سیر کی ابتداء عالم امرسے مکتوب نمبر58دفتر اول

  اس بیان میں کہ یہ راہ جس کے طے کرنے کے ہم در پے ہیں سب سات قدم ہے اور اس بیان میں کہ مشائخ نقشبند یہ قدس سرہم نے سیر کی ابتداء عالم امر سے اختیار کی ہے۔ برخلاف دوسرے سلسلوں کے مشائخ کے اور ان بزرگواروں کا طریق اصحاب کرام کا طریق ہے اور اس کے مناسب بیان میں سیادت مآب سید محمود کی طرف لکھا ہے۔

آپ کا بزرگ محبت نامہ صادر ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو اس بزرگ گروہ (حضرات نقشبندیہ)کی باتیں سننے کا شوق ہے اس لئے آپ کی عرض پورا کرنے اورمقصود کی طرف رغبت دینے کے لئے چند باتیں لکھی جاتی ہیں۔

میرے مخدوم ! یہ راہ جس کے طے کرنے کے ہم درپے ہیں۔ انسان کے سات لطیفوں کے موافق سب سات قدم ہیں ۔ دوقدم عالم خلق میں ہیں جن کا تعلق قالب اورنفس کے ساتھ ہے اور پانچ قدم عالم امر میں ہیں جو قلب و روح و سرخفی واخفیٰ کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان سات قدموں میں سے ہر ایک قدم میں دس ہزار پردے پھاڑنے پڑتے ہیں۔ خواہ وہ پردے نورانی (اللہ کی عظمت و کبرائی کے)ہوں یا ظلمانی(غفلت)۔ان لله سبعين الف حجاب من نور وظلمة تحقیق الله تعالی کے لئے ستر ہزار پردے نور اور ظلمت کے ہیں۔

اور پہلے قدم میں جو عالم امر میں لگاتے ہیں تجلی افعال ظاہر ہوتی ہے اور دوسرے قدم تجلی صفات اور تیسرے قدم پر تجلیات ذاتی کا شروع آجاتا ہے۔ علی ہذا القیاس در جوں کے تفاوت کے لحاظ سے ترقی ہوتی جاتی ہے جیسا کہ اس راستہ کے سالکوں پرمخفی نہیں ہے اور ان ساتوں قدموں میں سے ہر ایک قدم پر اپنے آپ سے دور ہوتا جاتا ہے اور حق تعالی کے نزدیک ہوتا جاتا ہے۔ حتی کہ ان قدموں کے تمام ہونے تک قرب بھی پورا ہو جاتا ہے۔ پھر  اس کے بعد فنا اور بقاء سے مشرف ہوتے ہیں اور ولایت خاصہ کے درجے تک جاتے ہیں۔

طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے مشائخ قدس سرہم نے بر خلاف دوسرے سلسلوں کے مشائخ کے اسی سیر کی ابتداء عالم امر سے اختیار کی ہے اور عالم خلق بھی اسی سیر کے ضمن میں طے کر لیتے ہیں۔ اسی واسطے طریقہ نقشبند یہ سب طریقوں سے اقرب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی انتہاان کی ابتداء میں مندر ج ہے ۔

قياس کن گلستان من بہار مرا

ترجمہ: اس گلستان سے میری بہار کو قیاس کرلے 

ان بزرگواروں کا طریقہ بعینہ اصحاب کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کا طریق ہے کیونکہ اصحاب کبار رضی الله تعالی عنہم کو حضرت سید البشر ﷺکی پہلی ہی صحبت میں انتہا کی ابتداء میں درج ہونے کے طریق پردہ کچھ حاصل ہوجاتا تھا جو امت کے کامل اولیاء کو انتہاء میں بھی حاصل ہونا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حمزه علیہ الرحمتہ کے قاتل وحشی جو ایک ہی دفعہ حضرت خیر البشر ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ خواجہ اویس قرنی سے جو سب تابعین سے بہتر ہے کئی درجے افضل ہے۔

عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حضرت معادیہ افضل ہے یا عمر بن عبدالعزيز تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ گردوغبار جو رسول الله ﷺکے ساتھ حضرت معاویہ کے گھوڑے کی ناک میں پڑا ہے۔ وہ عمر بن عبدالعزیز سے کئی گنا بہتر ہے تو پھر سوچنا چاہئے کہ جس گروہ کی ابتدا میں اوروں کی انتہا درج ہو اس کی انتہا کہاں تک ہوگی اور اوروں کے ادراک و فہم میں کسی طرح سمائے گی۔ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ

قاصرے گر کندایں طائفہ ر اطعن وقصورحاش للہ کہ برارم بزباں ایں گلہ را

ہمیہ شیران جہاں بستہ ایں سلسلہ ندا رو بہ از حیلہ جہاں بگسد این سلسله را

ترجمہ: اگر کوئی قاصرلگاۓ طعن ان کے حال پر توبہ توبہ گرزباں پر لاؤں میں اس کا گلہ

شیرہیں اسلام  میں سب کےسب جکڑے ہوئے توڑ سکتی کس طرح ہے لومڑی یہ سلسلہ

رزقنا الله سبحانه واياكم محبة هذه الطائفة العزيز وجودها حق تعالی ہم کو اور آپ کو اس عزيزالوجود گروہ کی محبت عطا فرمائے ۔ کاغظ اگر چہ ناقص ہے لیکن اس میں معارف بلند اور حقائق ارجمند درج ہیں امید ہے کہ عزیزمیں جائیں گے۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ188 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں