صحابہ کرام کی بزرگی مکتوب نمبر 24دفتر سوم

 آنحضرت علیہ الصلوة والسلام کے اصحاب کرام کی بزرگی اور باہم ایک دوسرے 

کے ساتھ ان کی مہربانی کے بیان میں ملامحمد مرادکشمی کی طرف جو میر محمد نعمان کے خادموں میں سے ہے۔ صادر فرمایا ہے:۔

اللہ تعالی فرماتا ہے۔ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًاحضرت محمد الله تعالی کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں نہات ہی مہربان ہیں۔ رکوع وسجود کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے فضل و رضامندی چاہتے ہیں۔ ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان ہیں ۔ تورات اور انجیل میں ان کی یہی تعریف ہے۔ ان کی مثال اس کھیت کی سی ہے جو بہت پھلے پھولے اور اس کی شاخیں مضبوط اور اس کے تنے اچھے موٹے ہو جائیں جن کو دیکھ کر کسان خوش ہوں اور کفار غصہ میں آئیں۔ اللہ تعالی نے ان میں 

سے ایمانداروں اور نیکو کاروں کو بخشش اور بڑے اجر کا وعدہ دیا ہے اس آیت میں اللہ تعالی نے حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کے تمام اصحاب کی کمال مہربانی و محبت کے ساتھ جو ایک دوسرے کے ساتھ رکھتے تھے مدح فرمائی ہے کیونکہ رحیم جو رحماء کا واحد ہے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ جس کے معنی کمال مہربانی کے ہیں۔ چونکہ صفت مشبہ استمرار پر بھی دلالت کرتی ہے۔ اس واسطے چاہئے کہ ان کی ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مہربانی آنحضرت کے حضور میں بھی اور ان کے رحلت فرما جاننے کے بعد بھی ہمیشہ کے لیے دوامی اور استمراری طور پر ہو اور جو کچھ ایک دوسرے کے حق میں مہربانی کے منافی ہوان بزرگواروں سے ہمیشہ کے لیے مسلوب ہو اور ایک دوسرے کے ساتھ بغض و کینه وحسد وعداوت کا احتمال بھی دائمی طور پر ان اکابر دین سے دور ہو جب تمام صحابہ کرام اس پسندیدہ صفت سے متصف ہوں۔ جیسے کہ کلمہ والذین سے جو عموم اور استغراق کے سینوں میں ہے ظاہر ہوتا ہے۔ تو ان اصحاب بزرگ کی نسبت کیا کہا جائےجن میں  صفت  اتم و اکمل طور پر ہوگی۔ اسی واسطے آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے۔ أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي ‌أَبُو ‌بَكْرٍ میری امت میں سے زیادہ رحم کرنے والا میری امت یا ابوبکر ہے) اور حضرت فاروق کی شان میں فرمایا ہے۔ لَوْ کَانَ بَعْدِی نَبِیُّٗ لَکَٰانَ عُمَرَ (اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا ) یعنی کمالات و لوازم جو نبوت میں درکار ہیں سب حضرت عمر میں موجود ہیں، لیکن چونکہ منصب نبوت حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام پر ختم ہو چکا ہے اس لیے منصب نبوت کی دولت سے مشرف نہ ہوئے۔ نبوت کے لوازم میں سے ایک خلق پر کمال مہربانی اور شفقت کرنا ہے۔ نیز وہ رذائل یعنی  کمینہ صفتیں جو شفقت و مہربانی کے منافی ہیں اور نہایت ہی برے اخلاق میں سے ہیں۔ یعنی حسد، بغض، کینہ اور عداوت ان لوگوں کے حق میں جو حضرت خیر البشر کی شرف محبت سے مشرف ہوئے ہیں۔ حسد اور بغض اور کینه و عداوت کس طرح متصور ہوسکتی ہیں۔ جو تمام امتوں میں سے بہتر امت کے بہترین ہیں اور تمام مذہبوں کو منسوخ کرنے والے مذہب کے سابق ترین ہیں۔ جن کا زمانہ تمام زمانوں سے بہتر تھا اور ان کا مصاحب تمام نبیوں اور رسولوں سے فضیلت والا تھا۔ اگر یہ لوگ ردی صفتوں سے موصوف ہوں جن سے اس امت مرحومہ کے کمینہ آدمی کو عار آتی ہے تو پھر یہ لوگ کس طرح امت میں سے بہتر ہوں گے اور یہ امت کی وجہ سے خیرالامم ہو گی اور ایمان میں سب سے اول اوربڑھ کر ہونا اور مال و جان کو سب سے بڑھ کر زیادہ خرچ کرنا کیوں زیادتی اور فضیلت کا باعث ہو گا اور خیر القرون کی کیا تاثیر ہوگی اور حضرت خیرالبشر کی فضل صحبت کا کیا اثر ہو گا۔ وہ لوگ جو اس امت کے اولیاء کی صحبت میں کچھ مدت رہتے ہیں وہ ان رذیل  صفتوں سے نجات پا جاتے ہیں۔ تو وہ لوگ جنہوں نے حضرت افضل الرسل کی صحبت میں اپنی عمر یں صرف کی ہیں اور دین کی تائید اور درد کے لیے اپنے مالوں اور جانوں کو خرچ کیا ہے ۔

کیا ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کے حق میں اس قسم کی بری خصلتوں کا وہم کیا جائے؟ سوائے اس کے حضرت خیرالبشر کی عظمت و بزرگی نظر سے گر جائے اور ان کی صحبت ایک ولی امت کی صحبت سے بھی ناقص سمجھی جائے۔ نعوذ بالله منها حالانکہ مقرر ہے کہ امت کا کوئی ولی اس امت کے صحابی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ تو پھر اس امت کے نبی کے درجہ کو کس طرح پا سکے گا۔ حضرت شبلی علیہ الرحمة نے فرمایا ہے۔ لَم يُؤْمِن بِالرَّسُول ‌من ‌لَم ‌يُوقّر ‌أصْحَابَه جس نے اصحاب کی تعظیم نہ کی، وہ رسول اللہ پر ایمان نہیں لایا) بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب دو فریق تھے۔ ایک وہ گروہ تھا جو حضرت امیر کا مخالف تھا اور دوسرے گروہ کے وہ لوگ تھے جو حضرت امیر کے موافق تھے اور یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے ساتھ عداوت اور بغض، کینہ رکھتے تھے اور ان میں سے بعض صحابہ بھی مصلحتوں کے لیے اپنی صفات کو پوشیدہ رکھتے تھے اور تقیہ کرتے تھے اور وہ لوگ یہی گمان کرتے ہیں کہ یہ بری صفتیں ان میں ایک زمانہ تک رہی ہیں۔ بلکہ جب تک زندہ رہے ہیں ان میں یہ صفات موجود رہی ہیں اور اس وہم سے حضرت امیر کے مخالفوں کو برا کہتے ہیں اور نامناسب باتیں ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ انصاف کرنا چاہئے کہ اس صورت میں دونوں فریق طعن کے لائق اور ان رذیلہ صفتوں کے ساتھ متصف ہو جاتے ہیں اور امت کے بہترین لوگ تمام امتوں میں سے بد ترین بن جاتے ہیں اوراس زمانہ کا خیرشر سے بدل جاتا ہے۔ یہ کونسا انصاف ہے کہ حضرات شیخین کو اس وہم سے براکہیں اور دین کے ان بزرگواروں کی طرف نامناسب امور منسوب کریں۔ حالانکہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  نص قرآن کے بموجب اس امت میں سب سے بڑھمتقی اور اتقی ہیں، کیونکہ حضرت ابن عباس رضی الله عنہما اور دوسرے مفسرین کا اجماع ہے اس امر پر کہ آیت کریمہ وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے شان میں نازل ہوئی اوراتقی سے مرادحضرت صدیق ہیں۔ پس جس شخص کو اللہ تعالی اس خیرالامم کا اتقی فرماتا ہے تو پھر خیال کرنا چاہئے کہ اس کی تکفیر اور تفسیق اورتضلیل یعنی اس کو کافر اور فاسق اور گمراہ کہتا کس قدر برا ہے۔ امام فخر الدین رازی نے اسی آیت سے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت پر استدلال کیا ہے، کیونکہ آیت کریمہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ زیادہ عزت والاتم میں سے اللہ تعالی کے نزدیک وہ شخص ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیز گار ہے)کے مطابق اس امت میں سب سے زیادہ بزرگ جس کی طرف خطاب کیا گیا ہے۔ حق تعالی کے نزدیک اس امت کا اتقی ہے۔ جب حضرت صدیق سابق نص قرآنی کے بموجب اس امت کے اتقی ہیں تو چاہے کر نص لاحق کے موافق اس امت کے بزرگ تر بھی وہی ہوں اور اکابر ائمہ سلف نے جن میں سے ایک امام شافعی رضی اللہ عنہ ہیں، حضرت شیخین کی افضلیت پر صحابہ و تابعین کا اجماع ثابت کیا ہے اور حضرت امیر نے بھی حضرت شیخین کی افضلیت کا حکم کیا ہے۔ امام ذہبی نے جو بزرگ محدثین میں سے ہیں فرمایا ہے کہ اس نقل کو حضرت امیر سے اسی آدمیوں سے زیادہ نے روایت کیا ہے اور عبدالرزاق نے بھی جو اکابر شیعہ میں سے ہے۔ اس نقل کے بموجب حضرات شیخین کی افضلیت کا حکم دیا ہے اور اس عبارت میں بیان کیا أفضل ‌الشَّيْخَيْنِ بتفضيل عَليّ إيَّاهُمَا على نَفسه وَإِلَّا لما فضلتهما عَلَيْهِ كفى بِي زوراً أَن أحبه ثمَّ أخالفه (شیخین کو اس لیے افضل جانتا ہوں کہ حضرت علی نے خود اپنے آپ پر ان کو فضیلت دی ہے۔ ورنہ میں بھی ان کو فضیلت نہ دیتا مجھے اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ میں حضرت علی سے محبت رکھوں اور ان کی مخالفت کروں) پس وہ لوگ جو کتاب و سنت و اجماع اور حضرت امیر کے اعتراف اور اقرار کے موافق اس خیرالامم میں سے افضل ہوں۔ ان کی اہانت اور حقارت کرنا کون سا انصاف و دیانت ہے اور اس میں کون سی بہتری اور خیریت ہے۔ اگر کسی شخص کو گالی نکا لنا خریت اور عبادت ہوتی تو ابوجہل اور ابولہب کو گالی نکالنا جو قرآنی نصوص کی رو سے لعنت وطرد کے لائق ہیں اس امت کا ورد ہوتا اور اس میں بہت ہی نیکیاں حاصل ہوتیں۔ گالی نکالنے میں کوئی خیریت ہے جوفحش و فضیحت یعنی برائی کو متضمن ہے۔ خاص کر اس  شخص کے حق میں جو اس کے مستحق اور لائق نہ ہو۔ 

کسی شے کا نامناسب جگہ میں رکھنا ظلم ہے اور ایک شے سے دوسری شے تک اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بہت تفاوت ہے۔ اسی طرح ایک ظلم سے دوسرے ظلم تک بہت فرق ہے اور حضرت ذی النورین رضی اللہ عنہ کی خلافت صحابہ کرام کے اجماع سے ثابت ہوچکی ہے اور اس قرن خیرالقرون کے تمام چھوٹے بڑے اور مردوں عورتوں کے اتفاق سے حاصل ہوچکی ہے اور اسی واسطے علماء نے فرمایا ہے کہ جس قدر اتفاق و اجتماع حضرت ذی النورین کی خلافت پرحاصل ہوا ہے۔ حضرات خلفاء  ثلثہ میں سے کسی کی خلافت پراتنا حاصل  نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی خلافت کی ابتدائ ہی میں چونکہ ایک قسم کاتر ددتھا۔ اس لیے اس زمانہ کے لوگوں نے اس بارہ میں بڑی احتیاط سے توجہ کی ہے۔ جاننا چاہئے کہ اصحاب کرام رضی الله تعالی عنہم کتاب وسنت کے پہچاننے والے ہیں اور اجماع بھی ان کے زمانہ کے متعلق ہوا ہے۔ اگر سب کے سب یا ان میں سے بعض پرطعن لگائیں اور گمراہی اورفسق سے موصوف کریں تو تمام کے تمام دن یابعض امور سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور حضرت خاتم الانبیاء اور افضل الرسل علیہ الصلوة والسلام کی بعثت کا فائدہ کم ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید کے جامع حضرت عثمان بلکہ حضرت صدیق اور حضرت فاروق رضی الله تعالی عنہم بھی ہیں۔ اگر یہ مطعون اورنا انصاف ہوں تو پھر قرآن پر کیا اعتبار رہے گا اور دین کسی چیز پر قائم رہے گا۔ اس امر کی برائی کو اچھی طرح جاننا چاہئے۔ اصحاب پیغمبر سب کے سب عدول ہیں اور کتاب وسنت وغیرہ جو کچھ ان کی تبلیغ سے ہم کو پہنچا ہے۔ سب سچ و برحق ہے اور وہ لڑائی جھگڑے جو حضرت امیر کی خلافت کے وقت ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں۔ وہ ہوا و ہوس اور حب جاہ و ریاست کے باعث نہ تھے بلکہ اجتہاد و استنباط کے سبب سے تھے۔ خواہ کسی کے اجتہاد میں خطا ہو اور اس کا استنباط صواب سے دور ہو۔ علماء اہل سنت و جماعت کے نزدیک ثابت ہے کہ ان لڑائی جھگڑوں میں حضرت امیر حق پر تھے اور ان کے مخالف خطا پر لیکن یہ  خطا جس کا منشاء اجتہاد ہے۔ طعن و ملامت سے دور ہے۔

مقصودیہ ہے کہ حق حضرت امیر کی طرف تھا اور خطا حضرت امیر کے مخالفوں کی طرف۔ جس کو اہل سنت و جماعت بھی مانتے ہیں، لیکن مخالفوں کولعن وطعن کرنا بیجا زیادتی ہے۔ جس کا کچھ فائدہ نہیں بلکہ اس سے ضرر کا احتمال ہے۔ کیونکہ سب پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب ہیں۔ جن میں سے بعض کو جنت کی خوشخبری ہے اور بعض بدری یعنی جنگ بدر والے ہیں جو بخشے ہوئے ہیں اور آخرت کا عذاب ان سے دور ہو چکا ہے جیسے کہ حدیثوں میں آ چکا ہے۔ ‌اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ ‌بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ (الله تعالی نے اہل بدر کے حال پر واقف ہو کر فرمایا کہ جو کچھ چاہو کرو۔ میں نے تمہیں بخش دیا ہے اور کچھ بیعت رضوان سے مشرف ہوئے ہیں۔ جن کے حق میں آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دوزخی نہیں ہو گا بلکہ علماء نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید سے مفہوم ہوتا ہے کہ تمام صحابہ بہشتی ہیں۔ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (وہ لوگ جنہوں نے  فتح سے پہلے مال خرچ کیا اور لڑائی کی ان لوگوں سے زیادہ درجہ والے ہیں جنہوں نے فتح  کے بعد مال خرچ کیا اورلڑائی کی اور اللہ تعالی نے ہر ایک کے لیے حسنٰے یعنی جنت کا وعدہ دیا ہے اور اللہ تعالی تمہارے عملوں سے خبردار ہے) اس آیت میں حسنے سے مراد جنت ہے اور سب صحابہ کے لیے جنہوں نے سے پہلے یا بعد مال خرچ کیا ہے اور لڑائی کی ہے۔ جنت کا وعدہ ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ انفاق اورقتال کی صفت تقید کے واسطے نہیں بلکہ مدح کے لیے ہے۔ کیونکہ تمام صحابہ ان دو صفتوں سے موصوف تھے۔ جن کے باعث سب کے لیے بہشت کا وعدہ ہے۔ ملاحظہ کرنا چاہئے کہ اس قسم کے بزرگواروں کو برائی سے یاد کرنا اور ان پر بدظن ہوتا کس قدر انصاف ودیانت سے دور ہے۔

 سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺکے رحلت فرمانے کے بعد  بعض اصحابہ کرام اس طریق پرنہ رہے اور حضرت امیر کے منصب خلافت کو زبردستی چھین لیا اور خلافت کی محبت و جاہ و ریاست کی طلب کے باعث طریق حق سے پھر گئے بلکہ گمان کرتے ہیں کہ ان کا انحراف کفر و گمراہی تک  پہنچ چکا ہے۔ پس ان کے خیال میں وہ صحابی ان وعدوں سے جو اصحاب کرام کے حق میں آئے ہیں محروم ہوں گے، کیونکہ صحبت کی فضیلت اسلام کی فرع ہے اور جب ان کے اسلام میں کلام ہے تو صحبت کی کیا تاثیر رہے گی۔

 جواب: جب حضرات خلفاءثلاثہ  رضی الله تعالی عنہم کے حق صحیح حدیثوں کی روسے جوتواتر معنی کی حدتک پہنچ چکی ہیں۔ جنت کی بشارت آ چکی ہے تو پھر کفر وگمراہی کا احتمال ان سے دور ہو چکا ہے۔ نیز حضرات شیخین اہل بدر سے بھی ہیں۔ جو صحیح حدیثوں کی رو سے مطلق طور پر بخشے ہوئے ہیں اور بیعت رضوان سے بھی مشرف ہیں جو سب کے سب حدیثوں سے بہشتی ثابت ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ گزر چکا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جو جنگ بدر میں حاضر نہ تھے۔ اس کی وجہ تھی کہ آپ کی اہلیہ یعنی آنحضرت ﷺکی بیٹی بیمارتھیں۔ ان کی بیمار پرسی کے لیے حضرت ان کو مدینہ منورہ میں چھوڑ آئے تھے اورفرمایا تھا کہ جو اہل بدر کو فضیلت حاصل ہوگی۔ تم کو بھی وہی حاصل ہوگی اور بیعت رضوان میں حضرت عثمان کے حاضرنہ ہونے کی وجہ تھی کہ آنحضرت ﷺنے ان کو مکہ والوں کے پاس بھیجا تھا اور ان کی طرف سے خود بیعت فرمائی تھی جیسا کہ مشہور ہے۔ نیز قرآن مجید بھی ان حضرات کی بندگی کی شہادت دیتا ہے اور ان کے بلند درجوں کی خبر دیتا ہے۔ جوشخص کتاب وسنت سے آنکھیں بند کر کے ضد وتعصب کرے وہ بحث سے خارج ہے۔ شیخ سعدی علیہ الرحمن نے فرمایا ہے۔ بیت

آنکس کہ بقرآن و خبر رو ندہی آن است جوابش که جوابش ندی

 ترجمہ بیت: جو مانتا ہی نہیں ہے حدیث اور کتاب جواب اسکایہی ہے کہ دونہ اس کو جواب

 ہائے افسوس اگر حضرت صدیق میں کفر و گمراہی کا احتمال تصور ہوتا تو اصحاب پیغمبر باوجود اس قدر عادل اور زیادہ ہونے کے ان کو پیغمبر کا جانشین نہ بتاتے ۔ حضرت صدیق کی تکذیب میں اس خیر القرون زمانہ کے تینتیس ہزار اصحاب کی تکذیب ہے۔ اس بات کو ادنی آدمی  بھی پسند نہیں کرتا۔ جب اس زمانہ کے تینتیس ہزار آدمی  باطل پر جمع ہوں اور گمراہ اور گمراہ کنندہ کو پیغمبر کا جانشین بنا دیں تو اس زمانہ میں کونسی خیر یت رہی ہوگی۔ حق تعالی ان لوگوں کو انصاف دے کہ دین کے بزرگواروں کے طعن سے زبان کو بند رکھیں اور حضرت پیغمبر کی صحبت کے حقوق کو مدنظر رکھیں۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے۔ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا ‌تَتَّخِذُوهُمْ ‌غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ (میرے اصحاب کے حق میں اللہ تعالی سے ڈرو۔ میرے بعد ان کو نشانہ نہ  بناؤ۔ جس نے ان سے محبت رکھی۔ اس نے میری محبت کے باعث ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرےبغض کے باعث ان سے بغض رکھا) اس سے زیادہ کیا لکھا جائے اور بدیہی سے زیادہ روشن امر کو کیا روشن کیا جائے، کیونکہ حضرت صدیق جن کی مدح میں قرآن مجید بھرا ہوا ہے اور سوره والیل کی تین آیتیں خاص انہی کے فضائل میں نازل ہوئی ہیں اور بیشمارو بے حساب صحیح حدیثیں ان کے فضائل و کمالات میں مروی ہیں اور گذشتہ انبیاء علیہم السلام  کی کتابوں میں ان کا بلکہ تمام صحابہ  کے اوصاف وشمائل کا ذکر آیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے۔ مَثَلُهُمْ فِي ‌التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ ان کی تعریف توریت میں بھی ہے اورانجیل میں بھی اور تمام امتوں میں سے اس بہتر امت کے سردار اور رئیس بھی وہی ہیں۔ جب ان کو کافر اور گمراہ جانیں تو پھر اوروں کا کیا حال ہے۔ ان کی نسبت کس طرح کلام کی جائے۔ اللَّهُمَّ ‌فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اے زمین و آسمانوں کے پیدا کرنے والے اور غیب و شہادت کے جانے والے خدا تو ہی اپنے بندوں کے درمیان جس امر میں وہ اختلاف کررہے ہیں فیصلہ کرے گا) والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعليهم من الصلوة والتسليمات اتمها وادومها اور سلام ہو آپ پر اوران  لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ84ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں