احوال و کشوف قابل اعتماد نہیں مکتوب نمبر 264دفتر اول

اس بیان میں کہ اپنے معاملہ کو حیرت و جہالت میں لے جانا چاہیئے اور احوال و کشوف پر بھروسہ نہ کرنا چاہیئے اور اس کےضمن میں اس واقع کا ذکر اور تعبیر کی ہے جو گرد و نواح کے مشائخ میں سے کسی شیخ نے ظاہر کیا تھا۔ میر سید باقر سہارنپوری کی طرف لکھا ہے:۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)آپ کا صحیفہ شریفہ جو بڑی محبت اور کمال اشتیاق سے صادر فرمایا تھا پہنچا اور بڑی خوشی حاصل ہوئی ۔ آپ اپنے کام کی طرف متوجہ رہیں اور اسماء و صفات کے ملاحظہ کے بغیر ذکر اسم ذات  تعالیٰ میں مشغول رہیں ۔ یہاں تک کہ معاملہ جہالت تک پہنچ جائے اور کام حیرت تک انجام پا جائے کیونکہ اسماء و صفات کا ملاحظه اکثر اوقات احوال کے ظاہر ہونے کا باعث اور مواجید کے صادر ہونے کا سبب ہوجاتا ہے اور آپ نے سنا ہوگا کہ اصول ومواجید میں خطا کا بہت احتمال ہے اور اس مقام میں حق باطل کے ساتھ بہت ملا رہتا ہے۔ اور واضح ہو کہ انہی دنوں میں گرد و نواح کے مشائخ میں سے ایک شیخ نے اس فقیر کی طرف پیغام بھیجا اور اپنا احوال ظاہر کیا کہ فنا و محویت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جس طرف نظر کرتا ہوں کچھ نہیں دیکھتا ہوں اور زمین و آسمان کی طرف جب نگاہ کرتا ہوں اور عرش و کرسی کی طرف جب دیکھتا ہوں تو ان کو بھی کچھ نہیں پاتاہوں اور اپنے آپ کو بھی جب ملاحظہ کرتاہوں کچھ نہیں پاتا ہوں اور اگرکسی کے پاس جاتا ہوں تو اس کو بھی کچھ نہیں پاتا ہوں اور خدائے تعالیٰ بے نہایت ہے اس کی نہایت کو کسی نے نہیں پایا ہے اور مشائخ نے اس کو کمال سمجھا ہے۔ اگر تو بھی اسی کو کمال جانتا ہے تو پھر میں طلب حق کے لئے تیرے پاس کس لئے آؤں اور اگر کسی اور امر کو کمال جانتا ہے تو لکھ۔ 

فقیر نے اس کے جواب میں لکھا کہ یہ احوال قلب کے تلوینات (ایک حال یا صفت سے دوسرے حال یا صفت میں تبدیل ہوتے رہنا) میں سے ہیں اور قلب اس راہ کا پہلا زینہ ہے اور ان احوال کے صاحب نے ابھی مقام قلب سے صرف چوتھا حصہ ہی طے کیا ہے تین حصے اور قلب سے اس کو طے کرنے چاہئیں بعد ازاں دوسرے زینہ پر جو روح سے مراد ہے جہاں تک خدائے تعالیٰ چاہے عروج کرنا چاہیئے۔ 

اس ماجراسے کچھ مدت کے بعد فقیر کےیاروں میں سے ایک یار نے جو طریقہ اخذ کر کے اپنے وطن کو گیا ہوا تھا۔ جب واپس آ کر احوال بیان کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا حال بالکل اس شیخ  کے حال کے موافق ہے جس نے سوال کیا تھا۔ بلکہ یہ دوست اس مقام میں اس  شیخ سے قدم آگے رکھتا ہے اور جب اچھی طرح اس کے حال کاملا حظہ کیا گیا تو ظاہر ہوا کہ اس  کی یہ فنا ومحویت عنصر ہوا میں ہے جوذرات میں سے ہر ذرہ کو محیط ہے اور ہوا کے سوا کوئی امر مشہور ہیں ہے اور اسی کو خدائے بے نہایت سمجھا ہے۔ تَعَالَى اللہُ عَنْ ذَالِکَ ‌عُلُوًّا ‌كَبِيرًا ( الله تعالیٰ اس سے بہت ہی برتر اور بلند ہے )

دوسری دفعہ اس کو بلا کر پھر اس کے احوال کی تفتیش کی تو یقین ہوگیا کہ اس کی گرفتاری کے سوا اور امر کے ساتھ نہیں ہے اور اس کو بھی اس بات پر مطلع کیا اور جب اس نے اپنے وجدان کی طرف رجوع کیا تو اس نے بھی معلوم کرلیا کہ ہوا کے سوا مجھے کچھ خاص نہیں ہے۔ اس نے ان احوال سے توبہ کی اور قدم آگے بڑھایا۔ 

جاننا چاہیئے کہ عالم خلق یعنی عالم عناصر اربعہ اور عالم ارواح کے درمیاں قلب بمنزلہ برزخ کے ہے اور دونوں عالم کا رنگ رکھتا ہے۔ گویا قلب کا نصف حصہ عالم خلق سے ہے اور اس کا دوسرا نصف حصہ عالم ارواح سے ہے اور جب اس کے عالم خلق والے نصف حصہ کو پر نصف کریں تو معاملہ عنصر ہوا پر جا پڑے گا۔ پس قلب کا چوتھا حصہ مقام ہوا سے مراد ہے۔ جس کوقلب شامل ہے ۔ پس یہ جو آخر ظاہر ہوا جواب اول کے موافق ہے اور اس کی حقیقت کشف کا بیان ہے۔ 

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔ اس سے زیادہ کا وقت کے مناسب نہ تھا۔ 

وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَعَلىٰ سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ مِنَ الصَّلَواتُ اَفْضَلُهَا وَمِنَ التَّسْلِيمَاتِ اَکْمَلُهَا اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ247 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں