کلام پر تاثیر کا لباس (بیسواں باب)

کلام پر تاثیر کا لباس کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 184 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
کلام پر تاثیر کا جو لباس ہوتا ہے، وہ کلام کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ کے اجازت دینے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر اللہ تعالی کی طرف سے کلام کرنے کی اجازت نہ ہوئی ہو تو ایسے کلام پر تا ثیر کا لباس نہیں ہوتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں واضح فرمایا ہے :۔
184) مَنْ أُذِنَ لهُ في التَّعْبيرِ فُهِمَتْ في مَسامِعِ الخَلْقِ عِبارَتُهُ، وَجُلِّيَتْ إلَيْهِمْ إشارَتُهُ.
جس شخص کو اللہ تعالی کی طرف سے بیان کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کا بیان مخلوق کے کانوں میں بھلا معلوم ہوتاہے اور اس کا اشارہ ان کو فائدہ پہنچا تا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : بیان کرنے کی اجازت ایسے کامل اور عارف شیخ کے واسطے سے ہوتی ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے تربیت کرنے کا اہل بنایا۔ اور اس کو اللہ تعالی سے ملانے اور ترقی دینے کے لئے مقرر کیا ہے۔ لہذا جب وہ اپنے مرید میں بیان کرنے کی اہمیت دیکھتا ہے تو اس کو بیان کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ لہذا جب وہ مرید بیان کرتا ہے ۔ تو وہ قلوب کی گہرائی میں اتر جاتا ہے۔ اورغیبی علوم کے جو اسرار اس کی زبان سے جاری ہوتے ہیں۔ وہ مخلوق کے کانوں میں بھلے معلوم ہوتے ہیں اور اس کا اشارہ ان کے اوپر ظاہر ہوتا ہے،او ران کی سمجھ میں آتا ہے۔ اور محققین کے نزدیک کلام کی آواز اور اعراب کا اور پیش اور زیر اور زیر کے غلط اور صحیح ہونے کا کچھ اعتبار نہیں ہے اور در حقیقت اعتبار حقیقت کا ہے۔ نہ کہ جسم اور ظرف کا۔
حکایت – ایک نحوی حضرت حسن بن سمعون کی مجلس میں ان کا کلام سننے کے لئے آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ کلام میں غلطی کر رہے ہیں۔ وہ ان کی مذمت کرتے ہوئے لوٹ گیا۔ یہ بات حسن بن سمعون کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اس نحوی کے پاس ایک خط لکھا ۔
تم غرور اور خود پسندی کی زیادتی کی وجہ سے معرفت الہی کے دروازے سے باہرٹھہر نے پر راضی ہو گئے ہو۔ اس وجہ سے تم نے اپنے افعال کے غلط ہونے کے باوجود ، اپنے کلام کے درست ہونے پر بھروسہ کر لیا ہے۔ اور تم پیش اورزبر اور زیر اور جزم کی درستی سے مفرور ہو کر مقصود اصلی سے دور ہو گئے ہو۔ تم نے اپنی تمام حاجتوں کو اللہ تعالی کے سامنے کیوں نہیں پیش کیا اور تمام برائیوں کو کیوں نہیں دور کیا اور خواہشات کو کیوں نہیں ترک کیا ، اور اپنی آنکھوں کے سامنے موت کو کیوں نہیں رکھا؟ اللہ تعالیٰ کی قسم ، اے میرے بھائی قیامت کے دن کسی بندے سے یہ نہیں پوچھا جائے گا ، کہ تم نے اعراب کو کیوں درست نہیں کیا ؟ بلکہ اس سے یہ پو چھا جائے گا، کہ تم نے گناہ کیوں کیا ؟ کلام کی خوبی مقصود نہیں ہے۔ بلکہ افعال کی خوبی مقصود ہے۔ اگر زبان کی فصاحت میں فضیلت ہوتی ، تو حضرت سید نا ہارون علیہ السلام ، سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ رسالت کے لئے موزوں اور متحقق ہوتے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول بیان فرمایا ہے۔
وَ أَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِى لِسَانًا اور میرے بھائی ہارون زبان اور بیان کی فصاحت میں مجھ سے زیادہ ہیں ۔ اور ان اشعار میں سے جو علامہ خلیل یا سیبویہ رحمہما اللہ سے منسوب ہیں ، چند اشعار درج ذیل ہیں:۔
لِسَانٌ فَصِیْحٌ مُعْرِبٌ فِي كَلَامِهِ فَيَا لَيْتَهُ مِنْ وَفْقَةِ الْعَرْضِ يَسْلَمُ
فصیح زبان ، جو اپنے کلام میں صحیح اعراب لگاتی ہے۔ اے کاش کہ وہ قواعد کے چکر سے محفوظ رہتی۔
وَلَا خَيْرَ فِي عَبْدِ إِذَا لَمْ يَكُن تُقَى وَمَا ضَرَّ ذَا تَقُوَى لِسَانٌ مُعْجِمٌ
کسی بندے کے اندر کچھ بھلائی نہیں ہے ، اگر وہ متقی نہیں ہے اور تقوی والے کو عجمی زبان کچھ نقصان نہ پہنچائے گی ۔
اور دوسرے شاعر کا کلام ہے ۔۔
مُنْحَرِفْ بِالْفِعَالِ وَ ذُو زَلَلٍ وَإِنْ تَكَلَّمَ فِي جِدَ الِهِ وَزَنَهُ
وہ اپنے افعال میں راہ راست سے پھر ہوا اور خطا کار ہے۔ اگر چہ وہ اپنے مباحثہ میں فصیح کلام کرتاہے۔
قالَ : – وَقَد كَتَبْتُ لَفُظَتَهُ تِيْها وَعُجَبًا أَخْطَا مَا لَحَنَهُ
اس نے غرور اور خود پسندی سے کہا: ۔ میں نے اس کے لفظ کو لکھا ہے ، اس نے کلام میں غلطی کی
وَإِنَّمَا أَخْطَا مَنْ قَامَ غَدًا وَ لَا يَرَى فِي كِتَابِهِ حَسَنَهُ
اور در حقیقت غلطی اس نے کی ہے، جو کل قیامت کے دن اٹھے گا اور اپنے اعمالنامہ میں نیکی نہ دیکھےگا۔
اور ہمارے شیخ الشیوخ رضی اللہ عنہ جب کسی ایسے شخص کو نصیحت فرماتے تھے، جو عربی کا ماہر ہوتا تھا۔ تو اس سے فرماتے تھے ۔ آپ اپنی عربیت کو چھوڑ یئے ۔ اور میں اپنی پیدائشی زبان کو چھوڑوں ۔ پھر ہم دونوں طریقت کی طرف متوجہ ہوں۔
حاصل یہ ہے :۔ جس شخص میں حال اور قال دونوں کی خوبیاں جمع ہوں ، وہ سراپا کمال ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے: کہ اس کے کلام سے اس کی موت کے بعد لوگ فیض یاب ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت امام غزالی اور حضرت ششتری اور حضرت ابولحسن شاذلی اور حضرت ابوالعباس مرسی اور حضرت شیخ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کتاب ہذا رضی اللہ عنہم اور اس میں کچھ شک نہیں ہے۔ کہ ان حضرات کے کلام سے بہت زیادہ فیض پہنچا اور پہنچ رہا ہے اور انشاء اللہ پہنچتا رہیگا۔
اور ان حضرات میں ، حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ بلند درجہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ کلام میں ان کا قلم سب سے آگے بڑھا ہوا ہے۔ اور ان کی کتابوں نے صوفیائے کرام کی کتابوں کو منسوخ کر دیا ہے۔ اور ان کے شیخ نے ان کے لئے اس بات کی شہادت پہلے ہی دی تھی ۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا تھا ۔ اللہ تعالی کی قسم یہ نو جوان نہیں مرے گا ۔ یہاں تک کہ یہ داعی ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے۔ نیز ان کے شیخ نے ان سے فرمایا:۔ اللہ تعالی کی قسم تمہاری بڑی شان ہوگی، اللہ تعالی کی قسم ضرور تمہاری بڑی شان ہوگی ۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے جب کتاب التہذیب لکھی ۔ تو ان کے شیخ نے ان کے بارے میں فرمایا : اللہ تعالی کی قسم، میں تم کو اللہ تعالی کے چشموں میں سے ایک ایسا ہدایت کا چشمہ بنادوں گا ۔ کہ علم ظاہر و باطن میں تمہاری پیروی کی جائے گی ۔ اور ان کے بارے میں یہ بھی فرمایا : اللہ تعالیٰ کی قسم ، میں ان کے لئے ان کے دادا بزرگوار کی خدمت میں بیٹھنا صرف اس لئے پسند کرتا ہوں، تا کہ وہ ان سے تصوف زیادہ حاصل کرلیں۔ ان کے دادا بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے ۔ ان کا نام عبدالکریم تھا۔ انہوں نے بہت سی کتابوں کی شرح لکھی تھی ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں