ذات بحت (خالص ذات) کےساتھ جو اسماء و صفات و شیون (اس کا مُفرد شان ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) و اعتبارات کے اعتبار سے پاک و منزہ ہے۔ گرفتار ہونے میں اور ناقص لوگوں کی مذمت میں جو چون (مثل)کو بیچون (بے مثل)تصور کر کے اس میں پھنسے ہوئے ہیں اور اہل فنا کے مرتبوں کے تفاوت میں کہ جن پر علوم و معارف وغیرہ کا تفاوت مترتب ہے۔ یہ بھی شیخ محمد خیری کی طرف لکھا ہے:۔
آپ کا مکتوب شریف پڑھ کر خوشی کا باعث ہوا۔ حق تعالی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھے اور ایک لحظہ بھی اپنے غیر کے حوالہ نہ کرے ۔ جو کچھ حق تعالی کی ذات بحت کے سوا ہے اس کی تعبیر غیر سے کی گئی ہے۔ اگرچہ اسماء وصفات ہوں اور یہ جو متکلمین نے لاهو و لاغیرہ کہا ہے اس کے اور معنے ہیں اور غیر سے ان کی مراد غیر اصطلاحی ہے اور انہی معنے میں نفی کی ہے نہ معنی مطلب ہے۔ اورنفی خاص نفی عام کومستلزم نہیں ہے اور حق تعالی کی ذات بحت سے سلب یعنی نفی کے سوا اور کچھ تعبیر نہیں کر سکتے۔ اس مرتبہ میں جو اثبات ہے وہ الحاد ہی ہے اور تمام تعبیروں سے بہتر تعبیر اور تمام عبارتوں سے جامع عبارت لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْءٌ ہے جس کا فارسی ترجمہ بیچوں اور بے چگون ہے اور علم اور شہوداور معرفت کو اس کی طرف راہ نہیں جو کچھ دیکھتے اور جانتے اور پہچانتے ہیں ۔ یہ سب اس کا غیر ہے۔ ان کے ساتھ گرفتار ہونا اس کے غیر کے ساتھ گرفتار ہونا ہے۔ پس لا الہ کے نیچے لا کر ان سب کی نفی ضروری ہے اور کلمہ الا الله کے ساتھ اس ذات بیچون و بیچگون کا اثبات کرنا لازم ہے اور یہ اثبات اول میں تقلید کے طور پر ہے اور اخیر میں تحقیق کے طور پر۔
بعض سالکوں نے نہایت مطلب تک پہنچ کر چون کو بیچون تصور کیا ہے اور شہود(مشاہدہ) و معرفت اس کی طرف دیا ہے ۔ تقلید والے لوگ ان سے کئی درجے بہتر ہیں ۔ کیونکہ ان کی تقلید نور نبوت علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کے چراغ سے حاصل کی گئی ہے جس کی طرف سہو و خطا کورا ہ نہیں ہے اور ناقص لوگوں کا مقتدا غیرصحیح یعنی غلط کشف ہے۔
بہ بیں تفاوت راه از کجا ست تا یکجا دیکھو ا یک رستہ کا فرق ہے دوسرے سے کس قدر ہے
درحقیقت یہ لوگ ذات کے منکر ہیں کیونکہ اگر چہ شہود(مشاہدہ) ذات کا اثبات کرتے ہیں مگر جانتے کہ نفس اثبات عین انکار ہے۔
امام المسلمین امام اعظم کوفی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہے۔ سبحانک ما عَبَدْناكَ حَقَّ عِبادَتِكَ ولکن عَرَفْناكَ حَقَّ مَعْرِفَتِكَ عبادت کا ادا نہ ہونا خود ظاہر ہے لیکن حق معرفت کا حاصل ہونا اس بناء پر ہے کہ حق تعالی کی ذات میں نہایت معرفت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اس کو بیچونی اور بیچگو نی کے ساتھ پہچان لیں۔
کوئی بیوقوف یہ گمان نہ کرے کہ اس معرفت میں عام و خاص اور مبتدی اورمنتہی برابر ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ اس نے علم و معرفت کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ مبتدی کو صرف علم ہی علم ہے اور منتھی کو معرفت اور معرفت سوائے فنا کے نہیں ہوتی اور یہ دولت فانی کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔ مولانا روم فرماتے ہیں۔
ہیچکس را تا نگردد او فنا نیست ره در بار گاه کبریا
ترجمہ: جب تک کوئی نہ ہو جائے فنا تب تک ملتا نہیں اس کو خدا
پس جب معرفت علم سے الگ ہے تو پھر جاننا چاہئے کہ مشہور دانش کے سوا وہ ایک ایسا امر ہے جس کو معرفت سے تعبیر کرتے ہیں اور اسی کو ادراک بسیط(حق تعالی کے وجود کا ادراک) بھی کہتے ہیں۔
فریاد حافظ ایں ہمہ آخر بہر زہ نیست ہم قصه غریب و حدیث عجیب ہست
ترجمہ: نہیں حافظ کہ یہ بیہودہ فریاد عجب ہے ماجرا اس کا سراسر
مثنوی اتصالے بے تکلیف بے قیاس ہست رب الناس را با جان ناس
لیک گفتم ناس رانسناس نہ ناس غیر از جان جان اشناس نہ
ترجمہ ہے خدا کا اپنے بندوں سے اک ایسا اتصال جس کی کیفیت کا پانا اور سمجھنا ہے محال ذکر ہے یاناس کا نسناس کا ہرگز نہیں ناس غیر از عارف کامل نہیں ہوتا کہیں
اور جب فنا میں بھی مر تبے مختلف ہیں تو اس واسلے منتہیوں کو بھی معرفت میں ایک دوسرے پر فضیلت نہیں ہوگی۔ یعنی جس کی فنا زیادہ کامل ہوگی اس کی معرفت بھی زیادہ کامل ہوگی جس کی فناکم ہوگی۔ اس کی معرفت بھی کم ہوگی ۔ علی ہذا القیاس۔
سبحان اللہ !بات کس طرف چلی گئی۔ چا ہئے تو یہ تھا کہ اپنی بے حاصلی اور نامرادی اور بے استقامتی اور نا ثبانی کی نسبت کچھ لکھتا اور دوستوں سے مدد طلب کرتا۔ مجھے اس قسم کی باتوں سے کیا نسبت ۔ بیت
اگه از خویشتن چونیست جنیں چہ خبر دارد از چنان و چنیں
ترجمہ: واقف اپنے سے جب نہیں ہے جنیں پھر وہ جانے کیا چنان و چنیں
لیکن بلند ہمت اور ذاتی خصلت اجازت نہیں دیتی کہ کمینے مرتبوں اورسفلی سرمایہ کی طرف اتر آئے یا ان کی طرف التفات کرے۔ اگر کہے تو اسی کی نسبت کہے ۔ اگر چہ کچھ نہیں کہہ سکتا اور اگر ڈھونڈے تو اسی کو ڈھونڈے ۔ اگر چہ کچھ نہ پائے اور اگر کچھ حاصل ہو وہی ہواوراگر کچھ حاصل نہ ہو اور اگر واصل ہوتو اس کے ساتھ واصل ہو۔ اگر چہ بے حاصل ہی رہے۔
بعض بزرگواروں قدس سرہم کی عبارتوں میں جو شہود(مشاہدہ) ذاتی واقع ہے۔ اس کے معنی کاملوں کے سوا کسی اور پر ظاہر نہیں ہیں۔ ناقصوں کے لئے ان معنوں کاسمجھنا مشکل ہے۔
حال پخته درنیابد ہیچ خام پس سخن کوتاه باید والسلام
ترجمہ: حال کامل کا نہیں جانے ہے خام پس سخن کوتاه چاہئے والسلام
آپ نے خط کے عنوان کو کلمہ ھوالظاهر والباطن سے آراستہ کیا ہوا تھا۔ میرے مخدوم ھوالظاهر والباطن درست ہے لیکن کچھ مدت گزری ہے کہ فقیر اس عبارت سے توحید کے معنی نہیں سمجھتا۔ اور ان کے معنی سمجھنے میں علماء کے موافق ہے اور توحید والوں کی درستی سے ان کی درستی بہتر و بڑھ کر معلوم ہوئی ہے۔ کل میسرلما خلق له ہر ایک کے لئے ایسی چیز کا حاصل ہونا آسان ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ مصرعہ
ہر کسے راہ بہر کا رے ساختند ترجمہ ہر ایک کسی کے واسطے ایک کام ہے
جو کچھ اس انسان پر ضروری ہے اور اس کے ساتھ مکلف ہے وہ اوامر کی تابعداری کرنا اورنواہی سے رک جانا ہے وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا وَاتَّقُوا اللّٰهَ جو کچھ رسول تمہارے پاس لائے اس کو پکڑ لو اور جس سے تم کومنع کرےہٹ جاؤ اور اللہ تعالی سے ڈرو۔ اور جب انسان اخلاص سے مامور ہے اور وہ بغیر فنا کے حاصل نہیں ہوتا اور محبت ذاتی کے بغیر میسر نہیں تو اس واسطے فنا کے مقدمات یعنی دس مقامات (مقامات عشرہ،توبہ ، انابت،زہد ،قناعت،ورع صبر ،شکر ،توکل،تسلیم ۔رضا)کو حاصل کرنا چاہئے اگر چہ فنا خدا کی محض بخشش ہے لیکن اس کے مقدمات اور مبادی کسب سے تعلق رکھتے ہیں ہاں بعض ایسے بھی لوگ ہیں جن کو فنا کی حقیقت سے مشرف کرتے ہیں ۔ بغیر اس بات کے کہ مقدمات کو حاصل کریں اور ریاضتوں اور مجاہدوں سے اپنی حقیقت کو مصفا کریں اور اس وقت اس کا حال دو صورت سے خالی نہیں ہے یا اس کو نہایت النہایت میں کھڑا رکھتے ہیں یا ناقصوں کی تکمیل کے لئے عالم کی طرف اس کولوٹاتے ہیں۔
برتقدیر اول اس کی سیر مقامات مذکورہ میں واقع نہیں ہوتی اور اسمائی اور صفاتی تجلیات کی تفصیلوں سے بے خبر رہتا ہے اور برتقدیر ثانی جب اس کو عالم کی طرف لوٹاتے ہیں تو اس کی سیر مقامات کی تفصیل پر واقع ہوتی ہے اور بے انتہاتجلیات سے اس کو شرف کرتے ہیں ظاہر میں مجاہد کی صورت رکھتا ہے۔ لیکن حقیقت میں کمال ذوق اور لذت میں ہے۔ بظاہر ریاضت میں ہے اور باطن میں نعمت و لذت ہے۔
این کار دولت است کنوں تا کرا دہند یہ بڑی اعلی دولت دیکھئے کس کو ملتی ہے
یہ نہیں کہا جاتا کہ جب خلاص اس قسم کے امور میں سے ہے جن کی تابعداری واجب ہے اور بغیر فنا کے اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی ۔ پس علمائے ابرار اورصلحائے اخیار جوفنا کی حقیقت سے مشرف نہیں ہوئے۔ اخلاص کے ترک سے عاصی ہوں کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ نفس اخلاص ان کو حاصل ہے اگر چہ اخلاص بعض افراد کے ضمن میں ہو اور فنا کے بعد کمال اخلاص حاصل ہو جاتا ہے اور اس کے تمام افراد کو شامل ہو جاتا ہے اسی واسطے یہ کہا گیا ہے کہ اخلاص کی حقیقت بغیر فنا کے متصور نہیں ہوتی اور یہ نہیں کہا کرنفس اخلاص بغیر فنا کےمتحقق نہیں ہوتا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ144 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی