وجد کی حالت

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

 سید ناغوث اعظم وجد کے عالم میں:

ابھی آپ اتناہی کام کر پائے تھے کہ آپ نے ایک بڑی چیخ ماری اور کھڑے ہو گئے ۔ آپ کبھی دائیں جانب اورکبھی بائیں جانب جھک جاتے ، اور تسلیم ورضا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیئے تھے، – آخر مجلس تک آپ کی یہی حالت رہی ، پھرفرمایا:

ہائے آگ کی جلن !ہائے تمہارے لئے اس کی مصیبت“۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لئے پھیلا دیئے اور دعاکے لئے بیٹھ گئے اور خاموش رہے، اس کے بعد پھر پہلی حالت میں آپ کھڑے ہو گئے ۔ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہورہا تھا کبھی زرد ہو جاتا کبھی سرخ  جا تا ہے ۔

دنیا سے جب دل اٹھ جاتا اور قرب الہٰی کا مہمان بن جاتا ہے  تو مخلوق کی طرف سے فی الجملہ اسے عصمت حاصل ہو۔

اس کے نزدیک عرش سے لے کر زمین تک مخلوق گو یا پیدا ہی نہیں ہوئی ، گویا اللہ تعالی نے اس کے سواکسی کو پیدا نہیں کیا ، گویا اس کے سوا کوئی مخلوق ہی نہیں ہے، یعنی ایسے دل والا جس کا کہ ذکر کیا گیا، واحد ( اللہ تعالی )کے لئے واحد ایک ہی ہے ۔ وہ محب ومحبوب طالب ومطلوب،ذاکرو مذکور ہے،  اس کی نظر غیر پر جاتی ہی نہیں ۔

 شہر میں آنے والی بلا کی خبر دینا:

ایک بارسیدناغوث اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا: اس شہر میں جو بلا آ نے والی ہے، مجھے اس کی خبرمل گئی ہے، پھر آپ نے شہر والوں سے اس کے دفعیہ کے لئے دعا فرمائی، پھر عاجزی وانکساری سے فرمایا: قسم ہے اپنی جان کی ! اس شہرمیں یقینا ایسے لوگ ہیں جو قتل اور سولی پر چڑھائے جانے کے لائق ہیں لیکن ایک آنکھ کی خاطر ہزار آنکھوں کا اکرام کیا جا تا ہے ۔ تو ہمیں ان کے گناہوں سے ہلاک کرے گا اور پکڑے گا ، ہم نے کیا کیا ہے؟‘‘

یہ گفتگو آپ غصہ وغضب کے ساتھ فرمارہے تھے ’’دوست اور دشمن دونوں کو تقدیر کی بھٹی میں ڈال کر پگھلایا اور ایسا کر دیا کہ دونوں ایک ڈلی بن گئے۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 663،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں