کرنے والے ہیں ،جبکہ اولیاء اللہ اور برگزیدہ لوگوں سے دور دور رہتا ہے، تو نے اپنا دل اللہ کی ذات سے خالی کر لیا ہے اور اسے دنیا اور اہل دنیا اور دنیا کے اسباب کی خوشی سے بھر لیا ہے ۔ کیا تجھے نہیں پتہ کہ اللہ کا خوف دل کا کوتوال ہے اور اسے منور کرنے والا اور اس کی وضاحت و تفسیر کرنے والا ہے۔ اگر تو اس حال پر ثابت قدم رہا تو دنیا وآخرت میں سلامتی سے محروم ہو گیا ، اگر تو موت کو کثرت سے یاد کرتا تو دنیا کے ساتھ تیرا خوش ہونا کم ہو جا تا اور اس میں تیرا زہد بڑھ جا تا ۔ جس کا آخر موت ہو وہ کسی چیز سے کیسے خوش رہ سکتا ہے، رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا:
‌لِكُلِّ ‌سَاعٍ غَايَةٌ، وَغَايَةُ كُلِّ سَاعٍ الْمَوْتُہر سعی کرنے والے کی ایک انتہا ہے، اور ہر زندہ کی غرض و غایت اور انتہا موت ہے۔‘‘ سب خوشیوں اور غموں ، امیری اور فقیری سختی اور نرمی ، دکھوں اور بیماریوں کا آخر وانجام موت ہے۔ جو مر گیا اس کے لئے قیامت برپا ہوگئی ۔ جو شے اس کے لئے دور تھی ،اب قریب آ گئی، وہ سب کچھ سراسر حرص ہے جس میں تو مبتلا ہے، ان سب سے تو اپنے دل اور باطن اور باطن الباطن کے ساتھ الگ ہو جا،د نیا میں تیرا رہنا ایک مقررہ وقت تک ہے جبکہ آخرت میں رہنا ہمیشہ کے لئے اور نامعلوم وقت تک ہے، کوشش کر کہ تو سراپا طاعت بن جائے ، ایسا کرنے سے تو مکمل طور پر اللہ کا بن جائے گا۔
نفس کا وجود گناہ ہے، اور اس کا گم کردیناطاعت ہے، خواہشوں پرعمل کرنانفس کا وجود ہے اور ان سے باز رہنا نفس کا گم کر دینا ہے نفسانی خواہش سے رک جا انہیں حاصل نہ کر،اللہ کی تقدیر اور موافقت کے بغیر خواہشات کو حاصل نہ کر ، نہ ا پنی خود مختاری سے اپنی خواہش سے ، خود پر جبر کرتے ہوئے ، گو یا نہ چاہتے ہوئے زہد کے ذریعے خواہشیں حاصل کرے ۔ زہد اور بے رغبتی کے ہاتھ ہلاتے ہوئے مقدرخواہشیں حاصل کر اور انہیں نفس تک پہنچائے ، زہد ضروری ہے ، اور اپنی حالت کے علم سے پہلے اس کی ضرورت ہے ، زہدو بے رغبتی تاریکی میں ہوتے ہیں اور رغبت و تو جہ روشنی میں ابتدائی حالت تاریکی ہے اس سے نکلے گا تو روشنی دکھائی دے گی ، قدرت تاریکی ہے اور قدرت والے کے ساتھ تیرا قیام روشنی ہے۔
اللہ کی طرف سے جب یہ کھل جائے گا، اور تو اس کے حضور میں ثابت قدم ہو جائے گا تیرا معاملہ روشن ہو جائے گا، معرفت کے چاند کی روشنی جب پھیلتی ہے تو قدر کی رات کی تاریکی دور ہو جاتی ہے، لہذا اللہ کی معرفت کا آفتاب جب چمک جائے گا تو ہر طرح کی کدورتیں اور تاریکیاں چھٹ جائیں گی، وہ تمام چیز یں جو تیرے قریب ہیں یا تیرے سے دور ہیں ، سب تجھ پر ظاہر ہو جائیں گی ۔ اس سے پہلے جو تجھ پر مشکل حالات تھے، وہ سارے واضح ہو جا ئیں گے، تجھے خبیث اور پاک میں تمیز ہو جائے گی ، اور دوسروں کے اور اپنے معاملات کے بارے میں فرق سامنے آ جائے گا ۔ مخلوق کی مراد اور اللہ کی مراد میں فرق کرنے لگے گا مخلوق کا اور خالق کا دروازہ الگ الگ دیکھنے لگے گا۔۔۔۔اب خالق کے دروازہ پر ‌مَالَا ‌عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍجو نہ آ نکھ نے دیکھا اور نہ کانوں نے سنا اور کسی انسان کے دل پر اس کا خیال گزرا ۔
تیرا دل اللہ کے مشاہدہ کے طعام سے کھائے گا ، انس کی شراب سے پئے گا ، اور قبول کی خلعت سے نوازا جائے گا ۔ پھر مخلوق کی مصلحتوں کے لئے مخلوق کی طرف لوٹا دیا جائے گا تا کہ انہیں: –
گمراہی سے واپس لایا جائے ۔ – اللہ کی طرف لوٹایا جائے ۔گناہوں سے بچایا جائے ۔ یہ لوٹنا سخت مضبوطی اور دائمی حفاظت اور سلامتی کے ساتھ ہوگا ، اس سے بے خبر اور اس پر ایمان نہ لانے والے! تو مغز کے بغیر چھلکا ہے اور فقط ایک ٹیک لگانے والی لکڑی ہے، جو خستہ حال ہے اور جلانے کے کام آ سکتی ہے ، ہاں مگر تو بہ کرنےاور ایمان لانے اور تصدیق کرنے میں نجات ہے ۔
تجھ پر افسوس! اگر تو تو بہ کر لے اور ایمان لے آئے اور تصدیق کرے اور تقدیر کے ساتھ موافقت کرے، تو بھلائی اور سلامتی اور شیرینی پائے ۔ا گرایسا نہ کرے تو اس میں کانچ کے ٹکڑے پائے گا جو تیری زبان اور تالواور جگر کے ٹکڑے کر ڈالیں گے ، میری بات مان لے، یہ طے ہے کہ میں تیری رسیوں کو بل دیتا ہوں ، میری بات مان لے اور مجھ سے دشمنی نہ کر ۔ میرے اور تیرے بیچ میں کس چیز کی عداوت ہے، میں تیری عبادتوں کے لئے ایک مسجد کی طرح ہوں، تیری نجاستیں اور میل کچیل دور کرتا ہوں ، تیرے لئے راستہ صاف کرتا ہوں ، اس میں تیرے لئے کھانا پینا رکھتا ہوں ۔ میں یہ سب تیرے ساتھ کرتا ہوں اور اس کا کچھ بدلہ بھی نہیں چاہتا، میری اجرت ،میرے پیالے کا بھرنا تیرے ذمہ نہیں بلکہ کسی دوسرے کے ذمہ ہے۔ میرا مشغلہ تو محض اللہ کے لئے طالب علموں کی خدمت کرنا ہے، جب اللہ کے لئے تیری طلب درست ہو جائے گی تو تیری خدمت بھی میری ذمہ داری میں شامل ہو جائے گی ، جب بندے کا ارادہ اوراس کی طلب مکمل طور پر اللہ کے لئے ہو جائے تو سب چیز یں اس کی خدمت کے لئے مسخر ہو جاتی ہیں ۔
عظیم وعلیم مالک کے دامن رحمت سے وابستہ رہ:
اے بیٹا تو اپنے نفس کو خود نصیحت کر ، میرا یا کسی اور کا محتاج نہ ہو، میراوعظ تیرے ظاہر پراور تیرا وعظ تیرے باطن پر اثر کرتا ہے، اپنے نفس کو ہمیشہ موت کے ذکر کی نصیحت کر تمام اسباب اور علاقوں سے تعلق ختم کر دے، اور سب مالکوں کے مالک، پیدا کرنے والے عظیم علیم سے واسطہ رکھ، اس کی رحمت اور شفقت کے دامن سے لپٹ جا، اس کے غیر کی طرف دھیان نہ کر وہ غیر تجھے اس سے دوری میں ڈال دے گا، تم میں سے جب کوئی میرے ہاتھ پر نجات پا تا ہے تو میں اس کے لئے نہایت خوش ہوتا ہوں، اور جب کسی کو نصیحت کروں اور وہ نہ مانے تو اس پر بڑا دکھ ہوتا ہے، ایمان والا میرے قریب ہوتا ہے اور منافق مجھ سے دور بھاگتا ہے ۔ اسے منافقو میں تم پر غصہ کر کے ان کی موافقت کرتا ہوں اسنے مجھے تم پر وہکتی ہوئی آگ بنا دیا ہے اگر تم تو بہ کرو ، اور جو میں کہوں اسے قبول کرو اور میری سخت کلامی پر صبر سے کام لو، تو میں تم پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈک بن جاؤں گا،۔ تم پر افسوس ہے کہ تم شرم نہیں کرتے ،تمہاری اطاعت اور تابع داری ظاہری ہے جبکہ باطن میں گناہ ہیں، تم عنقریب بیماری اور موت کے پنجے میں جکڑے جاؤ گے، پھر اللہ کی آگ دوزخ میں قید کر دئیے جاؤ گے ۔اے عملوں میں کوتاہی کر نے والو! تم ذرا بھی شرم نہیں کرتے ، رات دن فضول باتوں میں بیکار لگے رہتے ہو،۔عمل کرنے میں کوتاہی کرنے کے باوجوداللہ کی نعمتوں کی تمنا رکھتے ہو، اعمال خیر کثرت کے ساتھ کروتا کہ تمہارے نفسوں کو اس کی عادت ہو، شروع میں ہر نئے کام کرنے والے کے لئے ایک دہشت ہوتی ہے، آخر کارتم صاف اور خالص ہو جاؤ گے، سب کدورتیں جاتی رہیں گی، اگر توبہ کرو ابتدا اور انتہا دونوں کی ضرورت ہے، اللہ کی معرفت کے میدان میں اتر آؤ ، مقرب ہو جاؤ گے۔ اے اپنے مالک کی خدمت سے بھاگنے والو! اے اپنی رائے کے ساتھ نبیوں اور رسولوں اور اصفیاء کی رائے سے بے پروائی برتنے والو، اے خالق کو چھوڑ کر مخلوق پر بھروسہ کرنے والو! کیا تم نے نے ایسانہیں سناکہ رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: ملعون ملعون من كانت ثقته بمخلوق مثله
ملعون ہے ملعون ہے وہ جس کا اپنے جیسی مخلوق پر بھروسہ ہے۔نہ دنیا کوطلب کر نہ اس کی کسی چیز کے لئے غصہ کر، کیونکہ یہ تیرے دل کو اس طرح خراب کر دے گا جس طرح سرکہ شہد خراب کر دیتا ہے۔
تجھ پر افسوس ! تجھ میں دنیا کی محبت اور تکبر دونوں جمع ہیں ، اگر ان دوخصلتوں والا تو بہ نہ کرے تو اس کے لئے نجات نہیں ، عقل کر تو کون ہے اور کیا شے ہے، اور کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ،سوچ اور تکبر نہ کر، تکبر وہ کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں اور اس کے نیک بندوں سے ناواقف ہے، اے کم عقل ! غرور کر کے بلندی کی تمنا کرتا ہے، اس کے خلاف کر، تجھے بلندی حاصل ہو جائے گی ، رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: من تواضع لله رفعه الله عزوجل ومن تكبر وضعه الله
جواللہ کے لئے جھکتا ہے اللہ اسے بلند کرتا ہے، اور جو تکبر کرتا ہے،اللہ اسے پست کرتا ہے۔ جس نے آخرت کو پسند کیا وہ پہلے لوگوں کی صف میں شامل ہوا، اور جس نے تھوڑے کو پسند کیا اسے بہت کچھ ملا، جو شخص ذلت پر راضی ہوا، اسے عزت ملی تو کم تر درجے کو پسند کر لے تا کہ امر تیرے حق میں بدل جائے، جو تقدیر کے آگے جھکا اور اس پر راضی ہوا، اللہ اسے بلند کرتا ہے جو ہر شے پر قدرت والا ہے، عاجزی اور حسن ادب اللہ سے قریب کرتے ہیں، بے ادبی اور تکبر اللہ سے دور کرتے ہیں اطاعت و فرمانبرداری تیری اصلاح کرتے ہیں اور تجھے قریب کرتے ہیں، جبکہ نافرمانی تجھے خراب کرے گی اور اللہ سے دور کر دے گی ، اے بیٹادین کو ایک انجیر کے بدلے نہ بیچ، اپنے دین کو بادشاہوں اور امیروں اور حاکموں کے انجیر اور حرام لقمے کے بدلے نہ بیچ، جب دین کے بدلے دنیا کھائے گا توتیرادل سیاہ ہو جائے گا ، اور سیاہ کیسے نہ ہو کہ تو تو مخلوق کی عبادت کرنے لگا ہے!
اے رسواوذ لیل! اگر تیرے دل میں نور ایمان ہوتا تو حرام اور مشکوک اور مباح میں فرق کر لیتا، جو چیزدل کوسیاہ کرتی ہے یا روشن بناتی ہے۔ اور جو چیز تیرے دل کو اللہ سے قریب کرتی ہے یا دور کرتی ہے ،اس میں امتیاز کر لیتا ۔ اے جاہل ! میں تو اللہ کی ذات پر توکل اور سب کے سوا کسی اور چیز کونہیں پہچانتا۔ ایمان کے شروع میں کسب کے ذریعے لین دین ہوتا ہے، پھر ایمان کے طاقت پکڑ لینے پر اللہ اور تیرے درمیان جو واسطے ہیں، انکے اٹھ جانے کے بعد اللہ سے لین دین ہوتا ہے، دل مضبوط ہو جانے پر اللہ کے حکم سے مخلوق کے ہاتھوں پر لیتا ہے، اور میرے قول براہ راست کے یہ معنی ہیں کہ دل کا وسائط اور شرک کے ساتھ ٹھہراؤ نہ ہو، احکام الہی پر عمل کرے، اور مخلوق خدا سے لین دین کرے، جب وہ تعریف یا برائی کریں ، یا کوئی قبول یا نا قبول ہوتو کان بند کر لے، اگر وہ کچھ دیں تو اسے فعل الہی کے تحت سمجھے۔
اولیاء اللہ تو غیر اللہ سے گونگے بہرے ہیں، ان کے نزدیک تو صرف اللہ ہی خلقت کا مددگار ہے، اور اللہ ہی رسوا کرنے والا ہے، اور وہی عطا کرنے والا اور نقصان پہنچانے والا ہے، وہی فائدہ کرنے والا ہے ، ان کے پاس بغیر چھلکے کے مغز ہے اور بغیر کدورت کے صفائی ، بلکہ صفائی در صفائی اور پاکیزگی در پاکیزگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوان کے دلوں سے ساری مخلوق کو باہر نکال دیتی ہے، اور ان کے دلوں میں اللہ کے سوا کوئی باقی نہیں رہتا، ان کے دلوں میں غیر اللہ کے بجائے صرف اللہ کا ذکر خفی باقی رہتا ہے۔
اللهم ارزقنا العلم بك الہی! ہمیں اپنی معرفت عطا فرما۔“
تجھ پر افسوں! تجھےیہ گمان ہے کہ تو اپنی کھوٹ چلانے کے لئے مجھ پر قدرت رکھتا ہے، اے منافق اگر مجھے شریعت کا حکم نہ ہوتا تو میں تیری طرف توجہ کرتا اور تجھے رسوا کر دیتا تو میرے ساتھ الجھ کر خود کو خطرے میں نہ ڈال کیونکہ مجھے اللہ اور اس کے محبوب بندوں کے علاوہ کسی سے شرم وحیا نہیں، جب کوئی خاص بندہ اللہ کو پہچان لیتا ہے تو ساری مخلوق اس کے دل سے گر جاتی ہے، اور سب اس سے یوں جھٹر جاتے ہیں جیسے موسم خزاں میں درختوں سے خشک پتے جھڑ جاتے ہیں ۔ یوں وہ مخلوق کے بغیر اکیلا رہ جاتا ہے، وہ مخلوق کو دیکھنے سے نابینا اور اپنے قلب و باطن کے لحاظ سے اس کی بات سننے سے بہرہ ہو جاتا ہے، نفس جب مطمئن بن جا تا ہے تو اعضاء کی حفاظت اسے سونپ دی جاتی ہے، اس کے بعد دل اللہ کی طرف سفر کر جاتا ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس کی تمنا کرتا ہے ۔ چنانچہ دنیا اس کے پاس آتی ہے اور نفس کی خادمہ بن کر اسکی حاجتوں کی تکمیل کرتی ہے ، جواللہ کے طالب ہیں ان کے ساتھ اللہ کا یہی برتاؤ ہوتا ہے،اپنے نصیب کا لکھا حاصل کرنے کے وقت بال بکھیرے ہوئے بدشکل بڑھیا کی شکل میں دنیا ان کے پاس آتی ہے اور انہیں ان کا پورا حصہ دے جاتی ہے، اور دنیا ان کی خادمہ ولونڈی بن جاتی ہے، اولیاء اللہ دنیا سے اپنے نصیب کا لکھا لیتے رہتے ہیں اور اس کی طرف ذرا دھیان نہیں دیتے ۔
اپنے دل کو اللہ کے لئے خالی کرنا :
اے بیٹا! تو اپنے دل کو اللہ کے لئے خالی کر لے، اور اپنے اعضاء اور نفس کو کنبے کے لئے ، محنت ومشقت میں ڈال دے- اللہ کے حکم کے مطابق چل ، اور اس کے فعل سے ان کے لئے کمائی کر، اللہ کے سامنے سوال کرنا چھوڑ دینا صبر ورضا کے ساتھ خاموش رہنا ، دعاو سوال کرنے اور گڑ گڑانے سے بہتر ہے ۔ اس کے علم میں اپناعلم محو کر دے، اس کی تدبیر میں اپنی تد بیر چھوڑ دے، اس کے ارادے کے ساتھ اپنا ارادہ ترک کر دے، اس کی قضا اور قدر کے آنے پر اپنی عقل کو الگ کر دے، اللہ کو اگر تو اپنارب اور مددگار اور سلامتی دینے والا سمجھتا ہے تو اس کے ساتھ اس طرح برتاؤ رکھ جیسا کہ میں نے بیان کیا، اگرتجھے اس تک پہنچنا ہے تو اس کے سامنے خاموشی اختیار کر ، مومن کا دل اور اس کے خیالات وارادے سب ایک ہو جاتے ہیں ، اسے صرف ایک ہی خطرہ رہتا ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے دل کی طرف آ تا ہے، اور کوئی خیال باقی نہیں رہتا ۔ وہ اللہ کے قرب کے دروازے پر اطمینان سے کھڑا رہتا ہے، اللہ کی معرفت جب اس کے دل میں قرار پکڑ لیتی ہے تو اس کے سامنے کا دروازہ کھل جاتا ہے، چنانچہ اندر داخل ہو کر وہ وہ کچھ دیکھتا ہے جسے بیان کر ناممکن نہیں۔ خطرہ و خیال قلب کے لئے اور باطن کے لئے اشارہ ہے، یہ ایک خفیہ کلام ہے، جو بندہ اپنے نفس اور خواہش اور برے اخلاق اور ساری مخلوق سے فنا ہو جائے وہ عافیت اور نعمت وخوشی میں ہے، اس حال میں اسے اصحاب کہف کی طرح پہلو بدلوائے جاتے ہیں ، جن کے بارے میں ارشاد باری ہے: وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ
اور ہم ہی انہیں دائیں اور بائیں پلٹتے ہیں ۔ اے بیٹا میری باتیں غور سے سن ! اور انھیں جھٹلا کر اپنے نفس کو ہر طریقہ سے اور ہر بھلائی سے محروم نہ رکھ ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 418،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 215دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
ستاونویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ستاونویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس السابع والخمسون فی الصدق‘‘ ہے۔
منعقد24 رمضان 545 بروز جمعہ بوقت صبح بمقام مدرسه قادر یہ
رضا اور موافقت طلب کر ، اپنے مقسوم پر قناعت کر :
اے بیٹا! صدق کا ایک ذرہ مجھ پر صدقہ کر دو، اس کے علاوہ تمہارا سارا مال اور جو کچھ تمہارے گھروں میں ہے، وہ سب ا تمہارے لئے حلال ہے۔ میں تو صرف صدق واخلاص چاہتا ہوں جس کا فائدہ تمہارے ہی لئے ہے، میں تمہیں اپنے لئے نہیں، تمہارے لئے چاہتا ہوں، اپنی زبانوں کے ظاہری و باطنی لفظوں کو روکو، کیونکہ تم پر فرشتے نگہبان مقرر ہیں ، جو تمہارے ظاہر کی نگہبانی کرتے ہیں ،اور اللہ تمہارے باطنوں کو نظر میں رکھتا ہے۔
اے دنیا میں محل اور گھر بنانے والے اور دنیا کی عمارت میں اپنی عمر کھونے والے! نیک نیت کے بغیر کوئی عمارت نہ بنا، دنیا میں عمارت کی بنیاد نیک نیتی ہے، تیری عمارت نفس و خواہش کی موافقت میں نہ ہو، جاہل، دنیامیں نفس و خواہش اور ہوس وعادت کی موافقت کرتے ہوئے، اور اللہ کی قضا اور قدر کی موافقت کے بغیر عمارت بنایا کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے لئے نیک نیت اچھی نہیں ہوتی اور نہ وہ عمارت اس کے لئے قابل مبارک باد ہوتی ہے، اس لئے کہ اس عمارت میں اور لوگ ٹھہریں گے، قیامت کے دن اسے کہا جائے گا:
“تو نے اسے کیوں بنایا ۔ کہاں سے خرچ کیا ، اور کیوں خرچ کیا‘‘، ہر ایک چیز کا حساب لیا جائے گا۔ اللہ کے بندے! اللہ کی رضا اور موافقت طلب کر اپنے مقسوم پر قناعت کر ، جو تیرے نصیب میں نہیں لکھا، اس کی طلب نہ کر ۔
رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: ااشد عقوبات الله عزوجل لعبده في الدنيا طلبه ما لم يقسم له دنیا میں بندے کے لئے اللہ کاسخت ترین عذاب یہ ہے کہ وہ شے طلب کرے جو اس کے نصیب میں نہیں ۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تو میرے پاس اس حال میں آ تا ہے کہ تو میرے ساتھ اچھا گمان نہیں رکھتالہذا میری باتوں سے تجھے کیا فلاح مل سکے گی! تجھ پر افسوس ایمان والا ہونے کا دعوی رکھتا ہے جبکہ تجھے اللہ اور اس کے نیک بندوں پر اعتراض ہے ۔ اس لئے تیرا دعوی جھوٹا ہے، اسلام تو استسلام سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں: سپرد کرنا۔ – اللہ کی قضا اور قدر کو تسلیم کرنا۔ – اللہ کے افعال پر راضی رہنا، کتاب الہی قرآن اور سنت رسول اللہﷺکی حفاظت کرنا،یہ سب کرنے سے تیرا اسلام صحیح ہوگا، لمبی امید شامت اعمال ہے، یہی تجھےاللہ کی مخالفت پر اکساتی اور گناہوں میں ڈالتی ہے — آرزوکوگھٹاۓ گا تو بھلائی کو پاۓ گا، چنانچہ اگر تو نجات چاہے تو یہ بات پہلے سے باندھ لے، جو چیز تقدیر سے آۓ ، اس کے ہاتھ سے لے لے، شرع کی موافقت کرتے ہوئے اس پر راضی ہو جا، اس رضا مندی میں نہ نفس اور نہ خواہش، نہ عادت اور نہ شیطان کا کچھ دخل ہو، ان سب پر اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے، یہ نہیں کہ یہ سب ہر طرح سے فناہی ہو گئے ، انبیا علیہم السلام کے جانے کے بعد ہم میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ہے، ۔ مسلمان کا نفس مطمئن، اس کی خواہش مغلوب اور اس کی طبیعت کا جوش سر داور اس پر مسلط کردہ شیطان قید ہو جا تا ہے، اسی بندہ ایمان کی کوئی چیز اس کے ہاتھ نہیں لگتی ،شیطان اپنی چالاکیاں دکھا تا ہے لیکن وہ کچھ بھی نہیں پاتا ۔
تو کل یہ ہے کہ تو سبب پر نہ ٹھہرے تو حید یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی سے نفع اور نقصان نہ دیکھے۔ تو تو سرا پانفس، حرص کا پیکر اورمجسم عادت بن گیا ہے، مجھے تو کل کی خبر ہے نہ توحید کی ، پہلے تلخی ہے پھر شیر ینی ، پھر ٹوٹنا، اور پھر جڑنا، پھر مرنا ، اور پھر ہمیشہ کی زندگی، پہلے ذلت ہے، پھر عزت ، – پہلے محتاجی ہے، پھر ثروت پہلے ہستی کا مٹ جانا ، پھر اللہ کی ذات سے وجود پانانہ کہ اپنے اختیار سے، اگر تو اس پر صبر کر لے تو جو کچھ اللہ سے چاہتا ہے، وہ تیرے لئے صحیح ہوگا، ورنہ کچھ بھی صحیح نہیں ، جو چیز تجھے اللہ سے غافل کرے، وہی تیری شامت ہے،اگر چہ فرضوں اورسنتوں کی ادائیگی کے بعدنفلی نماز یانفلی روزہ ہی کیوں نہ ہو، فرض روزہ ادا کرنے کے بعد اگر نفلی روزہ میں بھوک اور پیاس نے اللہ کے سامنے تیرے دل کی حضوری، اس کے مراقبہ اور اس کے ساتھ پر آسائش زندگی سے روکا، جس پر اللہ کی صحبت اور قرب کا دارو مدار ہے،تو جان لے کہ حجاب کا بندہ اللہ کا بندہ نہیں بلکہ وہ خلقت اورنفس اوراپنی خواہش کا بندہ ہے ۔ عارف الہی تو اللہ کے ساتھ اس کی قوت کے جھنڈے تلے اپنے علم و باطن سمیت کھڑا رہتا ہے اوراس کی قضاء وقدر کے ساتھ ساتھ چکر لگاتا ہے۔ جب وہ خودگھومنے سے عاجز ہو جاتا ہے تو اسے گھمایا جاتاہے ۔ بغیر اس کے حرکت کرنے سے اسے حرکت دی جاتی ہے، بغیر اس کے سکون کر نے سے، اسے سکون دیا جا تا ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہو جا تا ہے جن کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:
وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ ‌الشِّمَالِ اور ہم انہیں دائیں اور بائیں پلٹتے ہیں۔
جب حرکت سے ان کا عاجز ہونا ظاہر ہوا تو اللہ کی طرف سے انہیں حرکت دی گئی ۔
حرکت قدرت کے ساتھ ہوتی ہے اور سکون وتسلیم عاجزی کے وقت ،
حرکت تیرے وجود کے وقت ہوتی ہے اور سکون تیرے گم ہونے پر
حرکت شروع کی ماتحتی ہے اور سکون علم میں کہ قضاوقد ر میں دم نہ مارے
جب تو اپنے نفس اور حرص اور عادت اور ساری مخلوق سے الگ ہو جائے گا تو تیرادل درست شمار ہوگا ۔ تو خلقت کی قیدسے نکل جا تیرے نفع و نقصان اور رزق کا مالک اللہ کے سوا کوئی اور نہیں ، ۔ ہمیشہ اس کی اطاعت میں لگارہ اور اس کے امرونہی کی تعمیل کرتارہ ۔ اللہ کے سوا تیرے ہاتھ میں اور کچھ نہ ر ہے، اب تو ساری مخلوق میں سب سے بڑھ کر عزت والا اورغنی ہو جاۓ گا، اس وقت تو حضرت آدم علیہ السلام کی طرح ہو جائے گا، جیسا کہ سب اشیاء کو ان کے سامنے جھکنے اورسجدے کا حکم ہوا تھا۔ یہ بات عام لوگوں اور بہت سے خاص بندوں کی عقل سے کہیں اونچی ہے، کیونکہ اللہ کی معرفت رکھنے والا یہ بندہ اب حضرت آدم علیہ السلام کا ایک ذرہ اور ان کے مغز سے ہے۔ اے تھوڑے علم والے! – پہلے دین کا علم سیکھ، پھر تنہائی اختیار کر،اولیاء اللہ نے پہلے دین کاعلم سکھا، پھر اپنے دلوں کو مخلوق سے الگ کر لیا، انکے ظاہر مخلوق کی اصلاح کے لئے ان کے ساتھ ہیں ، اور ان کے باطن اللہ کے ساتھ اس کی خدمت اورصحبت میں ہیں، چنانچہ اولیاء اللہ موجود بھی ہیں ، جدا بھی اورا لگ بھی ۔ وہ حکم میں مخلوق کے ساتھ موجود ہیں ، جبکہ ان کے دل مخلوق سے جدا اورا لگ ہیں، ان کے دل سب چیزوں سے جدا اورا لگ ہیں ، ظاہری طور پر ان کا کام شرع کومضبوط بنانا ہے ۔ – کپڑے میلے ہو جائیں تو خود دھو لیتے ہیں ، پاک کر کے خوشبو لگا لیتے ہیں۔ – کپڑے پھٹ جائیں تو خودسی لیتے ہیں، پیوند لگا لیتے ہیں، یہی لوگ مخلوق کے سردار ہیں، ان میں سے ایک ذرہ بلند پہاڑوں کی طرح ہے، ان کے دل: اللہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس کے سامنے آرام پانے والے، اس کے خیال میں ڈوبے ہوۓ، اس کے علم میں فکر کرنے والے ہیں۔ اللهم اجعل غداء تا ذكرك ويغنانا قربك الہی!ہماری غذا اپنا ذکر کر اور ہماری غنا اپنا قرب کر ۔آمین
! تیرادل مردہ ہے، تیری صحبت بھی مردہ دلوں کے ساتھ ہے، زندہ دل شریفوں اور ابدالوں کی صحبت اختیارکر، تو قبر ہے، اپنے جیسی قبر کے پاس آ تا جا تا ہے؟ تو مردہ ہے، اپنے جیسے مردہ کے پاس آ تا جا تا ہے، توا پاہچ ہے، تجھ جیساا پاہچ تجھے کھینچ لے جاتا ہے،تواندھا ہے،تجھ جیسا اندھا تجھے گھسیٹ لے جاتا ہے۔ تو ایمان والوں ، یقین والوں نیک لوگوں کی صحبت اختیار کر ، ان کے کلام پر صبر کر اسے قبول کر کے اس پر عمل پیرا ہو، اب نجات ہوگی ، مشائخ کرام کی باتیں سن اوران پرعمل کر ، اور ان کا احترام کر،میرے ایک مرشد کریم تھے، مجھے جب کوئی مشکل در پیش ہوئی اور میرے دل پر کوئی خطرہ گزرتا ، وہ اپنے آپ ہی مجھ سے ۔ بیان کر دیا کرتے تھے، مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہ ہوتی، یہ سب اس لئے تھا کہ میں ان کا احترام کرتا تھا اور ان کے ساتھ حسن ادب کا خیال رکھتا تھا، مشائخ کی صحبت میں میں کبھی احترام اور حسن ادب کے بغیر نہیں رہا، صوفی بخیل نہیں ہوتا، کیونکہ ہر چیز چھوڑ دینے کا دعوی کرنے کے بعد صوفی کے پاس کوئی چیز باقی نہیں رہتی جس سے بخل کرے، اگر اسے کوئی چیز دی جاۓ تو اپنے لئے نہیں لیتا،غیر کے لئے لیتا ہے ۔ اس کا دل تمام موجودات اور مصورات سے صاف ہو چکا ہے، بخل وہی کرتا ہے جس کے پاس مال ہو ،صوفی کی سب چیزیں دوسروں کے لئے ہیں ، چنانچہ وہ دوسروں کے مال میں کیوں بخل کرے۔ اس کا نہ کوئی سجن نہ کوئی دشمن، اسے کسی کے تعریف کرنے یا برائی سننے سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، دینا اورنہ دینا اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے خیال نہیں کرتا ، نہ اسے زندگی سے خوشی ہے اور نہ موت کا غم ہے، اللہ کاغصہ و ناراضی اس کی موت ہے، اللہ کی رضا اس کی زندگی ہے، جلوت میں اس کے لئے وحشت ہے ،خلوت میں اس کے لئے ۔ موانست ہے، اللہ کا ذکر اس کی غذا ہے، اللہ کا انس اس کے لئے پانی ، اس حال میں دنیا کا مال اور جو کچھ دنیا میں ہے، اس پر بخل نہیں کرتا، کیونکہ صوفی کوکسی شے کی کوئی پروا نہیں۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی دے، اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔‘‘
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 427،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 218دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
اٹھاونویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اٹھاونویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثامن والخمسون فی العمل مع الاخلاص‘‘ ہے۔
منعقدہ یکم شوال 545 بروز جمعہ بوقت صبح بمقام مدرسہ قادریہ
علم اور اخلاص
کتنا علم سیکھے گا اور عمل نہ کرےگا علم کا دفتر لپیٹ دے، اور اخلاص کے ساتھ عمل کا دفتر پھیلا دے، ورنہ تیرے لئے نجات نہیں، تو صرف علم سیکھنے میں لگا ہے، اور اپنے کاموں کے ساتھ اللہ پر دلیر ہو گیا ہے ، تو نے اپنی آنکھوں سے حیا کا پردہ اتار دیا ہے ۔ دوسرے دیکھنے والوں کی نسبت اللہ کے دیکھنے کو ہلکا سمجھتا ہے، تو اپنی خواہش سے لیتا اور دیتا ہے، ۔ اپنی خواہش سے روکتا اور اپنی خواہش سے حرکت کرتا ہے، یہ بات یقینی ہے کہ تیری خواہش تجھے ہلاک کرے گی ، سب احوال میں اللہ سے حیا کر اور اس کے حکم پر عمل کر ، جب ظاہر حکم پرعمل کرے گا تو یہ عمل تجھے اللہ کی معرفت کے قریب کر دے
اللهم نبهنا من رقدة الغافلين امين
الہی! ہمیں غافلوں کی نیند سے بیدار کر ۔ آمین!‘‘
جب تو گناہ کرے گا تو تجھ پر آفتیں آ گریں گی ، ۔۔ جب تو بہ واستغفار کرے اور اللہ سے مدد چاہے تو وہ آفتیں تجھ پر نہیں بلکہ تیرے سے ہٹ کر گر یں گی، بلا کا آنا ضروری ہے ۔ لہذا اللہ سے دعا کر وہ مصیبت میں تجھے صبر و موافقت عطا فرمادے تا کہ اللہ اور تیرے درمیان میں جو معاملہ ہے محفوظ رہے، اب خدشہ
بدن پر ہوگا قلب پر ہیں،ظاہر میں ہوگا ، باطن کو نہیں، مال میں ہوگا ودین میں نہیں ، اس وقت وہ آفت نعمت لگے گی عذاب نہیں ۔ اے منافق ! تو اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺکی فرماں برداری میں صرف نام پر اکتفا کئے ہوئے ہے معنی کے ساتھ نہیں، یہ تیرے ظاہر و باطن کا جھوٹ ہے، اسی لئے تو دنیا و آخرت میں ذلیل ہے، گناہ گار اور جھوٹا اپنے اپنے نفس میں ذلیل ہیں ۔
اے منافق تو اللہ اوراس کے رسول ﷺکی فرماں برداری میں صرف نام پر اکتفا کئے ہوئے ہے معنی کے ساتھ نہیں، یہ تیرے ظاہرو باطن کا جھوٹ ہے، اسی لئے تو دنیا وآخرت میں ذلیل ہے، بگناہ گار اور جھوٹا اپنے اپنے نفس میں ذلیل ہیں۔
اے عالم دنیا والوں کے سامنے اپنے علم کومیلا کچیلا نہ کرے۔عزیز شے کوذلیل شے کے بدلے نہ بیچ ، علم عزیز ہے، اور جود نیا والوں کے ہاتھ میں ہے وہ ذلیل ہے، مخلوق کے بس میں نہیں کہ تیرے نصیب کا لکھا تجھے دے سکے، البتہ تیرے نصیب کا لکھا ان کے ذریعے سے تجھے پہنچتا ہے ۔ جب تک صبر کا دامن تھامے رہے گا ، تیرے نصیب کا لکھا ان کےذریعے تجھے پہنچتارہے گا تو باعزت طریقے سے رہے گا ۔ تجھ پرافسوس !جسے اور سے رزق دیا جا تا ہے وہ کسی کو رزق کیسے دے سکتا ہے۔ تو اللہ کی اطاعت میں لگارہ اور اس سے مانگنا چھوڑ دے، وہ اس کا محتاج نہیں کہ اسے اپنی مصلحت بتائی اور سمجھائی جاۓ ، ارشاد باری تعالی ہے: من شغله ذكرى عن مسئلتى أعطيته أفضل ما أعطى السائلين۔
” جسے میرے ذکر نے سوال کرنے سے روکا میں اسے سوال کرنے والوں سے بڑھ کر عطا کروں گا۔“ دل کے بغیر صرف زبانی ذکر کی نہ کوئی عزت ہے نہ کوئی وقعت! – اعلی پائے کا ذکر دل اور باطن کا ذکر ہے ، پھر زبان کا ، کسی بندے کا جب ذکر الہی درست ہو جا تا ہے تو اللہ اس کا ذکر کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ
”تم مجھے یادکرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میراشکر کرو، ناشکری نہ کرو ۔‘‘
اللہ کو یاد کرو کہ وہ تجھے یاد کرے، اسے اتنا یاد کر کہ یاد کرنے کی وجہ سے تیرے سارے گناہ جھڑ جائیں،تو گناہوں سے خالی ہو جاۓ ، اور گناہ کئے بغیر طاعت ہو جائے ، ۔۔۔۔ جن لوگوں کو وہ یاد کرتا ہے، اس وقت انکے ساتھ ساتھ مجھے بھی یاد کرے گا۔ اس کی یاد تجھے مخلوق کی یاد بھلا دے گی اور تجھے سوال کرنے سے روک دے گی ، تیراکل مقصودوہی ہو جاۓ گا، اور دیگر مقاصد تجھے بھلا دے گا، ۔ جب تیرا مقصود وہی ہو گا تو اپنے سب خزانوں کی کنجیاں تیرے دل کے ہاتھ میں دے دے گا، جو کوئی اللہ کا دوست ہے وہ اس کے غیر کا دوست نہیں ۔ اللہ کی محبت کے سوا سب کی محبت تیرے دل سے زائل ہو جاۓ گی ، کسی بندے کے دل میں جب اللہ کی محبت گھر کر لیتی ہے تو اس کے دل میں غیر کی محبت نہیں ٹھہرتی ، اس وجہ سے اس کے سب اعضاء میں خوشی پیدا ہو جاتی ہے، اس کا ظاہر و باطن وصورت اور معنی اس میں مشغول ہو جاتے ہیں، اللہ اسے دیوانہ بنا دیتا ہے، اسے اس کی عادت اور آبادی سے نکال دیتا ہے ۔ جب بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے، تو اللہ اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے، کیا تجھے عقل نہیں کہ اسے دیکھے اور اس کے ذریعے سمجھے، کیا تو کبھی کسی ایسے بندے کے پاس نہیں بیٹھا جو موت سے دو چار ہو، قریب ہے کہ تیری باری بھی جلد ہی آ جاۓ ، موت کا فرشتہ آ کر تیری زندگی کا دروازہ کھٹکھٹائے گا ، اور اسے اس کی جگہ سے اکھاڑ کر پھینک دے گا، اور تیرے گھر والوں اور دوستوں میں جدائی ڈال دے گا۔ اس بات کی کوشش کر تیری موت ایسے حال میں نہ واقع ہو کہ تجھے اللہ سے ملاقات کرنا اچھا نہ لگے ۔ جو کچھ ہے۔ آخرت کی طرف پہلے بھیج دے، پھر موت کا انتظار کر، کیونکہ تواللہ کے ہاں ایسی نعمتیں پائے گا جو بھی دنیا میں دیکھی بھی نہیں ۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِالہی ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما ا اور ہمیں آخرت کی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 432،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 222 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
انسٹھویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے انسٹھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس التاسع الخمسون فی عدم المداھنۃ‘‘ ہے۔
منعقده 9 /رجب 546 بروز جمعہ بمقام مدرسہ قادریہ
حریص کی بات خودغرضی اور خوشامد سے خالی نہیں ہوتی :
حریص کی بات خود غرضی اور خوشامد سے خالی نہیں ہوتی، اس لئے کہ سچ بولنا ممکن نہیں ہے، اس کا بولنا مغز کے بغیر پوست ہے،صورت ہے معنی نہیں، جس طرح لفظ طمع کے حروف ط ۔م۔ ع نقطوں سے خالی ہیں ، ایسے ہی لفظ طامع (لالچ کرنے والا ) کے حروف بھی نقطوں سے خالی ہیں، اے اللہ کے بندوسچ بولواور فلاح پاؤ ، سچے کی ہمت آسمان سے بلند ہے، کسی کی بات اسے نقصان نہیں دیتی ، اللہ اپنے امر پر غالب ہے، جب تجھ سے کسی کام کا ارادہ کرے گا تو اس کے لئے تجھے تیار کر دے گا ۔
کسی بے ادب نے سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ کہا، اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”تمہارے احوال کی سچائی مجھے بولنے پر مجبور کر دیتی ہے اور تمہارا جھوٹ مجھے خاموش کر دیتا ہے، جیسے تم خریدار ہوں ویسے ہی میں بیچنے والا ہوں، “
عالم کے دو پیر ،زاہد کے دو ہاتھ :
اے بیٹا! اگر تیرے پاس علم کا پھل اور برکت ہوتی تو اپنے نفس کی خواہشات اور لذات کے لئے بادشاہوں کے دروازوں پر مارا مارا نہ پھرتا ، عالم کے پاس وہ پیر ہی نہیں ہوتے جن سے وہ مخلوق کے دروازوں کی طرف دوڑے، اور زاہد کے پاس وہ دو ہاتھ ہی نہیں ہوتے جن سے وہ لوگوں کے مال لے اور اللہ کے محب کے پاس وہ دو آنکھیں ہی نہیں ہوتیں جن سے وہ غیر اللہ کی طرف دیکھے۔ سچامحب جو اپنی محبت میں سچا ہے، اگر اس کی ساری مخلوق سے ملاقات ہو اور مخلوق کی طرف دیکھنا اس کے لئے حلال نہ ہوتو وہ اپنے محبوب کے سوا کسی اور کو نہیں دیکھتا،اس کے سر کی آنکھوں میں دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ،اس کے دل کی آنکھوں میں آخرت کی کوئی قدرو قیمت نہیں،- اس کے باطن کی آنکھوں میں اللہ کے سوا کسی کی قدر و قیمت نہیں ، ، تم عقل سے کام لو تمہاری کوئی حقیقت نہیں ہے تم میں سے کئی چیخنے چلانے والوں کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں ، . بہت سے واعظوں کا وعظ زبانی جمع خرچ ہوتا ہے دل سے نہیں ہوتا ، منافق کی ٹھنڈی آہیں محض زبان دسر سے ہوتی ہیں جبکہ سچے آدمی کی ٹھنڈی آہیں اس کے قلب و باطن سے ہیں،سچے آدمی کا دل اللہ کے دروازے پر اور اس کا باطن اس کے سامنے ہوتا ہے، وہ ہمیشہ اس کے دروازے پر چیخ و پکار کرتا رہتا ہے حتی کہ وہ اس کیفیت میں گھر کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔
اللہ کی قسم ! تو اپنے سب احوال میں جھوٹا ہے تو اللہ کے دروازے کو جانے والا راستہ بھی نہیں پہچانتا، تو اوروں کی رہبری کیسے کرے گا ، تو خود آنکھوں سے محروم ہے دوسروں کو راہ کیسے دکھلائے گا، تجھے تیری حرص اور عادت اور نفس کی پیروی نے ، اور دنیا کی حکومت اور شہوتوں کی محبت نے اندھا کر دیا ہے، ابھی تو گناہ تیرے ظاہر پر ہی ہیں ، تو میرے سامنے آ ، اس سے پہلے کہ وہ گناہ تیرے دل تک پہنچ پائیں ، آگے بڑھ ،ورنہ تو اس پر اصرار کرے گا، اور یہی اصرار کفر ہو جائے گا۔ جس شخص کے لئے اللہ کی اطاعت اور بندگی ثابت ہو جائے وہ اللہ کا کلام سننے پر قادر ہو جائے گا۔
اس کے بعد سید ناغوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ان ستر موسویوں کا ذکر فرمایا جو اپنے نبی حضرت موسی علیہ السلام کے ہمراہ کلام الہی سننے کے لئے منتخب کئے گئے تھے، فرمایا اللہ نے موسویوں سے خطاب فرمایا اور موسی علیہ السلام کے سوا وہ سب کے سب بے ہوش ہو گئے پھر اللہ نے جب انہیں ہوش دلا یا تو عرض کیا: ’ہم میں اللہ کا کلام سننے کی ہمت نہیں ، چنانچہ آپ اللہ اور ہمارے بیچ میں واسطہ بن جائیں۔ حضرت موسی علیہ السلام سے کلام کرتے تھے، اور ان لوگوں کو کلام الہی سناتے تھے۔ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوت ایمان اور طاعت اور عبود بیت الہی کے ذریعہ سے اللہ کا کلام سننے پر قادر ہوئے ، جبکہ وہ لوگ ضعف ایمان کے باعث اس پر قادر نہ ہو سکے، اگر وہ تو رات کے احکام قبول کر لیتے ،امرونہی میں حضرت موسی علیہ السلام کی اطاعت کر لیتے اور ادب والے بن جاتے ،اور اپنی من گھڑت باتوں پر جرات نہ کرتے تو یقیناوہ بھی اللہ کا کلام سننے کی قدرت پالیتے ،
پھر سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا: میں ہر جھوٹے منافق دجال پر مسلط ہوں، میں اللہ کے ہر نا فرمان پر مسلط ہوں، نافرمانوں میں سب سے بڑا ابلیس ہے ،اور ان میں سب سے چھوٹا فاسق ہے، میں ہر ایک گمراہ،- گمراہ کرنے والے، باطل کی طرف بلانے والے ، سے لڑائی کرنے والا ہوں ، اور اس پر لاحول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم (رکنانہیں ہے گناہ سے ، اور نہ ہی طاقت نیکی کی مگر اللہ بلند بزرگ کے ساتھ ) – کے ساتھ مدد چاہنے والا ہوں،
تیرے دل میں نفاق جم گیا ہے، تجھے اسلام اور توبہ اور ریا کاری چھوڑنے کی ضرورت ہے، اسے چھوڑ کر مسلمان بن جا میں جس کام میں لگا ہوں، اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو عنقریب بزرگ ہوگا ، کثیر ہو گا اور عظمت والا ہوگا ، اور اپنے دونوں پیروں پر کھڑا ہوگا ، اور اپنے بازوؤں سے مخلوق کی چھتوں پر اڑے گا اور ان کے گھروں میں داخل ہو گا ، اور وہ اسے اپنی آنکھوں اور اپنے دلوں سے دیکھ لیں گے ۔ اور اگر یہ کام میرے نفس اور حرص اور عادت اور شیطان اور باطل کی طرف سے ہے تو اس کے لئے خرابی اور دوری ہو گی ، عنقریب چھوٹا پڑ جائے گا ، اور پگھل جائے گا ، اورلوٹ جائے گا ، اور ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جائے گا، کیونکہ اللہ تعالی جھوٹے کی تائید نہیں کرتا۔ منافق کی مدد نہیں فرماتا منکر پر عطا نہیں کرتا۔ ناشکرے کی نعمت نہیں بڑھاتا۔
جو بندہ اپنے نفس کے ساتھ نفاق کرتا ہے، اس سے کچھ کام نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا نفاق اس کے دین کے جلا دینے کا سبب بن جاۓ گا ۔
اے میرے مرید و،میں نے جو کہنا تھا کہہ چکا، اورتم ہو کہ بھاگ رہے ہو، سنتے ہومگر اس پر عمل نہیں کرتے ، میرا نام سب شہروں میں گونگا مشہور تھا، کیونکہ میں نے خود کو دیوانہ اور گونگا اور خاموش بنا رکھا تھا لیکن یہ بات قائم نہ رہ سکی ، قضاوقدر نے تمہاری طرف نکال دیا۔ میں تہہ خانوں میں تھا، مجھے نکال کر کرسی پر بٹھا دیا گیا، جھوٹ نہ بول تیرے پاس دو دل نہیں ہیں بلکہ ایک ہی دل ہے، وہ جس شئے سے بھر جائے ، دوسری کی گنجائش نہیں رہتی ، ارشاد باری تعالی ہے: مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ اللہ نے کسی بندے میں دو دل نہیں بنائے
ایک ہی دل میں خالق اور مخلوق کی محبت ہو، ہونہیں سکتا ۔
ایک ہی دل میں دنیا اور آخرت جمع ہوں ، ہونہیں سکتا ۔
اگر دل خالق کی طرف ہو اور چہرہ مخلوق کی طرف ہو، ایسا ہوسکتا ہے، مخلوق کی مصلحتوں کے لئے ان پر رحمت کی غرض سے مخلوق کی طرف متوجہ ہونا جائز ہے،مگر دل کا لگاؤ خالق ہی سے رہے۔
جو اللہ سے جاہل ہے ،ریا کاری کرتا ہے اور نفاق برتتا ہے، – جو اللہ کا جاننے والا ہے وہ ایسا نہیں کرتا ،-احمق اللہ کی نافرمانی کرتا ہے۔عاقل اللہ کی فرماں برداری کرتا ہے۔ حریص دنیا کے جمع کرنے پر ریا کاری کرتا اور نفاق برتتا ہے ۔ تھوڑی امید والاحریص کی طرح
نہیں کرتا۔ایمان والافرض ادا کر کے اللہ کی قربت حاصل کرتا ہے،اور نوافل پڑھ کر اس کا محبوب بن جا تا ہے۔ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جونو افل کو جانتے بھی نہیں بلکہ وہ فرائض ادا کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ پھر نفل ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
ہم پر فرض اس لئے ہے کہ ہمیں ان کے پڑھنے پر قدرت عطافرمائی گئی، ہمارا ہمیشہ عبادت میں لگے رہنا ہم پر فرض ہے ۔‘‘ وہ اپنے لئے کسی کام کونفل نہیں سمجھتا، ہر عبادت کو فرض ہی سمجھتا ہے ، اولیاء اللہ کے لئے ایک آگاہ کرنے والا ہے جو انہیں آگاہ کرتا رہتا ہے۔ – ایک معلم ہے جو انہیں علم سکھا تارہتا ہے۔ اللہ تعالی ان کی تعلیم کے اسباب مہیا فرما تارہتا ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: لو أن المؤمن على قلة جبل نقيض الله له عالما يعلمه ’’ایمان والا اگر پہاڑ کی چوٹی پر ہوتو اللہ اس کی تعلیم کے لئے وہاں بھی عالم کو بھیج دے گا۔‘‘ نیک لوگوں کی باتیں لے کر ان سے دوسروں کونصیحت کرتا ہے، اور اپنے نفس کو چھوڑ دیتا ہے۔ خود کوئی فائدہ نہیں لیتا، مانگے کی چیز چھپتی نہیں، عاریتایاما نگے کا لباس نہ پہن بلکہ اپنے مال کالباس پہن ، اپنے ہاتھ سے کپاس کاشت کر ، اسے پانی دے اور اپنی محنت وکوشش سے اسے پروان چڑھا، پھر اسے بن کرسی اورپہن ، غیر کے مال اور اس کے کپڑوں پر خوش نہ ہو۔ دوسروں کا کلام لے کر کلام کرے اور اسے اپنا کلام بتائے ،تو صالحین کے دل تجھ سے خفا ہوں گے ، اگر تو خودعمل نہ کر سکے تو کچھ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں، ارشاد باری ہے: ‌ادْخُلُوا ‌الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَاپنے عملوں کے ذریعے جنت میں داخل ہو جاؤ۔“ اللہ کی معرفت حاصل کرنے میں کوشش کرو اللہ کی معرفت اس کے ساتھ غائب ہو جانے اور اس کے قضا وقد راورعلم وقدرت کے ساتھ قائم ہو جانے کا نام ہے، معرفت، اللہ کے افعال ومقدرات میں فنا ہو جانے کا نام ہے، تیری گفتگو تیرے دل کی بات کو ظاہر کرتی ہے، زبان دل کی ترجمانی کرتی ہے، اگر دل گھل مل گیا ہے تو حق و باطل کوئی فرق نہ کر پائے گا، چنانچہ کبھی بات صحیح ہوگی ، اورکبھی باطل، کبھی تو شے کی حقیقت کو کما حقہ، بیان کرے گا ، کبھی اس پر بھی قدرت نہ ہو گی
جب دل کا یہ گھلناملنا نہ رہے گا ،زبان صحیح ہو جاۓ گی ، جب دل سے شرک جاتا رہے گا ، زبان صحیح ہو جائے گی ، جب وہ شرک میں مبتلا ہوگا تو مخلوق کے ساتھ پابند ہوگا، اس میں تغیر وتبدل ہوتا رہے گا ،الغزش کرے گا، جھوٹ بولے گا۔
بعض وعظ کرنے والے وہ ہیں جو اپنے دل سے کلام کرتے ہیں، بعض وعظ کرنے والے وہ ہیں جو اپنے باطن سے کلام کرتے ہیں ، بعض وعظ کر نیوالے وہ ہیں جو اپنے نفس و خواہش وشیطان اور عادت کی پیروی سے کلام کرتے ہیں ، اللهم اجعلنا مؤمنين ولا تجعلنا منافقين ”اے اللہ تو ہمیں ایمان والا بنا نفاق والا نہ بنا۔‘‘ اگر دل میں ایک شخص کی محبت اور دوسرے کی عداوت ہو تو ایک سے دوستی اور دوسرے سے دشمنی اپنے نفس اور عادت کی پیروی سے نہ کر، بلکہ دونوں کے معاملے میں کتاب وسنت کو حکم بنادے، اگر وہ دونوں تیرے محبوب کی موافقت کر یں تو ہمیشہ اس کی محبت میں قائم رہ، اگر وہ دونوں اس کی مخالفت کریں تو اس کی محبت سے الگ ہو جاء اگر وہ دونوں تیرے دشمن کی ( جسے تو نے دشمن سمجھا ہے ) مخالفت کریں تو تو اس کی عداوت سے الگ ہو جا، اگر وہ دونوں تیرے اس دشمن کی موافقت کریں تو اس کی عداوت میں قائم رہ اگر تجھے اس سے قناعت حاصل نہ ہو، اور معاملہ جوں کا توں رہے تو ان کے بارے میں صدیقین کے دلوں سے رجوع کر اور انہی سے سوال کر ، کیونکہ یہی دل درست ہیں ۔
جب دل درست ہو جاۓ تو وہ سب چیزوں سے زیادہ اللہ سے قریب ہو جا تا ہے ۔ دل جب قرآن وسنت پر عمل کرے تو اللہ سے قریب ہوجا تا ہے ، اور جب وہ اللہ سے قریب ہو جا تا ہے تو اسے دانائی اور بصارت میسر آ جاتی ہے اور اس کے نفع ونقصان کی جو چیز یں ہیں، اور جو شے اللہ اور غیر اللہ کے لئے ہے، اور جوحق و باطل ہے، وہ ان سب کو پہچان لیتا ہے۔ جب ایک ایمان والے کی نظر کا یہ عالم ہے تو صدیقین ومقربین کی نظر کا عالم کیا ہوگا ! –
مومن کی فراست یہ ہے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے: ایمان والے کے لئے اللہ کی طرف سے ایک نور ہوتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کے دیکھنے سے ڈرایا ہے، ارشادفرمایا:‌اتَّقُوا ‌فِرَاسَةَ ‌الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ تَعَالَى
”مومن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔“ اور عارف مقرب کو بھی ایک نور عطا ہوتا ہے، جس سے وہ اللہ کے قرب کو دیکھتا ہے، اور اللہ کے قرب کا اپنے دل سے مشاہدہ کرتا ہے، فرشتوں اور نبیوں کی روحوں، اور صدیقین کے دلوں اور روحوں اور ان کے احوال و مقامات کو دیکھتا ہے۔
یہ ساری کرامت دل کے سیاہ نقطے اور باطن کی صفائی کے اندر ہے، وہ اپنے رب کے ساتھ خوشی سے بسر کرتارہتا ہے، وہ خالق اور مخلوق کے درمیان ایک واسطہ ہو جا تا ہے، خالق سے لیتا ہے اور مخلوق میں بانٹار ہتا ہے۔ بعض ان میں سے دل و زبان دونوں کے عالم ہو جاتے ہیں ، بعض ان میں سے دل کے عالم ہوتے ہیں لیکن زبان میں لکنت والے ہیں۔ لیکن منافق کی زبان عالم اور دل لکنت والا ہے، اس کا ساراعلم زبان میں ہے، اس لئے رسول اکرم ﷺ نےارشادفرمایا:
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي كُلُّ مُنَافِقٍ ‌عَلِيمِ ‌اللِّسَانِ
” مجھے اپنی امت پر خوف نہیں مگر مجھے خوف ہے منافق کی چرب زبانی کا ۔‘‘
تو کسی چیز پر غرور نہ کر کیونکہ اللہ جو چاہے کرنے والا ہے ۔ ایک بزرگ سے حکایت منقول ہے کہ وہ اپنے ایک دینی بھائی سے ملنے کے لئے گئے ،اسے کہا:
آؤ بھائی ہمارے متعلق جواللہ کے علم میں ہے، اس پر روئیں۔‘‘ اللہ کے اس نیک بندے نے کیسی اچھی بات کہی، یقینا وہ عارف باللہ تھااور اس نے رسول اللہ ﷺ کا یہ مبارک ارشاد سن رکھا تھا۔
” تم میں سے کوئی عمل کرنے والا جنتیوں جیسے عمل کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک گز یا کچھ زائد کا فاصلہ رہ جاتا ہے ،اسے بد بختی آلیتی ہے اور وہ اہل دوزخ میں سے ہو جا تا ہے اور تم میں سے کوئی دوزخیوں جیسے عمل کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک گز یا کچھ زائد کا فاصلہ رہ جاتا ہے، اسے خوش بختی آ لیتی ہے اور وہ اہل جنت میں سے ہو جا تا ہے ۔“
اللہ کے کسی بندے سے کسی نے پوچھا: ” کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟‘‘
فرمایا: “ اگر میں اسے دیکھتا تواپنی جگہ پر ٹکڑے ٹکڑے ہو جا تا۔‘‘ اگر کوئی سوال کرے کہ ’’تو خدا کو کیسے دیکھ سکتا ہے؟ میں اسے یہ جواب دوں گا:
بندے کے دل سے جب مخلوق نکل جائے ، اور اس میں اللہ کے سوا کچھ نہ رہے تو اللہ جیسے چاہے اسے اپنا آپ دکھادے گا، اپنے قریب کر لے گا ۔ جس طرح اور چیزیں اسے ظاہری طور پر دکھا دیتا ہے اسے اپنا آپ باطنی طور پر دکھا دیتا ہے۔ جیسے کہ اس نے ہمارے نبی ﷺ کو شب معراج میں دیدار کرایا ، جیسے یہ بندہ (سیدناغوث الاعظم ) اس کی ذات کو دیکھتا ہے، اور اس کی قربت میں ہے ،اور اس سے خواب میں باتیں کرتا ہے، اور کبھی اس کا دل اس سے بیداری میں باتیں کرتا ہے اور اس کے قریب ہو جاتا ہے، اپنے وجود کی آنکھیں بند کرتا ہے، اور وہ جس حال پر ہو اپنی دونوں ظاہری آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے، اللہ تعالی اسے ایک معنوی صفت عنایت فرماتا ہے جس سے یہ بندہ اسے دیکھتا ہے، اس کے قریب ہو جا تا ہے اس کی صفات اس کی کرامات ،اس کافضل واحسان ، اس کے لطف وکرم اور اس کی رحمت اور بخشش کو دیکھتا ہے۔
جس شخص کی معرفت اور عبودیت ثابت ہو جاۓ وہ ارنی دکھا اور لاترانی نہ دکھا اور اعطنی عطا کر اور لا تعطنی نہ عطاکر“
نہیں کہتا، وہ تو فنافی الذات ومستغرق ہو جا تا ہے ۔ اس لئے اس مقام پر واصل کہتا ہے۔ الیش علی منی مجھ پر مجھ سے ہے ہی کیا؟‘‘
کسی نے کیا ہی اچھا کہا:
انا عبده وليس للعبد مع سيده إختيار ولا إرادة ”میں اس کا بندہ ہوں ، بندے کو اپنے آقا کے سامنے نہ کچھ اختیار ہے ، نہ کوئی ارادہ ہے ۔‘‘ کسی نے ایک غلام خریدا – یہ غلام صاحب دیں اور نیک فطرت تھا، آ تانے غلام سے پوچھا:
تو کیا کھانا چاہتا ہے؟‘‘
عرض کیا: ”جو آپ کھلا ئیں!‘‘ پھر پوچھا: تو کیا پہننا چاہتا ہے؟‘‘
عرض کیا: “جوآپ پہنائیں!‘‘ پھر پوچھا: ”میرے گھر میں کہاں ٹھہرنا چاہتا ہے؟
عرض کیا: ”جہاں آپ ٹھہرائیں!‘‘
پھر پوچھا: ” کیا کام کرنا پسند کرتا ہے؟‘‘
عرض کیا: ”جو آپ فرمائیں!“ اس سوال و جواب پر مالک رو پڑا اور کہنے لگا:
”میرے لئے خوشی کا باعث ہوتا اگر میں اپنے رب کے ساتھ ایساہی ہوتا جیسا کہ تو میرے ساتھ ہے۔
یہ سن کر غلام نے کہا: ”اے میرے آقا! کیا غلام کو اپنے آقا کے ساتھ کچھ ارادہ واختیار ہوتا ہے ۔‘‘مالک نے کہا:
” میں نے تجھے اللہ کے واسطے آزادکیا، اور میں چاہتا ہوں کہ تم میرے پاس رہو تا کہ میں اپنی جان اور مال سے تیری خدمت کروں ‘‘
جو شخص اللہ کا عارف ہے، اس کے لئے کوئی ارادہ و اختیار باقی نہیں رہتا، اور کہتا ہے:
الیش علی منی مجھ پر مجھ سے ہے ہی کیا ‘‘۔ وہ اپنے اور دوسروں کے معاملے میں قضاء وقدر کے ساتھ مزاحمت نہیں کرتا۔ اللہ کے بندوں میں سے گنے چنے بندے ہیں جو مخلوق میں بے رغبتی کرتے ہیں، خلوتوں میں انس پکڑتے ہیں۔ – تلاوت قرآن اور حدیث سے مانوس ہوتے ہیں،
اس لئے انکے دل سب سے مانوس ہو کر اس کے قریب ہو جاتے ہیں، جن سے وہ اپنے اور غیر کے نفسوں کو دیکھنے لگتے ہیں، ان کے دل صحیح ہو جاتے ہیں، جس حال میں تم ہو ان سے کچھ مخفی نہیں، تمہارے دلوں کی باتیں بتاتے ہیں ،اور جو کچھ تمہارے گھروں میں ہے، اس کی خبر دیتے ہیں ۔
تجھ پر افسوس! عقل کر ، اپنی جہالت کے باعث اولیاء اللہ سے مزاحمت نہ کر، مکتب سے نکلتے ہی منبر پر چڑھ بیٹھا اور لوگوں پر بڑھ چڑھ کر بولنے لگا، – ذرا سوچ ، اس امر میں ظاہری و باطنی استحکام کی ضرورت ہے، پھر ہر ایک سے فنا ہو جانے کی ضرورت ہے، اس کے بعد دو باتوں کی ضرورت ہے: ۔
پہلی یہ کہ شہر میں تیرے سوا کوئی اور لوگوں کو وعظ نہ سناۓ ،لوگوں سے ضرورتا وعظ بیان کر ۔
دوسری یہ کہ اللہ کی طرف سے تیرے قلب میں وعظ کرنے کا حکم ہوا ہو، ۔ اب تو منبر پر بیٹھ اور مخلوق کو خالق کی طرف لوٹانے کے لئے وعظ کہہ۔
صوفی وہ ہوتا ہے جو ۔
تجھ پرافسوس ! تو صوفی ہونے کا دعوی کرتا ہے، جبکہ سراپا کدورت ہے۔صوفی وہ ہوتا ہے۔ جس کا ظاہر باطن کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی اتباع سے بالکل صفا ہوں جتنی اس کی صفائی بڑھتی جائے ، وہ اپنے وجود کے دریا سے باہر آ تا جاۓ ، اپنی صفائی قلب سے اپنے اختیار وارادہ اوراپنی ڈھال کو چھوڑ تا جاۓ ، بھلائی کی بنیا د رسول اکرمﷺ کی ان کے تمام اقوال وافعال میں پیروی کرنا ہے، بندے کا دل جب صاف ہوگا تو رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھے گا کہ آپ اسے بعض چیزوں کا حکم دے رہے ہیں اور بعض چیزوں اسے منع فرمارہے ہیں ، وہ بند ہ سرا پا قلب بن جاۓ گا ، اس کا بدن ایک کنارا ہو جاۓ گا، اب باطن بغیر ظاہر کے اور صفا بغیر کدورت کے ہوگا ، ظاہر کا چھلکا الگ ہو جائے گا، اور وہ سرتا پا مغز باقی رہ جاۓ گا ،باطنی ومعنوی لحاظ سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوگا ، اس کا قلب آپ ﷺ سامنے تربیت پاۓ گا۔ اس کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہوگا ۔ رسول اللہ ﷺ ہی اس سے مخاطب ہوں گے اور اس کے نگہبان ہوں گے۔ غیر اللہ کو دل سے نکالنا گڑے پہاڑوں کا اکھاڑنا ہے جس کے لئے مجاہدوں کی کدالوں کی ضرورت ہے۔ مشقتوں اور آفتوں کے نزول پر بڑے صبر کرنے کی ضرورت ہے، جو چیز ہاتھ نہ لگے اس کی طلب نہ کرو، سپیدی پر جو سیاہی ہے اگر (اس لکھے ہوۓ ) پرعمل کرو اور مسلمان بن جاؤ تو تمہارے لئے بشارت ہے۔ تمہارے لئے خوش خبری ہے کہ تم قیامت کے دن مسلمانوں میں سے ہو، کافروں میں سے نہ ہو ۔ ہم سب کے لئے مبارک ہے کہ ہم جنت کی زمین پر یا اس کے دروازے پر ہوں ، اور تم دوزخیوں میں سے نہ ہو، تواضع اور انکساری کرو، تکبر نہ کرو، تواضع بلند کرتی ہے جبکہ تکبر پست و ذلیل کرتا ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا من تواضع لله رفعه الله جواللہ کے لئے تواضع کرے اللہ اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔“ قلب جب اللہ کے ذکر پرہمیشگی کرتا ہے تو اسے اللہ کی معرفت اور اس کا علم توحید اور توکل حاصل ہوتے ہیں ۔ اور ماسوئی اللہ سے اعراض کرتا ہے، ذکرالہی پرہمیشکی دنیا و آخرت میں ہمیشہ کی بھلائی ملنے کا باعث ہے، جب دل صحیح ہو جا تا ہے تو ہمیشہ کے لئے ذاکر ہو جاتا ہے، اس کی ہر جانب اور سارے بدن پر وہی لکھ دیا جا تا ہے ، پھرآ نکھیں سوتی ہیں اور دل اللہ کے ذکر میں لگارہتا ہے یہ مقام اسے رسول اللہ ﷺ سے وارثت میں ملتا ہے۔ صالحین میں سے کوئی بزرگ رات میں بہ تکلف سویا کرتے اور بغیر کسی حاجت کے اس کے لئے تیاری کرتے تھے ۔ ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ فرمانے لگے:
“میرا قلب اس حال میں اللہ کودیکھتا ہے ۔ آپ نےصحیح فرمایا، کیونکہ سچا خواب اللہ کی طرف سے وہی ہوتا ہے، لہذا ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کی نیند میں مضمر تھی۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 435،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 222 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
ساٹھویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ساٹھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الستون فی ترک الانسان ما لا یعنیہ‘‘ ہے۔
منعقد 13 رجب 454 بروز منگل بوقت عشاء بمقام مدرسہ قادریہ
بے فائدہ چیز کا چھوڑ دینا بھی اسلام کی ایک خوبی ہے:
رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ ‌مَا ‌لَا ‌يَعْنِيهِ
بے فائدہ چیز کا چھوڑ دینا بھی اسلام کی خوبیوں میں سے ایک ہے۔ جس کا اسلام ٍصحیح اور ثابت ہو جاۓ وہ فائدے کی چیزوں پر راغب ہو جا تا ہے اور بے فائدہ چیزوں سے منہ موڑ لیتا ہے، بے فائدہ کاموں میں لگنا بیکار اور حریصوں کا کام ہے، وہ اپنے رب کی رضا سے محروم ہے جو اس کے حکم پر عمل نہ کرے اور وہ کام کرے جس سے اسے منع کیا گیا ہے ۔ یہی اصل محرومی، اصلی موت اور ہر طرح کا نقصان ہے۔ دنیا میں تیرے مشغول ہونے کے لئے نیک نیتی کی ضرورت ہے، ورنہ تو اللہ کے غضب کا شکار ہو جائے گا۔ پہلے دل کی پاکیزگی میں مشغول ہو کیونکہ یہ فرض ہے، پھر معرفت کی طرف قدم بڑھاتا ہے، جب اصل کو ضائع کر دیا تو فرع کا شغل قابل قبول نہیں، قلب کی نجاست کے ساتھ اعضاء کی طہارت کا کچھ فائدہ نہیں، اعضاء کوسنت پر اور دل کو قرآن پرعمل کر کے پاک کر، اپنے دل کی حفاظت کرتا کہ اعضاء کی حفاظت رہے ، جو کچھ برتن میں ہے وہی ٹپکے گا، جو چیز دل میں ہوگی وہی اعضاء پرگرے گی ۔
عقل کر اور ہوشیار بن ،یہ عمل اس کا نہیں، جوموت پر ایمان لاتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے، جو اللہ سے ملاقات کا منتظر ہو اور اس کے حساب اور اعتراض سے ڈرتا ہے ۔ قلب صحیح توحید اور توکل اور یقین وتوفیق ، اور علم اور ایمان اور قرب الہی سے پر ہے، یہ ساری مخلوق کو عاجزی اور ذلت اور محتاجی کی آنکھ سے دیکھا کرتا ہے، اس کے باوجود ان میں سے ایک ننھے بچے پر بھی تکبر نہیں کرتا ، کافروں اور منافقوں اور گناہ گاروں سے اللہ کے لئے غیرت کر کے خونخوار درندے کی طرح ملتا ہے، یہ اس کے سامنے گوشت کے پڑے ہوۓ ٹکڑوں کی طرح ہو جاتے ہیں اور نیک اور پرہیز گارلوگوں کے سامنے یہ عاجزی اور انکساری کرتا ہے اورخودکو ذلیل بنالیتا ہے، جس قوم کی یہ صفتیں ہیں ،اللہ تعالی نے ان کی تعریف میں فرمایا: أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ” کافروں پر نہایت سخت اور آ پس میں نہایت مہربان ہیں۔
اے نئی راہیں نکالنے والے ، تجھ پر افسوس تو اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ کہے انی آنا الله الا الله ربنا میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں ۔یہ شان تو اللہ ہی کی ہے، ہمارارب کلام کرنے والا ہے گونگا نہیں ، اسی لئے اس نے اپنے کلام میں حضرت موسی علیہ السلام کوتا کید فرمائی : وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى ‌تَكْلِيمًا اور اللہ نے موسی سے اچھی طرح کلام کیا۔ اللہ کے لئے کلام ہے جوسنا اور سجھا جاسکتا ہے۔ موسی علیہ السلام سے فرمایا: يَامُوسَى ‌إِنِّي ‌أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ اے موسی ! بے شک میں ہی اللہ جہانوں کا پروردگار ہوں ۔ یعنی آنا اللہ فرما کر ثابت کر دیا کہ بے شک میں جہانوں کا پروردگار ہوں ، کوئی فرشتہ اور جن اور انسان نہیں ہوں ، ۔ ہوں ۔ فرعون اپنے قول: ‌أَنَا ‌رَبُّكُمُ الْأَعْلَى (میں تمہارا بڑارب ہوں) میں اور اپنے خدا ہونے کے دعوے میں جھوٹا ہے، مخلوق میں سے فرعون یا کوئی اور معبود نہیں ، خداوہ معبود برحق ہوں، موسی علیہ السلام اپنی بیوی کے کرب میں مبتلا ہونے یعنی درد زہ اور رات کی تاریکی سے پریشان ہوئے ، اس مصیبت اور پریشانی میں ان کا ایمان وایقان ظاہر ہوا ۔ اللہ تعالی نے ان کے لئے نورظاہرکردیا، حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور قوت واسباب سے ارشادفرمایا: تم یہاں ٹھہرو! ۔ یقینا میں نے آگ روشن دیکھی ہے۔ یقینامیں نے ایک نور دیکھا ہے، میرے دل اور باطن اور حقیقت اور مغز نے ایک نور دیکھا ہے، سابقہ علم از لی اور ہدایت میرے پاس آۓ ، خلقت سے مجھے لا پرواہی ہوگئی ۔ میرے پاس ولایت اور خلافت آئی، میرے پاس اصل آیا اور فرع گئی۔ میں اب رعا یا نہیں بادشاہ ہوں ، مجھ سے فرعون کا خوف جا تارہا اور وہ خوف فرعون پر پڑ گیا ۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت موسی علیہ السلام اپنے گھر والوں کو اللہ کے سپردکر کے چل پڑے، چنانچہ آپ کے بعد آپ کے کنبہ میں اللہ ہی محافظ بنا۔
اسی طرح ایمان والے کواللہ تعالی جب اپنا مقرب بنا لیتا ہے، اور اسے اپنے قریب کے دروازے کی طرف بلاۓ تو وہ ایمان والا اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے نگاہ ڈالتا ہے تو اسے سب سمتیں بند دکھائی دیتی ہیں صرف ایک اللہ کی سمت کھلی ہے۔ اس وقت وہ اپنے نفس اور خواہش اور اعضاء و عادت اور اہل وعیال اور جن چیزوں سے اس کا تعلق تھا، سے مخاطب ہوتا ہے ۔
مجھے اللہ کا نور نظر آ گیا ہے، میں اسی کی طرف جارہاہوں، اگر واپسی کے لئے اجازت ملی تو تمہاری طرف لوٹ کر آؤں گا۔ وہ دنیا و مافیہا اور تمام اسباب و شہوات اور ساری مخلوق کو رخصت کر دیتا ہے، پر ایک نئی پیدا ہونے والی اور مصنوعی چیز سے الگ ہو کر صانع کی طرف راستہ لے لیتا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالی اس کے اہل وعیال اور اسباب کی نگہبانی فرماتا ہے، اور ان کا والی ہو جا تا ہے ، بعض حال
دور والوں سے چھپاۓ جاتے ہیں قریب والوں سے نہیں ، دشمنوں سے چھپاۓ جاتے ہیں، دوستوں سے نہیں ،-اکثر سے چھپاۓ جاتے ہیں بعض سے نہیں، یہ قلب جب صحیح اورصفا ہو جائے تو دائیں بائیں آگے پیچھے اور اوپر نیچے سےاللہ کی دعوت کو سنتا ہے اور ہر ایک نبی اور رسول اور صدیق اور ولی کی آواز کو سنتا ہے ، لیکن حال میں یہ اللہ سے قریب ہو جا تا ہے، اللہ کا قرب اس کی زندگی ہے، اللہ سے دوری اس کی موت ہے، اس کی رضا اللہ سے مناجات کرنے میں ہوتی ہے، وہ ہر چیز سے اس پر اکتفا کر لیتا ہے ۔
اسے دنیا کے جانے کی پروا نہیں ،اسے بھوک وپیاس اوربرہنگی کی پرواہ نہیں ، اسے اپنی ہتک عزت کی پرواہ نہیں ۔ سالک مرید کی رضا طاعات میں اور مراد بن جانے والے عارف کی رضا قرب الہی میں ہے۔
اے بناوٹی زاہد! یہ کمال تیرے موجودہ حال سے حاصل نہیں ہوسکتا، نہ دن کے روزے سے نہ رات کے قیام کرنے سے ، نہ بے مزہ کھانا کھانے سے، نہ بے موسمے اور بے ڈھنگے کپڑے پہننے سے نفس اور حرص اور عادت اور جہالت اور مخلوق کی طرف دیکھنے کے باوجود کمال کو نہیں پہنچتا ہے۔ ان باتوں سے تجھے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ تجھ پر افسوس ! اخلاص پیدا کر اور منفرد ہو جا، سچ کے ساتھ اصل اور قرب سے ہم کنار ہو ۔ ہمت بلند کر، بلند ہوگا ، احکام الہی کو مان ، سلامتی ملے گی۔ قضاوقدر سے موافق ہو، توفیق دی جائے گی ، راضی برضا ہو،رضا پاؤ گے، ابتدا کر، انتہا پر وہ پہنچادے گا۔ اللهم تول أمورنا في الدنيا والأخرة لا تكلنا إلى نفوسنا ولا إلى أحد من خلقك۔“یا اللہ! دنیا وآخرت میں ہمارے کاموں کا تو والی بن جا، اور ہمیں ہمارے نفسوں اور مخلوق میں سے کسی کے حوالے نہ کر۔
دعوی محبت کی آزمائش محبوب کی منشاء پر موقوف ہے: رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: “اللہ تعالی جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے: اے جبرائیل! فلاں بندے کو سلا دے، فلاں بندے کو جگادے۔
اس ارشاد مبارک کا مطلب ومفہوم دو طرح سے ہے پہلا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ فلاں کو اٹھاؤ یعنی محب کو اور فلاں کو سلاؤ یعنی محبوب کو اس نے میری محبت کا دعوی کیا۔ اس لئے لازم ہے کہ میں اس کی آزمائش کروں، اسے اس کی جگہ پر تب تک کھڑ ارکھوں کہ اس کے وجود کے پتے میرے غیر کے ساتھ گر جائیں ، اسے اٹھا کر کھڑا رکھ تا کہ اس کے دعوے کی دلیل قائم ہو جائے اور اس کی سچی محبت ثابت ہوجائے، اوراے جبرائیل! فلاں کو سلا دے کیونکہ وہ محبوب ہے، اس نے عرصہ دراز تک مشقت اٹھائی ہے، اس کے پاس میرے سوا کچھ نہیں رہا، اس کی محبت میرے لئے ثابت ہوئی ، اس کا دعوئی اور دلیل ثابت ہوۓ ، اس نے اپنے عہد کی پاس داری کی ، اب میری باری ہے اور میرا عہد پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے، وہ میرا مہمان ہے،مہمان سے خدمت اور مشقت نہ لی جائے ،اسے میرے لطف کی گود میں سلادے ،میرے فضل کے دستر خوان پر بٹھادے ،اسے میرے قرب سے مانوس کر دے۔ اسے میرے غیر سے غائب کر دے، اس کی محبت صحیح ہو چکی ہے۔ جب محبت صحیح ہوئی تو تکلیف جاتی رہی۔ دوسرا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ اے جبرائیل ! – فلاں کو سلادے کیوں کہ اس کی آواز مجھے سخت نا پسند ہے، فلاں کو جگادے کیونکہ اس کی آواز مجھے بہت پسند ہے۔ قلب جب ماسوئی اللہ سے پاک ہو جائے تو محب سے محبوب بن جا تا ہے ۔ جب اس کی توحید اور اس کا توکل اور ایمان اور یقین اور معرفت کامل ہو جائیں تو محبوب بن جاتا ہے، سختی جاتی ہے اور راحت آتی ہے، جب کوئی بندہ کسی بادشاہ سے محبت رکھتا ہے، اور دونوں میں دور کی مسافت ہوتو اس پر محبت غالب آ جاتی ہے، اسے حیرت میں ڈال کر بادشاہ کے شہر کی طرف متوجہ کردیتی ہے، یہ سفر میں رات اور دن کو ایک کر ڈالتا ہے، طرح طرح کی مشقتیں اور خوف برداشت کرتا ہے، اسے کھانا پینا بھی اچھا نہیں لگتا، حتی کہ وہ اس بادشاہ کے دروازے تک جا پہنچتا ہے۔ بادشاہ کو بھی اس کے حال کا پتہ چلتا ہے، بادشاہ کے خادم اس کا استقبال کرتے ہیں اور مرحبا کہتے ہوۓ حمام میں لے جاتے ہیں ، اچھی طرح سےغسل دے کر اچھا سالباس پہناتے ہیں ، اور خوشبو لگا کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دیتے ہیں، اس سے بات چیت کرتا ہے اس کا حال احوال پوچھتا ہے، اپنی بہترین باندیوں میں سے سب سے حسین سے اس کا نکاح کر دیتا ہے، اور اپنے ملک ہی میں جا گیر بھی عطا فرماتا ہے، بادشاہ کی کرم فرمائیاں اسے اس سے مانوس کر دیتی ہیں، بادشاہ اسے اپنا محبوب بنالیتا ہے ، اس کے بعد کیا اسے کوئی خوف یاغم باقی رہے گا ، یا وہ اپنے شہر کو واپس آنے کو پسند کرے گا، بادشاہ سے کیونکر جدا ہونا چاہے گا، جبکہ وہ بادشاہ کا مقرب اور مرتبہ و مقام والا اور اعتماد والا بن چکا ہے۔ اسی طرح یہ دل جب صحیح ہو جائے تو اللہ کے حضور میں پہنچ جاتا ہے، اس کے قرب اور اس سے مناجات سے صاحب مقام اور امن والا ہو جا تا ہے ۔ اس کے غیر سے رجوع کی تمنا جاتی رہتی ہے ۔ یہ مقام پانے کے لئے دل کوفرائض ادا کرنے اور حرام اور شہوت وں سے صبر کرنے اور مباح اور حلال کھانا ہوتا ہے، نہ کہ حرص اور شہوت اور وجود سے ، ۔ اور ایسا کامل تقوے اور پورے زہد سے ہوتا ہے ، اور یہ کہ ماسوئی اللہ کو ترک کر دے، نفس اور حرص اور شیطان کی مخالفت کرے،دل کو ساری خلقت سے پاک کرے – تعریف اور برائی عطا اور منع ، جواہرات اور پتھر اس کے لئے برابر ہوں ، اس زہد و تقوی کا آغاز اللہ کی وحدانیت کی گواہی دینے سے ہوتا ہے، اور اس کی انتہا گراں قدر پتھر اور عام ڈھیلوں برابر ہونا ہے، جس کا دل صحیح ہو جاۓ اور جو اللہ سے واصل ہو جائے اس کے لئے پتھر اور ڈھیلے،تعریف و برائی ، بیماری اور عافیت، امیری دغربت ، دنیا کا خیال کرنا اور اس سے منہ موڑ ناسب برابر ہو جاتے ہیں ۔ جس کا حال صحیح ہو جاۓ: اس کانفس اور خواہش مر جاتے ہیں۔ اس کی طبیعت کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس کا شیطان ذلیل ہو جا تا ہے۔ اس کے دل میں دنیا اور دنیا والے سب حقیر ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ دنیا و آخرت سے منہ موڑ کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اس کے دل کے لئے خلقت کے درمیان راستہ بن جاتا ہے، اور وہ اس پر سے گزرتے ہوئے اللہ تک پہنچ جاتا ہے ۔ لوگ ادھر ادھر ہو جاتے ہیں اور ایک طرف ہو کر راستہ کھلا چھوڑ دیتے ہیں، اس کی سچائی کی آگ اور باطن کی ہیبت سے خوف کھاتے ہیں ، جس کا ایسا حال ہو جاۓ : کوئی لوٹانے والا اسے اللہ کے دروازے سے لوٹا نہیں سکتا۔ کوئی روکنے والا اسے روک نہیں سکتا ، اس کا جھنڈا پلٹا نہیں جاسکتا۔اس کے لشکر کو شکست نہیں ہوتی ، اس کی طلب کو سکون نہیں ہوتا ، اس کی توحید کی تلوار کند نہیں ہوتی ، اس کے اخلاص کے قدم نہیں تھکتے ، اس کا کوئی امراس پر دشوار نہیں ہوتا ، اس کے سامنے کوئی دروازہ اورقفل ثابت نہیں رہتا ، دروازے اور قفل سب اڑ جاتے ہیں، سب ہمتیں فراخ ہو جاتی ہیں، اس کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہرتی حتی کہ وہ اپنے رب کے پاس جاٹھہرتا ہے، لطف الہی اسے اپنی طرف کھینچ کر اپنی گود میں سلالیتا ہے، اپنے خوان فضل سے اسے کھلاتا ہے اور شراب انس سے اسے سیراب کرتا ۔
مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا ‌أُذُنٌ ‌سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍجو آنکھ نے دیکھا اور نہ کانوں نے سنا اور کبھی انسان کے دل پر اس کا خطرہ گزرا۔‘‘
اس بندے کا مخلوق کی طرف رجوع ان کی ہدایت کا باعث ہے، وہ ان کی بادشاہت اور نعمت کا سبب بن جا تا ہے ۔ بندہ اللہ کے حضور پہنچ کر اسے اور اس کے ماسوا کو دیکھ چکا ہے۔ بادشاہی میں خلقت کی ہدایت میں لگ جاتا ہے ۔ وہ مخلوق کے لئے اللہ کے دروازے کی طرف رہنمائی کرنے والا ایک واسطہ اورنہایت باخبر سفیر بن جاتا ہے ، اس وقت عالم ملکوت میں اسے عظیم‘‘ کے نام سے پکارا جا تا ہے ، ساری خلقت اس کے دل کے قدموں تلے ہو جاتی ہے، اور اس کے سایہ
سے سایہ حاصل کرتی ہے ۔
اسے نالائق واعظ اتو بکواس نہ کر ، تو ایسی چیز کا دعوے دار ہے جو تجھے حاصل نہیں ، اور نہ ہی وہ تیرے پاس ہے، تجھ پر تیر انفس غالب ہے مخلوق اور دنیا تیرے دل میں ہیں، تیرے دل میں اللہ سے زیادہ ان کے لئے جگہ ہے، تو اولیاء اللہ کی حد اور شمار سے خارج ہے ۔ جس بات کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں، اگر تو اسے حاصل کرنا چاہتا ہے تو اپنے دل کو ان سب چیزوں سے پاک کرنے میں لگ جاء اوامرکی تعمیل کر مناہی سے منع رہ ، اور قضا وقدر پر صبر سے کام لے، اورد نیا کودل سے نکال دے ۔ اس کے بعد میرے پاس آ تا کہ میں تیرے سے گفتگو کروں، اور اس کے بعد کی خبر دوں ۔ اگر ایسا کرے گا تو اپنا مقصودومراد حاصل کر سکے گا، اس سے پہلے تیرابات کر نا سراسر بکواس ہے، تجھ پرافسوس! اگر تجھے ایک لقمہ نہ ملے، یا تجھ سے ایک دانہ ضائع ہو جاۓ ، یا تیری ہتک عزت ہوتو ہنگامہ کھڑا کر دیتا ہے اور اللہ پر اعتراض کرنے لگتا ہے، ۔ تیرا غصہ بیوی بچوں کو پیٹنے میں نکلتا ہے، اور اپنے دین اور نبی کو گالیاں دینے لگتا ہے، اگر تو عقل مند اور ہوشیار ہوتا اور صاحب مراقبہ ہوتا تو اللہ کے سامنے گونگا بن جا تا ، اس کے سب فعلوں کو اپنے حق میں
نعمت اور رحمت سمجھتا، قضاوقدر کی موافقت کرتا ، اور جھگڑانہ کرتا ، ناشکری نہ کرتا ، راضی بہ رضا ہوتا ۔غصہ نہ کرتا ، خاموش رہتا ۔دل میں شک نہ لاتا ،تو تیرے لئے کہا جا تا أَلَيْسَ اللَّهُ ‌بِكَافٍ عَبْدَهُ -کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ۔
اے جلد باز ! صبر کر، تجھے خوشگوار نعمت ملے گی ،تو نے اللہ کو پہچانا ہی نہیں، اگر تو اسے پہچان لیتا تو اس کے غیر کے سامنے اس کی شکایت نہ کرتا ، اگر سمجھ سے کام لیتا تو اس کے سامنے زبان نہ کھولتا، اس سے کچھ نہ مانگتا، اپنی دعا میں اس کے سامنے عاجزی نہ کرتا بلکہ اس کے موافق ہوتا اور اس کے ساتھ صبر کرتا ، عقل سے کام لے، تجھے تزکیہ نفس کی ضرورت ہے ۔ اس کا کوئی فعل مصلحت سے خالی نہیں ، وہ تجھے آزماتا ہے تا کہ تیرے عمل دیکھے ، وہ تجھے پرکھتا ہے کہ۔
کیا تو اس کے وعدے پر قائم ہے یانہیں، کیا تو جانتا ہے کہ وہ تیری طرف دیکھنے والا اور تجھے جاننے والا ہے۔
کیاتجھے نہیں معلوم کہ جب کوئی خدمت گار شاہی محل میں کام کر رہا ہو، اور مزدوری مانگ لے تو اسے اس کی حماقت اور ہوس سمجھا جاتا ہے، اسے فورا محل سے نکال دیا جا تا ہے ۔ اور اسے کہا جائے گا کہ کیا یہ جگہ تقاضا کرنے کی تھی! جس شخص کے دل میں حرص وطمع اور مخلوق سے خوف اور امید ہوتو اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا، یہ بات ہمیشہ فکر کرنے اور اصول وفروع – میں غور وخوض کر نے اور نبیوں اور صالحین کے احوال میں توجہ کرنے سے حاصل ہوتی ہے، کہ اللہ تعالی نے ان کو کس طرح دشمنوں کے ہاتھوں سے بچایا ، اور ان پر فتح نصیب فرمائی ، اور سارے کاموں میں کشائش اور کشادگی عطا فرمائی، غور وفکرصحیح ہوتو توکل صحیح ہوتا ہے اور دل سے دنیاغائب ہو جاتی ہے، اور جن اور انسان اور فرشتے اور ساری مخلوق بھول جاتی ہے، اور صرف اللہ کی یاد میں لگا رہتا ہے ۔ ایسے دل والے کا یہ حال ہو جا تا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی مخلوق نہیں ہے ۔ کسی پر اس کے امر نہیں اور نہ کسی پرنہی ہے، اوروں کی بجاۓ اس پر انعام ہوا ہے، گویا کہ ہر طرح کی تکلیفیں اس کے دل اورباطن کی گردن پر ہیں ، وہ تکلیفوں کو مختلف جنس کے پہاڑ سمجھتا ہے جو کہ بھیجنے والے کی طرف سے ایک طرح کا پیغام ہیں ، اپنی بندگی اور فرماں برداری ثابت کرانے کی خاطر یہ سب تکلیفیں برداشت کرتا ہے۔ یہ بندہ خلق کا حامل بن جا تا ہے اور خالق اس کا حامل ہو جا تا ہے، مخلوق کا طبیب ہو جا تا ہے اور خالق اس کا طبیب بن جا تا ہے۔مخلوق کے لئے اللہ کی طرف پہنچانے کا دروازہ اور خالق ومخلوق کے درمیان سفیر ہو جا تا ہے۔ مخلوق کے لئے آفتاب کی طرح ہے اور یہ خالق تک پہنچنے کے لئے اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں،مخلوق کا کھانا پینا بن جا تا ہے ، ان سے کسی لمحے غائب نہیں ہوتا ۔ اس کی ہر سوچ مخلوق کی مصلحتوں کے لئے ہوتی ہے، وہ اپنے نفس کو بھلا دیتا ہے ۔ اس کا پھر یہ حال ہو جا تا ہے کہ گویا اس کے لئے نفس وعادت وخواہش کچھ نہیں ہے ۔ اسے اپنا کھانا اور پینا اور پہننا سب کچھ بھول جاتا ہے، یہ اپنے نفس کو بھول کر خدا کی یاد کرنے والا رہ جاتا ہے ۔ دلی طور پر اپنے نفس اور ساری مخلوق سے کٹ کر صرف اپنے رب کے ساتھ باقی رہ
جاتا ہے۔ جو شخص مخلوق کے لئے نفع چاہے گا،اپنے نفس کو قضاۓ الہی کے سپرد کر دے گا، اور اپنی ذات سے بالکل ایک طرف و کنارے ہو جاۓ گا، جو خلقت کواللہ کے دروازے کی طرف کھینچنا چاہے تو اس میں یہ ساری صفات ہونالازم ہیں۔
زہد کا دعوی کرنے کے باوجود سراپارغبت ہے:
تو تو ہوس کا بندہ ہے ۔ اللہ اور اس کے رسولوں اور ولیوں اور اس کے خاص بندوں سے بے خبر ہے ، زہد کا دعوی کرنے کے باوجود سرا پا رغبت بن گیا ہے، تیرے زہد کے پاؤں نہیں ہیں ،رب کی بجائے تیری ساری رغبت دنیا اور مخلوق کی طرف ہے تو میرے سامنے اچھے گمان کے ساتھ اچھے گمان کے قدموں پر کھڑا ہونا ضروری سمجھ ، تا کہ میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں اورتجھے اس کا راستہ بتا دوں ، اپنے بدن سے تکبر اور غرور کا لباس اتار دے اور عاجزی کا لباس پہن لے ، ذلالت اٹھا تا کہ عزت پاۓ ، تواضع کرتا کہ بلند کیا جائے ، تو جس چیز کے اندر ہے، اور جس چیز کے اوپر ہے، یہ سب حرص ہے طمع ہے، اللہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا، یہ حال محض بدنی اعمال سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ دل کے اعمال کے ساتھ بدنی اعمال سے آتا ہے۔ رسول اکرم ﷺفرمایا کرتے تھےز ہداس جگہ ہے، تقوی اس جگہ ہے، اخلاص اس جگہ ہے اور پھر اپنے سینہ اطہر کی طرف اشارہ فرمایا کرتے تھے ۔
فلاح ونجات چاہئے تو مشائخ کے قدموں کی خاک بن جا:
جسے فلاح ونجات چاہئیے تو وہ ایسے مشائخ کرام کے قدموں کی خاک بن جائے :۔
جنہوں نے دنیا اومخلوق کو چھوڑ دیا ہو، دنیا اور مخلوق کو رخصت کر دیا ہو ، عرش سے فرش تک ہر شے کو ایسا رخصت کر دیں کہ پھران کی طرف لوٹ کر نہ آئیں، مخلوق کے ساتھ ساتھ نفسوں سے بھی منہ موڑ لیا ہو، ہر حال میں ان کا وجوداللہ ہی کے ساتھ ہو۔
جو شخص اپنے نفس کے وجود کے ساتھ اللہ کی محبت چاہتا ہے، وہ حرص اور جنون میں مبتلا ہے ۔
اکثر زاہد دعابد بننے والے خلق کے بندے اور انہیں اللہ کا شریک ٹھہرانے والے ہیں ، اسباب پر بھروسہ چھوڑ دو، نہ انہیں اللہ کا شریک ٹھہراؤ، نہ ان پر اعتماد کرو ، ایسا کرنے سے اللہ تعالی جو مسبب الاسباب ہے اور اسباب کا پیدا کرنے والا اور ان میں تصرف کرنے والا ہےسخت ناراض ہوگا ، جوقرآن وسنت کی پیروی کرنے والے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ
تلوارازخودنہیں کاٹتی بلکہ تلوار کے ذریعے اللہ کا ٹتا ہے۔ اور آگ اپنی فطرت کے باعث کسی کو نہیں جلاتی بلکہ آگ کے ذریعے اللہ ہی جلانے والا ہے۔ کھانا از خود کسی کا پیٹ نہیں بھرتا بلکہ اس کے ذریعے اللہ ہی پیٹ بھرتا ہے ۔ پانی اپنی فطرت سے کسی کو سیراب نہیں کرتا ، بلکہ اس کے ذریعے اللہ ہی سیراب کرتا ہے ، اسی طرح سے کسی بھی جنس کے ساتھ کیسا ہی سبب کیوں نہ ہو، اللہ ہی ان میں اور ان کے ساتھ تصرف کرتا ہے ۔ یہی سبب اس کے لئے ایک آلہ اور ذریعہ ہیں جن کے ساتھ وہ جس طرح چاہے کرتا ہے، جب کہ حقیقت میں ہر کام کر نیوالا وہی ہے ۔ تو پھر ہر کام میں اس کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے ، اور اپنی ضرورتوں کو اس کے لئے کیوں نہیں چھوڑ دیتے ، اور اپنے سب احوال میں اس کی توحید کو کیوں نہیں لازم کرتے ، اسے تنہا و یکتا سمجھو، اس کا معاملہ ظاہر ہے کسی بھی سمجھ دار سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، ۔ غلام کولکڑی سے مارا جا تا ہے اور بندہ آزاد کے لئے اشارہ ہی کافی ہے تم اللہ کی فرماں برداری کرو، کیونکہ وہ فرماں بردار کوعزت دیتا ہے، اس کی نافرمانی نہ کرو، کیونکہ وہ نافرمان کو ذلیل کرتا ہے،مد د کرنا محروم رکھنا اور رسوا کرنا اس کے اختیار میں ہے: – جسے چاہتا ہے مددکر کے عزت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے محروم رکھ کر ذلت دیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے علم دے کر عزت دیتا ہے، ۔۔ جسے چاہتا ہے جاہل رکھ کر ذلت دیتا ہے۔ .جسے چاہتا ہے اپنے قرب سے عزت دیتا ہے – جسے چاہتا ہے اپنے سے دور رکھ کر ذلت دیتا ہے۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 448،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 227 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
اکسٹھویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اکسٹھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الحادی والستون فی خواطر الانسان‘‘ ہے۔
منعقده20/ رجب546ھ بمقام مدرسہ قادر یہ
گزرتے ہیں دل میں خطرات کیا کیا:۔
کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ دل میں گزر نے والے خطرات کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا:” تجھے کیا خبر یہ خطرے کیا ہیں تیرے دل میں جو خطرے آتے ہیں وہ شیطان اور عادت اور حرص اور دنیا سے ہیں، تیری فکر وہی ہے جو تجھے غم میں ڈالے، تیرے خطرے بھی تیری فکر کی جنس سے ہیں ، تو جیسے عمل کرے گا ویساہی خطرہ سر اٹھائے گا، جو خطرہ اللہ کی طرف سے ہے وہ ایسے دل میں آتا ہے وہ ایسے دل میں آتا ہے جوما سوا اللہ سے خالی ہوں ۔ جیسے کہ ارشاد باری ہے: أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا ‌مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ہم اس کو پکڑتے ہیں جس کے پاس ہمارا مال اسباب ہے۔ جب تیرے پاس اللہ اور اس کا ذکر ہوگا تو تیرا دل ضرور اس کے قرب سے سیراب ہو گا اور شیطان اور حرص اور دنیا کے خطرے تیرے پاس سے بھاگ جائیں گئے، ایک خطرہ دنیا کا اور ایک خطرہ آخرت کا ، ایک خطرہ فرشتے کا اور ایک خطرہ نفس کا، ایک خطرہ دل کا اور ایک خطرہ اللہ کا چنانچہ صادق کے لئے ضروری ہے کہ سب خطرے دفع کر کے صرف اللہ کے خطرے پر ٹھہرے، جب تو نفس کے خطرے اور مرض کے خطرے اور شیطان کے خطرے اور دنیا کے خطرے سے منہ موڑے گا تو آخرت کا خطرہ آۓ گا ، پھر فرشتے کا خطرہ ، آخر کار اللہ کا خطرہ آئے گا اور یہی مقصودحقیقی ہے ۔ جب تیرادل صحیح ہو جائے گا تو اس خطرے کے پاس ٹھہرے گا اور اس سے کہے گا: تو کون سا خطرہ ہے اور کہاں سے ہے؟‘‘ ۔
اس کا جواب دے گا۔ میں فلاں فلاں خطرہ ہوں ، میں اللہ کا خطرہ ہوں اور اس کی طرف سے آیا ہوں ۔ میں تیرا خیر خواہ اور دوست ہوں تو اللہ کا محبوب ہے، اس لئے میں بھی تجھے محبوب رکھتا ہوں، میں اللہ کا سفیر ہوں ، اور نبوت کے حال میں سے تیرا نصیب ہوں ۔
معرفت الہی ہر بھلائی کی جڑ ہے: اے بیٹا تو اللہ کی معرفت کی طرف دھیان دے کیونکہ وہ ہر بھلائی کی جڑ ہے، تو جب اس کی کثرت سے اطاعت کرے تو تجھے اپنی معرفت عطافرمادے گا ،اس لئے رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: بندہ جب اللہ کی فرماں برداری کرتا ہے تو اللہ سے اپنی معرفت عطا کرتا ہے۔ اگر بندہ اس کی اطاعت کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس سے اس معرفت کو واپس نہیں لیتا بلکہ اس کے دل میں باقی رہنے دیتا ہے تا کہ روز قیامت اس کے خلاف حجت قائم فرمائے ، اور اس سے یہ کہے : ”میں نے تجھے اپنی معرفت کے ساتھ دوسروں میں اعزاز بخشا تھا، اس کے ذریعے تجھے فضیلت عطا کی تھی تو نے اپنے اس علم پرعمل کیوں نہ کیا۔‘‘
اللہ کی جو نعمت میسر آئے اس کا اظہار کر:
اے بیٹا! تیرے نفاق اور فصاحت اور خوش بیانی، تیرے زرد چہرے اور تیرے پیوند لگے لباس اور مونڈھے سیکڑ لینے اور رونے پیٹنے سے اللہ کے ہاں سے تیرے ہاتھ کچھ نہ لگے گا ۔ یہ ساری باتیں تیرے نفس اور تیرے شیطان اور مخلوق کو اللہ کا شریک ٹھہرانے اور اس سے دنیا طلب کرنے کے باعث پیدا ہوئیں ، ذراسوچ! اس کے بعد کچھ وقفے کے بعد آپ نے سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: اللہ ان سے راضی ہو اور وہ انہیں ہم سے راضی کر دے ،اپنے مولی کے ساتھ ان کا قرب لمحہ بہ لمحہ زیادہ ہو، تو اپنے نفس کوحقیر سمجھتے ہوئے اپنے امر کو چھپائے رکھ، اور اس پر اس طرح سے قائم ہو جا کہ تجھ سے کہا جائے کہ تو اپنے رب کی نعمت کوبیان کر ۔ حضرت ابن شمعون رحمۃ اللہ علیہ سے جب کوئی کرامت ظاہر ہوتی تو فرمایا کرتے کہ یہ دھوکا ہے، یا شیطان کی طرف سے وسوسہ ہے، اور ہمیشہ ان کا یہی معمول رہا حتی کہ آپ سے کہا گیا: تم کون ہو اور تمہارا باپ کون ہے، تم پر ہماری جونعمتیں ہیں انہیں بیان کیا کرو۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے مناجات میں اللہ تعالی سے عرض کیا: اے رب! مجھے کچھ وصیت کر ۔۔۔‘‘ آپ کو کم الہی ہوا۔
أوصيك بي وبطلبی میں اپنی اور اپنی طلب کی وصیت کرتا ہوں ‘‘ حضرت موسی علیہ السلام نے چار بار عرض کیا اور ہر بار یہی ایک جواب ملا ، اللہ تعالی نے ان سے یہ نہ فرمایا کہ تم دنیا طلب کرو، اور نہ یہ فر مایا کہ:” تم آ خرت طلب کرو‘‘، انہیں ہر بار گویا یہی ارشاد ہوتا تھا۔ میں اپنی اطاعت کرنے اور نافرمانی چھوڑنے کی وصیت کرتا ہوں ، – میں اپنے قرب کے طلب کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، اور – اپنی توحید اور اپنے لئے عمل کرنے کی وصیت کرتا ہوں، ‘
میں اپنے ماسوا کو چھوڑ دینے کی وصیت کرتا ہوں ، دل جب صحیح ہو جا تا ہے اور وہ اللہ تعالی کو پہچان لیتا ہےتو وہ غیراللہ کوبرا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ مانوس ہوتا ہے اور غیر اللہ سے وحشت محسوس کرتا ہے ۔ وہ اللہ کی معیت میں راحت پا تا ہے اور اس کے غیر کی معیت میں تکلیف اٹھاتا
اللهم اشهدلي ابي مبالغ في مواعظ عبادك مجتهد في صلاحهم انا ناحية عن جميع ما أنا فيه آنا خارج عنه كخروجكم عنه من حيث المعنى والسر لاكرامة لي أن أكون معه في شيء من تدبیرہ و تصاریفہ الہی! تو گواہ رہنا کہ میں تیرے بندوں کو ضرورت سے زیادہ نصیحت کرنے والا ہوں ، اور ان کی اصلاح و بھلائی میں کوشش کرنے والا ہوں ، میں جن چیزوں میں مشغول ہوں سب سے الگ ہوں، ان کے معنی اور باطن کے اعتبار سے ان سے خارج اور جدا ہوں جیسے (سامعین ) تم باہر ہو۔ میں اگر کسی چیز میں اس کی تد بیراور تصرفات میں کسی طرح کا دخل دوں تو میرے لئے اس میں کوئی کرامت نہیں ۔
اے خانقاہوں میں بیٹھنے والو!
اے گوشہ تنہائی سجانے والو! آؤ میرے وعظ وکلام سے لطف اٹھاؤ خواہ ایک حرف ہی کیوں نہ ہو، میری صحبت میں ایک دن یا ایک ہفتہ ر ہوتا کہ اپنے فائدے کی کوئی بات سیکھ لو ۔ تم پر افسوس! تم میں سے اکثر طمع ہی طمع ہیں ، تم اپنے خلوت خانوں میں بیٹھ کر مخلوق کی پوجا کرتے ہو، یہ بات خلوتوں میں جہالت کے ساتھ بیٹھنے سے حاصل نہیں ہوتی ،لہذا جہالت چھوڑ دو۔ تم پر افسوس تو علم اور باعمل علماء کی طلب میں اتناسفر کر کہ تجھ میں مزید چلنے کی سکت نہ رہے، جب تو لا چار ہو جائے تو بیٹھ جا، پہلے اپنے ظاہر کے ساتھ سیر کر، پھر دل اور باطن کے ساتھ سیر کر ۔ جب تو ظاہر و باطن کے لحاظ سے تھک کر ٹھہر جائے ، قرب الی اللہ تیرے پاس آ جاۓ گا تو اس سے واصل ہو جاۓ گا ، چلتے چلتے دل کے قدم جب تھک جائیں اور چلنے میں قوتیں جواب دے دیں تو یہ اللہ سے قرب کی علامت ہے، اس مقام پر پہنچ کر تو خود کو اس کے سپرد کر دے اور اس کے دروازے پر کھڑارہ ، وہ تیرے لئے اس میں خانقاہ بنادے، یا تجھے ویرانے میں بٹھا دے، یا پھر تجھے آبادی کی طرف لوٹا دے ، تو دنیا و آخرت اور جن دانساں ، اور فرشتوں اور روحوں کو تیری خدمت کے لئے مقرر کر دے گا ۔ بندے کا جب قرب صحیح ہو جاۓ تو اللہ کی طرف سے اسے ولایت اور نیابت مل جاتی ہے، سب خزانے اس کے سامنے پیش کر دیئے جاتے ہیں ، زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے ،سب اس کی شفاعت کرتے ہیں ، کیونکہ اسے
بادشاہ کے ہاں قرب کا مرتبہ مل چکا ہے۔ باطن وحقیقت کی صفائی مل چکی ہے، قلب کی نورانیت حاصل ہو چکی ہے تو دل کی صفائی حاصل کرتا کہ اسلام اور ایمان تیرے پاس فقط عاریتاً ہی نہ ہوں، اس سے تیرا خوف اور روزہ ونماز اور شب بیداری بڑھ جائیں گے، اس سے اولیاء اللہ :حیران ہو کر منہ کے بل جا گرے،وحشی ، جانوروں میں جا ملے،جنگلوں کی گھاس پر ان کے مزاحم ہوۓ، تالابوں کے پانی پر جھگڑے،آفتاب ان کا سایہ بن گیا ، چاند تارے ان کا چراغ بن گئے ، انہوں نے بکواس کرنا ، بے مقصد بات چیت کرنا اور مال کا ضائع کرنا چھوڑ دیا، پڑوسیوں اور دوستوں اور جان پہچان کے لوگوں کے پاس بے وجہ نہ بیٹھو، کیونکہ یہ سراسر حرص ہے، جھوٹ اور غیبت اکثر دو بندوں کے ملنے سے ہوتی ہے، اور معصیت بھی دو بندوں کے درمیان پوری ہوتی ہے، تم میں سے کوئی آ دمی اپنے گھر سے بغیر ضرورت کے نہ نکلا کرے، خواہ اس کی مصلحت کے متعلق ہو یا اس کے اہل وعیال سے متعلق ہو ۔ تو اس بات کی کوشش کر کہ پہلےتجھے بات نہ کرنی پڑے، بلکہ تیری گفتگو دوسرے کی بات کے جواب میں ہو، اگر کوئی سوال کر ہے، اس کے جواب میں اگر تیری یا اس کی مصلحت ہوتو جواب دے ورنہ خاموش رہ ، اولیاء اللہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں، جو کام بھی کرتے ہیں انکے دل میں خوف رہتا ہے ۔ اس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں دھو کے میں ان سے پوچھ گچھ نہ ہو، اس سے ڈرتے ہیں کہ ان کا ایمان ان کے لئے عاریت نہ ہو ، ان میں سے گنے چنے بندوں پر اللہ کی طرف سے احسان وانعام ہوتے ہیں، ان کے دل اس کے قرب کے دروازے میں داخل ہو جاتے ہیں ، انہیں اندر داخل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے، اللہ ان کا والی ومددگار ہوتا ہے، اور انہیں سرداری عطافرمادیتا ہے، انہیں اپنے اولیا ء وابدال اورچنے ہوۓ بندوں میں سے بنالیتا ہے، انہیں اپنے بندوں کا رہبراور بادشاہ بنا لیتا ہے، انہیں زمین میں اپنانائب اور خلیفہ بنادیتا ہے، وہ خلافت کے فرائض انجام دیتے ہیں، اللہ تعالی انہیں خاصوں میں سے برگزیدہ کرتا ہے۔ انہیں اپناعلم سکھاتا اور اپنے حکم سے بلواتا ہے، اپنی کرامت سے مکرم کرتا اور اپنی مدد سے کامران کرتا ہے، ان کا نفع و نقصان انہیں سمجھا دیتا ہے، ان کے دلوں میں ایمان کے قدم مضبوط کرتا ہے، ان کے ایمان کے سر پر معرفت کا تاج رکھتا ہے، تقدیر ان کی خادم بن جاتی ہے، انسان اور جن اور فرشتے اس کے سامنے دست بستہ حاضر ہیں، اللہ کے فرمان ان کے دلوں اور باطنوں میں آتے رہتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک مستقل بادشاہ ہے ، اور اپنے ملک کے آستانے کے تخت پر بیٹھا ہے، خلقت کی اصلاح کے لئے اپنا لشکر زمین میں پھیلاتا ہے اور یہ کہ شیطان کے کام بکھرتےرہیں۔
اللہ والوں کا مقصودعبادت اور ترک عادت ہے:
اے لوگو! اولیاء اللہ کے نقش قدم پر چلو تمہارا مقصد فقط کھانا اور پینا اور پہننا اور نکاح کرنا اور دنیا کا جمع کرنا نہ ہو ۔ بہت ذلیل اور کمینہ مقصد ہے۔ اللہ والوں کا مقصودعبادت اور ترک عادت ہے ، اللہ کا دروازہ تلاش کر واوروہیں خیمہ لگا دو، آفتوں سے ڈر کر اس کے دروازے سے نہ بھا گو، و ہ مصیبت و آفت اور مرض اور تکلیف بھیج کر تمہیں آگاہ کرتا رہتا ہے کہ تم اسے طلب کرتے رہو اور اس کا دروازہ نہ چھوڑو، ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جنہیں خبط ہو گیا ہے اور نہیں جانتے کہ اللہ ان سے کیا چاہتا ہے، اس کی عبادت کرو اور عبادت میں اخلاص پیدا کرو، کیا تم نے سنانہیں، ارشاد باری ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ”میں نے جن اور انسان کو عبادت ہی کے لئے پیدا کیا ہے۔
جب تم نے اس بات کو سمجھ لیا اورسچ جان لیا تو اس کی عبادت کو کیوں چھوڑتے ہو، اور اس کی راہ میں حواس کھوۓے ادھر ادھر کیوں بھٹکتے پھرتے ہوں، جو بندہ اللہ کی عبادت نہیں کرتا، وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہیں اپنے پیدا ہونے کے مقصد کا پتہ نہیں، اور جولوگ حقیقت اور تحقیق میں ثابت قدم ہیں، انہیں بخوبی علم ہے کہ وہ عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ۔ اور یقینا وہ مر یں گے اور پھر زندہ کئے جائیں گے، چنانچہ وہ عبادت کر کے اپنی بندگی کا ثبوت دیتے ہیں ۔
کئی باطنی امور ہیں جن کا کشف وصول حق کے بغیر نہیں ہوتا:
اسے بیٹا! وہاں کئی باطنی امور ہیں جن کا کشف وصول حق کے بغیر نہیں ہوتا ، اس طرح کہ اس کے دروازے پر ڈیرہ ڈال دے، اور اس کے منتخب بندے اور نائب جو وہاں کھڑے رہنے والے ہیں ان سے ملاقات کرے، جب تو اللہ کے دروازے پرپہنچ جائے گا اور حسن ادب کے ساتھ سر جھکائے ہمیشہ وہاں کھڑارہے گا تو تیرے دل کی جانب قرب کا دروازہ کھول دیا جاۓ گا ، ا اور اسے
کھینچنے والا کھینچ لے گا۔ مقرب بنانے والامقرب بنا لے گا۔ – آرائش کرنے والا آ راستہ کر دے گا ،
سلانے والا سلا دے گا ، -سرمہ لگانے والا سرمہ لگادے گا – زیور پہنانے والا زیور پہنا دے گا۔
کشادگی دینے والا کشادگی دے گا، امن دینے والا ،امن دے گا۔ بات کرنے والا بات کرے گا، کلام کرنے والا ،کلام کرے گا ،اے نعمتوں سے غافل رہنے والو! تم کہاں ہو، جس امر کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، کس نے تمہارے دلوں کو اس سے دور کر دیا ہے۔ تمہارا خیال ہے کہ یہ امر آسان ہے اور تکلف اور بناوٹ اور نفاق سے حاصل ہوسکتا ہے ۔ یہ امر تو سچائی اور تقدیر کے ہتھوڑوں پر صبر کا محتاج ہے،۔
اگر توغنی ہوکر عافیت وتندرستی سے اللہ کی نافرمانی کرتا ہے، پھر سب گنا ہوں اور ظاہری و باطنی لغزشوں سے توبہ کرے اور جنگلوں بیابانوں میں نکل جائے اور اللہ کی ذات کا طالب ہو تو اس وقت تیری آزمائش کا سمے ہو جاۓ گا ، تجھ پرمصیبتیں آئیں گی ، اس وقت تیر انفس دنیا کی لذتوں اور عافیت کا تمنائی ہوگا ، اس کی کوئی بات نہ ماننا اور نہ اسے کوئی حصہ دینا ، اگرتو : نے صبر سے کام لیا تو دنیاو آخرت کی حکومت مل جائے گی ، اور اگر صبر سے کام نہ لیا تو تجھے کچھ حاصل نہ ہو گا ۔ اے تو بہ کرنے والے! ثابت قدم رہ اور اخلاص پیدا کر ، اپنے نفس کو حالت کے بدلنے اور بلاؤں کے اترنے پرثابت قدم رکھ، اور اس پر یہ واضح کر دے کہ – اللہ تعالی راتوں کو جگاۓ گا ، اور دن بھر بھوکارکھے گا ، اس کے اور اس کے اہل وعیال اور پڑوسیوں اور جان پہچان والوں کے بیچ میں تفرقہ پڑے گا ، ان کے دلوں میں تیری طرف سے نفرت اور عداوت آۓ گی ، کوئی نزدیک آۓ گا اور نینز دیک ہونے دے گا ،
قصہ حضرت ایوب علیہ السلام :
کیا تو نے حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ نہیں سنا، کہ اللہ تعالی نے جب ان کی محبت اور برگزیدگی کو پرکھنے کا ارادہ فرمایا اور یہ کہ ان میں غیر اللہ کا کچھ حصہ نہ ر ہے، انہیں ان کے مال اور اہل وعیال اور خادموں سے کس طرح جدا کر دیا ، اور انہیں آبادی سے باہر ویرانے میں کچرے کے ڈھیر پر بٹھا دیا ۔ اہل خانہ میں سے انکے پاس بیوی کے سوا کوئی نہ رہا۔ وہ لوگوں کی خدمت کر کے آپ کا پیٹ پالتی تھیں۔ پھر ان کا گوشت اور کھال اور قوت بھی نہ رہے، لیکن آ نکھ اور کان اور دل باقی رہے، جس میں اللہ کی قدرت کے عجائبات نظر آتے تھے، آپ:
زبان سے اللہ کا ذکر کرتے ، دل سے اس کی مناجات کرتے ۔آنکھوں سے عجائبات قدرت کا نظارہ کرتے ، روح بدن سےکبھی نکلتی اور کبھی داخل ہوتی ، فرشتے ملنے کو آتے اور آپ پر درود بھیجتے انسان آپ سے جدا ہوۓ تو انس الہی سے جاملے، آپ سے قوت اور طاقت اور اسباب منقطع ہوۓ ، اور خود اس کی محبت اور تقدیر اور قدرت اور ارادہ الہی اور علم الہی کے اسیر ہو کر رہ گئے ،شروح میں آپ کا کام فقط صبر کرنا تھا، جومخفی تھا۔ بعد میں ظاہر ہو گیا۔ شروع میں تلخ تھا، بعد میں شیریں ہو گیا، یہ تکلیف ومصیبت کی زندگی آپ کے لئے لطف کا باعث بن گئی جس طرح کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے نارنمر ودلطف کا باعث بن گئی تھی ۔
اولیاءاللہ بلا پر صبر کے عادی ہیں :
اولیاء اللہ بلا پرصبر کرنے کے عادی ہیں تمہاری طرح پریشان و بے قرار نہیں ہوتے ، بلائیں طرح طرح کی ہوتی ہیں، کوئی بدن میں کوئی دل میں اور کوئی مخلوق کے ساتھ ۔ اور جو تکلیف نہ اٹھاۓ اس کے لئے بھلائی نہیں ، بلائیں اللہ کے مکڑے ہیں۔
عابد وزاہد کا مقصود نیا میں کرامتیں اور آخرت میں جنتیں ہے، عارف کا مقصود دنیا میں ایمان کی بقا اور آخرت میں اللہ کی آگ سے نجات و خلاصی ۔ عارف ہمیشہ اس نعمت وخواہش میں رہتا ہے۔ حتی کہ اس کے دل کو اللہ کی طرف سے کہا جا تا ہے ۔یہ کیا حال بنا رکھا ہے ، سکون کر اور ثابت قدم رہ ، تیرے پاس ایمان قائم ہے، اور دوسرے مسلمان اپنے ایمان کے لئے تجھ سے نور حاصل کرتے ہیں۔ قیامت کے دن تیری سفارش قبول کی جاۓ گی ، تیرا کہا قبول ہوگا، تیرے ذریعے بہت سی مخلوق کو دوزخ سے نجات ملے گی ، تو اپنے نبی کریم ﷺکے سامنے ہوگا جو شفاعت کرنے والوں کے سردار ہیں۔“ اسے چھوڑ کر کسی اور کام میں نہ لگ، یہ تیرے پاس ایمان کی بقا اور معرفت اور عاقبت میں سلامتی کا پروانہ ہے، تمہاری سنگت نبیوں اور رسولوں اور صدیقوں کے ساتھ ہے جومخلوق میں برگزیدہ ہیں ، جتنی بارا سے امن کا یقین دلایا جائے اس کا خوف اور حسن ادب اور شکر کی کثرت بڑھتی جاتی ہے، اولیاء اللہ نے ان فرمانات الہی کے معنی سمجھ لئے ہیں: ‌يَفْعَلُ ‌مَا يُرِيدُ – جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘ – لَا يُسْأَلُ عَمَّا ‌يَفْعَلُ ‌وَهُمْ يُسْأَلُونَ وہ جو چاہے کرے کوئی پوچھنے والانہیں اور انہیں پوچھا جائے گا۔‘‘
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
“تمہارا چاہنا کیا ہے مگر جو کچھ سارے جہانوں کا رب ۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ جو کچھ چاہے کر لینے والا ہے مخلوق جو چاہےنہیں ہوتا اور اللہ کی ذات كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍہ ہ ہرایک دن نئی شان میں ہے ۔ آگے اور پیچھے کرتا ہے، بلند اور پست کرتا ہے، عزت اور ذلت دیتا ہے، معزول کرتا اور حاکم بنا تا ہے۔ مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے، فقیر اورغنی کرتا ہے۔ کسی کو دینا اور روکتا ہے۔
اولیاء اللہ کے دلوں کو اللہ کے ساتھ قرارنہیں ہے ، ڈرتے رہتے ہیں، وہ ان میں تغیر وتبدل کر تا رہتا ہے ۔ انہیں نزدیک اور دور کرتا ہے، انہیں اٹھاتا ہے اوربٹھا تا ہے۔ کبھی عزت اور کبھی ذلت دیتا ہے، کبھی عطا کرتا اورکبھی روکتا ہے۔
اولیاءاللہ کے حال بدلتے رہتے ہیں اور وہ سچی بندگی اور حسن ادب کے ساتھ آستانہ الہی پر سر جھکائے رہتے ہیں ۔ اللهم ارزقـنـا حـسـن الأدب معك ومـع خـواصـك مـن خـلقك لا تبتلنا بالتعلق بالأسباب والإعتماد عليها ثبت علينا توحيدنا لك وتوكلنا عليك يقينا بك ورد الحوائج إليك لا تبتلنا بأقوالنا وأعمالنا ولا تؤاخذنا بها عاملنا بكرمك و تجاوزك و مساحتك . امين الہی ہمیں اپنے ساتھ اور اپنی مخلوق میں سے خاص بندوں کے ساتھ حسن ادب عنایت فرما، اور ہمیں اسباب کے ساتھ متعلق ہوجانے میں اور ان پر اعتماد کر لینے میں مبتلا نہ کر دینا ۔ اپنی توحید ہمارے لئے ثابت رکھ، اور اپنے پر توکل اور اپنے ساتھ غنا اور اپنی طرف حاجتیں قائم کر ہمیں ہمارے اقوال اور اعمال پر نہ چھوڑ ، اور ان کے باعث ہمارا مواخذہ نہ کر ۔ ہمارے ساتھ اپنے کرم اور درگزر اور چشم پوشی کا معاملہ فرما۔
اللہ کے راستے میں مخلوق ہے نہ سبب ، نہ اپنی شناسائی ہے نہ کوئی جہت ، نہ کوئی دروازہ اور خلقت کا وجود، چنانچہ بدن دنیا کے ساتھ ہوتا ہے اور دل آخرت کے ساتھ ، اور باطن مولی کے ساتھ ، باطن دل پر حاکم ہے اور دل نفس مطمنہ پر،نفس مطمئنہ بدن پر حاکم ہے اور اعضاء خلقت پر، بندے کے لئے جب یہ حال صحیح اور کامل ہو جائے تو انسان اور جن اور فرشتے اس کے قدموں تلے خدمت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ خودقرب کی مسند پر بیٹھا ہوتا ہے۔
کسی ایسے شیخ کی صحبت میں رہو جو اللہ کے حکم اور علم کا جاننے والا ہو: ۔
اے منافق یہ مقام تیرے نفاق اور بناوٹ کے ساتھ ہاتھ نہ لگے گا۔
تو اپنی عزت کی پرورش کر رہا ہے ۔تو مخلوق کے دلوں میں اپنے مقبولیت کی پرورش کر رہا ہے ۔
تواپنی دست بوسی کرانے کی پرورش کر رہا ہے۔ تو اپنے نفس پر دنیا وآخرت میں، اور جن کی پرورش کر کے تو انہیں اپنی اتباع کرنے کا حکم دے رہا ہے، سب کے لئے شامت ہے تو دکھاوا کرنے والا ، دجال اور لوگوں کے مال پر نظر رکھنے والا ہے ۔ اس لئے تیری دعا قبول نہیں اور نہ صدیقوں کے دلوں میں تیری جگہ ہے، اللہ نے تجھے علم پر بہکا دیا ہے، گرد جب بیٹھ جاۓ گی تو جلد ہی تجھے خبر ہو جاۓ گی کہ تیرے نیچے گھوڑا تھا یا گدھا، جب غبار دور ہو جائے گا تو تو دیکھے گا کہ اولیاءاللہ گھوڑوں اور بختی اونٹوں پر سوار ہیں اور تو یک شکستہ حال گدھے پر سوار ہے، ۔ تجھے شیطانوں اور ابلیسوں کے شریر وسرکش پکڑ لیں گے، کوشش کرو کہ تمہارےد لوں سے اس کے قرب کا دروازہ بند نہ ہو، تم کسی قابل قدر چیز پرنہیں ہو کسی ایسے شیخ کی صحبت میں رہو، جو اللہ کے حکم اور علم کا جاننے والا ہو، اور تمہیں اس کا راستہ بتائے ، جو کسی فلاح والے کو نہ دیکھے گا فلاح نہیں پاسکتا، جو باعمل علماء کی صحبت میں نہ رہے، وہ مردود ہے، اس کے لئے نہ دلیل ہے نہ اصل ہے، ایسے کی صحبت میں رہو جسے اللہ کی صحبت نصیب ہو، ہر ایک کے لئے چاہئے کہ جب رات کا اندھیرا چھپالے اور ساری مخلوق سو جائے ، اور اس کی آوازیں تھم جائیں تو اٹھے اور وضواکر کے دورکعت پڑھے اور اس طرح دعا مانگے يا رب دلني على عبد من عبادك الصالحين المقربين حتى يدلني عليك و يعرفني اے رب! اپنے صالحین مقربین بندوں میں سے کسی بندے کی طرف میری رہنمائی کر جو تیری طرف میری رہنمائی کرے، اور تیری معرفت کا راستہ بتائے۔آمین!۔“
سبب کا ہونا ضروری ہے، ورنہ اللہ قادر ہے کہ نبیوں کے بغیر ہی ہدایت کر دیتا ، تم عقل کرو ،تم کسی اچھی حالت پرنہیں ہو غفلت چھوڑ دو، رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: مَنْ ‌اسْتَغْنَى بِرَأْيِهِ ‌ضَلَّ – اپنی رائے پر اکتفا کرنے والا گمراہ ہوا۔ ایسے شخص کی تلاش کر کہ جو تیرے دین کے چہرے کا آئینہ ہو، تو اس میں ویسے ہی دیکھے جیسے کہ آئینہ دیکھتا ہے اور اپنے چہرے کا ظاہر اور عمامہ اور بالوں کو سنوارتا ہے، عقل کر ، یہ کیسی حرص ہے، تیرا کہنا ہے کہ مجھے تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں ، جبکہ رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا: الْمُؤْمِنُ ‌مِرْآةُ ‌الْمُؤْمِنِ ایمان والے کے لئے ایمان والا آئینہ ہے۔
مسلمان کا ایمان جب درست اور صحیح ہو جا تا ہے تو وہ ساری مخلوق کے لئے آئینہ بن جا تا ہے ۔ وہ ان کے دیکھنے اور قرب کے وقت ان کے دینوں کے چہرے اپنے کلام سے آئینہ میں دیکھتا ہے ۔ یہ کیسی حرص ہے! – ہر وقت اللہ سے یہی کہتے رہتے ہو کہ وہ تمہارے کھانے پینے ، اور لباس اور نکاح اور رزق کو بڑھادے، یہ ایسی چیز ہے کہ اس میں ذرہ بھر کمی یا بیشی نہیں ہوسکتی ، اگر چہ تیرے ساتھ ایک مستجاب الدعوات دعا مانگے ،رزق کا ایک ذرہ نہ کم ہوگا۔ اور نہ زیادہ ہوگا، یہ ایسی چیز ہے جس سے فراغت ہو چکی ہے، تمہیں جو کچھ کرنے کا حکم ہوا ہے وہ کرتے رہو، جس سے رکنے کے لئے کہا گیا، اس سے رکے رہو، ۔ جس نے از خود آ نا ہے ، اس کی طلب نہ کرو، کیونکہ اس کے آنے کا اللہ ضامن ہے، رزق اپنے مقررہ وقتوں پر تاریخ کے حساب سے آتے ہیں ، شیر یں بھی تلخ بھی ، پسند اور ناپسند بھی، اولیاء اللہ ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں نہ ان کے لئے دعا باقی رہتی ہے نہ سوال کی حاجت ، منافع کے حصول اور ضرر کے رفع کے لئے سوال نہیں کرتے ، جو دعائیں حکم کے طور پر ان کے دل پر دارد ہوتی ہیں، وہی کبھی اپنے لئے اورکبھی مخلوق کے لئے کرتے ہیں، چنانچہ ضرورت کے تحت وہ اس سے غائب رہ کر دعائیہ کلمات زبان سے نکالتے ہیں: اللهم ارزقنا حسن الأدب معك في جميع الأحوال
الہی! ہمیں سب احوال میں اپنے ساتھ حسن ادب عطا فرما، آمین!‘‘
نماز ، روزہ اور ذکر اور سب طرح کی عبادتیں عادت ہو جاتی ہیں ، اور اس کے گوشت اور خون میں گھل مل جاتی ہیں ۔ پھر سب احوال میں اللہ کی طرف سے حفاظت ہوتی ہے، شرع کی پابندی ایک پل کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑتی ، حالانکہ یہ اس سے ہٹ جاتا ہے، شرعی حکم اس کے لئے کشتی کی مانند ہو جا تا ہے کہ جس میں بیٹھ کر قدرت الہی کے سمندر میں سیر کرتا رہتا ہے، چلتے چلتے سیر کرتے ہوئے آخرت کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے، جو کہ لطف اور دوست کے قرب کے سمندر کا کنارا ہے،۔ کبھی وہ مخلوق کے ساتھ رہتا ہے اور کبھی خالق کے ساتھ مخلوق کے ساتھ مشقت کا معاملہ ہے اور خالق کے ساتھ چین ۔ و آرام اور راحت ہے ۔ اے منافق! تجھ پر افسوس، تجھے اس میں سے کچھ خبر نہیں ہے،تجھ پر افسوس تیرے کاموں میں اس سے کوئی شے نہیں۔
اے خانقاہوں میں بیٹھنے والو! مخلوق سے تمہارے دل بھرے ہوئے ہیں ۔ میری آواز کو لازم سنو اور اس سے بچو، تم سنتے نہیں ، کیا بہرے ہو گئے ہوئے اٹھو، کھڑے ہو جاؤ ، میرے پاس آؤ، جو ہوا سو ہوا، کوئی ڈرنہیں۔ تمہارے رویئے تمہاری بے ادبی اور بدتہذیبی کے باعث تم سے معاملہ یا خطاب نہیں کروں گا، بلکہ اللہ کی نرمی وشفقت کے حکم کے مطابق تم سے نرمی اختیار کروں گا ۔ میرے سخت کلام سے مت بھاگو، یہ لہجہ میرا نہیں ہے، بلکہ جس طرح سے اللہ مجھے بلواتا ہے، میں بولتا ہوں ۔
اللہ والوں کو ڈر اور خوف
اے لوگو! اولیاءاللہ خوف اور ڈر کے قدموں پر کھڑے اللہ کی عبادت میں رات اور دن کو ایک کر دیتے ہیں، وہ اپنے انجام کار کی برائی سے ڈرتے رہتے ہیں، وہ اپنے بارے اور اپنے خاتمہ سے متعلق علم الہی سے نا آشنا ہیں، غم اور رنج اور زاری کر کے عبادت میں رات اور دن کو ایک کر ڈالتے ہیں وہ نماز روزہ ، حج اور تمام عبادتوں میں ہمیشگی کرتے ہیں، اپنے دلوں اور زبانوں سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں، آخرت میں پہنچ کر جنت میں داخل ہوتے ہیں ۔ اللہ کے دیدار کا شرف پائیں گے، اور اپنی عزت افزائی دیکھ کر اللہ کی حمد بجالائیں گے۔
وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا ‌الْحَزَنَ اور کہتے ہیں کہ سب طرح کی حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمارے غم کو دور کیا۔ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو ان کے استاذ اور شیخ ہیں، سردار اور امیر اور بادشاہ ہیں ، اس طرح عرض کرتے ہیں:
الحمد لله الذي أذهب عنا الحزن في الدنيا قبل الأخرة و سب طرح کی حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمارے غم کو آخرت سے پہلے دنیا میں دور کیا۔‘‘
جب ان کے دل اللہ کے دروازے کی طرف پہنچتے ہیں تو اسے کھلا پاتے ہیں ، اور اپنے استقبال کے لئے لشکر کا ہجوم پاتے ہیں جو صف در صف ان کی آمد کا منتظر ہے، انہیں سلام پیش کرتے ہیں اور ان کے سامنےگردنیں جھکاتے ہیں ، اور قربت کے مکان میں باادب داخل ہو جاتے ہیں اور وہاں وہ کچھ سیکھتے ہیں مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا ‌أُذُنٌ ‌سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ کسی آنکھ نے کبھی دیکھا اور نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل پر اس کا خیال ہی گزرا۔‘‘
اور اس طرح شکر گزار ہوتے ہیں:
الحمد لله الذي اذهب عنا الحزن حزن العبد حزن الحجاب ۔سب طرح کی حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہم سے دوری اورحجاب کاغم دور کیا۔‘‘
الحمد الله كيف ما اشغلنا باالدنيا والاخرة والخلق۔سب حمد اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں دنیا اور آخرت اور خلقت میں مشغول رکھا۔‘‘
الحمد لله الذي اصطفانا لنفسه واختارنا لقربه وأذهب عنا حزن الانقطاع عنه حزن الاشتغال بغیرہ
سب حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے نفس کے لئے برگزیدہ کیا اور اپنے قرب کے لئے منتخب فرمالیا اور ہم سے الگ ہونے کاغم دور کیا اور غیر کے ساتھ مشغول ہونے سے نجات بخشی ‘‘ الحمد لله الذي رزقنا الانقطاع إليه إن ربنا لغفور شكور’’سب حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے سب سے الگ کر کے ہمیں اپنا بنا لیا ہے۔ بے شک ہمارا رب بخشے والا شکر قبول کرنے والا ہے۔“
معرفت کے گھر اورعلم اور فنا کے میدان میں:
اے بیٹا! جب تو ایمان کو مضبوط کر لے گا تو پہلے معرفت کے گھر میں پہنچ گا، پھر علم کے میدان میں اور اس کے بعد فنا کے میدان میں جہاں پہنچ کر تو خودی اور تمام مخلوق سے فنا ہو کر اللہ کے ساتھ وجود قائم کر لیتا ہے، جہاں وہ ہی وہ ہو گا ،نہ تو اور نہ کوئی اورمخلوق ! – اس وقت تیراغم دور ہو جائے گا اوراللہ کی حفاظت تیری خدمت کرتی ہے اور غیرت احاطہ کرتی ہے ۔ توفیق تیرے سامنے سر جھکالے گی ، اور فرشتے تیرے ارد گر دچلیں گے، پاک روحیں آ کر تجھے سلام کریں گی ، اللہ تعالی تیرے ساتھ مخلوق پر فخر کرے گا ، اور اس کی رحمت بھری نظریں تیری نگہبانی کریں گی ۔ جو تجھے قرب اور اس کے گھر اور مناجات کی طرف کھینچیں گی ۔
وہ شخص خسارے میں رہا جو بغیر عذر کے مجھ سے دور بیٹھارہا، تجھ پرافسوس! میں جس مقام پر ہوں تو اس میں مزاحمت کرتا ہے، تجھے قدرت نہیں ہے، مزاحمت سے تیرے ہاتھ کچھ نہ لگے گا ۔ یہ مقام آسمانوں سے زمین کی طرف نازل ہوتا ہے، ارشاد باری ہے:
وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا ‌خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور ہم ہر چیز کومقر رو اندازے سے اتارتے ہیں۔
مینہ آسمان سے زمین پر اترتا ہے، پھر اس سے سبزہ ظاہر ہوتا ہے ۔ یہ امر آسمانوں سے دلوں کی زمین کی طرف اترتا ہے، اور ہرقسم کی بھلائی سے اگنے اور لہلہانے لگتے ہیں، اس سے اللہ کے اسرار اورحکمتیں اور توحید اور توکل اور مناجات اور قرب الہی کے شجر اگتے ہیں ، اس دل میں طرح طرح کی جھاڑیاں ، اور پھل پھول نکلتے ہیں ، اس میں بڑے بڑے جنگل اورچٹیل میدان اور دریا اورنہریں اور پہاڑ ظاہر ہو جاتے ہیں، اور وہ انسانوں اور جنوں اور فرشتوں اور روحوں کا مسکن بن جاتے ہیں ۔ یہ ایسی چیز ہے جوعقلوں سے بالا تر ہے، صرف قدرت اور ارادے اور علم سے اللہ تعالی اسے اختیار کرنا ہے ، اور یہ مقام اس کی مخلوق میں سے امت کے خاص بندوں کے لئے ہے۔ اس بات کی کوشش کرو کہ میرے کلام کے جال میں پھنس جاؤ، میری مجلس اور میرا کلام کرنا ایک جال ہے، میں تم میں سے کسی کے پھنسنے کامنتظر رہتاہوں،یہ دسترخوان اللہ کاہے، میرا نہیں۔ میری آواز سن کر اس پرعمل کرو، میں تمہیں اللہ طرف بلاتا ہوں۔ اللہ تم پر رحم کرے، میرے کہے پرعمل کرو، میری فرماں برداری کرو تا کہ میں تمہیں اللہ کے دروازے کی طرف اٹھا کر لے چلوں۔
سچائی اللہ کا بلاوا ہے۔جھوٹ ، شیطان کا بلاوا ہے،حق، الگ چیز ہے۔باطل،الگ چیز ہے۔
یہ دونوں ہر مسلمان پر ظاہر ہیں جو اپنے ایمان کے نور سے دیکھتا ہے ۔
عراق والوں سے خطاب:
انے عراق والو تمہیں اپنے علم اور فہم کی تیزی کا دعوی ہے، حالانکہ یہ بات تم سے پوشیدہ ہے کہ سچا اور جھوٹا کون ہے اور حق پر اور باطل پر کون ہے۔ تمہارے بتلانے کا نقصان تم ہی پر پلٹے گا ،اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں، اللہ کو چاہنے والا جنت کی خواہش اور دوزخ کا ڈرنہیں رکھتا ، بلکہ وہ تو صرف اس ذات کو چاہتا ہے ، ہمیشہ اس کا قرب چاہتا ہے، اور اس کی دوری سے ڈرتا ہے تو شیطان اور حرص اور نفس اور دنیا اور شہوتوں کا قیدی ہے ،اور تو اس سے بے خبر ہے ۔ تیرادل ” اسیر ہے اور تجھے کچھ پتہ نہیں ۔۔ اللهم خلصه من إسره و خلصنا امين ۔ الہی! اسے اور ہمیں قید سے رہائی دے۔آمین!‘‘
رخصت سے گر کر اور عزیمت( فرائض) کو لازم پکڑ لے ۔ جس بندے نے رخصت کو لازم پکڑا اور فرائض کوترک کیا، اس کے دین کے ضائع ہونے کا خوف ہے ۔ عزیمت، مردوں کے لئے ہے، کیونکہ وہ خطروں ،مشکلوں اور امر کے برداشت کرنے والے ہیں ۔ رخصت عورتوں اور بچوں کے لئے ہے کیونکہ اس میں آسانی ہے۔
پہلی صف والے اور پچھلی صف والے:
اے بیٹا! تو پہلی صف میں کھڑا ہو کیونکہ وہ ہمت والے مردوں کی صف ہے، اور پچھلی صف سے الگ ہو کیونکہ وہ نامردوں کی صف ہے ۔ نفس کو خدمت پر لگا اور اسے عزیمت کا عادی بنا، کیونکہ تو اس پر جتنا بوجھ ڈالے گا، وہ اسے اٹھائے گا ۔ اس پرلکڑی نہ اٹھا، کیونکہ وہ سویا ہوا ہے ورنہ بو جھ کو اپنے سے گرادے گا تو اسے اپنے دانتوں اور آنکھوں کی سفیدی نہ دکھا، نہ مذاق کر ، نہ پیار کی نظر سے دیکھ ۔ وہ نہایت ہی بر اغلام ہے، پٹائی کے بغیر کام نہ کرے گا، اسے پیٹ بھر کر کھانا نہ دے جب تک کہ جان لے کہ سیر ہو کر سرکشی نہ کرے گا ، اور وہ پیٹ بھرے کے مقابلہ پر کام بھی کرے گا ، حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ عبادت بھی بہت کر تے تھے اور کھاتے بھی بہت تھے ۔ اور پیٹ بھرنے پر مثال دیتے ۔ کہ حبشی کا پیٹ بھر اور اس سے خوب مشقت کراؤ، کیونکہ حبشی تو گدھا ہے ۔ اس کے بعد عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے ۔
اور کثرت سے عبادت کرتے ، ایک بزرگ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا کھانا دیکھا تو مجھے ان پر غصہ آ گیا، لیکن جب انہوں نے نماز پڑھی اور بہت روۓ تو ان کی حالت دیکھ کر مجھے ان پر رحم آ گیا، تو حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی کثرت عبادت میں پیروی کر ان کے زیادہ کھانے میں پیروی نہ کر ، کیونکہ تو سفیان نہیں ہے ۔ اپنے نفس کو جیسے وہ سیر کرتے تھے، اتنا سیر نہ کر، کیونکہ جیسے وہ نفس پر قدرت رکھتے تھے تو ان کی مانند قدرت نہیں رکھتا، حرام چھوڑ دے اور تھوڑ امگر حلال کھانے کی کوشش کر ، ایمان اور یقین کی قوت کے ساتھ ہرشے میں بے رغبتی کر تو اللہ کے خاص بندوں میں سے ہو جاۓ گا ، اور یہ کہ مخلوق اور اسباب کا بندہ نہ بنے ، دنیا اور لذتوں اور شہوتوں کا بندہ نہ بنے ، خلقت کے نزدیک مرتبے کی حب کا بندو نہ بنے ، خلق کی توجہ اور بے تو جہی اور اس کی تعریف اور برائی کا اسیر نہ ر ہے، یہ اچھی باتیں نہیں ہیں، تیرادل اللہ کے آستانے کے دروازے کی طرف ایک قدم بھی نہیں چلتا کیونکہ تو نفس کے ساتھ اپنی خواہش اور عادت کے گھر میں رہتا ہے، میں ہمیشہ تجھے مخلوق اور اور اسباب کی قید میں دیکھتا ہوں ۔ ان کی قیدوں سے نجات کی حکمت مجھ سے سیکھ لے،اوررہاہوجا ۔ اے جاہل ! تیرا دل اللہ تعالی کو کیسے دیکھ سکتا ہے کیونکہ وہ مخلوق سے بھرا ہوا ہے، تو گھر بیٹھے جامع مسجد کا دروازہ کیسے دیکھ سکتا ہے، جب تو اپنے گھر اور بیوی بچوں سے لکھے گا تو جامع مسجد کے دروازے کو دیکھےگا، جب تو سب کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑے گا تب ہی اسے دیکھ سکے گا، اس طرح سے تو جب تک مخلوق کے ساتھ رہے گا تو خالق کو نہیں دیکھ سکے گا ،د نیا کے ساتھ رہے گا تو آخرت کو نہیں دیکھ سکے گا۔ آخرت کے ساتھ رہے گا تو دنیا و آخرت کے رب کو نہیں دیکھ سکے گا۔
ان سب سے جب الگ ہوگا تو تیرا باطن رب سے ملے گا، ظاہری طور پرنہیں بلکہ معنوی طور پر،عمل دلوں کے لئے ہے اور معنی باطنوں کے لئے ہے،اولیاء اللہ نے اپنے اعمال کو نظر انداز کر کے اپنی ساری نیکیاں بھلا دیں، اور ان کے بدلے میں کوئی صلہ نہ چاہا ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے فضل سے انہیں ایسی جگہ اتارا جہاں انہیں نہ تو کوئی غم در پیش ہوتا ہے نہ کسی طرح کا رنج اور تھکان ہے اور نہ جدائی ہے اور نہ کمزوری اور نہ وہاں محنت ہے اور نہ کسب ۔ بعض مفسرین نے ارشاد باری لَا يَمَسُّنَا فِيهَا ‌نَصَبٌ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جنت میں روٹی کا اور نہ اس کے حصول کام ہوگا نہ اہل وعیال کے لئے فکر معاش ۔ جنت تو بالکل فضل ہے، بالکل راحت ہے، بے حساب بخشش ہے
دل کی حضوری کا دار و مدار
سارا دار و مدار اللہ کے لئے تیرے دل کی حضوری پر ہے، جو دنیا و آخرت اور مخلوق کی غرض اور علت سے بالا تر ہو، اللہ کے لئے دل کی حضوری موت کے بغیر اور اس کی سچی یادداشت کے بغیر صحیح و درست نہیں ہوسکتی، اگر تو دیکھے تو موت کودیکھے ،اگر تو سنے تو موت ہی کو سنے حقیقت میں موت کا ذکر کامل بیداری پر ہر خواہش سے نفرت پیدا کر دیتا ہے، اور ہر خوشی سے منہ موڑ دیتا ہے ۔ موت کو یاد کیا کرو، اس سے کہیں بچاؤ نہیں ، دل جب درست ہو جا تا ہے تو ماسوئی اللہ کو بھلا دیتا ، جوازل سے قائم اور دائم ہے، اس کے سوا سب چیز یں حادث اور نو پیدا ہیں ، دل جب درست ہو جا تا ہے تو اس سےنکلنے والا کلام حق وصواب ہوتا ہے جسے کوئی بھی ردنہیں کر سکتا ۔
دل، دل کو۔ باطن، باطن کو ۔خلوت خلوت کو ، معنی معنی کو ۔مغز مغز کو۔ نیکی ، نیکی کو
خطاب کرتا ہے۔ اس وقت اس کا کلام دلوں میں یوں بیٹھ جا تا ہے جیسے عمدہ نرم اور غیر کھاری زمین میں بیج اگتا ہے، دل جب صحیح ہو جاتا ہے تو وہ ایسا جھاڑ بن جا تا ہے جس میں شاخیں، پتے اور پھل سب کچھ ہوتا ہے، اس میں ساری خلقت انسانوں ، جنوں اورفرشتوں کے لئے فائدے ہوتے ہیں ۔ جب دل بیمار ہو تو وہ حیوانوں کے دل کی طرح ہے
– معنی کےبغیر صورت ،مظروف کے بغیر برتن، پھل کے بغیر درخت، پرند کے بغیر پنجرہ،مکین کے بغیر مکان، درہموں اور اشرفیوں اور موتیوں سے لبریز خزانہ، جسے خرچ کرنے والا کوئی نہیں ۔ روح کے بغیر بدن ،مسخ ہوکر پتھر ہونے والا جسم، چنانچہ ایسے دل کی صورت تو ہے معنی نہیں ، وہ دل کہ جو اللہ کے راستے میں منہ موڑ نے والا اور اس کے ساتھ کفر کرنے والا موڑنے ہے، وہ مسخ شدہ ہے، اس لئے اللہ نے اسے پتھر سے تشبیہ دی ، ارشاد باری ہےثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے تو وہ پتھر کی طرح ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں ۔ بنی اسرائیل نے جب تو ریت پر عمل نہ کیا تو اللہ نے ان کے دل پھر سے بدل دیئے اور اپنے دروازے سے انہیں دھکیل دیا۔ اسی طرح سے محمدﷺکے امتیو ! جب تم نے بھی قرآن پرعمل نہ کیا اور اس کے احکام پر استقامت سے نہ چلے تو تمہارے دل بھی مسخ کر دیئے جائیں گے اور اس کے دروازے سے دھکیل دیئے جائیں گے، تم ان لوگوں میں سے نہ ہونا ،جن کوعلم ہونے کے باوجود اللہ نے بہکا دیا:-
اگر مخلوق کے لئے پڑھا تو عمل مخلوق کے لئے ہے،اگر اللہ کے لئے پڑھا تو عمل اللہ کے لئے ہے،اگر دنیا کے لئے سیکھاتو عمل دنیا کے لئے ہے،اگر آخرت کے لئے سیکھا توعمل آخرت کے لئے ہے۔
کیونکہ شاخوں کی بنیا د جڑوں پر ہوا کرتی ہے، جیسا کرے گا ویسا بھرے گا، جو کچھ برتن میں ہے وہی ٹپکے گا ۔ ایسانہ ہوگا کہ برتن میں رال بھر کر عرق گلاب ٹپکایا جاۓ ، تیری کوئی عزت نہیں ، تو دنیا میں دنیا اور دنیاوالوں کے لئے عمل کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ کل تجھے آخرت ملے، تیری کوئی عزت نہیں ، توعمل مخلوق کے لئے کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تجھے کل خالق مل جاۓ اور اس کا قرب اور توجہ نصیب ہو، تیری کوئی عزت نہیں، ظاہر اور غائب تو یہی ہے ۔اللہ تعالی اگر تجھے عمل کے بغیر اپنے فضل و کرم سے عطافرمادے تو اس کے اختیار میں ہے ۔
فرماں برداری جنت کاعمل ہے اور نافرمانی دوزخ کاعمل ہے اس کے بعد کا اختیاراللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے توعمل کے بغیر کسی کو ثواب عطا فر مادے وہ چاہے توعمل کے بغیر کسی کو عذاب دے،
‌فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ لَا يُسْأَلُ عَمَّا ‌يَفْعَلُ ‌وَهُمْ يُسْأَلُونَ’’ وہ جو چاہے کرنے والا ہے، جو کچھ وہ کرے کوئی پوچھنے والا نہیں ، اورلوگ پوچھے جائیں گے ۔‘‘
( فرض محال ) اگر وہ نبیوں اور صالحین میں سے کسی کو دوزخ میں ڈال دے تو وہ عدل کرنے والا ہے ، اور یہی روشن دلیل ہے ۔ ہم پر واجب ہے کہ اس طرح کہیں:’’معاملہ وحکم سچا ہے ۔ اور ہم چون و چرانہ کریں ، ایسا ہوسکتا ہے اور ممکن ہے، اور اگر ہوگا تو حق بجانب ہو گا اور سراپا انصاب ہوگا، میری بات سنو اور جو کچھ میں کہ رہا ہوں اسے سمجھو، کیونکہ میں پہلوں کا غلام ہوں ، ان کے سامنے کھڑا ہوں ، ان کے اسباب پھیلا کر ان پر منادی کرتا ہوں ، اس میں خیانت نہ کروں گا ، اور نہ ان سے کلام پر کبھی بھی اپنی ملکیت کا دعوی کروں گا ، میں ان کے کلام سے آغاز کرتا ہوں اور پھر اسے اپنی طرف سے دو ہرادیتا ہوں اور ان سے بھلائی چاہتا ہوں اور برکت اللہ سے چاہتا ہوں ، اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺکی فرماں برداری اور میرے ماں باپ کی نیکی سے (اللہ ان دونوں پر رحمت فرماۓ ) مجھے بات کرنے کا اہل بنا دیا۔ میرے والد ماجدنے دنیا پر قدرت ہونے کے باوجود اس سے بے رغبتی کی ، اور میری والدہ ماجدہ نے بھی رضامندی سے ان کی موافقت کی ، کیونکہ وہ دونوں صلاحیت والے، دیانت دار اور خلقت پر مہربانی کرنے والے تھے ۔ میں ان دونوں سے اور مخلوق سے الگ ہو کر رسول اکرم ﷺاور اللہ تعالی کی بارگاہ میں آ گیا۔ اب انہی دونوں سے فوز وفلاح پا تا ہوں اور میرے لئے ہر طرح کی خیر اور نعمت انہی دونوں کے ساتھ اور انہی دونوں کے پاس ہے، مخلوق میں سے میں سرکار دو عالم ﷺکے سوا اور ارباب میں سے حق تعالی کے سوا کسی اور کونہیں چاہتا، اے عالم! تیرا وعظ فقط زبان سے ہے دل سے نہیں ، صورت سے ہے معنی سے نہیں ، جو دل سے نہیں زبان سے نکلے صحیح دل اس کلام سے بھا گتا اور نفرت کرتا ہے، ایسا کلام سننے کے وقت ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی پرندہ پنجرے میں یا کوئی منافق مسجد میں اتفاق سے صالحین میں سے کوئی اگر منافقوں کے عالم کی مسجد میں جا نکلے تو اس کی ہرممکن یہی آرزو ہوتی ہے کہ جیسے بن پاۓ وہاں سے نکل جاۓ ۔
منافقوں کی پہچان اور ان کا کردار
ریا کاروں اور منافقوں اور دجالوں اور بدعتیوں کے چہرے دور سے پہچانے جاتے ہیں ، اللہ اور اس کے رسولوں کے ان دشمنوں کے چہروں کی علامتیں، اللہ والوں کے علم میں ہیں ، ان کے چہرے اور ان کی باتوں سے انکی علامتیں جھلکتی ہیں ، وہ صدیقوں سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے شیر سے خوف کھا کر بھاگتے ہیں ، وہ ڈرتے ہیں کہ ان کے دلوں کی آگ سے نہ جل جائیں، فرشتے انہیں صدیقوں اور صالحوں سے دھکے دے کر دور ہٹا دیتے ہیں، ایسا مکار عالم عوام کے نزدیک بڑا اور بظاہر بزرگ ہوتا ہے لیکن صدیقوں کے نزدیک ذلیل وحقیر، عام لوگوں کے لئے وہ آدمی کہلا تا ہے جبکہ صدیقوں کے لئے بلی ، ان کی نظروں میں اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہوتی ، صدیق اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ، نہ آنکھوں کے نور سے اور نہ چاند سورج کے نور ہے ۔ یہ اللہ کا عام نور ہے، جبکہ صدیق کے لئے ایک خاص نور ہے، — کتاب وسنت پر صدیق کا جو یقین ہے اور حکم مضبوطی کے بعد اللہ سے نور عطا کرتا ہے۔ صدیق جب کتاب و سنت پر علم کرتا ہے تو اسے علم کا نور عطا فرمایا جاتا ۔
اللهم ارزقنا حكمت و علمك وقربك . امين – الہی! ہمیں اپنا حکم اورعلم اور قرب عطافرما۔آمین!‘‘
اے منافقو اللہ تعالی تمہیں برکت نہ دے۔ تمہاری پوری کوشش ہے کہ اپنے اور مخلوق کے درمیان تعلقات بنانا اور اللہ اور اپنے درمیان معاملات کو بگاڑنا ہے اللهم سلطنى على رؤسهم حتى أطهر الأرض منهم – الہی! مجھے ان کے سروں پر مسلط کر دے تا کہ ان سے زمین کو پاک کر دوں۔‘‘
منافقوں کے نفاق کی یہ عالم ہے کہ وہ میری طرف اورمیرے پاس نہیں آتے اگر ملے گا تو سلام نہیں کریگا اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا ایسا کرنا بھی تکلف سے ہوگا ، یہ دین پستی پر ہے جس کی دیوار یں گر رہی ہیں ۔
اللهم ارزقني أعوانا على بنائه ما يبنى على ايديكم الہی! مجھے اس کے بنانے کے لئے مددگار عطافرما۔ آمین ۔‘‘ اے منافقو! یہ عمارت تمہارے ہاتھوں سے نہیں بن سکتی تمہاری کیا وقعت ہے جو تمہارے ہاتھوں سے بن سکے ۔ تم بنا بھی کیسے پاؤ گے، نہ تم بنانے کا فن جانتے ہو اور نہ تمہارے پاس اس کے لئے آلات ہیں ۔ اے جاہلو! پہلے اپنے دین کی دیوار یں اٹھاؤ ، پھر دوسروں کی بنانے کا سوچو، جب تم مجھ سے عداوت رکھتے ہوتو میں اللہ اور رسول اللہﷺکے لئے تم سے عداوت رکھتا ہوں ، کیونکہ میں ان دونوں کی مدد کے ساتھ قائم ہوں، سرکشی نہ کرو ، کیونکہ وَاللَّهُ ‌غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ – بے شک اللہ اپنے امر( کے نافذ کرنے پر غالب ہے ۔‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے قتل کی کوشش کی مگر قدرت نہ رکھتے تھے، قدرت ہوتی بھی کیسے ، کیونکہ آپ اللہ کے نزدیک بادشاہ اور اس کے نبیوں کے نبی اور صدیقوں میں سے ایک صدیق تھے اللہ کے سابق علم میں تھا کہ ان کے ہاتھوں پر مخلوق کی مصلحتیں ہونگی اے زمانے کے منافقو تمہارابھی یہی حال ہے، مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہو ۔ مگر تمہاری کوئی وقعت نہیں تمہارے ہاتھ ایسا کرنے سے قصر ہیں اگر احکام شرعیہ کی حکمتیں آڑے نہ ہوتیں تو میں یقینی طور پر ہر ایک پر واضح کر دیتا کہ فلاں فلاں منافق ہے اور اللہ ورسول کا دشمن ہے، حکم اور علم کے ساتھ قائم رہنے میں ہر امر کی بنیا داورحکمتیں ہیں ، اولیاء اللہ مخلوق سے نہیں ڈرتے ، کیونکہ وہ اللہ کی سر پرستی کے پہلو میں امن اورحفاظت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے دشمنوں کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی ، کیونکہ عنقریب ان کے ہاتھ پاؤں اور زبانیں کٹی ہوئی دیکھیں گے ۔ انہوں نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ مخلوق عاجز ہے اورمحض فانی ہے ۔ نہ ان کے ہاتھوں میں ہلاکت ہے، نہ حکومت ، نہ ان کے ہاتھ میں امیری ہے نہ محتاجی ، نہ ان کے ہاتھ میں نفع ہے نہ نقصان ، ان کے نزدیک تو اللہ کے سوا کوئی بادشاہ ہی نہیں ، اور نہ کوئی قادر ہے، وہی عطا کرنے والا اور روکنے والا ہے وہی ضرر دینے والا اور نفع دینے والا ہے ، اس کے سوامار نے والا اور زندہ کرنے والا اور کوئی نہیں ،
و تو شرک کے بوجھ سے راحت میں ہیں، وہ تو اللہ کے انس کے ساتھ برگزیدہ اور منتخب ہیں ، وہ اس کی راحت ولطف اور مناجات سے لذت پاتے ہیں۔
انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ دنیار ہے یا نہ ر ہے ، آخرت رہے یا نہ ر ہے، خیر اور شر ہو یا نہ ہو، انہوں نے امر کی ابتداء میں دنیا اورمخلوق اور شہوتوں کے بارے میں زہدمیں تکالیف برداشت کیں، انہوں نے جب اس پر ہمیشگی کی تو اللہ تعالی نے ان کے تکلف کو ان کی عادت اور عطیہ الہی بنا دیا، ان کا زہد ، کامل زہد بن گیا، ان کی عادت کامل عادت بن گئی ، ان سے سیکھو، اللہ کی عبادات میں تکلیف و تکلف برداشت کرو، نا فرمانی چھوڑ دو، بری باتیں ترک کر دو، اپنے رب کے کلام کوسمجھو اور اس پرعمل کر،یہ عمل اخلاص سے کرو ۔
ایمان اور معرفت اور قرب الہی پیدا کر پھر……
اے بیٹا! تو سرا پانفس اور عادت اور حرص ہے، پرائی عورتوں اور لڑکوں کے پاس بیٹھتا ہے، پھر کہتا ہے مجھے ان کی کوئی ” پرواہ نہیں، توجھوٹا ہے، تیری بات شرع وعقل کے موافق نہیں ، آگ میں آگ کو، لکڑی کولکڑی سے ملائے جاتا ہے، تیرے دین وایمان کا گھر ضرور بھڑک اٹھے گا ،شعلے اٹھیں گے ۔ اس امر میں شریعت انکار کرتی ہے، اس حکم سے کوئی بھی بری نہیں ۔ اللہ کے ساتھ ایمان اور معرفت اور قرب کے لئے قوت پیدا کر ، پھر مخلوق کا طبیب بن کر اللہ کا نائب ہو۔
تجھ پرافسوس ہے تو سانپوں کو کیسے چھوتا اور الٹ پلٹ کرتا ہے، حالانکہ تو نہ سانپ پکڑنے کا ڈھنگ جانتا ہے اور نہ ہی تو نے تریاق کھایا ہے ۔
خوداندھا ہے، دوسروں کی آنکھیں کیسے بنائے گا، خودگونگا ہے، اوروں کو کیا سکھاۓ گا۔-خود جاہل ہے، دین کو کیسےصحیح کرے گا۔ جو در ہان نہیں ، وہ لوگوں کو شاہی دروازے تک کیسے لے جاۓ گا، ۔ تو اللہ کی قدرت اور قرب، اورمخلوق کے بارے میں اس کی سیاست سے بے خبر ہے،یہ ایسی چیز ہے جو نہ میری عقل میں آ سکتی ہے نہ تمہاری سمجھ میں نہ میں اس کا احاطہ کر سکتا ہوں نہ تم اس کے حقیقت اور تفسیر سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتاء تم سنواورقبول کرو، کیونکہ میں بادشاہ کی طرف بلانے والا اور تم میں اس کے رسول ﷺکا نائب ہوں،۔ میں دین کے معاملے میں مخلوق سے زیادہ بے شرم ہوں ، اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام میں تم میں سے کسی سے حیا نہیں کرتا ۔ میں انہی کا خادم ہوں انہی کی نگرانی میں کام کرتا ہوں ، میری انہی سے نسبت ہے – یہ دنیا جانے والی اور فانی ہے، یہ آفتوں اور بلاؤں کا گھر ہے، اس میں کسی کے لئے عیش و آسائش نہیں، خاص طور پر سمجھ دار اور عقل والے کے ہے کے لئے، جیسا کہ کسی نے کہا ہے: الدنيا لا تقر فيها عين عليهم وعين ذاكر الموت
دنیا میں حکمت والے اور موت کے یاد کر نے والے کی آنکھ بھی ٹھنڈی نہیں ہوتی ۔‘‘
جس کے مقابلے میں درندے منہ کھولے ہوئے کھڑے ہیں ، اس کے قریب کیسے چین آۓ گا، کیسے آنکھ لگے گی ، غافلو! قبر اپنا منہ کھولے ہوۓ ہے ،اور موت کا درندہ اوراژ دھا اپنا منہ کھولے ہوۓ ہیں، قضاوقدرکا جلا داپنے ہاتھ میں تلوار لئے حکم کے انتظار میں کھڑا ہے، لاکھوں کروڑوں میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایسا ہوگا جو کہ اس حکمت کو جانتا ہواور غافل ہوۓ بغیر بیدار رہے، امر کے شروع میں تیرے لئے لازم ہے کہ کوئی ہنر سیکھ کر اس میں مہارت حاصل کرے اور اس ہنر سے کماۓ اور کھاۓ ، تا کہ تیرا ایمان قوی ہو جائے ۔ جب تو اس پرہمیشگی کرے گا اور ثابت قدم رہے گاتو اللہ توکل کی طرف لے جا کر تجھے بلا سبب کھلائے گا، اے اپنے سبب کے ساتھ شرک کرنے والے!۔ اگر توکل کے کھانے کا مزہ چکھ لیتا تو کبھی شرک نہ کرتا اور اس کے دروازے پر توکل اور اعتماد کر کے بیٹھ جاتا ۔ میں صرف دو طرح سے کھانا پینا جانتا ہوں ۔ یاشرعی پابندی کے ساتھ کسب کر نے سے ، یا توکل بر خدا ہو
تجھ پر افسوس! اللہ سے حیا نہیں کرتا اور لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے، کسب اور کمائی تو آغاز ہے جبکہ توکل انتہا ہے، میں تیرے لئے نہ ابتداد یکھتا ہوں نہ انتہا، میں تجھ سے حق بات کہنے میں حیا نہیں کرتا ،سن اور قبول کر اور حق کے ساتھ جھگڑانہ کر مجھے تمہاری تعریف یا برائی کی کوئی پرواہ نہیں تمہاری ذات اور تمہارے مال ومتاع اور مخلوق میں تم سے زیادہ زاہد ہوں، اگر کچھ لیتا ہوں تو اپنے لئے نہیں اوروں کے لئے لیتا ہوں ، تمہارے سامنے میرا وعظ اور کلام ایک کاری ضرب اور حملہ ہے، اس کے لئے مجھے حکم دیا گیا ہے، جسے میں جانتا ہوں اور اس کی سچائی پر یقین رکھتا ہوں ۔ اللہ کا حکم مٹانے والا کوئی نہیں اور نہ کوئی روکنے والا روک سکتا ہے۔
تجھ پر افسوس ! تو لوگوں کی باتوں سے دھوکہ میں نہ آ ،ان کے نفع اور نقصان کو پہچان۔ارشاد باری تعالی ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌبلکہ انسان اپنا ذاتی نقصان دیکھنے والا ہے ۔ عام لوگوں کی نظروں میں تجھے کس نے اچھا بنادیا اور خاص لوگوں کی نظروں میں تجھے کس نے برا بنا دیا ۔ اے دنیا میں رغبت کر نے والو! اے دنیا سے خوش ہونے والو! عقل وضبط کے دھوکے دارو!
کیا تم نے ارشاد باری نہیں سنا:
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ جان لو کہ دنیا کی زندگی کھیل کو داور تماشا اور زینت ہے۔“
کھیل اور تماشا اور زینت نادان بچوں کا کام ہے، عقل مند مردوں کے لئے نہیں، اس نے تمہیں جتلا دیا ہے کہ تم کھیل کود کے لئے نہیں پیدا کئے گئے،د نیا میں مشغول ہونے والا ( اصل میں) کھیلنے کودنے والا ہے، جس نے آخرت کو چھوڑ کر دنیا پر قناعت کر لی اس نے گویا نا چیز پر قناعت کی،دنیادہ سب چیز یں جوتمہیں دے گی سانپ اور بچھو اور قاتل زہر ہیں جبکہ تم انہیں نفس اور خواہشوں اور شہوت کے ہاتھوں سے لو، آخرت کے ساتھ مشغول ہو اور دلوں کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرو، پھر اس کے فضل کے ہاتھوں سے اپنا حصہ وصول کر لو، اپنے دل کے قدموں سے اللہ کی طرف کھڑے ہو اور اس کی طرف مشغول ہو، پھر وہ جو کچھ بھی تھے اپنے فضل کے ہاتھ سے عطا کرے اسے لو،دنیا وآخرت میں فکر کر و اوران میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دو ۔ اگر تو کوئی چیز بھی سیکھے گا تو میرے پاس اس سے کہیں زیادہ پائے گا ، میری کھیتی پک گئی ہے اور اس نے جمال پالیا ہے تمہاری فصل جب آتی ہے جلا دی جاتی ہے۔عقل کر اور اپنی ریاست چھوڑ دے، اور لوگوں کی طرح آ کر یہاں بیٹھ جا تا کہ میرا کلام تیرے دل کی زمین میں زراعت کرے، اگر تو عقل کرتا تو میری صحبت میں رہتا، اور میری طرف سے روزانہ ملنے والے ایک لقمے پر اکتفا کر لیتا، اور کلام کی تختی برداشت کرتا ۔ جس بندے کے لئے ایمان ہے وہ ثابت قدم رہے گا اور پھلے پھولے گا ۔ اور جس کا ایمان نہیں وہ مجھ سے دور بھاگتا ہے ۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 461،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 233 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
باسٹھویں مجلس
محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے باسٹھویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس الثانی والستون فی التوحید ‘‘ ہے۔
منعقده٫/30جب 546ھ بروز جمعہ بوقت صبح بمقام مدرسہ معمورہ
توحید میں استقامت اور زہد کا کٹھن سفر
اللہ کی توحید کوا تناراسخ کر کہ تیرے دل میں مخلوق کا ایک ذرہ بھی باقی نہ ر ہے، نہ ایک گھر دکھائی دے نہ کثیر گھر – توحید سب کوقتل اور ملیامیٹ کر دیتی ہے مکمل دوا اللہ کی توحید میں ہے اور دنیا کے سانپ سے بھاگ اور اس سے منہ پھیر لے ۔ تاوقتیکہ کوئی سپیرا آ جائے اور دانت اکھاڑ کر اس کا زہر نکال دے ، اور تجھے اس کے قریب کر کے اس کا ہنر بھی سکھا دے اور پھر تیرے سپرد کر دے، تجھے اس میں کچھ اذیت باقی نہ رہے گی ، تو اسے الٹ پلٹ کرے گا اور اسے تیرے ڈسنے پر قدرت نہ رہے گی۔
جب تو اللہ کومحبوب بنا لے گا اور وہ تجھے محبوب بنالے گا، تو دنیا اور خواہشات ، اور لذات اورنفس اور حرص اور شریروں کی شرارت سے تیری کفایت کرے گا، چنانچہ دنیا سے اپنا نصیب بغیر کسی ضرر اور بغیر کدورت کے حاصل کرتا رہے گا ، اے بغیر گواہ کے مدعی! باوجود شرک کے توحید کا دعوی کب تک کرے گا ، کیا تجھ میں اتنی ہمت ہے کہ تو میرے ساتھ رات کو نکلے اور خوف ناک جگہوں کی طرف چلے، میں بغیر ہتھیار کے ہوں اور تو پوری طرح مسلح ہو، پھر دیکھ کہ میں گھبراتا ہوں یا کہ تو گھبراتا ہے ۔ اور دوسرے کے کپڑوں میں توچھپتا ہے یا کہ میں ، – تیری پرورش نفاق میں ہوئی ہے جبکہ میں ایمان میں پلا ہوں
تم دنیا کے پیچھے ہواور دنیا اللہ والوں کے پیچھے
اے لوگو! تم دنیا کے پیچھے دوڑ رہے ہوتا کہ تمہیں کچھ دے دے، اور دنیا اللہ والوں کے پیچھے دوڑتی ہے تا کہ وہ انہیں کچھ دے، ان کے سامنے سر جھکائے کھڑی رہتی ہے، تو اپنے نفس کو توحید کی تلوار سے مار ڈال اور اسے توفیق کا خود پہنا دے۔ اس کے لئے مجاہدے کا نیزہ ، تقوے کی ڈھال اور یقین کی تلوار پکڑے، کبھی نیزہ مار کبھی تلوار چلا متواتر اسی طرح کرتا رہ تا کہ نفس تیرے سامنے زیر ہو جائے اور تو اس پر سوار ہو کر لگام تھام لے، اور اس پر خشکی وتری کا سفر کرے ۔ اس وقت جولوگ اپنے نفسوں کے خلاصی نہیں پاسکے، اللہ تعالی ان میں تیرے ساتھ فخر کرے ۔ کے گا۔
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اور اس پر غلبہ پالیا نفس اس کی سواری بن جاتا ہے اور اس کے بوجھ اٹھاتا ہے اور اس کے حکم کی مخالفت نہیں کرتا ، تیرے لئے بھلائی نہیں جب تک تواپنے نفس کو پہچان لے اورا سے لذت سے روکے اور اس کا ضروری حق ادا کرے ۔ اب نفس قلب کی طرف اطمینان کرے گا ، اور قلب باطن کی طرف اور باطن حق تعالی کی طرف۔ اپنے نفس سے مجاہدے کا عصا نہ اٹھاؤ، اس کی مصیبتوں سے فریب نہ کھاؤ ۔ اس کے سونے سے دھو کے میں نہ آ ؤ – درندوں کی دکھاوے کی نیند سے فریب میں نہ آ ؤ، وہ تم پریہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سورہا ہے، جبکہ اصل میں تم پر حملے کرنے کی تاک میں ہوتا ہے، یہ نفس بھلائی میں موافقت اور اطمینان اور انکسار اور تواضع کا اظہار کرتا ہے جبکہ در پردہ اس کے خلاف منصوبے باندھتا ہے، اس کے بعد اس سے جو کچھ رونما ہونے والا ہے، اس سے بچتارہ۔ اولیاء اللہ یوں تو مخلوق سے منہ موڑے رکھتے ہیں، لیکن وہ مخلوق کی طرف نظر کرنے اور ان کے پاس بیٹھنے کی تکلیف اٹھاتے ہیں تا کہ انہیں امر و نہی کرتے رہیں ، اولیاء اللہ کی مثال مخلوق کے ساتھ ان لوگوں کی طرح ہے کہ جنہوں نے ارادہ کیا کہ دریا عبور کر کے بادشاہ کے ہاں جائیں ، ان میں سے جو راہ جانتے تھے وہ عبور کر گئے ۔ بادشاہ کے پاس پہنچے اور اس سے ملاقات کی ۔ بادشاہ نے دیکھارہ جانے والے لوگ مجبور اور لاچار ہیں ، اور قریب ہے کہ ڈوب جائیں ۔ جس راہ سے پہلے لوگ آئے تھے، وہ جانے والے نہیں جانتے ، چنانچہ بادشاہ نے پہنچ جانے والوں کوحکم دیا کہ ان کی طرف لوٹ جائیں، اور جس راہ میں سے وہ آۓ ہیں، وہی راہ انہیں بھی بتائیں ، بادشاہ کے حکم پر وہ لوٹ آۓ ، اور شاہراہ پر آ کر ان بھولے ہوؤں کو آواز دی: یہ راہ ہے!‘‘ اور انکی رہنمائی کرنے لگے، یہاں تک کہ بھولے بھٹکے لوگ جب قریب آ گئے تو ان کے ہاتھ پکڑ لئے ، اس مثال کی اصل یہ ارشاد باری ہے: وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَاقَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمْ سَبِيلَ ‌الرَّشَادِ ایمان والے نے کہا: اے قوم والو! میری اتباع کرو، میں تمہیں ہدایت کا راستہ بتاؤں گا ۔“ تم میں سے جو عقل والا ہے، وہ دنیا اور اولاد اور اہل اور مال اور کھانے پینے پہنے اور سواریوں اور بیویوں پر اترانا نہیں کیونکہ یہ سب حرص ہے – ایمان والے کی خوشی اس کی ایمانی قوت اور یقینی قوت میں ، اور اس کے دل کا قرب الہی کے دروازے پر واصل ہونے میں ہے جان لو کہ عارف باللہ اور اللہ کی خوشنودی کے لئے عمل کرنے والے ہی دنیا وآخرت کے بادشاہ ہیں ۔
مخلوق کے ساتھ شرک کرنے والا کیسے فلاح پاسکتا ہے:
اے بیٹا! تیرا دل اور باطن کب صاف ہوں گے حالانکہ تو مخلوق کے ساتھ مشرک ہے، اور کیسے نجات پاۓ گا، ہر رات میں جس کی طرف تو جا تا ہے اس سے مدد مانگتا ہے اور اس سے شکایت کر کے بھیک مانگتا ہے ۔ تیرادل کیسے صاف ہوگا جبکہ اس میں توحید کا ایک بھی ذرہ نہیں ، توحید نور ہے اورمخلوق کے ساتھ شرک اندھیرا ہے، جبکہ تیرا دل تقوی سے خالی ہے ، اس میں تقوے کا ایک بھی ذرہ نہیں ، تیری نجات کیسے ہوگی ، تو مخلوق کے ساتھ رہ کر خالق سے حجاب میں ہے، بچوں میں الجھ کر سبب پیدا کرنے والے سے حجاب میں ہے مخلوق پر توکل اور بھروسہ کر کے حجاب میں ہے، خالی دعوے سے کیا حاصل ! – معرفت الہی صرف دوصورتوں سے پائی جاسکتی ہے: –
اول مجاہدہ، ریاضت اورمشقتیں اور مصیبتیں برداشت کرنے سے یہ بات صالحین میں غالب اور مشہور ہے ،
دوسری صورت ،عطاءالہی! – بغیر مشقت برداشت کئے ،یہ طریق بہت نادر ہے ۔
عطا ءالہی مخلوق میں سے خاص لوگوں کے لئے ہے، کہ اللہ جسے اپنی معرفت و محبت عطا فرما دے، اس کے اہل وعیال اور معاش سے الگ کر دے ۔ اس میں اپنی قدرت ظاہر کرے، اورلٹیروں میں سے اٹھا کر عبادت گاہ میں بٹھاد ے مخلوق کو اس کے دل سے نکال دے، اس کی طرف اپنے قرب کا دروازہ کھول دے اور اسے بکواس خانے سے علیحد ہ کر دے ، یہاں تک کہ اس کے لئے تھوڑی چیز کفایت کرے، اسےفہم و دانش اور غلبہ وعزت عطا کرے جو کچھ دیکھے اور سنے ، اس سے نصیحت کرے سب کام اللہ کی قربت کے لئے کرے، ہدایت اور عنایت اور کفایت کا حکم کرے کہ وہ اس سے جدا نہ ہوں، اس کا حال ایسا ہو جائے جیسا کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حق میں ارشادفرمایا: كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ۔ایسا ہی ہے تا کہ برائی اور بے حیائی کو اس کے نزدیک نہ آنے دیں، کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے ہے ۔“ اس سے برائی اور بے حیائی کو دور کرتا ہے اور توفیق اس کی خدمت کرتی ہے، اللہ سے محبت رکھنے والا اور اسے پہچاننے والا مخلوق کو ہرانداز سے نصیحت کرتا ہے، کبھی اس طرح سے کہ وہ سمجھ لیتے ہیں ، اور کبھی اسطرح سے کہ وہ سمجھ نہیں پاتے۔
ضعف ایمان کے وقت خاص اپنے نفس کی حفاظت کر :
اے بیٹا! ضعف ایمان کے وقت خاص اپنے نفس کی حفاظت کر ، ایسے میں تجھ پر اپنے اہل اور ہمسائے اور ہمسائی اور تیرے شہر اور تیرے ملک کی اصلاح کا کوئی حق نہیں، جب ایمان مضبوط ہو جاۓ تو اپنے اور اہل و اولاد کی طرف توجہ کر، پھر مخلوق کی طرف دھیان دے ، تقوی کی زرہ پہن لے، اپنے قلب کے سر پر ایمان کا خودر کھے، تیرے ہاتھ میں توحید کی تلوار اور ترکش میں قبولیت دعا کے تیر ہوں ، اورتو فیق کے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو، تلوار چلا اور نیزہ مارنا سیکھ لے، پھر اللہ کے دشمنوں پر حملہ کر ، اب ہر چھ طرف سے اللہ کی مدد اور نصرت آئے گی ، اور مخلوق کو شیطان کے ہاتھوں سے نکال کر دربار الہی کے دروازے کی طرف لاۓ گا، اسے جنت والوں کے عمل کا حکم دے گا اور دوزخ والوں کے عملوں سے بچاۓ گا، حالانکہ تو نے جنت دوزخ کو پہچان لیا ہے اور دونوں کے عملوں کو جان لیا ہے، جو اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اس کے دل کی آنکھ سے پردے ہٹا دیئے جاتے ہیں ، یہ ان چھ طرفوں میں سے وہ جدھر بھی نظر کرتا ہے، اس کی نظر اس کے پارنکل جاتی ہے ، اور کوئی چیز اس سے پردے میں نہیں رہتی ، اپنے دل کے سر کو اٹھاتا ہے، عرش و آسمان کو دیکھ لیتا ہے، اور جب گردن کو جھکاتا ہے تو زمین کے طبقے اور جنوں کے ٹھکانے دیکھ لیتا ہے ۔ اس کا سبب اللہ کی معرفت اور ایمان ، اور علم وحکمت ہوں – جب تو اس مقام پر پہنچے تو مخلوق کو آستانہ الہی کے دروازے کی طرف بلا۔ اس حال سے پہلےتجھ سے کچھ بھی نہ بن پڑے گا ، اگر مخلوق کو دعوت دے اور خود اللہ کے دروازے پر نہ ہوتو تیری دعوت کا وبال تجھی پر ہوگا، اگرحرکت کرے گا تو گر جاۓ گا ابلندی چاہے گا تو پست ہوگا ،تجھے نیک بندوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ، تو فقط زبان دراز ہے ۔
دل کے بغیر خالی زبان ہے، باطن کے بغیر ظاہر ہے، خلوت کے بغیر جلوت ہے۔ قوت کے بغیر بہادر ہے، تیری تلوار لکڑی کی اور تیر گندھک کا ہے،تو شجاعت کے بغیر بہادر بن بیٹھا ہے، ایک معمولی تیر تجھے ہلاک کر دےگا، ایک ننھا سا مچھر تیرے لئے قیامت برپا کر دے گا۔ اللهـم قـوادياننا وإيماننا وأبداننا بقربك ، واتـنـا في الدنيا حسنة وفي الاخرة حسنة وقنا عذاب النّار۔ الہی! ہمارے دین اور ایمان اور بدنوں کو اپنے قرب سے قوی کرے اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطافرما۔ اور ہمیں آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچاۓ رکھ ‘‘ وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد واله واصحبه أجمعين برحمتك يا أرحم الراحمين امین
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 489،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 245 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں