نبی اور ولی اصطلاح تصوف میں

نبی اور ولی اصطلاح تصوف میں

نبی اور ولی میں فرق یہ ہے کہ نبی صاحب وحی ہوتا ہے وحی قطعی اور یقینی امر ہے اور ولی، صاحب الہام ہوتا ہے الہام کا قطعی اور یقینی ہونا ضروری نہیں وحی دوسروں پرحجت ہے جبکہ الہام صرف اس کے لیئے حجت ہے جس پر الہام ہوا ہو ، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ خلاف وحی اور خلاف شریعیت نہ ہو۔ انکار وحی کفر ہے ۔ انکار الہام کفر تو نہیں لیکن فیض سے محرومی ضرور ہے۔ نبی دعوی کرتا ہے کہ میں نبی ہوں اور ولی کو دعوائے ولایت ہو نا ضروری نہیں ۔ اس تمام فرق کے باوجود مرتبہ احدیت میں ذات کو کوئی بھی نہیں۔ جانتا ، نہ ولی نہ نبی ۔ یہی وہ مرتبہ ہے جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ما عرفناك حق معرفتك . یہی وہ مرتبہ ہے جو غیب الغیوب ہے ، یہاں ذات پر صرف ذات ہی مطلع ہے ۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس غیب کی نفی کی جاتی ہے وہ اسی مرتبہ احدیت کے غیب کی ہے۔ ورنہ باقی تمام مراتب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے مراتب شہود ہیں۔ ان مراتب کا علم تفصیلی حضور کو حاصل ہے ۔ ان مراتب میں کوئی چیز بھی آپ کے پاس غیب نہیں۔ ہمیں اپنے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا فرق ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ علم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ادراک کے لیے یہ ایک ضروری چیز ہے۔ فرق یہ ہے کہ علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اصل ہے چنا نچہ آپ سب کچھ جانتے ہیں لیکن کوئی چیز بر بنائے مصلحت آپ سے چھپا دی جاتی ہے اس لیے آپ اس سے لا علم ہو جاتے ہیں۔ اور ہماری اصل، جہل ہے۔ ہمیں کوئی بات بر بنائے مصلحت بتادی جاتی ہے، اس لیے ہم اس سے واقف ہو جاتے ہیں۔

نبوت و ولایت میں فرق

حضرت امام ابو الحسن نوری الشطنوفی الشافعی   فرماتے ہیں کہ ولایت نبوت کا سایہ ہے اور نبوت خدا کا سایہ ہے۔ نبوت شاہی وحی اور غیب ازل سے مستفادہ ہے اور ولایت روح کشف کا مطالعہ اور بیان کے مطالعہ کا ایسی صفائی کے ساتھ ملاحظہ ہے کہ بشریت کی کدورت کو دور کر دیتا ہے۔ ایسی طہارت ہے کہ اسرار کے میل کو پاک کر دیتی ہے۔ پس انبیاء  حق کے مصدر ہیں۔ اور اولیاء صدق کے مظہر نبی کا معجزہ وحی کے وقوع کا محل ۔ حکمت کے معنی کے اسرار کا دعوی کمال قدرت کا اعجاز ہے۔ اس کے صدق قول پر دلیل ہے۔ اس کے امر کا طریق ہے۔ منکرین کی اس سے حجتیں منقطع ہوتی ہیں۔

(بہجۃ الاسرار )

حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی  یہ فرماتے ہیں کہ نبوت اور ولایت میں فرق یہ ہے کہ نبوت اللہ کی طرف سے ایک کلام ہے اور حضرت جبرئیل  کی معرفت اللہ کی طرف سے ایک وحی ہے۔ حضرت جبرئیل   وحی کو ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے اس پر قبولیت کی مہر لگ جاتی ہے۔ اس کی تصدیق لازم ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ اس لئے کہ نبوت کا منکر حقیقت میں کلام الہی کا منکر ہے۔

ولایت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے دوست کو اپنی بات بطور الہام پہنچا دیتا ہے۔ یہ الہام اللہ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے سچ اس کی زبان پر جاری ہوتا ہے۔ اس الہام میں ایک ٹھہر اور سکون ہوتا ہے۔ مجذوب کا دل اس کو قبول کر لیتا ہے اور اس سے سکون حاصل کر لیتا ہے۔ مختصراً یہ کلام خداوندی (وحی) انبیاء  کے لئے مخصوص ہے۔ اور الہام اولیاء اللہ کے لئے نبوت کا رد کرنے والا کافر ہے۔ اس لئے وہ حقیقت میں کلام الہی کو رد کرنے والا ہے۔ اور دوسرے کا منکر کا فرنہیں بلکہ نا کام ہے۔ اس کا انکار و بال کا باعث بن جاتا ہے۔ الہام حقیقت میں اس چیز کو کہتے ہیں جو مشیت خداوندی علم الہی سے کسی کے دل میں ایک راز کی طرح پیدا ہواللہ جس ہندے سے محبت کرتا ہے۔ اس کی محبت اس چیز کو واقعیت کے ساتھ بندہ کے دل تک پہنچا دیتی ہے۔ اور محب کا دل سکون کےساتھ اس کو قبول کر لیتا ہے ۔ (غایۃ الطالبین صفحہ ۷۲۲ )

امام اہل سنت حضرت علامہ ابوشکور محمد بن عبدالسعید سالمی کشمی  فرماتے ہیں کہ

نبی اور ولی میں چند وجوہ سے فرق ہے۔

(1) نبی اپنی نبوت کو جانتا ہے کہ میں نبی ہوں اور وہ اپنے نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ اور ولی کو اپنی ولایت کا علم نہیں ہوتا کہ میں ولی ہوں اور نہ وہ دعوی کرتا ہے۔

(2) نبی اپنے معجزہ پر قطعاً اور یقیناً حکم کرتا ہے۔ اور ولی اپنی کرامت پر ثبات کا حکم نہیں کرتا اور اس لئے کہ جائز ہے کہ استدراج ہو اور نبی کا معجزہ خاص طور پر اپنے لئے ہوتا ہے۔ جب کہ ولی کی کرامت اس کے نبی کا معجزہ ہوتی ہے۔ پھر نی پر ایمان لانا فرض ہے۔ پھر نبی کو اپنے رویا اور الہام پر ایمان لانا ضروری ہے۔ جیسے اپنی نبوت پر اور ولی پر واجب نہیں کہ الہام و رویا پر ایمان لائے۔

( تمهید ابوشکور سالمی

معجزہ ، کرامت اور استدراج

نظامِ عالم کی جاری عادت کے خلاف کسی امر کا ظہورہونا۔ یہ امر کسی ولی سےظاہر ہو تو کرامت اور نبی سے ظاہر ہو تو معجزہ کہلاتا ہے ۔ غیر مسلم سے ہو تو اسے ہوتو استدراج کہتے ہیں ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں