مبدأ و معاد  کی مشکل عبارتوں کا حل مکتوب نمبر209دفتر اول

رسالہ مبدأ و معاد  کی بعض مشکل عبارتوں کے حل کرنے میں اور بعض عبارتوں کے بیان میں جو اس کی تائید میں لکھی گئی ہیں اور ایک مکتوب کے جواب میں جواس طریق کی ضروری باتوں پر مشتمل ہے میر محمدنعمان بدخشی کی طرف لکھا ہے۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاٰلِهِ الطَّاهِرِيْنَ اَجْمَعِیْنَ اللہ العلمین کی حمد ہے اور سید المرسلین اور ان کی آل پاک صلوة  و سلام ہو میرے سیادت پناہ عزیز بھائی میر محمد نعمان جمعیت سے رہیں۔ اس طرف کے احوال حمدکے لائق ہیں ۔سرائے فرخ میں رخصت ہونے کے وقت آپ نے اور برادرم محمد اشرف نے اس عبارت کے معنی جو رسالہ مبدأ و معاد میں واقع ہے، پوچھی تھی چونکہ وقت نے یاوری نہ کی اس لئے توقف میں رہی۔ اب دل میں آیا کہ اس عبارت کےحل میں کچھ لکھا جائے تا کہ دوستوں کی تسلی اورتشفی کا موجب ہو۔ رسالہ کی عبارت یہ ہے کہ 

آنحضرت ﷺکے رحلت فرمانے سے ہزار اور چند سال کے بعد ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) فرماتی ہے اور حقیقت کعبہ(مراد حق تعالیٰ ٰ ہے جو سجدے اور عبادت کے لائق ہے) کے مقام میں (رسائی پا کراس سے) متحد ہو جاتی ہے اور اس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہوجاتا ہے اور ذات احد جل سلطانہ کا مظہر بن جاتی ہے اور دونوں اسم مبارک(محمد و احمد) اپنے مسمی(مجموعہ حقیقت محمدی و حقیقت کعبہ) کے ساتھ متحقق ہوجاتے ہیں اور پہلا مقام حقیقت محمدی سے خالی رہے گا۔ یہاں تک کہ حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام نزول فرمائیں اور شریعت محمدی علیہ الصلوة والسلام کے موافق عمل کریں۔ اس وقت حقیقت عیسوی اپنے مقام سے عروج  فرما کر حقیقت محمدی کے مقام میں جو خالی رہا تھا، قرار پکڑے گی۔ 

جاننا چاہیئے  کہ شخص کی حقیقت اس کے تعین وجوبی سے مراد ہے کہ اس شخص کا تعین امکانی اس تعین کاظل ہے اور وہ تعین وجوبی اسمائے الہٰی مثل علیم وقدیر ومريد ومتكلم وغیرہ میں سے ایک اسم ہے اور وہ اسم الہی اس شخص کا رب اور اس کے وجودی فیوض کا مبدأ ہے اور اس اسم کی نسبت حضرت ذات کے ساتھ مختلف مراتب میں ہے۔ مرتبہ صفت میں اورتوابع وجودی کہ اس کا وجود ذات کے وجود پر زائد ہے۔ یہی اسم اطلاق پاتا ہے اور مرتبہ شان میں بھی کہ اس کی زیادتی ذات پر مجرداعتبار سے ہے۔ یہی اسم صادق آتا ہے اور صفت و شان کے درمیان فرق اس مکتوب (نمبر 287 دفتر اول)میں جو سلوک اور جذبہ کے بیان میں لکھا گیا تھا۔ مفصل ذکر پا چکا ہے۔ اگر معلوم نہ ہو تو اس مکتوب کی طرف رجوع کریں اورشک نہیں ہے کہ شان کا حاصل ہونا بھی اگر چہ مجرد اعتبار ہے اس بات کی اقتضا کرتا ہے کہ اس سے اوپر اس کی شان کے مناسب اور زائد معنی ہوں جو اس کے وجود اعتباری کا مبدأ ہوں۔ پس اس اسم کو اس مرتبہ سے بھی نصیب حاصل ہے اور اس معنی زائدہ کے فوق میں بھی یہ احتمال جاری ہے لیکن قدرت بشری اس کے ضبط کرنے سے عاجز ہے۔ اس فقیر بے بضاعت نے ایک اور مرتبہ کوبھی عبور کیا ہے لیکن اس مرتبہ کے فوق میں سوائے استغراق اور نیستی (فنائیت) کے کچھ حاصل نہیں ہے‌وَفَوْقَ ‌كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ ہر صاحب علم کے او پرعلم والا ہے

ھَنِیئًا لأربَابِ النَعِیمِ ِنَعِيمُهَا وَلِلعَاشِقِ ِالمِسكِين ِمَا يَتَجَرَّعُ

ارباب نعمت کو یہ نعمت مبارک اور عاشقوں کو یہ رنج و حسرت مبارک

اہل اللہ کی ایک دوسرے پر فضیلت اپنی اپنی استعداد اور قابلیت کے موافق مختلف مراتب کے طے کرنے کے اعتبار سے ہے اور اس اسم سے واصل اولیاء بہت تھوڑے ہیں کیونکہ اکثر ان میں سے سلوک اور سیرتفصیلی کے طریق پرتمام مراتب امکانیہ سے عروج   کرنے کے بعد اسم کے ظلال میں سے کسی ظل تک واصل ہیں اور صرف جذبہ کے طریق سے بھی اس اسم تک واصل ہونے کا وہم کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بے اعتبار اور بے اعتماد ہے اور وہ لوگ جنہوں نے اس اسم سے عروج کیا ہے اور مراتب متفاوتہ کوکم و بیش طے کیا ہے، وہ بہت ہی تھوڑے ہیں۔ 

اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شخص کی حقیقت جیساکہ تعین وجوبی کو کہتے ہیں۔ تعین امکانی کو بھی کہتے ہیں جب یہ مقدمات معلوم ہو گئے تو میں کہتا ہوں کہ محمد رسول الله ﷺتمام مخلوقات کی طرح عالم خلق اور عالم امر سے مرکب ہیں اور وہ اسم الہٰی جوان کے عالم خلق کی تربیت کرنے والا ہے۔ شان العلیم ہے اور وہ جو ان کے عالم امر کی تربیت فرماتا ہے وہ معنی ہے جو اس شان کے وجود اعتباری کا مبدأ ہے جیسا کہ گزر چکا ہے ۔

اور حقیقت محمدی شان العلیم سے مراد ہے اور حقیقت احمدی اس معنی سے کنایہ ہے جو اس شان کا مبدأ ہے اور حقیقت کعبہ(مراد حق تعالیٰ ٰ ہے جو سجدے اور عبادت کے لائق ہے)سبحانی بھی اسی معنی سے مراد ہے اور وہ نبوت جو حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش سے پہلے حضرت علیہ الصلوۃ والسلام کو حاصل تھی اور اس مرتبہ کی نسبت خبر دی ہے اور فرمایا ہےكُنْتُ ‌نَبِيًّا ‌وَآدَمُ ‌بَيْنَ ‌الْمَاءِ ‌وَالطِّينِ میں نبی تھا جبکہ آدم ابھی پانی اور کیچڑ میں تھے۔ وہ اعتبار حقیقت احمدی کی تھی جس کا تعلق عالم امر سے ہے اور اس اعتبار سے حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام نے جو کلمتہ اللہ تھے اور عالم امر سے زیادہ مناسبت رکھتے تھے۔ حضرت علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریف آوری کی خوشخبری اسم احمد سے دی ہے اور فرمایا ہے وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ خوشخبری دینے والا ایک رسول کی جو اس کے بعد آ ئے گا اور اس کا نام احمد ہے اور وہ نبوت جوعنصری پیدائش سے تعلق رکھتی ہے وہ صرف حقیقت محمدی کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ دونوں حقیقتوں کے اعتبار سے ہے اور اس مرتبہ میں آپ کی تربیت کرنے والی وہ شان اور اس شان کا مبدأ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ کی دعوت پہلی مرتبہ کی دعوت کی نسبت زیادہ اتم ہے کیونکہ اس مرتبہ میں آپ کی دعوت عالم امر سے مخصوص تھی اور آپ کی تربیت روحانیوں پرمنحصر تھی اور اس مرتبہ میں آپ کی دعوت خلق وامر کو شامل ہے اور آپ کی تربیت اجسادو ارواح پرمشتمل ہے۔ 

حاصل کلام یہ کہ اس جہان میں آپ کی عنصری پیدائش(مادی پیدائش) کو آپ کی ملکی(ملکوتی) پیدائش پر غالب کیا ہوا تھا تا کہ مخلوقات کے ساتھ جن میں بشریت زیادہ غالب ہے۔ وہ مناسبت جو افادہ (فائدہ  پہنچانا  ) اور استفادہ(فائدہ    حاصل کرنا)  کا سبب ہے زیادہ پیدا ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ اپنے حبیب ﷺکو اپنی بشریت کے ظاہر کرنے کے لئے بڑی تا کید سے امر فرماتا ہے کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا ‌بَشَرٌ ‌مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّکہ میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ لفظ ‌مِثْلُكُمْ کالانا تاکید بشریت کے لئے ہے اور وجورعنصری سے رحلت کر جانے کے بعد حضور ﷺکی روحانیت کی جانب غالب ہوگئی اور بشریت کی مناسبت کم ہوگئی اور دعوت کی نورانیت میں تفاوت پیدا ہوگیا۔ 

بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے فرمایا ہے کہ ابھی ہم آ   نحضرت علیہ الصلوة والسلام کےتد فین سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں تفاوت معلوم کیا۔ ہاں ایمان شہود(مشاہدہ) ی ایمان غیبی سے جل گیا اور معاملہ آغوش سے گوش تک آ پہنچا اور دیکھنے سے سننے تک نوبت آگئی اور حضور ﷺکے زمانہ سے جب ہزار سال گزرے جو بڑی لمبی مدت اور بڑا در از زمانہ ہے تو روحانیت کی طرف اس طرح غالب ہوئی کہ بشریت کی تمام جانب کو اپنے رنگ میں رنگ دیا حتی کہ عالم خلق نے عالم امر کا رنگ اختیار کیا۔ پس ناچار حضور علیہ الصلوة والسلام کے عالم خلق سے جس چیز نے اپنی حقیقت کی طرف رجوع کی تھی۔ لیکن حقیقت محمدی عروج   کر کے حقیقت احمدی سے لاحق ہوگئی اور حقیقت محمدی حقیقت احمدی سے متحد ہوگئی۔ 

اس جگہ حقیقت محمدی اور حقیقت احمدی سے مرادحضور علیہ الصلوۃ والسلام کے خلق و امر کا تعین امکانی ہے۔ نہ تعین وجوبی کو تعین امکانی اس کاظل ہے کیونکہ تعین وجوبی کے عروج  کے کچھ معنی نہیں اور اس تعین کے ساتھ متحد ہونا معقول نہیں ہے۔ 

جب حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نزول فرمائیں گے تو حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کی شریعت کی متابعت کریں گے اور اپنے مقام سے عروج  فرما کر تبعیت (اتباع کے طور پر)کے طور پر حقیقت محمدی کے مقام میں پہنچیں گے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دین کی تقویت کریں گے ۔ گزشتہ شریعتوں کا بھی یہی حال تھا کہ اولوالعزم پیغمبروں کے رحلت فرما جانے سے ہزار سال کے بعد انبیائے کرام اور رسل عظام مبعوث ہوتے تھے جو ان پیغمبروں کی شریعت کو تقویت دیتے تھے اور ان کے کلمہ کو بلند کرتے تھے اور جب پیغمبر اولوالعزم کی دعوت و شریعت کا دورہ تمام ہوجاتا تھا تو دوسرا اولوالعزم پیغمبر مبعوث ہو جاتا تھا اور نئے سرے سے اپنی شریعت ظاہر کرتا تھا اور چونکہ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کی شرعیت نسخ و تبدیلی سے محفوظ ہے اس لئے حضور کی امت کے علماء کو انبیاء کا مرتبہ عطا فرما کر شریعت کی تقویت اور ملت کی تائید کا کام ان کےسپردفرمایا ہے بلکہ ایک اولوالعزم پیغمبر کو حضور کا تابعدار بنا کر حضور کی شریعت کوترقی بخشی ہے۔ 

الله تعالیٰ فرماتا ہے ۔ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ ‌لَحَافِظُونَ ہم ہی نے قرآن مجید کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ 

اور جاننا چاہیئے کہ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کے رحلت کر جانے سے ہزار سال بعد حضور کی امت کے اولیاء جو ظاہر ہوں گے اگر چہ  وہ قلیل ہوں گے مگر اکمل ہوں گے تا کہ اس شریعت کی تقویت پورے طور پر کر سکیں۔ 

حضرت مہدی جن کی تشریف آوری کی نسبت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام نے بشارت فرمائی ہے۔ ہزار سال کے بعد پیدا ہوں گے اور حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام خود بھی ہزار سال کے بعد نزول فرمائیں گے۔ 

خلاصہ یہ کہ اس طبقہ کے اولیاء کے کمالات اصحاب کرام کے کمالات کی مانند ہیں اگر چہ انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کے بعد فضیلت و بزرگی اصحاب کرام کے لئے ہے لیکن یہ مناسب نہیں کہ کمال مشابہت سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے سکیں۔ 

اور ہوسکتا ہے کہ اسی وجہ سے حضرت علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہو کہ ‌لَا ‌يُدْرَى أَوَّلُهُ ‌خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ نہیں  معلوم ان میں سے اول کے بہتر ہیں یا آخر کے اور یہیں فرمایا کہ اَدٓرِىْ أَوَّلُهُ ‌خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ  میں جانتا ہوں کہ ان میں سے اول کے بہتر ہیں یا آخر کے کیونکہ فریقین میں سے ہر ایک کا حال آپ کو معلوم تھا۔ اسی واسطے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خَيْر ‌الْقُرُون قَرْنِي سب زمانوں سے بہتر میرازمانہ ہے لیکن چونکہ کمال مشابہت کے باعث تردد کا مقام تھا اس لئے ‌لَا ‌يُدْرَى فرمایا ہے۔ 

اگر کوئی سوال کرے کے آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے اصحاب کے زمانہ کے بعد تابعین کے زمانہ کو اور تابعین کے زمانہ کے بعد تبع تابعین کے زمانہ کو بہتر فرمایا ہے تو یہ دونوں قرن بھی یقینا اس گروہ سے بہتر ہوں گے۔ پھر یہ طبقہ کمالات میں اصحاب کرام کے ساتھ کیسے مشابہ ہوگا تو اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ اس قرن کا اس طبقہ سے بہتر ہونا اس اعتبار سے ہو کہ اولیاء اللہ کا ظہور کثرت سے ہوگا اور بدعتوں اور بدکاروں اور گناہ گاروں کا وجودکم ہوگا اور یہ امر ہرگز اس بات کے منافی نہیں کہ اس طبقہ کے اولیاء اللہ میں سے بعض افراد ان دونوں قرنوں کے اولیاء سے بہتر ہوں جیسا کہ حضرت مہدی

 فیض روح القدس ار باز مدد فرماید دیگراں ہم بکنند آنچه مسیحا میکرد

 ترجمہ: فیض روح القدس کا گردے مددتو اور بھی کر دکھائیں کام وہ جو کچھ مسیحا سے ہوا لیکن اصحاب کا زمانہ تمام طرح سے بہتر ہے۔ اس کی نسبت گفتگو کرنا فضول ہے۔ سابق سابق ہی ہیں اور جنت نعیم میں مقرب ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ دوسروں کا پہاڑ جتنا سونا خرچ کرنا ان کے ایک مد جو خرچ کرنے کے برابر نہیں ہے۔ وَاللَّهُ ‌يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ پہلے بیان سے اس عبارت کے معنی واضح ہوگئے جو رسالہ مبدأ و معاد میں اس عبارت کے اوپرلکھی گئی ہے کہ کعبہ ربانی کی حقیقت حقیقت محمدی کی مسجود ہوگی کیونکہ کعبہ ربانی کی حقیقت بعینہ حقیقت احمدی ہے کہ حقیقت محمدی در اصل اس کاظل ہے۔ پس ناچار حقیقت محمدی کی مسجود ہوگی۔ اگر سوال کریں کہ کعبہ حضور علیہ الصلوة والسلام کے اولیائے امت کے طواف کے لئے آتا ہے اور ان سے برکات حاصل کرتا ہے حالانکہ اس کی حقیقت حقیقت محمدی پرمتقدم ہے تو پھر یہ بات کس طرح جائز ہوگی؟ 

میں جواب میں کہتا ہوں کہ حقیقت محمدی تنزیہ اور تقدیس کی بلندی سے محمد علیہ الصلوة والسلام کے نزول کرنے کے مقامات کی نہایت ہے اور کعبہ کی حقیقت عروج کعبہ کے مقامات کی نہایت ہے اور حقیقت محمدی کے واسطے مرتبہ تنزیہ پر عروج  کرنے کے لئے پہلا مرتبہ حقیقت کعبہ(مراد حق تعالیٰ ٰ ہے جو سجدے اور عبادت کے لائق ہے) ہے اور حقیقت محمدی کے عروج  کی نہایت کو سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور جب حضور ﷺکی امت میں سے کامل اولیاء کو آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے عروجات سے پورا پورا حصہ حاصل ہے تو پھر اگر کعبہ ان بزرگواروں سے برکات حاصل کرے تو کیا تعجب ہے

 زمین زاده برآسماں تافتہ زمین و زمان را پس انداختہ

 ترجمہ: زمین زاده اتنا فلک پر چڑھا زمین آسمان اس سے پیچھے رہا

 اور دوسری عبارت بھی جو اس رسالہ سے اس مقام میں لکھی گئی ،حل ہوگئی اور وہ عبارت یہ ہے کہ کعبہ کی صورت جس طرح کہ اشیاء کی صورتوں کی مسجود ہے۔ اسی طرح کعبہ کی حقیقت بھی ان اشیاء کی حقیقتوں کی مسجود ہے کیونکہ مقدمات سابقہ سے معلوم ہوا ہے کہ حقائق اشیاء ان اسمائے الہی سے مراد ہے جو ان کے وجود اور ان کے وجود کے متعلقات کے فیوض کا مبدأ ہیں اور حقیقت کعبه ان اسماء کے فوق ہے۔ پس بیشک حقیقت کعبہ حقائق اشیاء کی مسجود ہوگی ۔ ہاں اگر اولیاء میں سے اکمل کو حقیقت کعبہ سے بالاتر سیر واقع ہوجائے اور بلندی کے انوار کوحاصل کر کے اپنے حقائق کے مراتب میں جو مراتب عروج میں اشیاء کے طبعی مقامات کی مانند ہیں،نیچے اترآئیں تو کعبہ ان کی برکات سے توقع رکھے گا جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ 

اور نیز  رسالہ مبدأ و معاد میں چند فقرے انبیائے اولوالعزم کے ایک دوسرے سے افضل ہونے میں لکھے گئے تھے۔ ان کے ایک دوسرے کے افضل ہونے کے معنی چونکہ کشف و الہام پرمبنی ہیں جوظنی ہیں اس لئے اس کے لکھنے اور فضیلت میں تفرقہ (انتشار و پراگندگی) کرنے سے ندامت اور توبہ کرتا ہے کیونکہ قطعی دلیل کے سوا اس بارے میں گفتگو کرنا جائز نہیں۔ أَسْتَغْفِرُ ‌اللَّهَ ‌وَأَتُوبُ إِلَيْهِ مِنْ جَمِيْعِ مَاكَرِہَ اللهُ قَوْلاً وَّ عَمَلاً میں ان تمام قول وفعل سے جو الله کو ناپسند ہیں توبہ کرتا ہوں اوربخشش مانگتا ہوں۔ 

آپ نے اپنے مکتوب میں یہ بھی لکھا تھا کہ میں نے سرائے فرخ میں پوچھا تھا کہ طالبوں کو طریقت سکھانا میرے حال کے مناسب ہے یا نہیں اور تم نے جواب میں لکھا تھا کہ نہیں۔ 

فقیرکو یاد نہیں رہا کہ عام طور پرنفی کی ہو بلکہ یہ کہا ہوگا کہ شرائط پرمشروط ہے۔ بے شرائط ہرگز مناسب نہیں اور اب بھی اسی طرح جاننا چاہیئے کہ شرائط کو مدنظر رکھنے میں بڑی احتیاط کریں اور ہرگز سستی نہ کریں اور جب تک استخاروں کے ساتھ اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ طریقہ سکھانا چاہیئے تب تک کسی کو نہ سکھائیں اور برادرم مولا نا یارمحمد قدیم کی بھی اس بات کی طرف رہنمائی کریں اور بڑی تاکید سے کہیں کہ طریقت چلانے میں جلدی نہ کرے کیونکہ مقصود دکان کھولنا نہیں ہے بلکہ حق تعالیٰ کی مرضی کو مد نظر رکھنا چاہیئے، اطلاع دینا شرط ہے۔ 

دوسرا یہ کہ آپ نے اپنے مریدوں کی نسبت گلہ کیا تھا۔ گلہ تو آپ کو اپنی وضع کی نسبت کرنا چاہیئے تھا کیونکہ آپ اس جماعت سے اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ آرزو و تکلیف ہے۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ پیر کو چاہیئے کہ مریدوں کی نظر میں اپنے آپ کو آراستہ اور شان و شوکت سے رکھے نہ یہ کہ ان کے ساتھ اخلاط کا دروازہ کھول دے اور ان سے ہم نشینوں کی طرح سلوک کرے اورحکایت و گفتگو سے مجلس گرم رکھے۔ والسلام 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ77ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں