غیریت کا مفہوم

غیریت کا مفہوم

دو اشیاء میں سے ہر ایک کا دوسری شی سے متغائر ہونا، عینیت ” اسی غیریت کی مقابل ہے ، غیریت اور تغایر ایک ہی مفہوم کے حامل ہیں ۔

جس طرح دو چیزوں کا ہر طرح سے ایک ہونا عینیت کہلاتا ہے اور ان دونوں چیزوں کا کسی قسم کا امتیاز اور فرق ہونا غیریت کہلاتا ہے یہ دونوں باہم تناقص ہیں ان دونوں کا ایک محل میں جمع ہونا بھی محال ہے

غیریت عالم کون کو بھی کہتے ہیں یہ دو طرح پر ہے ، ایک عالم لطیف جیسے کہ ارواح اور عقول اور نفوس ، دوسری عالم کثیف جیسے کہ عرش اور کرسی اور فلک اور ملک اور خاک اور آب اور باد اور آتش اور نبات اور حیوان اور جماد وغیرہ اس مرتبہ کو ماسواء اللہ اور کائنات کہتے ہیں ۔

غیریت بمعنی ماسوا

خدا کے سوا جو کچھ ہے،اسے ماسوا کہتے ہیں۔ پورالفظ ماسوی اللہ ہے اور دوئی کے سوا جو کچھ ہےکے معنی غیریت ہیں۔ ماسوا عربی کا لفظ ہے اور دوئی فارسی کا مفہوم تقریباً ایک سا ہی ہے۔ محل استعمال  میں فرق ہے۔ :

غیریت کی آٹھ قسمیں

غیریت کی آٹھ قسمیں ہیں

غیریت اضافی

یعنی وجود اضافی کی وجہ سے ذات حق اور جملہ موجودات میں غیریت ہے کیونکہ جملہ موجودات کا وجود مستقل اور ذاتی نہیں ہے بلکہ ان کا وجود ذات حق کے ساتھ قائم ہے اور ذات حق کا وجود حقیقی ہے قائم بالذات ہے ۔ اس نسبت اور اضافت کی رو سے رب اور عبد میں غیریت اضافی ہے ور نہ حقیقت میں ایک ہی وجود ہے ۔

غیریت اعتباری

یہ ہے کہ حقائق ممکنات اور حقائق اسماء کو اپنے علم میں متعین فرمایا ہے ۔

غیریت اصطلاحی

یہ ہے کہ حق تعالی نے تفصیل صفات اور تفصیل اعیان فرمائی۔ اور حقائق الہی و حقائق کیانی بنائیں اور تمام حقائق کو متمائز کیا ، اسی وجہ سے جملہ حقائق ایک دوسرے سے ممتاز اور غیر ہیں ۔ خواہ ہم جانیں یا نہ جانیں ۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ حقائق اشیاء آپس میں نفس الامر(اعیان ثابتہ یعنی صور علمیہ) ہیں ممتاز اور متفائر ہیں ،  یہ امتیاز اور غیریت حق تعالٰی کی قائم کی ہوئی ہے اور نفس الامری ہے ۔

غیریت حقیقی

اسے غیریت حقیقی لغوی کہتے ہیں یہ غیریت لغوی حقیقی اور غیریت حقیقی اصطلاحی مابین عبد اور رب کے نہیں ہو سکتی۔ یہ تو ممکنات میں آپس میں ہے کیونکہ کوئی اللہ کی ضد نہیں ہے ۔

غیریت خیالی

یہ ہے کہ حق تعالی جمله صفات و اسماء و اعیان ثابته و ممکنات کو اپنے خیال میں لایا اور ان صور خیالیہ کو اپنے حسن و جمال کا آئینہ بنایا اس سے خیالی غیریت ظاہر ہوئی ۔

غیریت مجازی

یہ ہے کہ حق سبحانہ تعالٰی نے اپنے علم میں جملہ صفات کو اپنا مظہر قرار دیا

غیریت نسبتی

یہ ہے کہ حق تعالی نے صفات کو اپنی ذات سے نسبت دی ہے کہ بلا اس کی ذات کی نسبت کے کوئی شے موجود نہیں ہو سکی۔ اس نسبت کو نسبت وجودی اور نسبت حقیقی کہتے ہیں اس نسبت سے بھی  ذات حق اور صفات حق میں ایک غیریت ہے

غیریت وہمی

یہ ہے کہ حق تعالی نے تمام ممکنات کو اپنے تصور میں متصور فرمایا ۔اس تصور سے ایک وہمی غیریت ظاہر ہوئی ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں