عین کا مفہوم

عین کا مفہوم

عین کے معنی

اصل، بنیاد، جڑ حقیقت،اصل جوہر ذات ، نفس، وجود، ہر موجود چیز
اصطلاح تصوف میں  حق کے ساتھ ایک ہونا اور ہستی حق میں گم ہونا اور سالک کا اپنے کو ذاتِ حق میں گم کرنا اور اپنی خودی سے فنا ہو کر بقا باللہ ہو جانا اور وصال کی لذت لینا.

عین اشارہ ہے اس شے کی ذات کی طرف جس سے اشیاءء ظاہر ہوں

صانع عالم قدیم ایسی صفات قدیمہ سے متصف ہے اُس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر  ( یعنی کسی بھی طور پر صفات، ذات سے جدا ہو کر نہیں پائی جا سکتیں )، یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہوسکیں

عین اور ذات کی مثال

بلا تشبیہ اس کو یوں سمجھیں کہ پھول کی خوشبو پھول کی صفت ہے جو پھول کے ساتھ ہی پائی جاتی ہے، مگر اس خوشبو کو ہم پھول نہیں کہتے، اور نہ ہی اُسے پھول سے جدا کہہ سکتے ہیں ۔

عین دو قسموں کی طرف تقسیم ہوتا ہے پہلے کا نام عین مطلق ہے دوسرے کوعین کمال کہا جاتا ہے اور کبھی عین مطلق کا نام احدیت مطلقہ اور عین الکمال بھی کہا جاتا ہے  ذات باری تعالی کے لیے اسے ذات بحت خالص اپنے نفس اور ذات کے مرتبہ میں تمام نسبتوں اور اضافتوں سے بے نیاز

اس میں صرف اس کی  ذات من حیث الذات ملاحظہ ہوگی  اور اس لیے اس کو وجود اور وجود صرف اور غیب الغیوب اور مجہول نعت اور ذات ساذج(ساذج ، سادہ کا معرب ہے۔ ذات ساذج اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہاں ذات میں کوئی چیز شامل نہیں ، بلکہ خالص ذات ہی ذات ہے۔) اور منقطع الوجدان ، غیب ہویت اور عین مطلق کہا جاتا ہے اور عین مطلق اس کا نام اس لئے رکھا جاتا ہے کہ اس حالت میں اللہ تعالی کی ذات ہر وجود سے خالی ہے یہاں تک کہ اس اطلاق کے ملاحظہ سے بھی اللہ تعالی تھا اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی کا یہی معنی ہے اور ہر نام کے ساتھ نام رکھنے کی وجوہات اس آدمی پر مخفی نہیں ہے جس کو فیض اقدس کی تجلی سے نور رحمانی عطا ہوا ہے مختصر یہ کہ اس ذات اور اس حالت میں احدیت ہے جو اسماء و صفات کی ملاحظہ سے بھی فارغ ہے اور اسے خالص لا تعین کہا جاتا ہے یہاں تک کہ لا تعین کے ملاحظہ سے بھی اور اسی لیے اس کو احدیت مطلقہ کہا جاتا ہے اس مرتبہ میں ایسی چیز کی حیثیت سے جن سے وجدان تعلق رکھتا ہے

چشمہ کو عین اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں وہ پانی عین کمال کی طرف جاری ہے وہ اسم ہے اور جس میں صفات اور اسماء مجمل طور پر معلوم ہے اور یہی تعین اول ہے اور یہی حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے

پس کمالات الہیہ کا ظہور تعین اول سے ہوتا ہے جو تمام کمالات کے لئے جامع برزخ ہے اورتعین ثانی وہ ہے جس سے کمالات ظاہر ہوتے ہیں اور اسی سے اللہ تعالی کا قول اگر تو نہ ہوتا تو میں ربوبیت کو ظاہر نہ کرتا ظاہر ہوتا ہے اور اس کے قول کی حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ میرے نور سے نور اے میرے سر کے سر اور اے میری معرفت کے خزانے اور  علم مطلق اور وجود مطلق اور وحدت حقیقت اور تجلی کے اولا اور ظہور متون میں پہلا رابطہ اور قابلیت عدلیہ اور مقام او ادنی اور برزخ قبر اور برزخ البرزخ اور احدیت الجماعت اور حقیقت محمدیہ اور فلک ولایا کہا جاتا ہے

اور کیونکہ اس مرتبہ میں ذات صرف تعین اللہ نے متعین ہوئی اور اس نے اپنے نفس کو اپنے نفس سے مالی طور پر اسماء و صفات سے موصوف پایا تو اس کے لئے وجود اور علم ثابت ہوا اور جب اس نے اپنے نور سے اپنے نفس سے مشہور ہو کر اپنے کمال کا مشاہدہ کیا اور اس طرح تجلّی فرمائی جو ظاہر ہو گیا تو اس کے لئے نور اور شہود کا مرتبہ ثابت ہوا تو اس کے لیے اس حالت میں چار مراتب ہے شود نور آئل اور وجود

تو ضروری ہوا

کہ اس بیان میں دو دائرے منسوب کیے جائیں پہلا دارا لا تعین اور اس کے مطابق ہے

اور دوسرا دائرہ وحدت جس میں یہ چاروں مراتب محفوظ ہیں اور اس کی صورت یہ ہے


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں