توحید وجودی،قرب اور معیت ذاتی کی حقیقت مکتوب نمبر 31 دفتر اول

 توحید وجودی کے ظہور اور حق تعالی کے قرب اور معیت ذاتی کی حقیقت اور اس مقام سے گزر جانے کے بیان میں مع چند سوال و جواب کے جو اس مقام کی تحقیق سے تعلق رکھتے ہیں۔ شیخ صوفی(محمد) کی طرف لکھا گیا ہے۔

ثبتنا الله سبحانه على متابعة سيد المرسلين عليه وعلى اله وعليهم وعلى الهم من الصلوات افضلها من التسليمات اکملها حق تعالی ہم کو حضرت سید المرسلین ﷺکی تابعداری پر ثابت رکھے۔

ایک شخص نے جو آپ کی مجلس مبارک میں حاضر تھا۔ بیان کیا کہ میاں شیخ نظام تھانیسری کے کسی درویش نے اس مجلس میں اس فقیر کی نسبت ذکر کیا اور کہا کہ فقیر وحدت وجود کا انکار کرتے اس ناقل شخص نے اس فقیر سے التماس کی کہ جو کچھ اصل حقیقت اس بارے میں ہے۔ آپ کے خادموں کی طرف لکھی جائے تا کہ لوگ اس نقل سے کسی قسم کی باتیں نہ بنائیں اور بدظنی میں نہ پڑ جائیں کیونکہ بعض ظن گناہ ہے اس لئے اس کے سوال کو قبول کر کے چند باتیں  لکھ کر آپ کو تکلیف دیتا ہے۔

میرے مخدوم و مکرم فقیر کا اعتقادلڑ کپن سے اہل توحید کا مشرب تھا اور فقیر کے والد بزرگوار قدس سرہ بظاہر اسی مشرب پر ہوئے اور باطن میں پوری پوری نگرانی حاصل ہونے کے با وجود مرتبہ بے کیف کی جانب رکھتے تھے ان کا اشتغال ہمیشہ اسی طریق پر رہا اور اس مضمون کے موافق کہ فقیہ کا بیٹا آدھا فقیہ ہوتا ہے۔ فقیر کو اس مشرب سے ازروئے علم کے بہت فائدہ اور بڑی لذت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ حق تعالی نے محض اپنے کرم سے ارشاد و ہدایت کی پناہ والے حقائق ومعارف کو جاننے والے پسندیدہ دین کی تائید کرنے والے ہمارے  شیخ اور مولی اور قبلہ حضرت خواجہ محمد باتی قدس سرہ کی خدمت و صحبت نصیب کی اور انہوں نے فقیر کو طریقہ علیہ نقشبند یہ تعلیم فرمایا اور اس مسکین کے حال زار پر پڑی توجہ فرمائی۔

اس طریقہ عالیہ کی مشقت کے بعد تھوڑی مدت میں توحید وجودی منکشف ہوگئی اور اس کشف میں حد سے بڑھ کر زیادتی پیدا ہوئی اور اس مقام کے علوم و معارف بہت ظاہر ہوئے اور اس مرتبہ کے دقائق میں سے شاید ہی کوئی دقیقہ رہ گیا ہو۔ جس کو فقیر پرمنکشف نہ کیا ہواور شیخ محی الدین ابن عربی کے معارف کے حقائق کو جیسا کہ چاہئے ظاہر فرمایا اور اس تجلی کی شان میں کہتا ہے۔ وما بعد هذا إلا العدم المحض اس کے بعد عدم محض کے سوا کچھ نہیں فقیر اس تجلی سے بھی مشرف ہوا اور اس تجلی کے علوم و معارف بھی جن کو  شیخ خاتم الولایت سے مخصوص جانتا ہے۔ مفصل معلوم ہوئے اور سکر(مستی) وقت اور غلبہ حال اس توحید میں اس درجے تک پہنچا کہ بعض عریضوں میں جو حضرت خواجہ قدس سرہ کی خدمت میں لکھے تھے۔ ان دو بیتوں کو جوسراسر سکر(مستی)  میں لکھا تھا ۔

اے در یغا کین شریعت  ملت اعمائی است ملت ما کافری و ملت ترسائی است

کفر و ایماں زلف وروئے آں پری زیبائی است کفر و ایماں ہر دو اندر راه ما یکتائی است

یہ شریعت  احمقوں کا ہے طریقہ سر بسر لیک مذہب ہے ہمارا کافروں کے دین پر

زلف اور رواس پری کا کفر اور ایمان ہے کفر اور ایماں ہمارے راہ میں یکساں ہے

اور یہ حال بہت مدت تک رہا اور مہینوں سے سالوں تک نوبت گئی۔ ناگاه حق تعالی کی عنایت بیغایت در یچہ غیب سے میدان ظہور میں آئی اور بے چونی(بے مثال)    اور بیچگونی (بے مثل)کے چہرہ ڈھانپنے والے پردہ کو دور کر دیا۔ وہ پہلے علوم جو اتحاد اور وحدت وجود کی خبر دیتے تھے زائل ہونے لگے اور احاطہ (اللہ تعالی کا ہر چیز پر محیط ہونا)اور سریان (اللہ تعالی کا  مومن کے قلب میں سمانا)اور قرب اور معیت ذاتیہ جواس مقام میں ظاہر ہوئی تھی۔ پوشیده ہوگئی اور یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ حق تعالی کے علوم کے ساتھ ان مذکورہ نسبتوں سے کوئی بھی نسبت ثابت نہیں ۔ حق تعالی کا احاطہ اور قرب علمی ہے جیسا کہ اہل حق کے نزدیک ثابت اور مقرر ہے۔ اللہ تعالی ان کی کوشش کی جزادیوے اور حق تعالی کسی چیز سے متحد نہیں ہے۔ خدا خدا ہے اور عالم عالم ۔ حق تعالی بیچون و بیچگون ہے اور عالم سراسر چونی اور بیچگونی کے داغ سے داغدار ہے۔ بیچوں کو چون کا عین نہیں کر سکتے ۔ واجب ممکن کا عین اور قدیم حادث کا عین ہرگز نہیں ہوسکتا ممتنع العدم جائز العدم کا عین نہیں بن سکتا۔ حقائق کا انقلاب عقلی اور شرعی طور پر محال ہے اور ایک کو دوسرے پر حمل کرنے کا ثبوت کلی طور پرممتنع ہے۔

تعجب ہے کہ شیخ محی الدین اور اس کے تابعدار حق تعالی کی ذات کو مجہول مطلق کہتے ہیں اور کسی حکم کے ساتھ اس کو محکوم علیہ نہیں جانتے ہیں اور باوجود اس کے احاطہ ذاتی اور قرب اور معیت ذاتی ثابت کرتے ہیں اور حالانکہ  یہ حکم حق تعالی کی ذات پر ہے۔

پس بہتر وہی ہے جو علماء اہلسنت و جماعت نے بیان کیا ہے کہ قرب علمی اور احاط علمی ہے اور توحید وجودی کے مشرب کے مخالف علوم و معارف کے حاصل ہونے کے وقت فقیر بہت بے قرار ہوا کیونکہ اس توحید سے بڑھ کر اور کوئی اعلی امر نہ جانتا تھا اور عاجزی اور زاری سے دعا کرتا تھا کہ یہ  معرفت زائل نہ ہو جائے۔ یہاں تک کہ سارے حجاب سامنے سے زائل ہو گئے اور کما حقہ حقیقت منکشف ہوگئی اور معلوم ہو گیا کہ عالم ہر چند صفاتی کمالات کا آئینہ اور اسماء ظہورات کا جلوہ گاہ ہے لیکن مظہر ظاہر کا عین اورظل اصل کا عین نہیں ہے۔ جیسا کہ توحید وجودی والوں کامذہب ہے۔ یہ بحث اس مثال سے واضح ہوجاتی ہے۔

مثلا کسی اہل فن عالم نے چاہا کہ اپنے مختلف کمالات کو ظاہر کرے اور اپنی پوشیده خوبیوں کو واضح کرے تو اس نے حروف اور آوازوں کو ایجاد کیا اور ان حروف اور آوازوں کے آئینوں میں اپنے پوشیدہ کمالات کو ظاہر کیا اس صورت میں نہیں کہہ سکتے کہ یہ حروف اور آواز جوان مخفی کمالات کیلئے آئینے اور مظہر ہیں۔ ان کمالات کا عین  ہیں یا بالذات ان کمالات کو محیط ہیں یا بالذات ان کے قریب ہیں یا ان کے ساتھ معیت ذاتی رکھتے ہیں بلکہ ان کے در میان دالیت (دلالت کرنے والا)اور مدلولیت (جس پر دلالت کرے)کی نسبت ہے۔ حروف اور آواران کمالات پر صرف دلالت کرنے والے ہیں اور وہ کمالات اپنے محض غیر مقید حالت پر ہیں ۔ وہ نسبتیں(عینیت، اتحاد،احاطہ، قرب،  اور معیت ذاتی) جو پیدا ہوئی وہمی اور خیالی ہیں ۔ حقیقت میں ان نسبتوں میں سے کوئی بھی ثابت نہیں لیکن چونکہ ان کمالات اور حرفوں اور آوازوں کے در میان ظاہریت اور مظہریت اور مدلولیت اور دالیت کی نسبت ہے تویہی مناسبت بعض عارضوں کے باعث بعض لوگوں کے لئے ان وہمی نسبتوں کے حاصل ہونے کا باعث ہو جاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت میں وہ کمالات ان تمام نسبتوں سے خالی اور پاک ہیں اور جس کا ہم ذکر کرتے ہیں اس میں بھی دالیت اور مدلولیت اور ظاہر یت ومظہریت کے علاقہ کے سوا اور کوئی نسبت نہیں ہے۔ عالَم (دنیا )اپنے صانع (اللہ تعالی)کے وجود کے لئے علامت اور اس کے اسمائی اور صفاتی کمالات کے ظہور کے لئے مظہر ہے اور یہی علاقہ بعض عارضوں کے باعث بعض کیلئے وہمی احکام کا باعث ہو جاتا ہے۔

بعض کو توحید کے مراقبوں کی کثرت ان احکام پر لے آتی ہے کیونکہ ان مراقبوں کی صورت قوت متخیلہ میں نقش ہوجاتی ہے اور بعض دوسروں کو توحید کا علم اور اس کا تکرار ان احکام کے ساتھ ایک قسم کا ذوق بخشتا ہے۔ توحید کی یہ دونوں صورتیں معلول اور ضعیف ہیں اور دائرہ علم میں داخل ہیں ۔ حال کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں اور بعض دوسروں کے لئے ان احکام کا منشاء  (پیدا ہونے کی جگہ)محبت کا غلبہ ہے کیونکہ محبوب کی محبت کے غلبہ کے باعث محبوب کا غیرمحب کی نظر سے دور ہو جانا ہے اور محبوب کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ نہ یہ کہ حقیقت میں محبوب کا غیر کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ بات حس اور عقل اور شرع کے مخالف ہے اورکبھی یہی محبت احاطہ اور قرب ذاتی کے ساتھ کم کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ توحید کی یہ قسم پہلی دونوں قسموں سے اعلی ہے اور دائرہ حال میں داخل ہے اگر چہ اصل حقیقت کے مطابق اور شریعت  کے موافق نہیں ہے اور شریعت  اور اہل حقیقت کے ساتھ اس کا مطابق کرنامحض تکلف ہے مانند تکلفات بیہودہ فلسفیہ کے کہ ان میں اہل اسلام فلسفی چاہتے ہیں کہ اپنے اصول فاسدہ کو قوانین شرعیہ کے مطابق کریں۔ کتاب اخوان الصفا وغیرہ اسی قسم کی ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ خطائے کشفی خطائے اجتہادی کا حکم رکھتی ہے کہ جس سے ملامت وعتاب رفع ہے بلکہ صواب کے درجوں میں سے ایک درجہ اس کے حق میں ثابت ہے البتہ اس قدر فرق ہے کہ مجتہد کے مقلد مجتہد کا علم رکھتے ہیں اور خطا کےہو جانے پر بھی صواب کا ایک درجہ پالیتے ہیں ۔ برخلاف اہل کشف کے مقلدوں کے کہ معذور نہیں ہیں اور خطا کے ہو جانے سے درجہ صواب سے محروم ہیں ۔ کیونکہ الہام اور کشف غیر پر حجت نہیں اور مجتہد کا قول غیر پر حجت ہے۔

پس تقلید اول یعنی اہل کشف کی تقلید خطا کے احتمال پر جائز نہیں ہے اور تقلید ثانی یعنی مجتہد کی تقلید خطا کے احتمال پر جائز بلکہ واجب ہے۔

اور بعض سالکوں کا  شہود  جو کونی تعینات (مخلوقات)کے آئینوں میں ہے وہ بھی سابقہ احکام کی قسم سے ہے اور اس شہودکا انہوں نے کثرت میں وحدت کا مشاہدہ یا کثرت میں احمدیت کا مشاہدہ نام رکھا ہے کیونکہ واجب تعالی جوبیچوں اوربیچگون ہے۔ ہرگز چون کے آئینوں میں نہیں سما سکتا اور چندی کے جولان گاہ میں نہیں آتا اور لا مکانی مکان میں گنجائش نہیں رکھتا۔

بیچون کو دائرہ چون کے باہر ڈھونڈ نا چاہئے اور لا مکان کو مکان کے باہر تلاش کرنا چاہئے جو کچھ آفاق وانفس میں دیکھا جاتا ہے۔ وہ حق تعالی کے نشانات ہیں۔

دائرہ  ولایت کے قطب یعنی حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ جو کچھ دیکھا گیا اور سنا گیا اور جانا گیا یہ سب غیر اور حجاب ہے کلمہ لا کی حقیقت سے اس کی نفی کرنی چاہئے ۔

در تنگنائے صورت معنی جگو نہ گنجد در کلبہ گدایاں سلطاں چہ کار دارد

صورت پرست غافل معنی چه داند آخرکو باجمال جانا پنہاں چه کار دارد

ترجمہ: صورت کی تنگ جامیں معنی نہیں سماتے گھر میں گدا کے سلطاں ہرگز نہیں ہیں آتے صورت پرست غافل معنی نہیں ہے پاتا دلبر جمال . اپنا اس کو نہیں دکھاتا

اگر کہیں کہ اکثر مشائخ نقشبندیہ اور دوسرے سلسلہ کے مشائخ کی عبارتوں میں صاف طور لکھا ہے جو وحدت وجود اور احاطہ اور قرب اور معیت ذاتی اور کثرت میں وحدت کے مشاہدے اور کثرت میں احدیت کے مشاہدے پر دلالت کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ احوال و شہود(مشاہدہ)  احوال کے اثناء میں ان کو ظاہر ہوئے ہوں گے اور بعد ازاں اس مقام سے گزر گئے ہوں گے جیسا کہ اس فقیر نے پیشتر اپنے حال کی نسبت لکھا ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ بعض کے ظاہر کو جو کثرت بین ہے باطن میں احدیت صرف کی صرف پوری نگرانی ہونے کے باوجود ان احکام اور اس شہود(مشاہدہ)  سے مشرف کرتے ہیں۔ گویا باطن میں  احدیت کے نگراں ہوتے ہیں اور بظاہر کثرت میں مطلوب کے مشاہدہ کرنے والے جیسا کہ اس فقیر نے اس مکتوب کے ابتدا میں اپنے والد بزرگوار کے حال سے خبر دی ہے اور اس جواب کی تحقیق مفصل طور پر اس رسالہ میں لکھی گئی ہے جو وحدت وجود کے مراتب کی تحقیق میں کیا ہے اس مقام پر اس سے زیادہ جو مذکور ہوا بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ جب نفس امر میں بہت سے وجود ہوں اور قرب اور احاطہ ذاتیہ نہ ہو اور کثرت میں وحدت کا شہود(مشاہدہ)  واقع کے مطابق نہ ہو تو ان بزرگواروں کا حکم جھوٹا ہو گا کیونکہ واقع نفس الامر کے مطابق نہیں ہے کیونکہ ہم جواب کہتے ہیں کہ ان بزرگواروں نے اپنے شہود(مشاہدہ)  کے اندازے کے موافق حکم کیا ہے جس طرح کوئی شخص یہ حکم کرے کہ میں نے زید کی صورت کو آئینے میں دیکھا۔ یہ حکم بھی واقع کے مطابق نہیں کیونکہ آئینہ میں اس صورت کونہیں دیکھا ہے کیونکہ صورت آئینہ میں بالکل نہیں ہے جو دیکھی جائے۔ اس شخص کو عام طور پر کاذب نہ کہیں گے اگر چہ وا قع نفس الامر کے مطابق نہیں ہے کیونکہ وہ اس حکم میں معذور ہے اور جھوٹ کی ملامت اس سے دور ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا۔ ان حالات کے ظاہر کرنے سے جو پوشیدہ رکھنے کے لائق ہیں ۔ مقصود یہ ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ اگر فقیر نے وحدت وجود کو قبول کیا ہوا تھا تو وہ کشف سے تھا۔ نہ از روئے تقلید کے اور اگر اب انکار ہے تو الہام کے سبب سے ہے اور الہام میں انکار کی گنجائش نہیں اگر چہ الہام غیر پر حجت نہیں ہے۔

دوسرا جواب جھوٹ کا شبہ دور کرنے کے لئے یہ ہے کہ افراد عالم ایک دوسرے کے ساتھ بعض امور میں مشترک اور  شریک ہیں اور بعض دوسرے امور میں ایک دوسرے سے ممتاز اور جدا۔ اسی طرح ممکن کا واجب کے ساتھ بعض امور عارضی میں اشتراک ہے اگر چہ بالذات ایک دوسرے سے ممتاز ہیں۔ پس محبت کے غلبہ کی وجہ سے وہ چیز جس سے فیما بین تمیز ہو سکے ، نظر سے پوشیدہ ہو جاتی ہے اور وہ چیز جس سے دونوں میں اشتراک ہے۔ نظر میں رہ جاتی ہے۔ … . پس اس صورت میں اگر ایک دوسرے کے عین ہونے کا حکم کریں تو واقع کے مطابق اور  جھوٹ کی ہرگز مجال نہ رہے گی۔ احاطہ ذاتی اور اس کی مانند اور باتوں کو بھی اسی پر قیاس کرنا ہے۔ والسلام

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ 120 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں