چھپنویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ستاونویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس السادس والخمسون فی المراقبۃ فی اللہ‘‘ ہے۔

  منعقدہ 19 رمضان 545 بروز صبح اتوار بمقام خانقاہ شریف

ہر زندگی کی غرض و غایت اور انتہا موت ہے۔

اے بیٹا! میں تیرا رہن سہن اللہ والوں کے رہن سہن سے مختلف دیکھتا ہوں جن کا دھیان اللہ کی طرف رہتا ہے اور جو اللہ کا ڈر رکھتے ہیں ۔ تیراملنا جلنا ان سے ہے جو شریر اور فساد کرنے والے ہیں ،جبکہ اولیاء اللہ اور برگزیدہ لوگوں سے دور دور رہتا ہے، تو نے اپنا دل اللہ کی ذات سے خالی کر لیا ہے اور اسے دنیا اور اہل دنیا اور دنیا کے اسباب کی خوشی سے بھر لیا ہے ۔ کیا تجھے نہیں پتہ کہ اللہ کا خوف دل کا کوتوال ہے اور اسے منور کرنے والا اور اس کی وضاحت و تفسیر کرنے والا ہے۔ اگر تو اس حال پر ثابت قدم رہا تو دنیا وآخرت میں سلامتی سے محروم ہو گیا ، اگر تو موت کو کثرت سے یاد کرتا تو دنیا کے ساتھ تیرا خوش ہونا کم ہو جا تا اور اس میں تیرا زہد بڑھ جا تا ۔ جس کا آخر موت ہو وہ کسی چیز سے کیسے خوش رہ سکتا ہے، رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا:

‌لِكُلِّ ‌سَاعٍ غَايَةٌ، وَغَايَةُ كُلِّ سَاعٍ الْمَوْتُہر سعی کرنے والے کی ایک انتہا ہے، اور ہر زندہ کی غرض و غایت اور انتہا موت ہے۔‘‘ سب خوشیوں اور غموں ، امیری اور فقیری سختی اور نرمی ، دکھوں اور بیماریوں کا آخر وانجام موت ہے۔ جو مر گیا اس کے لئے قیامت برپا ہوگئی ۔ جو شے اس کے لئے دور تھی ،اب قریب آ گئی، وہ سب کچھ سراسر حرص ہے جس میں تو مبتلا ہے، ان سب سے تو اپنے دل اور باطن اور باطن الباطن کے ساتھ الگ ہو جا،د نیا میں تیرا رہنا ایک مقررہ وقت تک ہے جبکہ آخرت میں رہنا ہمیشہ کے لئے اور نامعلوم وقت تک ہے، کوشش کر کہ تو سراپا طاعت بن جائے ، ایسا کرنے سے تو مکمل طور پر اللہ کا بن جائے گا۔

نفس کا وجود گناہ ہے، اور اس کا گم کردیناطاعت ہے، خواہشوں پرعمل کرنانفس کا وجود ہے اور ان سے باز رہنا  نفس کا گم کر دینا ہے نفسانی  خواہش سے رک جا  انہیں حاصل نہ کر،اللہ کی تقدیر  اور موافقت  کے بغیر  خواہشات  کو حاصل نہ کر ، نہ ا پنی خود  مختاری  سے   اپنی خواہش سے ، خود پر جبر کرتے ہوئے ، گو یا نہ چاہتے ہوئے زہد کے ذریعے خواہشیں حاصل کرے ۔ زہد اور بے رغبتی کے ہاتھ ہلاتے ہوئے مقدرخواہشیں حاصل کر اور انہیں نفس تک پہنچائے ، زہد ضروری ہے ، اور اپنی حالت کے علم سے پہلے اس کی ضرورت ہے ، زہدو بے رغبتی تاریکی میں ہوتے ہیں اور رغبت و تو جہ روشنی میں ابتدائی حالت تاریکی ہے اس سے نکلے گا تو روشنی دکھائی دے گی ، قدرت تاریکی ہے اور قدرت والے کے ساتھ تیرا قیام روشنی ہے۔

اللہ کی طرف سے جب یہ کھل جائے گا، اور تو اس کے حضور میں ثابت قدم ہو جائے گا تیرا معاملہ روشن ہو جائے گا، معرفت کے چاند کی روشنی جب پھیلتی ہے تو قدر کی رات کی تاریکی دور ہو جاتی ہے، لہذا اللہ کی معرفت کا آفتاب جب چمک جائے گا تو ہر طرح کی کدورتیں اور تاریکیاں چھٹ جائیں گی، وہ تمام چیز یں جو تیرے قریب ہیں یا تیرے سے دور ہیں ، سب تجھ پر ظاہر ہو جائیں گی ۔ اس سے پہلے جو تجھ پر مشکل حالات تھے، وہ سارے واضح ہو جا ئیں گے، تجھے خبیث اور پاک میں تمیز ہو جائے گی ، اور دوسروں کے اور اپنے معاملات کے بارے میں فرق سامنے آ جائے گا ۔ مخلوق کی مراد اور اللہ کی مراد میں فرق کرنے لگے گا مخلوق کا اور خالق کا دروازہ الگ الگ دیکھنے لگے گا۔۔۔۔اب خالق کے دروازہ پر ‌مَالَا ‌عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍجو نہ آ نکھ نے دیکھا اور نہ کانوں نے سنا اور کسی انسان کے دل پر اس کا خیال گزرا ۔

 تیرا دل اللہ کے مشاہدہ کے طعام سے کھائے گا ، انس کی شراب سے پئے گا ، اور قبول کی خلعت سے نوازا جائے گا ۔ پھر مخلوق کی مصلحتوں کے لئے مخلوق کی طرف لوٹا دیا جائے گا تا کہ انہیں: –

 گمراہی سے واپس لایا جائے ۔ – اللہ کی طرف لوٹایا جائے ۔گناہوں سے بچایا جائے ۔ یہ لوٹنا سخت مضبوطی اور دائمی حفاظت اور سلامتی کے ساتھ ہوگا ، اس سے بے خبر اور اس پر ایمان نہ لانے والے! تو مغز کے بغیر چھلکا ہے اور فقط ایک ٹیک لگانے والی لکڑی ہے، جو خستہ حال ہے اور جلانے کے کام آ سکتی ہے ، ہاں مگر تو بہ کرنےاور ایمان لانے اور تصدیق کرنے میں نجات ہے ۔

 تجھ پر افسوس! اگر تو تو بہ کر لے اور ایمان لے آئے اور تصدیق کرے اور تقدیر کے ساتھ موافقت کرے، تو بھلائی اور سلامتی اور شیرینی پائے ۔ا گرایسا نہ کرے تو اس میں کانچ کے ٹکڑے پائے گا جو تیری زبان اور تالواور جگر کے ٹکڑے کر ڈالیں گے ، میری بات مان لے، یہ طے ہے کہ میں تیری رسیوں کو بل دیتا ہوں ، میری بات مان لے اور مجھ سے دشمنی نہ کر ۔ میرے اور تیرے بیچ میں کس چیز کی عداوت ہے، میں تیری عبادتوں کے لئے ایک مسجد کی طرح ہوں، تیری نجاستیں اور میل کچیل دور کرتا ہوں ، تیرے لئے راستہ صاف کرتا ہوں ، اس میں تیرے لئے کھانا پینا رکھتا ہوں ۔ میں یہ سب تیرے ساتھ کرتا ہوں اور اس کا کچھ بدلہ بھی نہیں چاہتا، میری اجرت ،میرے پیالے کا بھرنا تیرے ذمہ نہیں بلکہ کسی دوسرے کے ذمہ ہے۔ میرا مشغلہ تو محض اللہ کے لئے طالب علموں کی خدمت کرنا ہے، جب اللہ کے لئے تیری طلب درست ہو جائے گی تو تیری خدمت بھی میری ذمہ داری میں شامل ہو جائے گی ، جب بندے کا ارادہ اوراس کی طلب مکمل طور پر اللہ کے لئے ہو جائے تو سب چیز یں اس کی خدمت کے لئے مسخر ہو جاتی ہیں ۔

 عظیم وعلیم مالک کے دامن رحمت سے وابستہ رہ:

اے بیٹا تو اپنے نفس کو خود نصیحت کر ، میرا یا کسی اور کا محتاج نہ ہو،  میراوعظ تیرے ظاہر پراور تیرا وعظ تیرے باطن پر اثر کرتا ہے، اپنے نفس کو ہمیشہ موت کے ذکر کی نصیحت کر تمام اسباب اور علاقوں سے تعلق ختم کر دے، اور سب مالکوں کے مالک، پیدا کرنے والے عظیم علیم سے واسطہ رکھ، اس کی رحمت اور شفقت کے دامن سے لپٹ جا، اس کے غیر کی طرف دھیان نہ کر وہ غیر تجھے اس سے دوری میں ڈال دے گا، تم میں سے جب کوئی میرے ہاتھ پر نجات پا تا ہے تو میں اس کے لئے نہایت خوش ہوتا ہوں، اور جب کسی کو نصیحت کروں اور وہ نہ مانے تو اس پر بڑا دکھ ہوتا ہے، ایمان والا میرے قریب ہوتا ہے اور منافق مجھ سے دور بھاگتا ہے ۔ اسے منافقو میں تم پر غصہ کر کے ان کی موافقت کرتا ہوں اسنے مجھے تم  پر وہکتی ہوئی آگ بنا دیا ہے اگر تم تو بہ کرو ، اور جو میں کہوں اسے قبول کرو اور میری سخت کلامی پر صبر سے کام لو، تو میں تم پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈک بن جاؤں گا،۔ تم پر افسوس ہے کہ تم شرم نہیں کرتے ،تمہاری اطاعت اور تابع داری ظاہری ہے جبکہ باطن میں گناہ ہیں، تم عنقریب بیماری اور موت کے پنجے میں جکڑے جاؤ گے، پھر اللہ کی آگ دوزخ میں قید کر دئیے جاؤ گے ۔اے عملوں میں کوتاہی کر نے والو! تم ذرا بھی شرم نہیں کرتے ، رات دن فضول باتوں میں بیکار لگے رہتے ہو،۔عمل کرنے میں کوتاہی کرنے کے باوجوداللہ کی نعمتوں کی تمنا رکھتے ہو، اعمال خیر کثرت کے ساتھ کروتا کہ تمہارے نفسوں کو اس کی عادت ہو، شروع میں ہر نئے کام کرنے والے کے لئے ایک دہشت ہوتی ہے، آخر کارتم صاف اور خالص ہو جاؤ گے، سب کدورتیں جاتی رہیں گی، اگر توبہ کرو ابتدا اور انتہا دونوں کی ضرورت ہے، اللہ کی معرفت کے میدان میں اتر آؤ ، مقرب ہو جاؤ گے۔ اے اپنے مالک کی خدمت سے بھاگنے والو! اے اپنی رائے کے ساتھ نبیوں اور رسولوں اور اصفیاء کی رائے سے بے پروائی برتنے والو، اے خالق کو چھوڑ کر مخلوق پر بھروسہ کرنے والو! کیا تم نے نے ایسانہیں  سناکہ رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: ملعون ملعون من كانت ثقته بمخلوق مثله

ملعون ہے ملعون ہے وہ جس کا اپنے جیسی مخلوق پر بھروسہ ہے۔نہ  دنیا کوطلب کر نہ اس کی کسی  چیز کے لئے غصہ کر، کیونکہ یہ تیرے دل کو اس طرح خراب کر دے گا جس طرح سرکہ شہد خراب کر دیتا ہے۔

تجھ پر افسوس ! تجھ میں دنیا کی محبت اور تکبر دونوں جمع ہیں ، اگر ان دوخصلتوں والا تو بہ نہ کرے تو اس کے لئے نجات نہیں ، عقل کر تو کون ہے اور کیا شے ہے، اور کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ،سوچ اور تکبر نہ کر، تکبر  وہ کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں اور اس کے نیک بندوں سے ناواقف ہے، اے کم عقل ! غرور کر کے بلندی کی تمنا کرتا ہے، اس کے خلاف کر، تجھے بلندی حاصل ہو جائے گی ، رسول اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: من تواضع لله رفعه الله عزوجل ومن تكبر وضعه الله

جواللہ کے لئے جھکتا ہے اللہ اسے بلند کرتا ہے، اور جو تکبر کرتا ہے،اللہ اسے پست کرتا ہے۔ جس نے آخرت کو پسند کیا وہ پہلے لوگوں کی صف میں شامل ہوا، اور جس نے تھوڑے کو پسند کیا اسے بہت کچھ ملا، جو شخص ذلت پر راضی ہوا، اسے عزت ملی تو کم تر درجے کو پسند کر لے تا کہ امر تیرے حق میں بدل جائے،  جو تقدیر کے آگے جھکا اور اس پر راضی ہوا، اللہ اسے بلند کرتا ہے جو ہر شے پر قدرت والا ہے، عاجزی اور حسن ادب اللہ سے قریب کرتے ہیں، بے ادبی اور تکبر اللہ سے دور  کرتے ہیں اطاعت و فرمانبرداری  تیری اصلاح کرتے ہیں اور تجھے  قریب کرتے ہیں، جبکہ نافرمانی تجھے خراب کرے گی اور اللہ سے دور کر دے گی ،  اے بیٹادین کو ایک انجیر کے بدلے نہ بیچ، اپنے دین کو بادشاہوں اور امیروں اور حاکموں کے انجیر اور حرام لقمے کے بدلے نہ بیچ،  جب دین کے بدلے دنیا کھائے گا توتیرادل سیاہ ہو جائے گا ، اور سیاہ کیسے نہ ہو کہ تو تو مخلوق کی عبادت کرنے لگا ہے!

اے رسواوذ لیل! اگر تیرے دل میں نور ایمان ہوتا تو حرام  اور  مشکوک اور مباح میں فرق کر لیتا، جو چیزدل  کوسیاہ کرتی ہے یا روشن بناتی ہے۔ اور جو چیز تیرے دل کو اللہ سے قریب کرتی ہے یا دور کرتی ہے ،اس میں امتیاز کر لیتا ۔ اے جاہل ! میں تو اللہ کی ذات پر توکل اور سب کے سوا کسی اور چیز کونہیں پہچانتا۔ ایمان کے شروع میں کسب کے ذریعے لین دین ہوتا ہے، پھر ایمان کے طاقت پکڑ لینے پر اللہ اور تیرے درمیان جو واسطے ہیں، انکے اٹھ جانے کے بعد اللہ سے لین دین ہوتا ہے، دل مضبوط ہو جانے پر اللہ کے حکم سے مخلوق کے ہاتھوں پر لیتا ہے، اور میرے قول براہ راست کے یہ معنی ہیں کہ دل کا وسائط اور شرک کے ساتھ ٹھہراؤ نہ ہو، احکام الہی پر عمل کرے، اور مخلوق خدا سے لین دین کرے، جب وہ تعریف یا برائی کریں ، یا کوئی قبول یا نا قبول ہوتو کان بند کر لے، اگر وہ کچھ دیں تو اسے فعل الہی کے تحت سمجھے۔

اولیاء اللہ تو غیر اللہ سے گونگے بہرے ہیں، ان کے نزدیک تو صرف اللہ ہی خلقت کا مددگار ہے، اور اللہ ہی رسوا کرنے والا ہے، اور وہی عطا کرنے والا اور نقصان پہنچانے والا ہے، وہی فائدہ کرنے والا ہے ، ان کے پاس بغیر چھلکے کے مغز ہے اور بغیر کدورت کے صفائی ، بلکہ صفائی در صفائی اور پاکیزگی در پاکیزگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوان کے دلوں سے ساری مخلوق کو باہر نکال دیتی ہے، اور ان کے دلوں میں اللہ کے سوا کوئی باقی نہیں رہتا، ان کے دلوں میں غیر اللہ کے بجائے صرف اللہ کا ذکر خفی باقی رہتا ہے۔

اللهم ارزقنا العلم بك الہی! ہمیں اپنی معرفت عطا فرما۔“

 تجھ پر افسوں! تجھےیہ گمان ہے کہ تو اپنی کھوٹ چلانے کے لئے مجھ پر قدرت رکھتا ہے، اے منافق اگر مجھے شریعت کا حکم نہ ہوتا تو میں تیری طرف توجہ کرتا اور تجھے رسوا کر دیتا تو میرے ساتھ الجھ کر خود کو خطرے میں نہ ڈال کیونکہ مجھے اللہ اور اس کے محبوب بندوں کے علاوہ کسی سے شرم وحیا نہیں، جب کوئی خاص بندہ اللہ کو پہچان لیتا ہے تو ساری مخلوق اس کے دل سے گر جاتی ہے، اور سب اس سے یوں جھٹر جاتے ہیں جیسے موسم خزاں میں درختوں سے خشک پتے جھڑ جاتے ہیں ۔ یوں وہ مخلوق کے بغیر اکیلا رہ جاتا ہے، وہ مخلوق کو دیکھنے سے نابینا اور اپنے قلب و باطن کے لحاظ سے اس کی بات سننے سے بہرہ ہو جاتا ہے، نفس جب مطمئن بن جا تا ہے تو اعضاء کی حفاظت اسے سونپ دی جاتی ہے، اس کے بعد دل اللہ کی طرف سفر کر جاتا ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس کی تمنا کرتا ہے ۔ چنانچہ دنیا اس کے پاس آتی ہے اور نفس کی خادمہ بن کر اسکی حاجتوں کی تکمیل کرتی ہے ، جواللہ کے طالب ہیں ان کے ساتھ اللہ کا یہی برتاؤ ہوتا ہے،اپنے نصیب کا لکھا حاصل کرنے کے وقت بال بکھیرے ہوئے بدشکل بڑھیا کی شکل میں دنیا ان کے پاس آتی ہے اور انہیں ان کا پورا حصہ دے جاتی ہے، اور دنیا ان کی خادمہ ولونڈی بن جاتی ہے، اولیاء اللہ دنیا سے اپنے نصیب کا لکھا لیتے رہتے ہیں اور اس کی طرف ذرا دھیان نہیں دیتے ۔

اپنے دل کو اللہ کے لئے خالی کرنا :

 اے بیٹا! تو اپنے دل کو اللہ کے لئے خالی کر لے، اور اپنے اعضاء اور نفس کو کنبے کے لئے ، محنت ومشقت میں ڈال دے- اللہ کے حکم کے مطابق چل ، اور اس کے فعل سے ان کے لئے کمائی کر، اللہ کے سامنے سوال کرنا چھوڑ دینا صبر ورضا کے ساتھ خاموش رہنا ، دعاو سوال کرنے اور گڑ گڑانے سے بہتر ہے ۔  اس کے علم میں اپناعلم محو کر دے،  اس کی تدبیر میں اپنی تد بیر چھوڑ دے،  اس کے ارادے کے ساتھ اپنا ارادہ ترک کر دے، اس کی قضا اور قدر کے آنے پر اپنی عقل کو الگ کر دے، اللہ کو اگر تو اپنارب اور مددگار اور سلامتی دینے والا سمجھتا ہے تو اس کے ساتھ اس طرح برتاؤ رکھ جیسا کہ میں نے بیان کیا، اگرتجھے اس تک پہنچنا ہے تو اس کے سامنے خاموشی اختیار کر ، مومن کا دل اور اس کے خیالات وارادے سب ایک ہو جاتے ہیں ، اسے صرف ایک ہی خطرہ رہتا ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے دل کی طرف آ تا ہے، اور کوئی خیال باقی نہیں رہتا ۔ وہ اللہ کے قرب کے دروازے پر اطمینان سے کھڑا رہتا ہے، اللہ کی معرفت جب اس کے دل میں قرار پکڑ لیتی ہے تو اس کے سامنے کا دروازہ کھل جاتا ہے، چنانچہ اندر داخل ہو کر وہ وہ کچھ دیکھتا ہے جسے بیان کر ناممکن  نہیں۔ خطرہ و خیال قلب کے لئے اور باطن کے لئے اشارہ ہے، یہ ایک خفیہ کلام ہے، جو بندہ اپنے نفس اور خواہش اور برے اخلاق اور ساری مخلوق سے فنا ہو جائے وہ عافیت اور نعمت وخوشی میں ہے، اس حال میں اسے اصحاب کہف کی طرح پہلو بدلوائے جاتے ہیں ، جن کے بارے میں ارشاد باری ہے:  وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ

اور ہم ہی انہیں دائیں اور بائیں پلٹتے ہیں ۔ اے بیٹا میری باتیں غور سے سن ! اور انھیں جھٹلا کر اپنے نفس کو ہر طریقہ سے اور ہر بھلائی سے محروم نہ رکھ ۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 418،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 215دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں