صفات ثمانیہ حقیقیہ کے معارف مکتوب نمبر 294دفتر اول

 ان معارف کے بیان میں جو واجب الوجود کی صفات ثمانیہ(حیات، علم، قدرت،ارادہ، سمع، بصر، کلام،تکوین) کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے تعینات کے مبادی اور تمام مخلوقات کی مبادی تعینات کی تحقیق میں اور اس بیان میں کہ جزئیات اپنی کلی کے ساتھ لاحق ہوتے ہیں اورکلی کی جزئیات کا انتقال دوسری کلی میں جائز نہیں اور اس بیان میں کہ انبیاء اور اولیاء کی تجلی شہود میں کیا فرق ہے اور اس بیان میں کہ انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کے وسیلہ کے باوجود ان کے کامل تابعداروں کو وصل عریانی (ذات حق کاایسا مشاہدہ جس میں کسی اعتبار زائد کا نشان نہ ہو ) حاصل ہوتا ہے اور لفظ محوواضمحلال کی تحقیق میں جو مشائخ رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت میں واقع ہیں اور اس کے مناسب بیان میں مخدوم زاده مجددالد ین خواجہ محمد معصوم کی طرف صادر فرمایا ہے جو ظاہری علوم اور باطنی معارف و اسرار کے جامع ہیں۔ 

واجب الوجود کی صفات ثمانیہ حقیقیہ(آٹھ حقیقی صفات) جن میں سے اول صفت حیات ہے اور اخیر کی صفت تکوین ہے۔تین قسم ہیں۔ 

ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق عالم کے ساتھ غالب ہے اور اس کی اضافت و نسبت مخلوق کی طرف زیادہ تر ہے جیسا کہ تکوین یہی باعث ہے کہ اہل سنت و جماعت میں سے ایک جماعت نے اس کے وجود کا انکار کیا اور کہا ہے کہ تکوین صفات اضافیہ میں سے ہے اورحق یہی ہے کہ وہ صفات حقیقیہ سے ہے۔ صرف اضافت اس پر غالب ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو اضافت و نسبت رکھتی ہے مگر پہلے قسم سے کمتر ۔ جیسا کہ علم و قدرت و اراده وسمع و بصر اور کلام اور تیسری قسم تینوں قسموں سے اعلی ہے۔ جس کا کسی وجہ سے عالم کے ساتھ تعلق نہیں ہے اور اس میں اضافت نسبت کی بوتک نہیں جیسا کہ حیاۃ یہ صفت تمام صفات کی اُم(جڑ) اور ان سب کی اصل اور سب سے اسبق ہے۔ اس صفت کے زیادہ قریب صفت العلم ہے جو حضرت خاتم الرسل ﷺکے تعین کا مبدأ ہے اور دوسری صفات اور مخلوقات کے تعینات کے مبادی ہیں اور چونکہ ہر صفت تعلقات متعددہ کے اعتبار سے بہت ہی جزیات رکھتی ہے۔ جیسا کہ تکوین کے اس سے تعلقات متعدہ کے اعتبار سے تخلیق ( پیدا کرنا ) و ترزیق (رزق دینا ) و احیاء و امانت (زنده کرنا اور مارنا) جزئیات پیدا ہوئی ہیں۔ اس لئے یہ جزئیات بھی اپنے کلیات کی طرح مخلوقات کے تعینات کی مبادی ہیں اور جس شخص کا مبدأ وتعین وہ  کلی ہے۔ دوسرے تعینات کہ جن کے مبادی اس کلی کے جزیات ہیں۔ اس شخص کے تابع ہوں گے اور اس کے قدم کے نیچے زندگی بسر کریں گے۔ اسی سبب سے کہتے ہیں کہ فلاں حضرت محمدﷺکے زیرقدم ہے اور فلاں حضرت عیسی علیہ السلام کے زیرقدم اور فلاں حضرت موسی علیہ السلام کے قدم کےنیچے ہے اور جب ان جزئیات کو بطریق سلوک ترقی واقع ہو تو اپنی کلیات سے ملحق ہو جاتی ہیں اور ان کا شہود کلیات کا شہود ی ہو جاتا ہے۔ فرق صرف اصالت وتبعیت کا رہ جاتا ہے اور امتیاز صرف توسط اور عدم توسط سے ہوسکتا ہے کیونکہ تابع جو کچھ پاتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہے اصل کے وسیلہ کے بغیر ممکن نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تابع اپنےقصور سے اصل کو متوسط نہیں جانتا لیکن فی الحقیقت اصل تابع اور اس کے شہود کے درمیان حائل ہوتا ہے۔ نہ ایسا جوشہودکا مانع ہو بلکہ عینک صاف کی طرح شہود کا باعث ہوتا ہے اور جائز نہیں کہ ایک کلی کی جزئیات ترقی کر کے اور اپنی کلی سے خروج کر کے دوسری کلی کے ماتحت آ جا ئیں اور ان کا شہوداس دوسری کلی کاشہود ہو۔ مثلا وہ لوگ جو حضرت موسی علیہ السلام کے قدم کےنیچے ہیں ، انتقال کر کے حضرت عیسی علیہ السلام کے قدم کے نیچے داخل نہیں ہو سکتے ہیں ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت محمدﷺکے زیرقدم آ جائیں بلکہ ہمیشہ آنحضرت ﷺکے قدم کے نیچے ہیں کیونکہ محمد ﷺکا رب رب الارباب ہے اور ان تمام کلیات کا اصل ہے ۔ پس وہ جزئیات کے لئے اصل الاصل ہوگا اوریہ ترقی گویا اصل اصل کی طرف ہوگی نہ کہ اصل کی طرف جو ان کے اصل کے مبائن(ضد، مخالف) اوربر خلاف ہے اس قدر جزیات اور کلیات کے درمیان رہے گا کہ جزئی کے دو حائل ہیں ۔ ایک اس کا اپنا اصل جو اس کی کلی ہے اور دوسرا حائل اصل الاصل اور اس کی کلی کے لئے حجاب اصل الاصل ہے ۔ پس یہاں سے معلوم ہوا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺکا شہودبے پردہ تعینات ہے اور دوسروں کا شہود پردہ تعینات میں ہے یا پردہ تعین محمدی میں ۔ اسی واسطے کہتے ہیں کہ تجلی ذات حضرت محمد رسول الله ﷺ کا خاصہ ہے اور دوسروں کی تجلی پرده صفات میں ہے یا پردہ رب الارباب میں کہ حضرت محمد ﷺکا رب ہے جو سوائے صفت الحیات کے تمام اسما و صفات سے برتر ہے۔ اگر کہیں کہ اس بیان سے لازم آتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم الصلوة والسلام کاشہود مبدأ تعین محمدی ﷺکے پردہ میں ہے جو آنحضرت ﷺکا رب ہے اور آنحضرت ﷺکی امت کے اولیاء جو ہالا صالت آنحضرت ﷺکے زیرقدم ہیں۔ ان کا شہودبھی انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے شہود کی طرح پردہ رب الارباب میں ہوگا ۔ پھر تمام انبیاء علیہم الصلوة والسلام اور آنحضرت ﷺکے اولیائے امت کے درمیان کیا فرق رہا۔ تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے لئے اس شہود کے سوا جو پردہ حقیقت محمدی میں ہے ایک اور شہود بھی ہےجوان کے مبادی تعینات کی راہ سے پیدا ہوتا ہے اور بالاصالت (براہ راست) اپنی مخصوصہ عینکوں کو بصیرت کی آنکھ پر رکھ کرغیب الغیب کا مشاہدہ فر ماتے ہیں۔ 

جاننا چاہیئے کہ ان ہر دو شہود سے یہ مرادنہیں کہ دونوں ایک ہی وقت میں ثابت ہوتے ہیں ۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ اگر اصل الاصل تک ترقی پہنچ جائے تو اس کا شہودحضرت عیسی علیہ السلام کی طرح جونزول کے بعد اس دولت سے مشرف ہونگے حقیقت محمدی کے پردہ میں ہیں اور یہ ترقی بہت مشکل ہے اور محال کے نزدیک ہے ۔ اس ترقی کے لئے خدائے تعالیٰ کا بڑافضل درکار ہے اور عالم اسباب میں محمدی مشرب پیر کی شفقت ہونی چاہیئے اور اگر اپنے اصل سے ترقی نہ کرے اور اپنی حقیقت سے حقیقت الحقائق (ذات بحت مرتبہ احدیت وجود مطلق کو کہتے ہیں اس لیے کہ وہ جملہ کائنات کی حقیقت ہے اسی سے سب کا وجود ہے)تک نہ پہنچے اس کا شہود اپنی مخصوصہ حقیقت کے مرتبہ میں ہے۔ 

جان اور آگاہ رہو کہ جس طرح حقیقت الحقائق سے حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کی طرف رہا ہے جو منازل کثیر ہ کے طے کرنے کے بعد وہاں تک وصول میسر ہوتا ہے۔ اس طرح تمام حقائق کلیات سے بھی حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کی طرف راہ ہے جس میں بہت سے مرحلے طے کرنے کے بعد وصول حاصل ہوتا ہے۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ حقیقت الحقائق کی راہ میں وصل عریان ہے اور باقی طریقوں میں اگر چہ وصل ذات میسر ہوتا ہے لیکن اس سیر کے لئے اصول عالیہ کے منتہا میں حقیقت الحقائق جو حقیقت محمدی ﷺ ہے۔ درمیان میں حائل ہے۔ اگر چہ حصن حصین اور مانع متین نہیں ہوتی لیکن اس قدر حاجزیت اور حاملیت بھی بہت ہے جوتجلی ذات کے اطلاق کی مانع ہوتی ہے ورنہ باقی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو بھی بالاصالت (براہ راست) حق تعالیٰ کی ذات سے حصہ حاصل ہے اور ان کی امت کے کاملوں کو انبیاء و رسل علیہم الصلوة والسلام کی متابعت کے باعث حصہ حاصل ہوتا ہے۔

 سوال: جب صفت الحيات صفت العلم سے برتر ہے تو حقیقت الحقائق کی راہ میں بھی صفت الحیات کا تعین حائل ہوگا پھر وصل عربانی کس طرح ہو گا اور اس کو تجلی ذات کیوں کہتے ہیں؟

 جواب: وہ تعين لاتعین کی مانند ہے اورمحو متلاشی ہو جاتا ہے اور حضرت ذات تعالیٰ کے مرتبہ میں کچھ اعتبار نہیں رہتا۔ اگر چہ دوسری صفات کیلئے بھی مرتبہ ذات میں کچھ اعتبارنہیں لیکن مرتبہ ذات میں وہ اس طرح نہیں پہنچتیں کہ متلاشی ہو جائیں ۔ برخلاف صفت الحیات کے کہ وہاں پہنچ کر متلاشی ہوجاتا ہے ۔ اسی واسطے حقیقت محمدی کا تعین اور دوسرے خلائق دائمی ہیں اور مراتب میں سے کسی مرتبہ میں ان کا زائل ہونا محال ہے ہاں کسی شے تک پہنچنا اور اس شے میں مضمحل(نابود) ہونا امر دیگر ہے اور بعض مشائخ رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت میں جو لفظ کومحواضمحلال واقع ہوتا ہے۔ اس سے مرادمحوو اضمحلال نظری ہے نہ محوذاتی یعنی سالک کا تعین اس کی نظر سے مرتفع ہو جاتا ہے ۔ نہ کہ نفس الامر(اصل حقیقت) میں محو ہو جاتا ہے کہ یہ الحاد زندقہ (بے دینی) ہے اس راستہ کے بعض ناقص ان الفاظ موہمہ سےمحو اضمحلال عینی جان کر زندقہ تک گئے ہیں اور عاقبت کے ثواب و عذاب سے انکار کر دیا ہے ۔ انہوں نے خیال کیا ہے کہ جس طرح دحدت سے کثرت میں آئے ہیں اسی طرح دوسری مرتبہ کثرت سے وحدت میں جائیں گے اور یہ کثرت اس وحدت میں مضمحل ہو جائے گی۔ اور ان زندیقوں میں سے بعض نے اس محو ہونے کو قیامت کبری خیال کیا ہے اور حشر دنشر وحساب وصراط و میزان سے انکار کیا ہے ضَلُّوْا فَاَضَلُّوْا  كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ (یہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا) ان لوگوں میں سے میں نے ایک شخص کو دیکھا ہے کہ اپنے مطلب میں مولانا عبدالرحمن جامی قدس سرہ کے اس شعر کو بطور شہادت پیش کرتا تھا

 جامی معاد و مبدأ ما وحدت است و بس ما در میان کثرت موہوم والسلام ترجمہ: معادو مبدأ ہمارا جاميا وحدت برائے نام ہیں ہم درمیان کثرت 

نہیں جانتا کہ مولانا کی مراد اس بیت سے وحدت کی طرف عود و رجوع کرنا نظر وشہود کے اعتبار سے ہے کیونکہ ایک ذات کے سوا کچھ ان کامشہودنہیں رہتا اور تمام کثرتیں ان کی نظر سے پوشیدہ ہوجاتی ہیں۔ رجوع عینی اور وجودی مراد نہیں ہے۔ 

یہ لوگ شاید اندھے ہیں کہ دیکھتے ہیں کہ کسی کام سے بر وقت و احتیاج زائل نہیں ہوتی پھر وحدت کی طرف رجوع وجودی کے کیا معنی ہیں اور اگر وحدت کی طرف رجوع کرنا موت کے بعد خیال کیا ہے تو کافرزندیق (بے دین) ہیں کہ عذاب آخرت سے انکار کرتے ہیں اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو باطل سمجھتے ہیں۔

سوال: تو نے اپنے رسالوں میں لکھا ہے کہ فنائےا خفی ولایت محمدی کے ساتھ مخصوص ہے اس کے کیا معنی ہیں؟

 جواب : گزشتہ تحقیق سے معلوم ہو چکا ہے کہ وصل عریان ولایت محمدی ﷺکے ساتھ مخصوص ہے اور دوسروں کے لئے حجاب اگر چہ مرتفع ہو جاتے ہیں لیکن پیراہن شعر(بال سے باریک کپڑے) کی مانند حیلولہ(پردہ) سے جو حقیقت محمدی ﷺکے توسط کی راہ سے حاصل ہوتا ہے چارہ نہیں ہوتا جیسا کہ گزر چکا ۔ پس اخفی سے جو مراتب انسانی کی نہایت ہے اس حیلولہ کے اندازه کے موافق بلندی میں بقیہ رہ جاتا ہے پس اس بقیہ کے لحاظ سے فنائے مطلق کا اطلاق جائز نہیں ہوتا ۔ اس بقیہ کے بقا کومحمدی ﷺ کے سوا اور کوئی نہیں معلوم کر سکتا ۔ ہزاروں محمدی مشرب میں سے اگر کسی کو اسن قسم کی تیز نظر حاصل ہوجائے تو پھر غنیمت ہے۔مشائخ طبقات میں سے اکثر نے روح وسرتک ہی گفتگو کی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جس نے خفی کا سر بیان کیا ہو تو پھر اخفی کی نسبت کس طرح بیان کر سکے اور جس شخص نے دریائےاخفی میں غوطہ لگایا ہو اور اس کے ذرات میں سے ہر ذرہ تک پہنچا ہو اور اس پر اطلاع پائی ہو۔ وہ کبریت احمر ہے۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)

سوال: تو اس امر کا معتقد ہے کہ جوکمالات نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے کامل تابعداروں کو تبعیت (اتباع کے طور پر)کے طور پر ان کمالات سے حصہ حاصل ہوتا ہے۔ پس لازم آتا ہے کہ ان کو وصل عریانی (ذات حق کاایسا مشاہدہ جس میں کسی اعتبار زائد کا نشان نہ ہو ) سے بھی حاصل ہوگا۔ حالانکہ وہی حائل در میان ہے؟

 جواب: وصل عریانی میں نبی کا حیلولہ ضرر نہیں رکھتا کیونکہ وہ وصل تبعیت کے طور پر ہے نہ اصالت کے طور پر پس حیلولہ تبعیت کا مؤکد ہوگا نہ کہ اس کے منافی کیونکہ تبعیت کے معنی متوسط کا حاصل ہونا ہے نہ کہ متوسط کارفع ہوتا کہ وہ مقام اصالت کے مناسب ہے۔ پس حیلولہ بھی ہوگا اور وصل عریانی بھی تبعیت کے طور پر میسر ہوگا ۔ فافہم۔

 سوال: کیا سبب ہے کہ نبی علیہ الصلوة والسلام کے کامل تابعداروں کے حق میں وصل عربانی اور تجلی ذاتی کا اطلاق کرتے ہیں اور دوسرے انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے حق میں یہ اطلاق تجویز نہیں کرتے حالانکہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا حیلولہ دونوں کے حق میں حاصل ہے؟

 جواب: کامل تابعداروں کے حق میں اس اطلاق کا تجویز کرنا تبعیت کے اعتبار سے ہے کہ نبی کا توسط اس اطلاق کے منافی نہیں ہے جیسا کہ گزر چکا اور دوسرے انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے حق میں اگر یہ اطلاق تجویز کیا جائے تو اصالت کے اعتبار سے ہوگا کیونکہ یہ بزرگوار اصالت کے طور پر منازل کو قطع کر کےذات حق تعالیٰ تک پہنچتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ اصالت کی صورت میں متوسط کا حاصل ہونا اس اطلاق کے منافی ہوگا ۔ پس فرق واضح ہوگیا۔ 

جاننا چاہیئے کہ گزشتہ انبیائےعلہیم الصلوة والسلام اور اس امت کے کامل تابعداروں کے در میان و تبعیت کا فرق انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی افضلیت کا موجب ہے کیونکہ اصل مقصودی ہے اور تابع طفیلی ۔ اگر تابعداروں پر وصل عریانی (ذات حق کاایسا مشاہدہ جس میں کسی اعتبار زائد کا نشان نہ ہو ) اورتجلی ذات کا اطلاق صحیح ہے اور متبوعوں میں یہ اطلاق جائز نہیں ۔ لیکن طفیلی کی کیا طاقت ہے کہ مقصودی کے ساتھ برابری کرے اور کس طرح برابری کر سکے جبکہ اصل میں وہ دولت اتم و اکمل طور پر ہے اور تابع میں اسم و رسم کے طور پر لیکن اس قدر مناسبت نسبت کو درست کرتی ہے اور تابع کو متبوع کی طرح بنائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺنے اپنی امت کے علماء کو بنی اسرائیل کی مانند فرمایا ہے۔ 

اس بیان سے واضح ہوا کہ اس امت کے اولیاء کو تجلی  ذات کا حاصل ہونا۔ ان انبیاء پر جن کو تجلی ذات حاصل نہیں ، فضیلت کا باعث نہیں ہے۔ اس بات کوغور سے سوچنا چاہیئے کیونکہ یہ مقام لغزش ہے اور انصاف کرنا چاہیئے کیونکہ الله تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمدﷺ کے طفیل اپنے علوم کے ساتھ اس ضعیف بندے کو ممتاز فرمایا ہے۔

 سوال: یہ امر ثابت و مقرر ہے کہ پیدائش سے مقصود حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام ہیں ۔ دوسرے نفس وجود اور حصول کمالات میں ان کے طفیلی ہیں اور انہی کی تبعیت سے بلند درجوں تک پہنچتے ہیں۔ اسی واسطے قیامت کے دن حضرت آدم علیہ السلام وغیرہ سب آنحضرت ﷺکے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور تو نے اور کہا ہے کہ تمام انبیاء علیہم الصلوة والسلام کو وصول کی دولت بطریق اصالت حاصل ہے نہ بطریق تبعیت ۔ اس کی کیا وجہ ہے اور جیسا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺکے لئے اپنی حقیقت کی جہت سے حضرت ذات تعالیٰ کی طرف راستے ہیں اور اس وصول میں تبعیت نہیں ۔ بر خلاف امتوں کے کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی تبعیت سے ان کے حقائق کی راہ سے اپنی اپنی استعداد کے مناسب مطلب تک پہنچ جاتے ہیں اور اصالت ان کے حق میں مفقود ہے۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ دوسروں کا وصل اگرچہ اصالت کے طور پر ہو وصل عریانی نہیں ہے کیونکہ خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کی حقیقت مطلوب کا پیرہن شعر ہوئی ہے۔ پس اول جو فیض کہ آتا ہے اس حقیقت کے ساتھ اتصال پاتا ہے۔ بعد ازاں اس کے وسیلہ سے دوسروں کو پہنچتا ہے اور تبعیت کے معنی بھی توسط کا حاصل ہونا ہے۔ پس وہ اصالت اس تبعیت کے مخالف نہیں اور اچھی طرح معلوم کرنا چاہیئے کہ وہ تبعیت جو امتوں کے حق میں کہی گئی ہے وہ اس تبعیت کے ماسوا ہے جو اصالت کے منافی ہے جیسا کہ کئی بار ذکر ہو چکا ہے۔ پس دونوں کے درمیان فرق ظاہر ہو گیا۔

سوال: اگر کہیں کہ کاملوں کو مراتب عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) میں مرتبہ صفت الحیات سے بھی حصہ حاصل ہوتا ہے یانہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ حاصل ہوتا ہے اور اگر کہیں کہ اوپر مذکور ہو چکا ہے کہ اس صفت کے نہایت کو حضرت ذات تعالیٰ میں اضمحلال و تلاش ہے اورمحوو تلاش سے کاملوں کا کیا نصیب ہوگا حالانکہ تو نے بیان کیا ہے کہ تعینات حقائق کے لئے اضمحلال عینی نہیں ہے اور اگر ہے تو نظری ہے کیونکہ اضمحلال عینی  الحادوزندقہ تک پہنچا دیتا ہے؟

 جواب: اضمحلال عینی کی کیا ضرورت ہے۔ اضمحلال نظری کافی ہے اگر چہ اس اضمحلال میں بہت سے مراتب متفاوت(فرق)  ہیں۔ فَاَفْھَمْ وَاللَّهُ سُبحَانَه أَعْلَمُ ‌بِحَقِيقَةِ ‌الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰ اَتَمَّهَا وَاَدْوَمَهَا

 اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ443ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں