صوفی کائن بائن ہے مکتوب نمبر24 دفتر اول

اس بیان میں کہ صوفی کائن بائن ہے اور اس بیان میں کہ دل کا تعلق ایک سے زیادہ کے ساتھ نہیں ہوتا اور اس بیان میں کہ محبت ذاتی کا ظہورمحبوب کے رنج و انعام کو مساوی جاننے کومستلزم ہے اور اس بیان میں کہ مقربین (وہ اولیائے کامرسلین جو ذکر و فکر، مراقبات، تجرید و تفرید، فنا و بقا اور استہلاک و استغراق کے ذریعے منازلِ سلوک طے کرتے ہوئے واصل باللہ ہوں وہ مقربین کہلاتے ہیں) کی عبادت اور ابرار(وہ اَولیائے کرام جو احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے کے علاوہ مجاہداتِ شدیدہ اور ریاضاتِ شاقّہ کے ذریعے مراتب سلوک طے کرکے واصل بحق ہوں ابرار کہلاتے ہیں) کی عبادت میں کیا فرق ہے اور اس بیان میں کہ مغلوب الحال اولیاء اور ان اولیاء کے درمیان جو دعوت خلق کی طرف راجع ہیں، کیا فرق ہے۔ محمدقلیچ  خاں کی طرف لکھا گیا ہے۔

الله تعالی اپنے حبیب سید المرسلین ﷺکے طفیل آپ کو سلامت رکھے اور عافیت بخشے۔ المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی  اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی)

پس مبارک ہے وہ شخص جس کے دل میں خدا کی محبت کے سوا کسی اور کی محبت نہ ہو اور اس کے سوا کسی اور کا طالب نہ ہو۔ پس ایسا شخص الله تعالی کے ساتھ ہے اگر چہ ظاہر میں خلق کے ساتھ مشغول ہے اور کائن(صحبت و معیت رکھنے والا ) بائن (تنہا ،منفرد ،جدا)صوفی کی یہی شان ہے۔ لیکن حقیقت میں الله تعالی کے ساتھ ہے اور خلق سے جدا ہے یا یہ مراد ہے کہ ظاہر میں خلق کے ساتھ ہے اور حقیقت میں اس سے جدا اور دل کی محبت کا تعلق ایک سے زیادہ کے ساتھ نہیں ہوتا۔ پس جب تک اس کی محبت کا تعلق اس ایک سے ہوگا۔ اس کے ماسوا سے اس کی محبت نہ ہوگی اور یہ جو اس کی مرادوں کی کثرت اور بہت قسم کی اشیا مثل مال و اولاد و سرداری اور تعریف اور لوگوں میں عزت و شان وغیرہ کے ساتھ اس کی محبت کا تعلق دیکھا جاتا ہے تو اس صورت میں بھی اس کا محبوب ایک ہی چیز ہے اور وہ اس کا اپنانفس ہے اور ان سب چیزوں کی محبت اس کے اپنے نفس کی محبت کی فرع اور شاخ ہے کیونکہ وہ ان سب چیزوں کو اپنے نفس کے لئے چاہتا ہے نہ کہ اپنے آپ کو ان کے لئے پس جب اس کے اپنے نفس کی محبت زائل ہوجائے تو ان تمام چیزوں کی محبت بھی بالتبع دور ہو جائے گی۔ اسی سبب سے کہتے ہیں کہ بندہ اور حق تعالی کے درمیان حجاب بندہ کا اپنا نفس ہے۔ نہ کہ جہان۔

کیونکہ ان کا ذاتی مقصد جہان نہیں ہے تا کہ حجاب ہو جائے بلکہ اس کا مقصود اپنے نفس کے سوا اور کچھ نہیں۔ پس بالضرور اب اس کا اپنا نفس ہوگا نہ کوئی اور شے پس جب تک بندہ اپنے نفس کی مراد سے بالکل پاک نہ ہوجائے۔ حق تعالی اس کی مرادنہیں ہوسکتا اور نہ ہی حق تعالی کی محبت اس کے دل میں آ سکتا ہے اور یہ اعلی دولت فنائے مطلق کے بعد جوتجلی ذاتی سے وابستہ ہے ثابت حاصل ہوتی ہے کیونکہ ظلمات کا پورے طور پر رفع ہونا متصور نہیں جب تک کہ سورج اچھی طرح روشن ہو جائے۔ پس جب یہ محبت جس کومحبت ذاتی سے تعبیر کرتے ہیں حاصل ہو جائے تو اس وقت محب کے نزدیک محبوب کا انعام اور ایلام یکساں معلوم ہوا ہے ۔ پس اس کو اس وقت اخلاص حقیقی حاصل ہو جاتا ہے اور خدا کی عبادت خاص اس کے لئے کرتا ہے نہ اپنے نفس کے لئے یعنی انعام کی طلب اور رنج کے دفع کرنے کی غرض سے نہیں کرتا کیونکہ یہ دونوں اس کے نزدیک برابر ہیں اور یہ مرتبہ مقربین کا ہے کیونکہ ابرارمحبت ذاتی کی سعادت سے کامیاب نہ ہونے کے باعث اللہ تعالی کی عبادات خوف وطمع کی نیت سے کرتے ہیں اور یہ دونوں امران کے اپنے نفس کی طرف راجع ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ابرار کی نیکیاں مقربین  کے لئے گناہ ہیں۔ پس ابرار کے حسنات ایک وجہ سے نیکیاں ہیں اور ایک وجہ سے برائیاں اور مقربین کے حسنات خالص اور نیکیاں ہیں۔

ہاں مقربین میں سے بھی بعض لوگ بقائے کامل سے موصول ہونے اور عالم اسباب کی طرف نزول کرنے کے بعد خوف وطمع کی نیت سے خدا کی عبادت کرتے ہیں لیکن ان کا خوف وطمع ان کے اپنے نفسوں کی طرف راجع نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کی رضامندی کی طمع پر اور اس کے غضب سے ڈر کے مارے عبادت کرتے ہیں اور ایسے ہی جنت کو وہ اس واسطے طلب کرتے ہیں کہ اس کے غضب کا مقام ہے نہ کہ اپنی جانوں سے رنج و الم کو دور کرنے کے لئے کیونکہ یہ بزرگوار نفسوں کی غلامی سے آزاد ہوکر خالص اللہ تعالی ہی کے لئے ہو گئے ہیں اور مقربین کے مرتبوں میں سے یہ رتبہ نہایت اعلی ہے اور اس مرتبہ والے شخص کو ولایت خاصہ کے مرتبہ سے متصف ہونے کے بعد مقام نبوت کے کمالات سے کامل حصہ حاصل ہوتا ہے اور وہ شخص جو عالم اسباب کی طرف نزول نہ کرے وہ مغلوب الحال اولیاء میں سے ہے اور اس کو مقام نبوت  کے کمالات سے کچھ حاصل نہیں ہے۔ اس لئے وہ تکمیل و ارشاد کے بھی لائق نہ ہو گا۔ برخلاف اول کے۔

رزقنا الله تعالی محبة هؤلاء الأكابر بومة سيد البشر عليه وعلى آلي وتباعه من الضوات أفضلها ومن الثيمات املها فإن المرء مع من أحب اللہ تعالی ہم کو سید البشر ﷺکے طفیل ان بزرگواروں کی محبت عطا فرمائے ۔ کیونکہ آدمی اسی کے ساتھ ہے جس سے اس کومحبت ہے۔ والسلام اولا واخرا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ100 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں