بائیسویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے بائیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الثانی والعشرون فی خروج حب الدنیا من القلب ‘‘ ہے۔

 منعقدہ آخری ذیعقد ہ545 ھ بوقت صبح بمقام خانقاہ شریف

دنیا کی محبت دل سے کیسے نکالی جائے:

 کسی سائل نے حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: میں اپنے دل سے دنیا کی محبت کیسے نکالوں؟‘‘ آپ نے ارشادفرمایا: تودیکھ کہ دنیا اپنے گردشوں میں اپنے چاہنے والوں اور ان کے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، ان کے ساتھ کیسی چالیں چلتی ہے ، ان کے ساتھ کیسے کھیلتی ہے، انہیں اپنے پیچھے کیسے دوڑاتی ہے، پھر انہیں ایک درجہ سے دوسرے درجہ کی طرف ترقی دیتی ہے، یہاں تک کہ انہیں دوسروں سے بلند کر دیتی ہے ،اورمخلوق کی گردنوں کا انہیں مالک بنادیتی  اوران پرخزانے اور عجائبات ظاہر کرتی ہے اور پھر جب وہ اپنی بلندی اپنے اختیارات اورا پنی خوش عیشی ، دنیا کو اپنا خدمت گزار دیکھ کر خوش ہوتے ہیں  ایسی حالت میں وہ اچانک انہیں پکڑتی ہے اور قید کر لیتی ہے اور دھوکہ دیتی ہے، اور اس بلندی سے انہیں سر کے بل دے مارتی ہے، ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جان سے مار ڈالتی ہے اور خود کھڑی ہنستی ہے ۔ ابلیس لعین بھی اس کے پہلو سے کھڑا خوب ہنسی اڑاتا ہے۔ دنیا کا چلن یہی ہے ۔ دنیا کا یہ برتاؤ حضرت آدم علیہ السلام سے چلا آ رہا ہے جو روز قیامت تک جاری رہے گا ۔ بہت سے بادشاہوں اور امیروں سے اس کا سلوک ایساہی ہےدنیا اسی طرح سے بلند کراتی اور گراتی ہے ۔ آگے بڑھاتی ہے، پھر پیچھے ڈالتی ہے۔غنی کرتی ہے، پھر تنگ دست کرتی ہے،

قریب ہوتی ہے، پھر ذبح کر ڈالتی ہے ۔

ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس سے سلامت رہیں اور اس پر غالب آ جائیں ۔ اس پر غالب آ کر اس کی شرارت سے محفوظ ر ہیں ، یہ شاذ و نادر ہیں ۔ دنیا کے مکر وفریب سے وہی بچتا ہے جو اسے پہچان لے اور اس سے اور اس کے حیلوں سے خوف  کھائے ۔

اے سائل اگر تو دنیا کے عیبوں کو دل کی آنکھ سے دیکھے گا تو دنیا کودل سے نکال دینے پر قادر ہوجائے گا، اگر تو دنیا کوسر کی آنکھوں سے دیکھے گا تو اس کے عیبوں سے چشم پوشی کر کے اس کی زینت میں مشغول ہو جائے گا تب دنیا سے کنارہ کشی کرنے اور اسے دل سے نکالنے پر قادر نہ ہوسکو گے ، اور وہ تجھے ویسے ہی قتل کر ڈالے گی جیسے اس نے اوروں کو قتل کر دیا ،

تو اپنے نفس سے یہاں تک جہادکرکہ مطمئن ہو جائے ، جب اطمینان ہوگا تو تم دنیا کے عیب پہچان کر اسے ترک  کردوگے نفس کا اطمینان یہ ہے کہ وہ دل کا کہامانے ، اور باطن کے بھی موافق ہوکر دونوں کی اطاعت کرے،جس چیز کا امر کریں اسے بجالائے جس چیز سے روکیں، اس سے رک رہے۔

ان کی عطاپر قناعت کرے، اور منع پر صبر کرے۔  جب نفس مطمئن ہو جائے گا تو وہ قلب سے مل کر تسکین حاصل کرے گا، اس کے سر پر پرہیزگاری کا تاج اور قرب الہی کی خلعت دیکھے گا۔

تم ایمان اور دل کی تصدیق کو لازم پکڑو اور اولیاء اللہ کومت جھٹلاؤ ، اور ان سے کسی طرح کا جھگڑا کرنے اور لڑ نے سے باز رہو، کیونکہ وہ دنیا اور آخرت کے بادشاہ ہیں ۔ قرب الہی کے مالک ہیں ۔ ماسوی اللہ ان کی دسترس میں ہے۔ اللہ تعالی نے ان کے دلوں کوغنی کر دیا ہے، اور اپنے قرب اورانس اور اپنے انوار اور کرامت سے انہیں مالا مال کر دیا ہے۔ وہ دنیا کی قطعا پرواہ نہیں کرتے کہ وہ مردار کس کے قبضے میں ہے، اور اسے کون کھارہا ہے، وہ دنیا کی ابتداءکو نہیں دیکھتے بلکہ وہ اس کے انجام اور فنا کی طرف دیکھتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ ذات الہی ان کے باطن کی آنکھوں کے سامنے رہتی ہے، وہ ہر وقت اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں ۔ وہ ہلاکت کے خوف اور بادشاہی کی امید لئے عبادت نہیں کرتے ، اللہ تعالی نے انہیں اپنے لئے اور اپنی صحبت کی ہمیشگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ ‌وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ هو ‌فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ’’اور پیدا کرتا ہے کہ جس کو تم نہیں جانتے، اپنے ارادے کو پورا کرتا ہے۔

منافق کے خصائل:

رسول اکرم  ﷺ نے منافق کے یہ خصائل بیان فرمائے ہیں، جوان خصائل اور علامتوں سے پاک ہے، وہ منافقت سے محفوظ ہے:

منافق جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے زبان سے پھر جائے،امانت رکھی جائے  تو خیانت کرے  یہ خصائل ایک کسوٹی ہیں جو ایمان والے اورمنافق میں واضح فرق کرتے ہیں ۔ یہ کسوٹی اور آئینہ لے کر اس میں دل کا چہرہ دیکھو، کیا تم ایمان والے ہو یا منافق توحید والے یابت پرست دنیا سب کی سب فتنہ اورمشغلہ ہے مگر اتنی جوآ خرت کے لئے نیک نیتی سے کی جائے ۔ دنیا میں تصرف کرنے کے لئے جب نیت نیک ہو جاتی ہے تو دنیا سراسرآخرت بن جاتی ہے ہر وہ نعمت جوشکر الہی سے خالی ہو وہ دنیا ہے اور سراسر عذاب ہے، اللہ کی نعمتوں کو شکر سے قید کرلو ( ایسا کرنے سے بہت زیادہ ملے گی۔ )۔اللہ کا شکر ہر ایک نعمت کے ساتھ ہے۔ ادائے شکر دوطرح سے ہے اول یہ کہ نعمتوں کے ساتھ عبادت پر مدد حاصل کی جائے ،اور ان کے ذریعے حاجت مندوں سے غم خواری کرنا، ان کی مدد کرنا ۔

 دوسرے یہ کہ نعمت کے ذریعے نعمت دینے والے کو پہچان کر اس کے نازل فرمانے والے یعنی اللہ تعالی کا شکر ادا کیا جائے

بعض اولیاء اللہ سے روایت ہے کہ جو چیز اللہ تعالی سے روکے وہی تمہارے لئے منحوس ہے، اگر اللہ کی یاد اور اس کا ذکر بھی کسی چیز میں مشغول کرے، وہ بھی بری ہے۔

 نماز ، روزہ ، حج اور نیکی کے سب کام اگر اللہ کے لئے نہ ہوں تو وہ بھی تیرے لئے منحوس ہیں  جونعمت تمہارے اور اللہ کے درمیان حجاب ہو جائے ، وہ نعمت تیرے لئے منحوس ہے۔ نعمت حاصل کر کے گناہوں سے مقابلہ کرتے ہو، اپنی مشکلات میں اس کے غیر سے رجوع کرتے ہو۔ تیری حرکات و سکنات ، ظاہر اور باطن ، رات اور دن میں جھوٹ اور نفاق نے جڑ پکڑ لی ہے۔تم پر شیطان کا وار ہو گیا ہے ۔ اس نے جھوٹ اور برے اعمال کو تمہارے لئے پرکشش بنا دیا ہے ۔ تجھے جھوٹ کی عادت ہوگئی ہے ۔ یہاں تک کہ تو نمازوں میں بھی جھوٹ کہتا ہے، کیونکہ تو زبان سے اللہ اکبر کہتا ہے (یعنی اللہ سب سے بڑا ہے ) تو جھوٹ بولتا ہے کیونکہ تیرے دل میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے۔ جس چیز پر تو بھروسہ کرے، وہی تیرا معبود ہے۔ جس سے ڈرے اور امیدرکھے، وہی تیرا معبود ہے، تمہارا دل زبان کے موافق اور قول فعل کے مطابق نہیں ہے، تو اپنے دل سے اللہ اکبر ہزار بار کہہ اور زبان سے ایک بار ) تجھے شرم نہیں آتی کہ لا الہ الا اللہ کہتے ہو کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا حالانکہ اللہ کے سوا تمہارے ہزار معبود ہیں تو جن بے ہودہ خیالوں میں ہے، سب سے اللہ کی طرف توبہ کر و ہ شخص جو علم تو رکھتا ہے مگرعمل نہیں کرتا محض علم کے نام پر قناعت کئے ہوئے ہے ، اسے کیا فائدہ ہوگا! – جب تو کہتا ہے: ”میں علم رکھتا ہوں،تو جھوٹ کہتا ہے، تو اپنے نفس کے لئے اس بات پر کیسے راضی ہو گیا کہ دوسروں کوتعلیم کر تے ہو اور خودعمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا: لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ’’جو کرتے نہیں وہ کہتے کیوں ہو ۔‘‘ تجھ پر افسوس ہے کہ: – اوروں کوسچ بولنے کا حکم دیتا ہے اور خود جھوٹ بولتا ہے، دوسروں کو توحید کا حکم دیتا ہے اور خود بتوں کو پوجتا ہے ، اوروں کو اخلاص کی تلقین کرتا ہے اور خودر یا کارمنافق ہے،انہیں گناہ ترک کرنے کی تاکید کرتا ہے اور خود نافرمانی کرتا ہے، تیری آنکھوں میں شرم وحیا نہیں رہی ، اگر ایمان ہوتا تو کچھ تو شرم و حیا کرتے ، ۔ رسول اکرم  ﷺ نے ۔ ارشادفر مایا:

الْحَيَاءَ ‌مِنَ الْإِيمَانِحیا ایمان سے ہے۔

تم میں نہ امانت ہے، نہ یقین نہ ایمان علم میں خیانت کی تو امانت جاتی رہی ،اللہ کے ہاں بددیانت لکھا گیاوایسی حالت میں تیرے لئے میرے پاس کوئی ایسی دوا نہیں کہ تو توبہ کرے اور توبہ پر ثابت قدم رہے، جس کا اللہ اور اس کی تقدیر کے ساتھ ایمان  صحیح ہے، اس نے اپنے سب کام اس کے حوالے کر دیئے ہیں، ان میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا، خلقت اور اسباب کی قید میں پڑ کر مشرک نہ ہو – یہ حالت جب ثابت اور تحقق ہوگی تو پھر تمام احوال میں سب طرح کی آفات سے سلامت رہو گے، ایمان سے آگے یقین کا مرتبہ ہے، پھر ولایت کا منصب ہے ، پھر ابدالیت ، پھر غوثیت  اور بعض اوقات مقام قطبیت حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات جن وانس ، فرشتوں اور ارواح پر فخر کرتا ہے، اسے آگے بڑھاتا ہے اور اپنا قرب عطا کرتا ہے ، اور اپنی مخلوق کا والی بنا دیتا ہے مخلوق کا مالک و حاکم وقادر بنادیتا ہے ، اپنا محبوب بنالیتا ہے مخلوق کا محبوب بنا دیتا ہے۔ یہ مرتبہ اس کی ابتداء اور بنیاد ہے ۔ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا اور ان کی تصدیق اس امر کی بنیاد ہے۔ پہلے اسلام پھر ایمان، پھراللہ کی کتاب اور رسول اللہ  ﷺ کی شریعت پرعمل ، پھر کمال ایمان کے وقت قلبی توحید کے ساتھ عمل میں اخلاص ہو، ایمان والا اپنی ذات سے اور اپنے عمل سے اور کل ماسوی اللہ سے فنا ہو جا تا ہے۔ وہ عمل تو کرتا ہے مگر عملوں سے بھی الگ رہتا ہے۔ ہر وقت اپنے نفس سے جہاد کرتا رہتا ہے ، سب خلقت کو اللہ سے ایک طرف ڈالے رہتا ہے۔ یہاں تک اللہ تعالی اسے اپنے رستے کی ہدایت کر دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ ‌سُبُلَنَاجولوگ ہماری طلب میں کوشش کرتے ہیں ، انہیں ہم اپنے کئی رستے بتا دیتے ہیں ۔ تم سب چیزوں میں بے رغبت ہو جاؤ تو تم اس کی تدبیر پر راضی ہو گئے وہ ان چیزوں کو اپنے دست قدرت میں پلٹا دیتا ہے، جب اس کی موافقت کرو گے تو انہیں اپنی قدرت کی طرف منتقل کر دے گا ، اس شخص کے لئے خوش نصیبی ہے جو تقدیر کے موافق بناء اور مقدر کے فعل کا منتظر رہا اور تقدیر پرعمل پیرا رہا اور تقدیر کے ساتھ چلا اور تقدیری نعمتوں کی ناشکری نہ کی اور ہرامر پر شکر گزاری ہی کرتا رہا۔ مقدر کی نعمت کا نشان اللہ کی رحمت اور اس کا قرب ہے، اور اس کے باعث خلقت سے بے پرواہ ہو جانا ہے، بندے کا دل جب اپنے رب سے واصل ہو جائے تو اللہ اسے مخلوق سے بے نیاز کر دیتا ہے، اسے اپنا قرب عطا کر دیتا ہے، اسے صاحب قدرت اور صاحب ملک بنادیتا ہے، اس کے لئے ارشاد ہوتا ہے؛ إِنَّكَ الْيَوْمَ ‌لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ تو آج کے دن ہمارے پاس رئیس امانت دار ہے ۔ اسے اپنے ملک  اپنے خدام اور اپنے ملک کے انتظام واسباب میں اپنا نائب (خلیفہ بنادیتا ہے اور اسے اپنے خزانوں پرامین بنادیتا ہے، اسی طرح جب صحیح  ہو جائے ، اور اس کی شرافت و پاکیزگی ماسوی اللہ سے ظاہر ہو جائے تو اسے اپنے بندوں کے دلوں پر اور اپنی دنیا وآخرت کی سلطنت پر پورا پورا اختیار دے دیتا ہے ۔ یوں وہ اپنے مریدوں اور ارادت مندوں کا کعبہ بن جاتا ہے، سب اسی کی طرف جوق در جوق کھنچے چلے آتے ہیں ۔ رستہ یہیں تک ہے یعنی علم کا بڑھنا اوراوراس پر ظاہری عمل کرنا اللہ کی عبادت میں سستی اور بے ہودگی کی عادت نہ ڈال ، ورنہ عذاب میں مبتلا ہو جائے گا ۔۔۔ رسول اکرم  ﷺ نے ارشادفرمایا: ‌إِذا ‌قَصَّرَ ‌العَبْدُ فِي العَمَلِ ابْتَلاهُ الله تَعَالى بالْهَمِّ بند وجب عمل میں کوتاہی کرتا ہے اللہ تعالی اسے مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔‘‘ جو چیز قسمت میں نہیں ،اسے اس کا رنج پہنچتا ہے

 بیوی بچوں کا رنج، عزیزوں کا رنج ، پڑوسی کے تکلیف دینے کا رنج، کاروبار میں خسارے کارنج ، اولاد کی نافرمانی کا رنج ، اہلیہ کے ساتھ با ہم نفرت ہو جانے کارنج، جدھر جا تا ہے ، نقصان اٹھا تا ہے ۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس نے اللہ کی عبادت میں کوتاہی کی ، اور اس سے منہ پھیر کر دنیا اور خلقت میں مشغول ہوا، ارشاد باری تعالی ہے:

مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ ‌شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ “اگر تم شکر گزار اور ایماندار بنوتو اللہ نے تمہیں عذاب دے کر کیا لینا ہے ۔‘‘ اور کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی بداعمالی پر قضاو قدر سے حجت حاصل کرے اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہئے کیونکہ ہر طرح کا تصرف اور حکم کا اختیار اللہ ہی کے لئے ہے۔

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ وہ جو کچھ کرے کوئی پوچھنے والا نہیں ، دوسرے پوچھے جائیں گے ۔‘‘

 تعلق باللہ کو ہرتعلق پرفوقیت دو :

تجھ پرافسوس ہے کہ تو اللہ سے منہ پھیر کر کب تک اپنے نفس اور اہل وعیال میں مشغول رہے گا ۔بعض اہل اللہ نے فرمایا

جب تیرا بچہ چھوہارے کی گٹھلیاں بنانا سیکھ جائے تو اس سے توجہ ہٹالے اور اپنے نفس کو رب کے ساتھ مشغول کرو‘‘ اس کلام سے آپ کی مراد یہ ہے کہ جب بچہ یہ جان لے کہ گٹھلی بھی کسی کام آ سکتی ہے اور اس کی کوئی قیمت ہے، تم جان لو کہ اس نے اپنے نفس کی تمام ضرورتوں اور معاش کو حاصل کرنا جان لیا ہے۔ اور یہ کہ اپنی ذات کے لئے خود مشقت اٹھا سکے۔ اس پر مشقت اٹھانے میں اپنا وقت ضائع نہ کرو، اسے اب تیری حاجت نہیں رہی تو اپنی اولاد کو ہنر اور کسب سکھا ،اور خود اللہ کی عبادت کے لئے فارغ ہوجاؤ ، کیونکہ بیوی اور بچے تجھ سے اللہ کے عذاب کو نہ ٹال سکیں گے ۔ اپنے نفس ، اپنی اولاد اور اہل کے لئے قناعت کو لازم پکڑ لے، اس کے بعد صرف ضروریات کو حاصل کرو، تم اور وہ سب اللہ کی عبادت کے لئےفارغ ہو جاؤ، اگر مقدر میں تمہارے رزق کی فراخی ہے تو وہ بھی اپنے وقت (مقررہ) پر ہوکر رہے گی ، تو اسے اللہ کی طرف سےسمجھے گا اور خلقت کے شرک سے بچ جاؤ گے، اگر تمہارے مقدر میں کشائش نہیں تو تم اپنے زہد اور قناعت کےباعث سب چیزوں سےغنی ہو چکے ہو۔ ایمان والاقناعت کرنے والا جب کسی دنیاوی چیز کا محتاج ہوتا ہے تو وہ اپنی عاجزی و گریه زاری، ذلت اور توبہ اور سوال کے قدموں کے ساتھ اللہ تعالی کے پاس حاضر ہوتا ہے، اللہ تعالی اگر اس کی ضرورت کو پورا کر دے تو اس عطا پر شکر ادا کرتا ہے، اگر ضرورت پوری نہ ہوتو منع کر دینے میں موافقت کر کے اس کے ارادہ پر کوئی اعتراض اور جھگڑا نہیں کرتا، بلکہ صبر کرتا ہے۔ وہ اپنے دین اور ریا کاری اور منافقت اور فریب کاری سے غنا کا طالب نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اے منافق تو ہے،  ریا اورنفاق اور نافرمانی ،  یہ فقر اور ذلت ، دربارالہی سے ہٹادیئے جانے کے اسباب ہیں۔ ریاکارمنافق دنیا کو دین کے بدلے حاصل کرتا ہے، اور اہل ہونے کے بغیر صالحین کا سارنگ ڈھنگ اختیار کرتا ہے،انہی کی طرح کلام کرتا ہے، انہی کی طرح لباس پہنتا ہے، مگر ان کے جیسے عمل نہیں کرتا  ان سے اپنی نسبت کا دعوی کرتا ہے، حالانکہ ان کے نسب سے نہیں ہے۔ تمہارالا اله إلا الله (کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا) کا دعوی ہے، تیرا اللہ پر توکل اور بھروسہ اور اپنے دل کا غیر خدا سے پھیر لینایہ  گواہ ہیں ۔ اے جھوٹو سچ بولو ۔ اپنے مالک سے بھاگنے والو!، رجوع کرو، اپنے دلوں سے اللہ کے دروازے کا ارادہ کرو، اس سے لے کر اور اس سے معذرت کرو۔ صرف ایمان کی حالت میں شرعی اجازت سے دنیا حاصل کر و، ولایت کی حالت میں امرالہی کے ہاتھ سے کتاب وسنت کی گواہی حاصل کر و ابدالیت وقطبیت کے حال میں اللہ کے فعل سے حاصل کرو، اپنا سب کچھ اس کے سپرد کردو۔

 بدنصیبی نصیبی ہے۔

بیٹا تمہیں اپنے نفس پر کوئی حیا نہیں، اپنے نفس پر آنسو بہاؤ کہ تم ثواب اور خیر کی توفیق سے محروم کر دیئے گئے ،  اس بات پر کوئی شرم نہیں کرتے کہ آ ج مخلص ہوا درکل کو مشرک – رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مَنْ اسْتَوَى يَوْمَاهُ ‌فَهُوَ ‌مَغْبُونٌ وَمَنْ كَانَ ‌أَمْسُهُ ‌خَيْرًا مِنْ يَوْمِهِ فَهُوَ مَلْعُونٌ جس کا آج اور گز راکل ایک سے ہیں، وہ نقصان میں ہے۔ اور جس کا گز راکل آج کے دن سے بہتر تھا ، وہ محروم ہے۔ (یعنی ہر موجودہ دن کاعمل گزرے کل کی نسبت بہتر ہو، وگر نہ خسارہ ہی خسارہ ہے )

 اپنی سی کوشش تو کر اللہ مد دکر نے والا ہے:

اے بیٹا! تو کیا کچھ نہیں کر سکتا، اور کچھ کئے بغیر چارہ نہیں ، تو اپنی سی کوشش تو کر اللہ مدد کرنے والا ہے، وہی تکمیل کو پہنچائے گا، تو جس دریا میں ہے اس میں ہاتھ پاؤں چلا تارہ ،موجیں اٹھا کر الٹ پلٹ کر کنارے پر لے آئیں گی ۔ تیرا کام دعا مانگنا ہے، قبول کرنا اللہ کا کام ہے ۔قبولیت اس کی طرف سے ہے ، کوشش کرنا تمہارا کام ہے، اور توفیق دینا اللہ کا کام ہے، نافرمانی ترک کرنا تیرا کام ہے، مہربانی کرنا اللہ کا کام ہے، تو اپنی طلب کو صادق رکھ، تم اس کے قرب کے دروازے پر جگہ پاؤ گے ، اس کی رحمت کا ہاتھ تیری طرف بڑھے گا، اس کا لطف و کرم اور محبت تیرے مشتاق ہوں گئے اولیاء اللہ کے مطلوب کا مقصود یہی ہے۔

اے نفسوں اور عادتوں اور خواہشوں اور شیطانوں کے بندو! میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں، میرے پاس حق درحق ، خلاصہ در خلاصہ ،صفائی در صفائی کے سوا کچھ نہیں ۔ ہاں ! ماسوی اللہ سے تو ڑتا ہوں اور اللہ سے جوڑتا ہوں ، ملاتا ہوں، مجھے تمہاری حرص وہوس منظور نہیں ۔

اے منافقوا ۔ اے جھوٹے دعوے دارو! میں تمہارے چہروں پر حیا نہیں پاتا، میں تم سے کیسے شرم وحیا کروں ، حالانکہ تم اللہ تعالی سے حیا نہیں کرتے ، اس سے بے حیائیاں کرتے ہو،  اس کی نظر میں اور جوفر شتے تم پر موکل ان کی نظر میں ذلیل و خوار ہوتے ہو، میرے پاس سچائی ہے جس سے میں ہر وقت  اس کافر اور منافق کا سرکاتا ہوں جو نہ توبہ کرتا ہے اور نہ اپنے کئے پر ندامت اور پشیمانی کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے ۔

بعض اولیاء اللہ نے ارشاد فر مایا کہ سچائی زمین پر اللہ کی تلوار ہے، جس چیز پر پڑے اسے کاٹ ڈالتی ہے، میری بات مانو ، میں تمہارا خیر خواہ ہوں ، میں تمہیں تمہارے ہی لئے چاہتا ہوں  ۔ میں تمہارے ساتھ مردہ ہوں اور اللہ کے ساتھ زندہ ہوں ، جس نے میری صحبت اختیار کی اور اسے سچا مانا ، اس نے نفع پایا اور نجات پائی اور جس نے مجھے جھٹلایا اور میری صحبت کو جھٹلایا وہ دنیا وآخرت میں محروم ہوا اور عذاب سے دو چار ہوگا ۔ اللہ تعالی کے ساتھ جھگڑا کرنا چھوڑ دینا، اس پر اعتراض نہ کرنے سے باز رہنا، اور اس کی تدبیر پر راضی رہنا معرفت الہی کے اسباب میں سے ہے۔اس لئے حضرت مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بعض مریدوں سے ارشادفرمایا: اگرتم اللہ تعالی کی معرفت چاہتے ہو تو اس کی تدبیر اور تقدیر پر راضی ہو جاؤ، اور اپنے نفس اور خواہش اور اپنے ارادے کوتد بیراور تقدیر میں شریک نہ بناؤ۔‘‘

اے تندرست جسموں والو! اے عمل سے فارغ رہنے والو اور بے فکر ہو جانے والو! اللہ کے ہاں تمہارا کیا کیا نقصان ہو رہا ہے تمہیں کوئی چیز اللہ سے بچائے گی ، اگر تمہاری دلوں کو اس کی خبر ہو جائے تو تم ندامت سے حسرت میں گھرجاؤ، چنانچہ بیدار ہو جاؤ ، ہوشیار ہو جاؤ۔

وہ جو اپنا انجام بھلائے بیٹھے ہیں۔

اے لوگو! تم عنقریب مرنے والے ہو، اس سے پہلےکہ تم پر رویا جائے تم اپنے نفسوں پر رولو، تمہارے گناہ کثیر ہیں اور انجام کیا ہوگا ، تمہارے دل دنیا کی محبت میں گرفتار ہیں اور اس کی حرص میں بیمار ہیں ، اس لئے زہد اختیار کرو، ترک دنیا اوراللہ کی طرف توجہ سے ان کا علاج کرو دین کی سلامتی اصل سرمایہ ہے اور نیک عمل اس کا منافع ہیں، جو چیز سرکش بنائے اس کی طلب چھوڑ دو، اور جو کچھ تمہیں کفایت کرے اس پر قناعت کرو، عقلمند کسی چیز پرخوشی کا اظہارنہیں کرتا، کیونکہ حلال کا حساب اور حرام کا عذاب ہے۔ وہ لوگ کثیر ہیں جو حساب اور کتاب کو بھلائے بیٹھے ہیں۔

 دل والوں کی صحبت سے دل ملتا ہے:

اے اللہ کے بندے! جب تجھے دنیا کی کوئی چیز ملے اور اس سے تمہارا دل گھٹن محسوس کرنے لگے تو اسے چھوڑ دے ۔ لیکن تیرے پاس تو دل ہی نہیں ، تو مجسم حرص اور نفس اور خواہش ہے، دل والوں کے پاس بیٹھو تا کہ تمہیں بھی دل مل جائے ، تمہارے لئے پیر کامل کی ضرورت ہے جو کہ دانا ہو، احکام الہی پر چلنے والا ہو، تجھے راستہ بتائے ، تجھے تہذیب اور علم سکھائے ،اور سب طرح سے خیر خواہ ہو، تم نے نا چیز کے بدلے سب کچھ خریدلیا ، اور سب کچھ دے کر نا چیز کو خریدلیا، آخرت کے بدلے دنیا کوخریدا اور دنیا کے بدلے آخرت کو بیچا ، تو ہوس در ہوس ہے ، عدم در عدم ہے، جہل در جہل ہے، چوپایوں کی طرح کھا تا ہے، نہ تحقیق کرتا ہے نہ تفتیش کرتا ہے، حلال ہے کہ حرام !  جستجو نہ حساب کا خدشہ، نہ نیت نہ سوال، حکم کا انتظار نہ فعل کا کھٹکا! –

ایمان والا شرع سے پر کھ کر کے امر یا نہیں ہوتا ہے۔ولی کامل  کو کھانے یا نہ کھانے   کادل کی طرف سے امر یا نہی  ہوتا ہے، ابدال کو کسی چیز کا فکر نہیں ہوتا بلکہ چیزیں خود اس میں اپنا اثر کرتی ہیں ، وہ عالم غیب میں اللہ تعالی کے ساتھ ہوتے ہیں ، اوراسی میں فنا رہتے ہیں۔ انہیں ماسوی اللہ سے کچھ غرض نہیں ہوتی ۔ ولی حکم کے پابند ہوتے ہیں جبکہ ابدال کے اختیار سلب ہیں۔ یہ سب کچھ شرعی حدود کی حفاظت کے ساتھ ہے۔جوشخص اپنی ذات سے اور خلقت سے فنا ہو جا تا ہے، وہی شرعی حدود کی حفاظت کرتا ہے، اس کے بعد قدرت کے سمندر میں آواز کرتا ہے، اس کی موجیں کبھی ابھارتی ہیں اور کبھی ڈبوتی ہیں، اور کبھی کنارے پر لا ڈالتی ہیں ، اور پھر بھی گہرے پانیوں میں لے جاتی ہیں۔ پھر اس کا حال اصحاب کہف کی طرح ہو جا تا ہے جن کے بارے میں ارشاد باری ہے وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ ‌الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ  ”اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ پلٹا دیتے ہیں۔

ان کے لئے عقل ہے، نہ تدبیر، نہ حس و ادراک اور وہ لطف اور قرب کے گھر میں ظاہری اور باطنی طور پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ۔ یہی حال اس مقرب الہی کا ہے کہ ماسوی اللہ سے اس کے دل کی آنکھیں بند ہیں ، وہ اس کے لئےدیکھتا ہے، اور اس میں دیکھتا ہے، اور اس سے سنتا ہے۔

دعا اللهم أفينا غم سواك وأوجدنا بك ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ”اے اللہ! ہمیں اپنے ما سوئی سے فنا کر، اور اپنے ساتھ وجود عنایت فرما اور ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرما، اور آخرت کی بھلائی عطافرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔آمین!

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 155،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 95دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں