برے علماء کی مذمت میں مکتوب نمبر33 دفتر اول

 برے علماء کی مذمت میں جو دنیا کی محبت میں گرفتار ہیں اور جنہوں نے علم کو دنیا حاصل کرنے کا وسیلہ بنایا ہے۔ اور علماء زاہد کی تعریف میں جو دنیا سے بے رغبت ہیں ملا حاجی محمد لاہوری کی طرف لکھا ہے:۔

علماء کے لئے دنیا کی محبت اور رغبت ان کے جمال کے چہرہ کا بدنما داغ ہے مخلوقات کو اگرچہ ان سے بہت فائدے حاصل ہوتے ہیں مگر ان کا علم ان کے اپنے حق میں نافع نہیں ہے ۔ اگر چہ شریعت  کی تکذیب اور مذہب کی تقویت ان پر مترتب ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ تائید وتقویت فاجر فاسق سے بھی ہو جاتی ہے جیسے کہ سید الانبیاء ﷺنے فاجر آدمی کی تائید کی نسبت خبر دی ہے اور فرمایا ہے کہ وَإِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ

یہ علماء پارس پتھر کی طرح ہیں کہ تانبا اور لوہا جو اس کے ساتھ لگ جائے سونا ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ذات میں پتھر کا پتھر ہی رہتا ہے ایسے ہی وہ آگ جو پتھر اور بانس میں پوشیدہ ہے جہان کو اس آگ سے کئی طرح کے فائدے حاصل ہیں لیکن وہ پتھر اور بانس اس اپنی اندرونی آگ سے بےنصیب ہیں۔

بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ علم ان کے اپنے نفس کے حق میں مضر ہے کہ حجت کو ان پر پورا کر دیا۔ إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَالِمٌ لَمْ يَنْفَعْهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِعِلْمِهِ (تحقیق لوگوں میں سے زیادہ عذاب کا مستحق قیامت کے دن وہ عالم ہے جس کو اپنے علم سے کچھ نفع حاصل نہ ہوا اور کیونکر مضر نہ ہو ۔ وہ علم جوخدائے تعالی کے نزدیک عزیز اور موجودات میں سے اشرف ہے اس کو دنیا کمینی مال و جاہ و ریاست کے حاصل کرنے کا وسیلہ بنایا ہے حالانکہ دنیا حق تعالی کے نزدیک ذلیل و خوار اور مخلوقات میں سے بدتر ہے۔

پس خدا کے عزیز کو خوار کرنا اور اس کے ذلیل کو عزت دینا بہت برا ہے۔ حقیقت میں خدا تعالی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے تعلیم دینا اور فتوی لکھنا اس وقت فائدہ مند ہے جبکہ خالص اللہ ہی کے لئے ہو اور جب جاہ و ریاست اور مال و بلندی کی آمیزش سے خالی ہو اور اس خالی ہونے کی علامت یہ ہے کہ دنیا میں زاہد ہو اور دنیا و مافیہا سے بے رغبت ہو وہ علماء جو اس بلا میں مبتلا ہیں اور اس کمینی دنیا کی محبت میں گرفتار ہیں ۔ وہ دنیا کے عالموں میں سے ہیں اور برے عالم اور لوگوں میں سے بد تر اور دین کے چور یہی عالم ہیں ۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے آپ کو دین کا پیشوا جانتے ہیں اور مخلوقات میں سے اپنے آپ کو بہتر خیال کرتے ہیں ۔

وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ  اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ

اور گمان کرتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں خبردار یہ لوگ جھوٹے ہیں ۔ ان پر شیطان نے غلبہ پا لیا ہے ۔ اور ان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیا ہے ۔ یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں ۔ خبردار رہو۔ شیطان کا گروہ گھاٹا کھانے والا ہے۔) کسی عزیز نے شیطان لعین کو دیکھا کہ فارغ بیٹھا ہے اور گمراہ کرنے اور بہکانے سے خاطر جمع کیا ہوا ہے ۔ اس عزیز نے اس امر کا بھید پوچھا لعین نے جواب دیا کہ اس وقت کے برے عالم میرے ساتھ اس کام میں میرے مددگار ہیں اور مجھ کو اس ضروری کام سے فارغ کر دیا ہے۔

اور واقعی اس زمانے میں جو سستی اور غفلت کے امور شرعی میں واقع ہوئی ہوئی ہے اور جو فتور کے مذہب ودین کے رواج دینے میں ظاہر ہوا ہوا ہے۔ سب کچھ ان کے عالموں کی کمبختی اور ان کی نیتوں کی بگڑجانے کے باعث ہے ہاں وہ علماء جو دنیا سے بے رغبت ہیں اور جاہ و ریاست و مال و بلندی کی محبت سے آزاد ہیں ۔ علمائے آخرت سے ہیں اور انبیاء علیهم الصلوة و السلام کے وارث ہیں اور مخلوقات میں سے بہتر یہی علماء ہیں کہ کل قیامت کے روز ان کی سیاہی فی سبیل اللہ شہیدوں کے خون کے ساتھ تو لی جائے گی اور ان کی سیاہی کا پلابھاری ہو جائے گا اور نوم العلماء عبادة انہی کے حق میں ثابت ہے۔ وہ لوگ ہیں جن کی نظروں میں آخرت کا جمال پسند آیا اور دنیا کی قباحت اور برائی معلوم ہوئی ۔ اسکو بقا کی نظر سے دیکھا اور اس کو زوال کے داغ سے داغدار معلوم کیا ۔ اس واسطے اپنے آپ کو باقی کے سپرد کیا اور فانی سے اپنے آپ کو ہٹا لیا ۔ آخرت کی بزرگی مشاہدہ کرنے کے لوازم سے ہے ۔ مَثَلُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ كَمَثَلِ رَجُلٍ لَهُ ضَرَّتَانِ، إِنْ أَرْضَى إِحْدَاهُمَا أَسْخَطَ الْأُخْرَىکیونکہ دنیا اور آخرت دونوں سوکنیں ہیں ۔ یعنی دو عورتیں ایک مرد کے نکاح میں رہتی ہیں ۔ ایک راضی ہوگئی تو دوسری ناراض ہوگی اگر دنیا عزیز ہے تو آخرت خوار ۔ اور اگر دنیا خوار ہے تو آخرت عزیز ۔ ان دونوں کا جمع ہونا گویا دو ضدوں کا جمع ہونا ہے۔ ما أحسن الدين والدنيا إذا اجتمعا” دین و دنیاگر جمع ہو جائیں تو کیا خوب ہے۔

ہاں بعض مشائخ جو اپنی آروز و اور خواہش سے بالکل نکل چکے ہیں بعض نیک نیتوں کے باعث اہل دنیا کی صورت اختیار کی ہے اور بظاہر رغبت کرنے والی دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں کچھ تعلق نہیں رکھتے اور سب سے فارغ اور آزاد ہیں ۔ رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ  یہ وہ بہادر لوگ ہیں جن کو تجارت اور بیع اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔

تجارت وبیع ان کو خدا سے مانع نہیں ہے اور ان امور کے ساتھ تعلق رکھنے کی حالت میں بےتعلق ہیں۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ میں نے منی کے بازار میں ایک تاجر کو دیکھا کہ پنجاہ ہزار دینار کم و بیش کی خرید و فروخت کر رہا تھا اور ایک لحظہ بھی اس کا دل حق تعالی سے غافل نہ تھا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ132 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں