اکتیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے اکتیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الحادی والثلاثون فی الغضب المحمود والمذموم ‘‘ ہے۔

منعقده 18/ جمادی الآخر  545 بوقت عشاء بمقام مدرسہ قادریہ

رضائے الہی کے لئے غصہ لائق تحسین ہے:

رضائے الہی کے لئے جو غصہ کیا جائے وہ لائق تحسین ہے ،اور جوغیر کے لئے ہو برا ہے، ایمان والا -اللہ کے لئے غصہ کرتا ہے،اپنے نفس کے لئے نہیں،اپنے دین کی امداد کے لئے بھڑکتا ہے،اپنے نفس کے لئے نہیں،اللہ کی حدوں میں سے کسی حد کوٹوٹتے دیکھ کر غصہ کرتا ہے ۔ جیسے چیتے کا شکار کوئی لے جائے تو وہ غضب میں آ جاتا ہے۔ چنانچہ ایمان والے کے ساتھ اللہ بھی غصے میں آ جاتا ہے،  اس کی رضا سے اللہ بھی راضی ہے، جوشخص ظاہری طور پر اللہ کے لئے غصہ کرے اور باطن میں اپنے نفس کے لئے ،ایساشخص منافق ہے یا منافق کی طرح ہے۔ جو شے اللہ کے لئے ہوتی ہے، وہ کمال پر پہنچتی ہے، اور بڑھتی چلی جاتی ہے، اور جو شے غیر اللہ کے لئے ہوتی ہے وہ بدل جاتی ہے اور فنا ہو جاتی ہے۔

جب کوئی کام کرو تو اپنے نفس اور حرص اور شیطان کو اس سے دور کرو اسے نہ کرومگر اللہ کے لئے اور اس کے حکم کی تعمیل کے لئے ، اللہ کی طرف سے یقینی حکم کے بغیر کوئی کام نہ کیا کر، وہ یقینی حکم شریعت کے واسطے سے ہوگا یا اللہ کی طرف سے ،   تیرے دل پر الہام ہو جائے یہ الہام بھی شریعت کے مطابق ہونا چاہئے ، تو اپنے نفس اور ساری خلقت اور دنیا میں زہد اختیار کر، اس ذات میں زہد کر جوتجھے انس دے اور خلقت سے راحت پائے ۔ اولیاءاللہ کو نہ اس کے بغیر انس ہے اور نہ اس کی محبت کے بغیر راحت و آرام ، ، اس سے قبل کہ تمہارے نفس اور حرص اور وجود کی کدورتوں سے صفائی ہو، تو اولیاءالله کے ساتھ ہو جا، ان کی تائید سے تیری بھی تائید ہوگی ۔ ان کی بصارت سے بصارت پائے گا ، جیسے ان پر فخر کیا جا تا ہے، ویسے تجھ پربھی فخر کیا جائے گا۔   بادشاہ حقیقی اپنی دوسری رعایا سے ممتاز بنا کر تیرے ساتھ فخر کرے گا۔ تو اپنے قلب کو ماسوی اللہ سے پاک کر ، کیونکہ تم ماسوی کو اپنے دل سے دیکھ لو گے۔ پہلے تو اس کا مشاہدہ کرے گا ، پھر اس کے افعال دیکھے گا جو اس کی مخلوق میں جاری ہیں،  جیسے دنیاوی بادشاہوں کے پاس ظاہری نجاست کے ساتھ جانا نا مناسب ہے، اس طرح جو بادشاہوں کا بادشاہ حق تعالی ہے، اس کے سامنے باطنی نجاست کے ساتھ جانا معیوب ہے، تو خسارے والی نجاست سے بھرا ہوا مٹکا ہے، وہ تجھے لے کر کیا کرے گا  جو کچھ تیرے اندر ہے، اسے پلٹ دے اور پاکیزگی حاصل کر پھر بادشاہوں کے ہاں حاضر ہو، تیرے دل میں گناہ ہیں اور مخلوق سے خوف اور امید رکھتا ہے اور دنیا اور اس کی چیزوں سے محبت رکھتا ہے، یہ سب کچھ دلوں کی نجاستیں ہیں ، جب تک تیرانفس مر نہ جائے اور اس کی لاش تیری سچائی کے دروازے سے نہ اٹھائی جائے ، اس وقت خلقت پر تمہاری تو جہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے، لیکن تمہارے نزدیک جب تک ان کا وجود ہے،  اور تم انہیں دیکھتے ہو تو ان کی طرف اپنا ہاتھ نہ بڑھاؤ ، یہاں تک کہ اسے بوسہ نہ دے لیں، اس وقت تک خاموشی اختیار کر جبکہ تجھے اپنا ہوش نہ رہے۔ تب تجھے خلقت کی کچھ خبر نہ ہوگی، ان سے ہاتھوں کو بوسہ دینے سے اور ان کے عطا کرنے اور منع کرنے سے ، اوران کی اچھائی برائی کرنے سے روگردانی ہوگی، جب توبہ صحیح ہو جائے تو ایمان بھی صحیح ہو جا تاہے، اوربڑھتا ہے۔

اہل سنت کے نزدیک ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے، طاعت سے بڑھتا ہے اور نافرمانی سے گھٹتا ہے، یہ بات عام  لوگوں کے حق میں ہے اور خواص کے دلوں سے خلقت نکل جانے سے ان کا ایمان بڑھتا ہے ، اور دل میں خلقت کے داخل ہونے سے ایمان گھٹتا ہے، اللہ کے ہاں سکون کرنے سے ان کا ایمان بڑھتا ہے، غیر اللہ کے ہاں سکون کرنے سے ان کا ایمان گھٹتا ہے، خواص ( اللہ والے): اپنے رب پر توکل کرتے ہیں، اسی پر اعتماد کرتے ہیں ، اس سے سہارا لیتے ہیں، اس سے ڈرتے ہیں، اس سے امید رکھتے ہیں، اس کی تو حید بیان کرتے ہیں،اسی پر اعتمادر کھتے ہیں ، شرک نہیں کرتے ،ثابت قدم رہتے ہیں توحیدان کے دلوں میں ہے اپنے ظاہر سے خلقت کی مدارت کرتے ہیں ۔ کوئی نادانی سے پیش آئے تو وہ نادانی نہیں کرتے۔ ان کے حق میں ارشاد باری تعالی ہے: وَإِذَا ‌خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا

اور جب جاہل لوگ ان کو مخاطب کر تے ہیں تو وہ سلام کر کے الگ ہو جاتے ہیں ۔ جاہلوں کی جہالت ، اوران کے نفسوں اور حرصوں اور خواہشوں کے جوش کی حالت میں تم پر خاموشی اور (تحمل و بردباری لازم ہے، لیکن جب وہ معصیت الہی کریں تو خاموش نہ رہو،ایسے موقع پر خاموش رہنا حرام ہے۔ اس صورت میں بات کرنی عبادت ہے، اگر تجھے اچھے کام کرنے کا حکم دینے اور برے کام کرنے سے روکنے پر قدرت ہے تو اس سے کوتاہی نہ کر ۔ کیونکہ یہ بھلائی کا دروازہ ہے جو تیرے سامنے کھولا گیا ہے، اس میں داخل ہونے کے لئے جلدی کر ۔

ایمان والاحضرت عیسی علیہ السلام کی طرح گزر بسر کرتا ہے:

حضرت عیسی علیہ السلام جنگل کی گھاس پات کھاتے اور جوہڑوں کا پانی پیتے اور غاروں اور ویرانوں میں پناہ لیا کرتےتھے، جب سوتے تو پتھر یا بازو کا تکیہ بنالیا کرتے۔ ایمان والا حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح گزر بسر کرتا ہے ۔

 اسی حالت میں اللہ تعالی سے ملنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگر اس کے لئے دنیا سے کچھ نصیب ہے تو وہ خود بخوداس کے پاس آ جا تا ہے ۔ بظاہر اسے پہنتا ہے، اور اسے اپنے نفس کو سونپ دیتا ہے، جبکہ اس کا دل پہلے ہی قدم پر اللہ تعالی کے ساتھ قائم رہتا ہے، اس میں کسی طرح کی کوئی تبد یلی نہیں ہوتی۔ کیونکہ زہد جب دل میں جگہ بنالیتا ہے تو دنیا یا دنیا کی چیزوں کے آنے سے اس کا کچھ نہیں بدلتا۔ ایمان والا اگر دنیا اور اہل دنیا اور اس کی شہوتوں اور لذتوں کی رغبت رکھتا تو – ان سے ایک پل بھی صبر نہ کرتا ، رات دن انہی میں مشغول رہتا ، نہ عبادت کرتا نہ ریاضت، نہ اللہ کا ذکر کرتا نہ اس کی تابعداری ، اللہ تعالی نے اس کے نفس کے عیب اسے دکھا دیئے۔ اس نے ان سے توبہ کی ، اور گئے دنوں میں اس سے جو نافرمانیاں سرزد ہوئیں، اس پر شرمندہ ہوا ۔ اللہ نے اسے دنیا کے عیب کتاب الله سنت رسول اللہ  ﷺ اور مشائخ کے ذریعے بتلا دیئے۔ چنانچہ دنیا و مافیہا سے بے رغبتی حاصل ہوئی۔ جب ایک عیب نظر آیا تو دوسرے بہت سے عیب نظر آ گئے ، یہ معلوم ہو گیا کہ دنیا فنا ہونے والی ہے ۔ اس کی عمر تھوڑی ہے، دنیا کی نعمتیں زوال والی ہیں ، اس کی رونق بدلنے والی ،اس کے اخلاق برے ہیں، دنیا کا ہاتھ ذبح کرنے والا ہے۔ اس کا کلام زہر قاتل ہے ۔ وہ مزہ لے کر چھوڑ دینے والی ہے۔ دنیا کا  کوئی ٹھکانہ ، اس کا عہد اور اصل نہیں ۔ اس میں رہنا ایسا ہے جیسے پانی پر گھر بنانا ۔ ایمان والا دنیا کو اپنے دل کا قرار اور گھر نہیں بناتا۔ پھر ایمان والا درجے میں ترقی کرتا ہے اور اس کی طاقت قوی ہوتی ہے۔ حق تعالی کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ دنیا کی طرح آخرت کو بھی اپنے دل کا قرارنہیں بنا تا۔ بلکہ دنیا اور آخرت میں قرب الہی کو اپنے دل کا قرار بنا تا ہے۔اپنے دل اور باطن کے لئے مقام قرب میں عمارت بنا تا ہے ۔ اب اسے دنیا کی عمارت نقصان نہیں دیتی خواہ وہ ہزار گھر بھی بنائے ، کیونکہ وہ اسے اپنے لئے نہیں بنا تا ، اوروں کے لئے بناتا ہے۔اس میں امر الہی کی تعمیل کرتا ہے، اس کی قضا وقدر کی موافقت کرتا ہے۔ اس کا عمارت بنانا خلقت کی خدمت کے لئے ہے تا کہ انہیں راحت وآرام پہنچائے ، کھانا پکانے اور روٹی لگانے میں رات دن ایک کر دیتا ہے ۔ دوسروں کو کھلا تا ہے ۔خوداس میں سے ایک ذرہ بھی نہیں کھا تا ۔ اس کے لئے خاص طعام ہے، جس میں کوئی غیر شر یک نہیں ہوتا۔ اپنے کھانے کے وقت کھا تا ہے ۔ غیر کے کھانے کے وقت روزے سے ہوتا ہے۔زاہد کھانے اور پینے سے روزہ دار ہوتا ہے۔ غیر معروف عارف سے اپنے محبوب کے سوا سب سے روزے دار رہتا ہے، وہ تو بخار میں مبتلا ایسا مریض ہے جو کہ طبیب کے ہاتھ کے سوا کسی دوسرے کے ہاتھ سے نہیں کھا تا محبوب سے دوری اس کی بیماری ہے، قرب الہی اس کی دوا ہے ۔ زاہد کا روزہ دن میں ہوتا ہے جبکہ عارف کا روز و رات دن کا ہے۔ اس کے روزے کا افطار وصال الہی کے بغیر نہیں ہوتا ۔ عارف ساری زندگی روزے سے ہوتا ہے اور ہمیشہ بخار میں مبتلا ۔ وہ اپنے دل کے ساتھ ہمیشہ کے لئے روزہ دار ہے اور باطن کے ساتھ دائمی بخار والا ہے، اسے معلوم ہے کہ اللہ سے ملنے اور اس کے قرب میں اس کی شفا ہے ۔

 خلقت کو دل سے نکالنے میں نجات ہے:

اسے بیٹا! اگر تجھے اپنی نجات اور بہتری کی طلب ہے تو خلقت کو اپنے دل سے نکال دے، اس سے نہ کوئی خوف کر نہ نہ اس سے انس پکڑ ، اور نہ اس میں سکون و قرار جان، سب سے دوری اختیار کر اور بھاگ جا، ان سے کہ وہ مردار ہیں ۔ جب یہ ن حالت تیرے لئے صحیح  ہو جائ تو ذکر الہی  وقت تمہارے لئے اطمینان صحیح  ہوگا ، اور غیر اللہ کی یاد کے وقت تم بے قرار ہو جاؤ گے ۔  

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 238،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 130دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں