اعمال خالص کا نسخہ (اکیسواں باب)

اعمال خالص کا نسخہ کے عنوان سےاکیسویں باب میں  حکمت نمبر 203 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جب خوف یا شوق قلب میں داخل ہوتا ہے، تو اس میں سے کل ماسویٰ کو نکال دیتا ہے۔ اور قلب کو معارف اور انوار سے بھر دیتا ہے۔ تواب اعمال خالص اور احوال پاکیزہ ہو جاتے ہیں اور اللہ بزرگ و برتر اس کے اوپرتوجہ فرماتا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرماتا ہے۔
203) كَمَا لا يُحِبُّ العَمَلَ المُشْتَرَكَ ، لا يُحِبُّ القَلْبَ المُشْتَرَكَ ، العَمَلُ المُشْتَرَكُ لا يَقْبَلُهُ ، وَالْقَلْبُ المُشْتَرَكُ لا يُقْبِلُ عَلَيْهِ .
اللہ تعالیٰ جس طرح مشترک عمل کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح مشترک قالب کو بھی پسند نہیں کرتاہے۔ مشترک عمل کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا ہے ۔ اور مشترک قلب پر اللہ تعالیٰ توجہ نہیں کرتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ مشترک عمل – وہ ہے جس میں نفسانی فوائد دنیوی ہوں ، یا اخروی شامل ہوں ۔
اور مشترک قلب :- وہ ہے جس میں ماسوی اللہ کی محبت ہو ۔ لہذا جس عمل میں دنیا یا آخرت کے فوائد شامل ہوں ، وہ عمل مشترک اور مدخول ہے ۔ اورمدخول عمل غیر مقبول ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
أنا أَعْسَى الشَّرَكَاءِ عَنِ الشَّرُكِ ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِيَ غَيْرِى تَرَكْتُهُ و شریکہ
میں سب شریکوں سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں۔ جو شخص ایسا عمل کرتا ہے ، جس میں وہ میرے ساتھ میرے غیر کو بھی شریک کرتا ہے تو میں اس عمل کو اور اس میں شریک کو چھوڑ دیتا ہوں۔
اور جس قلب میں ماسوی میں سے کسی شے کی محبت ہو ، وہ خواہش سے آلودہ ہے۔ وہ مولائے حقیقی کی بارگاہ کے لائق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :-
وَ طَهَرُ بَيْنِي لِلطَّائِفِين اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے پاک کرو۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا :- اے داؤد میرے لئے گھر کو صاف کرو ۔ تا کہ میں اس میں سکونت اختیار کروں ۔
حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے کیا خوب فرمایا ہے ۔
لَى حَبِيبٌ إِنَّمَا هُوَ غَبُورٌ يَظُلُّ فِي الْقَلْبِ كَطَرِ حَذُورٍ إِذَا رَأَى شَيْئًا إِمْتَنَعَ أَنْ يَزُورُ
میرا ایک دوست ہے ۔ وہ در حقیقت بہت غیرت مند ہے ۔ وہ میرے قلب میں چھوٹی چڑیا کی طرح رہتا ہے۔ جب وہ میرے قلب میں اپنے ماسوی کوئی شے دیکھتا ہے۔تو وہ مجھ سے ملاقات سے رک جاتا ہے۔
لہذا جس شخص نے اپنے اعمال کو اخلاص کے ساتھ مضبوط کیا ، وہ قبولیت کا مستحق ہو گیا۔ اور وہ خواص میں سے ہو گیا۔ اور جس نے اپنے قلب کو غیروں سے پاک کیا۔ اس کا قلب علوم و انوار سے بھر گیا ۔ اور اس سے معارف واسرار کے چشمے جاری ہو گئے ۔
اور تم یہ معلوم کرو :- مشترک عمل :۔ وہ ہے جس میں تین علتوں میں سے کوئی ایک علت داخل ہو ۔
پہلی – ریاء۔ دوسری :- عجب یعنی خود پسندی ۔ تیسری – اجر کی خواہش پہلی علت ، ریا ءوہ شرک اصغر ہے اور پہلے اس کے متعلق حدیث شریف گزر چکی ہے۔ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِيَ غَيْرِى تَرَكْتُهُ وَ شَرِيكَهُ
جو شخص کوئی ایسا عمل کرتا ہے، جس میں وہ میرے ساتھ میرے غیر کو شریک کرتا ہے۔ تو میں اس عمل کو اور اس کے شریک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔
اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے۔
ثلاثَةٌ ، أَوَّلُ مَنْ تُسْعَرُ بِهِمْ جَهَنَّمُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، فَذَكَرَ الْقَارِى لِغَيْرِ الله وَ الشَّجَاعَ الَّذِي يُقَاتِلُ لِغَيْرِ اللَّهِ ، وَالْعَنِيُّ الَّذِي يَتَصَدَّقُ لِغَيْرِ اللَّهِ
قیامت کے دن ، تین قسم کے لوگوں سے دوزخ پہلے جلائی جائے گی ۔ پھر آپ نے بیان فرمایا ۔ پہلی قسم کے لوگ:۔ وہ قاری ہیں ، جو غیر اللہ کے لئے پڑھتے ہیں ۔ دوسری قسم کے لوگ ۔ وہ بہادرہیں، جو غیر اللہ کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ تیسری قسم کے لوگ ۔ وہ دولتمند ہیں۔ جو غیر اللہ کے لئے صدقہ کرتے ہیں۔
دوسری علت عجب :۔ وہ اپنے نفس کو دیکھنا اور عمل کو اس کی طرف منسوب کرنا اور اپنے کو دوسرے لوگوں پر فوقیت دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔
فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى تم لوگ اپنے آپ کو پاک نہ کہو۔ اللہ تعالی اس شخص کو بخوبی جانتا ہے۔جواللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔
بیان کیا گیا ہے ۔ اس آیہ کریمہ کے معنی یہ ہیں ۔ جب تم کوئی عمل کرو تو یہ نہ کہو کہ میں نے کیا ۔ اور تم اس عمل کو ان لوگوں کے سامنے نہ ظاہر کرو جو اس عمل کے معلوم کرنے کی وجہ سے تمہاری عزت کریں۔ اس لئے کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے :۔ ثلاث مُهْلِكات : – شُح مُطَاعٌ ، وَ هَوَى مُتَّبِعْ ، وَأَعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ
تین چیزیں مہلک اور تباہ کن ہیں۔ پہلی ، وہ بخیلی جس کی اطاعت کی جائے ۔ دوسری ، وہ خواہش جس کی پیروی کی جائے۔ تیسری ، انسان کا اپنے آپ کو بہتر سمجھنا ۔
حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے تم لوگ اپنے آپ کو پاک نہ کہو کے معنی ہیں :۔ تم لوگ یہ عقیدہ نہ رکھو کہ تم
نیک ہو۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :-
لَوْ ‌لَمْ ‌تُذْنِبوا ‌لخَشيتُ علَيْكُم ما هو أكَبَرُ منْهُ؛ العُجْبُ اگر تم نے گناہ نہیں کیا۔ تو مجھے تمہارے لئے یہ خوف ہے، کہ تم گنا ہوں سے زیادہ بڑی برائی خود پسندی میں نہ مبتلا ہو جاؤ۔
بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے :۔ اگر میں رات سوتے ہوئے گزاروں اور صبح شرمندہ ہو کر اٹھوں ، تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں ساری رات قیام اور رکوع وسجود میں گزار دوں ۔اور صبح میں اپنے کو نیک سمجھتے ہوئے اٹھوں ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا گیا ۔ آدمی برا کب ہوتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا :۔ جب وہ یہ خیال کرے کہ وہ نیک ہے۔ بیان کیا گیا :۔ خود پسندی میں مبتلا شخص اپنے نفس اور عمل کے آفتوں سے اندھا ہوتا ہے۔ اور جو عمل مطلوب نہ ہو، و وضائع ہو جاتا ہے ۔ اور اس شخص کا عمل مطلوب ہے، جس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے گناہوں کا خوف غالب ہوتا ہے اور ایسا شخص اپنی مدح وثنا کا خواہاں نہیں ہوتا ہے۔ اور نہ وہ اپنے کو پاک رکھتا ہے۔ اور اکثر اوقات انسان اپنی رائے اور عقل کو بہتر سمجھتا ہے۔ اس وجہ سے وہ دوسروں سے کچھ نہیں پوچھتا ہے اور نہ کسی بہی خواہ کی نصیحت کو سنتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے سوا دوسروں کو تحقیر سمجھتاہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس فتنے سے سلامتی اور عافیت مانگتے ہیں۔
تیسری علت عمل پر ثو اب یعنی بدلہ چاہنا ۔ تو اس سے پہلے اس لئے بار بارمنع کیا گیا۔ اور یہ بھی یقینی ہے۔ کہ اگر تم ثواب چاہو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے اخلاص کے سر کا مطالبہ کرے گا ۔ اور شک وشبہ میں مبتلاشخص کے لئے سلامتی کے ساتھ بچ جانا ہی کافی ہے۔ کیونکہ ہر عمل میں ان علتوں میں سے کوئی نہ کوئی علت ضرور ہوتی ہے۔ اس لئے اس کو اللہ تعالیٰ خواص کے اعمال کی طرح قبول نہیں کرتا ہے۔ اور مشترک قلب ۔ وہ ہے کہ اس میں بھی تین علتوں میں سے کوئی ایک علت ہوتی ہے۔
پہلی علت – دنیا کی خواہش ۔ دوسری علت ۔ خصوصیت کی خواہش۔ تیسری علت : آخرت کی نعمتوں کی خواہش اور یہ تینوں عمل میں اخلاص کو خراب کر دیتی ہیں ۔ اور خالص تو حید کے درجے سے نکال دیتی ہے۔ وبالله التوفيق یہاں اکیسواں باب ختم ہوا۔
اس باب کا حاصل صحیح اور غلط اعمال اور احوال کے میزان کا بیان ہے۔ اور اس میزان کا حاصل :- یہ ہے کہ جوشے نفس پر گراں یعنی اس کو نا گوار ہو۔ وہ صحیح ہے اور جوشے نفس کو آسان اور اچھی معلوم ہو ۔ وہ غلط ہے اور ان تمام چیزوں میں سے جن سے نفس کو ناگواری ہوتی ہے۔ فرض اور واجب کے ادا کرنے پر قائم رہنا ہے ۔ نہ کہ نوافل کے ادا کرنے پر :- کیونکہ نوافل کا ادا کرنا نفس کے لئے آسان اور مرغوب ہے تو جب اللہ تعالیٰ کو نفس کی اس عادت کا علم ہوا، تو اس نے فرائض کو مقرر ہ اوقات کے ساتھ مقید کر دیا۔
تا کہ سستی اور ٹال مٹول فرائض کی ادائیگی کو نہ روک سکے ۔ اس لئے کہ اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف نہیں بڑھتے ہیں۔ اور عبادت کے فرض کرنے میں اللہ تعالیٰ کی کوئی غرض نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو امتحان کی زنجیروں کے ذریعے جنت میں لے جانا چاہتا ہے۔ لہذا جس شخص پر اس کا نفس غالب آ کر عبادت کی طرف مائل ہونے سے اور اس کی خواہش سبقت کرنے والوں میں شامل ہونے سے روک دے۔ تو اس پر اس کو کچھ تعجب نہ کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو غفلت اور خواہش سے نجات عطا کر ے ۔ کیونکہ بے شک قادر مطلق اللہ تعالیٰ کی قدرت پلک جھپکنے میں یا اس سے بھی کم وقت میں کیا سے کیا کر دیتی ہے ۔ اور اکثر اوقات یہ خواہش یا غفلت تمہارے حق میں نعمت ثابت ہوتی ہے۔ اور یہ اس طرح کہ تم اپنے اوپر اللہ تعالی کے اس احسان کو پہچانو ، کہ اس نے تم غفلت اور خواہش سے نجات عطا فرمائی۔ کیونکہ جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، ان میں سے بہت لوگوں نے ایسی نعمت کی قدر نہیں کی ۔ اس لئے وہ نعمت ان سے چھن لی گئی ۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ تم کو تمہارے نفس سے رہا کر کے اور تم کو تمہارے ہی جنس کے خواص کے زمرے میں شامل کر کے تمہارے اوپر انعام کرے اور تم نعمتوں میں ڈوب جاؤ۔ تو اس کی شکر گزاری سے غافل اور مدہوش نہ ہو جاؤ۔ اور منعم حقیقی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمتوں کے ملنے کا اقرار ہی اس کا شکر بجالاتا ہے۔
لہذا جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو ، جس کو اس کے نفس نے مقید کر لیا ہے ۔ اور خواہش کا مرض اس کے قلب میں پیوست ہو گیا ہے۔ تو تم یہ سمجھ لو کہ یہی وہ دشوار اور لاعلاج مرض ہے ۔ تو اب اس کو صرف ہلا دینے والا خوف ، یا بیقرار کرنے والا شوق ہی اس کے قلب سے دور کر سکتا ہے ۔ اور جب اس کو خوف ہلا دیتا ہے۔ یا شوق بیقرار کر دیتا ہے۔ تو اس کا قلب خواہش سے پاک اور اس کا عمل خالص ہو جاتا ہے اور اب اللہ تعالیٰ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ تو اس کو انوار سے معمور کر دیتا ہے تو انہیں بعض ایسے ہوتے ہیں، جن کے قلب کی گہرائی میں انوار پہنچ جاتے ہیں ۔ اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ظاہر قلب پر انوار ٹھہر جاتے ہیں۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے بائیسویں باب کی ابتدا میں اس کو بیان فرمایا ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں