ذوق و شوق کا مفقود ہونامکتوب نمبر 250دفتر اول

بعض استفساروں کے عمل میں ملا احمد برکی کی طرف صادر کیا ہے۔ 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       

حمد و صلوۃ  تبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ اس طرف کے فقراء کے احوال و اوضاع کے لائق ہیں اور آپ کی عافیت حق تعالیٰ سے مطلوب و مسئول ہے۔ 

آپ کا مکتوب شریف صادر ہوا۔ آپ نے لکھا تھا کہ وہ ذوق و خوشی جو اول حاصل تھی اب اپنے آپ میں نہیں پاتا اور اس بات کو اپنا تنزل جانتا ہے۔ سو میرے بھائی کو معلوم ہو کہ پہلی حالت اہل وجد و سماع کی طرح تھی جس میں جسد کو کامل دخل تھا اور جو حالت اب حاصل ہوئی ہے اس میں جسد کا کوئی دخل نہیں ہے اس کا زیادہ تر تعلق قلب و روح کے ساتھ ہے۔ اس معنی کا بیان کرنا تفصیل چاہتا ہے۔ حاصل یہ کہ۔ دوسری حالت پہلی حالت سے کئی مرتبہ بڑھ کر ہے اور ذوق کا نہ پانا اور خوشی کا دور ہونا، ذوق و خوشی کے پانے سے برتر ہے کیونکہ نسبت جس قدر جہالت اور حیرت میں ترقی کرے اور جسد سے دورتر ہو۔ اسی قدر اصل اور مقصود حاصل ہونے کے نزدیک تر ہے۔ اس لئے کہ اس مقام میں عجزوجہل کے سوا کسی اور چیز کی گنجائش نہیں ہے۔ جہل کو معرفت سے تعبیر کرتے ہیں اورعجز کا نام ادراک رکھتے ہیں۔ 

آپ نے لکھا تھا کہ اس نسبت کی وہ تاثیر جو پہلے تھی اب نہیں رہی۔ ہاں تاثیر جسدی نہیں رہی لیکن تاثیر روحی زیادہ تر حاصل ہوگئی ہے۔ لیکن ہر ایک شخص اس کا ادراک نہیں کرسکتا لیکن کیا کیا جائے آپ کی صحبت اس فقیر کے ساتھ بہت کم ہوئی ہے اور علوم و معارف خاصہ بہت کم مذکور ہوئے ہیں۔ شاید الله تعالیٰ کو منظور ہوگا کہ دوبارہ صحبت حاصل ہو اور پھر چند روز باہم اکٹھے رہیں۔ . 

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ باوجود زادو راحلہ کے اس زمانہ میں مکہ معظمہ جانا فرض ہے یا نہیں۔

میرےمخدوم! اس بارے میں فقہ کی روایتوں میں بہت اختلاف ہے اور اس مسئلہ میں مختار فقیہ ابو ليث رحمته الله علیہ کا فتوی ہے جو اس نے کہا ہے کہ اگر راستے میں امن اور عدم ہلاک کا ظن غالب ہے تو اس کی فرضیت ثابت ہےورنہ نہیں لیکن یہ شرط وجوب ادا کی شرط ہے نہ کہ نفس وجوب کی کہا ہو۔  یہی صحیح ہے  پس اس صورت میں حج کی وصیت واجب نہیں ہوتی چونکہ وقت نے موافقت نہ کی اس لئے آپ کے دوسرے استفساروں کے جواب کو کسی دوسرے مکتوب پرموقوف رکھا۔ والسلام۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ179 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں