محبوب کے رنج و الم کی لذت مکتوب نمبر 15دفتر سوم

اس بیان میں کہ محبوب کے رنج و الم کی لذت محب کی نظر میں محبوب کے انعام سے زیادہ زیباہوتی ہے۔ سیادت پناه میر نعمان کی طرف صادرفرمایا ہے:۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)

سیادت پناه برادرم میر نعمان کو معلوم ہوا کہ یاران خیراندیش نے ہر چند(قید) خلاصی کے بارہ میں کوشش کی۔ مگر کارگر اور فائدہ مند نہ ہوئی۔ الخير في ماصنع الله(بہتر وہی ہے جو اللہ تعالی کرے) اس امر سے بشریت کے باعث کچھ غم وحزن لاحق ہوا اور سینے میں تنگی ظاہر ہوئی۔ لیکن کچھ مدت کے بعد الله تعالی کے فضل سے وہ سب حزن اور سینے کی تنگی خوشی اور شرح صدر (سینہ کی فراخی)سے بدل گئی اور خاص یقین سے معلوم ہوا کہ اگر ان لوگوں کی مراد جو آزار کے درپے ہیں حق تعالی کی مراد سے موافق ہے تو پھر سینہ کی تنگی اور کدورت بےفائدہ اور دعوی محبت کے برخلاف ہے، کیونکہ محبوب کا ایلام اس کے انعام کی طرح محب کے نزدیک محبوب و مرغوب ہوتا ہے۔ محب جس طرح محبوب کے انعام سے لذت پاتا ہے اسی طرح اس کے ایلام سے بھی تلذذ ہوتا ہے۔ بلکہ اس کے ایلام میں زیادہ تر لذت پاتا ہے۔ کیونکہ یہ محب کی اپنی مراد اورحظ نفس سے پاک ہے۔ جب حق تعالی جوجمیل مطلق ہے اس کا آزارچاہتا ہے تو حق تعالی کا یہ ارادہ بھی حق تعالی کی عنایت سے اس شخص کی نظر میں جمیل بلکہ لذت کا سبب ہے اور جب ان لوگوں کی مرادحق تعالی کی مراد کے موافق ہے اور یہ راداس مرادکا در یچہ ہے تو ان لوگوں کی مرادبھی نظر میں پسندیدہ اور کذب کا موجب ہے کیونکہ اس شخص کا فعل بھی جومحبوب کے فعل کا مظہر ہے۔ محبوب کے فعل کی طرح محبوب دکھائی دیتا ہے اور وہ شخص فاعل(تکلیف دہندہ) بھی اس نظر کے علاقہ سے محب کی نظر میں محبوب ظاہر ہوتا ہے۔

عجب معاملہ ہے کہ جوں جوں اس شخص (تکلیف دہندہ)سے جفا زیادہ متصور ہوتی ہے توں توں محب کی نظر میں زیادہ زیبادکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ محبوب کے غضب کی صورت زیادہ تر نمائش رکھتی ہے۔ اس راہ (طریقت)کےدیوانوں کا کام الٹا اور برعکس ہے۔ پس اس شخص کی برائی چاہنا اور اس کے ساتھ بگڑنا محبوب کی محبت کے برخلاف ہے کیونکہ وہ شخص درمیان میں صرف محبوب کےفعل کا آئینہ ہے اور کچھ نہیں۔ وہ لوگ جو آزار کے درپے ہیں باقی خلائق کی نسبت فقیر کی نظر میں محبوب دکھائی دیتے ہیں۔

آپ یاروں کو کہہ دیں کہ سینہ کی تنگیوں کو دور کریں اور ان لوگوں کے ساتھ جو آزار کے درپے ہیں۔ دشمنی اور بگاڑ نہ کریں بلکہ انہیں چاہئے کہ ان کے عمل سے لذت حاصل کریں۔ ہاں چونکہ ہم کو دعا کا امر ہے اور حق تعالی دعاوالتجا تضرع وزاری کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے بلیہ(آزمائش) و مصیبت کے دفع ہونے کے لیے دعا اورعفوو عافیت کا سوال کریں اور یہ جو غضب کی صورت کی گئی ہے وہ اس لیے ہے کہ غضب کی حقیقت دشمنوں کے نصیب ہے۔ دوستوں کے ساتھ صورت میں غضب ہے اور حقیقت میں عین رحمت۔ غضب کی اس صورت میں محب کے اس  قدر فائدے اور منافع رکھے ہیں جو بیان سے باہر ہیں۔ نیز غضب کی صورت میں جو دوستوں کو عطا فرماتے ہیں منکر لوگوں کی خرابی ہے اور ان کی ابتلاء و آزمائش کا باعث ہے۔

شیخ  محی الدین عربی قدس اللہ سرہ کی عبارات کے معنی آپ کو معلوم ہوں گے۔ کہ اس نے کہا ہے کہ عارف کے لیے ہمت(دعا) نہیں یعنی وہ ہمت جو بلیہ کے دفع کرنے کے لیے ہو۔ عارف سے مسلوب ہے۔ کیونکہ عارف جب بلیہ کومحبوب کی طرف سے جانتا ہے اور محبوب کی مراد تصور کرتا ہے تو اس کے دفع کرنے کے لیے کس طرح ہمت کرے اور اس کو کیوں دفع کرے۔ اگرچہ بظاہراس بلیہ کے دفع کرنے کی دعا زبان پر لاتا ہے لیکن وہ صرف دعا کا امر بجا لانے کے لیے ہے۔ در حقیقت کچھ نہیں چاہتا اور جو کچھ آتا ہے اس سے لذت پاتا ہے وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ44 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں