صاحب شریعت ﷺکی متابعت اور اس کی شریعت کے مخالفوں کے ساتھ عداوت و بغض وسختی کرنے کی ترغیب میں، سیادت و شرافت کی پناہ والےشیخ فرید کی طرف لکھا ہے۔
شَرَّفَکَمُ اللهُ سُبْحَانَہٗ بِتَشْرِيْفِ الْمِيْرَاثِ الْمَعْنَوِىِّ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الْقَرَشِيِّ الْهَاشَمِيِّ عَلَيْهِ وَعَلىٰ اٰلِهٖ مِنَ الصَّلوٰةِ اَفْضَلُهَا وَمِنَ التَّسْلِیْمَاتِ اَکْمَلُهَا كَمَا شَرَّفَکُمْ بِتَشْرِيْفِ الْمِيْرَاثِ الصُّوَرِىِّ وَ يَرْحَمُ اللَّهُ عَبْدًا قَالَ اٰمِیْنًا ۔ حق تعالیٰ آپ کو نبی امی قرشی ہاشمی ﷺکی باطنی میراث کی خلعت سے بھی مشرف فرمائے جیسا کہ آپ کو ظاہری میراث کی خلعت سے مشرف فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم کرے جس نے آمین کہا۔
آنحضرت ﷺکی ظاہری میراث عالم خلق سے تعلق رکھتی ہے اور باطنی میراث عالم امر سے جہاں کہ سراسر ایمان و معرفت و رشد و ہدایت ہے۔
میراث صوری( ظاہری) کی بڑی نعمت کا شکر یہ ہے کہ میراث معنوی(باطنی) سے آراستہ ہوں اور باطنی میراث سے آراستہ ہونا آنحضرت علیہ الصلوة والسلام کی کامل تابعداری کے سوا حاصل نہیں ہوتا۔ پس آپ پر واجب ہے کہ اوامر ونواہی میں آنحضرت ﷺکی اتباع واطاعت بجا لائیں کیونکہ کمال متابعت آنحضرت ﷺ کی کمال محبت کی فرع ہے۔
إنّ المُحِبَّ لِمَنْ يُحِبُّ مُطِيْعُ ترجمہ: کہ عاشق تابع معشوق ہوتا ہے .
اور حضور علیہ الصلوة والسلام کی کمال محبت کی علامت یہ ہے کہ حضور کے دشمنوں کے ساتھ کمال بغض رکھیں اور ان کی شریعت کے مخالفوں کے ساتھ عداوت کا اظہار کریں۔ محبت میں مداہنت و چاپلوسی روا نہیں ہے کیونکہ محب اپنے محبوب کا دیوانہ ہوتا ہے۔ مخالفت کی طاقت نہیں رکھت اور محبوب کے مخالفین سے کسی طرح بھی صلح وآشتی نہیں کرتا دو مختلف محبتیں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی متضاد کا جمع ہونا امر محال سے ہے ایک محبت کے لئے دوسرے کی عداوت لازم ہے خوب اچھی طرح غور کرنا چاہیئے ابھی معاملہ ہاتھ نہیں نکلا ہے (ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے) گزشتہ کا کا تدارک (توبہ و استغفار سے)کیا جا سکتا ہے کل (موت کے بعد) جب کام ہاتھ سے نکل جائے گا اس وقت سوائے ندامت و شرمندگی کے کچھ حاصل نہ ہوگا
بوقت صبح شود ہمچو روز معلومت که با که باختہ عشق در شب دیجور
ترجمہ: بوقت صبح ہوگا تجھ کو معلوم کٹی کس کی محبت میں تری رات
دنیا کا سامان محض فریب ہی فریب ہے اور معاملہ آخروی پر ابدی جزا مرتب ہو گی اگر چند روزہ زندگانی سید الاولین والآخرین علیہا علیہ الصلوۃ والتسلیمات کی پیروی میں بسر کر لی جائے تو نجات ابدی کی امید ہے ورنہ محض بیکار ہی بیکار ہےخواہ کیسا ہی اچھا عمل کیوں نہ ہو ۔
محمد عربی که آبروئے ہر دو سراست کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او ترجمہ وسیلہ دو جہاں کی آبرو کا ہیں نبی سرور پڑے خاک اس کے سر پر جونہیں ہے خاک اس در کی۔
نبی ﷺ کی متابعت کی دولت عظمی کا حاصل کرنا دنیا کو کلی طور پر ترک کرنے پر ہی موقوف نہیں ہے جو بہت مشکل معلوم ہوتا ہے بلکہ اگر فرض زکوۃ ادا کر دی جائے تو وہ ترک کل کا حکم رکھتی ہے کیونکہ( زکوۃ ادا کرنے کے بعد) مال پاک ہوکر ضررو نقصان سے خالی ہو جاتا ہے لہذا مال سے ضرر دور کرنے کا علاج اس مال کی زکاۃ ادا کرنا ہے اگرچہ کلیتاً ترک( دنیا) اولیٰ و افضل ہے لیکن زکوٰۃ کی ادائیگی بھی اس ترک کلی کا کام کرتی ہے۔
آسماں نسبت بعرش آمد فرود ورنہ بس عالی است پیش خاک تود ترجمہ: عرش سے نیچے ہے گر چہ آسماں لیکن اونچا ہے زمین سے اے جواں
بس لازم ہے کہ ہمیشہ اپنی ہمت کو احکام شرعیہ کی بجاآوری میں صرف کیا جائے اور اہل شریعت علماء و صلحاء کی تعظیم و توقیر کرنی چاہیے شریعت کو رواج دینے میں کوشاں رہنا چاہیئے اور گمراہ و اہل بدعت کو ذلیل و خوار رکھنا چاہیئے
مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَى هَدْمِ الْإِسْلَامِ (جس نے کسی بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کے گرانے میں مدددی۔
اور کفار جو خدائے عزوجل اور اس کے رسول علیہ وآلہٖ علیہ الصلوۃ والتسلیمات کے دشمن ہیں ہم کو بھی ان کے ساتھ دشمنی رکھنی چاہئے اور ان کو ذلیل و خوار کرنے میں کوشش کرنی چاہیئے اور کسی وجہ سے بھی ان کو عزت نہیں دینی چاہیئے اور ان کے ساتھ شدت وسختی رکھنی چاہیئے اورحتی المقدور کسی کام میں ان سے رجوع نہیں کرنا چاہیئے اگر بالفرض کوئی ضرورت پیش آجائے تو قضائے حاجت انسانی (کراہت و اضطرار ) کے ساتھ اپنی ضرورت کو ان سے نکالنا چاہیئے یہ وہ راستہ ہے جو آپ کے جد بزرگوار علیہ السلام کی بارگاہ تک پہنچا دیتا ہے اگر یہ راہ نہ اختیار کی جائے تو جناب اقدس تک رسائی دشوار ہے افسوس ہی افسوس ہے
كَيْفَ الْوُصُوْلُ إِلىٰ سُعَادَ وَدُوْنَهَا قُلَلْ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ خُيُوْفُ
میں سعاد تک کعب کیسے پہنچوں کس قدر خوفناک راستے ہیں اس سے زیادہ کیا عرض کروں۔
اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم که دل آزرده شوی ورنہ سخن بسیار است
ترجمہ: غم دل اس لیے تھوڑا کہا ہے تجھ سے اے جاناں . کہ آزردہ نہ ہو جائے بہت سن سن کے دل تیرا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ366ناشر ادارہ مجددیہ کراچی