اللہ تک نہ پہنچنے کی نشانی (تیئسواں باب)

اللہ تک نہ پہنچنے کی نشانی کے عنوان سےتیئسویں باب میں  حکمت نمبر 222 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

حال یا وارد کے باقی رہنے کی طرف  تمہارا  متوجہ ہونا، اللہ تعالیٰ  کے ساتھ ہرشے سے بے نیاز نہ ہونے کی دلیل ہے۔

جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے :-

222) تَطَلُّعُكَ إِلَى بَقَاءِ غَيْرِهِ دَلِيْلٌ عَلَى عَدَمِ وِجْدَانِكَ لَهُ

اللہ کے باقی رہنے کی طرف  تمہارا  متوجہ ہونا ، اس بات کی دلیل ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ  کو نہیں پایا ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ اس لئے کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ  کو پالیا ہوتا، تو تم کسی شے کو نہ طلب کرتے اور نہ تم کسی شے کے محتاج ہوتے۔ لہذا جو شخص وارد اور حال سے خوش ہوتا ہے، وہ وصال کو نہیں پاتا ہے۔ اور جو شخص غیر اللہ کا محتاج ہے، وہ عارف باللہ نہیں ہے۔ اور جو شخص کسی شے کا محتاج ہوتا ہے۔ یا کسی شے پر بھروسہ کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ  کی طرف سے نہ کسی شے میں ہے۔ نہ کسی شے پر ہے۔ (یعنی اس کو اللہ تعالیٰ  سے کچھ تعلق نہیں ہے )

اور اکثر میں فقرا سے کہتا ہوں :۔ جس شخص کو تم دیکھو کہ وہ وارد کے چھن جانے کے بعد  اپنے شیخ کو چھوڑ کر دوسرے شیخ کے پاس جاتا ہے۔ تو تم سمجھ لو کہ وہ اپنی پہلی حالت پر باقی ہے۔ اور عوام میں سے ہے۔ اور اپنے صدق کی کمی کی بنا پر وہ خصوصیت کے شہروں میں داخل نہیں ہوا ہے اگر وہ خصوصیت کے شہروں میں داخل ہوتا تو اس کی ہمت جمع ہوتی اور اس کا قلب مطمئن ہوتا ہے۔ اور

وہ غیر اللہ کے پانی سے بے نیاز ہوتا۔ لہذا اسکا اپنے شیخ کے علاوہ دوسرے کا پیاسا ہونا ، اس بات کی دلیل ہے، کہ اس نے اس کا پانی نہیں پیا ہے۔ یعنی اس سے فیضیاب نہیں ہوا ہے۔ اور کسی شاعر نے  خوب کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ  اس کو جزائے خیر دے۔ اور بیان کیا جاتا ہے، کہ یہ اشعار حضرت امام غزالی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :-

كَانَتْ لِقَلْبِي أَهْوَاءٌ مُفَرَّقَةٌ                                   فَاسْتَجْمَعَتْ مُذْرَاتُكَ الْعَيْنُ أَهْوَائِي

میرے قلب میں مختلف خواہشیں تھیں۔ لیکن میری آنکھ نے تم کو دیکھا تو میری سب خواہش سمٹ کر ایک ہوگئیں۔

فَصَارَ يَحْسُدُنِي مَنْ كُنتُ أَحْسُدُهُ  وَ صِرْتُ مَوْلَى الْوَرَى مُذْصِرْتَ مَوْلَائِی

پھر وہ لوگ مجھ سے حسد کرنے لگے، جن سے پہلے میں حسد کرتا تھا۔ اور جب تو میرا مولا ہو گیا ۔ تو میں مخلوق کا مولا ہو گیا۔

تَرَكْتُ لِلنَّاسِ دِينَهُمْ وَ دُنْيَاهُمُ                   شُغُلَا بِذِكْرِكَ يَا دِينِي وَدُنْيَائِي

اے میرے دین اور دنیا ! میں نے تیرے ذکر میں مشغول ہو کرلوگوں کے دین اور دنیا کو ان کے لئے چھوڑ دیا ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ  کے ساتھ ہرشے سے بے نیاز ہونے کی علامات میں سے – اللہ تعالیٰ  سے مانوس ہونا اور اس کے غیر سے متنفر ہونا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ  ہرشے سے بے نیاز کر دیتاہے۔ اور اس سے کوئی شے بے نیاز نہیں کر سکتی ہے۔ لہذا جب کوئی شخص اپنے رب کے شہود کے سوا کسی حال یا مقام کو کھو دیتا ہے۔ پھر وہ اس کے کھو جانے پر غم کرتا اور پریشان ہوتا ہے۔ وہ بارگاہ الہٰی سے دور ہے۔

جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے ۔

وَاسْتِيَحاشُك بِفِقْدَانِ مَا سِوَاهُ دَلِيلٌ عَلَى عَدَمِ وُصْلَتِكَ بِهِ .

ماسوی اللہ کے گم ہونے سے  تمہارا  رنجید ہ اور پریشان ہونا اللہ تعالیٰ تک  تمہارے  نہ پہنچنے کی دلیل ہے۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں : – احوال اور واردات کے گم ہونے سے  تمہاری    وحشت و پریشانی یارنج و غم اللہ تعالیٰ  تک  تمہارے  نہ پہنچنے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگر تم اس کے قریب پہنچ گئے ہوتے تو کسی شے سے گم ہونے سے تم کو غم یا وحشت نہ ہوتی ۔ اور درحقیقت تم نے کوئی شے گم نہیں کی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ  کے ساتھ بے نیازی کی علامت یہی ہے ۔ جب بندے کی کوئی ایسی شے گم ہو جائے جس کے گم ہونے سے گھبرانا اور پریشان ہونا یا رنج وغم کرنا، بندے کی عادت ہوتی ہے۔ مثلاً اولا دیا اس کے قریب کوئی شے یا ظا ہری عبادت یا اس کے علاوہ کوئی بھی فوت ہو جائے ۔ تو وہ معرفت الہٰی کی طرف رجوع کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہرشے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اور بندوں سے یہی مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔

لِّكَيۡلَا تَأۡسَوۡاْ عَلَىٰ مَا ‌فَاتَكُمۡ وَلَا تَفۡرَحُواْ بِمَآ ءَاتَىٰكُمۡۗ

تا کہ تم لوگ اپنی فوت شدہ چیز پر غم نہ کرو ۔ جو تم کو دیا ہے اس پر خوش نہ ہو۔   حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے تنویر میں بیان فرمایا ہے : تم یہ جان لو ۔ کہ اللہ تعالیٰ  تم کو حال میں اس لئے داخل کرتا ہے، تا کہ تم اس سے کچھ حاصل کرو۔ نہ اس لئے کہ وہ تم سے کچھ حاصل کرے۔ اور وہ اس لئے آتا ہے۔ کہ تم اس میں تعریف کا ہد یہ اللہ تعالیٰ  کی طرف سے اٹھا کر اپنی طرف لاؤ۔ پھر تم اللہ تعالیٰ  کی طرف اس کے اسم پاک مبدی   کے ساتھ توجہ کرو۔ کیونکہ اسی نے اس کو ظاہر کیا ہے اور باقی رکھا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں جو حصہ  تمہارا  ہے ، جب وہ  تم کومل جائے ۔ اس کے بعد جب امانت واپس ہو جائے۔ تو تم اللہ تعالیٰ  کی طرف اس کے اسم پاک معید کے ساتھ توجہ کرو۔ کیونکہ اسی نے اس کولوٹا یا اور اس کو فوت کیا ہے۔ لہذا تم ہر گز کسی رسول کے باقی رہنے کی خواہش نہ کرو، جبکہ اس نے اس کی رسالت پہنچادی ہے۔ اور نہ کسی امانت دار کے باقی رہنے کی خواہش کرو جبکہ اس نے اس امانت پہنچادی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ احوال کے زائل ہونے کے بعد ، انزال کے مرتبوں سے معزول ہوتے ہی کم ظرف رسوا اور ذلیل ہو جاتا ہے۔ اس وقت عیوب ظاہر ہو جاتے اور پردے چاک ہوجاتے ہیں۔ اور ظاہر ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  کے ساتھ بے نیازی کا کا دعوی کرنے والے کتنے ہیں اور در حقیقت اس کی بے نیازی اس کی عبادت یا اس کے نور یا اس کی معرفت کا دروازہ کھلنے کے ساتھ وابستہ ہے۔

اور اللہ تعالیٰ  کے ساتھ عزت کا دعوی کرنے والے کتنے ہیں۔ اور اس کی عزت مخلوق پر، اس کی معرفت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے مرتبہ اور شان کے ظاہر کرنے سے متعلق ہے۔ لہذا تم اللہ تعالیٰ کے بندے بنو ۔ نہ کہ اسباب کے بندے۔ اور جس طرح اللہ تعالیٰ  بغیر سبب کے  تمہارا  رب ہے۔ اسی طرح تم بھی بغیر کسی سبب کے اس کے بندے بن جاؤ۔ تا کہ تم اس طرح اس کے ہو جاؤ جس طرح وہ  تمہارا  ہے۔

یہاں تئیسواں باب ختم ہوا۔ اس باب کا حاصل :- قرب ووصال اور اس سے پیدا ہونے والے انزال کے مقامات اور احوال کے نتائج اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ  کے ساتھ بے نیازی کا بیان کرتا ہے۔ اور یہی وہ ہمیشہ اور برابر قائم رہنے والی نعمت ہے۔ جس کے بیان سے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے چوبیسواں باب شروع کیا ہے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں