کلام لفظی و کلام نفسی

کلام لفظی و کلام نفسی

کلام نفسی کہتے ہیں کلام کے معنی و مفہوم کو جبکہ کلام لفظی ان حروف ، الفاظ یا عبارت کو کہتے ہیں جو متکلم کی زبان سے ادا ہوتے ہیں۔

جس طرح کلام لفظی ہوتا ہے اسی طرح کلام نفسی بھی ہوتا ہے۔ کلام لفظی وہ ہے جو عادتاً سنائی دیتا ہے جیسا کہ معروف کلام ہے اور کلام نفسی وہ ہے جو کلمات اور حروف پر مشتمل ہوتا ہے مگر عادتاً سنائی نہیں دیتا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہماری تعریف میں یہ کہے کہ ” میں نے آپ جیسا خوش اخلاق یا آپ جیسا حسین کوئی نہیں دیکھا ” تو ہمیں یہ الفاظ اور جملے یاد آتے رہتے ہیں اور ہمارے ذہن میں ان الفاظ کی تصویر گھومتی رہتی ہے حالانکہ یہ الفاظ بعد میں سنائی نہیں دیتے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ہمیں کوئی دلخراش بات کہے تو وہ بات مدتوں ہمارے دل سے نہیں نکلتی اور ہمیں وہ بات یاد آتی رہتی ہے۔ خصوصاً جب ہم اس شخص کو دیکھیں تو اس کے کہے ہوئے الفاظ کی تصویر ہمارے ذہن میں آجاتی ہے سو یہ کلام نفسی ہے اور الفاظ نفسیہ ہیں۔ قرآن مجید میں جو اللہ کا کلام ہے وہ بھی کلام نفسی ہے اور قدیم ہے وہ ان ہی الفاظ نفسیہ پر مشتمل ہے اور الفاظ میں بغیر تقدم اور تاخر کے یہ کلام نفسی ہے اس کلام کی قرات جو ہم کرتے ہیں وہ کلام لفظی ہے اور حادث ہے اور مقرو یعنی جن الفاظ نفسیہ کی ہم قرات کرتے ہیں وہ قدیم ہے۔ مثلا جب ہم الحمد للہ رب العالمین کی قرات کریں گے تو پہلے الحمد پڑھیں گے پھر اللہ پھر رب العالمین لیکن یہ پورا قرآن کلام نفسی کے مرتبہ میں بغیر تقدم اور تاخر کے اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور قدیم ہے۔ اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ جب ہم کو کوئی بات یاد آتی ہے تو یوں نہیں ہوتا کہ پہلے اس ات کا ایک لفظ یاد آتا ہو پھر دوسرا پھر تیسرا پھر چوتھا، بلکہ بیک وقت مکمل کلام کی تصویر ہمارے ذہن میں آجاتی ہے۔ اسی طرح مکمل قرآن نفسی بغیر تقدم اور تاخر کے اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ علی ھذا القیاس۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ جو کلام کیا وہ بھی کلام نفسی تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اس کلام کو سننا خلاف عادت اور ان کا معجزہ تھا، کیونکہ بغیر آواز کے کسی کلام کو سننا انسان کی عادت اور اس کے معمول کے خلاف ہے

تبیان القرآن غلام رسول سعیدی سورۃ الاعراف آیت 143

قرآن پاک کلام لفظی بھی ہے اور کلام نفسی بھی۔
۔ دیگر آسمانی کتابیں کلام نفسی ہیں یعنی معنی و مفہوم تو اللہ تعالی کی طرف سے ہوتے تھے مگر الفاظ انبیاء کے وضع کردہ ہوتے تھے

یہ مسئلہ بھی ہمارے اور معتزلہ کے مابین مختلف فیہ ہے وہ کلام نفسی کے منکر ہیں اس لیے خلق قرآن کے قائل ہیں۔
آیت سے جب فی الجملہ یہ ثابت ہے کہ آدمی کا کلام کلام نفسی ہے تو اسے ہم اللہ تعالیٰ کی طرف لے جا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی نفسی ہے۔ لہٰذا قدیم ہے تغیر و نقصان سے مبرا ہے۔ حروف و اصوات سے پاک ہے ، اللہ کی ذات سے قائم ہے ، اور اسی کے ساتھ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ سکوت و آفت کے منافی ہے۔ یہ بات وکلم اللہ موسیٰ تکلیما سے بھی ثابت ہے۔

تفسیرات احمدیہ ۔ مرتب ملااحمد جیون سورۃ النساءآیت 105

یہ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفت کلام ہے وہ کلام نفسی ہے اور جن الفاظ کو ہم پڑھتے ہیں وہ کلام لفظی ہیں اور قدیم کلام نفسی ہے

اسی بات کی وضاحت یوں بھی جاسکتی ہے ‘ کہ ایک ہے ‘ کلام لفظی ‘ اور ایک ہے ‘ کلام نفسی ‘ ۔ ’ کلام لفظی ‘ حروف واصوات سے مرکب وہی نظم وعبارت ہے جس کی ’ کلام نفسی ‘ پر دلالت ہے۔ اور ’ کلام نفسی ‘ وہ معنی قدیم ہے ‘ جو ذات باری تعالیٰ سے قائم ہے ‘ جسے ہم الفاظ سے بولتے اور سنتے ہیں۔ تو وقتاً فوقتاً حسب مصلحت و حکمت نزول ‘ کلام لفظی ‘ کا ہوتا ہے ‘ جو حادث ہے۔ رہ گیا ‘ کلام نفسی ‘ تو اس کا نزول نہیں ہوتا۔۔ بلکہ۔۔ جو نازل ہوتا ہے وہ حروف واصوات سے مرکب کلام اس ’ کلام نفسی ‘ پر دلالت کرتا ہے جو صفت باری تعالیٰ ہے اور قدیم ہے ۔

تفسیر اشرفی

اللہ تعالیٰ کے کلام کی دو قسمیں ہیں کلام لفظی اور کلام نفسی، معترض کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفت قدیم ہے وہ کلام نفسی ہے اور ہم کلام نفسی میں امکان کذب نہیں مانتے ہم امکان کذب کلام لفظی میں مانتے ہیں اور کلام لفظی حادث اور ممکن ہے اور ممکن کا عدم بھی ممکن ہے

تبیان القرآن سورہ سبا 8


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں