وجود بالذات کا مفہوم

وجود بالذات کا مفہوم

وجود بالذات وہ ذات جو اپنے آپ موجود تھی ۔ یعنی موجود بالذات تھی ۔ اس کو کسی نے وجود نہیں بخشا تھا بلکہ وہ خود بخود موجود تھی ۔ وجود حقیقی

وجود ، موجودات ثلاثہ اور علل وجود کو سمجھنا ضروری ہے ۔

وجود کے معنی

وجود کے دو معنی ہیں ۔

  کون و حصول

یہ مصدری معنی ہیں، اعتباری اور ذہنی ہیں۔ ان کا شمار معقولات ثانیہ (صور عقلیہ)میں ہوتا ہے  یعنی ہمارا کسی شے کو دیکھ کر اس کو ہے سمجھنا ، وجود خیال کرنا ۔ ظاہر ہے کہ مصدری معنیٰ خارج میں نہیں بلکہ ذہن میں پائے جاتے ہیں ، ان کا منشا البتہ خارج میں پایا جاتا ہے مثلاً جب ہم زید کودیکھتے ہیں تو عقل میں” زید ” کو الگ اور” ہے ” کو الگ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ زید ہے ، اس میں ہمارا زید کو ” ہے ” سمجھنا ، وجود خیال کرنا ، کون( امر وجودی) و حصول (دستیاب)ہے ۔

ما بہ الموجودیہ

(جس کی وجہ سے کوئی چیز موجود ہو)

یہ وجود کے دوسرے معنی ہیں یعنی وہ چیز جس کی وجہ سے معنی اول یعنی معنی مصدری کون و حصول کا انتزاع ہو سکتا ہے۔ اس معنی کی رو سے وجود خارجی حقیقی شے ہے ۔ امر ذہنی نہیں۔ زید کو دیکھ کر جب ہم زید ہے ، سمجھتے ہیں تو ہمارا ہے سمجھبا تو ہوا کون و حصول اور خود زید ہوا ما بہ الموجودی

ما بہ الموجودیت خارج میں ہوتا ہے اور کون وحصول کا مبداً ، منشا ممتزع  عنہ اصل   حقیقت یا ذات ہوتی ہے کیونکہ کون و حصول ایک امر انتزاعی علمی یا مفہوم ہے جو بالذات خارج میں نہیں ہو تا کہ اس کا ما بہ الموجودیہ خارج میں موجود ہوتا ہے۔

حق تعالی ہر وجود کا اطلاق اسی  دوسرے معنی میں ہوتا ہے  نہ کہ بمعنی  اول – وجود اس معنی میں صرف حق تعالی کا ہے۔ اس کا غیر عدم محض ہے اور عدم محض لاشئ  محض ہے ۔ شیخ رکن الدین شیرازی فرماتے ہیں :

الوجودعدم العدم والعدم عدم الوجود

عدم کا عدم وجود ہے اور وجود کا عدم عدم ہے

موجودات ثلاثہ

موجودات تین قسم کے ہیں ، جو موجودات ثلاثہ کہلاتے ہیں ۔

موجود وجودی

موجود ذهنی

موجود اضافی

1 – موجود وجودی

یہ موجو د اول ہے جو قائم بالذات ہوتا ہے اور اپنے قیام میں غیر کا محتاج نہیں ہوتا جبکہ دوسرے موجودات اپنے قیام میں اس کے محتاج ہوتے ہیں۔ اللہ غنی و انتم الفقراء سے اسی طرف اشارہ ہے ۔

 2 – موجود ذہنی

جب ہم کسی واقعہ کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ہمارے ذہن میں ایک اجمالی مفہوم آتا ہے۔ اس کے بعد درجہ بدرجہ تفصیلات آتی ہیں مطلب یہ ہے کہ جسطرح ذہن میں ایک درجہ اجمالی مفہوم کا ہوتا ہے اسی طرح وجود مطلق کے ساتھ شیون وصفات یہاں اجمالاً ملحوظ ہیں تو به درجه مشابہ ہے وجود ذہنی کے  گویا یہ صرف ذہن یا علم میں ہوتا ہے، خارج میں نہیں آتا ۔ یہ اپنے قیام میں موجود وجودی کا محتاج ہوتا ہے اور چونکہ یہ موجود وجودی کی صفت ہے ، اس لئے لا ینفک عن الذات ہے ، کیونکہ ذات سے لوازم ذات کبھی جدا نہیں ہو سکتے مثلا کائنات قبل تخلیق علم  الہی میں یعنی معلومات حق جن کو صوفیاء کرام کی اصطلاح میں صور علمیہ یا اعیان ثابتہ کہتے ہیں متکلمین انھیں معدوم معلوم کہتے ہیں علماءاور حکماء کی اصطلاح میں انہی کو ماہیات کہا جاتا ہے اور معتزلہ کے ہاں ان کے لیے شئ ثابت کی اصطلاح ہے ۔

3 – موجود اضافی

یہ قائم بالغیر ہوتا ہے اور نسبت و اضافت کے ساتھ موجود وجودی سے متعلق ہوتا ہے ۔ یہ موجود وجودی سے الگ ہو کر قائم نہیں رہ سکتا مثلاً موم سے ہزاروں شکلیں بنائی جائیں ، وہ ساری کی ساری موجو د اضافی ہوں گی ، جن کا وجو د موم پر قائم ہوگا ۔ یہ تمام شکلیں موم ہی کی طرف منسوب اور مضاف ہوں گی مثلا موم کی گڑیا ۔ موم کا گھوڑا وغیرہ ۔ ان شکلوں کے مٹ جانے سے موم نہ مٹ جائے گا ۔ یہ شکلیں گویا موم کے تعینات ہیں جو اپنے قیام میں موم کے محتاج ہیں لیکن موم اپنے قیام میں ان تعینات کا محتاج نہیں۔ یہ شکلیں نہ ہوں ، موم پھر بھی موم ہے ۔ الله غنی و انتم الفقراء – وہ بے نیاز ہے، تم محتاج ہو ۔ کسی دریا کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھیں، کہیں موج ہے کہیں حباب ، کہیں دھارا کہیں گرداب ۔ یہ سب کیا ہیں ؟ یہ موجود اضافی ہی تو ہیں ۔ یہ تمام پانی  کی اشکال  ہیں، مورج وحباب ، دھارے اور گرداب کے مٹ جانے سے   پانی نہ مٹے گا کیونکہ یہ شکلیں پانی پر ہیں

وجود کی اقسام

وجود چھ اقسام پر منقسم ہے

(1) واجب الوجود حقیقی ذات حق سبحانہ تعالی ۔ اسے لازم الوجود بھی کہتے ہیں ۔

(2) ممکن الوجود: یعنی جسم مثال ۔

(3) ممتنع الوجود : یعنی روح اضافی ۔

(4) عارف الوجود : یعنی اعیان ثابتہ ۔

(5) شاہد الوجود: یعنی مرتبہ وحدت ، حقیقت محمد یہ

(6) واحد الوجود: یعنی مرتبہ احدیت۔

وجود کی علتیں

کائنات کی کسی چیز کا ذکر کیا جائے ، بات وجود حقیقی (حق تعالی تک جائے گی کیونکہ علۃ العلل وہی ہے ۔ غایۃ الغایات اسی کو کہتے ہیں۔ منطق اور فلسفے کی اصطلاح میں وجود کی علتیں چار ہیں، جنھیں علل وجود کہا جاتا ہے ۔

1 – علت مادی

یہ شے کی مادی علت ہوتی ہے، جس پر شے کا وجود ہوتا ہے یعنی مادہ .

2 -علت فعلی

جب کوئی چیز بنائی جاتی ہے تو اس کے بنانے کا عمل یعنی فعل تخلیق علت فعلی کہلاتا ہے ۔

3 – ۔ علت صوری

جو چیز بنائی جائے گی، اس کی کوئی نہ کوئی شکل تو ہو گی ہی، یہی شکل وصورت اس کی علت صوری کہلاتی ہے ۔

4 – علت غائی

جب کوئی چیز بنائی جائے تو آخر کسی مقصد کے تحت ہی تو بنائی جائے گی کوئی نہ کوئی غرض وغایت ضرور ہوگی جس کے لیئے اس شے کو وجود بخشا جا رہا ہوگا بس یہی مقصد اور غرض ، اس کی علت غائی ہے ۔

اس کا بنانے والا ، اس کاخالق ، گو یاعلۃالعل ہے یہ ساری علتیں اُسی کی وجہ سے قائم ہوئی ہیں مثلا بنانے والے نے لکڑی کا تخت بنایا ۔ لکڑی تو ہوئی علت مادی ، عمل نجاری بنا علت فعلی تخت ہوا علت صوری ۔ اب اس پر وہ بیٹھ گیا تو گویا اس کی علت غانی پوری ہو گئی کیونکہ اس نے تخت اسی مقصد کے لیے بنایا تھا ۔ غایت تخت سازی یہی تھی ۔ تخت برائے تخت فعل عبث ہے ۔ ہاں ، تخت برائے جلوس ایک با مقصد بات ہے۔

افَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَكُمْ عَبَثا

تو کیا تمہارا خیال ہے کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بلا مقصد پیدا کر دیا ہے ؟

حق تعالیٰ کی طرف فعل عبث منسوب نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ عیب ہے اور حق سبحانہ و تعالیٰ ہر عیب سے منزہ ہے ۔ اس نے ہم کو ہمارے لیے خلق نہیں کیا ہے بلکہ اپنے لیے خلق کیا ہے ۔ عرفانِ ذات کے لیئے خلق کیا ہے ۔ ورنہ محض عبادت کے لیے کرو بیاں کم نہ تھے ۔ اس موقع پر فاحببت ان اعرف قابل توجہ ہے ۔ یہ حب عرفان ہی تو مقصد وجود ہے نہ کہ ہم اپنا خودی مقصد وجو د ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالى عنه ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون کی تفسیر لیعرفون سے فرماتے ہیں ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں