بتیسواں مراقبہ:نیت مراقبہ حقیقت موسوی علیہ السلام

نیت مراقبہ حقیقت موسوی علیہ السلام

فیض می آید از ذات بیچون کہ محب ذات خود است منشاء حقیقت موسویست علیہ السلام بہ ہیئت  وحدانی من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین

ذات باری تعالیٰ  کی طرف سے  جو اپنی ذات کی محب  اور حقیقت موسوی  علیہ السلام  کا منشاء ہے عظیم مرشدین گرامی   اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ  سے  میری   ہیئت وحدانی  میں فیض  آتا ہے۔

تشریح حقیقت موسوی

حضرت موسی علیہ السلام کی ایک ظاہری شکل و صورت اورایک حقیقت ہےحقیقت کا اظہارید یضاء(ہاتھ کا سورج کی طرح چمکنا) عصائے موسی علیہ السلام (اژدہا بننا)اللہ سے ہمکلام ہونا

  مرتیہ حقیقت ابراہیمی( جس میں اللہ تعالیٰ کا اپنی صفات سے محنت کرنے کا ذکر تھا) کی سیر کے بعد سالک کو مرتبہ حقیقت موسوی کی سیر کرائی جاتی ہے یہ مقام محبت ذاتیہ( جس میں اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات سے محنت کرنے کا ذکر ہے) کا مقام ہے۔ اور بہت سے پیغمبران علیہم السلام حضرت موسی کلیم الله علیہ السلام کی وساطت سے اس مقام پر پہنچے ہیں۔ یہاں نیاز و بے نیازی کی اداؤں کا اظہار ہوتا ہے۔ یہاں پر درج ذیل درود پاک تین ہزار کی تعداد میں پڑھنا موجب اجر و برکت ہے. اللهم صل على محمد واصحابه و على جميع الأنبياء والمرسلين خصوصا على کلیمک موسی علیہ السلام

اللہ تعالی کی شان حبیت یعنی اپنی ذات سے محبت و دوستی جو حقیقت موسوی کے نام سے موسوم ہے اس مقام میں بھی عجیب وغریب کیفیات بقوت تمام سالک کے باطن پر وارد ہوتی ہیں اور سالک کو اللہ تعالی کے ساتھ کمال درجہ محبت ہوتی ہے اسی کمال محبت کا تقاضا تھا کہ جناب موسی علیہ السلام نے عرض کیا

رب ارنی أنظر إليك۔

ترجمہ: اے میرے پروردگار تو مجھے اپنی ذات کا جلوہ دکھا تا کہ میں تیری طرف دیکھوں ۔

محب صادق سید نا موسی علیہ السلام کو شوق دیدار الہی نے بے چین و بے قرار کر رکھا تھا۔ کہ کسی طرح اپنے محبوب حقیقی کا دیدار پردہ ذات مطلق کے بغیر ہونا چاہیے۔ کیونکہ انوار و شیونات کے پس پردہ  اس ذات سے شرف تکلم کی وجہ سے حقیقی دیدار کا شوق تھا اور ذات باری تعالی کا ارشاد ہوتا ہے

لن ترانی۔ ترجمہ: اے موسی تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔

اس میں راز یہ تھا کہ ذات مطلق کا دیدار محبوب ذات مطلق سید المرسلین آنحضورﷺ کے لیے مختص ہو چکا تھا۔ اور ذات مطلق سے ہم کلام ہونا حضرت موسی علیہ السلام کا حصہ مقرر تھا۔ جس سے آپ علیہ السلام بہرہ ور تھے ۔ عادت اللہ کے تحت اس میں تبدیلی ممکن نہ تھی ۔ حضرت موسی علیہ السلام کی طرف سے مسلسل اصرار اور اظہار محبت کے جواب میں چالیس دن کو ہ طور پر گزارنے کا حکم آیا۔ حضرت موسی علیہ السلام کی تعمیل کے بعد اللہ تبارک وتعالی نے انگوٹھے کے پورے برابر اپنی ذات کی تجلی کوہ طور پر فرمائی جس کے دیکھتے ہی حضرت موسی علیہ السلام جذب محبت الہی میں بے ہوش ہو گئے ۔ اور کوہ طور تجلی کی تاب نہ لا کر ریزہ ریزہ ہو گیا۔ یہ حضرت موسی علیہ السلام کی حب ذات کا ثبوت ہے ۔

ہر محبت جاں نثار پر لازم ہے کہ سوائے محبوب حقیقی کے کسی اور کے ساتھ دلی تعلق نہ بڑھائے کہ کمال محبت کا یہی تقاضا ہے ۔ حضرت موسی علیہ السلام مقام محب ذات خاص پر فائز ہیں جس خوش نصیب کو چاہتے ہیں یہ مقام نعمت عظمے عطا فرما دیتے ہیں اس مقام میں سالک کامل رضا و تسلیم کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ بلکہ اسے مصائب و مشکلات میں بھی وہی لذت نصیب ہوتی ہے۔ جو آرام و آسائش میں ہوتی ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں