جسمانی اور روحانی لذت اور دردمکتوب نمبر64دفتر اول

جسمانی اور روحانی لذت اور درد کے بیان میں اور جسمانی رنج اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کی ترغیب اور اس کے مناسب بیان میں سیادت و شرافت کی پناه والے شیخ فرید کی طرف لکھا ہے۔

سلمكم الله سبحانہ وعافاكم في الدارين بحرمت سيدالثقلين عليه وعلى اله الصلوات والتسليمات حق تعالی حضرت سید الثقلین ﷺکے طفیل آپ کو دونوں جہان میں سلامت اور عافیت سے رکھے۔

دنیا کی لذت اور الم دوقسم ہے۔ جسمانی اور روحانی جس چیز میں جسم کی لذت ہے اس

میں روح کا رنج ہے اور جس چیز سے جسم کور نج پہنچے اس میں روح کی لذت ہے۔

پس روح اور جسم ایک دوسرے کی ضد ہیں اور اس جہان میں کہ روح جسم کے مقام میں اترا ہوا ہے اور جسم جسمانی میں گرفتار ہوا ہے۔ روح نے بھی جسم کا حکم پیدا کر لیا ہوا ہے اور اس کی لذت سے اس کو لذت اور اس کے رنج سے اس کورنج ہے۔ یہ مرتبہ عوام کا الانعام کا ہے ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (پھر ہم اس کو کمتر سے کمتر مخلوق کے درجے میں لوٹا لاۓ)انہی کی شان میں صادق ہے اگر روح کو اس گرفتاری سے خلاص نہ ہو اور اپنے اصلی وطن کی طرف رجوع نہ کرے تو ہزار ہزار افسوس ہے ۔

پایه آخر آدم است و آدمی  گشت محروم از مقام محرمی

گرنگردد باز مسکین زیں سفر نیست از دےہیچکس محروم تر

ترجمہ: سب کے پیچھے رتبہ ہے انسان کا اس لئے محروم تر سب سے ہوا

 گر نہ لوٹے اس سفر سے یہ گدا ہے پھر اس کے حال پر واحسرتا

روح کی بیماری کے باعث ہے کہ اپنے رنج  کو لذت اور لذت کورنج معلوم کرتا ہے جیسا کہ صفراوی مزاج والا شخص  بیماری کے باعث شیرینی کو کڑوا معلوم کرتا ہے۔

پس عقلمندوں پر لازم ہے کہ اس مرض کے دور کرنے کا فکر کریں تاکہ جسمانی رنج و مصائب میں خوش وخرم زندگی بسر کریں ۔

از برائے عیش وعشرت ساختن صد ہزاراں جان باید باختن

ترجمہ: صد ہزاروں جان جوکھوں میں پڑے جاودانی عیش و عشرت تب ملے

اور جب اچھی طرح غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں درد اور الم و مصیبت نہ ہوتے تو جو کےبرابر اس کی قدر نہ ہوتی۔ اس کی ظلمتوں کو واقعات اور حاد ثے دور کردیتے ہیں۔ حادثوں کی تلخی داروئےتلخ  کی طرح نافع ہے جس سے مرض کو دور کرتے ہیں۔

فقیرکو تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ عام دعوتوں میں جوکھانا پکاتے ہیں اور خالص نیت نہیں کر سکتے اور بعض لوگ اس کھانے کی نسبت گلہ و شکایت کرتے ہیں اور طعام صاحب طعام کا عیب اور نقصان ظاہر کرتے ہیں اور صاحب طعام کو اس بات سے دل کی شکستگی حاصل ہوجاتی ہے تو صاحب طعام کی یہی شکستگی اس ظلمت کو جو خالص نیت کے نہ ہونے سے کھانے میں آ گئی تھی دور کردیتی ہے اور معرض قبول میں لے آتی ہے اگر وہ لوگ شکایت نہ کرتے اور صاحب طعام کا دل شکستہ نہ ہوتا تو طعام سراسر ظلمت اور کدورت سے بھرا رہتا اور اس صورت میں قبولیت کا احتمال نہ ہوتا۔

پس کام کا مدارشکستگی اور آوارگی پر ہے لیکن ہم ناز سے پلے ہوئے عیش و آرام کے طالبوں کو یہ کام مشکل ہے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ نص قاطع ہے اور عبادت سے مقصود عجز و انکسار ہے۔ پس انسان اور خاص کر مسلمانوں اور دینداروں کے پیدا کرنے سے مقصود ذلت و خواری ہے کیونکہ دنیا ان کے لئے قید خانہ ہے۔ قید خانہ میں عیش و آرام کا ڈھونڈ نا عقل سے دور ہے۔ پس آدمی کو محنت کشی اور اس بوجھ کے اٹھانے سے کوئی چارہ نہیں۔ حق تعالی آپ کے جد امجد ﷺکے طفیل ہم بے طاقتوں کو اس پر استقامت عطا فرمائے۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ203ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں