شریعت  و حقیقت ایک دوسرے کا عین مکتوب نمبر 84دفتر اول

 اس بیان میں کہ شریعت  و حقیقت ایک دوسرے کا عین ہیں اور اور مرتب حق الیقین تک پہنچنے کی علامت اس مقام کے معارف کا علوم و معارف شرعیہ کے ساتھ مطابق ہونا ہے اور اس کے مناسب بیان میں سید احمد قادری کی طرف لکھا ہے:۔

حق تعالی شریعت  کے راستہ پر استقامت بخشے اور ہماری ساری امت کو اپنی پاک جناب کی طرف پھیر کر ہم کو پورے طور پر اپنے آپ سے فانی کر دے اور بالکل اپنے ماسوائے سے ہٹالے ۔ بحرمت سید البشر صلی اللہ علیہ و آلہ واصحابہ اجمعین جو میلان چشم سے پاک ہیں۔

از ہر چہ میر دو سخن دوست خوش تر است            ترجمہ: جو یارکاسخن ہے وہ سب سے عجیب ہے

جو کچھ کہ دوست کی نسبت کہا جاتا ہے اگر چہ اس کا سخن نہیں ہے لیکن جب اس کلام کو خدائے تعالی کی جناب کے ساتھ ایک قسم کی مناسبت ثابت ہے تو اس نسبت کوغنیمت جان کر اس بارہ میں جرات اور زبان درازی کرتا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ شریعت اور حقیقت ایک دوسرے کا عین ہیں اور حقیقت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں ۔ فرق صرف اجمال و تفصیل اور کشف و استدلال اور غیبت و شهادت اور تعمل وعدم تعمل کا ہے۔ وہ احکام و علوم جو ، شریعت  روشن کے موافق ظاہر اور معلوم ہوئے ہیں ۔حق الیقین کی حقیقت ثابت ہونے کے بعد یہی احکام و علوم بعینہ  تفصیل کے طور پر منکشف ہوجاتے ہیں اور غیب سے شہادت میں آجاتے ہیں اور کسب کا تکلف اور عمل کی بناوٹ درمیان سے اٹھ جاتی ہیں اور حق الیقین کی حقیقت تک پہنچنے کی علامت اس مقام کے علوم و معارف کا شرعی علوم معارف کے ساتھ مطابق ہونا ہے اور اگر بال بھر بھی مخالفت ہو تو حق الیقین کی حقیقت تک نہ پہنچنے کی دلیل ہے۔ اور مشائخ طریقت میں سے جس کی سے علم وعمل میں خلاف شریعت  صادر ہوا ہے۔ وہ سکر   وقت پرمبنی ہے اور سکر(مستی)  وقت اثنائے راہ میں واقع ہوتا ہے نہایت النهایت کے منتہیوں کو سب صحو اور ہوشیاری ہے اور وقت ان کا مغلوب ہے اور حال و مقام ان کے کمال کے تابع

صوفی ابن الوقت آمد در مثال لیک صوفی فارغ است از وقت دجال

 ترجمہ: صوفی وقت و حال کا پابند ہے لیکن صافی ہر گھڑی خور سند ہے

پس ثابت ہوا کہ خلاف شریعت  کا صادر ہونا حقیقت کار تک نہ پہنچنے کی علامت ہے۔ بعض مشائخ کی عبارتوں میں واقع ہے کہ شریعت  حقیقت کی پوست ہے اور حقیقت شریعت  کا مغز۔ یہ عبارت اگر چہ اس کلام کے بولنے والے کی بے استقامتی ظاہر کرتی ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ مجمل کومفصل کے ساتھ وہ نسبت ہے جومغز کو پوست کے ساتھ ہے اور استدلال کشف کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسامغز کے مقابلہ میں پوست۔ لیکن مستقيم الاحوال بزرگوار اس قسم  کی موہومی عبارات کالا نا پسند نہیں کرتے اور اجمال تفصیل اور کشف و استدلال کے سوا اور فرق نہیں بتلاتے۔

کسی شخص نے حضرت خواجہ نقشبندی قدس سرہ سے سوال کیا کہ وہ سیر و سلوک سے مقصود کیا ہے تو فرمایا ہے معرفت اجمالی تفصیلی ہوجائے اور استدلالی (دلیل سے حاصل ہو)کشفی بن جائے۔

رزقنا الله سبحانه الثبات والإستقامة على الشريعة علما و عملا صلوات الله وسلامه على صاحبها الله تعالی ہم کوشریعت پرعلمی اورعملی طور پر استقامت بخشے۔ باقی تکلیف یہ ہے کہ حال رقیمہ دعا شیخ مصطفی  شریحی قاضی شریح کی نسل سے ہے۔ اس کے باپ دادا بڑے بزرگ تھے اور وظائف اور وجہ معاش بہت رکھتے تھے ۔ سندیں اور پروانے جمع کر کے لشکر کی طرف متوجہ ہوا ہے گزارے کے اسباب کے نہ ہونے سےتنگ ہے ۔ اس کے حال پر اس طرح توجہ فرمائیں کہ اس کی جمعیت (دل کو طمینان حاصل ہونا) کے حاصل  ہونے کا سبب ہو جائے اور بے قراری اور پراگندگی سے نجات پائے۔ زیادہ کیا تکلیف ہے۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ248ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں