احدیت ( تنزلات ستہ کا مرتبہ اولی)

احدیت ( تنزلات ستہ کا مرتبہ اولی)

جسم کثیف سے جسم لطیف کا سفر

(تنزل : ذات حق تعالٰی کا تعینات میں ظاہر ہونا تنزل ہے(تنزل کے معنی یہ ہیں کہ شے اپنے اصلی وجود میں بعینہ باقی رہ کر ظلی طور پر ایک دوسرا وجود اختیار کرے)۔ تنزلات ستہ تصوف کا مشہور مسئلہ ہے اس کا مختصر بیان یہ ہے کہ صوفیائے کرام نے ذات کے چھ مراتب قرار دیتے ہیں ۔  پہلا مرتبہ احدیث اس کو لاتعین ، ذات بحت کہتے ہیں۔)

احدیت، ذات حق کا تنزلات ستہ کا مرتبہ اولی ہے جو وہم و گمان سے پاک ہے۔ اس میں کثرت کی گنجائش نہیں، یہاں ذات قیود سے آزاد ہوتی ہے۔ اطلاقیت اس مرتبہ کا خاصہ ہے۔ احدیت میں اعتبارات ذات، علم ، نور ، وجود اور شہود ضرور ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ میں حق تعالیٰ خود ہی علم ہے، خود ہی عالم اور خود ہی معلوم ۔ خود نور خود منوِّر اور خود منوَّر – خود وجود خود واجد اور خود موجود اس طرح خود شہود، خود شاہد اور خودمشہود – مگر اس مرتبہ میں ان اعتبارات کو بوجوہ ملحوظ نہیں رکھا گیا کیونکہ یہاں کسی قسم کے تعدد اور اعتبار غیریت کو دخل نہیں ہے ۔ یہ سقوط اعتبارات کی جہت ہے۔

جب کوئی چیز نہ تھی ، نہ پانی نہ خاک نہ ہوا نہ آگ ، نہ زمیں نہ آسماں ، نہ شجر نہ حجر ، نہ حیوانات تب ایک حقیقت (وجود حقیقی)تھی جو اپنے آپ موجود(موجود بالذات) تھی ہے جس کو عربی میں ہوبیت ہے ، فارسی میں ہستی۔ بعض حضرات اس کو عشق بھی کہتے ہیں ۔

یہ حقیقت اس مرتبہ (مراتب وجود کا پہلا مرتبہ مرتبہ لا تعین)میں تمام قیود سے پاک تھی اور اس کے تمام صفات و کمالات پوشیدہ تھے ۔ وہ اپنے کمال کے سبب کسی جانب متوجہ نہ تھی ۔ اپنے آپ پر حاضر تھی۔ اپنے غیر کی طرف متوجہ نہ تھی کیونکہ اس کا غیر تھاہی نہیں ۔ اس کی تمام صفات اُسی کی ذات(وجود مطلق) میں مندرج تھیں چنانچہ اس مرتبہ میں اس کا کوئی اسم اور کوئی صفت ظاہر نہیں۔ نہ کوئی نسبت نہ کوئی اضافت، بلکہ وہ صفت بطون و ظہور سے بھی پاک تھی ، اس کو اس مرتبہ میں ایک اور بہت نہ بولا جائے ، نہ اللہ ، نہ بندہ۔ اگرچہ بعض حضرات نے اس حقیقت کو اس مرتبہ میں بھی ” اللہ ” کہا ہے، لیکن اکثر صوفیہ کہتے ہیں کہ یہ اس حقیقت کا صرف تسمیہ ہے ، اس لیئے کہ الفاظ کی کوئی کمی تو ہے نہیں، جو چاہو نام رکھ لو لیکن نام رکھنے کا فائدہ کچھ نہیں کیونکہ نام رکھنے سے مقصود سمجھنا اور سمجھانا ہے ، اور یہاں صورت یہ ہے کہ کوئی اس حقیقت کو تعینات کے بغیر نہ پا سکتا ہے ، نہ سمجھ سکتا ہے ، نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ جان سکتا ہے ۔ پھر جب یہ صورت ہے تو الفاظ سے اس کی جانب کیوں اشارہ کیا جائے وہ نام کی قید میں نہیں آ سکتی ، خواہ اس کے کتنے ہی نام رکھ لیئے جائیں ۔

وہ حقیقت اپنی یکتائی کے سبب عالم سے بے پروا ہے کیونکہ ذات بذات خود عالم کی طرف وجود و عدم کی نسبت یکساں رکھتی ہے، نہ اس کی موجودیت کی خواہش رکھتی ہے اور نہ اس کے عدم کی رغبت (اسی لئے اسے عدم العدم کہتے ہیں)، یہ بے پروائی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اس حقیقت کو اس مرتبہ میں کوئی نہیں جان سکتا ، نہ ولی نہ نبی ہے کیونکہ وہ حقیقت اپنے اطلاق حقیقی (بے قیدی) کے سبب چاہتی ہے کہ نہ جانی جائے اور احاطہ و قید میں نہ آئے لیکن علم کا تقاضا ہے کہ معلوم اس کی گرفت میں آئے لہذا مر تبہ ذات کے ادراک سے عاجز رہنا عین ادراک (عدم علم کا علم بڑا علم ہے) ہے۔ پس تعینات ، اسماء ، صفات اور مظاہر کے بغیر ذات کی دریافت میں سعی کرنا عمر کو بے فائدہ  ضائع کرنا اور محال کو طلب کرنا ہے (ان کے بغیرادراک ممکن نہیں)۔ ایسی معرفت اس کے غیر کے لیئے ممتنع ہے ، الا یہ کہ بالا جمال ہوا اور وہ صرف یہ ہے کہ کائنات کے سوا ایک حقیقت تھی جس سے کائنات  کا ظہور ہوا ہے

وہ حقیقت اس مرتبہ میں تعین( حق کا اپنی ذات کو پانا)سے پاک ہے۔ کوئی ایک تعین اس حقیقت کو لازم نہیں، بلکہ ہر مرتبہ میں وہ ایک تعین، مرتبہ کے مطابق لیتی ہے۔ اور کسی تبدیلی کے بغیر مطلق بھی ہوتی ہے اور مقید بھی ، کلی بھی اور جزئئ بھی ، عام بھی اور خاص بھی، واحد بھی اور کثیر بھی ۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے الان کماکان یعنی اللہ تعالٰی اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ ازل میں تھا ۔

اس مرتبہ ذات کو غیب ہویت(ذات خالص جس میں اسم رسم نعت وصف کو بھی دخل نہ ہو)، غیب الغيوب (یہ مرتبہ مراتب معقولہ سے بلند ہے)، ابطن كل باطن(باطن کا باطن ترین کوئی بھی مطلع نہیں)، ہویت مطلقہ(کسی قید میں نہیں آتی )،لا تعین ( کسی تعن کا اعتبار نہیں نہ اسمائی نہ افعالی)، عین الکافور(چشمہ کافور میں کافوری قہر و غلبہ سےکافوری صفت اختیار کر لیتی ہے )، ذات ساذج(خاص ذات) ،منقطع الاشارات(کسی اشارے کی حاجت نہیں) ، منقطع الوجدان(ذاتی و صفاتی وجدان نہیں) ،احدیت مطلقہ(ذات اطلاق حقیقی کے ساتھ احد ہے)، مجہول النعت(نعت وصف ثبوتی یہاں اس کا بھی اعتبار نہیں )،عنقا(جیسے عنقا زیر دام نہیں آتااسی طرح ذات کسی یافت میں نہیں آتی)، نقطہ (نکتہ دائرہ ممکنات بناتا ہےاعتباری ہے) اور گنج مخفی(اس مرتبہ میں ذات کی قابلیتیں خود ذات سے بھی مخفی ہوتی ہیں) کہتے ہیں

اس مرتبہ ذات کے اور بھی نام ہیں، مثلا :ازل الآزال :۔کیونکہ یہ مرتبہ جمله مراتب قدیمیہ ازلیہ کی انتہا ہے اور اس قِدَم (قدیم)میں اس سے بالاتر کوئی مرتبہ نہیں۔

الغیب المسكوت عنہ : سکوت کلام کی ضد ہے اور کلام اسم وصفت کا محتاج ہے۔ یہاں نہ اسم کو دخل ہے ، نہ صفت کو ، نہ کلام کو ، سکوت کے سوا یہاں چارہ نہیں۔

ذات بحت : بحت کہتے ہیں خالص کو ، یہاں ذات خالص از اسم در سم اور نعت و وصف ہے ۔

ذات بلا اعتبار:۔ کیونکہ یہاں جملہ اعتبارات و تقیدات مفقود ہیں ۔

مرتبة الهویت : ذات بحت بحیثیت ھو ، یعنی ذات جو کامل ہے اپنی ذاتیت ہیں۔

علی ھذا القیاس اس مرتبہ کو  کنہ حق ، ہویت حق ، حقیقت حق ، وجود البحت ، عین مطلق ، غیب مطلق ، مکنون المکنون ، بطون البطون ، خفاء الخفاء، قِدَم القِدَم نہایۃ، النہایات ، معدوم الاشارات ، بشرط لاشے ، بشرط لاکثرت ، باہوت ، ھو، شان تنزیہ، انانیت حقہ ، ہویت حقہ ، اور کنز مخفی بھی کہتے ہیں ۔ ان تمام اسمائے مرتبہ سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ ذات اس مرتبہ میں نا قابل یافت وادراک ہے۔

احدیت بے رنگی وبے کیفی کا مرتبہ ہے ۔ یہاں ذات بے چند وچوں اور بے شبہ ونموں ہے ۔ بے وصف ، بے نعت ، بے نام ، بے نشان، بے زمان ، بے مکان ۔ یہ مرتبہ ہویت ہے۔ اس میں اول و آخرہویت ہی ہو یت ہے۔ یہاں طمع معرفت فضول ہے۔ کان اللہ ولم یکن معه شی اللہ ہی اللہ ہے اس کے ساتھ کچھ اور نہیں ۔ یہ مرتبہ لا ادریت ہے۔ اسی کے متعلق شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے کہا ہے :

كل الناس في ذات الله حمقاء

ذات حق کے علم میں سب احمق ہیں

نوٹ: یہ سب نام صوفیائے کرام نے سمجھانے کیلئے رکھے ہیں تاہم اس کے باوجود یہی واجب الوجود ذات باقی تمام مراتب کی عین اور حقیقت ہے۔ یہ ایک ایسا مرتبہ ہے۔ جس پر علم قدیم بھی احاط نہیں کرسکتا۔ مرتبہ احدیت رب تعالی کی کنہ ہے جو کسی وہم سے موہوم کسی علم سے معلوم اور کسی صفت سے موصوف نہیں ہوسکتی۔ اس مرتبہ پر صفات تو در کنار خود ذات کا اطلاق بھی نہیں ہو سکتا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں